Tag: ATC

  • بانی متحدہ اشتعال انگیز تقاریر کیس اے ٹی سی نمبر ایک میں منتقل نہ ہوسکا

    بانی متحدہ اشتعال انگیز تقاریر کیس اے ٹی سی نمبر ایک میں منتقل نہ ہوسکا

    کراچی : انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بانی ایم کیوایم کی اشتعال انگیز تقاریر کیس کی سماعت ہوئی، مذکورہ کیس اے ٹی سی نمبر میں منتقلی سے متعلق تاحال آرڈر نہ ہوسکا، عدالت میں فاروق ستار، میئر کراچی وسیم اختر اور خواجہ اظہار ودیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) میں بانی ایم کیوایم کی اشتعال انگیز تقاریر کے کیس کی سماعت کے دوران ایم کیو ایم رہنماؤں کے خلاف دو مقدمات میں جرح کی گئی۔

    اس موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار، میئر کراچی وسیم اختر اور خواجہ اظہار ودیگر عدالت میں پیش ہوئے، مذکورہ کیس اے ٹی سی نمبر ایک منتقلی سے متعلق تاحال آرڈر نہ ہوسکا۔

    مزید پڑھیں : میئر کراچی کے پاس اختیارات نہیں، عامر خان کی اشتعال انگیز تقاریر کیس میں پیشی

    اے ٹی سی نمبر 10نے کیس منتقلی سے متعلق ایم آئی ٹی برانچ کو خط لکھا ہے، کیس منتقلی سے متعلق ایم آئی ٹی برانچ سے اے ٹی سی 10کو لیٹر موصول نہ ہوسکا، عدالت نے کیس کی سماعت یکم فروری تک ملتوی کردی۔

  • کے کے ایف منی لانڈرنگ کیس : بانی ایم کیوایم اور دیگر کےخلاف ثبوت مل گئے

    کے کے ایف منی لانڈرنگ کیس : بانی ایم کیوایم اور دیگر کےخلاف ثبوت مل گئے

    کراچی :  قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بانی ایم کیوایم اور دیگر کیخلاف کے کے ایف کے ذریعے منی لانڈرنگ کرانے کے ٹھوس ثبوت حاصٓل کرلیے۔ رپورٹ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں جمع کرادی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں ایم کیو ایم کی فلاحی تنظیم خدمتِ خلق فاؤنڈیشن کے نام پر منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی۔

    کے کے ایف کے نام پر منی لانڈرنگ کے مقدمہ میں بانی ایم کیوایم اور دیگر ملزمان کےخلاف تحقیقات میں پیش رفت کی رپورٹ جمع کرادی گئی۔

    رپورٹ میں عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ بانی ایم کیو ایم کے خلاف ٹھوس شواہد حاصل کرلیے گئے ہیں، شواہد کی تصدیق برطانیہ سے کرائی جارہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق رپورٹ سیکریٹری جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے جمع کرائی جس میں کہا گیا ہے کہ متحدہ بانی و دیگر کے خلاف ٹھوس شواہد حاصل کر لیے گئے، وزارتِ خارجہ کے ذریعے ان دستاویزاتی شواہد کی تصدیق برطانیہ سے کرائی جا رہی ہے۔

    اس کے علاوہ متحدہ بانی کے گھر سے اسلحے کی فہرست کا فرانزک کرانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ اسلحہ کہاں استعمال ہوا؟ فرانزک کے لیےحکام کو فہرست بھیج دی گئی ہے۔

    رپورٹ میں وفاقی حکومت کو جے آئی ٹی تشکیل دینے کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا کہ مزید پیش رفت تک سماعت مناسب دورانیے کے لیے ملتوی کردی جائے۔

    کیس کی سماعت کےدوران ایف آئی اے کی ٹیم کے پیش نہ ہونے پرفاضل جج نے برہمی کا اظہارکیا اور کہا کہ اہم کیس میں ایف آئی اے نے لاپرواہی کی اعلیٰ مثال قائم کردی، عدالت نے ایف آئی اے سےانیس اپریل کوجواب طلب کرلیا۔

  • ساری زندگی آئینِ پاکستان کا دفاع کروں گا، فیصل رضا عابدی

    ساری زندگی آئینِ پاکستان کا دفاع کروں گا، فیصل رضا عابدی

    اسلام آباد: انسدادِ دہشت گردی عدالت میں اعلیٰ عدلیہ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے کے معاملے میں سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی پر جرح مکمل کرلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق توہین عدالت معاملے کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے کی ، عدالت کے روبرو فیصل رضاعابدی نے اپنا بیان قلم بندی کروایا۔

    اپنے بیان میں ان کا کہنا تھاکہ عدلیہ کی آزادی کے لئے میں پیش پیش تھا،12 مئی 2007 کے سانحے میں میرے 17 ساتھی شہید ہو گئے تھے۔ فیصل رضا عابدی نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ وہ آئینِ پاکستان کے تحت تمام عدالتوں کے حکم ناموں کا احترام کرتے ہیں ۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے مجھے اختیار دیا ہے کہ کوئی بھی کورٹ آئین کی خلاف ورزی کرے تو میں تنقید کروں ،دو سابق چیف جسٹس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز دائر کئے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ساری زندگی آئینِ پاکستان کا دفاع کروں گا۔ فیصل رضا عابدی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ میں نے کبھی کسی ادارے کو دھمکی نہیں دی۔توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

    بیان قلم بند کروانے کے بعد استغاثہ کی جانب سے فیصل رضا عابدی پر جرح بھی مکمل کر لی گئی۔ جج شاہ رخ ارجمند نے کیس کی سماعت 18 اپریل تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے خلاف نازیبا الفاظ بولنے کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی کے خلاف گزشتہ برس 21 ستمبر کو انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ میں گزشتہ سال دسمبر میں توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے فیصل رضا عابدی کی غیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے کیس ختم کر دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ معافی توہین عدالت کیس تک محدود ہوگی ۔ دیگر مقدمات اسی طرح قائم رہیں گے۔

  • علی رضا عابدی کو قتل کرنے کیلیے8 لاکھ روپے ملے، ملزمان کا اعتراف

    علی رضا عابدی کو قتل کرنے کیلیے8 لاکھ روپے ملے، ملزمان کا اعتراف

    کراچی : علی رضا عابدی قتل کیس میں پوليس نے حتمی چالان پيش کرديا، مذکورہ چالان انسداد دہشت گردی عدالتوں کے منتظم کی کورٹ ميں پيش کيا گيا، پولیس کے چالان ميں گرفتار ملزمان کے اعترافی بيانات شامل ہیں۔

    پوليس نے گرفتار ملزمان کے اعترافی بيانات کو بڑی کاميابی قرار دے ديا، پولیس چالان کے مطابق چار ملزمان گرفتار اور چار مفرور ہیں اس کے علاوہ 12گواہان بھی شامل ہیں۔

    چالان ميں پوليس نے دعویٰ کیا ہے کہ چاروں ملزمان نے اپنے جرم کا اعتراف کرليا ہے، مفرور ملزمان ميں بلال، حسنين، مصطفی عرف کالی چرن اور فيضان شامل ہیں جبکہ محمد فاروق، محمد غزالی، ابوبکر اور عبدالحسيب کو گرفتار کیا گیا ہے۔

    چالان کے متن کے مطابق محمد فاروق کی گرفتاری میں ملزمان کا سراغ ملا، پولیس کے مطابق علی رضا عابدی کو لگنے والی گوليوں کے خول کا فارنزک تجزيہ کرايا گيا،خول2018میں لياقت آباد ميں ایک قتل کے واقعے سے مماثلث رکھتے ہیں۔

    رہنما ایم کیو ایم کے قتل کے لئے ملزمان کو 8 لاکھ روپے دیئے گئے، قتل کیلئے حسينی بلڈنگ کے پاس ایک نامعلوم شخص نے ملزمان کو رقم ادا کی۔

    مزید پڑھیں: علی رضا عابدی قتل کیس میں اہم پیشرفت، چار اجرتی قاتل گرفتار، سی ٹی ڈی کا دعویٰ

    چالان میں مزید بتایا گیا ہے کہ علی رضاعابدی کے قتل ميں استعمال موٹر سائیکل واردات کے بعد جلا دی گئی تھی، واضح رہے کہ علی رضا عابدی کو 25 دسمبر کو ان کے گھر کے باہر فائرنگ کرکے قتل کیا گيا تھا۔

  • پشاور: مشال خان قتل کیس کا فیصلہ محفوظ، 16 مارچ کو سنایا جائے گا

    پشاور: مشال خان قتل کیس کا فیصلہ محفوظ، 16 مارچ کو سنایا جائے گا

    پشاور: انسداددہشت گردی عدالت، پشاور نے مشال قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، فیصلہ 16 مارچ کو سنایا جائے گا.

    اے آر وائی کے  نمایندے عثمان علی کے مطابق پشاور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں  کیس کی سماعت ہوئی، ملزمان کے وکلا نے دلائل مکمل کر لیے، جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا. عدالت میں چھیالیس گواہان اور مشال کے والد کے بیان ریکارڈ کیے جا چکے ہیں.

    خیال رہے کہ مشال خان یوسفزئی عبد الولی خان یونیورسٹی مردان کا طالب علم تھا، جسے 13 اپریل 2017 کو یونیورسٹی کی حدود میں مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں قتل کردیا۔

    مقتول پر مبینہ طور پرفیس بک پر مذہب مخالف مواد نشر کرنے کا الزام تھا۔ البتہ تفتیشی اداروں‌ نے واضح کیا کہ انھیں مشال کے خلاف شواہد نہیں ملے.

    مزید پڑھیں: مشال قتل کیس : مرکزی ملزم عارف 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

    واقعے کے خلاف سماجی طبقات کی جانب سے شدید ردعمل آیا اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

    مشال قتل کے بعد 45 افراد حراست میں لیے گئے، انھیں انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جائے گا، جہاں کیس کی سماعت ہوئی.

    اب اس ہائی پروفائل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے، جو رواں ماہ سنایا جائے گا.

  • نقیب اللہ اورساتھیوں کا قتل ماورائےعدالت قرار

    نقیب اللہ اورساتھیوں کا قتل ماورائےعدالت قرار

    کراچی : انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ محسو د قتل کیس میں بڑی پیش رفت کرتےہوئے واقعے کو ماورائے عدالت قتل قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی ۔ عدالت نے نقیب اللہ سمیت 4 افراد کے قتل کو ماورائے عدالت قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قائم پانچ مقدمات ختم کرنے کی رپورٹ منظور کرلی۔

    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انکوائری کمیٹی اورتفتیشی افسرنےجائےوقوعہ کامعائنہ کیا۔پولٹری فارم میں نہ گولیوں کےنشان ملےنہ دستی بم کےآثارملے۔

    انکوائری رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ محسود ،صابر،نذرجان،اسحاق کودہشت گردقراردیکرقتل کیاگیا۔حالات وواقعات اورشواہدمیں یہ مقابلہ خودساختہ اوربےبنیادتھا۔

    تفتیشی افسر نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ نقیب اللہ اورچاروں افرادکوکمرےمیں قتل کرنےبعداسلحہ رکھاگیا اور اس موقع پر سندھ پولیس کے سابق افسر راؤانواراوران کےساتھی جائےوقوعہ پرموجودتھے۔

    پس منظر


    واضح رہے گزشتہ برس 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا۔ ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس کیس مقرر کرتے ہوئے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تھا لیکن پھر چند روز بعد اچانک وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    عدالت نے راؤ انوار سے تفتیش کے لیے ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس آفتاب پٹھان کی سربراہی میں پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی تھی۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا، رپورٹ میں‌ موقف اختیار کیا گیا کہ راؤ انواراور ان کی ٹیم نے شواہد ضائع کیے، ماورائے عدالت قتل چھپانے کے لئے میڈیا پرجھوٹ بولا گیا۔

    رپورٹ میں‌ کہا گیا تھاکہ جیوفینسنگ اور دیگر شہادتوں سے راؤ انوار کی واقعے کے وقت موجودگی ثابت ہوتی ہے، راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا۔

    اس مقدمے میں سابق پولیس افسر راؤ انوار کو مرکزی ملزم نامزد کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا ، تاہم بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ لیکن عدالت کے حکم پر ان کا نام ای سی ایل میں داخل ہے اور اور ان کا پاسپورٹ حکام کے پاس جمع ہے جس کے سبب ان کے ملک سےباہر جانے پر پابندی ہے۔

  • چینی قونصل خانے پرحملہ:عدالت کا تفتیشی افسرکو24جنوری کومقدمےسے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا حکم

    چینی قونصل خانے پرحملہ:عدالت کا تفتیشی افسرکو24جنوری کومقدمےسے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا حکم

    کراچی: چینی قونصل خانے پرحملے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سی ٹی ڈی کی تفتیش پر عدالت نے اعتراضات لگا دیے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں چینی قونصل خانے پرحملے سے متعلق انسداد دہشت گردی عدالت میں کیس کی سماعت ہوئی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران سی ٹی ڈی حکام نے مقدمہ داخل دفترکرنے کی رپورٹ جمع کرائی جس پر عدالت نے اعتراضات لگا دیے۔

    انسداد دہشت گردی عدالت نے استفسار کیا کہ اتنے بڑے واقعے کا مقدمہ اے کلاس کیوں کیا؟، ملزمان گرفتار نہیں ہوئے تو مقدمہ اے کلاس کردیں۔

    عدالت نے تفتیشی افسر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پیش کی گئی رپورٹ میں ایس پی کا نام کیوں نہیں ہے، آئندہ سماعت پررپورٹ میں ایس پی کا نام بھی لکھ کرجمع کرائیں۔

    تفتیشی افسر نے بتایا کہ کیس میں اب تک کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا، جب تک کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوتا کیس داخل دفترکیا جائے، اے کلاس رپورٹ میں اسلم اچھو کو عدم گرفتار ظاہر کیا گیا ہے۔

    سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے مطابق اسلم اچھو کے مارے جانے کی اطلاع ہےلیکن تصدیق نہیں ہوئی،4 کلاشنکوف، 2آئی ای ی، ڈیٹونیٹر، دستی بم، باردو، گولیاں برآمد ہوئیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیر بخش مری کے بیٹے حربیار مری کا نام ملزمان میں شامل ہے، نامزد ملزمان میں رحمان گل ، شیخو، منشی، شیردل و دیگر شامل ہیں۔

    سی ٹی ڈی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقدمے میں دہشت گردی، سندھ اسلحہ ایکٹ اور دیگر دفعات شامل ہیں۔

    انسداد دہشت گردی عدالت نے چینی قونصل خانے پرحملے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران تفتیشی افسرکو24 جنوری کومقدمے سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

    چینی قونصل خانے پرحملے کی کوشش ناکام ‘ 2 پولیس اہلکار شہید ‘ 3 دہشت گرد ہلاک

    یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع چینی قونصل پر حملے میں 2 پولیس اہلکار شہید اور ایک زخمی ہوگیا تھا جبکہ جوابی کارروائی میں 3 دہشت گرد مارے گئے تھے۔

  • میڈیا ہاؤسز حملہ کیس ، فاروق ستار اور عامر خان سمیت 60 ملزمان پرفردجرم عائد

    میڈیا ہاؤسز حملہ کیس ، فاروق ستار اور عامر خان سمیت 60 ملزمان پرفردجرم عائد

    کراچی : اےآروائی نیوزحملہ اوراشتعال انگیزتقریر میں سہولت کاری کے الزام میں ایم کیو ایم رہنما فاروق ستار  اور عامر خان سمیت ساٹھ ملزمان پرفردجرم عائدکردی گئی۔ ملزمان کے صحت جرم سے انکار پرعدالت نے کہا خداکاخوف کریں اورسچ بولیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں میڈیا ہاؤسز پر حملے اور اشتعال انگیزتقریرکے مقدمات کی سماعت ہوئی، سماعت میں ایم کیوایم رہنماؤں سمیت ساٹھ ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی۔

    ملزمان میں فاروق ستار، عامر خان، کنور نوید جمیل ، قمر منصور، شاہد پاشا، گلفراز خٹک، ساتھی ایم اسحاق ، محفوظ یار خان اور دیگر شامل ہیں۔

    کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نےانگریزی میں ٹائپ فرد جرم اردو میں پڑھ کر سنائی، جس میں کہا گیا کہ بائیس اگست دو ہزار سولہ کو کراچی پریس کلب کےباہراشتعال انگیزتقریرکی گئی، ملزمان نےتقریرمیں سہولت کاری کی۔

    فرد جرم میں مزید کہا گیا کہ تقریرمیں بغاوت کااعلان اور ملکی سالمیت کے خلاف بات ہوئی، بانی ایم کیو ایم نے اے آر وائی نیوزسمیت دو میڈیا ہاؤسز پر حملے کا کہا۔

    اس موقع پر عدالت نے ملزمان سےاستفسار کیا کہ کیا آپ لوگوں نے یہ سنا؟ کمرہ عدالت میں موجود تمام ملزمان نے بیک وقت صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہاہم نےایسا کچھ نہیں سنا۔

    ملزمان کے جواب پر عدالت نے کہا خدا کا خوف کریں اور سچ بولیں کیا ایسا کچھ نہیں کہا؟ ملزمان نے پھر جواب دیا ہم نے ایسا کچھ نہیں سنا۔

    مزید پڑھیں : اشتعال انگیز تقریر، 21 مقدمات میں مئیر کراچی وسیم اختر، فاروق ستار سمیت دیگر رہنماؤں پر فردجرم عائد

    عدالت نے تفتیشی افسراورگواہوں کو یکم دسمبرتک طلب کرلیا۔

    یاد رہے 23 اکتوبر کو بھی اشتعال انگیز تقریرسے متعلق مقدمات میں مئیر کراچی وسیم اختر، فاروق ستار، عامر خان ،خواجہ اظہارپر فردجرم عائد کی گئی تھی۔

    عدالت نے ملزم ارشد،اشرف نور،جہانگیر،حسن عالم کی عدم پیشی پرشدید برہمی کا اظہار کیا ، ارشادبندھانی ایڈووکیٹ نے کہا تمام ملزمان کوپابندکیاتھاوہ لازمی آئیں۔

    عدالت نے کہا کہ یہ عدالت ہےہرسماعت پرکوئی نہ کوئی غیرحاضرہوتاہے، سب غیر حاضر ملزمان کی ضمانت منسوخ کرکےجیل بھیجا جائے گا۔

  • نقیب اللہ قتل کیس: راؤانوارانسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش

    نقیب اللہ قتل کیس: راؤانوارانسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش

    کراچی: انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی، سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔

    تفصیلات کے مطابق آج ملزمان کی پیشی کے موقع پر کیس کے تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کیس میں نامزد مفرور ملزمان سے متعلق رپورٹ پیش کی۔

    رپورٹ کے مطابق مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں اور انہیں جلد حراست میں لے لیا جائے گا۔عدالت نےکیس کی مزیدسماعت31اکتوبرتک ملتوی کردی۔

    کیس میں نامزد ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ جھوٹی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں اپنی رہائش گاہ پر موجود ہوں ، جب بھی عدالت بلاتی ہے پیش ہوتا ہوں، تفتیشی افسر کی جانب سے غلط بیانی کی جارہی ہے۔

    نیب کی جانب سے ان کے اثاثوں کی چھان بین سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے نیب کی انکوائری سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایسا کچھ میرے علم میں نہیں ہے۔

    یاد رہے کہ 13 جنوری کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌کیا تھا۔ ٹیم کا موقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا ہے، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں اور ایس ایس پی راؤ انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا تھا۔

  • فیکٹری ملازمین کو یرغمال بنانے والے ملزم کیخلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ

    فیکٹری ملازمین کو یرغمال بنانے والے ملزم کیخلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ

    کراچی : فیکٹری ملازمین کو اسلحہ کے زور پر یرغمال بنانے والے ملزم شہزاد کیخلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرلیے گئے، ملزم پر غیرقانونی اسلحہ رکھنے کا بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فیکٹری ملازمین کو یرغمال بنا کر مالکان سے واجبات طلب کرنے کا طریقہ سلیم شہزاد کو مہنگا پڑ گیا، پولیس نے پہلے اسے پیار سے بہلا کر گرفتار کیا پھر دہشت گردی کی دفعہ لگا کر مقدمات درج کردیئے۔

    اس حوالے سے ایس ایس پی ملیر منیر شیخ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ملزم سلیم شہزاد کے خلاف گڈاپ سٹی تھانے میں دو مقدمات درج کرلیے گئے ہیں، ملزم نے گزشتہ روز مالکان سے واجبات کی ادائیگی کے لیے فیکٹری ملازمین کو اسلحے کے زور پر یرغمال بنالیا تھا، ایک اے ایس آئی نے اندر جانے کی کوشش کی تو ملزم نے تین گولیاں فائر کیں۔

    منیر شیخ کے مطابق مذکورہ مقدمہ فیکٹری ملازم کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے، مقدمے میں دہشت گردی اور جان سے مارنے کی کوشش کی دفعات شامل کی گئی ہیں، اس کے علاوہ ملزم کے خلاف غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

    ملزم سے ایک پستول اور26 گولیاں برآمد ہوئی ہیں، پولیس کا مزید کہنا ہے کہ ملزم سے برآمد ہونے والا اسلحہ فرانزک ٹیسٹ کیلئے لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ کراچی کے علاقے گلشن معمار سپرہائی وے انڈسٹریل ایریا میں واقع نجی فیکٹری میں کام کرنے والے ملازم سلیم شہزاد کو مالکان نے غلطی کرنے پر نوکری سے برطرف کردیا تھا، تاہم واجبات ادا نہ کیے جانے پر سلیم نےگزشتہ شام عملے کو یرغمال بنالیا تھا۔

    بعد ازاں ایک کامیاب کارروائی میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے ملازمین کو بخیریت بازیاب کرواتے ہوئے ملزم سلیم شہزاد حسین کو حراست میں لے لیا تھا۔

    مزید پڑھیں:  واجبات کی عدم ادائیگی پرعملے کی یرغمالی کا ڈراپ سین، ملزم گرفتار

    ملزم سلیم شہزاد کا کہنا تھا کہ اُسے سات ماہ قبل ملازمت سے جبری طور پر برطرف کیا گیا اور مالکان نے دو ماہ کے واجبات بھی ادا نہیں کیے جس پر اس نے یہ انتہائی اقدام اٹھایا۔