Tag: Aung San Suu Kyi

  • روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی، کینیڈا کا سوچی کی اعزازی شہریت منسوخ کرنے کا فیصلہ

    روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی، کینیڈا کا سوچی کی اعزازی شہریت منسوخ کرنے کا فیصلہ

    اوٹاوا : کینیڈا کے اراکین پارلیمنٹ نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی روکنے میں ناکامی پر میانمار کی صدر آنگ سان سوچی کینیڈین شہریت ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق براعظم امریکا میں واقع ملک کینیڈا کے اراکین پارلیمنٹ نے حکومت کی جانب سے میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی کی اعزازی شہریت منسوخ کرنے کے لیے پیش کردہ قرار داد کے حق میں ووٹ دے دیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ کینیڈین حکومت اور اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے میانمار (برما) کی سربراہ کے خلاف یہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا کیوں کہ آنگ سان سوچی برما میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی روکنے میں ناکام رہی۔

    برما کی صدر آنگ سان سوچی میانمات میں جمہوریت ہی بحالی کے لیے کوششیں کرکے سنہ 1991 میں نوبل انعام اپنے نام کرچکی ہیں۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائی پر 27 اگست کو جاری تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برما کی فوج نے مسلم اکثریتی والے علاقے رخائن میں روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں جو عالمی قوانین کی نظر میں جرم ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارے ’فیکٹ فائنڈنگ مشن برائے میانمار‘ نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ ریاست رخائن میں میانمار کی فوج نے سیکڑوں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا، مذکورہ اقدامات جنگی جرائم اور نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کی میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق جاری تحقیقاتی رپورٹ میں میانمار کے آرمی چیف کے خلاف تحقیقات کرنے کا کہا گیا تھا۔

    خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برمی حکومت اور فوج کی جانب سے مسلم اکثریتی علاقے رخائن میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے نام پر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، جس کے باعث گزشتہ 12 ماہ کے دوران میانمار میں تقریباً 7 لاکھ روہنگیا مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

  • روہنگیا مظالم: آنگ سان سوچی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا

    روہنگیا مظالم: آنگ سان سوچی کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا

    اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی مدت مکمل کرنے والے زید کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ملٹری کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آنگ سان سو چی کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے زید رعد الحسین جو کہ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ ہیں ، کہا کہ میانمار کی نوبیل انعام یافتہ وزیراعظم کو اپنی فوج کے مظالم کی توجیہات پیش کرنے کے بجائے ایک بار پھر نظر بند ہوجانا چاہیے تھا ( یاد رہے کہ برمی فوج نے طویل عرصہ انہیں نظر بند رکھا تھا)۔

    اقوام متحدہ نے حالیہ دنوں ایک میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم منظم تھے، تاہم میانمار نے اس رپورٹ کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے رد کیا ہے۔

    بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت پر مبنی ملک کی آرمی پر الزام ہے کہ اس نے گزشتہ برس بدھسٹ اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان ہونے والے فسادات میں منظم طریقے سے نسل کشی کی ہے، رپورٹ میں ملک کی وزیراعظم آنگ سان سوچی کو بھی فسادات روکنے میں ناکام رہنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔

    زید حسین نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ’ وہ اس پوزیشن میں تھیں کہ ان حالات کی روک تھام کرتیں لیکن وہ اپنی فوج کی صفائیاں دیتی رہیں۔ کم از کم انہیں خاموش رہنا چاہیے تھا بلکہ اس سے بہتر تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیتیں۔ ان کو فوج کا ترجمان بننے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی یہ کہنے کی کہ اس معاملے میں غلط معلومات کا پورا آئس برگ ہے اور یہ سب جعلی اور تراشیدہ ہیں۔

    ا س کے بجائے انہیں اپنی فوج سے کہنا چاہیے تھاکہ میں اس ملک کی سربراہ ہوں لیکن ایسے حالات میں نہیں رہ سکتی، آپ کا شکریہ ، میں استعفی دے رہی ہوں اور میں ایک بار پھر نظر بندی برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔

    یاد رہے کہ آنگ سان سوچی نے انسانی حقوق کے معاملے پر تحریک چلانے کےجرم میں سنہ 1989 سے لے کر 2010 تک کل سترہ سال نظر بندی میں گزارے تھے، اس دوران میانمار میں ملٹری کی حکومت تھی۔ سنہ1991 میں نوبیل پرائز کمیٹی نے انہیں امن کا نوبیل انعام دیا تھا، کمیٹی کا کہنا ہے کہ ان سے یہ ایوارڈ واپس نہیں لیا جائے گا۔

  • آنگ سانگ سوچی سے فریڈم ایوارڈواپس لینے کی قرارداد منظور

    آنگ سانگ سوچی سے فریڈم ایوارڈواپس لینے کی قرارداد منظور

    لندن : آکسفورڈ سٹی کونسل نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموش رہنے پر آنگ سانگ سوچی سے فریڈم ایوارڈواپس لینےکی قرارداد منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کیخلاف آواز اٹھانے کے بجائے خاموش رہنے پر آنگ سانگ سوچی کو فریڈم ایورڈ واپس کرنا ہو گا، آکسفورڈ سٹی کونسل کا کہنا ہے کہ وحشیانہ بربریت پر خاموش رہنے پر یہ مناسب نہیں کہ آنگ سانگ سوچی یہ ایوارڈ اپنے پاس رکھیں۔

    خیال رہے کہ انیس سو ستانوے میں آزادی کی مہم چلانے پر آکسفورڈ سٹی کونسل نے آنگ سان سوچی کو فریڈم ایوارڈ سے نوازا تھا۔

    برطانیہ کی یونین ‘یونیسن’ نے بھی آنگ سان سوچی کو دی گئی اعزازی ممبرشپ واپس لینے کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر اداروں نے بھی سوچی کو دیے گئے اعزازات واپس لینے پر غور شروع کردیا ہے۔

    اس سے قبل آکسفورڈ کونسل میں برما کی سربراہ آنگ سان سوچی کے خلاف قرارداد منظور کی تھی۔


    مزید پڑھیں : آکسفورڈکالج نے آنگ سان سوچی کی تصویرہٹادی


    یاد رہے چند روز قبل آکسفورڈیونیورسٹی سے آنگ سان سوچی کی تصویر بھی اتاردی گئی تھی، کالج انتظامیہ کا کہنا تھا کہ سوچی کی تصویر کالج کے مرکزی گیٹ سے اتاردی گئی، اس جگہ جاپانی آرٹسٹ کی پینٹنگ لگائی جائے گی۔

    خیال رہے کہ 1999 میں سوچی کی تصویر یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر لگائی گئی تھی۔

    آنگ سان سوچی نےآکسفورڈکالج سے ہی تعلیم حاصل کی تھی اور 1967 میں گریجویٹ کیا جب کہ آکسفورڈکالج نے سوچی کی 67 ویں سالگرہ پر انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا تھا۔


    مزید پڑھیں : آنگ سانگ سوچی سے نوبیل انعام واپس لینے کا مطالبہ


    خیال رہے کہ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کرنے پر تنقید کا سامنا ہے، آن لائن پیٹیشن میں سوچی سے نوبل پرائز واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا، سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کی پیٹیشن پراب تک لاکھوں افراد دستخط کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

    اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ خصوصی برائے میانمار یانگ ہی لی نے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے وحشیانہ ظلم کی مذمت کرتے ہوئے ملک کی سربراہ آنگ سان سوچی کی ہزاروں روہنگیامسلمانوں کے قتل پرمجرمانہ خاموشی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ سلم نسل کشی کی ذمہ دار کیا آنگ سان سوچی کوبے حسی کاانعام ملنا چاہیئے۔

    وسری جانب میانمارکی فوج اور بودھ انتہا پسندوں کے مظالم کا نشانہ بننے والے بے یارومددگار روہنگیا مسلمان بدترین حالت میں بنگلہ دیش آمد کا سلسلہ تھم نہ سکا، لاکھوں روہنگیا خواتین،بچے اورمردغذائی قلت کا شکار ہیں اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • آکسفورڈ کونسل میں برما کی سربراہ آنگ سان سوچی کے خلاف قرارداد منظور

    آکسفورڈ کونسل میں برما کی سربراہ آنگ سان سوچی کے خلاف قرارداد منظور

    لندن : روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پرمجرمانہ خاموشی پر آکسفورڈ کونسل میں برما کی سربراہ آنگ سان سوچی کے خلاف قرارداد منظورکرلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کیخلاف آواز اٹھانے کے بجائے خاموش پر آکسفورڈ کونسل میں برما کی سربراہ آنگ سان سوچی کے خلاف قرارداد منظورکرلی گئی۔

    قرارداد برما میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک و نسل کشی پر آکسفورڈ کونسل میں منظور کی گئی جبکہ آنگ سان سوچی سے فریڈم آف سٹی کا اعزاز بھی واپس لینے کی قراراداد منظور ہوئی۔

    آکسفورڈ کونسل نے آنگ سان سوچی کو انیس سو ستانوے میں اعزاز سے نوازا تھا۔

    روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پرمجرمانہ خاموشی پرآکسفورڈ کونسل کی جانب سے شدید الفاظ میں مذمت بھی کی گئی۔.


    مزید پڑھیں : آکسفورڈکالج نے آنگ سان سوچی کی تصویرہٹادی


    یاد رہے چند روز قبل آکسفورڈیونیورسٹی سے آنگ سان سوچی کی تصویر بھی اتاردی گئی تھی، کالج انتظامیہ کا کہنا تھا کہ سوچی کی تصویر کالج کے مرکزی گیٹ سے اتاردی گئی، اس جگہ جاپانی آرٹسٹ کی پینٹنگ لگائی جائے گی۔

    خیال رہے کہ 1999 میں سوچی کی تصویر یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر لگائی گئی تھی۔

    آنگ سان سوچی نےآکسفورڈکالج سے ہی تعلیم حاصل کی تھی اور 1967 میں گریجویٹ کیا جب کہ آکسفورڈکالج نے سوچی کی 67 ویں سالگرہ پر انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا تھا۔


    مزید پڑھیں : آنگ سانگ سوچی سے نوبیل انعام واپس لینے کا مطالبہ


    خیال رہے کہ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کرنے پر تنقید کا سامنا ہے، آن لائن پیٹیشن میں سوچی سے نوبل پرائز واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا، سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کی پیٹیشن پراب تک لاکھوں افراد دستخط کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

    اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ خصوصی برائے میانمار یانگ ہی لی نے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے وحشیانہ ظلم کی مذمت کرتے ہوئے ملک کی سربراہ آنگ سان سوچی کی ہزاروں روہنگیامسلمانوں کے قتل پرمجرمانہ خاموشی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ سلم نسل کشی کی ذمہ دار کیا آنگ سان سوچی کوبے حسی کاانعام ملنا چاہیئے۔

    وسری جانب میانمارکی فوج اور بودھ انتہا پسندوں کے مظالم کا نشانہ بننے والے بے یارومددگار روہنگیا مسلمان بدترین حالت میں بنگلہ دیش آمد کا سلسلہ تھم نہ سکا، لاکھوں روہنگیا خواتین،بچے اورمردغذائی قلت کا شکار ہیں اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • برما کو عالمی احتساب کا کوئی خوف نہیں: آنگ سان سوچی

    برما کو عالمی احتساب کا کوئی خوف نہیں: آنگ سان سوچی

    برما کی سربراہ آنگ سان سوچی نے بالآخر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں عالمی احتساب کا کوئی خوف نہیں۔دوسری جانب انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ آنگ سان سوچی ریت میں سر چھپا رہی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سینکڑوں روہنگیا مسلمانوں کے قتل، خواتین سے زیادتی، لاکھوں افراد کی دربدری اور عالمی برادری کی مسلسل تنقید کے بعد بالآخرنوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے خاموشی توڑ دی۔

    روہنگیا مسلمانوں سے مظالم کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں آنگ سان سوچی نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی اور روہنگیا مسلمانوں کی نقل مکانی پر اظہار تشویش کیا۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی ادارے چاہیں تو شفاف احتساب کرسکتے ہیں اور انہیں اس کا کوئی خوف نہیں۔

    مزید پڑھیں: نسل کشی کی ذمہ دار آنگ سان سوچی کے لیے بے حسی کا انعام

    آنگ سان سوچی نے کہا، ’میں اس بات سے باخبر ہوں کہ اس وقت پوری دنیا کی توجہ رکھائن ریاست کی صورتحال پر مرکوز ہے۔ عالمی اقوام کا رکن ہونے کی حیثیت سے میانمار کو عالمی احتساب کا کوئی خوف نہیں‘۔

    انہوں نے کہا کہ برما میں جاری مظالم کی ’اطلاعات اور خبروں‘ کا سرکاری سطح پر جائزہ لیا جارہا ہے۔

    آنگ سان سوچی نے دعویٰ کیا کہ روہنگیا کی آبادی کی اکثریت براہ راست حملوں کا نشانہ نہیں بنی۔

    انہوں نے اس بات پر بھی برہمی کا اظہار کیا کہ میانمار کی فوج کو مبینہ مظالم کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے تاہم ان کے مطابق فوج کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ بدترین تشدد یا ناقابل نقصانات پہنچانے سے گریز کیا جائے۔

    یاد رہے کہ عالمی احتساب کا خوف نہ ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود آنگ سان سوچی اقوام متحدہ کے اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر چکی ہیں۔

    چند روز قبل میانمار کی صورتحال، روہنگیا مسلمانوں کے بحران پر شدید تنقید اور عالمی برادری کے سوالات کے خوف کے باعث آنگ سان سوچی نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    مزید پڑھیں: بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی نقل و حرکت محدود

    اس سے قبل میانمار کی حکومت امریکی حکام کو روہنگیا ریاست رکھائن کے دورے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر چکی ہے۔

    ایک روز قبل اقوام متحدہ بھی میانمار حکومت کو متنبہ کر چکی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوجی کارروائی نہ روکی گئی تو یہ سانحہ خوفناک رخ اختیار کر لے گا۔

    اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انٹونیو گٹریز نے کہا تھا کہ آنگ سان سوچی کے پاس مظالم روکنے کا یہ آخری موقع ہے۔

    دوسری جانب میانمار سے ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کی تعداد 4 لاکھ 10 ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔

    بنگلہ دیشی حکومت نے میانمار سے ہجرت کر کے اپنے سرحدی شہر کاکس بازار آنے والے 4 لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین کی بنگلہ دیش آمد سمیت کہیں بھی نقل و حرکت پر پابندی عائد کرتے ہوئے انہیں نئے کیمپوں تک محدود کرنے کی پالیسی کا اعلان بھی کیا ہے۔


    ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تنقید

    انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی برما میں روہنگیا مسلمانوں پر جاری مظالم پر تنقید کرتے ہوئے بیان جاری کیا کہ آنگ سان سوچی ریت میں سر چھپا رہی ہیں۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ برما میں قتل عام، تشدد اور گاؤں جلانے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ایمنسٹی نے اس بات کی تصدیق کی کہ 4 لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش ہجرت کی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آنگ سانگ سوچی کا شدید تنقید پر اقوام متحدہ کے اجلاس سے بائیکاٹ کافیصلہ

    آنگ سانگ سوچی کا شدید تنقید پر اقوام متحدہ کے اجلاس سے بائیکاٹ کافیصلہ

    میانمار: روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر ملک کی سربراہ آنگ سان سوچی نے شدید تنقید پر اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق میانمارکی صورتحال اور روہنگیا مسلمانوں کےبحران پر شدید تنقید کے بعد آنگ سان سوچی نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آنگ سان سوچی اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گی۔

    خیال رہے کہ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کرنے پر تنقید کا سامنا ہے، آنگ سان سوچی کو اگلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے نیویارک جانا تھا۔


    مزید پڑھیں : میانمار سے ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد چارلاکھ تک پہنچ گئی


    دوسری جانب میانمارکی صورتحال اورروہنگیا مسلمانوں کے بحران پر غور کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس آج ہوگا، اقوام متحدہ کا کہنا ہے گھربارچھوڑکربنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور روہنگیا مسلمانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔

    میانمارکی فوج اور بودھ انتہا پسندوں کے مظالم کا نشانہ بننے والے بے یارومددگار روہنگیا مسلمان بدترین حالت میں بنگلہ دیش آمد کا سلسلہ تھم نہ سکا نیٹ لاکھوں روہنگیا خواتین،بچے اورمردغذائی قلت کا شکار ہیں اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں، شدیدبارشوں نے پناہ گزینوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا۔

    ایک اندازے کے مطابق اب تک 4 لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔


    مزید پڑھیں : مسلم نسل کشی کی ذمہ دار کیا آنگ سان سوچی کوبے حسی کاانعام ملنا چاہیے، یانگ ہی لی


    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ خصوصی برائے میانمار یانگ ہی لی نے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے وحشیانہ ظلم کی مذمت کرتے ہوئے ملک کی سربراہ آنگ سان سوچی کی ہزاروں روہنگیامسلمانوں کے قتل پرمجرمانہ خاموشی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ سلم نسل کشی کی ذمہ دار کیا آنگ سان سوچی کوبے حسی کاانعام ملنا چاہی

    اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نمائندہ خصوصی برائے میانمار یانگ ہی لی نے کہا ہے کہ دنیا اور خاص طور پر روہنگیا مسلمان آنگ سان سوچی کا انتظار کر رہے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ معاملے کے حل کے لیے ‘قدم اٹھائیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • یورپین پارلیمنٹ کا  آنگ سان سوچی کو دیا گیا انسانی حقوق کا ایوارڈ واپس لینے کا مطالبہ

    یورپین پارلیمنٹ کا آنگ سان سوچی کو دیا گیا انسانی حقوق کا ایوارڈ واپس لینے کا مطالبہ

    لندن : یورپین پارلیمنٹ میں بھی آنگ سان سوچی کو دیا گیا انسانی حقوق کا ایوارڈ سخار وو واپس لینے کا مطالبہ کردیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق میانمار کی حکمراں جماعت کی سربراہ آنگ سان سوچی سے ایوارڈز واپس لینے کا مطالبہ دنیا بھر میں زور پکڑنے لگا، یورپین پارلیمنٹ میں بھی آنگ سان سوچی کو دیا گیا انسانی حقوق کا ایوارڈ سخارو واپس لینے کا مطالبہ کردیا گیا۔

    سجاد کریم نے پارلیمنٹ کے ابتدائی سیشن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھائے جارہے ہیں، جس کے باعث تین لاکھ متاثرین بے سر و سامانی کی حالت میں ہجرت کرکے بنگلہ دیش چلے گئے ہیں۔

    انھوں نے مزید کہا کہ سوچی نے مظالم رکوانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سوچی کی خاموشی اسے دیے گئے انسانی حقوق کے ایوارڈ کی توہین ہے، لہذا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر سوچی کو دیے گئے ایوارڈ کے معاملے پر نظرثانی کی جائے۔


    مزید پڑھیں : آنگ سانگ سوچی سے نوبیل انعام واپس لینے کا مطالبہ، آن لائن پیٹیشن پر3 لاکھ سے زائد افراد کے دستخظ


    یاد رہے کہ اس سے قبل آن لائن پیٹیشن میں سوچی سے نوبل پرائز واپس لینے کا مطالبہ کردیا، سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کی پیٹیشن پراب تک تین لاکھ سے زائد افراد دستخط کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

    یاد رہے کہ اگست میں میانمار حکومت کی جانب سے اگست میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا، فسادات میں برما کی آرمی اور بودھوں نے 0100 روہنگیا مسلمانوں کو قتل کردیا، تین لاکھ سترہزار روہنگیا بنگلہ دیش ہجرت کرنے پرمجبور ہوئے جبکہ 2800گھرجلا دئیے گئے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آنگ سانگ سوچی روہنگیا مسلمانوں کے لئے خاموش کیوں؟

    آنگ سانگ سوچی روہنگیا مسلمانوں کے لئے خاموش کیوں؟

    برما کی انسانی حقوق کی علمبردار اور نوبل امن انعام یافتہ رہنما آنگ سانگ سوچی کی روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم اور خاموشی انسانی حقوق کی دنیا کے لئے سوالیہ نشان بن گئی۔

    مغربی برما میں تقریباً آٹھ لاکھ افراد بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں، روہنگیا کے یہ وہ مسلمان ہیں، جنہیں برما کے فوجی حکمران شہریت دینے سے انکاری ہیں، سینکڑوں افراد خستہ اور اذیت ناک حالت میں کیمپوں کی مشکل زندگی گذارنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں جبکہ دس فیصد جان کی امان کے لئے سمندروں میں بھٹک رہے ہیں۔

    ایسے میں برما کی وہ نوبل امن انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی جو نوے کی دہائی سے دو ہزار دس تک فوجی آمر کے خلاف ثابت قدم تھیں، اس موقع پر سوچی کی برما میں اقلیتی روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں خاموشی انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کے لئے سوالیہ نشان ہے۔

    خیال کیا جا رہا ہے کہ سوچی کے لیے زیادہ اہم اس وقت نومبر میں انتخابات جیت کر اقتدار سنبھالنا ہے اور آنگ سان سوچی اس مرحلے پر بدھ مت کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتی۔

    اس مقام پر یورپ سمیت امریکہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی مجرمانہ خاموشی دو رخی کے علاوہ کیا ہے؟ شواہد ہیں کہ امریکہ اور یورپ نے دنیا کو مفادات کا ایک ایسا تختہ مشق بنا رکھا ہے، جہاں صرف وہ اپنا سرمایہ اور فائدہ دیکھتے ہیں مگر انہیں سسکتی انسانیت فلسطین، کشمیر اور روہنگیا میں نظر نہیں آتی۔

    یہ سب مسلم ممالک کے اہلِ اقتدار کے چلن پر ایک ایسا طمانچہ ہے، جس پر افسوس کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔