Tag: ASHFAQ AHMAD

  • معروف مصنف اشفاق احمد کو گزرے 14 برس بیت گئے

    معروف مصنف اشفاق احمد کو گزرے 14 برس بیت گئے

    لاہور: آج اردو اور پنجابی کے نامور ادیب، افسانہ و ڈرامہ نگار، دانشور، براڈ کاسٹر اور صوفی جناب اشفاق احمد 14ویں برسی ہے، آپ 7 ستمبر 2004کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے ۔

    معروف مصنف اشفاق احمد22 اگست 1925ءکومکتسر ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیئے۔

    وہ انیس سو سڑسٹھ میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔ وہ انیس سو نواسی تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ وہ صدر جنرل ضیاءالحق کےدور میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گئے۔اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا ًبعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے، انیس سو ترپن میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔

    آپ داستان گو اور لیل و نہار نامی رسالوں کے مدیر بھی رہے۔ ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے،اجلے پھول، سفر مینا، پھلکاری اور سبحان افسانے کے نام سے شائع ہوئے۔

    ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر (سفرنامہ) ، کھیل کہانی (ناول) ، ایک محبت سو ڈرامے (ڈرامے) اور توتا کہانی (ڈرامے) ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ انیس سو پینسٹھ سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور ذومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور 41 سال تک چلتا رہا۔

    حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازات عطا کیے تھے۔ صوفی مزاج کے حامل اشفاق احمد 7ستمبر 2004ءکو لاہور میں وفات پاگئے اور ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    اشفاق احمد کی تحاریر سے اقتباسات


    ایک سوال

    اشفاق احمد لکھتے ہیں ایک سوال نے مجھے بہت پریشان کیا

    سوال تھا:مومن اور مسلم میں کیا فرق ہے؟
    بہت سے لوگوں سے پوچھا مگرکسی کے جواب سے تسلی نہ ہوئی
    ایک دفعہ گاؤں سے گزر رہا تھا،دیکھا ک ایک بابا گنے کاٹ رہا ہے
    نہ جانے کیوں دل میں خیال آیاکہ اِن سے یہ سوال پوچھ لوں۔
    میں نے بابا کو سلام کیااور اجازت لے کر سوال پوچھ لیا۔
    بابا جی تھوڑی دیر میری طرف دیکھتےرہے اور جواب دیا۔۔
    مسلمان وہ ہے جو اللہ کو مانتا ہے۔
    مومن وہ ہے جو اللہ کی مانتا ہے۔

    عشق

    مجھے بہت جستجو تھی کہ عشقِ مجازی اور عشقِ حقیقی میں فرق جان سکوں،ایک دن ابا جی نے بتایاکہ۔۔۔۔
    اشفاق،اپنی انا کو کسی ایک شخص کے سامنے ختم کرنے کا نام عشقِ مجازی ہے، اور اپنی انا کو سب کے سامنے ختم کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے۔

    عورت

    آپ عورت کے ساتھ کتنی بھی عقل و دانش کی بات کریں، کیسے بھی دلائل کیوں نہ دیں اگر اِس کی مرضی نہیں ہے تو وہ اِس منطق کو کبھی نہیں سمجھے گی۔
    اِس کے ذہن کے اندر اپنی منطق کا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے،جسے اِس نے اپنی مرضی سے سجایا ہوتا ہےاور وہ اِسے روشن کرنے کے لیے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی۔
    اس لیے وہ کسی عقل و دانش اور دلائل کے معاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان نہیں رکھتی۔
    اس نے جو فیصلہ کر لیا ہوتا ہے وہی اس مسئلے کا واحد اور آخری حل ہوتا ہے۔

    محبت

    میرا پہلا بچہ میری گود میں تھا۔
    میں ایک باغ میں بیٹھا تھا۔
    اور مالی کام کر رہے تھے۔
    ایک مالی میرے پاس آیا اور کہنے لگا” ماشا اللہ بہت پیارا بچہ ہے۔اللہ اِس کی عمر دراز کرے”۔
    میں نے اُس سے پوچھا ،” تمھارے کتنے بچے ہیں؟” ۔
    وہ کہنے لگا،” میرے آٹھ بچے ہیں”۔
    جب اُس نے آٹھ بچوں کا ذکر کیا ،تو میں نے کہا کہ ” اللہ اُن کو سلامت رکھے ۔لیکن میں اپنی محبت کو آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پر تیار نہیں ہوں”۔
    یہ سُن کر مالی مسکرایا اور میری طرف چہرہ کر کے کہنے لگا۔
    صاحب جی! ” محبت تقسیم نہیں کیا کرتے ۔۔۔۔۔ محبت کو ضرب دیا کرتے ہیں “۔

    خوشی

    خوشی ایسے میسر نہیں آتی کہ کسی فقیر کو دو چار آنے دے دئیے۔
    خوشی تب ملتی ہے جب آپ اپنے خوشیوں کے وقت سے وقت نکال کر انہیں دیتے ہیں جو دُکھی ہوتے ہیں،کوئی چیز آپ کو اتنی خوشی نہیں دے سکتی جو خوشی آپ کو روتے ہوئے کی مسکراہٹ دے سکتی ہے ۔

  • اردو ادب کی بے مثال مصنف بانو قدسیہ کی پہلی برسی

    اردو ادب کی بے مثال مصنف بانو قدسیہ کی پہلی برسی

    اردو ادب کی شاہکار تصنیف ’راجہ گدھ‘  اور دیگر بے شمار لازوال تصانیف کی خالق بانو قدسیہ کی پہلی برسی منائی جارہی ہے‘ داستان سرائے کی اس مکین کے رخصت ہونے سے اردو ادب ایک بے مثال و بے بدل مصنف سے محروم ہوگیا۔

    مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بانو قدسیہ 28 نومبر سنہ 1928 کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جب کہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا۔

    سنہ 1950 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اورمشہور افسانہ نگاراورڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ معروف مصنف ممتاز مفتی اپنی تصنیف ’الکھ نگری‘ میں ان کی شادی کا قصہ نہایت دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں، جس کے مطابق اشفاق احمد کا پٹھان خاندان ایک غیر پٹھان لڑکی سے ان کی شادی پر آمادہ نہیں تھا، اور ان دونوں کا نکاح بانو قدسیہ کے گھر پر نہایت رازداری سے ہوا تھا۔

    شادی کے بعد بانو قدسیہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ میں ادبی پرچہ داستان گو جاری کیا۔

    bano-2

    بانو قدسیہ کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود ، توجہ کی طالب، آتش زیرپا اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ناول بھی تحریر کیے۔ ان کا شہرہ آفاق ناول راجہ گدھ اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔

    ان کی دیگر تصانیف میں ایک دن، شہر لا زوال، پروا، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں کے نام سر فہرست ہیں۔

    انہوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز تحریر کیے جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔

    ممتاز مفتی اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں، ’پہلی مرتبہ میں نے بانو کو اس وقت سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا، امی ایڈیٹر صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ قدسی ڈرائینگ روم میں چلی گئیں۔

    پھرڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کر رہی تھی۔ افسانوں کی باتیں، کرداروں کی باتیں، مرکزی خیال، انداز بیان کی خصوصیات کی باتیں، ان باتوں میں فلسفہ، نفسیات اور جمالیات تھی۔

    میں حیرت سے سن رہا تھا۔ اللہ اندر تو قدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کر رہی ہے۔ قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں، جی ہاں ہے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، کون ہے کرتی تھی۔ تب مجھے پتہ چلا بانو کون ہے‘۔

    اپنے ناول راجہ گدھ میں بانو قدسیہ نے ایک کردار پروفیسر سہیل کی زبانی حرام اور حلال کے نظریے کو نہایت انوکھے انداز میں بیان کیا ہے۔ ’جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی جینز کو متاثر کرتا ہے۔ رزق حرام سے ایک خاص قسم کی میوٹیشن ہوتی ہے جو خطرناک ادویات، شراب اور ریڈی ایشن سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ رزق حرام سے جو جینز تغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے، لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ نا امید بھی ہوتے ہیں نسل انسانی سے۔ یہ جب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی ذہین پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کر لو رزق حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے اور جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں‘۔

     بانو قدسیہ چار فروری کو علالت کے بعد لاہور کے نجی اسپتال میں انتقال کرگئی تھیں‘ جس کے بعد اردو ادب کا ایک اورباب بند ہوگیا۔ انہیں ان کے محبوب شوہر اشفاق احمد کے پہلو میں سپردِ خاک کیا  گیا تھا۔

  • آج معروف ادیبہ بانو قدسیہ کی سالگرہ ہے

    آج معروف ادیبہ بانو قدسیہ کی سالگرہ ہے

    کراچی (ویب ڈیسک) – آج اردو کی مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار محترمہ بانو قدسیہ کی سالگرہ ہے۔ وہ 28 نومبر 1928ءکو فیروز پور( بھارت) میں پیدا ہوئی تھیں۔

    سن 1950ءمیں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور مشہور افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں بعدازاں انہوں نے اپنے شوہر کی معیت میں ادبی پرچہ داستان گوجاری کیا۔

    بانو قدسیہ کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود ، توجہ کی طالب، آتش زیرپا اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔انہوں نے کئی ناول بھی تحریر کیے۔ ان کا ناول راجہ گدھ اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے ۔

    ان کی دیگر تصانیف میں ایک دن، شہر لا زوال، پروا، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں کے نام سر فہرست ہیں۔

    انہوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز تحریر کیے، جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔

    بانو قدسیہ لاہور میں قیام پذیر ہیں۔