Tag: اے آر وائی خصوصی

  • کھجور سے روزہ کھولنے کی حکمتیں

    کھجور سے روزہ کھولنے کی حکمتیں

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ساری دنیا کے مسلمان افطار کےوقت کھجور سے روزہ کھولنا ثواب سمجھتے ہیں،جدید تحقیق نے بھی ثابت کیا ہے کہ کھجور سے ہمارے جسم اور صحت کو بہت زیادہ فائدہ پہنچتا ہے.

    ماہرین صحت کے مطابق افطار کے موقع پر کھجور استعمال کرنے کے بے شمار فوائد ہیں۔ رمضان میں روزہ دار کے معدے کو کھجور ہضم کرنے میں بہت زیادہ مشقت نہیں کرنا پڑتی ہےجودن بھر کے روزے کی وجہ سے نڈھال ہوچکاہوتا ہے.

    کھجور کھاتے ہی وہ معدہ جودن بھر کے روزے کی وجہ سے سست پڑجاتا ہے وہ ایک بار پھر فعال ہوتا ہے اور وہاں غذا ہضم کرنے والے خامروں اور انزائم کی پیداوار شروع ہوجاتی ہے جو افطار کے بعد کھانے کو ہضم کرنے میں مددکرتے ہیں.

    رمضان میں کھانے کے اوقات میں تبدیلی کے باعث اور کھانےمیں اگر ریشےدار غذائیں شامل نہ ہوں تو روزہ دار قبض میں مبتلا ہوسکتا ہے لیکن چونکہ کھجور میں حل پذیر ریشے یا فائبرکی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لیے وہ قبض سے محفوظ رہتا ہے.

    یوں تو کھجور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں پیدا ہوتی ہے تاہم مقامات مقدسہ کی قربت کی وجہ سے سعودی عرب میں پیدا ہونے والی کھجوروں کو دنیا بھر کے مسلمان عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جولوگ حج یا عمرہ کی نیت سے حجازمقدس جاتے ہیں وہ اپنے ساتھ کھجور کا تحفہ ساتھ لانا نہیں بھولتے.

    سعودی عرب میں کھجور کی لگ بھگ سو سے زائد قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک دور میں پوری مملکت میں سب سے زیادہ کھجور کی پیداوار کاشرف مدینہ منور کو حاصل تھا، لیکن اب دیگر علاقوں میں بھی کھجور وافرمقدار میں پیدا ہوتی ہے.

    کھجوروں میں چند مقبول نام عجوہ، برہی، خلص، خضری، مجدولہ، نبوت، سیف، سقی اور سکری ہیں.

     


    کھجور بہترین غذا کیوں ہے


    آئیے جانتے ہیں کہ کھجور میں کون سے اجزاء شامل ہیں جو انسانی جسم کو تندرست رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں.

    کھجور میں شامل میگنیشیئم بلڈ پریشر کم کرتا ہے، پٹھوں،اعصاب اور شریانوں کو پرسکون رکھتا ہے،ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے، پھیپھڑے کے سرطان سے تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس میں موجود تانبے کے ساتھ مل کر ہائپرٹینشن اور دل کی دھڑکن کو قابو میں رکھتا ہے.

    کیلشیئم جو کھجور کا ایک اہم جزو ہے،یہ عضلات ، شریان اور اعصاب کو پھیلاتا ہے ہڈیوں کی تعمیر کرتا ہے اور ہڈیوں کے بھر بھرے پن کی بیماری اوسٹیوپورویس سے بچاتا ہے.

    کھجور میں موجود پوٹاشیم دل کے پٹھوں کو مضبوط بناتا ہے، بھوک بڑھاتا ہے، پٹھوں کی اکڑن سے بچاتا ہے،ہڈیوں کے ڈھانچے کو بہتر کرتا ہے اور کینسر کا خطرہ گھٹاتا ہے،اس پھل میں شامل فاسفورس دانتوں اور ہڈیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے.

    کھجور میں شامل  آئرن اس کا اہم حصہ ہے جو وٹامن بی ٹو اور کاپر کے ساتھ مل کر خون کے سرخ خلیات کی تعمیر میں مددکرتا ہے، بذریعہ خون پٹھوں اور خلیات تک آکسیجن کی فراہمی ممکن بناتا ہے،بصارت کو بہتر کرتا ہے.

    وٹامن اے کی کھجور میں دستیابی سے رات کو نظر بہتر ہوتی ہے اور جلد خشک نہیں ہوتی،سیب اور ناشپاتی کی طرح کھجور کولیسٹرول کم کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں امراض قلب سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے.

    احادیث مبارکہ میں سحری اور افطار میں کھجورکے استعمال کی ترغیب موجود ہے، کھجورکھانا، اس کو بھگوکراس کا پانی پینا،اس سے علاج تجویز کرنا سب سنتیں ہیں،الغرض اس میں لاتعداد برکتیں اور بے شمار بیماریوں کا علاج ہے.

    حضوراکرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ

    ”عجوہ کھجورجنت میں سے ہے اس میں زہرسےشفا ہے“. ( ابن النجار)

    حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے

    ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نہار منہ مدینہ کی سات کھجوریں استعمال کرلیں
    اس دن نہ تو اسے زہر سے نقصان ہوگا اور نہ جادو کا اثر ہوگا“

    کجھور کا قرآن میں ذکر

    کھجور کے بیش بہا فوائد اور بھی ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ یہ وہ پھل ہے جس کا ذکر اللہ تعالی کے آخری الہامی کلام میں بیس سے زائد مقامات پر جبکہ احادیث مبارکہ میں بیشتر مقامات پر ہوا ہے جس نے کھجور کی اہمیت اور فضیلت پر مہرِ یقین لگا دی ہے۔

  • شارجہ کی ماحول دوست مسجد

    شارجہ کی ماحول دوست مسجد

    شارجہ: شارجہ میں ایک مسجد میں ماحول دوست خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں جس کے بعد اب یہ مسجد 37 فیصد توانائی کی بچت کرتی ہے۔

    متحدہ عرب امارات کی 5000 مساجد میں سے ایک مسجد، مسجد التوبہ کو 6 ماہ کے پائلٹ پروجیکٹ کے تحت ماحول دوست مسجد میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

    اس مسجد میں توانائی کی بچت کرنے والے 5 آلات کو نصب کیا گیا اور صرف 6 ماہ میں اس سے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔ جنوری 2016 تک اس مسجد میں بجلی کے استعمال میں 37 فیصد کمی آئی۔ یہاں پر بجلی کی کھپت میں 778 کلو واٹ کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ تناسب کسی بھی جگہ پر گرمیوں کے موسم میں توانائی کی بچت کی بلند ترین سطح ہے۔

    ماحول دوست پورٹیبل اے سی ’ایوا پولر‘ تیار *

    یہاں پر بجلی کی بچت کے لیے اسمارٹ تھرمو سٹیٹ نصب کیے گئے جو کہ پچھلے 3 سال سے متحدہ عرب امارات میں مقامی طور پر تیار کیے جا رہے ہیں۔

    شارجہ کے محکمہ مذہبی امور نے انجینیئرز کو اس پروجیکٹ کی نگرانی و مشاہدے کے لیے مقرر کیا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں مساجد توانائی کی بچت کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

    حکومت کا ماحول دوست پیٹرول متعارف کرانے کا فیصلہ *

    مساجد میں اکثر نمازی اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ نماز کے وقت شدید گرمی ہوجاتی ہے کیونکہ اے سی کو صحیح وقت پر کھولا نہیں جاتا۔ یہ تھرمو سٹیٹ روزانہ کی بنیاد پر نماز کے وقت، اور اے سی کے ٹھنڈا کرنے کی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے اے سی کو چلا دیتے ہیں جس سے بجلی کی بچت بھی ممکن ہے اور نمازی تکلیف سے بھی بچ جاتے ہیں۔

    ان تھرمو سٹیٹ کی مؤثر کارکردگی کے لیے انہیں ’آٹو اذان‘ کے آلات سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔ چونکہ اذان کا وقت ہر روز مختلف ہوتا ہے اور روزانہ 7 سے 10 منٹ کا فرق آجاتا ہے تو اسی فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ آلات اے سی کو مقررہ وقت پر کھول دیتے ہیں۔

    بجلی سے چلنے والا ماحول دوست رکشہ سڑکوں پر رواں دواں *

    اس پروجیکٹ پر تقریباً 200 ڈالر کی رقم خرچ کی جارہی ہے۔ ملک بھر کی تمام مساجد کی انتظامیہ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنی مساجد کو ماحول دوست بنائیں۔ البتہ پروجیکٹ شروع کرنے والی تنظیم ہنی ویل انوائرنمنٹ اینڈ انرجی سلوشن کے جنرل مینیجر دلیپ سنہا کے مطابق پروجیکٹ پر جو رقم خرچ کی جائے گی، وہ بجلی کے بلوں میں کمی کے بعد 3 ماہ میں ہی وصول ہوجاتی ہے۔

    پروڈکٹ مارکیٹنگ مینیجر محمد التاول کے مطابق کئی مساجد کی انتظامیہ نے اس پروجیکٹ میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے ان آلات کی تنصیب کو نہایت سادہ رکھا ہے اوراسے نصب کرنے میں کسی قسم کے تار استعمال نہیں ہوتے۔

    ماحول دوست کاغذ جس پر بار بار لکھا جا سکتا ہے *

    ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات کی حکومت اس قسم کے دیگر کئی منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور بہت جلد ایسے پروجیکٹس شاپنگ مالز اور اسکولوں میں بھی شروع کردیے جائیں گے تاکہ مشرق وسطیٰ کے گرم موسم سے مطابقت کرتے ہوئے توانائی کی زیادہ سے زیادہ بچت کو ممکن بنایا جا سکے۔

  • رمضان میں دنیا بھر کی مختلف روایات

    رمضان میں دنیا بھر کی مختلف روایات

    رمضان اور عید گو کہ مذہبی تہوار ہیں لیکن مختلف ممالک اور مختلف خطوں میں اسے مختلف رسوم و رواج اور روایات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ آیئے دنیا بھر میں رمضان کی روایتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    :توپ داغنا

    1

    سحر و افطار کے وقت توپ داغنے کی روایت کئی ممالک میں ہے۔

    مصر میں روایت ہے کہ ایک جرمن ملاقاتی نے مملوک سلطان الظہیر سیف الدین کو ایک توپ تحفتاً پیش کی۔ سلطان کے سپاہیوں نے یہ توپ شام کے وقت چلائی، رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور اتفاق سے افطاری کا وقت تھا۔ شہریوں نے یہ تصور کیا کہ یہ ان کو افطار کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے ہے جس پر انہوں نے روزہ کھول لیا۔

    جب سلطان کے حواریوں کو یہ ادراک ہوا کہ رمضان المبارک کے دوران سحری و افطاری کے وقت توپ چلانے سے ان کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے تو ان کو یہ روایت جاری رکھنے کا مشورہ دیا گیا۔

    آنے والے برسوں کے دوران اس نے خاصی مقبولیت حاصل کرلی اور دنیا کے مختلف مسلمان ممالک نے بھی اسے اختیار کرلیا۔

    2

    ترکی میں مختلف شہروں کی بلند ترین پہاڑی سے مقررہ وقت پر رمضان توپ چلائی جاتی ہے جو روزہ کھلنے کا اعلان ہوتا ہے۔

    سعودی عرب میں بھی سحری کے وقت توپ چلائی جاتی ہے۔

    روس میں بھی کچھ جگہوں پر رمضان توپ چلائی جاتی ہے۔

    :ڈرم بجانا، بگل بجانا

    3

    سحری کے وقت ڈرم بجا کر لوگوں کو جگانے کی روایت کئی ممالک میں موجود ہے۔

    ترکی میں ڈرمر عثمانی عہد کا لباس پہن کر ڈرم بجا کرلوگوں کو جگاتے ہیں۔

    drum

    مراکش میں ایک شخص ’نیفار‘ بگل بجا کر رمضان کے آغاز اور اختتام کا اعلان کرتا ہے۔

    :منادی کرنا

    7

    اسلامی روایات کے مطابق مسلمانوں کے اولین مساہراتی (منادی کرنے والے) حضرت بلال حبشی تھے جو اسلام کے پہلے مؤذن بھی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اہل ایمان کو سحری کے لیے بیدار کریں۔

    مکہ المکرمہ میں مساہراتی کو زمزمی کہتے ہیں۔ وہ فانوس اٹھا کر شہر کے مختلف علاقوں کے چکر لگاتا ہے تاکہ اگر کوئی شخص آواز سے بیدار نہیں ہوتا تو وہ روشنی سے جاگ جائے۔

    سوڈان میں مساہراتی گلیوں کے چکر لگاتا ہے اور اس کے ساتھ ایک بچہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ان تمام افراد کی فہرست ہوتی ہے جن کو سحری کے لیے آواز دے کر اٹھانا مقصود ہوتا ہے۔

    مصر میں سحری کے وقت دیہاتوں اور شہروں میں ایک شخص لالٹین تھامے ہر گھر کے سامنے کھڑا ہوکر اس کے رہائشی کا نام پکارتا ہے یا پھر گلی کے ایک کونے میں کھڑا ہوکر ڈرم کی تھاپ پر حمد پڑھتا ہے۔

    ان افراد کو اگرچہ کوئی باقاعدہ تنخواہ نہیں ملتی لیکن ماہ رمضان کے اختتام پر لوگ انہیں مختلف تحائف دیتے ہیں۔

    :رمضان خمیے

    6

    سعودی عرب میں رمضان خیموں کی تنصیب عمل میں آتی ہے جہاں پر مختلف قومیتوں کے لوگ روزہ افطار کرتے ہیں۔

    یہ روایت روس میں بھی قائم ہے۔ ملک کی مفتی کونسل کی جانب سے ماسکو میں اجتماعی افطار کے لیے رمضان خیمہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    :دیگر دلچسپ روایات

    ان روایات کے علاوہ بھی رمضان میں مختلف ممالک میں کئی دیگر منفرد و دلچسپ روایات دیکھنے کو ملتی ہیں۔

    :مصر

    8

    مصر میں رمضان المبارک کے دوران بچے چمکتے ہوئے فانوس یا لالٹین اٹھا کر گلیوں کے چکر لگاتے ہیں۔ یہ روایت 1 ہزار برس قدیم ہے۔

    9

    روایت کے مطابق 969 عیسوی میں اہل مصر نے قاہرہ میں خلیفہ معز الدین اللہ کا فانوس جلا کر استقبال کیا تھا جس کے بعد سے رمضان المبارک کے دوران فانوس جلانے کی روایت کا آغاز ہوا اور ماہ رمضان کے دوران مصر میں فانوس یا لالٹین روشن کرنا روایت کا حصہ بن گیا۔

    :سعودی عرب

    10

    سعودی عرب میں ایسی بہت سی روایات ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوئی ہیں یا ان پر دوسری ثقافتوں کا گہرا اثر ہے۔ لوگ گھروں پر فانوس یا بلب لگاتے ہیں، دکانوں پر بھی خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں تاکہ رمضان المبارک کا جوش و ولولہ نظر آئے۔

    :ترکی

    11

    ترکی میں افطار کے وقت مساجد کی بتیاں روشن کر دی جاتی ہیں جو صبح سحری تک روشن رہتی ہیں۔ جدید اثرات اور یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کے باعث ترکی میں دوسرے ممالک کی طرح رمضان کے دوران ریستورانوں یا ہوٹلوں کی بندش کا کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی رمضان کے دوران عوامی مقامات پر کھانے پینے کی ممانعت ہے۔

    :ایران

    12

    ایران میں افطاری کچھ مخصوص اشیا سے کی جاتی ہے جن میں چائے، ایک خاص طرح کی روٹی جسے ’نون‘ کہا جاتا ہے، پنیر، مختلف قسم کی مٹھائیاں، کھجور اور حلوہ شامل ہے۔

    :ملائشیا

    13

    ملائشیا میں زیادہ تر روزہ دار نماز تراویح کے بعد رات کے کھانے ’مورے‘ سے لطف اندوز ہوتے ہیں جن میں روایتی پکوان اور گرم چائے شامل ہوتی ہے۔

    :متحدہ عرب امارات

    14

    متحدہ عرب امارات میں رمضان المبارک کے دوران کام کے اوقات کار کم کر دیے جاتے ہیں۔ یہاں رات بھر رمضان مارکیٹ کھلی رہتی ہے۔

    :ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو

    15

    ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو میں اگرچہ مسلمانوں کی آبادی صرف 6 فی صد ہے لیکن اس کے باوجود رمضان المبارک میں خاص جوش و جذبہ دیکھنے میں آتا ہے اور مساجد میں افطار کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔

    مختلف خاندان مساجد، کمیونٹی سینٹرز یا مساجد میں روزہ افطار کروانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہر خاندان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے دوران ایک بار روزہ ضرور افطار کروائے۔

  • گول نیشنل پارک – جہاں پاکستان کا ساراحسن اکھٹا ہوگیا ہے

    گول نیشنل پارک – جہاں پاکستان کا ساراحسن اکھٹا ہوگیا ہے

    چترال: جنت نظیرگول نیشنل پارک چترال کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، ہزاروں ایکڑ رقبے پرمحیط گول نیشنل پارک کی اونچائی سطح سمندر سے تقریباً دس ہزار سے بارہ ہزارفٹ تک بلند ہے۔

    مارخور، گیدڑ ،بھیڑیے، لومڑی، آئی بیکس ، شاہین، مرغ زریں اوربرفانی چیتے سمیت دنیا بھرکے حسین جانورچترال گول نیشنل پارک کا حسن ہیں۔

    5

    گول نیشنل پارل کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں تاہم یہ بین الاقوامی نیشنل پارک پاکستان کا حصہ ہے۔ وطنِ عزیزکے چاروں قومی اثاثے چترال گول نیشنل پارک ہی میں پائے جاتے ہیں۔

    6

    اس میں ہمارا قومی جانور مارخورموجود ہے جس کی تعداد 1500 سے 2500 تک ہے، اس میں ایسے مارخور بھی ہیں جن کے سینگوں کی لمبائی سترانچ سے زیادہ ہے، اگران مارخوروں کے شکار کی اجازت دی جائے تو ایسے مارخوروں کی قیمت دو سے تین کروڑ روپے بنتی ہے۔

    پاکستان کا قومی درخت دیار بھی اسی پارک میں پایا جاتا ہے جن میں ہزاروں سال قدیم درخت بھی موجود ہیں۔ پاکستان کے قومی پھول چنبیلی نے بھی گول نیشنل پارک کے حسن میں خاطرخواہ اضافہ کیا ہے۔

    3

     

    7

    پاکستان کے قومی پرندہ چکورکی مختلف نسلیں اسی پارک میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ گیدڑ، بھیڑیا، لومڑی، آئی بیکس ، شاہین، مرغ زریں اوربرفانی چیتے بھی اسی نیشنل پارک میں پائے جاتے ہیں تاہم چند سالوں سے برفانی چیتے نظروں سے اوجھل ہیں اوران کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔

    چترال گول نیشنل پارک میں سرکاری اورغیر سرکاری بااثرافراد غیر قانونی طور پرمارخور کا اب بھی شکاربھی کرتے رہتے ہیں۔اگر چترال گول نیشنل پارک کے بفرزون میں جانوروں کے محدود شکار کیلئے قانونی طورپراجازت دی جائےتو قانونی شکار کی آمدنی سے علاقے میں کروڑوں روپے کے ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جاسکے گا۔

    4

    چترال گول نیشنل پارک کے موجودہ ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے اس کی بہتری کیلئے نہایت اچھے اقدامات اٹھائے ہیں یہاں ایک ریسٹ ہاؤس بھی تعمیر کیا گیا ہے جس میں سیاح اورمحکمے کے افسران بھی موسم گرما اورسرما میں قیام کرکے ان قدرتی مناظر سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔ موجودہ فاریسٹ آفیسرسے قبلچترال گول نیشل پارک کو سیاحوں، صحافیوں اور محققین کیلئے شجر ممنوعہ قرار دیا تھا جس کی وجہ سے بعض افراد کو چوری چپھے یہاں شکار کا موقع مل جاتاتھا تاہم اب اس میں سیاحوں اورعام لوگوں کی آمد سے غیر قانونی شکارکی شرح اگر ختم نہیں ہوئی ہے توکافی حد تک کم ضرور ہوئی ہے۔

    1

    چترال گول نیشل پارک میں ایک غیرسرکاری ٹرسٹ چئیر لفٹ لگانا چاہتا تھا جس سے یقینی طور پر یہاں کے سیاحت کو بہت فروغ مل سکتا تھا تاہم چترال کے سابق مہتر (حکمران) کے بیٹے نے اسے ناکام بنانے اور اسے تعمیر نہ کرنے میں بڑا کردار ادا کیا اگر چہ 1975 کے نوٹیفیکیشن کے مطابق سابق حکمران کے زیراستعمال تمام اراضی اورملکیت کواب سرکاری ملکیت قرار دیا جاچکا ہے مگراب بھی اس پر حکومت کا قبضہ نہیں ہے اور یہ لوگ اس قسم کے منصوبوں میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔

  • پانچ جون: ماحولیات کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے

    پانچ جون: ماحولیات کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے

    کراچی : اقوام متحدہ کی اہم سرگرمی ہونے کے ناطے ماحولیات کا عالمی دن دنیا بھر میں ہر سال 5جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصدماحولیات کی اہمیت کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرانا اور ماحولیات کی بہتری کے لیے سیاسی سطح پر توجہ دلانا اور اس سلسلے میں کئے جانے والے اقدامات کو مزید فعال بناناہے۔

    اس سال عالمی یوم ماحولیات کا موضوع ہے

    ” Go Wild for the life” (جنگلی حیات کا تحفظ ہر قیمت پر) 

    اس موضوع کے انتخاب کا مقصد جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام اور ان جانوروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے جن کی نسل ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے مثلا ہاتھی، گینڈا، چیتا، وھیل مچھلی اور کچھوے وغیرہ ۔

    World4

    مزید برآں ، ہرسال 8 جون کو سمندروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد عوام الناس میں سمندروں اور ان میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور انہیں آلودگی اور وسائل کے بے دریغ استعمال سے محفو ظ رکھنا ہے۔ اس دن کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے جو موضوع منتخب کیا گیا ہے وہ ہے

    صحت مند سمندر، صحت مند کرہ ارض

    سمندر زمین پرموجو د حیاتیاتی نظام (ایکو سسٹم) کا اہم ترین حصہ ہیں اور آلودگی سے پاک سمندر کرہ ارض پر صحت مند ماحول کو برقرار رکھنے میں اہم کردار کے حامل ہیں۔

    World2

    ماحولیا ت کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باعث پاک بحریہ ماحول اور سمندر وں کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لئے دونوں عالمی ایام کو باقاعدگی سے مناتی ہے ۔

    اس سال ماہِ صیام کے آغاز سے قبل پاک بحریہ میں یہ دونوں ایام مشترکہ طور پر 3جون کو منائے گئے ۔ عوام الناس اور متعلقہ ایجنسیوں اور محکموں میں ماحول اور سمندروں کی اہمیت سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لیے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا جن میں ساحلوں کی صفائی کی مہم اور سیمینار اور لیکچرز شامل ہیں۔

    اس سلسلے میں پاک بحریہ کے تعلیمی اداروں میں معلوماتی مقابلے اور پاکستان میری ٹائم میوزیم میں رنگا رنگ میلے کا انعقاد بھی شامل ہیں۔

    اس موقع پر چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل ذکاء اللہ نے اپنے پیغام میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ سمندروں کو مختلف نوعیت کے خطرات سے تحفظ فراہم کرنے اور ماحولیات بالخصوص سمندری ماحول کی بہتری کے لیے پاک بحریہ ہر ممکن کوشش کرے گی۔

    انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ پاک بحریہ اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کی خاطر سمندر اور ماحول کے تحفظ کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں میں اپنا بھر پور کردار ادا کرے گی۔

     

  • رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    رنگوں سے نئے جہان تشکیل دینے والی مصورات کے فن پارے

    زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، خواتین کی نمائندگی کے بغیر ادھورا ہے۔ کسی شعبہ میں اگر خواتین کی آواز نہیں ہوگی تو اس کا مطلب ہے ہم دنیا کی نصف سے زائد آبادی کے خیالات جاننے سے محروم ہیں۔

    فن و ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اردو شاعری پر یہ الزام ہے کہ اس میں خواتین صرف نسوانی جذبات کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے روشناس بھی اسی صورت میں کرواتی ہیں جب ان کا تعلق صنف نازک سے ہو۔

    شاید اس کی وجہ یہ ہے عورت فطرتاً نرم دل اور حساس ہے۔ وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی بات تلاش کرلیتی ہے۔ جب زندگی پہلے ہی مصائب سے گھری ہو، ہر طرف دکھ و الم ہو، بم دھماکے ہوں اور خون خرابہ ہو، تو ایسے میں جذبوں سے متعلق بات کرنا مزید مصیبت سے بچا لے گا۔

    ایسا ہی کچھ اظہار کرن شاہ، زینب مواز اور شاہانہ منور نے بھی اپنی پینٹنگز کے ذریعے کیا۔ نیشنل کالج آف آرٹس سے پڑھنے اور پڑھانے والی تینوں فنکارائیں اپنے فن کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔

    اپنے فن کے بارے میں بتاتے ہوئے زینب مواز کہتی ہیں کہ پینٹنگ اپنے جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ جب میں چھوٹی تھی تو خیالی دنیا میرے رہنے کی پسندیدہ جگہ تھی۔ تب میرے والدین اور ٹیچرز نے فیصلہ کیا کہ آرٹ کے ذریعے میں اپنی اس خیالی دنیا کو حقیقت میں لے آؤں۔

    ان کے کچھ فن پارے تجریدی آرٹ کا نمونہ ہیں۔ یہ دیکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس کے کیا معنی لیتا ہے۔

    ایک فنکار اپنے ارد گرد کے حالات کا اظہار کیسے کرتا ہے؟ اس کا جواب زینب مواز کا وہ فن پارہ ہے جس میں انہوں نے ایک کوے کو ایک پرندے سے نوالہ چھینتے ہوئے دکھایا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’کوا خودغرضی، لالچ اور بدفطرتی کی ایک مثال ہے۔ جب قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا ویڈیو اسکینڈل سامنے آیا تو اس نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔ انسانوں کی اس بدفطرتی کو علامتی اظہار میں پیش کرنے کے لیے مجھے کوے سے بہتر اور کوئی چیز نہیں لگی۔‘

    البتہ شاہانہ منور اس بات کی نفی کرتی ہیں۔

    ان کے خیال میں زندگی میں بے شمار دکھ، بے شمار مسائل ہیں، تو اپنی ذاتی زندگی کے مسائل کا آرٹ کے ذریعے اظہار کر کے دوسروں کے مسائل میں اضافہ کرنا نا انصافی ہے۔ کیوں نہ انہیں رنگوں کی خوبصورتی دکھائی جائے تاکہ وہ چند لمحوں کے لیے ہی سہی، لیکن خوشی محسوس کر سکیں۔

    زینب اپنی ایک پینٹنگ کے ذریعے لوگوں کی فطرت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے، ’لوگ بے رحم حد تک نکتہ چیں ہوتے ہیں۔ وہ منصفی کی ایک خود ساختہ کرسی پر بیٹھ کر ہر شخص کو جج کرتے ہیں۔‘ ان کی اس پینٹنگ میں ایک عورت طوطے کو ہاتھ پر بٹھا کر فرصت سے اس میں خامیاں تلاش کر رہی ہے۔

    شاہانہ منور اپنی پینٹنگز میں عورت کی خوبصورتی کو بیان کرتی ہیں۔ ان کے فن پارے ’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘ کی عملی تصویر نظر آتے ہیں۔ گہرے اور شوخ رنگوں سے انہوں نے لفظ’عورت‘ میں قید رنگینی، خوبصورتی اور دلکشی کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

    گہرے رنگوں کو استعمال کرنے والی کرن شاہ اپنے فن کے بارے میں بتاتی ہیں، کہ ان کا مزاج بدلتا رہتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے فن پارے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

    ایک طرف وہ ان فن پاروں کے ذریعے انسانی فطرت کی بدصورتی کو اجاگر کر رہی ہیں تو دوسری طرف شوخ رنگوں سے مزین یہ فن پارے زندگی کے روشن رخ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

    یہ تینوں مصورات اپنے اپنے تصورات اور تخیلات کے سہارے فن مصوری کی نئی جہتوں اور نئے جہانوں کی تلاش میں ہیں اور ان کی تصویروں میں استعمال ہونے والے رنگوں کا اعتماد بتاتا ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ تینوں اپنی منزل ضرور حاصل کرلیں گی۔

  • رسول اکرم ﷺ سے منسوب مکہ اور مدینہ میں‌واقع 10 مساجد

    رسول اکرم ﷺ سے منسوب مکہ اور مدینہ میں‌واقع 10 مساجد

    مسلمانوں کی عبادت گاہ کو مسجد کہتے ہیں، عموماً اسے نماز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، لفظ ‘مسجد’ کا لغوی مطلب ہے ‘ سجدہ کرنے کی جگہ’۔ اردو سمیت مسلمانوں کی اکثر زبانوں میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ:

    جو شخص مسجد بنائے اور اس کا مقصود اللہ کی رضامندی ہو ، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے ۔
    ( بخاری ، کتاب الصلاۃ ، باب من بنی مسجدا ، حدیث : 450 )

    مندرجہ بالا پیش کی جانے والی مساجد مکہ اور مدینہ میں واقع ہیں جو رسول اکرم ﷺ سے منسوب ہیں۔

    مسجد الحرام

    مسجد حرام جزیرہ نما عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں واقع ہے جو سطح سمندر سے 330 میٹر کی بلندی پر واقع ہے ، مسجد حرام کی تعمیری تاریخ عہد حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام سے تعلق رکھتی ہے ۔ مسجد حرام کے درمیان میں بیت اللہ واقع ہے جس کی طرف رخ کر کے دنیا بھر کے مسلمان دن میں 5 مرتبہ نماز ادا کرتے ہیں۔

    مسجد النبوی ﷺ

    مسجد نبوی سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں قائم اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے، مکہ مکرمہ میں مسجد حرام مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مقام ہے جبکہ بیت المقدس میں مسجد اقصی اسلام کا تیسرا مقدس مقام ہے ۔

    مسجدِ عائشہؓ

    پیغمبر آخرزماں ﷺ کی زوجہ اطہر ام المؤمنین حضرت عائشہ کے نام سے منسوب یہ مسجد مکہ شہر میں واقع ہے۔حرم کی حدود سے باہر مدینہ روڈ پر تغیم کے مقام پر واقع مسجد جہاں عمرے کے لیے احرام باندھتے ہیں۔

    مسجدِ قبلتین

     

    مدینہ منورہ کے محلہ بنو سلمہ میں واقع ایک مسجد جہاں 2ھ میں نماز کے دوران تحویل قبلہ کا حکم آیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام نے نماز کے دوران اپنا رخ بیت المقدس سے کعبے کی جانب پھیرا۔ کیونکہ ایک نماز دو مختلف قبلوں کی جانب رخ کر کے پڑھی گئی اس لیے اس مسجد کو "مسجد قبلتین”یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔

    مسجدِ قباء

    تاریخ اسلام کی پہلی مسجد جو مدینہ منورہ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بستی قباء میں واقع ہے, حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے کہ اس مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے سے ایک عمرے کے برابر کا ثواب ملتا ہے ۔

    مسجدِ غمامہ

    حرم نبویﷺ کے قریب واقع مسجد جہاں حضور اقدسﷺ عیدین کی نماز پڑھا کرتے تھے، اس کو مسجد مصلٰے بھی کہتے ہیں۔ حضور ﷺ نے وہاں نمازِ استسقاء پڑھائی تھی، اسی وقت بادل نمودار ہو کر بارش اس لیے یہ مسجد غمامہ (بادل) سے موسوم ہے۔

    مسجدِ جعرانہ

    مکّہ سے چوبیس کلو میٹر دور طائف ہائی وے پر ایک مسجد ” مسجد جعرانہ ” کے نام سے واقع ہے یہ مسجد طائف کی جانب سے آنے والوں کے لیے تو ” حدود حرم ” کا نقطہ آغاز ہے۔

    مسجدِ الجن

    مسجد الجن، مسجد حرام کی شمال کی جانب تین کلومیٹر کی مسافت پر واقع تاریخ اسلام کی عظیم یادگارسجھی جاتی ہے۔ کتب تاریخ میں اس کی شہرت کے اور بھی کئی واقعات ملتے ہیں تاہم اس کی سب بڑی وجہ شہرت یہاں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر جنات کی ایک جماعت کا قبول اسلام کا واقعہ ہے۔

    مسجدِ جمعہ

     

    قباء اور مدینہ منورہ کے درمیان محلہ بنو سالم بن عوف میں واقع ایک مسجد، جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سفر ہجرت کے دوران نماز جمعہ ادا کی تھی۔ صحابہ کرام نے اس جگہ ایک مسجد تعمیر کی جسے حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور گورنری میں دوبارہ تعمیر کرایا۔

    مسجدِ نمرہ

    سعودی عرب کے میدان عرفات میں واقع ایک اہم مسجد ہے جہاں 9 ذی الحج کو امام حج کا خطبہ پڑھا جاتا ہے اور اس کے بعد ظہر اور عصر کی نمازوں کے دو دو فرض قصر پڑھے جاتے ہیں۔

     

  • شہادتِ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعلیٰ عنہ

    شہادتِ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعلیٰ عنہ

    خلافت راشدہ کے دوسر ے تاجدار اسلامی تاریخ کی اولوالعزم، عبقری شخصیت ،خُسر رسول ۖ داماد علی المرتضیٰ ، رسالت کے انتہائی قریبی رفیق ، خلافت اسلامیہ کے تاجدار ثانی حضرت عمر بن خطابؓ وہ خلیفہ ہیں جنہیں اپنی مرضی سے نہ بولنے والے پیغمبر خداۖ نے غلاف کعبہ پکڑ کر دُعا مانگی تھی اے اللہ مجھے عمر بن خطاب عطا فرما دے یا عمرو بن ہشام، دعائے رسول کے بعد عمر بن خطاب تلوار گردن میں لٹکائے ہاتھ بندھے سیدھے دروازہ رسولﷺ پر پہنچے صحابہ کرام نے جب یہ آنے کی کیفیت دیکھی تو بارگاہ رسالت میں دست بستہ عرض کی یا رسول اللہ ۖ عمر اس حالت میں آ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا انہیں آنے دو ۔نیّت اچھی تو بہتر ورنہ اسی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا جائے گا۔

    جب بارگاہ رسالت میں عمر بن خطاب حاضر ہوئے دست رسول ۖ پر بیعت کر کے کلمہ طیبہ پڑھا تو فلک شگاف نعروں سے نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں تو ہر طرف بخِِ بخِِ کی صدائیں گونجیں جس عمر بن خطاب کے آنے پر اتنی خوشیاں منائی گئیں جس کے رُعب اور دب دبہ سے دشمنان اسلام اس قدر حواس باختہ ہوتے تھے کہ بے شک یہ مرد قلندر کھلے آسمان تلے تن تنہا تلوار اور کوڑا لٹکا کر آرام کر رہا ہوتا تھا مگر کسی کو یہ جرأ ت نہ ہوتی تھی کہ عمر بن خطاب کا کوڑا یا تلوار اُٹھاتا ۔

    حضرت عمر فاروقؓ دوسرے خلیفہ راشد ہیں ، نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد آپؓ کا رتبہ سب سے بلند ہے، آپؓ کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا(ترمذی ) ‘عمر کی زبان پر خدا نے حق جاری کر دیا ہے (بیہقی)، جس راستے سے عمر گزرتا ہے شیطان وہ راستہ چھوڑدیتا ہے (بخاری ومسلم)‘میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتداء کرنا( مشکٰوۃ)‘۔ آپؓ نے ہجرت نبوی کے کچھ عرصہ بعد بیس افراد کے ساتھ علانیہ مدینہ کو ہجرت کی ، آپؓ نے تمام غزوات میں حصہ لیا۔634ء میں خلافت کے منصب پہ فائزکیے گئے۔644ء تک اس عہدہ پر کام کیا۔

    آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں آپ کے اندازِحکمرانی کودیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پہ مجبور ہوگیاکہ اگر عمر کو 10سال خلافت کے اور ملتے تو دنیا سے کفر کانام ونشان مٹ جاتا۔ حضرت عمر کازمانہ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔اس میں دو بڑی طاقتوں ایران وروم کو شکست دے کرایران عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میں شامل کیا۔بیت المقدس کی فتح کے بعدآپ خودوہاں تشریف لے گئے۔

    حضرت عمر فاروقؓ کا مشہور قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا اس قدر خوف خدا رکھنے والا راتوں کو جاگ کر رعایا کی خدمت اور جس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی تائید میں سورئہ نور کی آیات مبارکہ کا نازل ہونا جس نے اپنی آمد پر مدینہ کی گلیوں میں اعلان کیا، کوئی ہے جس نے بچوں کو یتیم کرانا ہو ، بیوی کو بیوہ کرانا ہو ، ماں باپ کی کمر جھکانا ہو ، آنکھوں کا نورگُم کرانا ہو ،آئے عمر نے محمد رسول اللہ ۖ کی غلامی کا دعویٰ کر لیا ہے آج سے اعلانیہ اذان اور نماز ہوا کرے گی ۔

    حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے امیرالمومنین کہہ کر پکارے گئے آپؓ نے بیت المال کا شعبہ فعال کیا اسلامی مملکت کو صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا عشرہ خراج کا نظام نافذ کیا مردم شماری کی بنیاد ڈالی قاضیوں کےلئے خطیر تنخواہیں متعین کیں، احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا جیل خانہ وضع کیااو رجلاوطنی کی سزا متعارف کی سن ہجری جاری کیا زراعت کے فروغ کےلئے نہریں کھدوائیں۔

    اسلام کے اس عظیم سپوت کی فتوحات سے اہل باطل اتنے گھبرائے کے سازشوں کا جال بچھا دیا اور ایک ایرانی بد بخت مجوسی ابو لولو فیروز نے یکم محرم الحرام 23 ہجری کو امام عدل و حریت ، خلیفہ راشد، امیر المومنین ، فاتح عرب وعجم پر حملہ کر کے مدینہ منوّرہ میں شہید کر دیا ۔آپ روضہ رسول ۖ میں انحضرت ۖ کے پہلو مبارک میں مدفن ہیں۔

    وہ عمر جس کے ا عداء پہ شیدا سقر
    اس خدا دوست حضرت پہ لاکھو ں سلام

  • میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 205 برس بیت گئے

    میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 205 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے دو سو پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

    ریختے کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • عدالتی حکم پر نفاذ اردو لیکن ہوگا کیسے؟؟

    عدالتی حکم پر نفاذ اردو لیکن ہوگا کیسے؟؟

    اردو ہے میرا نام میں ’خسرو‘ کی پہیلی
    میں ’میر‘ کی ہمراز ہوں، ’غالب‘ کی سہیلی

    اردو دنیا کی خوبصورت اور شیریں ترین زبانوں میں شامل ہے، اردو زبانوں کی انڈو یورپین شاخ سے تعلق رکھتی ہے، ادیبوں، عالموں، محققوں اور ماہرینِ لسانیات کے نزدیک اردو ایک مخلوط زبان ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شمالی ہندوستان میں معرضِ وجود میں آئی اور اس پر دہلی اور اس کے آس پاس کی بولیوں کے نمایاں اثرات پڑے، الطاف حسین حالی لکھتے ہیں کہ

    شہد و شکر سے شیریں اردو زبان ہماری
    ہوتی ہے جس کی بولی میٹھی زبان ہماری

    مسعود حسین خاں اردو کی پیدائش کو "دہلی اور نواح دہلی” سے، حافظ محمود خاں شیرانی "پنجاب” سے، سید سلیمان ندوی "وادی سندھ” سے منسوب کرتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کے خیال کے مطابق "اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے”۔ گیان چند جین کے نظریے کے مطابق "اردو کی اصل کھڑی بولی ہے”۔اردو کے ذخیرۂ الفاظ کا بڑاحصّہ ایڈو آرین ہے، لیکن عربی اور فارسی کے بھی اس پر نمایاں اثرات ہیں۔ جس سے اس زبان کی خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے ہیں، جبکہ اقبال اشعر کہتے ہیں کہ

    غالب‘ نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
    حالی‘ نے مروت کا سبق یاد دلایا
    اقبال‘ نے آئینۂ حق مجھ کو دکھایا
    مومن‘ نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی

    عدالت عظمی نے سرکاری اداروں میں اردو کو نافذ کرنے کاحکم جاری کر دیا، فرمان جاری ہوا ہے کہ آئین کی دفعہ دوسو اکاون کے احکامات کو بلا تاخیر نافذ کیا جائے،اور اس کام کیلئے جو مدت حکومت نے مراسلہ بتاریخ چھ جولائی سنہ دوہزار پندرہ کے خود طے کی ہے اس کی ہر حال میں پابندی کی جائے کیوں کہ اس کا عدالت کے روبرو عہد کیا گیا ہے ۔

     عدالت نے کہا ہے کہ قومی زبان کا رسم الخط یکساں بنانے کیلئے وفاقی اورصوبائی حکومتیں ہم آہنگی پیدا کریں۔اور تین ماہ میں وفاقی اور صوبائی قوانین کا ترجمہ انگریزی سے اردو زبان میں کر لیا جائے۔ عدالت نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ نگرانی کرنے والے اور باہمی ربط قائم رکھنے والے ادارےبغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے تمام متعلقہ اداروں میں اس کا نفاذ یقینی بنائیں ۔ وفاقی سطح پہ مقابلے کے امتحانات میں قومی زبان استعمال کی جائے،عوامی مفاد سے متعلق عدالتی فیصلوں کو اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں لازماَاردو میں ترجمہ کروایا جائے۔ عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتیٰ الامکان اردو میں پیش کریں تاکہ شہری اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔

    عدالت نے تنبیہ کی ہے کہ اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکار دفعہ دو سو اکاون کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اسکی خلاف ورزی سے نقصان ہو گا اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے اردو کو قومی کے ساتھ سرکاری زبان بنانے کا حکم آنے کے بعد ، اردو کے نفاذ کے حوالے سے متعدد سوال پیدا ہو گئے ہیں۔

    زندہ قومیں اظہار بیان کے لئے اپنی زبان کو ترجیح دیتی ہیں،عظیم چینی رہنما ماو زے تنگ نے بہترین انگریزی جاننے کے باوجود کبھی انگریزی میں بات نہیں کی، ان کا کہنا تھا چین گونگا نہیں ہے، ترک وزیراعظم طیب اردوان نے پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب اپنی زبان میں کیا، زندہ قوموں کے رہنما کسی اجنبی زبان کی غلامی نہیں کرتے اور یہ ہیں ہمارے وزیر اعظم جو عالمی رہنماؤں کی بیٹھک میں انگریزی زبان میں تقریر کر رہے ہیں۔

    سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اردو کو سرکاری زبان بنانے کے حکم کے بعد کیا ہمارے وزیر اعظم رواں ماہ ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اردو میں خطاب کریں گے؟ کیا سرکاری تمام محکمہ جاتی افسران کے نام کی تختی اردو میں ہوگی؟ ، کیا سرکاری دفاتر کے فارم اردو میں چھاپے جائیں گے؟ کیا دفاتر میں جملہ سرکاری خط و کتابت اور دفتری کارروائی اردو میں ہوگی؟  اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری بابوؤں کو اردو میں لکھنا اور ٹائپ کرنا سکھانے کے لئے کوئی ادارہ قائم کیا جائے گا؟۔

    دنیا بھر کی وہ قومیں جو آج ترقی کے بام عروج پہ کھڑی ہیں انکے اندرونی نظام کو ٹٹولیں تو وہاں ہر سطح پہ انکی قومی زبانوں کا راج پائینگے اور اکثر میں تو انگریزی ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گی، حتیٰ کہ سری لنکا جیسا چھوٹا ملک کہ جہاں کی قومی زبان سنہالی دنیا میں سو ویں درجے میں بھی نہیں شمار ہوتی، وہاں بھی اعلیٰ تعلیم تک کا انتظام انکی زبان میں متوازی طور پہ موجود ہے۔

    لیکن  یہاں ہماری قومی زبان کی وقعت کو تو دیکھئے کہ جو زبان دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں میں تیسرے نمبر پہ ہے، اسکا خود اس ملک میں کیا مقام بناکر رکھ دیا گیا ہے، سارے ملک کے تعلیمی نظام ہی نہیں دفتری و عدالتی نظام تک پہ انگریزی مکمل طور پہ قابض ہے۔

    غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اردو نہ رہی تو ہمارے اولیا کرام شعراء کرام مصنفوں کی لکھی ہوئی کتابیں کون پڑھےگا بابائے اردو مولوی عبدالحق ، مولانا ابوالکلام آزاد ، علامہ اقبال ، مرزا غالب مولانا حالی اور سر سید احمد خان جیسے تاریخی ہیروں کو کون یاد رکھے گا؟

    اُردو زبان کو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے قابل قدر کام ہوچکا ہے، پنجاب یونیورسٹی نے بائیس جلدوں پر مشتمل اُردو انسائیکلو پیڈیا شائع کیا ہے، وفاقی اُردو ڈکشنری بورڈ نے بائیس جلدوں پر مشتمل اُردو لغت شائع کی ہے، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے تاریخ ادبیات اُردو چھ جلدوں میں تصنیف کی ہے جسے پنجاب یونیورسٹی نے شائع کیا ہے، منہاج الدین نے قاموس الاصطلاحات کے نام سے ڈکشنری مرتب اور شائع کرائی ہے جس میں انگریزی زبان کی تمام سائنسی، دفتری اور تکنیکی اصطلاحات کا اُردو ترجمہ شامل ہے،حقیقت یہ ہے کہ اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔