Tag: aziz Mian Qawwal

  • معروف قوال عزیز میاں کا اٹھترہواں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    معروف قوال عزیز میاں کا اٹھترہواں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    کراچی : بارعب آواز اور منفرد انداز کے خالق معروف قوال عزیز میاں کا اٹھترہواں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے، ان کی قوالیاں آج بھی سننے والوں پر وجد طاری اور ان کے دلوں کو سرور بخشتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فنِ قوالی کے بے تاج بادشاہ عزیز میاں کی اٹھترہویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے، عزیز میاں قوال کو اللہ ہی جانے کون بشر ہے، تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے، جیسی درجنوں قوالیوں نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ عشق مصطفیٰ سے سرشار ان کی قوالیاں سننے والوں کے دلوں کو سرور بخشتی ہیں۔

    بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہونے والے عزیز میاں قوال نے فن قوالی میں اپنے منفرد انداز سے وہ شہرت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہےانہوں نے قوالی میں وہ وہ مضمون باندھے جو کسی اور کے حصے میں نہ آسکے اس پر انہیں کڑی تنقید کا بھی سامنا رہا۔

    عزیز میاں قوام نے دس سال کی عمر میں قوالی سیکھنا شروع کی اور سولہ سال کی عمر تک قوالی کی تربیت حاصل کرتے رہے،انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو اورعربی میں ایم اے کی تعلیم حاصل کی،تصوف اور معارفت کی محفلوں میں وہ اپنا لکھا ہوا کلام ہی پیش کرتے تھے۔
    عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے. پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں عزیز میاں کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    دہلی میں 17 اپریل 1942 کو آنکھ کھولی، عزیز میاں مطالعہ کا شوق رکھتے تھے، فلسفہ اور صوفی ازم ان کا محبوب موضوع رہا، اس حوالے سے مباحث میں ان کی گفتگو سننے والے ان کی علمیت کا اعتراف ضرور کرتے۔

    قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو انھوں‌ نے معروف استاد عبدالوحید سے سمجھا اور سیکھا۔ عزیز میاں شاعر بھی تھے۔ کئی قوالیاں ان کی تخیل کا نتیجہ اور عقیدت کا دل رُبا نقش ہیں، انھیں‌ حکومت نے تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

    ان کی وجہ شہرت قوالی کے دوران فی البدہیہ اشعار کی آمد ہے وہ پہلے سے تیار قوالی کے ساتھ ساتھ فی البدہیہ اور براہ راست شاعری میں ملکہ رکھتے تھے وہ واھد قوال تھے جو شاعر بھی تھے اور کمپوزر بھی تو تصوف اور معارفت کے منازل سے بھی باخوبی واقف تھے۔

  • اللہ ہی جانے کون بشرہے

    اللہ ہی جانے کون بشرہے

    فن قوالی کو منفرد انداز بخشنے والے عزیزمیاں قوال کا آج یومِ پیدائش ہے، انہیں اپنے مداحوں سے بچھڑے لگ بھگ دو دہائیاں گزرچکی ہیں لیکن ان کی قوالیاں آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہیں۔

    بھارت کے شہر دہلی میں17 اپریل 1942 کو پیدا ہونے والے عزیز میاں قوال نے فن قوالی میں اپنے منفرد انداز سے وہ شہرت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے‘ انہوں نے قوالی میں ایسے ایسے مضمون باندھے جو کسی اور کے حصے میں نہ آسکے‘ اس جدت کے سبب انہیں قوال حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کا بھی سامنا رہا۔

    عزیز میاں قوال نے دس سال کی عمر میں قوالی سیکھنا شروع کی اور سولہ سال کی عمر تک قوالی کی تربیت حاصل کرتے رہے‘ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو اورعربی میں ایم اے کی تعلیم حاصل کی،تصوف اور معارفت کی محفلوں میں وہ اپنا لکھا ہوا کلام ہی پیش کرتے تھے۔

    ان کی وجہ شہرت قوالی کے دوران فی البدہیہ اشعار کی آمد ہے‘ وہ پہلے سے تیار قوالی کے ساتھ ساتھ فی البدہیہ اور براہ راست شاعری میں ملکہ رکھتے تھے۔ واحد قوال تھے جو شاعر بھی تھے اور کمپوزر بھی ‘ دوسری جانب تصوف اور معارفت کے منازل سے بھی بخوبی واقف تھے۔

    عزیز میاں قوال کی قوالیاں آج بھی دلوں پر وجد طاری کردیتی ہیں ‘ ان کی شاہکار قوالیوں میں – میں شرابی شرابی‘ تیری صورت‘ اللہ ہی جانے کون بشرہے اور دیگر شامل ہیں۔ 115 منٹ طویل قوالی- ’اورحشر کے روز ہی پوچھوں گا‘ انھوں نے خود لکھی‘ خود کمپوز کی اور خود ہی دنیا کے سامنے پیش کی۔

    ان کی قوالی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہے،اور ایسا سماں بندھ جاتا تھا کہ جس سے سامعین خود کو الگ نہیں کر پاتے تھے، حکومت نے ان کو کئی اعزازات سے نوازا جب کہ شاہ ایران نے بھی انہیں گولڈ میڈل پیش کیا تھا،

    منفرد انداز اور لب و لہجے کے مالک عزیزمیاں قوال ایران کے شہر تہران میں 06 دسمبر 2000 کو کچھ عرصے علیل رہنے کے بعدخالقِ حقیقی سے جا ملے۔