Tag: atomic bomb

  • پاک بھارت کشیدگی: دنیا ایک بارپھرایٹمی تصادم کے دہانے پر

    پاک بھارت کشیدگی: دنیا ایک بارپھرایٹمی تصادم کے دہانے پر

    آج کی تاریخ میں سب سے تشویش ناک امر یہ ہے کہ دنیا ایک بار پھر نیوکلیائی جنگ کے دہانے پر بڑھ رہی ہے اور اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہمارا خطہ اس جنگ کا مرکز بننے کی تمام ترشرائط پوری کرتا نظر آرہا ہے، اگر پاکستان اوربھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو یہ خطہ یونہی نیوکلیائی جنگ کا نقطہ آغاز بنا رہے گا۔

    ایک جانب جہاں امریکا اپنے روایتی دشمن شمالی کوریا کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی عدم توسیع کے معاہدے کی جانب بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب واشنگٹن نے ماسکو کے ساتھ دستخط شدہ میزائل معاہدہ ختم کردیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اسی ماحول میں ستر سال پرانے حریف یعنی پاکستان اور بھارت ایک بار پھر اپنی پوری قوت کے ساتھ آمنے سامنے آچکے ہیں۔

    بھارت کے پاکستانی علاقوں میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اور اس کے بعد پاکستان کی جانب سے بھارت کا جہاز گرایا جانا، پائلٹ کو گرفتارکرنا، ساتھ ہی ساتھ بھارتی علاقے میں اسٹریٹیجکل اہمیت کے حامل ٹارگٹ کو لاک کرنا، یہ سب اتنا معمولی نہیں ہے اور اس بات کو پوری دنیا کو شدت کے ساتھ ہے کہ بھارت کے زیراہتمام مقبوضہ کشمیرکی وادی میں دہکتی ہوئی آگ کے شعلے کسی بھی وقت پوری دنیا کو جلا کر خاکستر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

    ایٹمی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت کا حامل، پاکستان کا شاہین میزائل

    پاکستان کی حکمت عملی اوربھارت کی عجلت پسندی سے کشمیر جسے اقوام عالم طاقِ نسیاں پر رکھ کر بھول چکے تھے ، اب وہاں سے اٹھنے والی چیخوں کی گونج طاقت کی تمام راہداریوں میں سنی جارہی ہیں، اوران اقوامِ عالم یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ تنازعہ دنیا کا سب سے خطرناک ترین تنازعہ ہے، دنیا میں کہیں بھی دو ایٹمی طاقتیں جن کے درمیان شدید مخاصمت ہو، ایک دوسرے کے اتنے قریب نہیں ہیں۔ لیکن پاکستان اور انڈیا تو ایک ہی تقسیم کے نتیجے میں تشکیل پانے والے ممالک ہیں جن کی اپنی سرحد 2400 کلومیٹر طویل ہے۔

    جنگ چھڑنے کی صورت میں یہ ایک انتہائی طویل محاذ ثابت ہوگا جیسا کہ ماضی میں ہوچکا ہے اور دونوں میں سے کسی ایک بھی ملک کو اگر لگا کہ یہ جنگ اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہے تو وہ اپنی برتری قائم کرنے کے لیے ایک لمحے کی دیر نہیں لگائے گا کہ یہ جنگ بقا کی جنگ ہےجس کے آگے انسان،اور انسانی دستور کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ سب سے طاقتور ہونا ہی بقا کی واحد ضمانت ۔۔۔۔۔ ایک مسلمہ اصول ہے۔

    اس وقت دنیا ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر پر بیٹھی ہے ، یہ تعداد اتنی ہے کہ اگر یہ سب ایک ساتھ چل جائیں تو نہ صرف یہ کہ کرہ ارض کا نام و نشان مٹ جائے گا بلکہ ہمارے پڑوسی سیارے بھی ہماری تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایٹمی اسلحے کے ماضی پر اس کے بعد دیکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت اس معاملے میں کہاں کھڑے ہیں اور کیا واقعی ان دو ممالک کے ایٹمی ہتھیار اس دنیا کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کافی ہیں؟۔

    اسٹیٹسکا کے اعداد و شمار کا عکس

    امریکا ، دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے ایٹمی میزائل بنائے اور ان کا استعمال بھی کیا۔ آج بھی انسانی تاریخ ان انسانیت سوز دنوں کو یاد کرکے لرز جاتی ہے جب امریکا نے جاپان کے دو شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے۔ سرد جنگ کے دنوں میں امریکا اور روس اپنے اسلحے خانوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر لگاتے رہے۔ سنہ 2017 کے اعداد وشمار کے مطابق روس اس وقت 6،800 وارہیڈز کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے تاہم ان میں سے 2500 کو وہ ریٹائر کرچکا ہے۔ دوسری جانب امریکا ہے جس کے اسلحہ خانے میں 6،600 ایٹمی وار ہیڈ شامل ہیں جن میں سے 2600 اب قابل استعمال نہیں ہیں۔

    یہ دو ممالک اس قدر ایٹمی اسلحہ رکھتے ہیں کہ ان کا چل جانے کا تصور ہی محال ہے۔اس کے بعد تیسرے نمبر پر فرانس ہے جس کے پاس 300 وارہیڈز ہیں اور چوتھے نمبر 270 وارہیڈز کے ساتھ چین براجمان ہے، تاہم چین کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا اور یہ اس معاملے پرچین کی حتمی پالیسی ہے۔ چین کے بعد پانچویں نمبر 215 وارہیڈز کے ساتھ برطانیہ موجود ہے، تاہم برطانیہ اس وقت کسی بھی ملک کے ساتھ ایسی صورتحال میں نہیں ہے کہ ایٹمی جنگ کا خطرہ درپیش ہو۔

    اس فہرست میں پاکستان چھٹے نمبرپرہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس 140 وارہیڈز ہیں جبکہ بھارت 130 وار ہیڈز کے ساتھ ساتویں نمبر پرہے۔اسرائیل 80 اعلانیہ ہتھیاروں ( کچھ طبقات کا ماننا ہے کہ اسرائیل کے پاس 200 سے زائد وارہیڈز موجود ہیں) کے ساتھ آٹھویں نمبر پر اور شمالی کوریا 20 ہتھیاروں کے ساتھ نویں نمبر پر ہے۔

    اب امریکا اور روس اپنے بین الابراعظمی میزائلوں کے ذریعے ایک دوسرے کو نشانہ تو بنا سکتے ہیں لیکن تاحال دونوں ممالک کے درمیان صورتحال اس قدر کشیدہ نہیں ہے جس قدر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمیشہ سے ہےاور گزشتہ کچھ دنوں سے دونوں ممالک کے درمیان شدید تناؤ ہے۔ بھارت کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی آئندہ کچھ دنوں میں ہونے والے الیکشن میں شکست دیکھ کر جنگ کے شعلوں کو فروغ دے رہے ہیں۔

    اس وقت پاکستان اور بھارت کے پاس مجموعی طور پر 270 وارہیڈز ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کم از کم تباہ کرنے کی صلاحیت ان بموں کے مساوی ہے جو کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے تھے لیکن زیادہ سے زیادہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت موجود ایٹم بم سو میل سے لے کر2500 میل تک کے علاقے میں تباہی پھیلا سکتے ہیں۔

    ناگاساکی پر گرایا گیا امریکی ایٹم بم – فیٹ مین

    سنہ 2007 میں امریکا کی کئی یونیورسٹیز کی مشترکہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اگر پاکستان اور بھارت جنگ شروع کرتے ہیں اور دونوں کی طرف سے مجموعی طور پر کل 100 وارہیڈز بھی استعال کیے گئے تو سوا دو کروڑ سے زائد افراد تو محض پہلے ہفتے میں ہی مر جائیں گے۔ اس کے علاوہ تابکاری سے براہ راست متاثر ہونے والے افراد کی تعداد بھی بلاشبہ کروڑوں میں ہوگی۔ صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے ساتھ سرحدیں رکھنے والے ممالک بھی اس تابکاری کا شکار ہوں گے۔

    لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوگی!۔۔۔انٹرنیشنل فزیشن فار دا پریوینشن آف نیوکلیئر وار کی سنہ 2013 میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اگر پاک بھارت جنگ میں نیوکلیئرہتھیار استعمال ہوں گے تو ان سے پیدا ہونے والی تابکاری دنیا کی نصف اوزون تہہ کو غائب کردے گی۔

    اوزون تہہ زمین کی فضا سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر حفاظتی تہہ ہے جو سورج کی مضر اور تابکار شعاعوں کو زمین پر آنے سے روک دیتی ہے۔ اوزون تہہ کی بربادی سے پوری دنیا کی زراعت شدید طور پر متاثر ہوگی۔ ہتھیاروں کے استعمال سے گاڑھا دھواں پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا جو کئی عشروں تک قائم رہے گا۔ اس دھوئیں کی وجہ سے زمین کی 40 فیصد زراعت ختم ہوجائےگی۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور تابکاری کے باعث زراعت کے متاثر ہونے سے دنیا کے 2 ارب افراد بھوک اور قحط کا شکار ہوجائیں گے۔ گاڑھے دھویں کے سبب نیوکلیائی موسم سرما کا آغازہوگا جس سےمزید زراعت تباہ ہوگی اور ساری دنیا قحط کا شکارہوجائےگی۔

    اس ساری صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے حالیہ کشیدگی میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کی جانب سے بارہا یہ پیغام بھارت اور اقوام عالم کو بھجوایا گیا کہ ہم یہ جنگ نہیں لڑنا چاہتے ہیں۔ پاک فوج کی جانب سے واضح الفاظ میں کہا گیا کہ جنگ میں فتح کسی کی بھی ہو ، انسانیت شکست سے ہمکنار ہوتی ہے۔ کشمیر یقیناً دونوں ممالک کے درمیان ایک نزاعی مسئلہ ہے اور حالیہ کشیدگی نے اقوام عالم کو باور کرایا ہے کہ اگر جلد اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ دونوں ممالک کسی بھی دن میدان جنگ میں ہوں گے۔

    اس ساری صورتحال میں امریکا، چین، برطانیہ اور روس سمیت کئی اہم ممالک نے بھارت کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کشمیر کے مسئلے کا حل ہی اس خطے میں امن کا واحد راستہ ہے ، یاد رہے کہ پاکستان ہمیشہ سے کشمیر ی عوام کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا چلا آیا ہے اور اسی روایت کے تحت پاکستان کی جانب سے آگے بھی کشمیریوں کو حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

  • یومِ تکبیر: پاکستان کو ایٹمی قوت بنے سترہ برس بیت گئے

    یومِ تکبیر: پاکستان کو ایٹمی قوت بنے سترہ برس بیت گئے

    اٹھائیس مئی کے دن کو پاکستانی تاریخ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے اسے یومِ تکبیر کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ یوم تکبیر بھارتی ایٹمی تجربات کے جواب میں چاغی کے مقام پر نعرہ تکبیر کی گونج میں ہونیوالے پانچ ایٹمی دھماکوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

    سترہ سال پہلے آج کے دن پاکستان نے دنیا کی ساتویں جبکہ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل کیا۔  ایٹمی دھماکے اس لئے کئے گئے کہ  گیارہ مئی انیس سو اٹھانوے کو پوکھران میں تین بم دھماکے کرکے بھارت نے خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔

    بھارتی قیادت کی جانب سے ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان کو خطرناک دھمکیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ ایک طرف بھارت دھمکیوں اور اسرائیل کی مدد سے پاکستان کی ایٹمی تجربہ گاہوں پرحملے کی تیاری کر رہا تھاتو دوسری جانب مغربی ممالک پابندیوں کا ڈراوا دے کرپاکستان کو ایٹمی تجربے سے بازرکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

    اس وقت کے امریکی صدربل کلنٹن نے بھی پانچ بار فون کرکے وزیراعظم نوازشریف کو ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کا مشورہ دیا جبکہ اس کے بدلے کروڑوں ڈالر امداد کی پیشکش بھی کی گئی۔ تاہم عالمی دباو کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اٹھائیس مئی کے دن پانچ ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دے دیا اور چاغی کے پہاڑوں پر نعرہ تکبیر کی گونج میں ایٹمی تجربات کردئیے گئے۔

    پسِ منظر


    پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹرعبدالقدیر نے 1974 میں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو خط لکھ کرایٹمی پروگرام کے لیے کام کرنے کی پیشکش اور اسی سال کہوٹہ لیبارٹریز میں یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع کر دیا گیا۔ پاکستانی سائنسدانوں نے انتہائی مشکل حالات کے باوجود ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا اورملک کو جدید ترین ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ممالک میں شامل کردیا۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت ایک سو سے زائد ایٹمی وارہیڈزرکھتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شدید عالمی دباو کے باوجود تیزی سے جاری ہے اور پاکستان ہرسال اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے میں دس نئے ایٹم بموں کا اضافہ کرلیتا ہے۔

    بھارت امریکہ ایٹمی معاہدے کے بعد پاکستان کی جانب سے چین کے ساتھ ایسا ہی معاہدہ کیا گیا ہے۔ ملک میں چین کے تعاون سے ایٹمی بجلی گھربھی بنائے جا رہے ہیں جبکہ خوشاب کے قریب پلوٹینیم تیارکرنیوالے دو نئے ایٹمی ری ایکٹرزبھی مکمل ہو چکے ہیں۔ خوشاب میں ہی ایک اور ایٹمی پلانٹ کی تعمیر بھی جاری ہے جن سے ایٹمی ہتھیار بنانے کی ملکی صلاحیت میں مزید اضافہ ہونا یقینی ہے۔

    ایک جانب تو یہ ایٹمی بم بھارت جیسے جنگ پسند ملک کے مدمقابل پاکستان کی پر وقار سالمیت کو یقینی بنائے ہوئے ہے لیکن اس مہنگے ترین ہتھیار کی تیاری اور اس کی حفاظت کی وجہ سے پاکستان معاشی ترقی کے وہ اہداف حاصل نہیں کرسکا جو اسے اب تک کرلینے چاہئے تھے بلکہ بعض میدانوں میں تو پاکستان جہاں تھا وہاں سے بھی پیچھے چلا گیا۔

    پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع دن سے ہی عالمی سازشوں اور شدید تنقید کا شکار ہے۔ پاکستانی کی ایٹمی طاقت کئی عالمی طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے بعد باقاعدہ مخالفانہ مہم چلائی جاتی ہے۔

    حکومت اور پوری قوم کا فرض ہے کہ ملکی سلامتی کی علامت اس ایٹمی پروگرام کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار رہیں اور یہی یوم تکبیر کا پیغام ہے