Tag: Atmosphere

  • کرونا وائرس: صنعتیں بند ہونے کے نئے اثرت سے ماحولیاتی ماہرین پریشان

    کرونا وائرس: صنعتیں بند ہونے کے نئے اثرت سے ماحولیاتی ماہرین پریشان

    کرونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں ہونے والے لاک ڈاؤنز نے کاروباری و صنعتی زندگی کو معطل کردیا تو زمین کی فضا خاصی حد تک صاف ہوگئی تاہم ایک نئی تحقیق نے ماہرین کو حیران کردیا۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران مختلف ممالک میں حیران کن طور پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا۔

    اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ گزشتہ سال موسم بہار میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کے نتیجے میں مختلف حصوں میں درجہ حرارت میں 0.1 سے 0.3 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا جو بظاہر بہت معمولی ہے۔

    نیشنل سینٹر فار ایٹموسفیرک ریسرچ (این سی اے آر) کی تحقیق میں بتایا گیا کہ سنہ 2020 کے دوران کئی ماہ تک لاک ڈاؤنز اور سماجی سرگرمیوں میں کمی کے نتیجے میں زہریلی گیسوں کا اخراج کم ہوا، جس کے نتیجے میں موسم معمولی گرم ہوگیا۔

    تحقیق کے نتائج حیران کن ہیں کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔

    تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ آلودگی کے ہوائی ذرات یا ایروسول سورج کی روشنی کو بلاک کرتے ہیں، گشتہ سال ان کے اخراج میں کمی آئی جس کے نتیجے میں سورج کی زیادہ تپش ہمارے سیارے تک پہنچنے لگی، بالخصوص بڑے صنعتی ممالک جیسے امریکا، روس اور چین میں۔

    انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں سے گیسوں کے اخراج میں نمایاں کمی کے نتیجے میں درجہ حرارت میں مختصر المدت اثرات مرتب ہوئے، آلودگی زمین کو ٹھنڈا کرتی ہے، تو یہ قابل فہم ہے کہ آلودگی کی شرح میں کمی نے ہمارے سیارے کو زیادہ گرم کردیا۔

    یہ اثر ان خطوں میں زیادہ نمایاں تھا جہاں آلودہ گیسوں کے ہوائی ذرات کا اخراج زیادہ ہوتا ہے، وہاں درجہ حرارت میں 0.37 سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    ایروسول سورج کی تپش کو واپس پلٹانے والی آلودگی کی قسم ہے جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسز اس سے الٹ کام کرتی ہیں، وہ تپش کو سیارے کی سطح کے قریب قید کرلیتی ہیں اور درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔

    درجہ حرارت میں مختصر المدت اضافے کے باوجود محققین کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا سے طویل المعیاد بنیادوں پر موسمیاتی تبدیلیوں کی شرح میں بس معمولی کمی آئے گی، کیونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور گرین ہاؤس گیسز فضا میں دہائیوں تک موجود رہتی ہیں جبکہ ایروسولز بہت جلد ختم ہوتے ہیں۔

  • امریکا میں شہاب ثاقب گرنے سے زور دار دھماکا

    امریکا میں شہاب ثاقب گرنے سے زور دار دھماکا

    امریکا اور کینیڈا میں شہاب ثاقب گرنے سے ہونے والے زور دار دھماکے اور روشنی کے جھماکوں نے شہریوں کو خوفزدہ کردیا، مقامی افراد کا کہنا تھا کہ زور دار آواز کے باعث ان کے گھر ہل گئے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا کے شمال مشرقی حصوں اور کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے جنوبی حصے میں شہاب ثاقب گرے جن سے نہایت زور دار آواز پیدا ہوئی۔

    یہ شہاب ثاقب امریکی شہروں میری لینڈ، واشنگٹن ڈی سی، ورجینیا، پنسلوینیا اور نیویارک میں گرے۔

    مقامی افراد کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روشنی کے چمکتے ہوئے گولے تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کے گرنے سے زوردار آواز اور روشنی کا جھماکا ہوا۔

    بعد ازاں امریکی خلائی ادارے ناسا نے ان شہاب ثاقب کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر جاری کیں جس میں انہیں زمین کی حدود میں داخل ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ناسا کے مطابق یہ سیارچوں کے ٹکڑے ہوسکتے ہیں۔

    وسطی و مغربی نیویارک کے رہائشیوں کا کہنا تھا کہ انہیں ایک زور دار آواز سنائی دی جس سے انہیں اپنے گھر ہلتے محسوس ہوئے۔

    خیال رہے کہ شہاب ثاقب کے زمین کی حدود میں داخل ہونے کا رواں ہفتے یہ دوسرا واقعہ ہے، اس سے چند روز قبل جاپان میں بھی ایسے ہی روشن ٹکڑے زمین پر گرتے دکھائی دیے تھے جس نے مقامی لوگوں کو خوفزدہ کردیا تھا۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ خلا سے گرنے والے ان ٹکڑوں میں سے صرف 5 فیصد ہی زمین کی سطح تک پہنچ پاتے ہیں، ان میں موجود گیسوں کی وجہ سے زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی یہ آگ پکڑ لیتے ہیں۔

    زمین کا 70 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے زیادہ تر یہ ٹکڑے سمندروں یا دریاؤں میں جا گرتے ہیں۔