Tag: Autism

  • آٹزم کے شکار بچوں کی 5 اہم علامات کیا ہیں؟

    آٹزم کے شکار بچوں کی 5 اہم علامات کیا ہیں؟

    آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر (اے ایس ڈی) ایسی بیماری ہے جو عام طور پر بچپن میں ظاہر ہوتی ہے، جس کیلیے والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں میں ظاہر ہونے والی آٹزم کی ان علامات کا بغور جائزہ لیں۔

    آٹزم کے شکار بچے سماجی لحاظ سے نارمل بچوں سے مختلف ہوتے ہیں، اس بیماری میں مبتلا کچھ بچے ایک یا دو سال کی عمر سے پہلے معمول کے مطابق دکھائی دیتے ہیں لیکن بعد کے سالوں میں ان کے رویوں میں اچانک تبدیلی یا آٹزم کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

    اس حوالے سے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ بیماری انسان کی معاشرتی زندگی، تعلقات اور اظہار خیال کی اہلیت کو متاثر کرکے اس پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوتی ہے۔

    Autism Spectrum

    آٹزم کی علامات میں ایک چیز پر شدید توجہ دینا، سماجی اشاروں کو نہ سمجھنا (جیسے آواز یا جسمانی زبان)، اعضاء کو بار بار حرکت دینا، یا سر پیٹنا جیسے خود سے بدسلوکی کا رویہ شامل ہوسکتا ہے۔

    یاد رہے کہ دنیا میں آنے والا ہر بچہ اپنی نوعیت کا منفرد ہوتا ہے لیکن کچھ عمومی علامات ایسی ہوتی ہیں جن پر والدین اور بچے کی دیکھ بھال کرنے والے بخوبی غور کرسکتے ہیں۔

    زیر نظر مضمون میں آٹزم کی ایسی پانچ عام علامات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو والدین کو اشارہ دے سکتی ہیں کہ آپ کا بچہ بھی آٹزم کا شکار ہو سکتا ہے۔

    1 : سماجی تعلقات میں مشکلات

    آٹزم کے شکار بچے سماجی اشاروں کو سمجھنے میں مشکلات محسوس کر سکتے ہیں، جیسے دوست بنانے، جذبات کو سمجھنے اور دوسروں کے ساتھ کھیلنے میں۔ یہ بچے نظریں ملانے سے گریز کرسکتے ہیں، وہ اپنے جذبات کا اشتراک کرنے میں دشواری محسوس کر سکتے ہیں، یا اکیلے کھیلنے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔

    2 : بار بار دہرانے والے رویے

    بار بار دہرانے والے رویے، جیسے کہ ہاتھ ہلانا، جھولنا، گھومنا، یا کھلونوں کو قطار میں لگانا، آٹزم کے شکار بچوں میں عام ہوسکتے ہیں۔ یہ بچے اپنی روزمرہ کی عادات کے پابند ہو سکتے ہیں اور ماحول میں کسی بھی تبدیلی پر بہت پریشان ہو جاتے ہیں۔

    Autism seeks

    3 : بولنے میں تاخیر

    آٹزم کے شکار کچھ بچے زبان کی نشوونما میں تاخیر کا سامنا کرتے ہیں، مثال کے طور پر وہ دو سال کی عمر تک بہت کم بولتے ہیں، ببلنگ نہیں کرتے یا جملے بناتے ہوئے مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔

    4 : محدود دلچسپیاں

    اس کے علاوہ ایسے بچے کسی ایک خاص موضوع یا چیز میں انتہائی دلچسپی رکھتے ہیں اور دیگر سرگرمیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان کی یہ دلچسپیاں انتہائی مخصوص ہو سکتی ہیں اور وہ ان میں بھرپور توجہ کے ساتھ محو رہتے ہیں۔

    5 : حساسیت

    آٹزم کے شکار بچے اپنے حواس کے لحاظ سے زیادہ یا کم حساس ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر وہ آوازوں، روشنیوں، ذائقوں یا خوشبوؤں کے بارے میں زیادہ حساس ہو سکتے ہیں یا ان پر کم ردعمل دے سکتے ہیں۔

    Parenting a Child

     والدین کے لیے ہدایات 

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آٹزم میں مبتلا ہر بچہ مختلف ہوتا ہے اور اس کی شدت اور نوعیت بھی مختلف ہو سکتی ہے۔

     

    اس کو پہچاننے کیلیے ابتدائی تشخیص بہت ضروری ہے، مرض کی جلد شناخت اور بھرپور توجہ بچوں کی صحت کے نتائج کو بہتر بنا سکتی ہے۔

    ان علامات کے پیش نظر اگر آپ کو شک ہو تو فوری طور پر ڈاکٹرز یا ماہرین نفسیات سے رجوع کریں۔ یاد رکھیں ایک ماہرِ اطفال مکمل تشخیص کرکے بچے کیلیے موزوں تجاویز فراہم کرسکتا ہے۔

  • پاکستان میں 3 لاکھ 50 ہزار بچے آٹزم  کا شکار، وزیر اعلیٰ سندھ کا خصوصی پارک بنانے کا اعلان

    پاکستان میں 3 لاکھ 50 ہزار بچے آٹزم کا شکار، وزیر اعلیٰ سندھ کا خصوصی پارک بنانے کا اعلان

    کراچی: ’آٹزم کے چیلنجز اور اس کا حل‘ کے عنوان سے کراچی کے ایک نجی ہوٹل میں منعقدہ سیمینار میں ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں 3 لاکھ 50 ہزار بچے آٹزم کا شکار ہیں، سیمینار میں وزیر اعلیٰ سندھ نے خصوصی بچوں کے لیے پارک مختص کرنے کا بھی اعلان کیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں پاکستان سینٹر فار آٹزم کے سیمینار میں ڈاکٹر غفار بلو نے بتایا کہ پاکستان میں 3 لاکھ 50 ہزار بچے آٹزم کا شکار ہیں، جب کہ کراچی میں آٹزم کے شکار بچوں کی تعداد تقریباً 40 ہزار ہے۔

    ڈاکٹر عالیہ نے آٹزم کے شکار بچوں کے حوالے سے سیمینار کے شرکا کو آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ آٹزم کے شکار بچے سوشلائزڈ نہیں ہوتے اور نہ ہی بات کر پاتے ہیں، تاہم جیسے ہی آٹزم میں مبتلا بچوں یا کچھ بڑے بچوں کی تھراپی ہوتی ہے تو وہ ٹھیک ہونا شروع ہوتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ تھراپی کی ٹریننگ والدین کی بھی ہوتی ہے جو بہت ضروری ہے، آٹزم میں مبتلا بچوں کو تعلیم، تفریح اور کام میں حصہ لینے کے لیے اُن کی تربیت ضروری ہے۔

    وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آٹزم اور خصوصی بچوں کے لیے پارک مختص کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا سندھ حکومت نے آٹزم اورخصوصی بچوں کے حوالے سے کام کیا ہے، ہم نے قوانین بھی بنائے ہٰیں اور ان پر عمل درآمد بھی کرائیں گے، خصوصی بچوں کے ان قوانین میں تمام تر آگاہی موجود ہے، نہ صرف خصوصی افراد کے حقوق کی پامالی پر قانون سازی کی گئی ہے بلکہ ان کی خلاف ورزی پر سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ حکومت نے باقاعدہ ایک ڈپارٹمنٹ آف امپاورمنٹ آف پرسن وتھ ڈِس ایبلیٹیز قائم کیا ہے، سندھ حکومت کے 66 سینٹرز اس سلسلے میں پرائیویٹ سیکٹرز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

    وزیر اعلیٰ نے کہا ’’فنڈز ہمارا مسئلہ نہیں ہے، ہمارا اصل مسئلہ تربیت یافتہ عملہ اور کام کرنے والے لوگ ہیں، آٹزم اور دیگر معذوریوں کے شکار بچوں کو معاشرے کا کارگر حصہ بنانے کے لیے ماہرین ہماری رہنمائی کریں، پرائیویٹ ادارے ریسورس کے طور پر ہمیں استعمال کریں اور حکومت انھیں فنانشل سورس دے گی۔‘‘

    ڈاکٹر غفار بلو نے کہا کہ ہمارے ہاں لوگوں اور ڈاکٹرز میں بھی آٹزم کے حوالے سے آگاہی کا فقدان ہے، اگر بچہ ڈھائی سال کی عمر تک پہنچ کر بات نہیں کرتا تو کچھ مسئلہ ضرور ہے، بچہ اگر اپنی عمر کے ساتھ ساتھ بات نہیں کرتا تو اس کا چیک اپ کروانا چاہیے، بچے کی حرکت ٹھیک نہ لگے تب بھی چیک اپ لازمی ہے، تھراپی اگر صحیح وقت پر شروع کی جائے تو بچہ بہتر ہو سکتا ہے۔

  • بچوں میں آٹزم کا خطرہ پیدا ہونے سے قبل ہی، لیکن کیسے؟

    بچوں میں آٹزم کا خطرہ پیدا ہونے سے قبل ہی، لیکن کیسے؟

    حمل کے دوران خواتین کی خوراک پیدا ہونے والے بچے کی جسمانی و ذہنی صحت پر اثرات مرتب کرتی ہے، ایسے میں حاملہ خواتین کے لیے مضر غذائی اشیا سے بچنا ضروری ہے۔

    حال ہی میں کی گئی نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حمل کے دوران پینے کے پانی میں لیتھیئم کی زیادہ مقدار حاملہ خواتین کے بچوں میں آٹزم کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔

    یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس (UCLA) کے ماہرین کی جاما پیڈیا ٹرکس نامی جرنل میں شائع تحقیق میں پہلی مرتبہ قدرتی طور پر پانی میں موجود لیتھیئم کے آٹزم کا سبب بننے کی نشاندہی کی گئی ہے۔

    تحقیقی ٹیم کی سربراہ یو سی ایل اے کے ڈیوڈ گیفن اسکول آف میڈیسن کی پروفیسر بیئٹ رٹز کا کہنا تھا کہ پینے کے پانی میں انسان کی ذہنی نشونما پر اثر انداز ہونے والی آلودگیوں کی سخت جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تجرباتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کچھ مادوں اور پانی میں قدرتی طور پر موجود لیتھیئم بچوں کی ذہنی نشونما پر اثر انداز ہو کر ان میں آٹزم کا شکار ہونے کا خطرہ پیدا کر دیتا ہے۔

    ڈاکٹر بیئٹ رٹز کا کہنا تھا کہ لیتھیئم بیٹریوں کو تلف کرنے کے لیے زمین میں دبانے یا کہیں پھینک دینے سے لیتھیئم کے زیر زمین پانی میں شامل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اس سے مستقبل میں لیتھیئم سے آلودہ پانی کا مسئلہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر ابھر سکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حالیہ تحقیق ڈنمارک کے ہائی کوالٹی ڈیٹا پر مشتمل ہے، تحقیق کے لیے ڈاکٹر بیئٹ رٹز اور ڈنمارک کے ماہرین کی جانب سے ڈنمارک میں 1997 سے لے کر 2013 تک پیدا ہونے والے بچوں اور ان میں سے ذہنی امراض کا شکار ہونے والے بچوں کے ڈیٹا اور ملک کے نصف حصے کو پانی مہیا کرنے والے 151 واٹر ورکس کے ڈیٹا میں لیتھیئم کی مقدار کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق کے دوران 63 ہزار سے زائد بچوں کے میڈیکل ریکارڈز کا تجزیہ کیا گیا جس دوران 12 ہزار 799 بچوں کے آٹزم کا شکار ہونے کے شواہد سامنے آئے۔

    واضح رہے کہ یورپی ممالک میں ڈنمارک کو ایسا ملک شمار کیا جاتا ہے جہاں لوگ پینے کے لیے بوتل کے پانی کے بجائے زیادہ تر کھلے پانی کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ملک میں پینے کے پانی میں شامل اجزا کا تجزیہ کرنے کے لیے بھی باقاعدہ ایک منظم طریقہ کار موجود ہے۔

  • آٹزم، ذہنی امراض میں متبلا بچوں کے لیے پہلا نیشنل پروگرام تیار

    آٹزم، ذہنی امراض میں متبلا بچوں کے لیے پہلا نیشنل پروگرام تیار

    کراچی: آٹزم اور ذہنی امراض میں متبلا بچوں کے لیے پہلا نیشنل پروگرام تیار کر لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کی ہدایت پر ملک میں آٹزم اور ذہنی امراض کے بچوں کے لیے پہلا نیشنل پروگرام تیار کر لیا گیا ہے۔

    ترجمان وزارت صحت کا کہنا ہے کہ وزارت صحت چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان سینٹرز کے قیام میں مدد کرے گی، اور آٹزم مرض میں مبتلا بچوں کے لیے اسلام آباد میں جدید سینٹر قائم کیا جائے گا، جس میں بچوں کو تعلیم کے ساتھ ٹریٹمنٹ بھی دیا جائے گا۔

    قادر پٹیل نے کہا آٹزم اور ذہنی امراض میں مبتلا بچوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جائے گی، اور ان بچوں کا ملک بھر میں سروے کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا۔

    وزیر صحت کے مطابق یونیسیف بھی اس سلسلے میں وزارت صحت پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے، انھوں نے کہا ہم صحت کے شعبے میں بہتری کے لیے عملی اور مؤثر اقدامات کو یقینی بنا رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر یا اے ایس ڈی ساری عمر رہنے والی ایک ایسی بیماری ہے، جس میں مریض کا لوگوں سے بات کرنا، اور انسان کی ذہنی استعداد کا عمل متاثر ہوتا ہے، اس کا تعلق دراصل دماغ کی نشوونما سے ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر 100 میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہے، ابتدائی بچپن میں اس کی علامات کا پتا لگایا جا سکتا ہے، لیکن آٹزم کی تشخیص اکثر کافی دیر سے ہوتی ہے۔ آٹسٹک لوگوں کی صلاحیتیں اور ضروریات مختلف ہوتی ہیں، اگرچہ آٹزم کے شکار کچھ لوگ آزادانہ طور پر زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن بعض لوگ شدید معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

  • آٹزم سے آگاہی کا دن: وہ بچے جنہیں معمول سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے

    آٹزم سے آگاہی کا دن: وہ بچے جنہیں معمول سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے

    آج دنیا بھر میں اعصابی خرابی آٹزم سے آگاہی کا دن منایا جاتا ہے، پاکستان میں آٹزم کے حوالے سے گزشتہ 10 سے 15 سال کے دوران شعور میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔

    آٹزم سے متاثرہ بچوں میں بولنے، سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ تاحال اس کا علاج یا اس کے اسباب دریافت نہیں کیے جاسکے ہیں۔

    آٹزم کا شکار ہونے والے افراد کسی اہم موضوع یا بحث میں کسی خاص نکتے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے اور اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں دوسروں کے جذبات سمجھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق آٹزم کا شکار افراد کو بات چیت کرنے، زبان سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے اور اپنے رویے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔

    پاکستان سینٹر فار آٹزم کی ڈائریکٹر ساجدہ علی نے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کے دوران بتایا کہ یہ نیورولوجیکل ڈس آرڈر یعنی اعصابی خرابی ہے، یہ پیدائشی ہوتی ہے اور تا عمر رہتی ہے۔

    ساجدہ علی کا کہنا ہے کہ آج کل یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اسمارٹ فون کے زیادہ استعمال کی وجہ سے بچوں میں یہ مرض پرورش پانے لگا ہے، اس خیال کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

    ان کے مطابق بچوں کے اندر اس خرابی کا 6 ماہ کے اندر بھی پتہ چل سکتا ہے کیونکہ 6 ماہ کا بچہ بھی آواز دینے پر متوجہ ہوتا ہے، مسکراتا ہے یا اس کی آنکھوں میں تاثرات ظاہر ہوتے ہیں، لیکن آٹزم کا شکار بچے کو کسی کی آواز پر متوجہ ہونے میں وقت لگتا ہے۔

    ساجدہ علی کے مطابق ایسے بچوں کو سوشل کمیونیکیشن میں بہت زیادہ پریشانی ہوسکتی ہے۔ وہ اپنی مطلوبہ شے کو یا تو خود حاصل کرنے کی کوشش کریں گے یا اس تک نہیں پہنچ سکیں گے تو رونا شروع کردیں گے، لیکن کہہ کر اپنی طلب کا اظہار نہیں کرسکیں گے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس خرابی میں 2 انتہائیں ہوسکتی ہیں، مشہور سائنسدان آئن اسٹائن بھی آٹزم کا شکار تھا اور وہ ایک انتہا پر تھا۔ ایک انتہا ایسے بچوں کے ذہنی طور پر بہت زیادہ فعال ہونے کی یا دوسرے لفظوں میں ذہین ہونے کی ہے، یا پھر ان میں کوئی خاص صلاحیت قدرتی طور پر موجود ہوسکتی ہے۔

    دوسری انتہا میں بچہ عام بچوں کی نسبت کند ذہن ہوسکتا ہے اور اسے کچھ نیا سیکھنے یا سمجھنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔

  • ننھے بچوں کی وہ حرکات جو ان میں ایک سنگین مرض کی نشاندہی کرتی ہیں

    ننھے بچوں کی وہ حرکات جو ان میں ایک سنگین مرض کی نشاندہی کرتی ہیں

    آج دنیا بھر میں اعصابی بیماری آٹزم سے آگاہی کا دن منایا جاتا ہے۔ آٹزم سے متاثرہ بچوں میں بولنے، سمجھنے، سیکھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ تاحال اس مرض کا علاج یا اس کے اسباب دریافت نہیں کیے جاسکے ہیں۔

    آٹزم کا شکار ہونے والے افراد کسی اہم موضوع یا بحث میں کسی خاص نکتے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے اور اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں دوسروں کے جذبات سمجھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق آٹزم کا شکار افراد کو بات چیت کرنے، زبان سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے اور اپنے رویے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جو 50 سال کی عمر مں باپ بنے ان کی آنے والی نسلوں میں آٹزم کا خطرہ بڑھ گیا، ایسے افراد کی اولاد نارمل ہوتی ہے تاہم اولاد کی اولاد آٹزم کا شکار ہوسکتی ہے۔

    تاحال اس مرض کے حتمی نتائج اور اس کا علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔ آٹزم کا شکار افراد دوسروں سے الگ تھلگ رہنا اور اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں تاہم کچھ افراد کو دوسروں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اکیلے اپنی زندگی نہیں گزار سکتے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بچے کی نہایت کم عمری میں ہی اس میں آٹزم کا سراغ لگایا جاسکتا ہے، ایسے بچے بظاہر نارمل اور صحت مند دکھائی دیتے ہیں تاہم ان کی کچھ عادات ان کے آٹزم میں مبتلا ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔

    آئیں دیکھتے ہیں وہ عادات کون سی ہیں۔

    بار بار مٹھی کھولنا اور بند کرنا: یہ آٹزم کی نہایت واضح نشانی ہے۔

    اکثر پنجوں کے بل چلنا

    اپنے سر کو کسی چیز سے مستقل ٹکرانا: کوئی بھی کام کرتے ہوئے یہ بچے اپنے سر کو کسی سطح سے مستقل ٹکراتے ہیں۔

    لوگوں کے درمیان یا اجنبی جگہ پر مستقل روتے رہنا اور غیر آرام دہ محسوس کرنا

    اپنے سامنے رکھے پانی یا دودھ کو ایک سے دوسرے برتن میں منتقل کرنا

    بہت زیادہ شدت پسند اور ضدی ہوجانا

    آوازوں پر یا خود سے کی جانے والی باتوں پر دھیان نہ دے پانا: ایسے موقع پر یوں لگتا ہے جیسے بچے کو کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا۔

    نظریں نہ ملا پانا: ایسے بچے کسی سے آئی کانٹیکٹ نہیں بنا پاتے۔

    بولنے اور بات کرنے میں مشکل ہونا

    کسی کھانے یا کسی مخصوص رنگ کے کپڑے سے مشکل کا شکار ہونا: ایسے بچے اکثر اوقات کپڑے پہنتے ہوئے الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ کپڑے کے اندرونی دھاگے انہیں بے چینی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بچے نظر بچا کر کپڑوں کو الٹا کر کے بھی پہن لیتے ہیں۔

    مزید رہنمائی کے لیے یہ ویڈیو دیکھیں۔

  • مرگی کا دورہ پڑنے پر پولیس نے 16 سالہ لڑکے کو گرفتار کرلیا

    مرگی کا دورہ پڑنے پر پولیس نے 16 سالہ لڑکے کو گرفتار کرلیا

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں پولیس نے مجرمانہ غفلت کی بدترین مثال قائم کرتے ہوئے مرگی کا دورہ پڑنے پر 16 سالہ لڑکے کو گرفتار کرلیا اور زبردستی پولیس اسٹیشن لے جانے کی کوشش کی۔

    کیلی فورنیا کی رہائشی ایک خاتون کا دعویٰ ہے کہ ان کے 16 سالہ آٹزم کا شکار بیٹے کو مرگی کا دورہ پڑا تاہم پولیس نے اس کی مدد کرنے کے بجائے اسے مارا اور ہتھکڑیاں لگا دیں۔

    مذکورہ خاتون نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ان کے بیٹے کو آٹزم اور مرگی ہے، ان کا خاندان ایک ریسٹورنٹ میں لنچ کرنے کے لیے موجود تھا جہاں باتھ روم میں ان کے بیٹے کو مرگی کا دورہ پڑا۔

    خاندان کے دیگر افراد نے باتھ روم کا دروازہ کھولنا چاہا لیکن جب وہ اس میں ناکام رہے تو انہوں نے 911 کو کال کی، گو کہ انہوں نے طبی امداد مانگی تھی لیکن اس کی جگہ 8 لحیم شحیم پولیس اہلکار موقع پر پہنچ گئے۔

    لڑکے کی بہن کے مطابق ان پولیس والوں نے آتے ہی لڑکے کو مارا، اہلخانہ نے انہیں لڑکے کی طبیعت کے بارے میں بتانے کی کوشش کی لیکن پولیس والے ان سنی کر گئے۔ ان کے خیال میں لڑکا نشے میں دھت ہو کر ایسی حرکتیں کر رہا تھا۔

    سامنے آنے والی ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکار لڑکے کو پکڑ کر پولیس کار میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ پیچھے سے اس کی ماں چلا رہی ہے کہ وہ بیمار ہے اور اسے اسپتال لے جاؤ۔

    ایک اور ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لڑکا پولیس کی گاڑی کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا ہے اور اپنی بہن سے کہہ رہا ہے کہ ہتھکڑیاں اسے تکلیف دے رہی ہیں اور انہیں کھولا جائے۔

    واقعے کے بعد محکمہ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس پورے واقعے کا جائزہ لے رہے ہیں اور کوتاہی کے ذمہ دار افراد کے خلاف جلد کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

  • بچے کی یہ حرکات اس میں آٹزم کی نشاندہی کرتی ہیں

    بچے کی یہ حرکات اس میں آٹزم کی نشاندہی کرتی ہیں

    اعصابی بیماری آٹزم دنیا بھر میں تیزی سے عام ہوتی جارہی ہے، آٹزم سے متاثرہ بچوں میں بولنے، سمجھنے، سیکھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ تاحال اس مرض کا علاج یا اس کے اسباب دریافت نہیں کیے جاسکے ہیں۔

    آٹزم کا شکار ہونے والے افراد کسی اہم موضوع یا بحث میں کسی خاص نکتے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے اور اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں دوسروں کے جذبات سمجھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق آٹزم کا شکار افراد کو بات چیت کرنے، زبان سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے اور اپنے رویے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بچے کی نہایت کم عمری میں ہی اس میں آٹزم کا سراغ لگایا جاسکتا ہے، ایسے بچے بظاہر نارمل اور صحت مند دکھائی دیتے ہیں تاہم ان کی کچھ عادات ان کے آٹزم میں مبتلا ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ وہ عادات یہ ہیں۔

    بار بار مٹھی کھولنا اور بند کرنا: یہ آٹزم کی نہایت واضح نشانی ہے۔

    اکثر پنجوں کے بل چلنا

    اپنے سر کو کسی چیز سے مستقل ٹکرانا: کوئی بھی کام کرتے ہوئے یہ بچے اپنے سر کو کسی سطح سے مستقل ٹکراتے ہیں۔

    لوگوں کے درمیان یا اجنبی جگہ پر مستقل روتے رہنا اور غیر آرام دہ محسوس کرنا

    اپنے سامنے رکھے پانی یا دودھ کو ایک سے دوسرے برتن میں منتقل کرنا

    بہت زیادہ شدت پسند اور ضدی ہوجانا

    آوازوں پر یا خود سے کی جانے والی باتوں پر دھیان نہ دے پانا: ایسے موقع پر یوں لگتا ہے جیسے بچے کو کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا۔

    نظریں نہ ملا پانا: ایسے بچے کسی سے آئی کانٹیکٹ نہیں بنا پاتے۔

    بولنے اور بات کرنے میں مشکل ہونا

    کسی کھانے یا کسی مخصوص رنگ کے کپڑے سے مشکل کا شکار ہونا: ایسے بچے اکثر اوقات کپڑے پہنتے ہوئے الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ کپڑے کے اندرونی دھاگے انہیں بے چینی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بچے نظر بچا کر کپڑوں کو الٹا کر کے بھی پہن لیتے ہیں۔

    مزید رہنمائی کے لیے یہ ویڈیو دیکھیں۔

  • نفسیات کو متاثر کرنے والی اعصابی بیماری آٹزم سے آگاہی کا عالمی دن

    نفسیات کو متاثر کرنے والی اعصابی بیماری آٹزم سے آگاہی کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں اعصابی بیماری آٹزم سے آگاہی کا دن منایا جاتا ہے۔ آٹزم سے متاثرہ بچوں میں بولنے، سمجھنے، سیکھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ تاحال اس مرض کا علاج یا اس کے اسباب دریافت نہیں کیے جاسکے ہیں۔

    آٹزم کا شکار ہونے والے افراد کسی اہم موضوع یا بحث میں کسی خاص نکتے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے اور اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں دوسروں کے جذبات سمجھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق آٹزم کا شکار افراد کو بات چیت کرنے، زبان سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے اور اپنے رویے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔

    امریکا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں اسکول جانے والے 59 میں سے ایک بچہ آٹزم میں مبتلا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ وہ افراد جو 50 سال کی عمر مں باپ بنے ان کی آنے والی نسلوں میں آٹزم کا خطرہ بڑھ گیا، ایسے افراد کی اولاد نارمل ہوتی ہے تاہم اولاد کی اولاد آٹزم کا شکار ہوسکتی ہے۔

    تاحال اس مرض کے حتمی نتائج اور اس کا علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔ آٹزم کا شکار افراد دوسروں سے الگ تھلگ رہنا اور اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں تاہم کچھ افراد کو دوسروں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اکیلے اپنی زندگی نہیں گزار سکتے۔

  • سوئیڈن پولیس نے کھلونا پستول تھامے نوجوان کو قتل کردیا

    سوئیڈن پولیس نے کھلونا پستول تھامے نوجوان کو قتل کردیا

    اسٹاک ہوم : سوئیڈن کے دارالحکومت میں پولیس افسران نے مبینہ طور پر فائرنگ کر کے کھلونا پستول تھامے نوجوان کو ہلاک کردیا، مقتول کا ذہنی مریض تھا۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کے رکن ملک سوئیڈن کے پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر فائرنگ کرکے آٹزم کے مرض میں مبتلا نوجوان کو گولی مار موت کے گھاٹ اتار، جو کھلونا پستول لے کر گھر سے نکلا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سوئیڈن کے علاقے اسٹاک ہوم شہر کے وسط میں ایک رہائشی علاقے میں ایک روز قبل فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا جہاں تین پولیس اہلکاروں نے گھر سے کھلونا پستول لے کر نکلنے والے 20 سالہ شخص پر فائرنگ کردی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے نوجوان کی شناخت ایرک ٹوریل کے نام سے ہوئی تھی، جو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں مقیم تھا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرک کا دماغی توازن درست نہیں اور اس کے ایک عزیز نے تحفے میں کھلونا پستول دی تھی۔ مقتول ایرک پسوتل لیے جب اپارٹمنٹ سے باہر آیا تو پیٹرولنگ پولیس کے تین افسران نے ایرک کی جانب سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے فائرنگ کردی تھی۔

    پولیس افسران کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے ایرک کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں ہی ہلاک ہوگیا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ رواں برس کے آغاز سے اب تک 7 افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں جان کی بازی ہار چکے ہیں، پولیس حکام کی جانب سے تاحال واقعے میں ملوث پولیس افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے البتہ تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

    پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے نوجوان کی والدہ کا کہنا تھا کہ جمعرات کے روز ایرک شام 4 بجے کے قریب گھر سے گیا تھا جس کے بعد کافی دیر تک ایرک کا کچھ پتہ نہیں چلا، تاہم کئی گھنٹے گزرنے کے بعد پتہ چلا کہ ایرک پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگیا ہے۔