Tag: astronomy

  • جہاز ہوا میں معلق ہو تو کیا اس کے نیچے موجود مقام آگے بڑھے گا؟

    جہاز ہوا میں معلق ہو تو کیا اس کے نیچے موجود مقام آگے بڑھے گا؟

    تحریر: ملک شعیب

    سوال: جہاز یا ہیلی کاپٹر ایک جگہ کھڑا ہو جائے تو کیا اس کے نیچے سے زمین یا مقام آگے بڑھ جائے گا؟

    ہماری زمین اپنی فضا کے ساتھ سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے اور اپنے محور میں بھی گردش کر رہی ہے۔ زمین کی کشش ثقل ہر چیز کو اپنے مرکز یعنی کور کی جانب کھینچ رہی ہے، جس کی وجہ سے زمین کے اندر موجود ہر شے زمین کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی۔

    جہاز اڑتا ہے لیکن وہ زمین کی فضا کے اندر ہے اور کشش ثقل کی قید میں ہے، لیکن اس میں موجود توانائی جہاز کا توازن قائم رکھے اسے آگے بڑھا رہی ہے، جس کی وجہ سے جہاز زمین پر گرتا نہیں ہے بلکہ آگے بڑھتا ہے۔

    جب تک ہر شے زمین کی کشش ثقل کی قید میں ہوگی تب تک وہ زمین سے باہر نہیں جا سکتی۔

    لہٰذا اس سوال کا جواب یہ ہے کے اگر جہاز ہوا میں معلق ہو جائے تو اس کے نیچے جو مقام ہوگا، وہ آگے نہیں بڑھے گا۔ وجہ پھر وہی ہے کہ ہر شے جو زمین پر ہے یا ہوا میں معلق ہے، وہ ایک ڈوم میں قید ہے۔

    اسی طرح چلتی ہوئی ٹرین یا بس کو بھی ایک ڈوم سمجھیں۔ جب تک ایک ڈرون ٹرین یا بس میں ایک جگہ کھڑا رہے گا، تو اس کے نیچے سے ٹرین یا بس آگے نہیں بڑھ جائے گی بلکہ ڈرون کھڑی حالت میں بھی ٹرین یا بس کے ساتھ ہی آگے بڑھے گا۔

    جیسے ہی ڈرون، ٹرین یا بس کے فریم آف ریفرنس سے باہر نکلے گا تو دونوں کے راستے الگ الگ ہو جائیں گے۔ اسی طرح جو بھی چیز زمین سے باہر نکلے گی اس کے اور زمین کے راستے الگ الگ ہو جائیں گے۔ جس طرح جیمز ویب ٹیلی اسکوپ زمین کی حدود سے باہر ہے لیکن سورج کی کشش ثقل میں مقید ہے۔

  • خلاؤں میں خوش قسمتی ڈھونڈتا بدقسمت انسان

    خلاؤں میں خوش قسمتی ڈھونڈتا بدقسمت انسان

    وہ ہاسٹل کے کمرے میں سر جھکائے کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔ آج مسلسل تیسرا روز تھا ‘ جب اس کی گرل فرینڈ اس سے ملنے آئی تھی اور وہ ملنے نہیں گیا تھا ۔ وہ اب تک اُس لڑکی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں کر پایا تھا ۔ اپنی اِس نیم مفلوج ٹانگ کے ساتھ وہ کس طرح اُس پیاری ، معصوم سی لڑکی سے جاکر ملتا جس کی جھیل سی گہری آنکھوں میں محبت کے دیپ جلے ابھی کچھ ایسا زیادہ عرصہ بھی نہیں ہوا تھا ۔ وہ جلد مجھے بھول کر کسی اور کو ساتھی چُن لے گی۔

    اُس نے سرجھٹک کر سامنے ٹیبل پر پڑی کتاب اٹھائی ہی تھی کہ دروازہ بہت زور سے کھلا اور ہاسٹل قوانین کی پرواہ کیئے بغیر جَین اُس کے کمرے میں موجود تھی۔ ہاکنگ گھبرا کر تیزی سے اٹھا ۔ پھر لڑکھڑایا ‘ جِین اپنی جگہ ساکت تھی۔

    "چلی جاؤ! پلیز چلی جاؤ‘ میری زندگی سے ہمیشہ کے لیئے چلی جاؤ ۔۔ میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتا "۔۔وہ آنسوؤں کے درمیان بہت زور سے چلایا ۔۔

    مگر جَین وہیں اپنی جگہ کھڑی رہی ۔۔اور پھر وقت نے دیکھا کہ جین وائلڈ اگلے چھبیس برس تک ہاکنگ کا ساتھ نبھاتی رہی ۔ شدید اعصابی مرض کے باعث ہاکنگ کے اعضاء ایک ایک کر کےناکارہ ہوتے گئے،اس کی زندگی سے کامیابیاں ، امنگیں اور خوشیاں بھی ان کے ساتھ رخصت ہوتی گئیں ‘ مگر جین کسی آہنی چٹان کی طرح پے در پے آنے والے طوفا نوں کا مقابلہ کرتی رہی ۔ ہاکنگ کے پاس زندگی کی طرف واپس لوٹنے کے لیے کچھ بھی تو نہ بچا تھا ۔مگر جین جانتی تھی ، اُس کے پاس بہترین دماغ تھا ۔”اور دماغ یقیناًٌ ہر انسانی عضو کا بادشاہ ہے”۔

    اکیس برس کی عمر میں سٹیفن ہاکنگ پر پہلی دفعہ’ایمیو ٹراپک لیٹیرل سکیلیروسز ‘ نامی مرض کا حملہ ہوا جس میں مریض کے تمام آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ، یہ صرف مریض ہی کے لیے نہیں اس کے عزیز واقارب کے لیئے بھی ایک انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے جس میں انسان سسکتے ہوئے بہت بےبسی سے موت کی طرف بڑھتا ہے ۔ڈاکٹرز کے اندازوں کے مطابق وہ صرف دو برس اور جی سکتا تھا ۔

    اُس کے والدین نے گہری تشویش میں کیمبرج یونیورسٹی رابطہ کیا کہ’’آیا وہ اپنا پی ایچ ڈی مکمل کر سکے گا تو یونیورسٹی کا جواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا مگر اِس بالشت بھر کے انسان نےجس کی کُل کائنات ایک ویل چیئر اور اُس پر نصب چند کمپیوٹر سسٹمز اور ایک سکرین ہے،نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے ۔۔ وہ آج زندگی کی پچھتر سے زائد بہاریں دیکھ چکا ہے اور اب بھی ستاروں پر کمندیں ڈالنےکے خواب دیکھتا ہے۔وہ جس کی پوری زندگی بذاتِ خود ایک معجزہ ہے وہ نا معجزوں پرایمان رکھتا ہے نا ہی پوری طرح خدا کے وجود پر ۔اگرچہ وہ مقدر کا سکندر ہے مگر وہ تقدیر کے لکھے پر یقین نہیں رکھتا اس کا استدلال ہے ۔

    اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی کے ابتدائی ایام


    "میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ تقدیر کے اَٹل اور نا قابلِ تغیر ہونے پر پختہ ایمان رکھتے ہیں وہ بھی سڑک پار کرتے ہوئے دائیں بائیں ضرور دیکھتے ہیں”۔ سٹیفن ولیم ہاکنگ ۸ جنوری ۱۹۴۲ کو فرینک ہاکنگ اور آئزوبیل ہاکنگ کے ہاں جنم لینے والا پہلا بچہ تھا ۔ اسی تاریخ کو تقریباٌ تین سو سال قبل مشہورِز مانہ ماہرِ طبیعات "گلیلیو گلیلی "کی وفات ہوئی تھی ۔ درحقیقت گلیلیو ہی وہ پہلا سائنسدان تھا جس کی تحقیق اور قوانین سے کائنات کے سر بستہ راز وں کے پردے چاک کرنے کا آغاز ہوا ، جسے انتہاء پر سٹیفن ہاکنگ نے پہنچایا۔

    بچپن میں اس کا شمار کچھ زیادہ ذہین طالبعلموں میں نہیں ہوتا تھا ۔پڑھائی کے بجائے وہ ریل گاڑیاں ، راکٹ اور جہاز بنانے میں دلچسپی رکھتا اورفار غ اوقات میں اپنے گھر کے پچھواڑے گھنٹوں تنہا بیٹھ کر آسمان کو تکا کرتا ۔ اس نے ابتدائی تعلیم سینٹ البان سکول اور یونیورسٹی کالج آکسفورڈ سے حاصل کی۔ ہاکنگ کے والدین بھی آ کسفورڈکے فارغ التحصیل تھے ۔۔ فرینک ہاکنگ ٹراپیکل ڈیسزپر ریسرچ کر رہے تھے اور انکا ارادہ اسے بھی میڈیسن میں بھیجنے کا تھا ، مگر انکی توقع کے بر خلاف اُس نے میتھ میٹکس کو ترجیح دی ۔۔چونکہ اس وقت تک آکسفورڈ کالج میں میتھ میٹکس کی ڈگری نہیں تھی سو ہاکنگ نے اپنے لیئے تھیوریٹیکل فزکس کا انتخاب کیا ۔بظا ہر ہونق سے نظر آنے والے ہاکنگ کو صنفِ نازک ہی نہیں عموماٌ اسا تذہ بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتےتھے۔

     

    Stephen Hawking

    اس میں خود اعتمادی کی اس قدر شدید کمی تھی کہ جب وہ آکسفورڈ میں سکالر شپ کا امتحان دینے گیا تو اتنا زیادہ نروس تھا کہ پریکٹیکل امتحان بھی صحیح طرح نہیں دے پایا ۔۔ اس صورتحال میں وہاں داخلہ ممکن نہ تھا سو مایوس ہوکر ہاکنگ کہیں اور قسمت آزمائی کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک روز اسے سکالر شپ لیٹر موصول ہوا۔ یہ اس پر قدرت کی مہربانیوں کا آغاز تھا ۔مستقبل میں بھی بارہا ایسا ہوتا رہاکہ جب کبھی وہ مایوسیوں کے اندھیروں میں غرق ہوکر فنا ہونے کو تھاتوکہیں نہ کہیں سے آس اور امید کے در وا ہوکر اُسے زندگی کی طرف واپس لاتے رہے۔

    ہاکنگ کے سفر کا زینہ – جین


    اُس نے کیمبرج یونیورسٹی میں تحقیق کے لیے فلکیات کا شعبہ منتخب کیا جو فی الوقت وہاں علاقۂ غیر سمجھا جاتا تھا اور بہت کم طالب علم اس میں طبع آزمائی کی ہمت کر پاتے تھے ۔ یہیں پہلے سال کے دوران اُس کی طبیعت گری گری رہنے لگی ،کئی دفعہ وہ سیڑھوں سے ٹھوکر کھا کر گر پڑا ۔۔تب سٹیفن ہاکنگ پر یہ خوفناک انکشاف ہواکہ وہ ایک ایسے موذی مرض میں مبتلا ہے جس سے مسلز کو کنٹرول کرنے والے اعصاب آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس بیماری سے ہمت اور بہادری کے ساتھ لڑنے میں اس کے والدین کے علاوہ جین وائلڈ کا بھی کافی ہاتھ رہا۔

    ہاکنگ کا کہنا ہے کہ ایک طرح سےیہ بیماری میرے لیے گڈ وِل چارم ثابت ہوئی ، مجھے نہیں معلوم تھا کہ زندگی مجھے اور کتنا وقت دینے والی ہے سومیں نے ہر میسر لمحے کو پوری طرح استعمال کیا کہ جب کبھی کسی بے رحم لمحے میں موت اپنے آہنی پنجوں کے ساتھ میری طرف بڑھے تو میری آنکھوں میں کوئی نا تمام حسرت نہ ہو۔ 1965 میں جین وائلڈ کے ساتھ اس کے شادی بھی ایک ایسا ہی سمجھوتا تھی، اگرچہ جین اس سے سچی محبت کرتی تھی مگر اسے شادی کرتے وقت علم تھا کہ یہ ساتھ محض ایک ، دو یا چند برسوں کا ہے ۔جس میں ہاکنگ کی خطرناک بیماری کے باعث کچھ ناگوار اور نا پسندیدہ موڑ آنے کابھی خدشہ موجود تھا مگر وہ دھیرے دھیرے موت کی طرف بڑھتے اس باہمت شخص کی آخری خواہشات پوری کرنے کا پختہ ارادہ کر چکی تھی اور اس کی قربانی رائیگاں نہیں گئی ۔

    Stephen Hawking

    جین کے ساتھ ،محبت اور توجہ نے ہاکنگ کو بڑا سہارا دیا اور چند برسوں تک اعصابی بیماری جیسے تھم سی گئی۔۱۹۶۸ میں ان کے ہاں پہلے بچے "رابرٹ "کی پیدائش ہوئی تو جیسے زندگی کو جینے کا نیا مفہوم ملا پھر ایک سال بعد ننھی "پری لوسی "نے آکر تو جیسےکائنات ہی مکمل کردی ۔ اَسی سال بلیک ہولز پر اس کی ریسرچ کو سراہتے ہوئے اُسے انسٹیٹیوٹ آف ایسٹرانامی کیمبرج کی اعزازی رکنیت سے بھی نوازا گیا ۔ اتنی ڈھیر ساری خوشیوں نے اسے جینے کا نیا ولولہ عطا کیا اور آہستہ آہستہ جسم پر بیماری کا اثر کم ہوتا چلا گیا ۔یہ ہاکنگ کے عروج کا آغاز تھا اور آج لگ بھگ چھیالیس سال بعد بھی زندگی کے کسی بھی دشوار ترین دور ، کسی بھی اذیت ناک لمحے میں اُسے زوال کا منہ دیکھنا نہیں پڑا ۔

    بیماری کی شدت


    مگر اگلے ہی برس ایک دفعہ پھر اس پر بیماری کا شدید حملہ ہوا ، جس سے اس کا نچلا دھڑ اور ٹانگیں اس قدر متاثر ہوئیں کہ وہ یونیورسٹی جانے کے لیے وھیل چیئر استعمال کرنے لگا ۔ ہاتھوں میں رعشہ اس قدرتھا کہ وہ ہاتھ سے ایک چھوٹی سی ایپلیشن بھی لکھنے سے قاصر تھا ، سوکبھی جَین اور کبھی اس کا کوئی یونیورسٹی فیلو ریسرچ پیپرز ٹائپ کر دیا کرتے تھے ۔انہی کی مدد سے اس نے پہلی کتاب "زمان و مکاں کا تصوراتی ڈھانچہ "تحریر کی ،اگرچہ اس کتاب کو مستقبل میں شائع ہونے والی سٹیفن ہاکنگ کی کتابوں کی نسبت زیادہ پزیرائی حاصل نہیں ہوئی، پھر بھی بلیک ہولز کے خدوخال کے متعلق جو نظریات ہاکنگ نے اِس میں متعارف کروائےاس سےطبیعات اور خاص طور پر فلکیات کے حلقوں میں اسے زبردست شہرت حاصل ہوئی۔۔اور تب ہی "ہاکنگ ریڈییشنز "کی اصطلاح وجود میں آئی ۔ اور اُس کے بعد اِس منہنی سے شخص نے پھر مڑ کر نہیں دیکھا ۔

    زندگی اُس پر پے در پے ستم توڑتی چلی گئی مگر قسمت ہمیشہ مہربان رہی ۔۔۱۹۸۵ میں سرن میں ایک کانفرنس کے دوران سٹیفن ہاکنگ نمونیا کا شکار ہوا ۔اور چند ہی رو ز میں اس کے حالت اتنی بگڑ گئی کہ ڈاکٹر اس کی زندگی کی طرف سے مایوس ہو کر وینٹی لیٹر ہٹانے لگے تھے ۔مگر جَین کا وجدان کہتا تھا کہ ہاکنگ کو ابھی اور بہت سارے سال جیناہے اس نے فوری طور پر ہاکنگ کو ایڈن بروک ہاسپٹل کیمبرج منتقل کروایا ۔۔ جہاں ڈاکٹر نے ایک بڑا رسک لیتے ہوئے اس کی سرجری کا فیصلہ کیا ۔اِس آپریشن سے پہلے بھی ہاکنگ کی گویائی اتنی متاثر ہو چکی تھی کہ صرف اُس قریب رہنے والے لوگ ہی اس کی بات سمجھ پاتے تھے ،پھر بھی دنیا سے رابطے کا ایک ٹوٹا پھوٹا ہی سہی سہارا تو تھا ۔وہ اپنے سیکرٹری کی مدد سے ریسرچ پیپر لکھوا لیا کرتا تھا ،کانفرنس اور سیمینارز میں اسے ترجمہ نگار کی سہولت فراہم کی جاتی تھی جو اُس کے بے ربط جملوں کو قابلِ مفہوم بناتا ۔مگر اِس آپریشن کے بعدگویا دنیاسے رابطے کا آخری در بھی بند ہو گیا تھا۔

    مایوسی کے افق کے اس پار


    ہاکنگ جتنی ہمت کرتا تھا ز ندگی اس کے لیے اتنا ہی بڑا اور کھٹن امتحان لیکر آتی تھی ۔ایک عرصے تک وہ اپنے گھر کے بیڈ روم ،تو کبھی لاؤنج میں اپنی وہیل چیئر پر بیٹھ کر خلاؤں میں تکتا رہا۔ رات میں جب کبھی شدید ڈپریشن میں کھلے آسمان تلے جا کر بیٹھتا تو اَن گنت ستارے ، سیارے ، سیارچے اور کہکشائیں اس کے گرد رقص کرنے لگتیں ۔وہ ہاکنگ کو کائنات کے انوکھے نغمے ، اَ ن کہی داستانیں سناتے لیکن ظالم وقت نے اس سےدنیا سےرابطے کا آخری وسیلہ بھی چھین لیا تھا ۔

    اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں رہا تھا جس سے وہ دنیا کو آسمانوں کی وہ مخفی کہانیاں سنا سکے ، جو اسے بہت واضح دکھائی بھی دیتی تھیں اور سنائی بھی ۔جَین سے اس کی یہ حالت چھپی نہیں ہوئی تھی‘ راتوں کو جب ہاکنگ گھر کے آنگن میں تنہا بیٹھا ستاروں کو تکا کر تا تو اندر بیڈ روم میں جین کا تکیہ آنسوؤں سے بھیگتا رہتا ۔

    Stephen Hawking

    مایوسی کے انہی گھٹاٹوپ اندھیروں میں ایک روز جَین اُس کے پاس سپیل کارڈلیکر آئی جس پر انگریزی کے حروف واضح درج تھے ۔ہاکنگ ان حروفِ تہجی کو آنکھ کے اشارے سے منتخب کرکے الفاظ اور جملے بناتا ۔ لیکن اس طریقۂ کار سے سامنے والے کے لیے اس کی بات سمجھنا ایک دشوار گزار عمل تھا ۔زندگی اسے ہرانے پر مصر تھی مگر وہ ہار ماننے پر تیار نہیں تھا ،اسے جینا تھا اور بہت کچھ کرکے جینا تھا ۔ بڑھتی ہوئی مالی پریشانیوں نے جَین کو بہت چڑ چڑا کر دیا تھا ۔تین بچوں کا ساتھ اور ایک معذور شخص ۔ ہاکنگ سے اس کی یہ حالت پوشیدہ نہیں تھی سو بہتر مستقبل کی تلاش میں وہ کچھ عرصے بعد انگلینڈ سے کیلیفورنیا منتقل ہو گئے ۔اگرچہ جین کو ا بتدا میں اس فیصلے پر اعتراض تھا مگر بعد میں کیل ٹیک ( کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی ) کی طرف سے جو سہولیات ہاکنگ کو فراہم کی گئیں وہ ان کے لیے بہت مددگار ثابت ہوئیں۔

    یہاں قسمت ایک دفعہ پھر ہاکنگ پر مہربان ہوئی ،کیمبرج کے ڈیوڈ میسن نے اس کی الیکٹرک چیئر اپ ڈ یٹ کرنے کا بیڑا اٹھایا اور ایک سپیچ سینتھی سائزرکے ساتھ ایک کمپیوٹر سکرین اس چیئرمیں نصب کی گئی جس کے ذریعے وہ ابتدا میں فی منٹ تین الفاظ منتخب کرسکتا تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ اپنی سوچوں کو الفاظ میں ڈھال کر کمپیوٹر کی ڈسک میں سیو کرنے کی سہولت بھی اسے میسر آگئی تھی ۔یہ طریقۂ کار سٹیفن ہاکنگ آج تک دنیا کی ناموریونیورسٹیز اور سیمینارز میں لیکچرز دینے کے لیے استعمال کرتا ہے اگرچہ جو آواز سینتھی سائزرنشر کرتا ہے وہ اس کی قدرتی آواز سے مکمل مشا بہہ نہیں ہے مگر یہ اس کے نام پر رجسٹرڈ ہے اور ہاکنگ کا ٹریڈ مارک سمجھی جاتی ہے۔ حالات کچھ بہتر ہوتے ہی سٹیفن ہاکنگ نے بگ بینگ پر ایک کتاب لکھنے کابیڑا اٹھایا ۔ مگر میں ایک بڑا مسئلہ حسابی فارمولوں اور مساواتیں لکھنے کا تھا کیونکہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے لکھنے سے قاصر تھا ۔بعض اوقات اس پر اتنی شدید مایوسی طاری ہوجاتی کہ وہ سنجیدگی سے خودکشی کے بارے میں سوچنے لگتا مگر جین اور اس کے دوست ہمہ وقت اس کی ہمت بندھاتے رہے انہی کی معاونت سے اسے "لیٹکس "نامی ایک ایسا کمپیوٹر پروگرام مل گیا جس کے ذریعے وہ ہر طرح کے فارمولے اور مساواتیں لکھ سکتا تھا ۔”

    معرکتہ الآراء تصانیف


    اگرچہ وہ اب تک خدا کی مدد پر یقین نہیں رکھتا مگر خدا بار بار حالات کی سختی کو گھما کر اس کی طرف لاتا رہا ہے کہ شاید کبھی اس کا ایمان پختہ ہوجائے ،ہاکنگ آج تک انسانیت اور سائنس کے لیئ جو کچھ کر پایا ہے بظاہر وہ سائنس کا کرشمہ نظر آتا ہے ،مگر در حقیقت یہ ہر اس ذی شعور کے لیے قدرت کا ایک جیتا جاگتا شاہکار ہے جو ٹیکنالوجی سے متا ثر ہو کر ملحد بنتا جا رہا ہے "۔ انہی حالات میں اس کی دوسری کتاب "وقت کا سفر "شائع ہوئی اور کاسمولوجی کی دنیا میں اِ س کتاب نے تہلکہ مچا دیا ۔

    یہ کتاب مسلسل چارسال تک "لندن سنڈے ٹائمز” کی بیسٹ سیلر لسٹ پر رہی ۔ اس کی آج تک چالیس ملین کاپیز فروخت ہو چکی ہیں اور اردو سمیت چالیس سے زائد زبانوں میں اِس کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ حالانکہ یہ "زمان و مکاں” اور "ٹائم ٹریول "کےموضوع پر لکھی گئی ایک مشکل ترین کتاب ہے جو عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے،اِس کے باوجود اس کے اگلے ایڈیشنز بھی بیسٹ سیلر لسٹ میں شامل رہے۔ "وقت کا سفر ” کے پیچیدہ ترین اور ہمہ گیر موضوع سے قطعۂ نظر اِسے ایک ایسے شخص نے لکھا تھا جو پوری طرح اپنے ہاتھوں کو جنبش بھی نہیں دے سکتا ۔

    ہاتھ سے لکھنے والے شاید اندازہ کر سکیں کے اِس شخص نے ایک ایک لفظ کمپیوٹر سکرین پر منتخب کرکے یہ دقیق کتاب کس طرح لکھی ہوگی ، اگرچہ اُس وقت ہاکنگ اپنی انگلیوں کو جنبش دے سکتا تھا لیکن اِس کے بعد شائع ہونے والی اپنی تمام کتابیں اُس نےگالوں اور مسلز کی حرکت کی مدد سے لکھی ہیں۔

    Stephen Hawking

    اس کا دعویٰ ہے کہ عام آدمی دو یا تین سمتوں میں چیزوں کو پرکھتا ہے ،جب کہ وہ گیارہ سمتوں میں پرکھنےکرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اِس گیارہ سمتوں والے تصور کو ہاکنگ نے ۲۰۱۰ میں شائع ہونے والی اپنی معرکتہ الاآرا کتاب”دی گرینڈ ڈیزائن ” میں انتہائی دلچسپ طریقے سے بیان کیا ہے ۔اگرچہ اِس کتاب پر رومن کیتھولک چرچ اور پادریوں کی طرف سے شدید اعتراضات اٹھائے گئے کہ سٹیفن ہاکنگ نوجوان نسل کو بھٹکا کر اُن میں دہریت کو فروغ دے رہا ہے مگر وہ آج تک اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے ،ہاکنگ خدا کے وجود کا پوری طرح منکر نہیں ہے لیکن وہ آفاقی قدرتی قوانین کو جس پیرائے میں بیان کرتا ہے وہ عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہیں۔

    وقت کا دھارا بہتا رہا 1975، کے بعد جوں جوں سٹیفن ہاکنگ کے اعضاء اُس کا ساتھ چھوڑتے گئے ،زندگی اُس پر کامیابیوں کے اُتنے ہی دَر وا کرتی گئی ۔انٹیل کارپوریشن نے اس کی وہیل چیئر کے کمپیوٹر سسٹم کو ایک دفعہ پھر اپ ڈیٹ کیا ۔کیونکہ اب انگلیوں کی جنبش بھی ہاکنگ کا ساتھ چھوڑ چکی تھی ۔تب سے آج تک وہ گالوں اور چہرے کے خدوخال کی حرکت کی مدد سے کمپیوٹر سکرین آپریٹ کرتا ہے ۔بڑھتی عمر اور ہمہ روز کی بیماروں نے اس کے چہرے کے خدوخال کو بہت متاثر کیا ہے‘اس کا چہرہ ایک جانب ڈھلک چکا ہے۔ "لیکن اس کا دماغ آج پہلے سے زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے”۔

    جین سے جدائی


    ایک سیلیبریٹی ! راک سٹار سائنٹسٹ کا امیج رکھنے کے با وجود سٹیفن ہاکنگ کی ذاتی زندگی کچھ ایسی خوشگوار نہیں رہی ۔اگرچہ جَین ہاکنگ ایک بلند حوصلہ خاتون تھی ، جس نے ہر کھٹن وقت میں ہاکنگ کا بھر پور ساتھ نبھایا ۔ اِس عورت نے اپنی بھرپور جوانی کے پچیس سال ایک ایسے شخص کے ساتھ نبھاتے گزار دیئے جس کے اپنے اعضاء اس کا ساتھ چھوڑتے جا رہے تھے ۔لیکن ہاکنگ محسوس کرنے لگا تھا کہ جَین اب تھک چکی ہے ۔ جین اور ہاکنگ کی غیر معمولی محبت اور ایثار کو اس کی زندگی پر بنا ئی جانے والی فلم ” تھیوری آف ایوری تھنگ ” میں بہت خوبصورت انداز میں فلمایا گیا جو ایک خون کے آنسو رلا دینے والی داستان ہے ۔ ان دونوں کا مشترکہ دکھ ،جب زندگی سسکتی رہی اور زمانے کے نشیب و فراز میں ان کی محبت کہیں خلاؤں میں گم ہو گئی ۔

    فاصلے اتنے بڑھ گئے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہ ایک دوسرے کی شکل سے بیزار تھے سو 1991میں ان کی علیحدگی اور چار سال بعد باقاعدہ طلاق ہو گئی ۔جین آج کسی اور کی شریک حیات ہے مگر وہ اب بھی ہاکنگ کے دل کے نہاں خانوں میں رہتی ہے۔ اگرچہ ایک سال بعد ہاکنگ بھی اپنی نرس کےساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گیا تھا مگر بد قسمتی سے یہ بندھن بھی زیادہ عرصے نہ چل سکا ۔۔اور ۲۰۰۶ میں اُن کی طلاق ہو گئی ۔

    عصر حاضر کا یہ  مشہور سائنسداں گزشتہ برس مارچ میں 76 سال کی عمر میں انتقال کرگیا تھا۔ ہاکنگ کو آئن اسٹائن کے بعد پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا مخصوص شعبہ بلیک ہولز اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی (کونیات) ہے۔

    اسٹیفن ہاکنگ کی شخصیت اور ان کے اقوال


    سٹیفن ہاکنگ کی شخصیت اتنی متنوع اور ہمہ گیر تھی کہ اُسے الفاظ کے کوزے میں بند کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ ہر روز ایک نئے عزم کے ساتھ جاگتا تھا ،ہر طلوع ہوتا سورج اُس پر کائنات کے کچھ اور نئے ، اچھوتے پوشیدہ رازوں کو آشکارکرتا تھا۔اس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں نے اُسے ایک "راک سٹار "کا امیج دیا ہوا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ہر سلیبریٹی کی ایک خاص وجۂ شہرت ہوتی ہے اور میری پہچان میری یہ وہیل چیئر ہے ۔ میں اس وھیل چیئر کے ساتھ ہر میسر لمحے سے بھرپور لطف اٹھاتا ہوں کیونکہ میرا یقین ہے کہ زندگی سے اگرتفریح اور مزاح کو نکال دیا جائے تو پھر باقی کچھ بھی نہیں بچتا ۔

    Stephen Hawking

    وہ خود بھی ہنستا تھا ،اوروں کو بھی ہنساتا رہتا تھا ۔اسے دوسروں کے دکھ سمیٹ کر اُن کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کا کمال فن آتا ہے۔ کبھی وہ کسی کامیڈی شو میں اپنی جھلک دکھلاتا ہے تو کبھی ٹی وی چینلز پر دنیا کے نامور سائنسدانوں کے ساتھ مباحثوں میں شرکت کر کے ایک عالم پر اپنی قابلیت کی دھاک بٹھاتا نظر آتا ہے ۔

    سٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ اگر آپ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہیں تو یقیناٌ اِس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے ،، لیکن اپنے پیاروں اور ارد گرد کے لو گوں سے ترس کی توقع کرنے کے بجائے اپنی مدد آپ کیجئے ،جسمانی معذوری کو نفسیاتی مسئلہ بننے سے روکیے ۔ مثبت طرزِ فکر اپنائیے ۔خود کو حتی الامکان حد تک مصروف رکھیئے اور زندگی کی آزمائشوں کو چیلنج سمجھ کے قبول کیجئے۔آج میں پچھتر برس کی عمر میں بالکل آسودہ اور مطمئن ہوں میں نے کبھی زندگی سے لڑنے کی کوشش نہیں کی ، یہ جو ستم مجھ پرتوڑتی گئی میں نے ہمیشہ انہیں خندہ پیشانی سے قبول کیا ۔ زندگی میرے لیے بیک وقت بہت مہربان بھی رہی اور ظالم بھی ،مگر میں نے لوگوں کے رویوں پر آنسو بہانے کے بجائے خودکو اِس قابل بنایا کہ "آج ایک عالم کائنات کے سربستہ رازوں کی گھتیاں سلجھانے کے لیے مجھ سے رجوع کرتا ہے”۔

  • کالی بلا ہمارے سورج کو آہستہ آہستہ کھائے جارہی ہے، ماہرین فلکیات کا انکشاف

    کالی بلا ہمارے سورج کو آہستہ آہستہ کھائے جارہی ہے، ماہرین فلکیات کا انکشاف

    سڈنی: آسٹریلوی ماہرین فلکیات نے انکشاف کیا ہے کہ ایک منحوس بلیک ہول ہمارے سورج کو ہر دو دن بعد آہستہ آہستہ کھاتا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین فلکیات نے کہا ہے کہ معلوم کائینات میں یہ سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا قدیم ترین بلیک ہول ہے جس کی جسامت بیس ارب سورجوں جتنی ہے، جو ہردودن میں ایک درندے کی طرح ہمارے سورج کو کھا کر تابکاری کا ایک طوفان خارج کررہا ہے۔

    فلکیات اور خلائی طبیعیات سے متعلق آسٹریلوی قومی یونی ورسٹی کے محقق کرسچن وولف نے کہا کہ یہ بلیک ہول تیز رفتاری سے بڑھنے کی وجہ سے  ایک پوری کہکشاں سے بھی ہزاروں گنا زیادہ طاقت کے ساتھ چمک رہا ہے، جس کی وجہ وہ گیسیں ہیں جو یہ روزانہ نگلتا ہے اور اس کے نتیجے میں بے پناہ حرارت اور رگڑ پیدا ہوتی ہے۔

    برطانوی میگزین ’آسٹرونامی ناؤ‘ کے مطابق اگر یہ عفریت ہماری کہکشاں کے ملکی وے کے وسط میں ہو تو یہ ایک پورے چاند سے دس گنا زیادہ چمکتا دکھائی دے گا۔ اس کی چمک اتنی حیرت انگیز ہوگی کہ آسمان کے تمام ستارے فنا ہوجائیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کہکہشاں کا تھری ڈی نقشہ

    اس بلیک ہول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کائینات کی تشکیل کے ابتدائی زمانے میں بنا تھا، جب ماہرین فلکیات نے اسے پایا تو اس وقت یہ بارہ ارب نوری سال کے فاصلے پر تھا اور اس کی جسامت بیس ارب سورجوں جتنی تھی۔ یہ عظیم الجثہ بلیک ہول بالا بنفشی شعاعیں اور ایکس رے توانائی خارج کرتا ہے جسے یہ گیس اور دھول کی صورت میں نگلتا ہے اور پھر اتنی غضب کی حرارت پیدا کرتا ہے جس سے کوئی بھی مہمان کہکشاں تباہ ہوسکتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  مارس مشن 2020: زندگی کی تلاش میں جانے والا روبوٹ ٹیسٹنگ کے لیے تیار

    وولف کا کہنا تھا کہ اگر یہ ملکی وے میں ہوتا تو زمین پر ایکس ریز کی وجہ سے زندگی ممکن ہی نہ ہوتی۔ اس بلیک ہول کی نشان دہی اسکائی میپر ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کی گئی ہے۔ کئی ماہ کی اس تلاش میں یورپی خلائی ایجنسی کے سیٹلائٹ گایا نے بھی مدد کی جو فلکیاتی اجسام کی معمولی سی حرکت کو بھی معلوم کرلیتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آج سورج کو گرہن لگے گا

    آج سورج کو گرہن لگے گا

    اگر آپ فلکیات اور سپیس سائنسز میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یقینا ًآپ کے علم میں ہوگا کہ 2018 میں ایک دفعہ بھی مکمل سورج گرہن دکھائی نہیں دے گا اور اگست 2017 کے بعد اب جولائی 2019 میں ہی مکمل سورج گرہن کا مشاہدہ کیا جا سکے گا ۔ مگر اس دوران کئی مرتبہ جزوی سورج گرہن نمودار ہوں گے ۔ جزوی گرہن اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب گردش کرتے ہوئے چاند، سورج اور زمین کے درمیان بہت تھوڑے وقت کے لیےحائل ہو کر اس کے نصف یا ایک چوتھائی حصے کو ہی ڈھانپ لے ۔

    بعض اوقات یہ جزوی گرہن سورج کے اتنے معمولی حصےکو کور کرتے ہیں کہ اگر پہلے سے معلومات نہ ہوں تو عام افراد کو گرہن بالکل محسوس نہیں ہو تا کیونکہ چاند ، سورج کی روشنی کا بہت ہی قلیل ،تقریباً دو فیصد حصے کو ہی روک پاتا ہے۔ ایسا ہی ایک جزوی سورج گرہن پندرہ فروری 2018 کو بھی نمودار ہوگا جسے جنوبی امریکہ، انٹارکٹیکا، پیرا گوئے ، جنوبی برازیل ، بیونس آئرس اور ارجنٹینا میں دیکھا جا سکے گا ، مگر ایشیاء اور پاکستان میں اس کو دیکھنا ممکن نہیں ہوگا ۔

    ماہرین ِ فلکیات کے مطابق انٹارکٹیکا کے رہائشی سولر گلاسز کی مدد سے اس جزوی گرہن کا مشاہدہ کریں گے تو سورج انھیں قدرے فربہ نئے چاند کی مانند د کھائی دے گا ۔ یہ گرہن مقامی وقت کے مطا بق صبح آٹھ سے نو کے درمیان ہوگا ا ور لگ بھگ ایک گھنٹے کے دورانیے میں چاند ، سورج کے محض آدھے حصے کو ہی ڈھک پائے گا ‘ پاکستان میں اس وقت رات ۱۱ کے بعد کا عمل ہوگا اس لیے یہاں اسے دیکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ جبکہ جنوبی امریکہ میں یہ گرہن مزید مختصر ہو کر سورج کے صرف ایک حصے کی روشنی کو روکنے کا سبب بنے گا ۔ یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ امریکہ میں 1779 کے بعد گزشتہ برس اکیس اگست کو مکمل سورج گرہن کا مشاہدہ کیا گیا تھا اور طویل عرصے میں یہاں بیشتر اوقات جزوی گرہن ہی مشاہدہ کیے گئے ہیں ۔ جنوبی امریکہ کے علاوہ یورپ کے باقی علاقوں میں اس گرہن کے صرف آخری حصے کو دیکھا جاسکے گا ۔

    ماہرین کے مطابق عموما جزوی گرہن کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور مکمل گرہن کا ہی انتظار کیا جاتا ہے مگر اس امر سے بہت کم لوگ آگاہ ہیں کہ جزوی گرہن ، مکمل گرہن کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور سادہ آنکھ سے اس کا مشاہدہ کرنے سے آنکھ کا ریٹینا براہ ِ راست متاثرہوتا ہے۔ واضح رہے کہ ریٹینا آنکھ کا وہ حصہ ہے جو بصارت کے پیغام کو دماغ تک پہنچاتا ہے جس کے بعد ہم چیزوں میں فرق کرنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ چونکہ جزوی گرہن میں چاند سورج کے نصف یا ایک تہائی حصے کی روشنی کو ہی روک پاتا ہے اس لیے وہاں کی روشنی اور حرارتباقی حصوں سے اخراج کا راستہ ڈھونڈتی ہیں اور یہ شدید حرارت والی یہ شعائیں بصارتی عوارض یا نا بینا پن کا سبب بنتی ہیں اس لیے جزوی گرہن کو کسی صورت بھی سولر گلاسز کے بغیر نہیں دیکھنا چاہیئے۔

    اگرچہ فلکیاتی تحقیق و جستجو میں عموماًمکمل گرہن ہی کار آمد ثابت ہوتے ہیں اور سائنسدان جزوی گرہن کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے مگر آسٹرولاجرزاور ماہرین ِ ستارہ شناس پندرہ فروری کو نمودار ہونے والے جزوی گرہن کو تمام برجوں کے لیے غیر معمولی قرار دے رہے ہیں ، چونکہ اس گرہن کا تعلق نئے چاند سے ہےاور چاند کا تاریک پہلو اس دوران اوجھل ہوگا ۔لہذا یہ اکثر برجوں کے افراد کے لیے ایک نئے آغاز کا پیغام ثابت ہوگا اور فروری سے ان کی زندگی میں کامیابی کے مواقع ازخود وار دہوں گے جن سے فائدہ اٹھا کر آگے بڑھنا ان کا اپنا کام ہے۔ یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ عموماًستاروں اور مستقبل کی پیشن گوئیوں پر یقین رکھنے والے افراد یہ سمجھتے ہیں کہ چاند یا سورج گرہن نحس ہوتے ہیں اور افراد کی ذاتی ، اجتماعی یا مالی حالت پر ان کے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں ، مگر پندرہ فروری 2018 کے جزوی گرہن کے متعلق ماہرین ستار ہ شناس بھی سعد یا خوش بختی کی پیشن گوئی کر رہے ہیں ۔

    پندرہ فروری کے بعد اب جولائی 2018 میں ایک دفعہ پھر جزوی گرہن دیکھا جا سکے گا جبکہ اس دوران متعدد دفعہ چاند گرہن نمودار ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق گرہن اگرچہ ایک مکمل طریقۂ کار پر خود کو دہراتے ہیں مگر ایک سال میں ان کی مجموعی تعداد کے بارے میں وثوقسے کچھ کہنا ممکن نہیں ہے ۔ مگر چھ ماہ کے عرصے میں ایک دفعہ جزوی سورج و چاند گرہن ضرور ہوتا ہے جو دنیا کے مختلف خطوں میں د کھائی دیتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • سپر مون – آخرچاند اتنا روشن اور بڑا کیوں دکھائی دیتا ہے

    سپر مون – آخرچاند اتنا روشن اور بڑا کیوں دکھائی دیتا ہے

    فلکیاتی سائنسدان کئی صدیوں سے کائنات کے سربستہ رازوں کی گھتیاں سلجھانے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ نظام ِ شمسی کے دیگر سیاروں پر زندگی کے آثار موجود ہیں یا نہیں اور اس مقصد کے لیے ان کی تحقیقات کا سب سے اہم مر کز زمین کا اکلوتا چاند رہا ہے۔

    رواں برس 2017اس حوالے سے کافی اہمیت کا حامل رہا کہ نا صرف سائنسدان بلکہ دنیا بھر سے فلکیات کے شیدائیوں کو کئی انوکھے فلکیاتی عوامل کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور ابھی دسمبر کے مہینے میں ایسے کئی مواقع متوقع ہیں۔اگرچہ اِن یادگار فلکیاتی عوامل کے سلسلے کا آغاز پچھلے برس نو جنوری 2016 سے ہوا جب آسمان کی بے کراں وسعتوں میں ہمارے نظام ِ شمسی کے دو اہم سیارے زہرہ اور زحل ایک دوسرے کے اتنے قریب نظر آئے کہ اسے دونوں سیاروں کا ” بوسہ ” قرار دیا گیا ، اگرچہ یہ صرف ایک نظری دھوکہ تھا اور زہرہ اور زحل ہنوز ایک دوسرے سےبہت زیادہ فاصلے پر تھے۔ اسی برس انوکھا اور عشروں میں کبھی دکھائی دینے والا ایک یادگار واقع اکتوبر ، نومبر اور دسمبر میں رونما ہونے والے تین "سپر مونز ” کاایک سلسلہ تھا۔

    پاکستان میں 70 سال بعد سپر مون کا نظارہ

    علم ِ فلکیات کے مطابق ایک سپر مون اس وقت رونما ہوتا ہے جب چاند ، سورج کی مخالف جانب زمین کے ساتھ ایک ہی لائن میں آجاتا ہے، جسے ماہرین ِ فلکیات نے ” پیریگی سیزائگ” یا سپر مون کا نام دیا ہے۔واضح رہے کہ پیریگی اس مقام کو کہتے ہیں جب چاند اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے زمین سے 221،225 کے کم ترین فاصلے پر آجاتا ہے اور اس باعث معمول کے سائز سے نوے گنا زیادہ بڑا اور روشن نظر آتا ہے جس کی بنیادی وجہ چاند کا قدرے بیضوی مدار ہے ۔چونکہ یہ ایک مشکل نام ہے اس لیے میڈیا اور عوامی حلقوں میں لفظ سپر مو ن نےزیادہ شہرت پائی ،جس کا پہلی مرتبہ استعمال ماہر فلکیات ‘رچرڈ نال’ نے کیا تھا ۔ معمول کا پورا چاند ،زمین سے238،900 میل کے فاصلے پر ہوتا ہے جبکہ چاند کا زمین سے دور ترین مقام اس سے پانچ فیصد زیادہ ہے جو ‘اپوگی ‘کہلاتا ہے۔

    سپر مون کو واضح طور پر دیکھنے کے لیے جنوب کی جانب روشنیوں اور آبادی سے دور علاقوں کا رخ کرنا چاہیئے اور یہ بات ذہن میں رکھنے چاہیئےکہ غروب ِ آفتاب کے بعد چاند افق پر جتنا بلند ہوگا ‘ اتنا ہی روشن اور بڑا دکھائی دے گا۔چونکہ چاند کا زمین کے ساتھ فاصلہ دو راتوں میں زیادہ متاثر نہیں ہوتا اس لیے اگر کوئی شخص مطلع ابر آلود ہونے کے باعث ایک رات اسے دیکھنے سے قاصر رہا تو وہ اگلی رات بھی اسے دیکھ سکتا ہے۔پچھلے برس رونما ہونے والی سپر مونز کی سیریز کا آغاز اکتوبر میں ہوا ۔

    اس مہینے کے چاند کو فلکیاتی اصطلاح میں ہارویسٹ مون کہا جاتا ہے کیونکہ یہ غروب آفتاب کے بعد بہت جلد افق پر نمودار ہوجاتے ہیں جس کے باعث کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کو زیادہ روشنی میسر ہونے سے وہ رات میں بھی باآسانی فصلوں کی کٹائی کا کام کر لیتے ہیں ۔ اکتوبر سے پہلے ماہ ِ ستمبر کے چاند کوہنٹر مون کہا جاتا ہے، گرچہ چاند کو دیئے جانے والے یہ نام کچھ پیچیدہ ہیں اور جلد تبدیل کر دیئے جاتے ہیں ۔ اس سلسلے کا دوسرا سپر مون چودہ نومبر 2016 کی رات نظر آیا جو کئی حوالے سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔

    اس رات چاند اپنے معمول کے سائز سے چودہ فیصد بڑا اور تیس فیصد زیادہ روشن تھا جو اس سے پہلے 1948 میں دیکھا گیا تھا اور اب اتنے ہی عرصے بعد 2034 میں دوبارہ دکھائی دیگا۔اس سلسلے کا اختتام چودہ دسمبر کی رات نظر آنے والے مکمل اور نسبتا روشن سپر مون پر ہوا جس ایک خصوصیت یہ تھی اس رات آسمانی پتھروں کی بارش ‘ میٹی یور ‘ شاور کو بہت واضح مشاہدہ کیا جا سکا کیونکہ افق پر چاند کی روشنی زیادہ ہونے کے باعث شہابیے کے گرنے کا منظر پانچ سے دس گنا زیادہ صاف نظر آرہاتھا ۔

    اور اب ایک برس کے طویل انتظار کے بعد ہمارا فلکیاتی ہمسایہ تین دسمبر کی رات ہمیں اس خوبصورت منظر کا ایک دفعہ پھر تحفہ دینے جا رہا ہے ۔ماہرین ِ فلکیات کے مطابق یہ سپر مون مقامی وقت پر دس بج کر پینتالیس منٹ پر بہت واضح دیکھا جا سکے گا جب چاند اپنے معمول کے سائز سے سولہ فیصد روشن اور سات فیصد بڑا نظر آئے گا ۔اگرچہ یہ رواں برس کا چوتھا سپر مون ہے مگر مدہم ہونے کے باعث عام افراد بقیہ تین دیکھنے سے قاصر رہے ۔ دنیا بھر میں فلکیات کے شائقین اس انوکھے منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیئے پوری طرح تیار ہیں ۔ اگر کسی باعث آپ اس سپر مون کو دیکھنے سے محروم رہیں تو فکر کی چنداں کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اگلے برس 2018 کے اوائل میں دو اور پھر اکتیس جنوری کے چاند بھی سپر مون ہوں گے ۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا آپ خلاؤں میں جھانکنا چاہتے ہیں؟

    کیا آپ خلاؤں میں جھانکنا چاہتے ہیں؟

    آج ہم ایک ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں جہاں ہر شے چند کلک کرنے پر دستیاب ہے مگر سولہویں صدی کے نصف میں جب ’جان فلیم سٹیڈ‘نےفلکیات میں دلچسپی لینا شروع کی تھی تو اس وقت یہ علم عوام و خواص سب ہی کے لیے نو آموز تھا ۔ محض انیس برس کی عمر میں اپنی تحقیقات پر پیپر لکھنے والے برٹش شہری فلیم سٹیڈ نے اپنی ساری زندگی فلکیات پر تحقیق کرتے ہوئے گزاری اور تین ہزار ستاروں کی ایک فہرست تیار کر کے ’اولین برٹش ماہر ِ فلکیات ‘ ( فرسٹ ایسٹرانامر) کا خطاب پاکر تاریخ میں امر ہو گیا۔

    [ps2id url=’#heading1′]پاکستانی میں ایسٹرانامی کا آغاز[/ps2id]
    [ps2id url=’#heading2′]لاہورایسٹرانامیکل سوسائٹی[/ps2id]
    [ps2id url=’#heading3′]کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی[/ps2id]
    [ps2id url=’#heading4′]پاک ایسٹرانامرز سوسائٹی[/ps2id]
    [ps2id url=’#heading5′]حیدرآباد ایسٹرانامرز سوسائٹی[/ps2id]
    [ps2id url=’#heading6′]خوارزمی سائنس سوسائٹی[/ps2id]
    [ps2id url=’#heading7′]ایسٹرانامیکل لیگ آف پاکستان[/ps2id]
    [ps2id url=’#heading8′]خیبرپختونخواہ اوربلوچستان میں ایسٹرانامی کا احیاء[/ps2id]

    فلیم سٹیڈ کی کو ششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے 1820 میں چند شوقین ایسٹرانامرز نے’رائل سو سائٹی آف ایسٹرانامی‘ قائم کی جو دنیا کی قدیم ترین فلکیاتی سوسائٹی سمجھی جاتی ہے ۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں علم فلکیات میں ہونے والی تیز تر پیش رفت کی اگر ایک تاریخ مرتب کی جائے تو بلاشبہ یہ تذکرہ جان اور رائل سوسائٹی کا ذکر کیے بغیر ادھورا رہے گا ۔ سولہویں صدی میں انفرادی شوق ، لگن اور جستجو کا جو سفر جان سٹیڈ نے شروع کیا تھا وہ وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں جاری رہا اور آج دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جس کی ایک متحرک فلکیاتی سوسائٹی نہ ہو۔

    [ps2id_wrap id=’heading1′]

    پاکستانی میں ایسٹرانامی کا آغاز

    [/ps2id_wrap]


    اگر چہ پاکستان کا شمار ان چنیدہ ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں حکومتی سطح پر سرپرستی نہ کیے جانے اور ناکافی سہولیات کے باعث عوام ’علم ِ فلکیات‘ میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے اور فلکیاتی تحقیقات کی بین الاقوامی رینکنگ میں پاکستان جارجیا اور بلغاریہ کے ساتھ نمبر 52 پر ہے ۔ لہذاٰ لگن رکھنے والے افراد اپنے ذرا ئع سے ٹیلی سکوپ اور ایسٹراگرافی کے آلات خرید کر اپنا شوق پورا کر تے رہے ہیں ۔

    انہی چنیدہ افراد کی کوششوں کی بدولت اب عوام میں اجرام ِ فلکی اور ان کی حقیقت ، فلکیاتی واقعات جیسے چاند و سورج گرہن ، میٹی یور شاور ( شہاب ِ ثاقب کی برسات )وغیرہ کے بارے میں شعور و آگاہی بڑھ رہی ہے اور فی الوقت پاکستان کے وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں میں فلکیاتی سوسائٹی قائم کی جا چکی ہیں ۔

    ریکارڈ کے مطابق پاکستان کی پہلی فلکیاتی سوسائٹی 1988 میں بنائی گئی جس کا نام ’ایمسٹروپاک ‘ رکھا گیا تھا۔ مگر ناکافی سہولیات اور سوسائٹی کے اراکین کی ذاتی مصروفیات کے باعث اسے متحرک نہ رکھا جا سکا اور 1990 میں بند کر دیا گیا ۔

    اس کے ٹھیک پانچ برس بعد 1995 میں فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے چند مقامی افراد نے ’لاہور انٹرانامیکل سوسائٹی‘ قائم کی جو اب تک پاکستان کی سب سےزیادہ متحرک سوسائٹی سمجھی جاتی ہے ۔ 1995 سے شروع ہونے والا جستجو اور لگن کا یہ سفر آہستہ آہستہ دیگر شہروں تک پھیلتا گیا اور 2007 میں اسلام آباد سوسائٹی ( پاکستان ایسٹرانامرز ) ، 2008 میں ” کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی "، 2009 میں ” خوارزمی سوسائٹی آف سائنس ( فلکیاتی میل ) ، اور حالیہ برسوں میں پشاور اور بلوچستان ایسٹرانامرز سوسائٹیز قائم کی گئیں ، جن پر ایک سیر حاصل تبصرہ پیش ِ خدمت ہے۔

    [ps2id_wrap id=’heading2′]

    لاہورایسٹرانامیکل سوسائٹی

    [/ps2id_wrap]


    سنہ 1995 میں چند مقامی افراد نے اپنے شوق کی تسکین اور علم ِ فلکیات کو فروغ دینے کے لیے’لاہور ایسٹرا نامرز سوسائٹی‘ قائم کی جو گذشتہ بائیس برس میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پاکستان کی نمایاں فلکیاتی سوسائٹی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس کی سرگرمیاں بین الاقوامی سطح پر بھی سراہی جا رہی ہیں ۔ لا ہور فلکیاتی سوسائٹی آج جس مقام پر ہے اس میں بنیادی کردار پاکستان کے معروف ایسٹرانامر ’عمیر عاصم ‘ نے ادا کیا ، جو طویل عرصے سے اس سوسائٹی سے وابسطہ ہیں اور 2003 میں انہوں نے اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے ’زیڈز ایسٹرانامیکل آبزرویٹری‘ قائم کی جس کا نام انہوں نے اپنی والدہ’زاہدہ ‘ کے نام پر رکھا ۔

    اس رصد گاہ کی اپنی شاندار چودہ انچ کی ٹیلی سکوپ ہے، واضح رہے کہ ٹیلی سکوپ کا سائز اس کے مرکزی مررکے سائز سے ناپا جاتا ہے۔ اس دوربین سے لی گئی تصاویر ’انٹر نیشنل لیونر فوٹو آف دی ایئر ‘کے لئے منتخب کی جا چکی ہیں۔ آغاز میں لاہور سوسائٹی کی سرگرمیاں ہفتہ وار یا ماہانہ میٹنگز تک محدود رہی لیکن آہستہ آہستہ ممبران کی تعداد بڑھنے سے تعلیمی اور تحقیقاتی ایکٹیویٹیز شروع کی گئیں اور فی الوقت ’لاسٹ ‘ متعدد بین الاقوامی فلکیاتی سوسائٹیز سے منسلک ہے جن میں ’ایسٹرانامی ایڈونچر نیوزی لینڈ‘ ،’آبزرویٹری 99 ملی میٹر ( یو ایس )‘ ، ’ اے این آئی سی کولمبیا ‘، اور بلائنڈ ایسٹرانامی گلڈ شامل ہیں ۔

    لاسٹ ا ب تک لاہور اور اس کے مضافات میں کئی ٹریننگ ورک شاپس بھی کرواچکی ہے جس میں عوام کو ٹیلی سکوپ کا صحیح استعمال اور اس سے ڈیٹا حاصل کرنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے تاکہ ملکی سطح پر فلکیاتی تحقیقات کو فروغ دیا جا سکے ۔ فی الوقت عمیر عاصم فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے متعدد مقامی افراد کو ٹریننگ دے رہے ہیں اور ان کے قابل ِ فخر شاگرد ’روشان بخاری ‘ اور ’آمنہ سلیم‘ لاسٹ سے منسلک سوسائٹیز کی تین سو سے زائد بین الاقوامی تحقیقات میں معاونت کر چکے ہیں جس میں ’امریکن آبزرویشن آف ویری ایبل سٹار ‘ بھی شا مل ہے ۔

    روشان بخاری خیبر پختونخواہ کے متعدد سکولوں میں فلکیات پر لیکچر بھی دیتے رہے ہیں ، پروفیشنلی ڈاکٹر ہونے کے با وجودانکا ایسٹرانامی سے شغف قابل ِ دید ہے اور وہ پاکستان میں فلکیات کی ترویج کے لیے لاسٹ ٹیم کے ساتھ پوری طرح سر گرم ہیں ۔چونکہ اس سوسائٹی کے پاس پاکستان کی سب سے بڑی سولر ٹیلی سکوپ ہے جس کے ذریعے سورج میں ہونی والی غیر معمولی حرکات کی بہت واضح تصاویر حاصل کی جا چکی ہیں لہذا ٰ لاسٹ کی ٹیم سال بھر میں رونما ہونے والے سورج گرہنوں کے وقت اپنی ٹیلی سکوپ لاہور کے بڑے پارکس یا تعلیمی اداروں میں بھی لے کر جاتی ہے جہاں عوام و خواص ، اساتذہ و طالبعلم لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے انتظار کرتے دیکھے گئے ہیں ، یہ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستانی اس طرح کی سرگرمیوں میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں ، صرف حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے۔

    لاہور فلکیاتی سوسائٹی نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کی معاونت سے کئی ایسٹرانامی کورسز کا بھی آغاز کیا ہے اور عمیر عاصم کی سرکردگی میں فلکیات کی ترویج کا یہ سفر جاری و ساری ہے،جنھیں 2014 میں سولر ایسٹرانامی پر انٹرنیشنل ’چارلی بیٹس ایوارڈ ‘سے نوازا جا چکا ہے۔

    [ps2id_wrap id=’heading3′]

    کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی

    [/ps2id_wrap]


    کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی 2008 میں قائم کی گئی اس کے بانی ممبران میں مہدی حسن ، خالد مروت ، ابو بکر شیخانی ، زین احمد ، نوید مرچنٹ اور عمران رشید شامل ہیں ۔ اس سوسائٹی کے قیام کا بنیادی مقصد ایک ایسا ایکٹو پلیٹ فارم فراہم کرنا تھا جہاں سے فلکیاتی سرگرمیوں کو مؤثر انداز میں آگے بڑھایا جاسکے ، اور بہت کم وسائل و سہولیات کے باوجود نا صرف سندھ بلکہ بلوچستان اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی فلکیات کی ترویج کے لیئے کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی نے بہت تھوڑے عرصے میں قابل ذکر کردارادا کیا ہے ،جس کا سہرا بلاشبہ بانی اراکین خصوصا ََ مہدی حسن کے سر جاتا ہے۔

    اس سوسائٹی کی آفیشل ویب سائٹ 2010 میں لانچ کی گئی جس کے ملک بھر میں اٹھارہ سو سے زائد ممبران ہیں جبکہ انتہائی معمولی سی سالانہ فیس کے ساتھ اس کی خصوصی ممبر شپ حاصل کر کے بہت سے دیگر فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں جن میں سوسائٹی کے منعقد کردہ ایونٹس ” سولر ایسٹرا نامی ” اور ” رت جگا ” میں ڈسکاؤنٹ بھی شامل ہے۔

    لاسٹ کی طرح ’کاز‘ بھی سورج و چاند گرہن یا خصوصی مواقعوں پر اپنی دوربین پی آئی اے پلنٹیریم ، پارکس ، پبلک مقامات اور تعلیمی اداروں میں لے جاکر عوام و خواص کوبراہ ِ راست مشاہدات کے موقع فراہم کرتی رہی ہے۔ ان میں اب تک قابل ِ ذکر جون 2012 کا ’ٹرانزٹ آف وینس ‘ اور پندرہ مئی 2016 کا ’ٹرانزٹ آف مرکری ‘ ایونٹ رہا جب وینس اور مرکری سولر ڈسک کے سامنے ایک چھوٹے سے نقطےکی مانند دکھائی دیئے ۔

    اس کے علاوہ کراچی سوسائٹی 2008 سے فلکیات کے شائقین کو ’رت جگا ‘ کی صورت میں آبادی اور لائٹ پولوشن سے دور سندھ اور بلوچستان کے متعددمقامات جیسے میر پور ساکرو ، گورکھ ہلز ، کیرتھر نیشنل پارک ، مڈ وولکانو ( بلوچستان )،میں چاند ستاروں تلے رات گزارنے اور ایسٹروگرافی کے مواقع بھی فراہم کرتی رہی ہے اور اب تک لگ بھگ چالیس رت جگے منعقد کیے جا چکے ہیں جن میں سے آخری گزشتہ ماہ اکیس اکتوبر ’اورینائڈ میٹی یور شاور ‘ کی رات کراچی سے کچھ فاصلے پر’ گھارو ‘ کے مقام پر رکھا گیا تھا۔

    ان رت جگوں کا سہرا بانی رکن نوید مرچنٹ ،کو ایڈ وائزر حنیف بھٹی اور جنرل سکریٹری بلال کریم مغل کے سر جاتا ہے جو ٹریولنگ اور سیاحت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔ کراچی ایسٹرونا مرز سوسائٹی نے اپنے وسائل سے ایک ’کاسٹ ڈوم‘ آبزرویٹری بنائی ہے جس کی بارہ اعشاریہ پانچ انچ کی نیوٹونین ٹیلی سکوپ ہے ۔ اس ٹیلی سکوپ کا مرر ایک برٹش ایسٹرانامر نے تحفہ میں دیا تھا ۔

    یہ سوسائٹی ہر برس انٹرنیشنل سپیس ویک میں ایسٹرانامی فیملی فیئرمنعقد کروانے کے علاوہ کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں میں فلکیات پر لیکچر اور ٹیلی سکوپ سے براہ ِ راست مشاہدات کے سیشنز بھی کرواتی رہی ہے مگر اس کا سب سے بڑا کارنامہ ملک بھر سے فلکیات کے شیدائیوں کی ٹیلی سکوپ اور فلکیاتی گلاسز خریدنے میں معاونت کرنا ہے جس کے لیے یہ اپنی ویب سائٹ بھی استعمال کرتے ہیں ۔

    [ps2id_wrap id=’heading4′]

    پاک ایسٹرانامرز سوسائٹی

    [/ps2id_wrap]


    نومبر 2007 میں فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے اسلام آباد کے رہائشی چند افراد ایک گروپ نے راولپنڈی اور ملحقہ علاقوں میں اپنی سرگرمیاں بڑھانے اور زیادہ سے ز یادہ لوگوں کو مواقع فراہم کرنے کے لیئے ’پاکستان ایسٹرانامی سوسائٹی ‘ بنائی جس کا نام بعد میں تبدیل کر کے اسلام آ باد سوسائٹی اور پھر پاکستان ایسٹرانامرز سوسائٹی کر دیا گیا ۔ اگرچہ لاہور اور کراچی سوسائٹیز کی نسبت یہ اتنی زیادہ متحرک نہیں ہے مگر اب تک ان کی ٹیم انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اور نیشنل یونیورسٹی آ ف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اشتراک سے کئی فلکیاتی آبزرویشن سیشنز اور ایونٹس منعقد کروا چکی ہے ۔ جس کا تمام تر کریڈٹ سوسائٹی کے صدر سیف الاسلام قریشی ، نائب صدر فرخ شہزاد ، جنرل سیکرٹری طلحہ احمد کو جاتا ہے۔

    پاک سوسائٹی کے پاس ’سکائی واچر ایوو سٹار‘،’ نیشنل جیوگرافک نیوٹونین‘ ، ’ڈوبوسونین ٹیلی سکوپ ‘ اور نیوٹونین ریفلیکٹربھی ہیں۔ ان دور بینوں کے ساتھ پاک ایسٹرانامرز نے لاہور ایسٹرانامیکل سوسائٹی کی معاونت سے ٹھنڈائی ، قلعہ روہتاس میں بھی آبزرویشن ایونٹ منعقد کیے اور 2016 میں خوارزمی سوسائٹی کے اشتراک سےکریسنٹ انٹرنیشنل سکول اسلام آباد میں سورج گرہن کے وقت سولر آبزرویشن کا سیشن بھی کر وایا جس میں اسلام آباد کے تما م سکولز کے بچوں کو مدعو کیا گیا تھا ۔

    [ps2id_wrap id=’heading5′]

    حیدرآباد ایسٹرانامرز سوسائٹی

    [/ps2id_wrap]


    حیدر آباد سوسائٹی کا قیام 2011 میں عمل میں آیا اس کے بانی اراکین میں بلال کریم مغل ، ذیشان احمد اور امجد نظامانی شامل ہیں جو اس وقت اسرا یونیورسٹی حیدر آباد کے طا لبعلم تھے۔ بلال کریم مغل کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی کے موجودہ جنرل سیکرٹری بھی ہیں ۔ ان تینوں نے بہت کم وسائل اور ناکافی سہولیات کے با وجود حیدر آباد جیسے علاقے سےاپنی جدوجہد کا آغاز کیا جہاں سے آج تک سائنس و ٹیکنالوجی میں کوئی قابل ذکر ٹیلنٹ ابھر کر سامنے نہیں آسکا۔

    اس سوسائٹی نے اپنے پہلے پبلک ایونٹ کا انعقاد اسرا یونیورسٹی میں ورلڈ سپیس ویک 0112سے کیا ، ا سے عام و خاص سب ہی کی خصوصی توجہ حاصل ہوئی جس سے ان تینوں طالب علموں کو مزید تحریک ملی اور اگلے برس انہوں نے سپارکو کے تعاون سے ورلڈ سپیس ویک کی تقریب کا انعقاد مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو میں کیا ۔

    اس کے بعد سے سوسائٹی مختلف مواقعوں پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ حیدر آباد اور اس سے ملحقہ چھوٹے علاقوں میں فلکیات کی بنیادی معلومات پھیلانے کے علاوہ عوام کو براہِ راست مشاہدے کا موقع فراہم کیا جاسکے جس کے لیے یہ اپنے دو نیو ٹونین ریفلیکٹرز ( 114 ملی میٹر، 76 ملی میٹر)اور فلکیاتی گلاسز استعمال کرتے رہے ہیں ۔ 2012 میں اس سوسائٹی کے بانی رکن بلال کریم مغل کی کھینچی ہوئی ’ٹرانزٹ آف مرکری ‘ کی ایک خصوصی تصویر کو’انڈین ایسٹرو فوٹو فیسٹیول ‘کے لیے منتخب کیا گیا جو نہرو پلانٹیریم نیو دہلی میں منعقد کیا گیا تھا ۔

    اگرچہ پیشہ ورانہ مصروفیات کے باعث اب ان تینوں ایسٹرانامرز کی سرگرمیاں کافی محدود ہو چکی ہیں مگر پھر بھی یہ اپنی ماہانہ میٹنگز ضرور منعقد کرتے ہیں جسے ’کاسمک ٹی پارٹی‘ کا نام دیا گیا ہے ، اس میں نئے اور پرانے تمام اراکین شرکت کرتے ہیں ۔

    [ps2id_wrap id=’heading6′]

    خوارزمی سائنس سوسائٹی

    [/ps2id_wrap]


    خوارزمی سائنس سوسائٹی لاہور سے تعلق رکھنے والے سائنس کے شیدائیوں کا ایک گروپ ہے جو طویل عر صے سے لاہور ایسٹرانامیکل سوسائٹی کی ایونٹس منعقد کروانے میں معاونت کر نے کے علاوہ پنجاب کے دور دراز مقامات اور خیبر ختونخواہ میں فلکیات کی ترویج کے لیے متحرک ہیں۔ اس سوسائٹی نے اپنی فلکیاتی سرگرمیوں کا آغاز ’انٹر نیشنل ایئر آف ایسٹرانامی ‘ سے کیا جس کے لیے انھیں نیشنل سائنس فاؤنڈیشن اور پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کی طرف سے گرانٹ دی گئی تھی ۔ جس کی مدد سے یہ صوبۂخیبر پختونخواہ میں دس ہزار سے زائد سکول کے بچوں ، ان کےوالدین اور اساتذہ کو فلکیات کی بنیادی معلومات فراہم کر چکے ہیں ، ہر قصبے میں منعقد اس طرح کے ایونٹ کو ’فلکیاتی میل ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جس کا پڑاؤ اب تک صوابی ، پھول نگر ، اوکاڑہ ، شاہدرہ اور روہتاس قلعہ میں ہو چکا ہے اور یہ سفر مسلسل جاری ہے۔

    اس کے علاوہ 2010 کے انٹرنیشنل سپیس ویک میں خوارزمی سوسائٹی نے لاہور کے لوکل پارکس میں سب سے بڑی آرٹی فیشل آبزرویٹری(متحرک ) بنا کر مقامی افراد کو سورج گرہن کا براہ ِ راست مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کیا ۔ جسےنیوز چینلز پر بھی نشر کیا گیا تھا ۔ فی الوقت یہ سوسائٹی فلکیات اور سپیس سائنسز سے متعلق لیکچرز منعقد کروانے کے علاوہ ’نائٹ سکائی نیٹ ورک ‘ کے نام سے اپنا سائنس چینل بھی چلا رہی ہے جہاں چھت پر بنائی گئی ایک آبزرویٹری کے ذریعے اس چینل کی ویب سائٹ پر لاگ آن کر کے ہر شخص گلیکسیز کا براہ ِ راست مشاہدہ کرسکتا ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ یہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں فلکیات کی ترویج میں دلچسپی رکھنے والے افراد کی سکولوں اور تعلیمی اداروں میں ایونٹس منعقد کروانے میں مدد بھی کرتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مقامی ٹیلنٹ کو سامنےلایا جا سکے جو نا کافی سہولیات کے باعث قابلیت رکھنے کے باوجود کچھ غیر معمولی کر دکھانے سے قاصر ہیں ۔

    [ps2id_wrap id=’heading7′]

    ایسٹرانامیکل لیگ آف پاکستان

    [/ps2id_wrap]


    لاہور ایسٹرانامیکل سوسائٹی نے 2016 ستمبر میں ایک اور سنگ میل عبور کرتے ہوئے خوارزمی سائنس سوسائٹی کے تعاون سے ’ایسٹرانامیکل لیگ آف پاکستان ‘ کا انعقاد کیا جس میں ملک بھر کی تمام چنیدہ فلکیاتی سوسائٹیز کو مد عو کیا گیا تھا ۔ اس کے انعقاد کا بنیادی مقصد ملک کے ہر کونےمیں چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور فلکیات کی ترویج و آگاہی کے لیے ایک مؤثر سٹر ٹیجی بنانا تھا ۔

    لیگ کے چئیرمین کراچی ایسٹرانامرز سوسائٹی کی کو فاؤنڈر اور معروف ایسٹرانامر جناب خالد مروت ہیں ۔ 2016 میں سمپوزیم کے چار سیشن رکھے گئے۔تھے جن میں لاہور ، کراچی ، حیدر آباد ، اسلام آباد اور پشاور کی فلکیاتی سو سائٹیز کے نمائندگان نے شرکت کر کے اس حوالے سے اپنی اپنی رائے پیش کی۔

    پہلے سیشن کی صدارت عمیر عاصم نے ، دوسرے سیشن کی توصیف احمد ، تیسرے سیشن کی شہر زادہ سید اور آخری سیشن کی روشان بخاری نے کی ۔ اس آخری سیشن میں کراچی اسٹرانامر سوسائٹی کے صدر مہدی حسن ٹیلی سکوپ (میکنگ ) بنانے پر خصوصی لیکچر دیا جبکہ باقی سیشن میں ایسٹر اایمی جنگ ، فلکیات کی ترویج اور زیڈز آبزرویٹری کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی گئیں ۔ اگرچہ رواں برس اس کا کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا جاسکا مگر امید ہے کہ جلد ہی ملک بھر سے فلکیات کے شائقین و ماہرین ایک بار پھر لیگ کے پلیٹ فارم پر دوبارہ جمع ہوں گے۔

    [ps2id_wrap id=’heading8′]

    خیبرپختونخواہ اوربلوچستان میں ایسٹرانامی کا احیاء

    [/ps2id_wrap]


    ان چنیدہ سوسائٹیز کے علاوہ حالیہ برسوں میں پشاور ایسٹرانامرز سوسائٹی بھی متحرک ہوئی ہے جس کے صدر ایسٹرانامر روح اللہ ہیں اور گزشتہ برس اس سوسائٹی کو ایسٹرانامیکل لیگ آف پاکستان میں بھی شامل کیا گیا تھا ۔ لیکن ان کی سرگرمیاں اب تک محدود ہیں اور ایسٹرو گرافی کے علاوہ کوئی قابل ِ ذکر ریکارڈ میسر نہیں ہے ۔ جبکہ بلوچستان سےکوئی بھی ایسٹرانامر ابھر کر سامنے نہیں آ سکا ۔ اور یہاں سے فلکیات میں دلچسپی رکھنے والے افراد نا کافی سہولیات کے باعث آرٹیکلز یا بلاگز لکھ کر اپنا شوق پورا کرنے ساتھ یہاں کے شہریوں کو فلکیات کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن میں اس فیچر کی مصنفہ خود بھی شامل ہیں ۔

    اگرچہ گزشتہ برس اپنے سوشل آرٹیکلز کی وجہ سے کوئٹہ کی ایک طالبہ نورینہ خبروں کامر کز بنی تھیں اور یو این او کے سابق جنرل سیکرٹری بان کی مون کی جانب سے نورینہ کو ایک ٹیلی سکوپ بھی فراہم کی گئی تھی مگر یہ طالبہ اب تک کچھ غیر معمولی کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیں ، امید ہے کہ نورینہ کوئٹہ میں فلکیات کی ترویج کے لیئے ایک مؤثر کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گی ۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئرکریں۔

     

  • آسمان سے جلتے ہوئے پتھروں کی بارش

    آسمان سے جلتے ہوئے پتھروں کی بارش

    آسمان سے مینہ برستے تو ہم سب آئے روز دیکھتے رہتے ہیں مگر آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ سنگی بارش صدیوں سے انسان کے تجسس کو بھڑکائے ہوئے ہے اور قدیم تہذیبوں میں اس حوالے سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں مگر موجودہ دور میں سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں روز افزوں پیش رفت کی بدولت یہ گتھی انسان نے سلجھا لی ہے ۔

    یہ پتھر دراصل فلکیاتی چٹانیں ہیں جو پوری کائنات کی طرح ہمارے نظام ِ شمسی میں آوارہ گردی کر رہے ہیں ۔انھیں ’میٹی یور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ پتھر اِدھر اُدھر بھٹکتے ہوئے جب سیارۂ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو ہوا کی رگڑ ان کا اندرونی درجۂ حرارت بڑھا دیتی ہے،جس کے باعث یہ بھڑک اٹھتے ہیں اور زمین سے دیکھنے پر یہ روشن پتھروں کی بارش معلوم ہوتی ہے جسے ’میٹی یور شاور‘ کہا جاتا ہے ۔

    عموما ََ میٹی یور شاورز کا مشاہدہ اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی دم دار ستارہ زمین کے پاس سے گزرتا ہے ۔ چونکہ دم دار ستارے بھی سورج ہی کے گرد محو ِ گردش ہیں لہذا‘ انکی دم سے خارج ہونے والی’ڈسٹ ‘ یا چھوٹے چھوٹے چٹانی پتھر دھار کی صورت میں پیچھے رہ جاتے ہیںجنھیں ” شوٹنگ سٹار ” یا ” فالنگ سٹار ” بھی کہا جاتا ہے یہ دراصل خلا میں ہر جانب بکھرے ہو ئی چٹانیں یا کنکریاں ہیں جو سائز میں نسبتا ًبڑی ہو تی ہیں اور لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے تیس سے اسی میل کی بلندی پر گرتے نظر آتے ہیں ، لیکن ان میں سے کوئی شاذو نادر ہی زمین پر آگرتا ہے ‘ کیونکہ ہوا سے مسلسل رگڑ کے باعث زمینی ماحول میں یہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں ۔ اگرچہ ایک شاور میں یہ پتھر ہر جانب سے گرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اگر ان کے راستے کی خط کشی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ سارے پتھر خلا کے ایک مخصوص علاقے یا مقام سے آرہے ہوتے ہیں لہذا ٰ ہر میٹی یور شاور کا نام "کانسٹی لیشن” یا برج ( ستاروں کا جھرمٹ ) کے نام کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے ۔

    گلگت بلتستان میں شہاب ثاقب گرنے کی اطلاعات*

    گذشتہ ہفتے دنیا بھر میں 20-21 اور 21-22 کی راتیں فلکیات کے شیدائیوں کی توجہ کا مرکز رہیں جب انھیں آسمان سے ان جلتے پتھروں کی بارش دیکھنے کا موقع ملا‘ یہ ایونٹ اس حوالے سے منفرد رہا کہ چاند کی ابتدائی تاریخوں کے باعث افق پر زیادہ روشنی نہ تھی ، یوں گرتے ہوئے میٹی یور کا با آسانی مشاہدہ کیا گیا ۔ 21 اور 22 اکتوبر کی رات مشا ہدہ کی جانے وال پتھروں کی بارش کو ’اورینائڈ میٹی یور شاور‘ کا نام دیا گیا تھا کیونکہ یہ’اورین کانسٹی لیشن ‘ کی جانب سے تھی ۔ اور دنیا بھر سے کروڑوں شائقین نا صرف اس انوکھی بارش سے لطف اندوز ہوئے بلکہ ’ایسٹروگرافرز‘ نے اسے اپنے کیمروں میں ہمیشہ کے لیئے مقید بھی کیا ۔

    لیکن اگر کسی وجہ سے آپ اس دلفریب منظر کو دیکھنے اور اپنے کیمرے میں مقید کرنے سے قاصر رہے تو فکر کی چنداں ضرورت نہیں ، اگلے ماہ نومبر اور دسمبر میں آپ کو یہ موقع دوبارہ حاصل ہونے والا ہے۔ سال 2017 کے لیے ناسا کی جانب سے جاری کردہ فلکیاتی کیلنڈر کے مطابق اس برس کے اختتام تک تین مختلف کانسٹی لیشنز کی جانب سے یہ میٹی یور شاور مزید دیکھنے کو ملے گی ،جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ واضح رہے کہ ناسا ہر برس کے آغاز میں سال بھر میں رونما ہونے والے اہم فلکیاتی عوامل اور ایونٹس کا ایک کیلنڈر جاری کرتا ہے ۔

    ٹورڈ میٹی یور شاور : فلکیات کے شائقین 10-11 نومبر کی درمیانی شب اس بارش کانظارہ کر سکین گے جو دراصل دم دار ستارے ’اکی‘ کی دم سے خارج ہونے والی دھار کے باعث نظر دکھائی دے گی ۔ چونکہ یہ ٹورس کانسٹی لیشن کی جانب سے زمین کی طرف گریں گے اس وجہ ا سے
    ٹورڈ میٹی یور شاور کا نام دیا گیا ہے ۔ لیکن یہ یورپ اور بر طانیہ میں دیکھا جاسکے گا اور ا س میں گرنے والے پتھر بھی نسبتا ََ سست رفتار ہوں گے اور مکمل چاند کی وجہ سے یہ ز یادہ واضح بھی نہیں ہوگا ۔

    لیو نائڈ میٹی یور شاور : شوٹنگ یا فالنگ سٹارز کی بارش کبھی بھی محض ایک رات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ عموما ََ یہ ہفتوں تک گرتے نظر آتے رہتے ہیں، گیارہ نومبر کے صرف چند دن بعد 16-17 نومبر کی درمیانی شب لیو کانسٹی لیشن کی جانب سے لیونائڈ میٹی یور شاور وقوع پزیر ہوگا جسے ابتدائی چاند کی تاریخوں کے باعث بہت واضح دیکھا جا سکے گا۔

    فلکیاتی پتھروں کی یہ بارش دم دار ستارے ٹیمپل ٹٹل کی دم سے اخراج شدہ دھار کے باعث ہوگی اور فی گھنٹہ پندرہ میٹی یور گرتے ہوئے دکھائی دیں گے یہ دم دار ستارہ 1865میں دریافت ہوا تھا اور اس کا سورج کے گرد ایک چکر تینتیس سال میں مکمل ہوتا ہے سو لیونائڈ شاور اس حوالے سے منفرد ہے کہ فلکیات کے شائقین اتنے ہی برس بعد دوبارہ اس نظارے سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

    جیمی نائڈ میٹی یور شاور : ایک ماہ کے وقفے کے بعد سال 2017 کی آخری میٹی یور شاور سے آپ 14-15 دسمبر کی رات لطف اندوز ہو سکتے ہیں جسے جمینی کانسٹی لیشن کی مناسبت سے جیمی نائڈ شاور کا نام دیا گیا ہے جسے علی الصبح تین سے چار بجے کے درمیان بہت واضح دیکھا جا سکے گا ۔

    اگر آپ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور 12 اگست یا 21 اکتوبر کی راتوں کی طرح فلکیاتی پتھروں اور چٹانوں کی بارش دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو آپ کو اس کے لیے آبادی اور ’لائٹ پولوٹڈ ‘ علاقوں سے دور ایسے مقامات کا رخ کرنا ہوگا جہاں مصنوعی روشنی بالکل نہ ہو اور آپ با آسانی متعلقہ کانسٹی لیشن کی طرف رخ کر سکیں ،میٹی یور شاوزر کا سادہ آنکھ سے بھی با آسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے قطعادور بین یا مخصوص فلکیاتی گلاسز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئرکریں۔

  • سال 2017 آسمان پرقیامتیں ڈھانے والا ہے

    سال 2017 آسمان پرقیامتیں ڈھانے والا ہے

    انسان زمین پر اپنے ابتدائی ادوار سے ہی آسمان کی وسعتوں کا مشاہدہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے‘ رات میں آنکھوں کو خیرہ کردینے والے یہ اجرامِ فلکی تمام تر تاریخِ انسانی میں انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں اور اکثر تو ان کی پرستش بھی کی جاتی رہی ہے۔ سال 2017 میں آسمان میں انتہائی دلچسپ تبدیلیاں پیش آنے والی ہیں جن کا مشاہدہ یقیناً آپ کو لطف دے گا۔

    کبھی کوئی تارہ تیزی سے ٹوٹتا ، مدہم پڑتا آپکی نگاہوں کے سامنے سے اوجھل ہوا ہو ،رات کی تاریکی اور گہرے سکوت میں یہ اجرامِ فلکی اکساتے،ہمارا تجسس بڑھاتے ہیں کہ ہم آسمانوں کی وہ ان کہی داستانیں جان سکیں جو اس لا متناہی کائنات میں جا بجا بکھری پڑی ہیں

    مزید پڑھیں: طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    ایک نظرڈالتے ہیں 2017 میں وقوع پذیر ہونے والے ان اہم فلکیاتی واقعات پرجو جلد ہی دنیا بھر کے لوگوں کے تجسس کو بڑھائیں گے۔

    دم دار ستارہ 45 پی کا نظارہ ۔( 11 فروری 2017)۔


    دم دار ستارہ 45 پی جسے کوسٹ ہونڈا ایم آر کوز کا نام دیا گیا ہے 2017 کے آغاز ہی سے سائنسدانوں اور فلکیات کے شائقین کی توجہ کا مرکزہے۔ یہ دمدار ستارہ یکم جنوری کو غروبِ آفتاب کے بعد چاند کے بے حد قریب دیکھا گیا تھا ۔ لیکن یہ اتنا مدہم تھا کہ ٹیلی سکوپ کے بغیراس کا مشاہدہ کرنا مشکل تھا ، لیکن اگر آپ یکم جنوری کو اسے دیکھنےمیں ناکام رہے تھے تو مایوسی کی قطعاَ کوئی بات نہیں، گیارہ فروری کو قدرت ایک دفعہ پھر آپ کو یہ نادر موقع فراہم کرنے والی ہے ۔ اس روز دنیا بھر سے فلکیات کی شیدائی اس ستارے کا ایک دفعہ پھر مشاہدہ کرسکیں گے اور اس دفعہ اتنا زیادہ روشن اور واضح دکھائی دے گا۔

    comet-post-1

    سورج گرہن۔ کلر آف فائر ۔( 26 فروری 2017)۔


    اس برس کی پہلی سہ ماہی میں ہی آنے والا دوسرا بڑا ایونٹ سورج گرہن ہے ، جسے اینیولر سورج گرہن کہا جاتا ہے‘ اس کی ایک اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ چاند گردش کرتا ہوا ، زمین اور سورج کے درمیان حائل ہوتا ہے تو کچھ لمحوں کے لیئے یہ نظارہ بلکل ڈائمنڈ رنگ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ جسے ” کلر آف فائر ” کہا جاتا ہے، دنیا بھر سے آسٹرونامی کے شیدائی اس نادر لمحے کو اپنے کیمروں میں محفوظ کرنے کے لیئے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں ۔ 2017 میں رونماہونے والے اس کلرآف فائر سےسدرن ہیمی سفئیر کے با شندے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ یہ ساؤتھ پیسیفک اوشین سے شروع ہوتا ہوا ساؤتھ امریکہ سے گزرے گا، جبکہ اس کا اختتام برِاعظم افریقہ میں ہوگا ، یعنی ایک وسیع علاقے کے رہائشی اس دفعہ اس خوبصورت منظر کا بھرپورنظارہ کرسکیں گے۔

    annual-solar

    مشتری، مریخ اور چاند کی مثلث ۔(29 مارچ 2017)۔


    سال 2017 کو اگر بہترین اور شاذو نادر وقوع پذیر ہونے والے اجرامِ فلکی کے واقعات کا سال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ پہلی سہ ماہی میں ہی آنے ولا ایک اوردلکش ایونٹ مشتری، مریخ اورچاند مثلث بنائے گا، مگر زمین سے اس کا مشاہدہ کرنا مشکل ہے ، کیونکہ زمین ، مشتری کی نسبت سائز میں بہت چھوٹی ہے اور سورج کی چکا چوند کی زد پر ہونے کی وجہ سے یہ سیارہ یہاں سے صحیح طور پر نہیں دیکھا جا سکتا ۔ مگر 29 مارچ کو یہ زمین سے دیکھنے پر سورج سے دور ترین مقام پر ہوگا۔

    مزید پڑھیں: سیارہ مشتری کا عظیم طوفان

    moons-join-jupiter

    چاند اور عطارد کا ملاپ ۔( 10 اپریل 2017)۔


    عطارد کو ہمارے نظامِ شمسی کا ” بادشاہ” سیارہ کہا جاتا ہے، سو یہ کیونکر ممکن تھا کہ جب سورج، چاند اور دیگر سیارے اپنے نئے روپ دکھلانے چلیں ہوں تو عطارد اُن سے پیچھے رہ جاتا ، 2017 اس لحاظ سے بھی منفرد ٹہرا کہ اس برس عطارد ” سپائیکا”نامی ایک ایسے ستارے کے ساتھ جوڑا بنائیگا جسے ” ورگو” کے ستاروں کے جھرمٹ میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اور اسی پر بس نہیں اس سال اپریل میں دنیا بھر سے شائقین اس منفرد سیارے کو چاند کے ساتھ اکھٹا نمودار ہوتا دیکھ سکیں گے۔ اس روز غروبِ آفتاب کے فوراَ بعد چاند اور عطارد ایک دوسرے کے بہت قریب دیکھے جا سکیں گے جس میں عطارد معمول سے زیادہ روشن اور بڑا دکھائی دیگا ۔ چاند اور عطارد کا یہ ملاپ اس کے بعد پھر کب ، کسی کو دیکھنا نصیب ہوگا ؟ کوئی نہیں جانتاسوابھی سے اپنے ٹا ئمرز سیٹ کر لیجیئے تاکہ یہ نادر موقع آپ کے ہاتھ سے ضائع نہ ہو جائے۔

    مزید پڑھیں: ہزاروں سال بعد چاند کی شکل تبدیل

    mercury-moon-post

    مکمل سورج گرہن۔(21 اگست 2017)۔


    مکمل سورج گرہن میں چاند کچھ لمحوں کے لیئے زمین اور سورج کے درمیان مکمل حائل ہو کر دن میں رات کا سماں باندھ دیتا ہے۔ 2017 نارتھ امریکہ کے رہائشیوں کے لیئے ایک بڑی خبر لیکر آیا ہے۔ اس برس 21 اگست کو امریکہ کے ساحلوں پراوریگن سے لیکر نارتھ کیرولینا تک ایک ایسا مکمل سورج گرہن رونما ہونے والا ہے جو اس سے پہلے 1979 میں دیکھا گیا تھا اور اب دوبارہ 2024 میں دیکھا جاسکے گا ۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس مکمل سورج گرہن سے لطف اندوز ہونے کے لیئے اس روز دور دراز کے علاقوں اور اور دیگر ریاستوں سے بڑی تعداد میں شائقین امریکی ساحلوں کا رخ کرکے اس گرہن کا نظارہ کرینگے۔ جبکہ جزوی سورج گرہن پورے برِاعظم امریکہ میں با آسانی مشاہدہ کیا جا سکے گا۔

    total-solar-post

    زہرہ اور عطارد کا ملاپ۔( 13 نومبر 2017)۔


    یہ برس جاتے جاتے بھی فلکیات کے شیدائیوں کو ایک خوبصورت تحفہ دے جائیگا اور وہ ہے اس نظامِ شمسی کے دو بڑے اور اہم ترین سیاروں زہرہ اور عطارد کا ملاپ، تیرہ نومبر کی شام کو مغرب کی جانب یہ دونوں سیارے بہت کم بلندی پر ایک دوسرے کے بہت قریب دیکھے جا سکیں گے۔ اس روز اِن کے درمیان فاصلہ گھٹ کر محض اٹھارہ آرک منٹ رہ جائیگا ، واضح رہے کے ایک آرک منٹ علمِ فلکیات میں ایک بہت بڑی مقدار شمار کی جاتی ہے۔اس سے قبل جون 2015 میں اس خوبصورت ایونٹ کا نظارہ کیا گیا تھا ۔ لیکن اس دفعہ یہ ملاپ چونکہ افق پر بہت کم بلندی پر وقوع پزیر ہوگا ، لہذا صرف آنکھ سے مشاہدہ کرنا ممکن نہیں ہوگا ، سو آسٹرونامی کے شیدائی اس روز اپنی ٹیلی سکوپ اور دو چشم( بانوکیولر) تیار رکھیں۔

    mercury-conj-jan-21_edited-1

    شہابِ ثاقب کی برسات ۔(13 دسمبر 2017)۔


    ہر برس دسمبر میں فلکیات کے شائقین شہابِ ثاقب یا ٹوٹتے تاروں کی برسات کا کا نظارہ بصد شوق کرتے ہی ہیں مگر اس منفرد برس یہ برسات بھی اپنے جوبن پر ہوگی۔ 2016 میں تیرہ دسمبر کو دنیا بھر سے لوگوں نے ان ٹوٹتے تاروں کو سپر مون کی غیر معمولی چکا چوند میں دیکھا تھا، اس دفعہ سپرمون تو میسر نہ ہوگا البتہ شہابِ ثاقب کے گرنے کی رفتار کافی تیز ہوگی۔ سائنسدانوں کے ایک عمومی اندازے کے مطابق تیرہ دسمبر کو اپنے عروج پر ان کے گرنے کی رفتار ساٹھ سے ایک سو بیس شوٹنگ سٹار فی گھنٹہ ہوگی۔ مگر اس کا مشاہدہ کرنے کا بہتری وقت چودہ دسمبر کی علی الصبح کا ہوگا جب نئے نوزائیدہ چاند اپنی چھب دکھلانےلگے گا۔،

    annual-meteor-shower