Tag: bacteria

  • میک اپ کا برش کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟ اسے کیسے دھویا جائے؟

    میک اپ کا برش کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟ اسے کیسے دھویا جائے؟

    خواتین کے میک اپ کیلئے خصوصی برش کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کے لئے ضروری ہے کہ وہ معیاری اور جراثیم سے پاک ہو اور اس کی صفائی بھی ہفتہ وار بنیاد پر کی جائے۔

    دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ کچھ بیوٹیشنز میک اپ میں استعمال ہونے والے ٹولز خاص کر برش کی صفائی پر توجہ نہیں دیتیں جو مختلف بیماریوں کا سبب اور جلد کیلئے
    نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

    میک اپ کے خصوصی برش خشک اور گیلی دونوں اقسام کی مصنوعات کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے برش میں خطرناک بیکٹیریاز پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔

    میک اپ برش

    یہ جراثیم جلد کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں اور جلد پر ایکنی اور دوسرے انفیکشنز کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسی لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان برشز کو سات سے دس دن کے اندر لازمی دھویا جائے۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں کیسے صاف کیا جائے؟ یہاں پر برش کو دھوںے کے چند آسان سے طریقے پیش کیے جارہے ہیں۔

    نیم گرم پانی سے دھونا

    برش دھونے کا یہ سب سے پہلا مرحلہ ہے جس میں بہتے ہوئے گرم پانی سے برش کی ٹپس کو دھویا جاتا ہے۔ اس طرح برش پر جما میک اپ کو دھونے میں مدد ملتی ہے ۔ خیال رکھیں کہ برش کے ریشے گیلے ہوں کیوںکہ گرم پانی اس گلو کو تحلیل کر سکتا ہے جو ہینڈل اور برش کے ایک ساتھ جوڑے رکھتاہے۔

    شیمپو کا استعمال

    اس کے لیے کوئی بھی شیمپو استعمال کیا جاتا ہے، ایک پیالے میں نیم گرم پانی لے کر اس میں ایک چمچ شیمپو ڈالیں، اب برش کے ریشے کو اس سے اچھی دھوئیں، برش پر صابن کے استعمال سے گریز کریں کیونکہ اس سے اس کے ریشے خشک ہو سکتے ہیں۔ اب اسے پانی سے دھولیں، اس عمل ایک اور بار دہرائیں یہاں تک برش کے ریشے اچھی طرح صاف ہوجائیں۔

    Makeup

    برش کو خشک کریں

    اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ آپ کا برش بلکل صاف ہوچکا ہے، کاغذی تولیے کی مدد سے ریشوں سے اضافی پانی نچوڑ لیں۔ نچوڑنے سے برش تھوڑا سا خشک ہوجائے گا پھر اسے خشک تولیے پر سیدا لیٹا کر رکھ دیں اور خشک ہونے دیں۔

    میک اپ برش کو خشک ہونے میں عام طور پر، ایک دن یا اس سے زیادہ بھی لگ سکتے ہیں۔ آپ انہیں رات بھر سوکھنے کے لیے بھی چھوڑ سکتے ہیں۔

    اگر دھونے کی بعد میک اپ برش کے ریشے سخت محسوس ہوں تو پریشان ہونے کے بجائے برش کے ریشوں پر کچھ کنڈیشنر لگائیں اور پانی سے دھولیں۔ پھر، انہیں خشک کرنے کے لئے چھوڑ دیں. اس سے ریشے دوبارہ نرم ہوجائیں گے۔

    یاد رکھیں کنسیلر اور فاؤنڈیشن میں استعمال ہونے والے برش کو ہفتے میں کم از کم ایک بار ضرور صاف کریں جبکہ ایسے برش جن کا استعمال آپ اپنی آنکھوں کے گرد کرتے ہیں، انہیں ہر دو ہفتے بعد صاف کرنا چاہیے۔

    brushes

    اس کے علاوہ خشک میک اپ جیسے آئی شیڈو اور آئی لائنر لگانے کے لیے استعمال ہونے والے برش بھی ہر دو ہفتے میں صاف کیے جائیں تو بہتر ہے کیونکہ اس سے آنکھوں میں انفیکشن ہونے کا امکان کم کیا جاسکتا ہے۔

    پاؤڈر لگانے کے لیے استعمال کیے جانے والے برش اور اسفنج کو مہینے میں ایک بار لازمی دھوئیں۔

  • بیکٹیریا مریخ میں بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، تحقیق

    بیکٹیریا مریخ میں بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، تحقیق

    سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ بعض بیکٹیریا جو انسانوں میں بیماری کا باعث بنتے ہیں مریخ پر زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    جرمن ایرو اسپیس سینٹر کی ایک نئی تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں رہنے والے چند ایسے بیکٹیریا جو جسم پر زیادہ دباؤ پڑنے سے بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، وہ مریخ پر نا صرف زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ وہاں ان کی نشونما بھی ممکن ہے۔

    یہ دریافت مستقبل کے مریخ مشن پر مائیکروبیل آلودگی کے امکانات اور انسانی نو آبادیات کے امکان کے بارے میں خدشات کو جنم دیتی ہے۔

    Mars

    مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بیکٹیریا جنہیں موقع پرست پیتھوجینز کہا جاتا ہے، مریخ کے ماحول کے سخت حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں، بشمول کم درجہ حرارت اور تابکاری کی بلند سطح کے۔

    سرخ سیارے پر محفوظ اور جراثیم سے پاک مشن کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کے لیے ان جرثوموں کی بقا کی صلاحیتوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

    جرمن ایرو سپیس سینٹر کولون سے وابستہ سائنسدانوں کی اس ٹیم کی سربراہی توماسو زکاریا نے کی ہے۔ زکاریا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مریخ کی سطح پر درجہ حرارت انتہائی کم ہے اور وہاں ایسے دیگر عوامل کی صورت حال بھی نامناسب ہے، جنہیں کسی سیارے پر انسانی زندگی کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔

    وہ کہتے ہیں کہ اس کے باوجود سائنسدان نظام شمسی کے دیگر سیاروں کی نسبت مریخ پر ممکنہ طور پر انسانی آبادیاں میں زیادہ دلچسپی اس لیے رکھتے ہیں کہ ایک تو یہ سیارہ زمین سے نسبتا قریب ہے اور پھر مریخ کا ایک دن بھی زمین کے ایک دن کی طرح چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔

    ابتدائی حوصلہ افزاء نتائج کے بعد زکاریا کی ٹیم نے ان بیکٹیریا کی کالونیوں کو مصنوعی طور پر تیار کردہ مریخ کی مٹی میں رکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا خیال تھا کہ بیکٹیریا پر زہریلے اثرات پڑنے سے وہ فورا ہی مر جائیں گی۔ مگر حیرت انگیز طور پر چار میں سے تین بیکٹیریل انواع زندہ رہیں اور 21 دن تک ان کی نشونما بھی نوٹ کی گئی۔

    واضح رہے کہ سائنسدان ایک عرصے سے مریخ پر انسانوں کی آباد کاری کے لیے تحقیق میں مصروف ہیں۔ دنیا بھر کی اسپیس ایجنسیاں مریخ کی جانب اپنے مشنز روانہ کررہی ہیں تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے مکمل ڈیٹا حاصل کیا جا سکے۔

    اس ڈیٹا سے لیباٹریز میں تجربات کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ انسان مریخ کے شدید ماحول اور انتہائی کم درجۂ حرارت میں کس طرح زندہ رہ سکیں گے۔

  • کچھ بیکٹیریا مریخ پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، بڑی تحقیق

    کچھ بیکٹیریا مریخ پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، بڑی تحقیق

    جرمن ماہرین نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ کچھ بیکٹیریا ایسے بھی ہیں جو مریخ پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، اگر انسان مریخ پر جائے گا تو وہاں بھی وہ بیکٹیریا زندہ رہیں گے اور بیماری کا سبب بنتے رہیں گے۔

    جرمن ایرو اسپیس سینٹر کی ایک نئی تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں رہنے والے چند ایسے بیکٹیریا ہیں، جو جسم پر زیادہ دباؤ پڑنے سے بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، چناں چہ مریخ پر یہ بیکٹیریا نہ صرف زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ وہاں ان کی نشوونما بھی ممکن ہے۔

    ایسٹرو بائیولوجی نامی سائنسی جریدے میں جنوری 2024 میں ایک ریسرچ شائع ہوئی تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ انسانوں میں متعدد امراض کا سبب بننے والے 4 ایسے مائکروبز (جرثومے) ہیں جو مریخ کے شدید ماحول میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور نشوونما بھی پا سکتے ہیں۔

    جرثوموں کی یہ صلاحیت جانچنے کے لیے جرمن ایروسپیس سینٹر کے سائنس دانوں نے لیبارٹری میں مصنوعی طور پر مریخ کا ماحول تیار کر کے تجربات کیے، جس سے مذکورہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ سائنس دان ایک عرصے سے مریخ پر انسانوں کی آبادکاری کے حوالے سے تحقیق میں مصروف ہیں، اور دنیا بھر کی اسپیس ایجنسیاں مریخ کی جانب مشن روانہ کر رہی ہیں تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے مکمل ڈیٹا حاصل کیا جا سکے۔ اس ڈیٹا سے لیباٹریز میں تجربات کر کے یہ معلوم کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے کہ انسان مریخ کے شدید ماحول اور انتہائی کم درجہ حرارت میں کس طرح زندہ رہ سکیں گے۔

    محققین کے مطابق مریخ زمین سے نسبتاً قریب ہے اور مریخ کا ایک دن زمین کے ایک دن کی طرح چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے، اس لیے سائنس دان نظام شمسی کے دیگر سیاروں کی نسبت مریخ پر ممکنہ طور پر انسانی آبادیوں کے قیام میں زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں حالاں کہ مریخ کی سطح پر درجہ حرارت انتہائی کم ہے اور وہاں ایسے دیگر عوامل کی صورت حال بھی نامناسب ہے، جنھیں کسی سیارے پر انسانی زندگی کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔

    سائنس دانوں کی ٹیم کے سربراہ توماسو زکاریا کے مطابق لیبارٹری میں مریخ کا مصنوعی ماحول تیار کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس کے لیے پانی کی عدم موجودگی، ہوا کا انتہائی کم دباؤ، سورج کی جھلسا دینے والی الٹرا وائلٹ تابکار شعاؤں اور مہلک زہریلی نمکیات کو مصنوعی طریقے سے اکھٹا کرنا ہوتا ہے۔

    انسانی جسم میں چار عام بیکٹیریا رہتے ہیں، جو یوں تو بے ضرر ہیں لیکن بیرونی عوامل یا دباؤ کے زیر اثر ہمارے لیے مہلک ثابت ہوتے اور مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، مریخ کے تیار کردہ مصنوعی ماحول میں ان بیکٹیریا پر بار بار تجربات کیے گئے، حیرت انگیز طور پر یہ مائیکروبز نہ صرف اس شدید ماحول میں زندہ رہے بلکہ مصنوعی طور پر تیار کردہ مریخ کی مٹی یا ریگولتھ میں نشوونما بھی کی۔

    محققین کے مطابق بیکٹیریا انتہائی سخت جان اور لچکدار ہوتے ہیں، جو زمین پر اربوں سالوں سے موجود ہیں، اس لیے مریخ یا کسی دوسرے سیارے یا سیارچے پر تحقیق کے لیے بیکٹیریا موزوں ترین سمجھے جاتے ہیں۔ جب بیکٹیریا کی کالونیوں کو مصنوعی مریخ کی مٹی میں رکھا گیا تو بیکٹیریا زہریلے اثرات سے مرے نہیں چار میں سے تین قسم کے بیکٹیریا زندہ رہے اور 21 دن تک ان کی نشوونما بھی نوٹ کی گئی۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کم زور مدافعتی نظام والے خلا باز مریخ پر بیماریوں کا شکار جلد ہوں گے، اس لیے انھیں اپنے ساتھ بہت سی ادویات ساتھ لے جانا ہوں گی، اور ان جرثوموں کا مریخ میں زیادہ خطرناک بن جانا بھی قرین قیاس ہے۔

  • اینٹی بائیوٹکس ادویات کتنی خطرناک ہیں؟ حیران کن انکشاف

    اینٹی بائیوٹکس ادویات کتنی خطرناک ہیں؟ حیران کن انکشاف

    کیا آپ جانتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹکس ادویات کا غیر ضروری استعمال کس درجہ نقصان دہ ہے، اس قسم کی کوئی بھی دوا کھانے سے پہلے اس کے مضر اثرات پر بھی گہری نگاہ اور معلومات رکھنا اشد ضروری ہے۔

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی بڑی تعداد ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر کسی بھی میڈیکل اسٹور سے دوا لے کر کھا لیتے ہیں۔ ازخود اینٹی بائیوٹکس لینا بیوقوفی اور اپنے ہاتھوں اپنی صحت تباہ کرنے کے مترادف ہے۔

    مثال کے طور پر اگر کسی کو سر درد، پیٹ یا جسم کے کسی حصے میں درد ہو تو وہ خود ہی فارمیسی سے دوائی خرید کر کھا لیتا ہے۔ میڈیکل اسٹور سے بغیر ڈاکٹر کا نسخہ بتائے کوئی بھی دوائی حاصل کرنا ایک عام سی بات ہے۔

    موسم کی تبدیلی اور خشک سردی میں اکثر لوگ نزلہ زکام، کھانسی اور گلے کی خراش جیسی معمولی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں فوری ریلیف کی خواہش اینٹی بائیوٹکس اور اینٹی وائرس کے استعمال پر اکساتی ہے جو ہماری صحت کے لیے خطرناک ہوسکتی ہیں۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے Country data on AMR in Pakistan in the context of community کے نام سے شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ”پاکستان کم ترقی یافتہ ممالک میں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں تیسرے نمبر پر ہے۔”

    کیا نزلہ زکام اور بخار میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال درست ہے؟

    پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے وابستہ ڈاکٹر ناصرہ احتشام نے میڈیا کو بتایا کہ موسمی بیماریاں عام طور پر وائرل ہوتی ہیں جنہیں خالص طبی اصطلاح میں بیماری کہنا درست نہیں۔ ہم اسے وائرل بخار کہہ سکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ نزلہ، زکام، کھانسی یا سردی محسوس ہونا اس میں شامل ہے۔ یہ تین سے پانچ دن میں خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کو وائرل بخار کا زیادہ مسئلہ ہو تو وہ ڈاکٹر کے مشورے سے ویکسین لگوا سکتا ہے۔”

    وہ کہتی ہیں کہ اینٹی بائیوٹکس وہ ادویات ہیں جو بیکٹیریا کی وجہ سے ہونے والے انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ جبکہ وائرل بخار کا بیکٹیریا سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسے میں موسمی بخار کے دوران اینٹی بائیوٹکس لینا بیوقوفی اور اپنے ہاتھوں اپنی صحت تباہ کرنے کے مترادف ہے۔

    وائرل میں جب بیکٹیریا ذمہ دار ہی نہیں تب ہم اینٹی بائیوٹکس کے استعمال سے صرف ایک کام کر رہے ہوتے ہیں، اپنا مدافعتی نظام کمزور کرنا جس کا نقصان ناقابلِ تلافی ہے جبکہ فائدہ ایک بھی نہیں۔

    اینٹی بائیوٹکس کا غیر ضروری استعمال خطرناک کیوں ہوتا ہے؟

    نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد سے وابستہ محقق حمزہ حسن نے کہا کہ ہمارے جسم کا دفاعی نظام ایک نیٹ ورک کی صورت میں کام کرتا ہے جس میں بیماریوں سے لڑنے کی قدرتی صلاحیت ہوتی ہے جیسے ہی بیکٹیریا جسم میں داخل ہو مدافعتی نظام اس کے خلاف متحرک ہو جاتا ہے۔

    بعض اوقات کمزور مدافعتی نظام کو مدد فراہم کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے جس کے لیے اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ صرف انتہائی ضرورت کے وقت ہونا چاہیے۔

    وہ کہتے ہیں کہ بیکٹیریا آہستہ آہستہ اینٹی بائیوٹکس کے مطابق خود کو ڈھال لیتا ہے، وہ خود کو اس کا عادی بنا لیتا ہے جس کے بعد ایک ایسا وقت آتا ہے جب یہ ادویات بیکٹیریا پر اثر کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔ ایسے بیکٹریا کو ‘ڈرگ ریزسٹنٹ بیکٹیریا‘ کہتے ہیں۔

  • منہ کی بدبو دور کرنے کے نہایت آسان طریقے

    منہ کی بدبو دور کرنے کے نہایت آسان طریقے

    منہ سے بدبو آنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے آپ اپنے دوستوں کی محفل میں شدید تنقید کا نشانہ بھی بن سکتے ہیں۔

    لیکن یہ مسئلہ حل کرنا زیادہ مشکل نہیں منہ کی بدبو سے نجات حاصل کرنے کے چند آسان طریقے درج ذیل ہیں جنپر عمل کرکے آپ اپنی شخصیت اور خود اعتمادی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

    منہ میں بدبو کی وجہ عارضی یا مستقل بھی ہوسکتی ہے، عارضی بو کھانوں کی وجہ سے ہوتی ہے، کچھ کھانے مثلاً پیاز اور لہسن وغیرہ کے کھانے سے منہ سے وقتی طور پر بدبو آتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ خوارک خون میں ملتی ہے تو پھیپھڑوں سے سانس خارج ہونے کے بعد منہ سے بو آتی ہے۔

    منہ سے مستقل بو کی وجہ زبان کے اوپر بیکٹیریا کا اکٹھا ہونا ہے، یہ بیکٹیریا اس وقت مزید پھلتے پھولتے ہیں جب ہمارا منہ خشک ہوتا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ دن میں دو بار جب برش کریں تو اپنے برش کو زبان کے اوپر بھی اچھی طرح رگڑیں تاکہ بیکٹیریا سے نجات پائی جا سکے۔

    اگر آپ کا منہ خشک ہوجائے تو پھر منہ سے بو آتی ہے، آپ کو چاہیے کہ پانی کا وافر استعمال کریں تا کہ منہ خشک نہ ہو اور منہ سے بو بھی نہ آئے۔

    کوشش کریں کہ اپنے دانتوں کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے، ہر کھانے کے بعد دانت صاف کریں تاکہ منہ میں کھانے کے ذرات نہ رہیں اور بو سے نجات حاصل کی جاسکے۔

    اس بات کا خیال رکھیں کہ کہیں آپ کے منہ میں کوئی انفیکشن تو نہیں کیونکہ انفیکشن کی وجہ سے بھی منہ سے بو آتی ہے۔

    کافی اور چائے کے استعمال سے نہ صرف دانت خراب ہوتے ہیں بلکہ اس سے منہ سے بھی بو آتی ہے جبکہ دوسری جانب تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دہی کھانے سے منہ میں موجود خطرناک بیکٹیریا ختم ہوجاتے ہیں لہٰذا آپ کو چاہیے کہ دہی لازمی کھائیں۔

    اس کے علاوہ جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں ان کے منہ سے ناگوار بو آتی رہتی ہے، اگر آپ تمباکو کسی بھی صورت میں استعمال کرتے ہیں تو فوراً اس سے نجات حاصل کرلیں۔

    ایسے مصالحہ جات جو خوشبو دار ہوتے ہیں ان میں لونگ، سونف اور الائچی سرِفہرست ہے، اپنے منہ میں ایک الائچی چپا کر تھوڑی دیر رکھ لیجیے ایسا کرنے سے منہ کی بدبو اسی وقت ختم ہوجاتی ہے۔

  • اینٹی بائیوٹک کے زیادہ استعمال کا خوفناک نقصان

    اینٹی بائیوٹک کے زیادہ استعمال کا خوفناک نقصان

    دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹک کا استعمال بے حد عام ہوچکا ہے، لیکن حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ اس کا خوفناک نقصان سامنے آرہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ سال 2020 میں دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹک کے غلط یا زیادہ استعمال سے بیکٹیریاز کے طاقتور ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس سے انفیکشن مزید طاقتور ہوگئے۔

    ادارے کی جانب سے جاری کردہ تازہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا کے 87 ممالک سے حاصل کیے گئے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کے غلط یا زیادہ استعمال سے انفیکشن بڑھ گئے، جس سے بیماریاں شدید ہوگئیں۔

    رپورٹ کے مطابق ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے غیر ترقی یافتہ اور متوسط ممالک میں اینٹی بائیوٹک کے غلط یا زیادہ استعمال سے بیکٹیریاز اور انفیکشن طاقتور ہوگئے، جن پر اینٹی بائیوٹک دوائیاں بھی اثر نہیں کر رہیں بلکہ الٹا انفیکشن بڑھ رہے ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں بیکٹیریاز اور انفیکشنز کی جانب سے اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت 50 فیصد تک بڑھ گئی، یعنی ان پر دوائیاں اثر نہیں کر رہی تھیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کلیبسیلا نمونیہ جیسے انفیکشنز سمیت جنسی عمل سے ہونے والے انفیکشن کے علاوہ دیگر انفیکشنز پر بھی اثر انداز نہیں ہو رہیں۔

    عالمی ادارے کے مطابق یہاں تک انفیکشنز اور بیکٹیریاز پر لاسٹ ریزورٹ اینٹی بائیوٹک ڈرگس یعنی ایڈوانس سطح کی اینٹی بائیوٹک بھی اثر دکھانے میں ناکام رہیں۔

    عالمی ادارہ صحت نے بیکٹیریاز اور انفیکشن کے طاقتور ہونے اور ان کی جانب سے اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت کرنے کو غلط یا زیادہ اینٹی بائیوٹک استعمال سے جوڑا ہے۔

    ادارے نے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا کہ وہ انفیکشنز اور بیکٹیریاز کے طاقتور ہونے اور ان سے نمٹنے کے لیے ادویات کے ڈیٹا کی دستیابی کو یقینی بنائیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2017 کے مقابلے میں 2020 میں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کے باوجود بیکٹیریاز اور انفیکشنز میں 15 فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور مجموعی طور پر کرونا کے پہلے سال اینٹی بائیوٹک کے خلاف بیماریوں کی مزاحمت 50 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

  • پلاسٹک کے کچرے سے نمٹنے کے لیے ایک اور کامیاب تحقیق

    پلاسٹک کے کچرے سے نمٹنے کے لیے ایک اور کامیاب تحقیق

    پلاسٹک کی آلودگی ایک بڑا مسئلہ بنتی جارہی ہے اور ماہرین اس سے نمٹنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں، حال ہی میں ماہرین نے اس بیکٹیریا کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا جو سمندر پر تیرتے پلاسٹک پر ہوتا ہے۔

    امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں قائم نیشنل یونیورسٹی کے ماہرین نے سمندر میں تیرتے پلاسٹک کے ٹکڑوں پر موجود اینٹی بائیوٹک بنانے والے 5 بیکٹیریا کو علیحدہ کیا اور ان کی متعدد بیکٹریل اہداف کے خلاف آزمائش کی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ یہ اینٹی بائیوٹکس عام بیکٹیریا کے ساتھ اینٹی بیکٹیریا کی مزاحمت کرنے والے سپر بگ کے خلاف بھی مؤثر تھے، سپر بگ بیماریاں پھیلانے والے ان بیکٹیریا کو کہتے ہیں جو بہت کم ادویہ سے ختم ہوتے ہیں اور ان کی ادویات سے مزاحمت بڑھ کر جان لیوا ہوچکی ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق ہر سال 50 سے 1 کروڑ 30 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندر میں شامل ہوتا ہے جس میں پلاسٹک کے بڑے بڑے ٹکڑوں سے لے کر مائیکرو پلاسٹکس تک شامل ہوتے ہیں۔

    حیاتیات اس پلاسٹک کو استعمال کرتے ہوئے اپنے وجود کو بڑھا سکتے ہیں اور اپنے لیے پورا ماحول تشکیل دے سکتے ہیں۔

    جہاں اس بات کے تحفظات ہیں کہ پلاسٹک کے اوپر اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا بن سکتے ہیں وہیں کچھ بیکٹیریا ایسے بھی ہیں جو نئی اینٹی بائیوٹکس بنانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

    یہ اینٹی بائیوٹکس مستقبل میں سپر بگ جیسے اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا کے خلاف استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

  • ادویات سے نہ مرنے والے جراثیم ختم کرنے کا نیا طریقہ پیش

    ادویات سے نہ مرنے والے جراثیم ختم کرنے کا نیا طریقہ پیش

    واشنگٹن: طبی سائنس دانوں‌ نے ادویات سے نہ مرنے والے جراثیم ختم کرنے کا نیا طریقہ پیش کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بایوفوٹونکس نامی جرنل میں شایع شدہ ایک مقالے میں محققین نے کہا ہے کہ بہت تھوڑی دیر کے لیے اگر سخت جان بیکٹیریا اور جراثیموں پر لیزر شعاعیں ماری جائیں تو وہ مر سکتے ہیں۔

    انھوں نے اس طریقے کو short-term pulse laser (قلیل مدتی پلس لیزر) کہا ہے، اس کے ذریعے ناقابل علاج بیکٹیریا (سپربگز) اور دیگر ایسے جراثیم ختم کیے جا سکتے ہیں جو کسی بھی طرح تلف نہیں ہوتے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے اس طریقے کے ذریعے زخموں کو جراثیموں سے پاک کیا جا سکتا ہے، اور خون کے نمونوں میں بھی بیکٹیریا کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ چوں کہ یہ عمل ایک مختصر وقت کے لیے ہوتا ہے اس لیے اس سے صحت مند خلیات کو نقصان نہیں پہنچتا۔

    تحقیق سے وابستہ پروفیسر شا وائی ڈیوڈ سین کہتے ہیں کہ ہم لیزر کی بدولت سخت جان بیکٹیریا کو ختم کر کے زخم سے انفیکشن کا خطرہ کم سے کم کر سکتے ہیں، اور خون میں بھی لیزر ڈال کر اسے بیماریوں سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ خون میں جراثیم کا مسئلہ ڈائیلاسز کے مریضوں میں زیادہ پایا جاتا ہے، اب صرف ایک ہی بار پورے خون پر لیزر مار کر اسے صاف ستھرا اور مریض دوست بنانا ممکن ہو گیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق سب سے پہلے اسے مشہور اور بدنام بیکٹیریا ایم آر ایس اے پر آزمایا گیا جس کا پورا نام ملٹی ڈرگ ریسسٹنٹ اسٹیفلوکوکس اوریئس ہے، یہ جلد سے پھیپھڑوں تک کے انفیکشن کی وجہ بنتا ہے۔ دوسری جانب لیزر سے ای کولائی بیکٹیریا کو بھی مارا گیا جو پیشاب کی نالی میں انفیکشن پیدا کرتا ہے۔

    تمام کیسز میں لیزر 99.9 فی صد جراثیم اور بیکٹیریا کو تباہ کر دیتی ہے۔

  • ہمارے جسم کے اندر موجود بیکٹیریا بجلی بھی بنا سکتے ہیں

    ہمارے جسم کے اندر موجود بیکٹیریا بجلی بھی بنا سکتے ہیں

    یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق آنتوں اور نظام ہاضمہ میں پائے جانے والے کئی بیکٹیریا، دوسری اقسام کے بیکٹیریا سے زیادہ بجلی بناتے ہیں اور ان کی اسی خاصیت سے فائدہ اٹھا کر کئی اہم امور انجام دیے جاسکتے ہیں۔

    اس سے پہلے بھی ایسے کئی بیکٹیریا دریافت ہوچکے ہیں جنہیں الیکٹروجینک یا بجلی بنانے والا کہا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہمارے نظام ہاضمہ میں لاتعداد اقسام کے بیکٹیریا ہوتے ہیں جو مفید بھی ہوسکتے ہیں اور مضر بھی، اس فہرست میں ایسے دونوں بیکٹیریا شامل ہیں جو مختلف طریقوں سے بجلی کی ہلکی مقدار خارج کرتے ہیں۔

    تحقیق میں شامل پروفیسر ڈین نے بتایا کہ اس فہرست میں لسٹیریا اور کلاسٹریڈیئم جیسے بیکٹیریا شامل ہیں جو رگوں کی بیماری گنگرین کی وجہ بنتے ہیں۔ پھر ان میں پروبائیوٹکس سے وابستہ مفید بیکٹیریا کی بھی ایک طویل فہرست شامل ہے۔

    ان کے مطابق اس دریافت سے ان کی کارکردگی، امراض یا کسی فائدے کے بارے میں جاننے میں بہت مدد ملے گی۔

    دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ اس دریافت سے بدن کے اندر لگے پیوند (گرافٹ) کو بجلی کی فراہمی یا بیکٹیریا پر مبنی بیٹری بنانے میں بھی مدد مل سکے گی جس سے چھوٹے سینسر اور آلات کو چلانا ممکن ہوسکے گا۔

  • خطرناک بیکٹیریا گھر اور اسپتال کی کن دو جگہوں پر زندہ رہ کر بیماریاں پھیلاتے ہیں؟

    خطرناک بیکٹیریا گھر اور اسپتال کی کن دو جگہوں پر زندہ رہ کر بیماریاں پھیلاتے ہیں؟

    ناروِچ: برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ خطرناک بیکٹیریا کچن یا اسپتال کاؤنٹرز پر زندہ رہ کر بیماریاں پھیلا سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک تحقیقی جریدے PLOS بائیولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ خطرناک قسم کے بیکٹریا انسانوں کی تیار کردہ کسی جگہ کی سطح جیسے کچن یا اسپتال کے کاؤنٹرز وغیرہ پر اپنے وجود کو برقرار رکھ بیماریاں پھیلا سکتے ہیں۔

    پودوں اور جرثوموں کی سائنس کے ایک آزاد تحقیقی ادارے جان انیز سینٹر (John Innes Centre) کے محققین نے ان وجوہ کا پتا لگایا جس کے نتیجے میں یہ خطرناک بیکٹیریا نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ بیماریاں پھیلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

    ریسرچ کے دوران اُن میکینزمز پر توجہ مرکوز کی گئی جو موقع پرست انسانی پیتھوجین (سوڈومونس ایروگینوسا) کو مختلف مقامات کی سطح پر زندہ رہنے کے قابل بناتے ہیں، اور نقصان دہ بیکیٹریا کو ہدف بنانے کے لیے نئے طریقوں کا باعث بن سکتے ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ یہ پیتھوجینک بیکٹیریا مختلف ماحول میں ہر قسم کا دباؤ برداشت کرتے ہیں، اس میں ایک میکینزم شوگر مالیکیول (ٹری ہیلوس) کا ہوتا ہے جو مختلف قسم کے بیرونی دباؤ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے، بالخصوص اوسموٹک شاک (یعنی خلیوں کے آس پاس نمک کی مقدار میں اچانک تبدیلیاں)۔

    محققین نے اس تحقیق کے دوران یہ جاننے کی کوشش کہ بیکٹیریا کس طرح بیرونی دباؤ کو برداشت کرتا ہے، اس کے لیے انھوں نے یہ تجزیہ کیا کہ پی ایروگینوسا کس طرح شوگر مالیکیول (یعنی ٹری ہیلوس) میں میٹابولک تعامل کرتا ہے۔

    تجربات سے پتا چلا کہ ٹری ہیلوس یا گلائکوجن راستوں میں سے اگر رکاوٹ آئے تو پی ایروگینوسا کی انسان کی بنائی سطحات پر زندہ رہنے کی صلاحیت نمایاں طور پر کم ہو جاتی ہے۔