Tag: Astronauts

  • ویڈیو: چینی خلا باز 6 ماہ بعد زمین پر اتر گئے

    ویڈیو: چینی خلا باز 6 ماہ بعد زمین پر اتر گئے

    بیجنگ: چینی خلائی جہاز شینزو 14 کا عملہ 6 ماہ بعد اتوار کو خلائی اسپیس اسٹیشن سے واپس زمین پر آ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق چینی خلائی جہاز کا عملہ 6 ماہ بعد خلائی جہاز کے ’ری انٹری کیپسول‘ میں سوار ہو کر زمین پر واپس آ گیا ہے، عملے کو لانے والا کیپسول عین اسی جگہ اُترا جس کی نشان دہی ماہرین نے کی تھی۔

    مشن میں خاتون خلا باز سمیت 3 چینی خلاباز شامل تھے، تینوں خلا نورد تیانگونگ خلائی اسٹیشن کے آخری تعمیراتی مرحلے کی نگرانی کے لیے 5 جون کو خلا میں گئے تھے اور انھوں نے اسپیس اسٹیشن میں 183 دن گزارے۔

    ان خلا نوردوں کی جگہ لینے کے لیے کچھ روز قبل شینزو 15 کا عملہ خلا میں پہنچ چکا ہے۔

    واضح رہے کہ چین اپنے خلائی پروگرام پر گزشتہ چند سالوں سے بہت زیادہ توجہ دے رہا ہے اور چین امریکا کے بعد خلائی پروگرام میں سرمایہ کاری کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے، جو روس اور جاپان سے بھی زیادہ مشن خلا میں بھیج رہا ہے۔

    ان تین خلابازوں میں کمانڈر چن ڈونگ اور ان کی ٹیم کے ساتھی لیو یانگ (خاتون) اور کائی شوزے شامل ہیں، جو نومبر میں مکمل ہونے والے خلائی اسٹیشن کی تعمیر کے آخری اور اہم مرحلے کی نگرانی کر رہے تھے، تمام خلا نوردوں نے پہنچنے کے بعد کہا کہ لینڈنگ کے بعد وہ بالکل ٹھیک محسوس کر رہے ہیں۔

    کیپسول رات 8:09 بجے (بین الاقوامی وقت کے مطابق دوپہر 12:09 پر) شمالی چین کے اندرونی منگولیا خود مختار علاقے میں ڈونگفینگ سائٹ پر  اترا، خلائی ایجنسی کے عملے نے 5 جون کو شروع ہونے والے پورے مشن کو ’مکمل کامیاب‘ قرار دیا۔ لینڈنگ سائٹ پر موجود عملے نے تھکے ہوئے نظر آنے والے عملے کو ایک ایک کر کے باہر نکالا، اور تینوں کو کیپسول سے بحفاظت نکالا گیا۔

  • کیا خلائی سفر سے واپسی پر خلا باز مذہب اور روحانیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں؟

    کیا خلائی سفر سے واپسی پر خلا باز مذہب اور روحانیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں؟

    امریکی خلائی ادارے ناسا سمیت دنیا بھر میں مختلف خلائی ادارے خلا میں جانے اور وہاں نئی نئی ریسرچز کرنے میں مصروف عمل ہیں، ایسے میں خلا میں جانے والے زمینی باشندوں کے جسم پر پڑنے والے اثرات کا بھی بغور مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

    یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ خلا میں جانے کے بعد خلا بازوں کے جسم اور دماغ پر مختلف اثرات رونما ہوتے ہیں جو زمین پر واپسی کے کچھ عرصے تک قائم رہتے ہیں۔

    جسمانی تبدیلیوں کے علاوہ ان کے ذہن و نفسیات میں بھی مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

    بعض بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق خلا میں جانے والے خلا باز اپنے سفر کے دوران مذہب اور روحانیت کی طرف بھی مائل ہوجاتے ہیں۔

    خلا میں جانے والے پہلے امریکی جان گلین نے، جو خلا میں جانے والے دنیا کے تیسرے شخص تھے، اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ کوئی مذہبی انسان نہیں تھے تاہم جب وہ خلا میں تھے تب باقاعدگی سے عبادت کرنے لگے تھے۔

    جان کا کہنا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ جب آپ عقل سے ماورا ایک غیر معمولی مقام پر ہوں اور کائنات کی بے کراں وسعت کو دیکھ سکتے ہوں، تو ایسے میں آپ خدا کو نہ یاد کریں، اگر آپ خدا کو نہ بھی مانتے ہوں گے تو ایسے موقع پر اس کے جاہ و جلال پر ایمان لے آئیں گے۔

    سنہ 1968 میں اپالو 8 مشن پر چاند پر جانے والے امریکی و برطانوی خلا بازوں نے بھی اپنی منزل پر پہنچ کر بائبل کی آیات پڑھیں جنہیں پوری دنیا نے براہ راست ٹی وی نشریات پر دیکھا۔

    اسی طرح چاند پر قدم رکھنے والے اولین انسانوں نیل آرمسٹرونگ اور بز آلڈرن نے بھی چاند پر پہنچ کر سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور عبادت کی۔

    سنہ 1985 میں سعودی شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز خلا میں جانے والے پہلے مسلمان بنے جنہوں نے زمین کے مدار کے گرد چکر لگاتے ہوئے قرآنی آیات کی تلاوت کی۔

    شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز

    مذہب کا یہ سفر یہیں ختم نہیں ہوتا، خلائی سفر سے واپسی کے بعد خلا بازوں کی زندگی میں عظیم تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کئی خلاباز ایسے تھے جو ریٹائر ہونے کے بعد مذہبی سرگرمیوں و مذہبی ریسرچ سے وابستہ ہوگئے۔

    ناسا نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ خلا سے واپسی کے بعد خلا باز عموماً روحانیت اور فلاح انسانیت کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔

    زمین سے دور اندھیرے اور لامحدود خلا میں رہنا انہیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ خدا نے انہیں زمین جیسی نہایت خوبصورت نعمت سے نواز رکھا ہے۔

    اکثر خلا باز اپنے انٹرویوز میں یہ کہتے بھی دکھائی دیے کہ وہ جنگوں اور خونریزی سے نفرت کرنے لگے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام انسان امن اور محبت سے رہیں۔

    خلا بازوں کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں دنیا کے صاحب ثروت اور مراعات یافتہ افراد، مشکلات کا شکار افراد کی مدد کریں کیونکہ وہ سب ایک خاندان کی طرح ہیں جنہیں خدا نے اس زمین پر اتارا ہے۔

    اکثر خلا بازوں نے کہا کہ زمین جیسی خوبصورت نعمت کے ہوتے ہوئے نفرت کا پرچار کرنا، دوسرے انسانوں کو اپنے سے کمتر سمجھنا اور زمین کی خوبصورتی کو تباہ کرنا کفران نعمت ہے، زمین دنیا کے تمام انسانوں کا مشترکہ اثاثہ ہے اور سب کو اس کی قدر کرنی چاہیئے۔

  • پاکستان کا اپنے خلانوردوں کو خلا میں بھیجنے کا فیصلہ

    پاکستان کا اپنے خلانوردوں کو خلا میں بھیجنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : پاکستان نے اپنے خلانوردوں کو خلا میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ، وفاقی کابینہ اجلاس میں پاک چین خلائی مشن معاہدے کی توثیق کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان نے چین کے تعاون سے اپنے خلانوردوں کو خلا میں بھیجنے کا فیصلہ کرلیا ہے، پاکستان چین کی مدد سے پاکستان کو اسپیس مشن پر بھیجے گا۔

    وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں خلانوردوں سے متعلق معاملات ایجنڈے کا حصہ ہیں، کابینہ پاک چین خلائی مشن معاہدے کی توثیق کرے گی۔

    یاد رہے 9 جولائی کو پاکستان نے خلا اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار چائنہ کی مدد سے تیار کردہ سیٹلائیٹ PRSS-1 اور پاکستانی انجینئرز کا تیار کردہ سیٹلائیٹ پاک ٹیس-1 اے خلا میں بھیجے تھے۔

    دونوں سیٹلائٹس چینی ساختہ راکٹس کی مدد سے لانچ کیے گئے تھے۔

    مزید پڑھیں : پاکستان نے اپنے پہلے سیٹلائٹس لانچ کردیے

    پی آر ایس ایس 1 ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے جو زمین کی مختلف خصوصیات اور معدنی ذخائر کا جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ دوسرا سیٹلائٹ پاک ٹیس – 1 اے حساس آلات اور کیمروں سے لیس خلا میں 610 کلو میٹر کے فاصلے پر رہے گا اور سورج کے اعتبار سے اپنی جگہ تبدیل نہیں کرے گا۔

    سپارکو کے مطابق خلا میں بھیجے گئے سیٹلائیٹ ماحولیاتی تبدیلیوں ، قدرتی آفات اور زراعت کے شعبوں سے متعلق معلومات فراہم کریں گے جبکہ ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی سمیت مستقبل کی منصوبہ بندی میں بھی سیٹلائیٹ معاونت فراہم کریں گے۔

    اس سیٹلائٹ کی لانچنگ کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہونے لگا، جو زمینی مدار میں اپنا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ روانہ کر چکے ہیں۔

    بعد ازاں 14 اگست کو خلا میں بھیجی جانے والی پہلی ریموٹ سنسگ سیٹلائٹ کا مکمل کنٹرول پاکستان کے حوالے کردیا گیا تھا، جس پر صدر مملکت اور نگراں وزیراعظم نے سپارکو کے انجینئرز اور سائنسدانوں کو مبارکباد پیش کی تھی۔

  • اماراتی خلا باز ملک کے لیے باعثِ افتخار ہیں: شیخ ہمدان

    اماراتی خلا باز ملک کے لیے باعثِ افتخار ہیں: شیخ ہمدان

    دبئی : ولی عہد اور محمد بن راشد اسپیس سنٹر کے چیئرمین ، شیخ ہمدان بن محمد بن راشد المکتوم کا کہنا ہے اماراتی خلا باز متحدہ عرب امارات کے لیے باعثِ افتخار ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اماراتی خلاباز وں کو سراہنے کے لیے جاری کردہ پیغام میں انہوں نے کہا کہ اماراتی خلا باز جو کہ خلا میں جانے کے لیے ہیں، ان کا یہ سفر ملک کے لیے ترقی کی نئی نوید ہے۔

    انہوں نے محمد بن راشد اسپیس سنٹر کی کاوشوں کو بھی سراہا جن کے جذبے نے اماراتی اسپیس پروگرام اور قومی اسپیس پالیس کو نافذ کرنے میں مدد دی، انہی کی کاوشوں سے یو اے ای خلا تک رسائی میں کامیاب ہوا ہے۔

    انہوں نے اپنی نیک خواہشات کا اظہا کرتے ہوئے کہا کہ اماراتی شہری ثابت کررہے ہیں کہ وہ دنیا کے کئی میدانوں میں قدم جمانے اور قیادت کرنے کے اہل ہیں۔

    یاد رہے کہ اماراتی خلا د نور ہذا المنصوری اور سلطان ال نیادی کو انتخاب امارات کے وزیر اعظم شیخ محمد بن راشد المکتوم نے کیا ہے اور ان کی تربیت نا سا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے زیراہتمام کی گئی ہے کہ وہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں جاکر خدمات انجام دے سکیں ۔

    اپنے ٹویٹر پیغام میں شیخ ہمدان نے خلا نوردوں کو مخاطب کرکے کہا کہ ’ہمیں آپ پر اور ر محمد بن راشد اسپیس سنٹر کی کاوشوں پر فخر ہے۔ آپ کے سبب یو اے ای خلا میں تاریخ رقم کرے گا‘۔

  • خلا بازوں کو زمین واپسی پر چشمے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟

    خلا بازوں کو زمین واپسی پر چشمے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟

    زمین کے مخصوص حالات سے باہر نکل کر خلا میں جانا کوئی آسان بات نہیں۔ خلا میں کشش ثقل کی عدم موجودگی کے باعث حالات و واقعات زمین سے مختلف ہوتے ہیں۔

    یہ کشش ثقل زمین پر ہمیں اور تمام اشیا کو سیدھا زمین پر کھڑا رکھتی ہے۔ جب کوئی شے یا کوئی شخص خلا میں جاتا ہے تو وہ کھڑا نہیں رہ پاتا اور خلا میں تیرنے لگتا ہے۔

    کشش ثقل کی یہ عدم موجودگی خلا میں جانے والوں کی جسمانی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

    خلا میں کچھ عرصہ وقت گزارنے کے بعد زمین پر واپس آنے والے خلابازوں کا جب معائنہ کیا گیا تو دیکھا گیا کہ ان کی نظر خاصی کمزور ہوگئی تھی۔

    زمین پر واپسی کے بعد خلا بازوں کو عموماً ڈرائیونگ اور مطالعے کے لیے چشمے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق خلا باز اس کے علاوہ بھی کئی جسمانی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کا دل سکڑ جاتا ہے جبکہ ریڑھ کی ہڈی میں کھنچاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔


    کمزوری نظر کی وجہ

    ابتدا میں خیال کیا جاتا تھا کہ نظر کی یہ کمزوری سر پر دباؤ پڑنے کی وجہ سے ہوجاتی ہے تاہم بعد ازاں یہ نظریہ غلط ثابت ہوا۔

    دراصل یہ کمزوری جسم میں موجود سیربرو اسپائنل فلڈ (سی ایس ایف) نامی مائع کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ مائع ہمارے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں موجود ہوتا ہے اور نمکیات کی جسم میں گردش اور مضر صحت اجزا کا اخراج یقینی بناتا ہے۔

    تاہم اگر طویل عرصے تک زمین کے مدار سے باہر رہا جائے تو یہ مائع آنکھوں کے گرد جمع ہوجاتا ہے۔ اس کے باعث آنکھوں کے اعصاب سوج جاتے ہیں۔

    آنکھوں کے گرد اس مائع کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی، خلا باز کو دیکھنے میں اتنی ہی زیادہ تکلیف محسوس ہوگی۔

    بالآخر جب خلا باز زمین پر واپس آتے ہیں تو ان کی آنکھیں معمول کے مطابق نہیں رہ پاتیں اور خلا بازوں کو چشمے کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خلا میں دانت کیسے برش کیے جاتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: خلا میں جانے والوں کی غاروں میں تربیت


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلا میں جانے والوں کی غاروں میں تربیت

    خلا میں جانے والوں کی غاروں میں تربیت

    تاریخ انسانی میں پہلی بار جب انسان چاند کے کامیاب سفر سے واپس لوٹا تو اسے چاند اور پھر زمین کے ماحول سے مطابقت کرنے میں بہت دقت پیش آئی۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین، اور زمین سے باہر خلا میں موجود ہر شے کا ماحول مختلف ہے۔ صرف خلا میں سفر کرنا ہو، یا چاند یا کسی اور سیارے پر قدم رکھ کر وہاں کی سرزمین کا مشاہدہ کرنا ہو، زمین سے جانے والوں کو اس ماحول سے مطابقت کرنے میں کچھ دقت ہوتی ہے۔

    اسی طرح کئی دن خلا میں گزارنے کے بعد جب خلا باز واپس زمین پر آتے ہیں، تو اب وہ خلا کے ماحول کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں اور انہیں زمین کے گرد و پیش سے مطابقت کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: خلا میں دانت کیسے برش کیے جاتے ہیں؟

    اس سلسلے میں سب سے اہم عنصر کشش ثقل ہے۔ زمین پر موجود کشش ثقل، یعنی ہر چیز کو نیچے کی طرف رکھنے والی قوت، زمین کی حدود سے باہر نکلتے ہی ختم ہوجاتی ہے اور اب آپ خلا کی بے کراں وسعتوں میں الٹے سیدھے تیر رہے ہوتے ہیں، کیونکہ وہاں ایسی کوئی قوت نہیں جو آپ کو سطح پر جکڑ کر رکھے۔

    ایک اور پہلو وہ حالات ہیں جو زمین سے باہر پیش آتے ہیں۔ مثلا پانی یا غذا کی عدم دستیابی، خلا میں بکھری چٹانوں کے ٹکڑوں کا سامنا، ممکنہ طور پر پہاڑوں کی موجودگی۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    یہ وہ ماحول ہے جو سائنسدانوں کو زمین پر رہتے، ایک عام زندگی گزارتے ہوئے میسر نہیں ہوتا لہٰذا جب خلا میں اس گر دو پیش میں وہ کسی مشکل میں پھنستے ہیں تو بعض اوقات ان کی عقل کام کرنا چھوڑ جاتی ہے اور وہ کسی حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔

    غار کس طرح خلا سے مشابہہ؟

    خلا بازوں کی اس کمزوری پر قابو پانے کے لیے یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے نے سنہ 2011 میں ایک تربیتی پروگرام کا آغاز کیا جس کے تحت خلا بازوں کو غاروں میں رکھا جانے لگا۔

    پرگرام میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ غاروں میں دنیا سے کٹ کر رہنا، اور پانی، خوراک اور دیگر وسائل کی عدم موجودگی کم و بیش وہی حالات ہیں جو خلا میں پیش آتے ہیں۔

    caves-4

    اسی طرح غاروں میں موجود چٹانیں، پانی اور ان کے باعث پیدا ہونے مختلف حالات جیسے چٹانوں کا ٹوٹنا یا پانی میں جوار بھاٹا اٹھنا وغیرہ خلا میں جانے والوں کو ایک اشارہ دیتے ہیں کہ ان کے خلا میں گزارے جانے والے دن کیسے ہوسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلا نوردوں کے لیے زمین سے کھانے کی ترسیل

    یورپی خلائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف سیاروں اور زمین پر پائے جانے والے مختلف غاروں کی تصاویر کو بغور دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ دنوں مقامات میں بے حد مشابہت ہے۔

    caves-3

    غاروں کے قدیم پتھر اور چٹانیں وقت کے طویل ارتقا کی گواہ ہوتی ہیں، لہٰذا ان کو دیکھنا، ان پر تحقیق کرنا اور ان کا جائزہ لینا خلا بازوں کے لیے دراصل ایک تربیت ہوگی کہ وہ خلا میں جا کر کس طرح کام کریں گے۔

    غار میں رہائش کے دوران خلا باز ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کے لیے مختلف سرنگوں سے، بیٹھ کر، لیٹ کر اور رینگ کر گزرتے ہیں لہٰذا یہ کٹھن تربیت انہیں خلائی سفر کے لیے تیار کر رہی ہوتی ہے۔

    caves-2

    یہ پروگرام ان خلا بازوں کے بے حد فائدہ مند ہے جو طویل خلائی سفر کے لیے جا رہے ہوں اور خاص طور پر ان کا مشن کسی سیارے پر اتر کر زندگی کو ڈھونڈنا ہو۔

    یورپی ایجنسی اس پروگرام کے تحت اب تک کئی خلا بازوں کی خلا میں جانے سے پہلے تربیت کر چکی ہے۔

    ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے خلا بازوں کی نئی آنے والی نسلیں زمین سے باہر کے حالات کے بارے میں واقف ہوتی جائیں گی یوں ان کی صلاحیتوں اور استعداد میں اضافہ اور کسی خطرے کا شکار ہونے کے امکان میں کمی ہوگی۔