Tag: Avenfield

  • شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز خراب موسم کے باعث پیش نہ ہوسکے جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرکمرہ عدالت میں موجود تھے۔

    مریم نوازکے وکیل امجد پرویز نے آج مسلسل چوتھے روز جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح کی۔

    احتساب عدالت میں سماعت کے آغاز پر نوازشریف اور مریم نوازکی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف، مریم نوازموسم کی خرابی کے باعث نہیں آسکے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے مریم نواز کے وکیل سے سوال کیا کہ امجد پرویزآپ لاہورسے کیسے پہنچے ہیں؟ جس پرانہوں نے جواب دیا کہ میں میں کل بائی روڈ اسلام آباد آگیا تھا۔

    بعدازاں عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی آج کے دن کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔

    مریم نواز کے وکیل نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ نیلسن کے رجسٹرڈ شیئرز کب اورکس کے نام پرجاری ہوئے؟ جس پرانہوں نے جواب دیا کہ دستاویزکے مطابق 4 جولائی 2006 کومنروا کے نام پرشیئرز جاری ہوئے۔

    استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ مریم نوازنے جےآئی ٹی کو بتایا یاد نہیں بیئررشیئرزان کے پاس رہے جبکہ حسین نوازنے بھی نہیں کہا بیئررشیئرزکبھی مریم کے قبضے میں رہے ہوں۔

    امجد پرویز نے سوال کیا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق سیٹلرحسین نوازہے جس پرجے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ مریم نوازکے بیان اورٹرسٹ ڈیڈ کے مندرجات میں تضاد ہے، ٹرسٹ ڈیڈ پردرج ہے وہ ان شیئرزکوہولڈ کریں گی۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ میں بینفشری کا لفظ حسین نوازکے لیے استعمال ہوا ہے، ہمارے نقطہ نظرسے یہ جعلی ٹرسٹ ڈیڈ ہے۔

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ دیگر2 ملزمان نے بھی نہیں کہا شیئرزکبھی مریم کے قبضے میں رہے، حسین نواز سے پوچھا گیا کیا 1994 سے 1996 تک کون بینیفشل مالک رہا؟۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے کہا وہ نہیں جانتا، مریم نواز کے وکیل نےسوال کیا کہ کیا نیلسن کی شیئرہولڈرمنروا لمیٹڈ کوشامل تفتیش کیا گیا؟ ۔

    واجد ضیاء نے جواب دیا کہ براہ راست شامل تفتیش نہیں کیا گیا، امجد پرویز نے سوال کیا کہ نیلسن کے شیئرمنروا کےنام پر رہے یا کسی اورکوٹرانسفر ہوئے؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ 9 جون2014 کونیلسن کے 2 شیئرٹرسٹی سروس کارپوریشن کومنتقل ہوئے۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے گزشتہ سماعت کے دوران سوال کیا تھا کہ مریم نوازکا نیلسن نیسکول کی تشکیل میں کردارظاہرہو دستاویزات ہیں؟ جس پراستغاثہ کے گواہ نے جواب دیا تھا کہ بی وی آئی حکام کی تصدیق ریکارڈ پرہے۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی اورموزیک فونسیکا کی خط وکتابت سے ظاہرہوتا ہے، 5 دسمبر 2005 کے خط سے بھی مریم نوازکا کردارظاہرہوتا ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا تھا کہ میمورنڈم آرٹیکل ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا، جس کے مطابق نیلسن انٹرپرائز کی تشکیل 14 اپریل 1994 کو ہوئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کے خلاف کیس کی سماعت 16 اپریل تک ملتوی

    ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کے خلاف کیس کی سماعت 16 اپریل تک ملتوی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 16 اپریل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز خراب موسم کے باعث پیش نہ ہوسکے جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرکمرہ عدالت میں موجود تھے۔

    مریم نوازکے وکیل امجد پرویز آج مسلسل تیسرے روز بھی جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح کی۔

    احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اوران کی صاحبزادی مریم نواز کی آج کے دن کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے بتایا کہ 17 جنوری2017 کولارنس ریڈلے نے سلمان اکرم راجہ کوخط لکھا، خط میں لارنس ریڈلےکا ایڈریس، فون نمبر، فیکس نمبراورای میل ہے، یہ خط ایون فیلڈ پراپرٹیزسے متعلق ہے۔

    مریم نواز کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا تصدیق ہوئی آف شورکمپنیوں سے 93-96 میں ایون فیلڈ پراپرٹیزخریدیں؟ جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ یہ بات درست ہے فلیٹس کمپنیوں کے نام پرخریدے گئے۔

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا تھا ریڈلے کوشامل تفتیش نہیں کیا جائے گا، آف شورسے فلیٹس خریدنے کا مقصد اصل خریدارکی شناخت چھپانا تھا۔

    امجد پرویز نے سوال کیا کہ مریم نوازکا نیلسن نیسکول کی تشکیل میں کردارظاہرہو دستاویزات ہیں؟ جس پراستغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ بی وی آئی حکام کی تصدیق ریکارڈ پرہے۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی اورموزیک فونسیکا کی خط وکتابت سے ظاہرہوتا ہے، 5 دسمبر 2005 کے خط سے بھی مریم نوازکا کردارظاہرہوتا ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ میمورنڈم آرٹیکل ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا، جس کے مطابق نیلسن انٹرپرائز کی تشکیل 14 اپریل 1994 کو ہوئی۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 16 اپریل کی صبح 10 بجے تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ 5 مئی 2017 کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جے آئی ٹی کسی بھی متعلقہ شخص کو بلاسکتی ہے جس پر وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ 5 مئی 2017 کے حکم نامے کی تو میں میں نے بات ہی نہیں کی۔

    امجد پرویز کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نیلسن اور نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ تصدیق کے لیے جے آئی ٹی کو نہیں کہا تھا جس پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ یہ درست ہے۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نیلسن اور نیسکول کے اصل بینیفشل مالک کا سوال خاص طور اٹھایا تھا۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مسلسل 10 روز کے دوران جرح مکمل کی تھی جبکہ واجد ضیاء نے 6 سماعتوں کے دوران اپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی واجد ضیاء پر جرح

    مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی واجد ضیاء پر جرح

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدراحتساب عدالت میں موجود تھے۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے آج مسلسل دسویں سماعت پرجے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح کی۔

    واجد ضیاء پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کی جرح مکمل

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر خواجہ حارث کی جانب سے غیرمتعلقہ سوالات پوچھنے پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وکیل صفائی غیرضروری سوالات نہیں پوچھ سکتے۔

    نیب ڈپٹی پراسیکیوٹرسردار مظفر نے کہا کہ اسکینڈل بنانے کے لیے ایسے سوالات نہیں پوچھے جا سکتے، گواہ کوتحفظ حاصل ہےغیرمتعلقہ سوالات سے روکا جائے۔

    مریم نوازکے وکیل امجد پرویزکی واجدضیاء پرجرح

    سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نوازکے وکیل امجد پرویز جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح کررہے ہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے بتایا کہ ہر15 روزبعد سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کراتے تھے، سپریم کورٹ نے جن سوالات کا حکم دیا تھا ان کا جواب تلاش کیا۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی کرمنل کیس کی تحقیقات نہیں کررہی تھی، جے آئی ٹی کوسی آرپی سی اورنیب آرڈیننس کے تحت اختیارات تھے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جےآئی ٹی نے 2ماہ میں سپریم کورٹ کے سوالات کا جواب دینا تھا، سیکیورٹی گارڈ، ریکارڈ کیپر ، ٹائپسٹ اورکک سمیت جے آئی ٹی سیکریٹریٹ کا اسٹاف 30 سے40 افراد پرمشتمل تھا۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ جےآئی ٹی کے ساتھ 30 سے40 ماہرین کام کررہے تھے، 30 سے 40 ماہرین کا نام جے آئی ٹی رپورٹ میں ظاہرنہیں کیا گیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ ایکسپرٹس کا نام خفیہ رکھنے کے لیے عدالت کو درخواست دی تھی، سپریم کورٹ نے اس سے متعلق کوئی باضابطہ آرڈرپاس نہیں کیا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ رپورٹ میں ماہرین کی تحقیقات میں کردار کوظاہرنہیں کیا، عدالت نے جے آئی ٹی کوسپورٹنگ اسٹاف رکھنے کی اجازت دی تھی، جےآئی ٹی نے رپورٹ میں سپورٹنگ اسٹاف کی موجودگی کا ذکرکیا۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے مریم نواز کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلےسوال کرلیں تبصرے بعد میں کریں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اب آپ یہ بھی پوچھیں گے رپورٹ کس کمپیوٹر پرٹائپ کی گئی، کمرے میں کتنی لائٹس تھیں، انہوں نے کہا کہ یہ وائٹ کالرکرائم ہے آپ کس طرح کے سوال پوچھ رہے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے مریم نواز کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ واجد ضیاء سے یہ بھی پوچھیں کمرے میں جنریٹر بھی تھا یا نہیں۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    کیا جےآئی ٹی رپورٹ کوئسٹ سولسٹر کے ساتھ شیئرکی گئی تھی‘ خواجہ حارث

    خیال رہے کہ گزشتہ روز پراسیکیوٹرنیب کا کہنا تھا کہ خواجہ حارث 3 دن سے تسلیم شدہ حقائق پرجرح کر رہے ہیں، کیپٹل ایف زیڈ ای کی چیئرمین شپ، اقامہ، تسلیم کر چکے ہیں، صرف تنخواہ پرملزمان کا مؤقف ہے وصول نہیں کی۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ کہ سپریم کورٹ میں بیان دے چکے ہیں 2006ء میں چیئرمین رہے، وکیل صفائی تسلیم شدہ دستاویزات پر جرح نہیں کرسکتے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ واجدضیاء نے کیپٹل ایف زیڈ ای پرعدالت میں بیان قلمبند کرایا، کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویزات کوثبوت کے طور پر پیش کیا، ہم نے اقامہ کو کبھی نہیں جھٹلایا۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میں نے کب کہا کہ اقامہ جعلی ہے چیئرمین نہیں رہے، احتساب عدالت کے معزز جج نے نوازشریف کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ جرح کریں لیکن مختصر کریں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نیب کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویزات کیوں لایا، یہ دستاویزات نکال دیں ہم جرح نہیں کرتے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کیا جےآئی ٹی رپورٹ کوئسٹ سولسٹر کے ساتھ شیئرکی گئی تھی‘ خواجہ حارث

    کیا جےآئی ٹی رپورٹ کوئسٹ سولسٹر کے ساتھ شیئرکی گئی تھی‘ خواجہ حارث

    اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز،کیپٹن ریٹائرڈ صفدراحتساب عدالت میں موجود تھے۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے مسلسل نویں سماعت پرجے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح کی۔

    خواجہ حارث کی واجد ضیاء پر جرح

    نوازشریف کے وکیل نے سماعت کے آغاز پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء سے سوال کیا کہ ٹریڈنگ لائسنس میں کمپنی نمبر کیا تھا؟ جس پرانہوں نے جواب دیا کہ ٹریڈنگ لائسنس پرکمپنی نمبر03209 درج ہے۔

    پراسیکیوٹرنیب نے کہا کہ خواجہ حارث 3 دن سے تسلیم شدہ حقائق پرجرح کر رہے ہیں، کیپٹل ایف زیڈ ای کی چیئرمین شپ، اقامہ، تسلیم کر چکے ہیں، صرف تنخواہ پرملزمان کا مؤقف ہے وصول نہیں کی۔

    سردار مظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں بیان دے چکے ہیں 2006ء میں چیئرمین رہے، وکیل صفائی تسلیم شدہ دستاویزات پر جرح نہیں کرسکتے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ واجدضیاء نے کیپٹل ایف زیڈ ای پرعدالت میں بیان قلمبند کرایا، کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویزات کوثبوت کے طور پر پیش کیا، ہم نے اقامہ کو کبھی نہیں جھٹلایا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے کب کہا کہ اقامہ جعلی ہے چیئرمین نہیں رہے، احتساب عدالت کے معزز جج نے نوازشریف کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ جرح کریں لیکن مختصر کریں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویزات کیوں لایا، یہ دستاویزات نکال دیں ہم جرح نہیں کرتے۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے بتایا کہ سورس دستاویزات پرمجازدستخط کنندہ کا ذکر ہے، سورس دستاویزات کی جبل علی اتھارٹی سے تصدیق نہیں کرائی۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ جےآئی ٹی نے جودستاویزات حاصل کیں وہ لے کرکب پہنچی؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی ٹیم 5 جولائی 2017 کودستاویزات لے کرواپس پہنچی۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ معلوم ہے ویج پروٹیکشن کے تحت بینک سے تنخواہ ضروری ہے؟ جس پرواجد ضیاء نے جواب دیا کہ جہاں تک میرے علم میں ہے ادائیگی کا سرٹیفکیٹ دینا ضروری ہوتا ہے۔

    پراسیکیوٹرنیب نے کہا کہ جو دل میں چیزیں ہیں وہ تو نہ لکھوائیں، وکیل صفائی نے سوال کیا کہ ویج پروٹیکشن سسٹم کے تحت اووردی کاؤنٹرتنخواہ ادائیگی کی گنجائش نہیں؟ ۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ دوران تحقیقات علم میں نہیں آیا کہ اووردی کاؤنٹرتنخواہ ادائیگی کی گنجائش نہیں ہے۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا جےآئی ٹی کی رپورٹ کوئسٹ سولسٹر کےساتھ شیئرکی گئی تھی جس پرواجد ضیاء نے جواب دیا کہ گواہوں کے بیان سے متعلقہ حصے کوئسٹ سولسٹرسے شیئرکیے گئے تھے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ کیا کوئسٹ سولسٹرکوبتایا گیا تھا شیئرکیے گئے حصے جے آئی ٹی کا حصہ ہیں۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

    نوازشریف کےوکیل اورنیب پراسیکیوٹرکےدرمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    خیال رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے آغاز پر ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفراور نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے سماعت کے آغاز پراعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ خواجہ حارث غیرضروری سوالات پوچھ رہے ہیں، انہیں غیرضروری سوالات سے اجتناب کرنا چاہیے۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت سے متعلق ملزم تسلیم کرچکا ہے، کیا آپ ملازمت کے دستاویز ماننے سے انکار کرتے ہیں، آپ کہیں کہ ملزم نے ملازمت نہیں کی۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ایک بات تک پہنچنے کے لیے سوالات کرنا پڑتے ہیں، سورس دستاویز پیش کی ہیں تو سوال کرنا میرا حق ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نوازشریف کےوکیل اورنیب پراسیکیوٹرکےدرمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    نوازشریف کےوکیل اورنیب پراسیکیوٹرکےدرمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اورکیپٹن ریٹائرڈ صفدراحتساب عدالت میں موجود تھے۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث آج مسلسل آٹھویں سماعت پرجے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پر جرح کی جبکہ اس سے قبل استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے 6 سماعتوں پراپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔

    خواجہ حارث اورنیب پراسیکیوٹرکے درمیان تلخ کلامی

    شریف خاندان کے خلاف ریفرنس کی احتساب عدالت میں سماعت کے آغاز پرنیب پراسیکیوٹراورخواجہ حارث کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

    نیب پراسیکیوٹر سردارمظفر نے کہا کہ ملازمت سے متعلق ملزم تسلیم کرچکا ہے، کیا آپ ملازمت کے دستاویز ماننے سے انکار کرتے ہیں، آپ کہیں کہ ملزم نے ملازمت نہیں کی۔

    سردار مظفر نے کہا کہ خواجہ حارث غیرضروری سوالات سے اجتناب کریں، نیب پراسیکیوٹرکی گفتگو پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث خاموش ہوگئے۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ صرف ان دستاویزات کوظاہرکیا جو دستخط شدہ اورمہر بھی ثبت ہے،گورنیکا انٹرنیشنل کی فراہم دستاویزات کی کاپیاں اوردستاویزات موجود تھے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی ٹریڈنگ لائسنس کی متعدد کاپیاں فراہم کی گئیں، گورنیکا انٹرنیشنل کے فراہم ٹریڈنگ لائسنس کی ایک کاپی پرمہرموجود ہے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جےآئی ٹی کے والیم 6 میں سورس دستاویزات کی تفصیلات ہیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ خواجہ حارث ان ایڈمیسیبل دستاویزات پرجرح نہیں کرسکتے۔

    نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ خواجہ صاحب سورس دستاویزات کی بات کررہے ہیں، نیب ان سورس دستاویزات پرانحصارہی نہیں کررہی، نوازشریف کیپیٹل ایف زیڈای میں ملازمت کا اعتراف کرچکے ہیں جبکہ جرح کوصرف متعلقہ حقائق تک محدود ہونا چاہیے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں نوازشریف کے اقامے کی 2 کاپیاں لگائی گئیں جبکہ اقامے کی ایک کاپی پرگورنیکا انٹرنیشنل کے دستخط موجود ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جرح میں 15مواقع پرخواجہ حارث نے سوالات کو دہرایا، واجد ضیاء نے بتایا کہ سیریل نمبر8 کے ساتھ منسلک دستاویزات کوپہلےعدالتی ریکارڈ کاحصہ بنالیں۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ دستاویزات کوعدالتی ریکارڈ کاحصہ بنانے کے بعدسوالات کرلیں، یہ کہنا مشکل ہوگا یہ تینوں دستاویزات سیریل نمبر8 کاحصہ ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹرسردار مظفر نے کہا کہ خواجہ حارث جرح مکمل نہیں کرنا چاہتے،11دن گزرگئے ہیں۔

    خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر میں دوبارہ تلخ کلامی

    نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ خواجہ حارث گواہ سے غیرضروری سوالات کرکے گواہ کو ہراساں کررہے ہیں، اگر وکیل صفائی کے پاس کوئی سوال نہیں تو جرح ختم کردیں۔

    سردار مظفر نے کہا کہ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اپنے سوالات کے حوالے سےعدالت کو مطمئن کریں، انہوں نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قطری شہزادے کو عدالت میں لےکرکیوں نہیں آئے۔

    واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ اقامہ والی دستاویزات سیریل نمبر 8 کے بجائے 10 پرلگی ہے، ہم نے صرف متعلقہ سورس دستاویزات لگائے، تمام سورس دستاویزات لگا دیتے تو ایک نیا والیم بن جاتا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 11 روز میں بھی وکیل صفائی جرح مکمل نہ کرسکے، بغیرکسی اعتراض کے آپ اتنی لمبی جرح کررہے ہیں۔

    سردار مظفر نے کہا کہ سورس دستاویزات عدالتی ریکارڈ پرنہیں لائی جاسکتی، ہم بھی ان دستاویزات پرانحصارنہیں کررہے، انہوں نے سوال کیا کہ جب دستاویزات ہیں ہی غیرمتعلقہ توان پرجرح کیوں؟۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ دستاویزات کوریکارڈ کاحصہ بنانے دیں پھرجرح کرلیں، قانون کے مطابق جس سوال کی بنیاد نہ ہو وہ نہیں پوچھا جاسکتا، انہوں نےغیرضروری جرح کی ممانعت سے متعلق فیصلےکا حوالہ دیا۔

    سردار مظفر نے کہا کہ جوجرح کررہے ہیں عدلیہ نے اس طریقےکورد کررکھا ہے، عدالتی فیصلے کے مطابق غلطی پر مجبورکرنے کے لیے جرح نہیں کی جاسکتی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ رحمان ملک کا بیان شریف خاندان کے خلاف جا سکتا تھا، جے آئی ٹی نے رحمان ملک کے بیان پرانحصارنہیں کیا، قانون شہادت بھی ایسی جرح کی اجازت نہیں دیتا۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے کہا کہ کہہ چکا اقامہ الراجی بینک کے ویزا کارڈ بحالی درخواست کے ساتھ تھا، سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جوسوال میں نے پوچھا وہ لکھیں پھرجومرضی فیصلہ کریں۔

    بعدازاں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی ہوگئی۔

    خیال رہے کہ 6 اپریل کو شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت جج محمد بشیرکی عدم موجودگی کے باعث ملتوی ہوگئی تھی

    واجدضیاء نےکیپٹل ایف زیڈ ای سےنواز شریف کی تنخواہ وصولی کی تصدیق کردی

    یاد رہے کہ 5 اپریل کو عدالت میں سماعت کے دوران جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے نوازشریف کی طرف سے کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ وصولی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ تنخواہ کا چارٹ تصدیق شدہ نہیں۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ جمع کرایاہے جس کے ساتھ یہ دستاویز منسلک ہیں جبکہ دستاویزات کی علیحدہ سے تصدیق کی ضرورت نہیں ہے۔

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے آخری تنخواہ 11 اگست2013 کو وصول کی، وصول کی گئی تنخواہ جولائی کے مہینے کی تھی۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ جبل علی فری زون اتھارٹی سے کیپیٹل ایف زیڈ ای ملازمت کا ریکارڈ لیا، حاصل ریکارڈ میں ادائیگیوں کے سرٹیفکیٹ کا اسکرین شاٹ موجود ہے۔

    استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ تنخوا ہ کی ادائیگیاں کاؤنٹرکے ذریعے کی گئی، یہ دستاویزات نواز شریف سے متعلق ہیں، تنخواہ وصولی کا توآپ سپریم کورٹ میں مان چکے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شریف خاندان کےخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 9 اپریل تک ملتوی

    شریف خاندان کےخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 9 اپریل تک ملتوی

    اسلام آباد : سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 9 اپریل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکی عدم موجودگی کے باعث 9 اپریل تک ملتوی ہوگئی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد سابق وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز عدالت میں پیش ہوئے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز عدالت میں سماعت کے دوران جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے نوازشریف کی طرف سے کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ وصولی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ تنخواہ کا چارٹ تصدیق شدہ نہیں۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ جمع کرایاہے جس کے ساتھ یہ دستاویز منسلک ہیں جبکہ دستاویزات کی علیحدہ سے تصدیق کی ضرورت نہیں ہے۔

    واجدضیاء نےکیپٹل ایف زیڈ ای سےنواز شریف کی تنخواہ وصولی کی تصدیق کردی

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے آخری تنخواہ 11 اگست2013 کو وصول کی، وصول کی گئی تنخواہ جولائی کے مہینے کی تھی۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ جبل علی فری زون اتھارٹی سے کیپیٹل ایف زیڈ ای ملازمت کا ریکارڈ لیا، حاصل ریکارڈ میں ادائیگیوں کے سرٹیفکیٹ کا اسکرین شاٹ موجود ہے۔

    استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ تنخوا ہ کی ادائیگیاں کاؤنٹرکے ذریعے کی گئی، یہ دستاویزات نواز شریف سے متعلق ہیں، تنخواہ وصولی کا توآپ سپریم کورٹ میں مان چکے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • واجدضیاء نےکیپٹل ایف زیڈ ای سےنواز شریف کی تنخواہ وصولی کی تصدیق کردی

    واجدضیاء نےکیپٹل ایف زیڈ ای سےنواز شریف کی تنخواہ وصولی کی تصدیق کردی

    اسلام آباد : سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں موجود تھے جبکہ نوازشریف اور مریم نواز موسم کی خرابی کے باعث عدالت میں پیش نہ ہوسکے۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے آج مسلسل ساتویں روز جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پر جرح کی۔

    خواجہ حارث نے سماعت کے آغاز پرواجد ضیاء سے سوال کیا کہ 10ہزاردرہم تنخواہ کاٹ کرلکھی گئی،آپ کومعلوم ہے کس نے لکھی؟ جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ اصل ایک لاکھ تھا، کاٹ کر10ہزارلکھا گیا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ کاٹ کرکس نے لکھا مجھے نہیں معلوم، دستاویزتصدیق شدہ ہے، نوازشریف کی ملازمت کا کنٹریکٹ میرے سامنے تیارنہیں ہوا، جےآئی ٹی نے دستاویزپرمہرلگانے والے کا بیان ریکارڈ نہیں کیا۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا رپورٹ میں لکھا 2 ارکان کیپیٹل ایف زیڈ ای کی دستاویزلینے گئے؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ یہ مجھے دیکھ کر بتانا پڑے گا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم ایک کے صفحہ 7پرلکھا ہوا ہے، ارکان متعلقہ ریکارڈ کے حصول کے لیے گئے تھے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ شریف خاندان کے دبئی میں کاروبار کا ریکارڈ اورثبوت جمع کیے، خاص طورپرکیپٹل ایف زیڈ ای کے دستاویزات لینے دبئی گئے، جےآئی ٹی ارکان صرف کیپٹل ایف زیڈای کا ریکارڈ اورشواہد لائے۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے نوازشریف کی طرف سے کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ وصولی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تنخواہ کا چارٹ تصدیق شدہ نہیں۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ جمع کرایاہے جس کے ساتھ یہ دستاویز منسلک ہیں جبکہ دستاویزات کی علیحدہ سے تصدیق کی ضرورت نہیں ہے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ نواز شریف نے آخری تنخواہ 11 اگست2013 کو وصول کی، وصول کی گئی تنخواہ جولائی کے مہینے کی تھی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جبل علی فری زون اتھارٹی سے کیپیٹل ایف زیڈ ای ملازمت کا ریکارڈ لیا، حاصل ریکارڈ میں ادائیگیوں کے سرٹیفکیٹ کا اسکرین شاٹ موجود ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ تنخوا ہ کی ادائیگیاں کاؤنٹرکے ذریعے کی گئی، یہ دستاویزات نواز شریف سے متعلق ہیں، تنخواہ وصولی کا توآپ سپریم کورٹ میں مان چکے ہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے کہا کہ دبئی میں قانون ہے کمپنی تنخواہ کا ریکارڈ اس وقت دیتی ہے جب ادا کی جاچکی ہو۔

    بعدازاں احستاب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پرنوازشریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ واجد صاحب آپ مؤقف بدل رہے ہیں جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا تھا کہ میں مؤقف نہیں بدل رہا، خواجہ حارث نے کہا تھا کہ آپ اپنا موقف بدلیں گے اور حقیقت کی طرف آئیں گے۔

    خواجہ حارث کی والیم 10 سےمتعلق معلومات پرواجد ضیاء حیران

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ 3 دن سے خواجہ حارث ایک ہی سوال کر رہے ہیں، یہ سارے سوال دہرا رہے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی اعتراض ہے توالگ بات، ایم ایل اے پرسوال ضرورکروں گا۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کے وکیل کا کہنا تھا کہ گواہ جھوٹ بولے گا توسچ اگلوانے کے لیے سوال کرنا پڑیں گے، جرح میں مختلف زاویوں سے سوال پوچھے جاتے ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سوال قانون شہادت کے خلاف جائے گا تو ضرور ٹوکوں گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • خواجہ حارث کی والیم 10 سےمتعلق معلومات پرواجد ضیاء حیران

    خواجہ حارث کی والیم 10 سےمتعلق معلومات پرواجد ضیاء حیران

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت میں آج نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء پر جرح کی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے آج مسلسل چھٹے روز مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیاء پر جرح کی۔

    خواجہ حارث نے سماعت کے آغاز پر واجد ضیاء سے سوال کیا کہ کیا آپ والیم 10 لے آئے ہیں؟ جس پر استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ والیم 10 کی کاپی اور7 ایم ایل ایز سے متعلق ریکارڈ مل گیا۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نے7 ایم ایل ایز سے متعلق سوال پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہی سوال بار بار نہیں پوچھا جا سکتا، خواجہ حارث نے کہا کہ میرا سوال ریکارڈ پرلے آئیں، یہ جواب نہیں دینا چاہتے تو نہ دیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سوال بھی ریکارڈ پر نہیں آسکتا۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ سوال ریکارڈ پر آسکتا ہے نہ جواب، صرف واجد ضیاء کا بیان ریکارڈ پر آسکتا ہے۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ والیم 10 لے آئے ہیں؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جی والیم 10 لایا ہوں، خواجہ حارث نے کہا کہ آپ مکمل والیم 10 نہیں بلکہ 7 ایم ایل اے کے خطوط لائے ہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ جی 7 ایم ایل اے کے خطوط لایا ہوں۔ نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ آرڈر میں واضح کریں مکمل والیم 10 پیش نہیں کیا گیا۔ واجد ضیاء نے کہا کہ مجھے مکمل بات کرنے دیں۔

    سابق وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ میں فارسی یا عربی میں نہیں، اردو میں پوچھ رہا ہوں، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہ سے براہ راست بات نہ کریں۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ 4 ایم ایل اے میں 1980 کے معاہدے کا ریفرنس دیا ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میں کچھ اور پوچھ رہا ہوں، نہ سوال آسکتا ہے نہ جواب، صرف ان کی گفتگو آسکتی ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ واجد صاحب آپ مؤقف بدل رہے ہیں جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ میں مؤقف نہیں بدل رہا، خواجہ حارث نے کہا آپ اپنا موقف بدلیں گے اور حقیقت کی طرف آئیں گے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 3 دن سے خواجہ حارث ایک ہی سوال کر رہے ہیں، یہ سارے سوال دہرا رہے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی اعتراض ہے توالگ بات، ایم ایل اے پرسوال ضرورکروں گا۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کے وکیل نے کہا کہ گواہ جھوٹ بولے گا توسچ اگلوانے کے لیے سوال کرنا پڑیں گے، جرح میں مختلف زاویوں سے سوال پوچھے جاتے ہیں، میں پوچھوں گا کونسی ایم ایل اے انٹرنیشنل کارپوریشن ڈیپارٹمنٹ کولکھی ؟

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سوال قانون شہادت کے خلاف جائے گا تو ضرور ٹوکوں گا۔ خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ کون سی ایم ایل اے ہیں جن میں قانونی سوال پوچھے گئے؟ کون سی ایم ایل اے انٹرنیشنل کارپوریشن ڈیپارٹمنٹ کولکھی ؟

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ 4 ایم ایل اے میں قانونی سوال پوچھے گئے، چاروں ایم ایل اے 15جون 2017 کو لکھی گئیں، چاروں کے ساتھ 1980 کے معاہدے کی کاپیاں نہیں لگائی گئیں۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ 12 جون 2017 کوسینٹرل اٹھارٹی کو ایم ایل اے بھجوائی گئی، ایم ایل اے کے ساتھ متعدد دستاویزات بھی بھجوائی گئیں جبکہ اس میں 1978 کا معاہدہ بھی بھجوایا تھا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے سوال کیا کہ ایم ایل اے میں 1980 کا معاہدہ نہیں بجھوایا؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ حیران ہوں آپ کووالیم 10پرمجھ سے زیادہ معلومات کیسے ہیں ؟

    واجد ضیاء نے کہا کہ درست ہے ایم ایل اے کے ساتھ 1980 کا معاہدہ نہیں لگایا گیا، خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے سپریم کورٹ میں والیم 10 دکھایا گیا تھا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ نوٹری پبلک سے براہ راست 1980 کے معاہدے کی تردید پرجواب نہیں آیا جبکہ جسٹس ڈیپارٹمنٹ سے جواب آ گیا تھا۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ نوٹری پبلک کے جواب میں آپ کے ایم ایل اے کا ذکر تھا؟ جس پرواجد ضیاء نے جواب دیا کہ جواب میں ہمارے ایم ایل اے کا ذکر نہیں تھا، 2 اتھارٹیزسےایم ایل اے کا براہ راست جواب نہیں آیا۔

    خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ گواہ کو ایسے نہ کہیں کہ اس نے دھوکہ دیا ہے، گواہ قابل احترام ہے، اس کی ذات پر بات نہ کی جائے، عدالت فیصلہ کرے گی کس نے دھوکہ دیا، آپ ایسے تبصرےکرنے سے اجتناب کریں۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے واجد ضیاء کو دھوکے باز نہیں کہا، انہیں کوئی دیانت داری کا سرٹیفکیٹ دینا ہے تو دے دیں۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کس نے ایسا کیا ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے اپنا موقف سامنے لانا ہے، کوئی چیز بھی ذاتی نہیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ شیزی نقوی کے بیان کے ساتھ رحمان ملک کی رپورٹ منسلک کی تھی، نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا آپ نے رحمان ملک کوشامل تفتیش کیا تھا؟

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ جی ہم نے رحمان ملک کو شامل تفتیش کیا تھا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ جانتے ہیں سورس دستاویزات کیا ہوتی ہیں؟

    استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ وہ دستاویزات جومعلومات پرمبنی ہوں سورس دستاویزات ہوتی ہیں، نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا سورس دستاویزات جن معلومات پربنتی ہیں وہ سنی سنائی باتیں ہوتی ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹرسردار مظفر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوال قانون شہادت کے مطابق نہیں ہے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ التوفیق کیس کے حوالے سے کوئسٹ سا لیسٹرسے رائے مانگی تھی، کوئسٹ سالسٹر نے پہلے واٹس ایپ پرتجزیہ بھیجا جبکہ 9 جولائی کو ای میل موصول ہوئی۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کس کا واٹس ایپ پر تجزیہ ملا ؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ یہ استحقاق ہے بتا نہیں سکتا، ریکارڈ بھی موجود نہیں، ای میل سے10 دن پہلے واٹس ایپ آیا۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ کیا آپ نے جے آئی ٹی رپورٹ کوئسٹ سالسٹرسے شیئرکی، استغاثہ کے گواہ جے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کو ہر 15دن بعد رپورٹ فراہم کرتے تھے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ کوئسٹ سالسٹر کو رپورٹ فراہم نہیں کی،التوفیق سے متعلق مواد اورتجزیہ کوئسٹ سالسٹر کو فراہم کیا، گواہوں کا بیان کوئسٹ سالسٹر سے شئیر کیا جنہوں نے تجزیہ دیا۔

    بعد ازاں احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی مزید سماعت کل صبح 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

    ایون فیلڈ ریفرنس: نوازشریف، مریم نوازکو حاضری سے استثنیٰ مل گیا

    خیال رہے کہ گزشتہ روز خواجہ حارث نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ آج نوازشریف اور مریم نواز کی حاضری کے لیے استثنیٰ دیا جائے جس پر معزز جج نے نوازشریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظورکرلی تھی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے گزشتہ سماعت کے دوران خواجہ حارث سے کہا تھا کہ پہلے پورا جواب آنے دیا کریں پھرلکھوایا کریں، سوال بھی بڑا کرتے ہیں پھرجواب آتا ہے توپورا سنتے نہیں ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث دوران سماعت ناراض ہو کر اپنی نشست پربیٹھ گئے تھی، ان کا کہنا تھا کہ میرا سوال یہ ہے کہ کوئی ثبوت آیا یا نہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: نوازشریف، مریم نوازکو آج کی حاضری سے استثنیٰ مل گیا

    ایون فیلڈ ریفرنس: نوازشریف، مریم نوازکو آج کی حاضری سے استثنیٰ مل گیا

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نوازکو ایون فیلڈ ریفرنس میں آج کی حاضری سے استثنیٰ مل گیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    احتساب عدالت میں سماعت کے آغاز پر سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل اسلام آباد آنے کے لیے ایئرپورٹ آئے تاہم خراب موسم کی وجہ سے پائلٹ کو جہاز اڑانے کی اجازت نہ مل سکی۔

    خواجہ حارث نے عدالت سے درخواست کی کہ آج نوازشریف اور مریم نواز کی حاضری کے لیے استثنیٰ دیا جائے جس پر معزز جج نے نوازشریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے استفسار کیا کہ کیا تیسراملزم عدالت میں موجود ہے جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی کیپٹن ریٹائرڈ صفدرعدالت میں موجود ہیں۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کی واجد ضیاء پر جرح

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ دبئی کورٹ سے خط کا جواب آیا اس میں میوچل لیگل ریکویسٹ کا حوالہ دیا گیا؟ جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ خط کے مطابق یہ بات درست ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کہیں نہیں لکھا میوچل لیگل ریکویسٹ کے ساتھ کوئی دستاویز لگائی گئیں، استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ یہ درست ہے درخواست کے ساتھ کوئی کاغذ نہیں لگایا گیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ ہم نے 4 ایم ایل اے بھیجے تھے، دو کا تعلق گلف اسٹیل کی خرید وفروخت کے معاہدے سے تھا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ دبئی کورٹ سسٹم، دبئی کسٹم، سینٹرل بینک سے متعلق دستاویزنہیں لگائی گئیں؟۔

    استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ یہ بات درست ہے کہ دستاویزنہیں لگائی گئیں، نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ جوخط لکھا اس پرسوال نمبر 2،3,4 سے متعلق دستاویز نہیں لگائی گئیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ خط میں موجود 3 سوالوں سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں لگائی گئیں۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے سوال کیا کہ جن ججزکے خط پردستخط ہیں کیا جے آئی ٹی بیان لینے دبئی گئی، واجد ضیاء نے جواب دیا کہ نہیں کوئی جے آئی ٹی ممبربیان لینے نہیں گیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کنفرم کیا خط پردستخط جج عبدالرحمان مراد کے ہی ہیں، استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی کے کسی رکن نے جج صاحب سے رابطہ نہیں کیا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جج نےکبھی نہیں لکھا ان کا ذاتی علم ہے ریکارڈ دبئی کورٹ میں موجود نہیں ہے، واجد ضیاء نے کہا کہ یہ بات کبھی نہیں لکھی گئی کہ جج صاحب کے ذاتی علم میں کچھ ایسا تھا۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ یہ بات بھی نہیں لکھی گئی دبئی کسٹم یا سینٹرل بینک سے معلومات لی گئیں؟ جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ یہ بات درست ہے جج عبدالرحمان نے یہ بات بھی کبھی نہیں لکھی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کیا تحقیقات میں آپ کے نوٹس میں آیا سروے کا سائٹ پلان بھی ہے جس پر واجدضیاء نے جواب دیا کہ جی بالکل سائٹ پلان بھی موجود تھا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ کیا جےآئی ٹی نے اس سائٹ پلان کی کوئی تحقیقات کیں، استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ سائٹ پلان کے متعلق مزید کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں۔

    احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے معزز جج سے استدعا کی کہ گواہ جوبھی جواب دے پورا دے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جو جواب دیں ایک باردیں اوراچھی طرح سوچ کردیں، کیا کسی گواہ نے کہا ہالی اسٹیل مل 1978 سے 1980 مییں سیل ہوئی؟ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ طارق شفیع نے کہا کہ ہالی اسٹیل مل سیل ہوئی۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ کیا کسی گواہ نے بتایا25 فیصد شیئربیچے گئے تھے، گواہ کے لیے دوران سماعت جج کی جانب سے بھی سوال دہرایا گیا۔ جے آئی ٹی سربراہ نے جی ہاں کا جواب دیا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ شہادت آئی جس سے پتہ لگے شیئرز 78سے 80 کے درمیان بیچے گئے جس پراستغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ نہیں ایسی کوئی شہادت نہیں آئی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی ابہام ہےتو کلیئرکرلیں، ایسی کوئی دستاویزآئی جس میں کہا ہوکہ یہ مصدقہ ہے، جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ ایسی کوئی دستاویزنہیں آئی جس میں کہا ہوکہ یہ مصدقہ ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے دوران سماعت خواجہ حارث سے کہا کہ پہلے پورا جواب آنے دیا کریں پھرلکھوایا کریں، سوال بھی بڑا کرتے ہیں پھرجواب آتا ہے توپورا سنتے نہیں ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث دوران سماعت ناراض ہو کر اپنی نشست پربیٹھ گئے، انہوں نے کہا کہ میرا سوال یہ ہے کہ کوئی ثبوت آیا یا نہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ طارق شفیع نے بی سی سی آئی بینک میں دوسرا اکاؤنٹ کھلوایا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ بینک کی بات کررہے ہیں کسی بینک کا ریکارڈ ہے؟۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے نہیں کا جواب دیا، خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی ثبوت ہے جس سے پتہ لگے طارق شفیع نے رقم سیٹ کی جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے ایک مرتبہ پھر نہیں کا جواب دیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جےآئی ٹی نے تحقیقات کیں کہ25 فیصد شیئرزکا کیا ہوا، واجد ضیاء نے جواب دیا کہ 25 فیصد شیئر1978 سے 1986 کے درمیان بیچے گئے، شیئرزسے حاصل رقم کو14 ملین درہم واجب الادا کے لیے استعمال کیا گیا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ شیئرزسے حاصل رقم کودبئی میں نئے کاروبار کے لیے استعمال کیا گیا، 1980 سے 1994 تک کاروبارکے لیے طارق شفیع نےقرضہ لیا، 14 اپریل 1980 کا شیئرزفروخت کرنے کا معاہدہ موجود ہے۔

    نواشریف کے وکیل نے کہا کہ اس معاہدے کوتوآپ نے جعلی قراردے دیا ہے، واجد ضیاء نے کہا کہ 25 فیصد شیئرزکی فروخت سے متعلق براہ راست ثبوت حاصل نہیں کیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ نئے قرضے کے اجرا سے ظاہرہوتا ہے 14ملین درہم کی ادائیگی کی گئی، خواجہ حارث نے کہا کہ کیا طارق شفیع کی طرف سے قرض کی رقم ادا کی گئی کا ریکارڈ لیا گیا۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ایسا کوئی ریکارڈ حاصل نہیں کیا، جےآئی ٹی نے کسی بینک افسرکا بھی بیان قلمبند نہیں کیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے کہا کہ یہ میرے علم میں ہے کہ سپریم کورٹ میں دوران سماعت وکلا کو جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم 10 دکھایا گیا جبکہ عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کی درخواست پروالیم 1 کو سربمہر کیا تھا۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس : شریف خاندان کے خلاف سماعت 2 اپریل تک ملتوی

    ایون فیلڈ ریفرنس : شریف خاندان کے خلاف سماعت 2 اپریل تک ملتوی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیرتک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء پرجرح کی۔

    خواجہ حارث کی واجد ضیاء پرجرح

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ جیری فری مین کو جے آئی ٹی نے متفقہ رائے سے سوال نامہ بھیجا تھا جس پر خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا جےآئی ٹی نے سوالنامہ بھیجنے کا فیصلہ اتفاق رائے سے کیا تھا؟۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جیری فری مین کوسوالنامہ بھیجنے پرجے آئی ٹی میں اتفاق رائے تھا، جیری فری مین سے خط وکتابت جے آئی ٹی نے براہ راست نہیں کی، خط وکتابت کے لیے برطانیہ میں سولیسٹرکی خدمات حاصل کی گئیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ مشترکہ فیصلہ کیا جیری فری مین سے براہ راست خط وکتابت نہیں ہوگی، جیری فری مین نے تصدیق کی حسن نواز نے 2 ٹرسٹ ڈیڈ پردستخط کیے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ تصدیق کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ پر2جنوری 2006 کودستخط کیے گئے، جیری فری مین اس ٹرسٹ ڈیڈ پردستخط کے گواہ ہیں، ٹرسٹ ڈیڈ کومبرکمپنی نیلسن اورنیسکول سے متعلق تھی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ دونوں ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں جیری فری مین کےآفس میں ہیں جس پر نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ آپ نے جیری فری مین کولکھا ثبوت پاکستان لائیں، بیان دیں؟۔

    جے آئی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جیری فری مین کو پاکستان آنے کا نہیں کہا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے مطابق گلف اسٹیل دبئی میں کب قائم ہوئی، تفتیش، دستاویزات کی روشنی میں گلف اسٹیل 1978 میں بنی، 1978 کے شیئرزسیل کنٹریکٹ دیکھ لیں کیا ان کی تصدیق کرائی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ گلف اسٹیل کے کنٹریکٹ کی تصدیق نہیں کرائی جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے تصدیق نہیں کرائی توکیا مندرجات کو درست مانا جائے۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے کہا کہ جےآئی ٹی نے گلف اسٹیل کے کنٹریکٹ کو درست تسلیم کی جس پر نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ 14اپریل 1980 کوحالی اسٹیل بنی مالک سے رابطہ کیا۔

    واجد ضیاء نے جواب دیا کہ گلف اسٹیل کے بعد حالی اسٹیل بنی لیکن کوئی رابطہ نہیں کیا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا اسٹیل مل کے معاہدے کے گواہ عبدالوہاب سے رابطہ کیا؟۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ نہیں گواہ عبدالوہاب سے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا، گواہ نمبر2 محمد اکرم سے رابطہ کیا لیکن وہ اس پتے پرموجود نہیں تھے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ 1980کے معاہدے کے مطابق25 فیصد رقم کیش کی صورت میں وصول کی گئی، 1980 کے معاہدے کو پاکستانی قونصلرمنصورحسین نے نوٹرائزکیا تھا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا آپ نے سفارت خانے کے قونصلرمنصورحسین سے رابطہ کیا تھا؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ نہیں منصورحسین سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ رقم ادا کرنے والےعبداللہ سے ادائیگی سے متعلق بھی رابطہ نہیں کیا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ 1978 میں75 فیصد شیئرزکی رقم کتنی تھی؟۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے جواب دیا کہ 75 فیصد شیئرزکی رقم 21 ملین درہم تھی، عبدالرحمان کے گلف اسٹیل خریداری، رقم ادائیگی کے بیان کاعلم نہیں ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ جے آئی ٹی والیم میں کتنی دستاویزات پرسپریم کورٹ کی مہرہے جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ ہمارے پاس کوئی ایسی دستاویزات نہیں جن پرسپریم کورٹ کی مہرہو۔

    خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اسکریپ مشینری دبئی سے جدہ بھیجنے والاخط آپ نے دیکھا؟ جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جی جے آئی ٹی نے وہ خط دیکھا تھا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ جےآئی ٹی کے والیم3 میں ایک خط بھی ساتھ لگایا گیا ہے، اس خط کے مطابق اسکریپ دبئی نہیں بلکہ شارجہ سے جدہ گیا، جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ یہ بات درست ہے اسکریپ شارجہ سے جدہ گیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ خط کے مطابق وہ اسکریپ نہیں بلکہ استعمال شدہ مشینری تھی جس پرواجد ضیاء نے جواب دیا کہ یہ درست ہے اسکریپ نہیں بلکہ وہ استعمال شدہ مشینری تھی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کے وکیل نے سوال کیا کہ جےآئی ٹی نے دبئی اتھارٹی کوایم ایل اے بھیجا اسکریپ کا کوئی ریکارڈ ہے؟ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ جےآئی ٹی کی جانب سے ایسا کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا گیا۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیرکی صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

    قطری شہزادے کوسوالنامہ بھیجنےپرجےآئی ٹی ممبران میں اتفاق نہ تھا‘ واجد ضیاء

    خیال رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران سابق وزیراعظم کے وکیل نے سوال کیا تھا کہ آپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا کہ گواہ کوسوالنامہ نہیں بھجوانا جس پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی گواہ کوایڈوانس سوالنامہ نہیں بھیجا۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کوئی قانون بتا دیں جوایڈوانس میں سوالنامہ بھیجنے سے منع کرتا ہو جس پراستغاثہ کے گواہ نے جواب دیا تھا کہ کوئی قانون ایڈوانس میں سوالنامہ بھیجنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا تھا کہ آپ نے کبھی کسی ہائی پروفائل کیس کی تفتیش کی جس پرواجد ضیاء نے جواب دیا تھا کہ بینظیرقتل کیس، غداری کیس، وارکرائم ٹریبونل میں تفتیشی افسررہا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ آپ نے29 سال کی سروس میں پولیس رول1861 پڑھے جس پر جے آئی سربراہ نے جواب دیا تھا کہ کوئی رول ایڈوانس سوالنامہ بھیجنے کی اجازت دیتا ہے نہ روکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔