Tag: Asteroid

  • زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کو 2 گھنٹے قبل دیکھ لیا گیا

    زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کو 2 گھنٹے قبل دیکھ لیا گیا

    ماہرین فلکیات اور یورپی اسپیس ایجنسی کی دفاعی کمیٹی برائے سیارہ نے حال ہی میں زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کی ٹکر سے چند گھنٹے قبل نشان دہی کی۔

    یہ سیارچہ بحر منجمد میں نارویجیئن جزیرے جین ماین کے 40 کلو میٹر جنوب میں گرا، جس کی وجہ سے 2 سے 3 ہزار ٹن ٹی این ٹی پھٹنے کے برابر دھماکا ہوا۔

    2022 EB5 نام پانے والا یہ سیارچہ پہلی خلائی چٹان ہے جس کا یورپ سے خلا میں زمین سے ٹکرانے سے قبل مشاہدہ کیا گیا، اور اب تک کی پانچویں خلائی چٹان ہے جو زمین سے ٹکرانے سے قبل خلا میں مشاہدے میں آئی ہے۔

    یورپی خلائی ایجنسی کے نیئر ارتھ آبجیکٹس کوآرڈینیشن سینٹر کی نیوز ریلیز کے مطابق ہنگری کے ماہرِ فلکیات کرسٹرین سارنیکزکی نے زمین کے گرد گھومتی اس تیز رفتار چیز کو دریافت کیا۔

    ابتدائی اندازوں کے مطابق اس چٹان کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات ایک فیصد سے بھی کم تھے۔

    لیکن گرینج معیارِ وقت کے مطابق رات 8 بج کر 25 منٹ پر یورپی خلائی ایجنسی کے میرکٹ ایسٹیرائڈ امپیکٹ وارننگ سسٹم نے ایک انتباہ جاری کیا جس کے مطابق اس خلائی چٹان کے زمین ٹکرانے کے 100 فیصد امکانات ہیں اور وہ رات 9 بج کر 21 منٹ سے 9 بج کر 25 منٹ کے درمیان آئس لینڈ کے شمال میں چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایک ہزار کلومیٹر کے مربع میں گرے گی۔

    ماہرینِ فلکیات نے اس شے کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کی جو زمین سے 50 ہزار کلو میٹر کے فاصلے کے اندر تھی لیکن کوئی بھی اس شعلے کی تصویر یا ویڈیو نہیں بنا پایا۔

  • سائنس دانوں نے کروڑوں سال قبل زمین سے سیارچے کے ٹکرانے کا درست وقت معلوم کر لیا

    سائنس دانوں نے کروڑوں سال قبل زمین سے سیارچے کے ٹکرانے کا درست وقت معلوم کر لیا

    سائنس دانوں نے کروڑوں سال قبل زمین سے سیارچے کے ٹکرانے کا درست وقت معلوم کر لیا، اس شہاب ثاقب کے ٹکرانے سے شمالی امریکی ملک گرین لینڈ میں 19 میل چوڑا گڑھا پڑ گیا تھا۔

    ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈائنو سار کے کچھ لاکھ سال بعد ایک شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں 19 میل چوڑا گڑھا پڑ گیا تھا، سائنس دانوں نے آخر کار گرین لینڈ میں ہیاواتھا سیارچے کے نتیجے میں پڑنے والے گڑھے کے وقت کا تعین کر لیا ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق گرین لینڈ میں جو شہاب ثاقب گرا تھا وہ 58 ملین سال پہلے گرا تھا، یعنی صرف 8 ملین (80 لاکھ) سال بعد جب ایک شہاب ثاقب نے زمین پر ڈائنوسارز کے وجود کو مٹا دیا تھا۔یہ گڑھا 2015 میں دریافت ہوا تھا جو برف کی تہہ کے نیچے دبا ہوا تھا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ حالیہ تعین کردہ وقت اس دور سے کافی پہلے کا ہے جو اس سے قبل سمجھا جاتا تھا، درست وقت معلوم کرنے کے لیے یونیورسٹی آف کوپین ہیگن کے گلوب انسٹیٹیوٹ اور ڈنمارک کے نیچرل ہسٹری میوزیم کی ایک ٹیم نے تصادم کی جگہ کی مٹی کے ذرّات پر لیزر شعاؤں کی بمباری کی تھی۔

    یہ ایک سائنسی طریقہ کار ہے جس میں لیزر شعاعوں سے مٹی کو اس وقت تک گرم کیا گیا جب تک اس سے آرگن گیس خارج ہونا شروع نہیں ہوگئی، اور پھر اس کو استعمال کرتے ہوئے انھوں نے گڑھے کے 5.8 کروڑ سال پُرانے ہونے کا تعین کیا۔

    سوئیڈش میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں جب یورینیم – لیڈ ڈیٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے چٹان کے زِکرون کرسٹل کا تجزیہ کیا گیا تو اس سے بھی یہی دور سامنے آیا۔ گلوب انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر نِکولج کروگ لارسن کا کہنا تھا کہ گڑھے کی عمر کا علم ہونا بہت شان دار ہے، ہم اس کی عمر کا تعین کرنے میں 7 سال سے محنت کر رہے ہیں۔

    سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تھا تو اس تصادم کے نتیجے میں ایٹم بم کی نسبت کئی لاکھ گُنا زیادہ توانائی خارج ہوئی تھی اور 19 میل چوڑا اور 0.6 میل گہرا گڑھا پڑ گیا تھا۔

  • ناسا نے زمین کو خلا سے لاحق بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ناسا نے زمین کو خلا سے لاحق بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ناسا کے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایک بہت بڑا سیارچہ زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھتا چلا آ رہا ہے، یہ سیارچہ فرانس کے ایفل ٹاور سے بھی بڑا ہے، اور ناسا کی جانب سے اسے زمین کے لیے ممکنہ طور پر خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ آسمان سے ایک دیوہیکل آفت تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ آفت 4660 Nereus نامی سیارچہ ہے جو فرانس کے ایفل ٹاور سے بھی بڑا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارچے کے رواں ہفتے کے آخر تک زمین کے بہت قریب پہنچنے کا امکان ہے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق یہ سیارچہ 11 دسمبر کو زمین کے مدار سے گزرے گا، اس سیارچے کا قطر 330 میٹر سے زیادہ ہے، اور یہ تقریباً 3.9 ملین کلومیٹر کے فاصلے سے زمین کے پاس سے گزرے گا۔

    اگرچہ اس سے ہماری زمین کو کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، اور 4660 نیریوس کی مطلق شدت 18.4 ہے، تاہم ناسا نے 22 سے کم شدت کے سیارچے کو ممکنہ طور پر خطرناک قرار دیا ہے۔

    ناسا کے مطابق یہ سیارچہ پہلی بار 1982 میں دریافت ہوا تھا، اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ زمین کے قریب سے گزرتا ہے، سورج کے گرد اس کا 1.82 سالہ مدار اسے تقریباً ہر 10 سال بعد ہمارے قریب لاتا ہے۔

    تاہم خلائی سائنس کے نقطہ نظر سے اس کا ’قریب‘ ہونا بھی ایک محفوظ فاصلہ ہے، 1982 سے ناسا اور جاپانی خلائی ایجنسی JAXA اس سیارچے کی نگرانی کر رہے ہیں، چاند زمین سے جتنا دور ہے یہ سیارچہ اس سے دس گنا زیادہ دوری پر چکر کاٹ رہا ہے۔

  • سورج کے گرد خطرناک اور بے قاعدہ رفتار سے چکر لگانے والا شہابیہ دریافت

    سورج کے گرد خطرناک اور بے قاعدہ رفتار سے چکر لگانے والا شہابیہ دریافت

    واشنگٹن: ماہرینِ فلکیات نے نظامِ شمسی کا سب سے تیز رفتار شہابیہ دریافت کیا ہے، تاہم یہ شہابیہ (asteroid) نہایت بے قاعدگی سے سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے اور اس دوران خطرناک حد تک سورج کے قریب چلا جاتا ہے۔

    شہابیہ دریافت کرنے والے کارنیگی انسٹیٹیوشن آف سائنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف 113 دن میں سورج کے گرد ایک چکر مکمل کر لیتا ہے، اگرچہ سیارہ عطارد (مرکری) صرف 88 دن میں سورج کے گرد اپنا چکر پورا کرتا ہے، تاہم عطارد ایک سیارہ ہے اور اس کا مدار بھی مستحکم ہے۔

    شہابیے کا مدار

    فلکیاتی ماہرین نے بتایا ہے کہ نو دریافت فلکیاتی جسم ایک شہابیہ ہے، جس کا مدار خاصا بے قاعدہ اور بیضوی شکل کا ہے، جب یہ اپنے مدار میں گردش کر رہا ہوتا ہے تو اس دوران یہ سورج سے صرف 2 کروڑ کلومیٹر کی نزدیکی پر آ جاتا ہے، یہ فاصلہ عطارد کے سورج سے اوسط فاصلے (4 کروڑ 70 لاکھ کلومیٹر) سے بھی کم ہے۔

    اس شہابیے کی جسامت تقریباً ایک کلومیٹر ہے، اسے اسکاٹ شیپرڈ اور ان کے ساتھیوں نے دریافت کیا ہے، اور اسے 2021 PH27 کا نام دیا گیا ہے، جب یہ شہابیہ سورج سے انتہائی دوری پر ہوتا ہے تو اس وقت اس کا فاصلہ 11 کروڑ کلو میٹر ہوتا ہے، یعنی سیارہ زہرہ (وینس) کے مدار سے بھی زیادہ، لیکن اپنے بے قاعدہ مدار کی وجہ سے یہ محض 2 کروڑ کی دوری پر بھی آ جاتا ہے۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق سورج کے زیادہ قریب آ جانے پر اس شہابیے کی رفتار اور زیادہ ہو جاتی ہے، اور سطح بھی شدید گرم ہو کر درجہ حرارت 500 ڈگری سینٹی گریڈ کے لگ بھگ پہنچ جاتا ہے۔

    ’2021 پی ایچ 27‘ کی دریافت کی تصدیق کئی طاقت ور دوربینوں کی مدد سے کی جا چکی ہے۔

    شہابیہ کہاں سے آیا؟

    اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ اس کا تعلق کروڑوں سال قدیم شہابیوں کی پٹی سے ہے، ماہرین فلکیات نے اس کا عجیب و غریب مدار دیکھا تو یہ خیال ظاہر کیا کہ شاید یہ آج سے کروڑوں سال پہلے ’شہابیوں کی پٹی‘ (ایسٹرائیڈ بیلٹ) میں ہوا کرتا تھا۔

    ایک آرٹ ورک کے ذریعے نو دریافت شہابیے کو سورج کے گرد چکر کے دوران سیارہ مرکری کے قریب سے گزرتے دکھایا گیا ہے

    واضح رہے کہ اَن گِنت چھوٹے بڑے شہابیوں والی یہ پٹی مریخ اور مشتری کے درمیان واقع ہے، ماہرین کے مطابق شاید کسی وجہ سے اس شہابیے کا مدار متاثر ہوا اور اس نے اپنا راستہ بدل لیا۔

    اس شہابیے کا مستقبل کیا ہے؟

    ماہرین فلکیات کے مطابق اس کا موجودہ مدار بھی غیر مستحکم ہے، لہٰذا بہت امکان ہے کہ آئندہ چند لاکھ سال میں یہ زہرہ، عطارد یا سورج سے جا ٹکرائے اور اپنا وجود ہمیشہ کے لیے ختم کر لے، یا پھر اپنے موجودہ مدار کے مقابلے میں بالکل مختلف مدار میں چلا جائے۔

    اسکاٹ شیپرڈ کا کہنا ہے کہ ایسے عجیب و غریب فلکی اجسام کی دریافت سے ہمیں شہابیوں اور دُمدار ستاروں کی ابتدا و ارتقا سے متعلق جاننے میں خاصی مدد ملے گی، اور ہم خود اپنے نظامِ شمسی کے بارے میں بھی بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو سکیں گے۔

  • زمین کو خطرہ؟ یکم جون کو ایک بڑا سیارچہ قریب سے گزرے گا

    زمین کو خطرہ؟ یکم جون کو ایک بڑا سیارچہ قریب سے گزرے گا

    واشنگٹن: ناسا کا کہنا ہے کہ بھارت میں موجود مجسمہ اتحاد سے بھی بڑا سیارچہ یکم جون کو زمین کے قریب سے گزرے گا، جو ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یکم جون کو زمین سے 72 لاکھ کلو میٹر فاصلے سے ایک سیارچہ گزرے گا، ناسا کا کہنا ہے کہ اس کا سائز بھارتی شہر گجرات میں ایستادہ ولبھ بھائی پٹیل کے 182 میٹر بلند مجسمے سے بھی بڑا ہے اور اس کا سائز 186 میٹر ہے۔

    ناسا نے اس سیارچے (Asteroid) کو KT1 کا نام دیا ہے، اگرچہ اس کا فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے بھی 20 گنا زیادہ ہے تاہم اس کے باوجود اس کو فلکیاتی پیمانے پر ’قریب‘ سمجھا جاتا ہے۔

    66 ملین سال پہلے جب قُطر میں محض چند کلو میٹر پر مشتمل ایک سیارچہ زمین سے ٹکرایا تھا، تو اس نے ہمارے نیلے سیارے پر پودوں اور جانوروں کی تین چوتھائی نسل کا صفایا کر دیا تھا، ان میں ڈائناسارز بھی شامل تھے، اور اس سے جو دھماکا ہوا وہ کئی لاکھ نیوکلیئر ہتھیاروں کے بہ یک وقت دھماکے کے برابر تھا۔

    سیارچوں پر نگاہ رکھنے کے لیے ناسا کی قائم کردہ جیٹ پروپلژن لیبارٹریز کے مطابق کے ٹی وَن نامی یہ سیارچہ 31 مئی سے 2 جون کے درمیان زمین سے نہایت نزدیکی میں گزرنے والے پانچ سیارچوں میں سے ایک ہے۔

    ایک بس جتنا سیارچہ آج (اکتیس مئی) کو زمین کے قریب سے گزرے گا، اس کا فاصلہ چاند کے فاصلے کا ایک تہائی ہوگا، دیگر سیارچوں میں دو ایسے ہیں جو عام گھر جتنے ہیں، اور ایک سیارچہ ہوائی جہاز جتنا ہے، یہ سیارچے زمین سے 11 لاکھ کلو میٹر سے لے کر 59 لاکھ کلو میٹر کے درمیان فاصلوں سے گزریں گے۔

    اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ چوں کہ ان سیارچوں کا سائز چھوٹا ہے اس لیے یہ نقصان دہ نہیں ہیں، تاہم کے ٹی وَن سیارچہ سائز میں بڑا ہے، ناسا ہر اس سیارچے کو ممکنہ خطرناک قرار دیتا ہے جو 150 میٹر سے بڑا اور 75 لاکھ کلو میٹرز کے فاصلے کے اندر ہو۔

    ناسا ایسے سیاروں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے، کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ متحرک سیاروں سے آنے والی کشش ثقل کھینچاؤ میں تبدیلی کی وجہ سے کوئی سیارچہ اپنا راستہ تبدیل کر سکتا ہے۔

    مذکورہ سائز کا کوئی سیارچہ اگر زمین سے ٹکرا جائے تو اس سے ہمارے نیلے سیارے پر تباہ کن اثر پڑ سکتا ہے، خوش قسمتی سے ناسا ایسی ٹیکنالوجیز تیار کر چکا ہے جسے خلا میں بھیج کر خطرناک سیارچے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا سکتا ہے۔

  • زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ رواں برس نومبر میں ایک سیارچہ زمین سے ٹکرائے گا تاہم زمین کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

    ناسا نے حال ہی میں ایک سیارچے کا مشاہدہ کیا ہے جو خلا میں زمین سے براہ راست تصادم کے راستے پر ہے، 6.5 میٹر قطر کا یہ سیارچہ نومبر تک زمین کے قریب پہنچ جائے گا۔

    ناسا کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخاب سے ایک روز قبل 2 نومبر کو یہ سیارچہ زمین کی فضا میں داخل ہوجائے گا۔ زمین پر اس کے اثرات ایک فیصد سے بھی کم ہوں گے لہٰذا یہ سیارچہ زمین کے لیے کسی قسم کا خطرہ ثابت نہیں ہوگا۔

    اس سیارچے کو کیلی فورنیا کی رصد گاہ میں 2 سال قبل دیکھا گیا تھا۔

    اس سے قبل سنہ 2018 میں ایک خطرناک جسامت کا سیارچہ زمین کے نہایت قریب آگیا تھا، ویسٹا نامی یہ سیارچہ پاکستان کے کل رقبے جتنا بڑا تھا جبکہ سیارچے میں 13 میل بلند پہاڑ بھی موجود تھے۔

    ناسا کا کہنا تھا کہ وہ سیارچہ جو زمین سے ٹکرا کر ڈائنو سارز کے نسل کے خاتمے کی وجہ بنا، صرف 10 سے 15 کلومیٹر چوڑا تھا، جبکہ ویسٹا کی چوڑائی 252 کلو میٹر تھی۔ اس کے زمین سے ٹکرانے کی صورت میں زمین پر سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔

    تاہم خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں تھا جس پر زمین سے اس کا تصادم ہوسکے، چنانچہ یہ زمین کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اپنے راستے پر خلا کی وسعتوں میں گم ہوگیا۔

  • شہاب ثاقب تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا ہمیں خطرہ ہے؟

    شہاب ثاقب تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے، کیا ہمیں خطرہ ہے؟

    خلا میں ایک چھوٹا سا شہاب ثاقب زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور سائنسدانوں کے مطابق وہ یا تو زمین کے قریب سے گزر جائے گا، یا اگر زمین کے زیادہ قریب آیا تو فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا زمین کے قریب سے گزرنے والے اجسام کا مشاہدہ کرنے والا ادارہ (سی ای این او ایس) ایک شہاب ثاقب کو ٹریک کر رہا ہے جسے  2020 ای ایف کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب ممکنہ طور پر زمین کے قریب سے گزر جائے گا اور اگر زمین کے زیادہ قریب آیا تو وہ فضا میں ہی پھٹ جائے گا۔

    یہ شہابیہ 10 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس کا قطر 98 ڈایا میٹر ہے۔

    مزید پڑھیں: اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ شہابیہ زمین کے قریب سے گزر جائے گا، اور اگر زمین کے قریب آیا تب بھی اس کی جسامت اتنی چھوٹی ہے کہ یہ کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

    تاہم زمین پر گرنے سے قبل یہ زمین کی فضا میں پھٹ سکتا ہے اور اس سے روشنی کا اخراج ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق زمین کی فضا میں شہاب ثاقب پھٹنے کا واقعہ اس سے قبل سنہ 2013 میں روس میں پیش آیا تھا جس سے روشنی کا ایک زوردار جھماکہ پیدا ہوا تھا اور یہ سورج کی روشنی سے 30 گنا زیادہ تھا۔

    اس واقعے میں 180 افراد آنکھوں کی تکلیف اور 70 عارضی نابینا پن کا شکار ہوگئے تھے، جبکہ کھڑکیاں ٹوٹنے اور ایک فیکٹری کی چھت گر جانے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔

  • اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    یہ 16 اپریل 2018 کا دن تھا۔ خلا سے جی ای 3 نامی ایک سیارچہ تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا اور سائنس دان اس راستے کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا تھے جہاں سے اس سیارچے کا زمین سے تصادم یقینی تھا۔

    تھوڑی دیر بعد سیارچہ زمین سے صرف 1 لاکھ 90 ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر رہ گیا۔ یہ اس فاصلے سے بھی نصف تھا جو چاند سے زمین کا ہے یعنی 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلو میٹر۔

    یکایک اس سیارچے نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور سورج کی طرف جانے لگا جس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے خلائی مراکز میں اسکرینز پر نظریں جمائے بیٹھے سائنسدان خوشی سے اچھل پڑے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ زمین سے اس سیارچے کے تصادم کا خطرہ ٹل چکا تھا۔

    خطرہ تو ٹل چکا تھا تاہم یہ واقعہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ ایک فٹبال کے میدان جتنا یہ سیارچہ اگر اپنا راستہ تبدیل نہ کرتا اور اسی طرح بڑھتا رہتا تو زمین کے باسیوں کا مقدر کیا تھا؟

    کیا اس سے پہلے آنے والے سیارچوں کی طرح یہ سیارچہ بھی زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا؟ اور اگر اپنے بڑے حجم کی وجہ سے یہ تیزی سے زمین کی طرف پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجاتا تو اس کے بعد کیا ہونا تھا؟

    خلا سے مختلف سیارچوں کا زمین کی طرف آنا معمول کی بات ہے۔ ہر روز خلا سے تقریباً 100 ٹن ریت اور مٹی زمین سے ٹکراتی ہے۔

    سال میں صرف ایک بار کسی کار کے جتنی جسامت رکھنے والا سیارچہ زمین کے قریب آتا ہے لیکن یہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی بھی زمین کی سطح سے نہیں ٹکراتا۔

    وہ سیارچہ جو 10 کلومیٹر چوڑا تھا اور جس نے ڈائنو سار کی نسل کا خاتمہ کردیا، کئی لاکھ سال میں شاذ و نادر زمین کی طرف اپنا رخ کرتا ہے۔

    ہماری اصل پریشانی کا سبب وہ پتھر ہیں جو جسامت میں سیارچے سے چھوٹے ہوتے ہیں اور انہیں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے۔ یہ شہاب ثاقب بھی 2 ہزار سال میں ایک بار زمین کی طرف آتے ہیں۔

    تصور کریں ایک 100 میٹر طویل پتھر 19 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آپ کی جانب آرہا ہو تو یہ نظارہ کس قدر خوفناک ہوگا۔

    اگر یہ شہاب ثاقب زمین کی فضا سے صحیح سلامت گزر گیا تو اسے زمین کی سطح سے ٹکرانے میں صرف 3 سیکنڈ لگیں گے۔

    چونکہ زمین کے صرف 3 فیصد حصے پر آبادی موجود ہے لہٰذا قوی امکان ہے کہ شہاب ثاقب سمندر میں جا گرے۔ تاہم ان میں سے کوئی آدھ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو کسی پرہجوم شہر سے جا ٹکرائے۔

    اس کے بعد کیا ہوگا؟

    اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے، کوئی شہاب ثاقب زمین کی سطح سے آ ٹکراتا ہے تو نیویارک جیسے پرہجوم شہر میں یہ واقعہ 25 لاکھ اموات کا سبب بن سکتا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب جس مقام پر گرے گا اس مقام کے 2 میل کے دائرے میں ہر چیز تباہ ہوسکتی ہے جبکہ 7 میل کے دائرے تک میں موجود عمارتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ایک امکان یہ بھی ہے کہ خلا میں بھیجے جانے والے انسانی مشنز کی بدولت یہ پتھر تابکاری سے آلودہ ہوں۔ ایسی صورت میں یہ تابکار پتھر زمین پر گرتے ہی آدھی سے زیادہ آبادی کو چند لمحوں میں فنا کرسکتے ہیں۔

    ایسے ممکنہ تصادم کی صورت میں تابکار پتھر کا ملبہ زمین کے گرد ویسے ہی حلقوں کی صورت گھومنے لگے گا جیسے سیارہ زحل کے گرد حلقے موجود ہیں۔

    اس میں سے زیادہ تر ملبہ بھی واپس زمین پر آ گرے گا جس سے شہروں اور جنگلات میں آگ لگ جائے گی۔

    زمین کی سطح پر بے تحاشہ دھول اور دھواں پھیل جائے گا جس سے بچنے کے لیے زندہ رہ جانے والے انسانوں کو زیر زمین بنکرز میں جانا ہوگا۔

    یہ دھواں اور گرد و غبار سورج کی روشنی کو زمین پر پہنچنے سے روک دے گا۔ سورج کے بغیر زیادہ تر پودے اور جانور مر جائیں گے۔

    تقریباً ایک سال بعد زمین کی فضا گرد و غبار سے کچھ صاف ہوگی تاہم اس وقت تک انسانوں کے کھانے کے لیے نہایت قلیل مقدار میں اشیا موجود ہوں گی۔

    ماہرین کے مطابق اس ممکنہ تصادم، اس کی تباہی اور بعد ازاں خوراک کی ناپیدگی انسانوں کی نسل کو ایسے ہی معدوم کردے گی جیسے آج سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سارز کی نسل معدوم ہوگئی۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ زمین سے اوپر اس کی فضا ایسی ہے جو سیارچوں کو زمین کی طرف آنے سے روک دیتی ہے اور فضا میں موجود گیسیں سیارچوں اور خلا سے آنے والے پتھروں کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

    دوسری جانب دنیا کا سب سے بڑا خلائی مرکز ناسا بھی ہر وقت زمین کے ارد گرد خلا میں نظر رکھے ہوئے ہے۔

    تاہم بری خبر یہ ہے کہ سیارچے کے زمین سے تصادم کا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک وہ زمین سے بہت قریب نہ آجائے، اور ایسی صورت میں ہمارے پاس بچنے کے لیے بہت کم وقت ہوگا۔

  • جاپان نے خلائی میدان میں تاریخ رقم کردی

    جاپان نے خلائی میدان میں تاریخ رقم کردی

    ٹوکیو: جاپان کی خلائی ایجنسی نے کامیابی سے اپنے دو روبوٹک روور (خلائی گاڑی) ایک سیارچے پراتارکرخلائی تحقیق کے میدان میں تاریخ رقم کردی ہے، کسی بھی سیارچے پر اتاری جانے والی یہ پہلی خلائی گاڑی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جاپانی خلائی ایجنسی کے دو چھوٹے روور ’رائیگو‘ نامی سیارچے کی سطح پر لینڈ کرچکے ہیں ، یہ روور ’ہایا بوسا -2 ‘ نامی اسپیس کرافٹ کے ذریعے خلا میں بھیجے گئے تھے۔

    دونوں روبوٹ اس سیارچے کی ایک کلومیٹر پر پھیلی ہوئی چٹانی سطح پر گھوم پھر سکیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیارچے کی سطح پر کششِ ثقل کم ہونے کے سبب یہ خلائی گاڑیاں سطح کے دوسری جانب بھی جاسکیں گی۔

    جاپانی خلائی ایجنسی کے ماہرین کے مطابق دونوں خلائی گاڑیاں بہترین حالت میں ہیں اور یہ سیارچے کی سطح پر رہتے ہوئے موسم کا ریکارڈ رکھیں گی اور سطح کی تصویریں بھی لے کر زمین کی جانب ارسال کریں گی۔

    خلائی ایجنسی نے روورز سے لی جانے والی تصاویر ٹویٹ کرتے ہوئے اس تاریخ ساز لمحے کا اعلان کیا ہے ، یہ تصاویر ہایا بوسا 2 نامی اسپیس شپ کے ذریعے زمین پر بھیجی گئی ہیں ، اس خلائی جہاز کو رائیگو نامی اس سیارچے کی سطح پر پہنچنے ساڑھے تین سال لگے ہیں۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل یورپی خلائی ایجنسی ایک برفیلے ستارے پر اپنی خلائی گاڑی اتارچکے ہیں تاہم کسی سیارچے پر اترنے والی یہ پہلی خلائی گاڑیاں ہیں۔ سیارچے اب سے چار اعشاریہ چھ ارب سال قبل تشکیل پانے والی کائنات کا بچ جانے والا ملبہ ہے، رائیگو کو کہا جارہا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی دور کا سیارچہ ہے جس سے کائنات کے ارتقاء کو سمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔

  • پاکستان کے رقبے سے بڑا سیارچہ زمین سے خطرناک حد تک قریب

    پاکستان کے رقبے سے بڑا سیارچہ زمین سے خطرناک حد تک قریب

    پاکستان کے کل رقبے جتنا بڑا سیارچہ زمین سے خطرناک حد تک قریب آگیا۔ سیارچے کو رات کے اوقات میں بغیر کسی ٹیلی اسکوپ کے باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔

    ویسٹا نامی یہ سیارچہ ہمارے نظام شمسی کے اندر موجود چوتھا بڑا معلوم سیارچہ ہے۔ یہ زمین سے صرف 10 کروڑ 60 لاکھ میل کے فاصلے پر موجود ہے۔

    اس سیارچے کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے سے معمولی سا زیادہ یعنی 8 لاکھ کلو میٹر ہے۔ سیارچے میں 13 میل بلند پہاڑ بھی موجود ہے۔

    یہ سیارچہ نہایت آسانی سے آسمان پر دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی بیرونی سطح روشنی کو چاند سے زیادہ منعکس کرتی ہے۔

    اگر یہ سیارچہ زمین سے ٹکرا گیا تو زمین سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    اس کو سمجھنے کے لیے یہ کہنا کافی ہوگا کہ وہ سیارچہ جو زمین سے ٹکرا کر ڈائنو سارز کے نسل کے خاتمے کی وجہ بنا، صرف 10 سے 15 کلومیٹر چوڑا تھا، جبکہ ویسٹا کی چوڑائی 252 کلو میٹر ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں ہے جس پر زمین سے اس کا تصادم ہوسکے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ برس بھی دو سیارچے زمین کے انتہائی قریب سے گزرے ہیں۔

    اپریل 2017 کو 2014 جے او 25 نامی سیارچہ زمین سے محض 11 لاکھ میل کے فاصلے سے گزرا تھا۔ یہ فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے 4.6 گنا زیادہ تھا۔

    ستمبر 2017 میں فلورنس نامی سیارچہ زمین سے 43 لاکھ 91 ہزار میل کے فاصلے سے گزرا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔