Tag: bacteria

  • تکیے کے غلاف پر کتنے اقسام کے جراثیم ہوتے ہیں؟ حیران کن حقائق

    تکیے کے غلاف پر کتنے اقسام کے جراثیم ہوتے ہیں؟ حیران کن حقائق

    عام طور پر بہت سے افراد اپنے بستر کی صفائی کے بارے میں لاپرواہ ہوتے ہیں، ایسے لوگ تکیے اور چادروں کی صفائی کو غیر اہم سمجھتے ہیں، اس سے کئی خطرناک بیکٹریا پیدا ہوتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

    آسٹریلوی ویب سائٹ بزنس انسائڈر کی جانب سے کرائے گئے سروے میں بتایا کہ اٹھارہ سے پچیس سال کی عمر کے پچپن فیصد غیر شادی شدہ مردوں نے سال میں صرف چار بار اپنے بستر کی چادر تبدیل کرنے کی تصدیق کی، یہ وہ بستر تھے جن میں وہ مزید سو نہیں سکتے تھے۔

    ہر شخص ایک رات میں تقریبا 15 ملین جلد کے خلیات تیار کرتا ہے، لیکن وہ آپ کی چادروں میں جمع نہیں ہوتے کیونکہ دھول کے ذرے ان کو کھا جاتے ہیں۔جتنا زیادہ عرصہ آپ بستر کی چادریں نہیں دھوئیں گے اسی قدر ان مخلوقات کو کھانا زیادہ ملے گا اور وہ اس کی دوبارہ نشوونما کریں گے،لہذا اگر آپ زیادہ عرصے تک اپنی چادریں نہیں دھوتے تو آپ سینکڑوں ہزاروں مکڑی نما مخلوقات کے ساتھ سوتے ہیں۔

    آسٹریلوی ویب سائٹ کے مطابق بستر میں موجود گردوغبار سے کچھ پروٹین بنتے ہیں جو حساس جلد والے لوگوں کو خارش، آنکھوں کی بیماریوں، نزلہ اور کئی جلدی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، اس کے علاوہ بستر میں موجود گردوغبار ہی صرف بیماریوں کا باعث نہیں بنتی بلکہ اگر آپ لمبے عرصے تک بستر یا تکیہ نہیں دھوتے تو اس پر جراثیم کا بڑا گروہ تیار ہوجاتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق عام تکیہ پر سولہ مختلف اقسام کے جراثیم ہوتے ہیں جو اپنی نشوونما بھی کرتے ہیں ان میں سب سے عام اور انتہائی خطرناک ایسپرگیلوس فیومیگاٹس ہے، یہ جسم پر الرجی اور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ دوسرے اعضاء کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔

    ایک دوسری تحقیق کے مطابق بغیر دھوئے ہوئے بستروں کی چادروں اور تکیے کے غلافوں پر پالتو جانوروں کے برتنوں سے 39 فیصد زیادہ جراثیم ہوتے ہیں، اسی طرح بیت الخلا کی نشست سے ہزاروں فیصد زیادہ بیکٹریا تکیے کے غلاف پر ہوتے ہیں، یہ بعض حالات میں انتہائی خطرناک بھی ثابت ہوتے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  موسم سرما میں کرونا وائرس سے کیسے محفوظ رہا جاسکتا ہے؟

    خوفناک بات یہ ہے کہ چہرے پر دانے بستر کی گندگی کی وجہ سے بنتے ہیں، کیونکہ روزانہ بستر پر کاسمیٹکس، لوشن، تیل وغیرہ پہنچتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ ٹشو کی طرح گندا ہوجاتا ہے ، پھر کسی رات یہ ساری گندگی آپ کے جسم پر منتقل ہوجاتی ہے اور جسم کے مساج بند کردیتی ہے، جس سے دانے پیدا ہوجاتے ہیں۔

    خوش قسمتی سے ان سب پریشانیوں سے بچنے کا آسان حل بستر کی چادروں کو زیادہ سے زیادہ دھونا ہے، ماہرین ہفتہ میں ایک بار گرم پانی سے بستر اور تکیہ کی چادروں کو دھونے کا مشورہ دیتے ہیں، اس سے بیکٹریا اور گردوغبار ختم ہوجاتی ہے اسی طرح داغ وغیرہ بھی ختم ہوجاتے ہیں۔

  • دھات کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    دھات کھانے والا بیکٹیریا دریافت

    کیلی فورنیا: امریکی ماہرین نے حادثاتی طور پر ایک صدی قدیم ایسا بیکٹیریا دریافت کیا ہے جو دھات کھاتا ہے، تاحال ماہرین اس کے ٹھوس ثبوت نہیں تلاش کر سکے۔

    یہ بیکٹیریا کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کیل ٹیک) کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے اور ان کے خیال میں دھات کھانے والا یہ بیکٹیریا ایک صدی سے زائد عرصے سے موجود ہے۔

    یہ جرثومے ایک معدنی دھات کے ساتھ مختلف تجربات کے دوران حادثاتی طور پر دریافت ہوئے۔

    ہوا یوں کہ کیل ٹیک میں انوائرمینٹل مائیکروبیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر جیرڈ لیڈبیٹر نے اپنے دفتر کے سنک پر مینگنیز لگا ہوا ایک گلاس چھوڑا۔

    کیمپس کے باہر کام کی وجہ سے وہ کئی ماہ تک اپنے دفتر نہ آسکے لیکن جب وہ اپنے دفتر واپس آئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس گلاس پر سیاہ مواد لگا ہوا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ آکسڈیسائزڈ مینگنیز تھا اور اس مرکب کو بیکٹیریا نے بنایا تھا۔

    پروفیسر جیرڈ کا کہنا تھا کہ یہ اس نوعیت کا پہلا بیکٹیریا ہے جو اپنے ایندھن کے طور پر مینگنیز کو استعمال کرتا ہے، یہ ان جرثوموں کا ایک شاندار پہلو ہے کہ وہ ایسے عناصر جیسے دھات جیسی چیزوں کو بھی ہضم کر سکتے ہیں اور اس کی توانائی کو کام میں لا سکتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ اس نوع سے تعلق رکھنے والے بیکٹیریا زمین میں موجود پانی میں رہتے ہیں، بیکٹیریا پانی میں موجود آلودگی کو صاف کرتا ہے۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ دریافت ان کو زمین کے عناصر اور زمین کے ارتقا میں دھاتوں کے کردار کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔

    اس سے قبل 1873 میں میرین ریسرچرز اس بیکٹیریا کی موجودگی سے آگاہ تھے لیکن وہ اس کی نوعیت کو بیان نہیں کر سکے تھے۔

  • سائنسدانوں نے خلا ئی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا

    سائنسدانوں نے خلا ئی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا

     

    سائنسدانوں نے خلائی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا؟ خلا میں پراسرا طور پر رہنے والے بیکٹیریا کو بیرونی خلائی اسٹیشن کے باہر دیکھا گیا۔

    خلائی مخلوق سے متعلق مختلف قسم کی داستانیں گردش کرتی رہتی ہیں اور ایسی مخلوق کو تلاش کرنے کیلئے سائنس دانوں کی جستجو آج بھی جاری ہے۔

    مستقبل کی اس تلاش کے حوالے سے بہت ساری تخیلاتی فلمیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں، تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زندگی کی ایک اور شکل وہ بھی ہے جو زمین پر تو موجود نہیں ہے لیکن زمین سے باہر خلا میں اس کے وجود کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    سائنسدانوں نے خلائی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا؟ خلا میں پراسرا طور پر رہنے والے بیکٹیریا کو بیرونی خلائی اسٹیشن کے باہر دیکھا گیا، یہ بیکٹیریا خلائی اسٹیشن کی سطح پر پایا گیا تھا۔

    ایک روسی سائنسدان جو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر اپنے تیسرے سفر کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے اسٹیشن کی سطح پرایک حیاتی بیکٹیریا پایا ۔

    روسی خلائی سائنسدان کے مطابق بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی سطح پر زندگی کی حفاظت ممکن ہے، تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ خلائی اسٹیشن کے باہر پایا جانے والا یہ بیکٹیریاپہلے سے موجود ہے یا کسی اور طریقے سے لایا گیا۔

    خلائی مخلوق کی موجود گی پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق جس مقام پر زمین کا کرہ ہوائی ختم ہوتا ہے، وہاں مختلف نوعیت کی جراثیمی مخلوق کی موجودگی خارج ازامکان نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خلا میں موجود اکثر سیارچے ایسے بھی ہیں کہ جن میں جراثیمی زندگی موجود ہو سکتی ہے۔

    خلا میں گھومنے والا جب کوئی آوارہ سیارچہ زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہوجاتا ہے تو ہوا کی رگڑ سے اس میں آگ بھڑک اٹھتی ہے اور زمین پر پہنچنے سے پہلے وہ راکھ میں تبدیل ہوجاتا ہے، ایسے واقعات روزانہ ہزاروں کی تعداد میں رونما ہوتے ہیں۔

    خلائی سائنس دان زمین کے کرہ ہوائی سے باہر جراثیمی مخلوق کی زندگی پر تحقیق کے ایک منصوبے پر کام کا آغاز کررہے ہیں۔

    ان کا خیال ہے کہ زمینی حدود کے باہر کوئی ایسی مخلوق بھی موجود ہے جو ہوا، پانی، سورج کی روشنی کے بغیر بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    اگر سائنس دان کرہ ارض کے باہر سے اس طرح کی کوئی مخلوق پکڑ کرلانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ غالباً کرہ ارض پرآنے والی پہلی حقیقی خلائی مخلوق ہوگی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمونپسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مستقبل میں بیماریوں کا علاج موجودہ اینٹی بایوٹکس سے ممکن نہیں ہوگا، ماہرین

    مستقبل میں بیماریوں کا علاج موجودہ اینٹی بایوٹکس سے ممکن نہیں ہوگا، ماہرین

    اسلام آباد : ماہرین طب نے خبردار کیا ہے کہ اینٹی بایوٹک ادویات تیزی سے اپنا اثر کھو رہی ہیں، اینٹی بایوٹکس کے خلاف جراثیم کی مزاحمت خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے، جس سے پرانی بیماریاں لوٹ آنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے دنیا بھر میں اینٹی بایوٹک ادویات ناکام ہو رہی ہیں، متعدد بیماریوں کے جراثیم میں اینٹی بایوٹک دواؤں کے خلاف مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے،  عالمی ادارہ صحت نے ایسے بیکٹیریا کی فہرست تیار کی ہے، جن پر اینٹی بایوٹک ادویات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا اور وہ انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔

    بیکٹیریاز کی فہرست تیار

    اس فہرست میں سب سے اوپر ای کولی جیسے جراثیم ہیں، جو اسپتالوں میں داخل کمزور مریضوں کے خون میں جان لیوا انفیکشن یا نمونيا پھیلا سکتے ہیں۔

    ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق بیکٹیریا کی بارہ اقسام میں موجودہ اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف زبردست مزاحمت پیدا ہوچکی ہے، یہ وہ بیکٹیریا ہیں، جن میں ایک سے زائد اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پیدا ہوچکی ہے۔ اس لیے زیادہ خطرناک ہیں کہ یہ ادویہ کے خلاف مزاحمت کے نت نئے راستے تلاش کرلیتے ہیں۔ یہ صلاحیت جینز کے ساتھ دوسرے بیکٹیریا میں منتقل ہوجاتی ہے، نتیجتاً وہ بھی اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت کے قابل ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ مستقبل میں کچھ بیماریوں کا علاج موجودہ اینٹی بایوٹکس سے ممکن نہیں ہوگا، ایسے میں عام انفیکشن بھی جان لیوا ہو جائیں گے، جو مستقبل میں اقوام عالم کے لیے ایک سنگین خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اینٹی بایوٹک دوائیں دینے سے قبل بلڈ کلچر ٹیسٹ کرایا جانا چاہیئے۔

    اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت تیزی سے بڑھ رہی ہے

    ڈبلیو ایچ او کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر میری پاول کینی کا کہنا ہے کہ اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ہمارے پاس طریقہ ہائے علاج محدود ہوتے جارہے ہیں، اگر ہم نے نئی اور طاقت وَر اینٹی بایوٹکس کی تیاری کا کام ادویہ ساز کمپنیوں پر چھوڑ دیا تو بہت دیر ہوجائے گی۔

    گذشتہ برس عالمی بینک نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ جراثیم میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت اور سْپربگز کی وجہ سے 2050 تک ایک کروڑ انسان موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ ممالک کی معیشت بھی شدید متا ثر ہوسکتی ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک  وال پرشیئر کریں۔