Tag: Author

  • لندن: شمالی آئرلینڈ کی مصنفہ اینا برنز نے ’مین بکرز‘ پرائز اپنے نام کرلیا

    لندن: شمالی آئرلینڈ کی مصنفہ اینا برنز نے ’مین بکرز‘ پرائز اپنے نام کرلیا

    لندن : ملک مین نامی ناول تحریر کرنے والی منصفہ نے لیٹریسی کا سب سے بڑا انعام اپنے نام کرلیا، اینا برنز ’مین بکرز‘ حاصل کرنے والی شمالی آئر لینڈ کی پہلی شخصیت ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی ناول نگار ’اینا برنز‘ کو ایک روز قبل ’ملک مین‘ نامی ناول تحریر کرنے پر نوبل کے بعد دنیا کا سب سے بڑا انعام ’مین بکرز‘ دیا گیا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اینا برنز ’مین بکرز‘ اعزاز اپنے نام کرنے والی شمالی آئرلینڈ کی پہلی شخصیت ہیں۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ برطانوی دارالحکومت لندن کے گلڈ ہال میں ’مین بکرز‘ اعزاز اپنے نام کرنے والی 56 سالہ مصنفہ کے نام کا اعلان کیا تھا، اینا برنز نے اپنا انعام اور 50 ہزار پاؤنڈ شہزادہ چارلس کی اہلیہ کامیلا سے وصول کیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ شمالی آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی مصنفہ نے ’ملک مین‘ ناول ایک دوشیزہ کی بوڑھے شخص سے تعلقات سے متعلق تحریر کیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مین بکرز پرائز کے جج اور فلسفی کوام انتھونی اپیاہ کا کہنا تھا کہ مجھ سمیت کسی نے ایسے تحریر اس سے قبل نہیں پڑھی تھی، مذکورہ ناول میں روائتی سوچ کو چیلنج کیا گیا ہے جبکہ یہ بہت متاثر کن ہے۔

    بکرز پرائز حاصل کرنے والی ناول نگار اینا برنز کا کہنا تھا کہ بحیثیت مصنفہ مجھ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے میں معاشرے اور حالات کی صحیح تصویر پیش کروں اور عوام کی توجہ اصل مسائل کی جانب مبذول کروں۔

    اینا برنز نے کہا کہ میری ناول ایک نوجوان لڑکی کو بوڑھے اور طاقتور شخص کی جانب سے تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کرنے سے متعلق ہے۔

    خیال رہے کہ سنہ 2002 میں اینا برنز کو ’نوبونز‘ تحریر کرنے پر اورنج پرائز دیا گیا تھا، ’ملک مین‘ کی مصنفہ سنہ 2013 کے بعد ’مین بکرز‘ انعام جیتنے والی پہلے خاتون ہیں۔

    واضح رہے ’مین بکرز‘ پرائز پہلی مرتبہ سنہ 1969 میں انگریزی میں تحریر کیے گئے بہترین ناول پر دیا گیا جس کی چھپائی بھی برطانیہ میں ہوئی تھی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ رواں برس ’مین بکرز‘ پرائز کے لیے برطانیہ، کینیڈا اور امریکا کے ناول نگاروں کے نام بھی فہرست میں شامل کیے گئے تھے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ سنہ 2014 سے مین بکر پرائز میں پوری دنیا سے انگریزی زبان میں ناول تحریر کرنے والی مصنفوں کو مدعو کرنا شروع کیا گیا ہے جبکہ اس سے قبل صرف کامن ویلتھ (دولتِ مشترکہ) آئرش، ساؤتھ افریقن ممالک کے مصنفوں کو ہی مدعو کیا جاتا تھا۔

  • ملیے‘ آٹھ کتب تحریر کرنے والے مصنف سے

    ملیے‘ آٹھ کتب تحریر کرنے والے مصنف سے

    حال ہی میں ایک کتاب  ’ان کنوزیشن ود لیجنڈز‘ شائع ہوئی ہے جس میں فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی نامورشخصیات کے انٹرویو ہیں‘ اس کتاب کے مصنف خرم سہیل آٹھ کتابیں مرتب کرچکے ہیں‘ آئیے ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

    خرم سہیل گوجرانوالہ میں پیداہوئے،پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعدوالدین کے ہمراہ تلاشِ معاش کے سلسلے میں کراچی آگئے۔ میٹرک سائنس سے کیا،اس کے بعد سوشل سائنسز میں دلچسپی کی وجہ سے ان مضامین کی طرف رجحان ہوگیا۔اردوایڈوانس ،تاریخ جیسے موضوعات کوبحیثیت مضمون لیااور2009میں جامعہ کراچی کے شعبے ”ماس کمیونیکیشن“سے ماسٹرزکیا۔یونیورسٹی کی سطح پر تھیٹرڈرامیٹک سوسائٹی بنائی،مختلف بین الجامعاتی مقابلوں میں جامعہ کراچی کی نمائندگی کی اورمتعدد فتوحات حاصل کیں۔


    پاکستان کی شناخت‘50 نامور شخصیات کےانٹرویوزپرمشتمل کتاب 


    خرم سہیل نے پیشہ ورانہ زندگی کاآغاز شعبہ صحافت سے کیا۔2007میں روزنامہ آج کل سے بحیثیت فورم انچارج وابستہ ہوئے اورفنون لطیفہ کے متعلق ممتاز شخصیات کے انٹرویوزکیے،جوبعدمیں کتابی شکل میں شائع بھی ہوئے۔یہ اپنے مختصر صحافتی کیرئیر میں اب تک متعدد اخباروں اور جرائد میں کل وقتی اورجز وقتی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ان دنوں مختلف آن لائن ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔

    خرم سہیل 8کتابوں کے مصنف ہیں،جن میں سے دوکتابیں ان کے کیے ہوئے انٹرویوز کے مجموعے ہیں،جبکہ ایک انٹرویوز کا مجموعہ انگریزی زبان میں شایع ہوا ہے۔پاکستان اورجاپان کے مابین قدیم ثقافتی وادبی مراسم ہیں، دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے پچاس سال مکمل ہونے پر سنہ 2012 میں انہوں نے ایک کتاب لکھی۔

    انہوں نے بی بی سی اردو سے وابستہ معروف ادیب ”رضاعلی عابدی “کی سوانح حیات بھی لکھی،جبکہ جاپان کے ایک ممتاز ناول ،جس کاترجمہ دنیا کی پینتیس زبانوں میں ہوا،اس کو اردوزبان میں ترجمہ کیاہے۔اس کے علاوہ، ان کی ایک کتاب کاتعلق فاطمہ ثریابجیا کی ڈرامانگاری سے ہے۔

    خرم سہیل نے تھیٹر اورریڈیوکے شعبے میں بھی کام کیا۔انہوں نے پانچ سال ریڈیوپاکستان،کراچی اورایف ایم 101کراچی اسٹیشن پر خدمات انجام دیں اوربراڈکاسٹنگ کے تمام اوقات کے شوزکی میزبانی کی۔بین الاقوامی نشریات کابھی حصہ رہے۔

    جامعہ کراچی کے ریڈیوکاافتتاح ہوا،تواس کے بھی ابتدائی طالب علم‘ پروڈیوسرزاورمیزبانی میں پیش پیش رہے۔مختلف اداروں کے لیے تھیٹر کے ڈراموں کی ہدایت کاری اوراسکرپٹنگ بھی کرچکے ہیں۔

    خرم سہیل صحافتی حلقوں میں ایک معروف نام ہیں۔فنون لطیفہ سے متعلق نہ صرف پاکستانی بلکہ بین الاقوامی شخصیات کے انٹرویوز کرچکے ہیں۔ بین الاقوامی سینمامیں پاکستانی شہریت رکھنے والے یاپاکستانی نژاد فنکاروں کے بارے میں تحقیقی کام کررہے ہیں،جو قسط وارمقامی اخبارات میں شائع ہورہا ہے۔

    اس کے علاوہ دنیا بھر کے فنون لطیفہ پر لکھتے ہیں۔ادب ،فلم ،موسیقی،مصوری،ڈراماسمیت دیگر موضوعات پر تسلسل سے لکھتے رہتے ہیں۔شعروادب اورشوبز میں ان کی خدمات کاوسیع کینوس ہے۔پاکستان کی ثقافت اور بین الاقوامی فنون لطیفہ کو یہاں متعارف کروانے کے لیے یہ شب وروزعملی طورپر کوشاں ہیں،جس کی جھلک ان کے کام میں دیکھی جاسکتی ہے۔

    زیرِ نظر نظم ان کے اپنے الفاظ میں ان کی زندگی کی جدودجہد پر نظر ڈالتی ہے جو کہ انہوں نے آج کے لیے نہیں بلکہ’مستقبل کے مورخ کے لیے‘ لکھی ہے اور یہی اس کا عنوان ہے

    مستقبل کے مورخ کے لیے


    غربت میں آنکھ کھولی اوربے سروسامانی میں ہوش سنبھالا
    وہ بولے، مزدور کا بیٹا ہے،پڑھ نہیں سکتا
    بچپن، جوانی،ہجر،وصال میں یاربیلی کہتے رہے
    کیسے ہوگا ممکن،آگے بڑھ نہیں سکتا
    گھرکی دہلیزپراخبارپڑارہ گیااورکتابیں مطالعے کی میزپر
    مادرعلمی کے سارے موسموں سے ،دال پر روٹی گھسیٹنے کی مشقت تک
    وہ خوش گمان تھے ،خواب دیکھنے والا لڑنہیں سکتا
    سیٹھ کی دنیا،ادب کے کباڑی
    سیاست و مذہب اورثقافت کے مداری
    منظر،متن،معنی،چہرے،لہجے،پڑھتے پڑھتے
    میں جینے لگا،پڑھنے ،لکھنے اوربولنے لگا
    کھرے کے ساتھ کھوٹے ،بد کے ساتھ نیک
    پتھر اورہیرے چننے لگا
    اردگردہی تھے وہ گوشہ نشیں،عالم بے خودی والے بھی
    سادہ،بے بدل،روشن،بے غرض،شفاف آئینے کی طرح
    پتھر کے جنگل میں انسانوں سے ملنے لگا
    میر،منٹو اورجون صاحب تک آتے آتے،خود سے بھی ملاقات ہوگئی
    خاموشی کے شورمیں،اپنے حصے کی سچائی لکھنے لگا
    زندگی کی محبوبہ روٹھ جانے تک
    اپنے عہد کی سچی گواہی رقم کرتارہوں گا
    مستقبل کے مورخ کے لیے