Tag: Austria

  • فلم سپیکٹر کی آسٹریا کے برف پوش پہاڑوں پر شوٹنگ

    فلم سپیکٹر کی آسٹریا کے برف پوش پہاڑوں پر شوٹنگ

    آسٹریا :جیمز بانڈ سلسلے کی نئی فلم سپیکٹرکی آسٹریا کے برف پوش پہاڑوں پر شوٹنگ جاری ہے۔

    سونی پکچرز نے جیمز بانڈ سیریز کی نئی فلم سپکیٹر کی جھلکیاں شائقین کے لئے جاری کر دی ہیں، فلم کی شوٹنگ آسٹریا کے برف پوش پہاڑوں پر جاری ہے۔

    جس میں سپیکٹرکے لئے دنیا کے مشہور کار سازاداروں نے خاص طور پر گاڑیاں بنائی ہیں، جو جدید آلات جنگ سے لیس جیگوار سی ایکس، سیونٹی فائیو رینج  روور سپورٹ ایس وی آر اور ڈیفنڈر بگ فٹ کی شکل میں نظر آئیں گی۔

    ڈینیئل جیمز بانڈ کے کردار میں ان گاڑیوں میں بدمعاشوں کا پیچھا کریں گے، فلم متوقع طور پر نومبر میں ریلیزکر دی جائے گی۔

  • آج سلطنتِ عثمانیہ کےعظیم تاجدار’سلیمانِ اعظم‘ کی سالگرہ ہے

    آج سلطنتِ عثمانیہ کےعظیم تاجدار’سلیمانِ اعظم‘ کی سالگرہ ہے

    کراچی (ویب ڈیسک) – سلطنت عثمانیہ کے عظیم ترین تاجدار سلیمان اعظم 6 نومبر 1494ء (900ھ) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلیم اول دولت عثمانیہ کے نویں سلطان تھے اور انکی والدہ کا نام عائشہ تھا۔ سلیم اول نے 8 سال تک (918ھ تا 926ھ) حکومت کی تھی۔ سلیمان نے اپنے والد سے 16سال تک جنگی فنون کی تربیت حاصل کی۔ سلیم اول نے اپنے بیٹے کو دینی و دنیاوی تعلیم دلوانے کا بھی اہتمام کیا تھا۔ سلیمان کی انتظامی صلاحیتوں کو اس وقت جلا ملی جب انہیں مختلف صوبوں میں حاکم مقرر کیا گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے دادا سلطان بایزید ثانی کے زمانے میں کفہ کی سنجق (صوبے) میں حکمرانی کے فرائض انجام دیئے۔ انہوں نے مغنیسیا، ادرنہ اور صاروخان کی حکمرانی کی ذمہ داریاں بھی انجام دیں۔ سلیم اول نے جب ایران پر حملہ کیا تو سلیمان ہی نائب کی حیثیت سے قسطنطنیہ میں موجود تھے۔

    سن 1520ء میں سلیم اول کے انتقال کے بعد عثمانی سلطنت کی باگ ڈور سلیمان اول کے ہاتھوں میں آئی اور یہیں سے دولت عثمانیہ کے اس دور کا آغاز ہوتا ہے جو اپنی خوشحالی، استحکام اور وسعت کے اعتبار سے یادگار ہے۔ سلیمان نے اپنے 26 سالہ دور حکومت میں خلافت عثمانیہ کو سیاسی برتری دلوانے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے جو کوشش کی وہ بلاشبہ لائق صد تحسین ہے ان کا یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی بے حد ممتاز ہے کہ اس دور میں مسیحی و مغربی طاقتیں بیدار اور متحد ہورہی تھیں اور بڑی بڑی شخصیات عثمانیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آگئی تھیں مثلا شہنشاہ چارلس پنجم جو یورپ کے نصف سے زائد حصے پر حکمران تھا جس میں موجودہ اسپین، بیلجیئم، ہالینڈاور جرمنی شامل تھے، ادھر انگلستان میں ملکہ ایلزبتھ اول حکمران تھی اور ہنگری پر شاہ لوئی کا سکہ چل رہا تھا۔
    یہ یورپ کی بیداری کا زمانہ تھا۔ فرانس، انگلستان اور آسٹریا نے اپنے اختلافات ختم کر لئے تھے اور مسیحی طاقت متحد ہونے کی فکر میں تھیں۔ چنانچہ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے 26 سالہ دور حکومت میں سلیمان کسی نہ کسی جنگ یا مہم میں مصروف رہے اگرچہ درمیان میں مختصر وقفے بھی آئے لیکن جہاد کاجو جذبہ سلیمان کے سینے میں موجزن تھا اس نے انہیں آخر وقت تک میدان عمل میں مصروف رکھا حتی کہ جنگ کے دوران ہی انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ انہوں نے ذاتی طور پر 13 بڑی جنگوں میں شرکت کی جن میں سے تین ایشیا میں اور 10 یورپ میں لڑی گئی اور اس طرح سلطنت عثمانیہ کی حدود میں 13 مرتبہ توسیع کی۔

    سن 1521ء میں سلیمان نے ہنگری کے مشہور شہر بلغراد کو فتح کیا۔ بلغراد ایک انتہائی اہم شہر تھا جو دریائے ڈینوب پر اہل یورپ کا دفاعی مورچہ تھا۔1522ء میں رہوڈس کے جزیرہ کا محاصرہ کیا جو پانچ ماہ تک جاری رہا۔ اور جب سلیمان نے دیکھا کہ محصورین کی قوت مزاحمت ختم ہوچکی ہے تو سلطان نے انتہائی فراخ دلانہ شرائط کی پیشکش کی۔ اس نے اہل رہوڈس کو اس کی اجازت دے دی کہ بارہ دن کے اندر اپنے تمام اسلحہ اور سامان کے ساتھ اپنے جہازوں میں ہی جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اکثریت نے ترکوں کے ماتحت جزیرہ ہی میں رہنا منظور کیا۔ انہیں مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ پانچ سال کے لیے ان کے ٹیکس معاف کردیے گئے۔ رہوڈس کی فتح کے بعد ’’بہادر نائٹوں‘‘ کی خاندانی روایات کی حامل ڈھالیں (جو ان کے مکانوں پر آویزاں تھیں) ویسے ہی لگی رہنے دی گئیں۔

    سن 1526ء میں سلیمانِ اعظم نے ہنگری کی جانب قدم بڑھایا جو اس کی فتوحات میں تیسرا بڑا محاذ تھا۔ ہنگری کو فوجی نقطۂ نظر سے عیسائیوں کی ایک مضبوط طاقت خیال کیا جاتا تھا۔ دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہنگری کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا اور ہنگری سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔1529ء میں سلیمان نے آسٹریا کی جانب پیش قدمی کی۔ آسٹریا جرمنی کی سلطنت کا ایک حصہ تھا۔ سلیمان کے دور میں چارلس پنجم یورپ کا سب سے بڑا حکمران تھا۔ اس نے اپنے بھائی فرڈیننڈ کو آسٹریا کا حکمران مقرر کیا ہوا تھا۔ ستمبر1529ء کو سلیمان اعظم آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کی دیواروں تک پہنچ گیا۔آسٹریا نے ہر دسویں آدمی کو فوجی خدمت کے لیے طلب کرلیا۔ ہمسایہ ریاستوں سے امدادی دستے طلب کرلیے۔ شہرکے اندر پرانی فصیل کے ساتھ ایک نئی فصیل بنائی گئی۔ اپنے دفاع کو مزید تقویت دینے کے لیے شہر کے نواحی علاقے بھی تباہ کردیے تاکہ ترک ان علاقوں سے فائدہ اٹھاکرپایۂ تخت ویانا کو فتح نہ کرسکیں۔ لیکن آسٹریا والوں کی تمام دفاعی تیاریوں کے باجود سلیمان نے ویانا کا محاصرہ کرلیا۔ فرڈیننڈ محاصرے سے پہلے ہی فرار ہوگیا۔27ستمبر سے14اکتوبر1529ء تک ویا نا کا محاصر ہ جاری رہا۔اگرچہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر (ایک طویل عرصے سے جنگ میں مصروف رہنے، موسم کی شدت، ’’ینی چری‘‘ کی حکم عدولی اور اپنی قوت کو مزید ضائع ہونے سے بچانے کے لیے) سلیمان اعظم کو یہ محاصر ہ اٹھا ناپڑا لیکن اس کی فتوحات نے اب وسطی یورپ میں اپنی آخری حد مقرر کردی تھی۔

    سن 1565ء میں آسٹریا سے جنگ پھر شروع ہوگئی جس میں عیسائیوں نے کچھ کامیابیاں حاصل کیں۔ سلطان اس زمانے میں بیمار تھے انہیں گنٹھیا کی شکایت تھی اس کے باوجود مردانہ وار افواج کی قیادت کے لئے نکل آئے۔ آسٹریا کے قلعہ زیگیٹوارکا محاصرہ 2 اگست 1565ء کو شروع ہوا اور 8 ستمبر تک جاری رہا اور قلعہ فتح ہوگیا اور اس وقت جب لشکر اسلام کامیابی کے پھریرے لہراتا ہوا قلعے میں داخل ہورہا تھا لیکن سپاہی اس اندوہناک حقیقت سے بے خبر تھے کہ ان کا محبوب سلطان اب ان کے درمیان نہیں بلکہ وہ 9 اور 10 صفر بمطابق 5 اور 6 ستمبر کی درمیانی شب ہی انہیں چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔ سلطان کی وفات کی خبر وزیراعظم صوقوللی پاشانے دانستہ مخفی رکھی اور فتح کے بعد اسے عام کیا۔ فتح کے شادیانے فوراًموقوف ہوگئے اور فضا سوگوار ہوگئی۔ سلطان کی میت واپس قسطنطنیہ لائی گئی جہاں خود ان کی تعمیر کردہ مسجد سلیمانیہ میں انہیں سپردخاک کیا گیا۔

  • ویانا اوپن ٹینس: ڈیوڈ فیرراوراینڈی مری کی سیمی فائنل تک رسائی

    ویانا اوپن ٹینس: ڈیوڈ فیرراوراینڈی مری کی سیمی فائنل تک رسائی

    آسٹریا :ٹاپ سیڈ اسپین کے ڈیوڈ فیرر اور برطانیہ کے اینڈی مرے نے ویانا اوپن ٹینس ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل کے لئے کوالیفائی کرلیا۔ آسٹریا میں جاری ٹورنامنٹ کے پہلے کوارٹرفائنل میں ٹاپ سیڈ اسپین کے ڈیوڈ فیرر نے کروشیا کے ایو کارلووچ کو اسٹریٹ سیٹس میں شکست دیتے ہوئے آخری چار کھلاڑیوں میں جگہ بنائی۔

    کروشین کھلاڑی نے پہلے سیٹ میں کچھ مزاحمت کی لیکن دوسرے دوسرے سیٹ میں وہ ہمت ہار گئے۔ فیرر کی فتح کا اسکور سات چھ اور چھ چار رہا۔ دوسرے کوارٹرفائنل میں برطانیہ کے اینڈی مرے نے جرمنی کے جین لینارڈ کو زیر کیا۔ برطانوی کھلاڑی نے چھ دو اور سات پانچ سے میچ اپنے نام کیا۔

  • آج عیسائیوں کی مقدس رومی سلطنت ختم ہوئی تھی

    آج عیسائیوں کی مقدس رومی سلطنت ختم ہوئی تھی

    کراچی (ویب ڈیسک) – قرون وسطیٰ میں یورپ اور بالخصوص مشرقی یورپ کے ایک بڑے خطے پر راج کرنے والی ’’مقدس رومی سلطنت‘‘ جو کہ 800 عیسویں میں نامور بادشاہ شارلیمن کی تاج پوشی سے قائم ہوئی تھی تقریباً ایک ہزار سال تک یورپ کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے بعد 1806 میں فرانسیسی شہنشاہ نپولین بونا پارٹ کے ہاتھوں اختتام پذیر ہوئی۔

    عیسائیوں کی مقدس قومی سلطنت پوپ لیو سوم کی جانب سے شارلمین کی تاج پوشی کے ساتھ قائم ہوئی اور شارلمین کے انتقال کے بعد فرانسیسی سلطنت تین حصوں میں تقسیم ہوگئی جس کے ایک حصے مشرقی فرانکیا کے بادشاہ خود کو ’’مقدس رومی شہنشاہ‘‘ کہلواتے تھے۔

    مقدس رومی سلطنت کا نشان
    مقدس رومی سلطنت کا نشان

     

    ’’مقدس رومی شہنشاہ‘‘ کا باقاعدہ خطاب سب سے پہلے فریڈرک باربروسا نے اپنے لئے منتخب کیا جو 1152ء سے 1190ء تک تخت پر متمکن رہا۔ اسی حکمران نے اپنی مذہبی نظریات کی بنا پر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگیں شروع کیں تھیں۔

    سلطنت کے زیرِاثر رہنے والے قابل ِ ذکرملک آج جرمنی، آسٹریا، پولینڈ، جمہوریہ چیک فرانس، نیدرلینڈ،اٹلی اورسوئٹزرلینڈ کہلاتے ہیں۔

    سلطنِ عثمانیہ اور آسٹریا کے درمیان سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی جاری رہے والی جنگوں نے مقدس رومی سلطنت کو شدید ترین نقصان پہنچایا، یہاں تک کہ 1683 میں عثمانی فوجیں آسٹریا پر ایک فیصلہ کبن یلغار کرنے کے ارادے سے نکلیں اورآسٹریا کی حامی مقدس رومی سلطنت کے دارالحکومت’’ویانا‘‘ تک پہنچ گئیں تھیں لیکن اس وقت کے پولش حکمران ’’جان سیبوسکی‘‘ کی مداخلت کے باعث عثمانی فوجیں شکست سے دوچار ہوئیں۔

    سلطنت 1618ء سے 1648ء تک جاری جنگ تیس سالہ سے شدید متاثر ہوئی اور سلطنت کی تقریبا 30 فیصد آبادی اس جنگ میں کام آگئی۔

    سلطنت کا کبھی کوئی باقادہ دارالخلافہ نہیں رہا بلکہ وقت اور حالات کی ضرورت کے تحت مختلف شہرتوں کو دارالخلافہ قرار دیا جاتا رہا جن میں میونخ، پراگ اور ویانا قابل ذکرہیں۔

    تقریباً ایک ہزارئیے تک یورپ کی تاریخ میں کلیدی کردار ادا کرنے والی مقدس رومی سلطنت ستروھیں اور اٹھارویں صدی میں ہونے والی یورپ کی عظیم جنگوں کے باعث کمزور پڑنا شروع ہوگئی تھی۔ پرشیا نے سلطنت کے ایک اہم صوبے آسٹریا پر اپنا تسلط قائم کرلیا تھا اور جرمنی میں رومی شہنشاؤں کی قوت کمزور پڑ رہی تھی۔

    والٹیئر
    والٹیئر

     

    مشہورفرانسیسی فلسفی والٹئیر کا کہنا ہے کہ مقدس رومی سلطنت نہ تو کبھی مقدس تھی، نہ ہی رومی اورنہ ہی وہ کبھی باقاعدہ سلطنت تھی۔

    بالاخر چھ اگست 1806 کو فرانس کے شہنشاہ اور عظیم فاتح نپولین بونا پارٹ نے ’’مقدس رومی سلطنت‘‘ کا باقاعدہ خاتمہ کردیا۔