Tag: Astore District

  • وادیٔ استور جسے کشمیر خورد بھی کہا جاتا ہے

    وادیٔ استور جسے کشمیر خورد بھی کہا جاتا ہے

    پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا ایک ضلع استور اپنے قدرتی حُسن اور سرسبز وادیوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ یہ گلگت سے کشمیر جانے والے راستے پر واقع ایک اہم شہر ہے جسے اس کی خوب صورتی، قدرتی مناظر اور آب و ہوا کی وجہ سے ’’کشمیر خورد‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی استور کا ایک گاؤں پولو فیسٹیول کے لیے بھی مشہور ہے۔

    استور زمانۂ قدیم سے آباد خطّہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ البیرونی کے دور میں اس شہر کا نام اسور تھا۔ فارسی زبان میں اس شہر کو باسارا کہا جاتا تھا۔ ایک قدیم کتبہ کی دریافت کے بعد ماہرین کو معلوم ہوا کہ کبھی استور کو سندی ویشیا بھی کہا جاتا تھا۔

    مؤرخین اور جغرافیہ کے ماہرین بتاتے ہیں‌ کہ اسے متعدد ناموں سے پکارا گیا اور یہاں صدیوں کے دوران بسنے والی اقوام کی زبان اور روایات کے مطابق نام بدلتا رہا، لیکن قرین قیاس یہی معلوم ہوتا ہے کہ استور اپنے قدیم نام اسور سے ہی نکلا ہے۔ عہدِ قدیم میں یہ علاقہ راجہ گمون کے ماتحت تھا، مغلوں کے آخری دور میں وہ استور کا راجہ تھا۔ مغل حکم رانوں کے آخری ادوار میں کشمیر کے راجہ نے اس علاقہ پر تسلط قائم کر لیا اور استور کے حاکم نے اس کی امارت تسلیم کر لی۔ جب گلاب سنگھ ڈوگرا کو انگریزوں نے کشمیر فروخت کردیا اور وہ یہاں کا حاکم بنا تو اس کے ایک وزیر لکھپت نے اسکردو کی فتح کے بعد استور کا بھی محاصرہ کر لیا۔ یہاں‌ ایک قلعہ تھا جس کا محاصرہ چار ماہ تک جاری رہا۔ جب سامانِ رسد ختم ہوگیا تو استور کے محافظوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ یوں استور کے راجہ گرفتار ہوگئے۔ مؤرخین کے مطابق 1846ء سے 1893ء کے دوران استور کے باسیوں پر بے انتہا مظالم کیے گئے۔ گلاب سنگھ کے بارے میں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ ایک نہایت ظالم اور سفاک حکم راں تھا جس نے کشمیر اور قرب و جوار کے علاقوں پر حملہ کرکے قبضہ کیا اور وہاں کے عوام سے بھاری ٹیکس وصول کرنے کے لیے طرح طرح‌ کے مظالم کیے اور خوب ستم ڈھائے۔

    تقسیمِ ہند کے موقع پر مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا لیکن استور کو آزادی نصیب ہوئی۔ استور کی علاقائی زبان شینا ہے اور خواندہ افراد قومی زبان اردو بھی جانتے ہیں۔

    نانگا پربت چوٹی پر جانے کے لیے استور سے ہی راستہ جاتا ہے۔ استور سے دس کلو میٹر اور نانگا پربت کے پاس راما جھیل ہے جو دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہونے کی علاوہ ٹراؤٹ مچھلی کی بہتات کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں سیّاح آتے جاتے رہتے ہیں‌ جن کے لیے یہاں پر ریسٹ ہاؤس اور ہوٹل بنایا گیا ہے۔ وادیٔ استور سیاحوں کے لیے ایک پُرکشش مقام ہے۔ وہ یہاں کے سیب، آڑو اور چیری کے باغات کے علاوہ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور سرسبز و شاداب علاقے میں موجود پہاڑ، دریا، جھیلوں اور چراگاہوں میں وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔

    استور کی وادیوں میں‌ جگوٹ کی وادی اس علاقہ کی دوسری بڑی وادی ہے جہاں باغات کے علاوہ گندم اور مکئی کی فصل پیدا ہوتی ہے۔ روپل کی وادی بھی بہت خوب صورت ہے۔ استور کے چھوٹے بڑے دیہات میں آباد لوگ نہایت مہمان نواز ہیں جن کی اپنی ثقافت اور رسم و رواج ہیں۔ یہاں کے مخصوص پکوان اور تہوار کے ساتھ اگر سیاحوں کو شادی بیاہ اور خوشی کی دیگر تقریبات دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے تو وہ اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ یورپ اور مغربی ممالک سے آنے والوں کے لیے مقامی لوگوں‌ کا رہن سہن، ان کا اوڑھنا بچھونا اور یہاں‌ کی روایتی چیزیں دل چسپی کا باعث بنتی ہیں۔

  • ضلع استور میں شدید برفباری، بالائی علاقوں میں 6 انچ تک برف پڑ چکی

    استور: ملک کے بالائی علاقوں میں برف باری کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، ضلع استورمیں شدید برفباری ہو رہی ہے، اور بالائی علاقوں میں اب تک 6 انچ تک برف پڑ چکی ہے۔

    ڈی سی استور محمد ذوالقرنین کے مطابق استور میں 4 انچ، چلم 8 انچ، منی مرگ میں 6 انچ برف پڑی ہے، برزل ٹاپ پر ڈیڑھ انچ، بوبند ویل، قمری نگی، زیان اور پشواڈی میں 5 انچ برف پڑی ہے۔

    شنکر گڑھ، فقیر کوٹ، میر ملک، چمروٹ، اور گھساٹ میں 3 سے 4 انچ تک برف پڑی ہے، چھوگام، ناصر آباد، اور رٹو رحمان پور میں 2 انچ تک برف پڑ چکی ہے۔ دوسری طرف ضلع استور کے زیریں علاقوں میں ایک انچ تک برف پڑی ہے۔

    بالائی علاقوں سمیت بالائی سرحدی علاقوں میں برف باری کا سلسلہ جاری ہے، اور یخ بستہ ہواؤں کی وجہ سے سردی کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے۔

    میدانی علاقوں میں ٹریفک کا نظام جزوی طور پر، جب کہ بالائی علاقوں میں ٹریفک کا نظام مکمل معطل ہو چکا ہے، ڈپٹی کمشنر استور نے ہدایت جاری کی ہے کہ برف باری کے دوران شہری غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں۔

    ڈی سی استور محمد ذوالقرنین نے بتایا کہ بالائی علاقوں کی برف سے متاثرہ سڑکوں کی بحالی کا کام شروع ہو گیا ہے، استور ویلی ہیڈکوارٹر، بالائی علاقے رٹو اور چلم روڈ کھلی ہے، چلم تا برزل ٹاپ، منی مرگ، کامری اور ڈومیل کی رابطہ سڑکیں بند ہیں، چلم سے برزل ٹاپ گلتری روڈ بھی بند ہے۔

    انھوں نے کہا کہ اگر رات تک برفباری نہ ہوئی تو رابطہ سڑکیں بحال کر دیں گے، کل تک موسم صاف ہونے پر بالائی علاقوں کے زمینی راستے بحال ہو جائیں گے۔

  • امریکی شکاری نے ایک لاکھ 20 ہزار ڈالر کے عوض مارخور شکار کر لیا

    امریکی شکاری نے ایک لاکھ 20 ہزار ڈالر کے عوض مارخور شکار کر لیا

    گلگت: ایک اور امریکی شکاری نے بھاری رقم کے عوض گلگت بلتستان ضلع استور میں مار خور کا شکار کر لیا، شکار کیے گئے مارخور کے سینگوں کی لمبائی 40 انچ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈوئیاں کنزرویشن ایریا میں ٹرافی ہنٹنگ کے لیے امریکی شکاری تھیمس گیرک نے ایک لاکھ 20 ہزار ڈالر فیس ادا کی، ٹرافی ہنٹنگ کی 80 فی صد رقم مقامی آبادی کے فلاح و بہبود پر خرچ کی جاتی ہے، جب کہ صرف 20 فی صد رقم حکومت کو ملتی ہے۔

    جنوری میں بھی ایک امریکی شکاری نے ایک لاکھ 23 ہزار ڈالر کے عوض گلگت خومر جوٹیال نالے میں مارخور کی ٹرافی ہنٹنگ کی تھی، محکمہ جنگلی حیات کے مطابق مارخور کے سینگوں کی لمبائی 43 انچ تھی۔

    دسمبر 2021 میں چترال میں ایک روسی شکاری نے ایک لاکھ 35 ہزار ڈالر پر مارخور کا شکار کیا تھا، الیگزینڈر اگرو نامی شکاری نے سیزن کا دوسرا شکار کیا تھا، یہ 36 انچ سینگوں والا مارخور تھا جس کی عمر 8 سال تھی، خیال رہے کہ ہر سال چترال میں 3 ہنٹنگ ٹرافی پرمٹ جاری ہوتے ہیں۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کا باقاعدہ آغاز 98-1997 میں شروع کیا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصد مارخور کے غیر قانونی شکار کی حوصلہ شکنی کرنا ہے، ٹرافی ہنٹنگ کی وجہ سے پاکستان میں مارخور کی تعداد 3500 بڑھ کر 4000 ہو چکی ہے۔