Tag: Bakhabar Savera

  • سوشل میڈیا کی دوستی : رشتے اب پہلے جیسے نہیں رہے

    سوشل میڈیا کی دوستی : رشتے اب پہلے جیسے نہیں رہے

    جدید دور کی دنیا میں جہاں انسان کے جینے کے تقا ضے بدل چکے ہیں وہیں ہماری زندگیاں ایسی جدت سے آشنا ہوئی ہیں کہ رشتوں کے مفہوم بھی اب پہلے جیسے نہیں رہے۔

    لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک ، ٹوئٹر، واٹس ایپ اور انسٹاگرام جیسی سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر ہزاروں دوست تو بنا لیتے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک گھر میں رہنے والوں کو اتنا دور کر دیا ہے کہ بچوں کے پاس ماں ، باپ کیلئے وقت نہیں ہے اور نہ ہی ماں باپ کے پاس بچوں کی تربیت ان کے مسائل اور ان کے ساتھ ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانٹنے کیلئے وقت ہے۔

    یہ ان ہی سائنسی ایجادات کی کرشمہ سازی ہے کہ دور رہنے والے آپ کے قریب ہیں اور ساتھ رہنے والے بیگانہ ، اجنبی دوست ہیں اور اپنے قریبی رشتوں سے ملنے کیلئے ہمارے پاس ٹائم ہی نہیں ہوتا۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں موٹیوشنل اسپیکر قاسم علی شاہ نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دوستی کا تعلق ہمارے اپنے رویوں اور خوبیوں کے ساتھ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شہرت کا سفر انسان کو تنہائی کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ انسان جتنا مشہور ہوتا چلا جاتا ہے اس کیلئے اتنا ہی مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنا دکھ کسی کو سنا سکے۔

    انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ایسے دوست ملتے ہیں جو آپ دکھ صرف سن سکتے ہیں جبکہ اصل دوست صرف وہ ہے جو آپ کے پاس ہو اور آپ کے دکھ میں شریک ہوکر ساتھ کھڑا ہو۔

     

  • بچے جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟

    بچے جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟

    والدین اکثر اوقات یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ان کے بچوں کو جھوٹ بولنے کی عادت پڑچکی ہے مگر وہ کبھی اس عادت کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے اور یہی ان کی غلطی ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر نفسیات ڈاکٹر معیز نے بچوں میں جھوٹ بولنے کی عادت اور والدین کی ذمہ داری سے متعلق اپنی ماہرانہ رائے سے آگاہ کیا۔

    ڈاکٹر معیز نے بتایا کہ بچوں کے جھوٹ بولنے کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں پہلی لالچ اور دوسرا سزا کا خوف، اگر والدین بچے کی اس روش کو محسوس نہیں کرتے یا اس پر کوئی ایکشن نہیں لیتے تو بعد میں یہ بچوں کی عادت سی بن جاتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر والدین کو لگتا ہے کہ بچے نے جھوٹ بولا ہے تو ان کا چاہیے کہ اس کو بلاوجہ نہ ڈانٹیں اور نہ ہی اس کے بارے میں فوری طور پر کوئی رائے قائم کریں۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی تربیت کے دوران دو قسم کے رویے ان کی شخصیت کو تباہ کردیتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ان کے حوالے سے فوری کوئی رائے قائم کرنا اور دوسرا کسی اور بچے کے ساتھ اس کا موازنہ کرنا۔

    اس کے علاوہ اسکولوں میں اساتذہ کرام بھی جلتی پہ تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں اور تعلیمی دباؤ ڈالتے دکھائی دیتے ہیں اور تعلیمی کارکردگی اچھی نہ ہونے پر بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بناتے ہیں۔

    بچے اکثر والدین کو جاکر اپنے اسکول کے حالات سے آگاہ نہیں کرتے اور نہ ہی تعلیمی کارکردگی کے متعلق کوئی رپورٹ دکھاتے ہیں اور اکثر والدین اور اساتذہ کے دباؤ میں آکر نہ صرف جھوٹ بولتے ہیں بلکہ بہت سی برائیوں اور ذہنی امراض کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اور اساتذہ اس مسئلہ کی جانب خاص توجہ دیں اور بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اور انہیں اعتماد میں لیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اور پھر پچھتاوے کے سوا کچھ نہ رہے۔

  • صبح کا ناشتہ کرنا کیوں ضروری ہے؟

    صبح کا ناشتہ کرنا کیوں ضروری ہے؟

    ناشتے کو عام طور پر دن کا سب سے اہم کھانا کہا جاتا ہے اور یہ کہنے کی وجہ معقول ہے۔ صبح کے ناشتے کے بہت سے فوائد ہیں، اس عادت کو اپنانے سے توانائی کے ساتھ ساتھ وزن مناسب رہتا ہے، ذیابیطس ٹائپ 2 اور دل کے امراض کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ناشتے کی افادیت پر گفتگو کرتے ہوئے ڈائٹ کسنسلٹنٹ ڈاکٹر اریج ہارون نے بتایا کہ جو لوگ باقاعدگی سے ناشتہ کرتے ہیں ان کا وزن کم ہوتا ہے اور نہ کرنے والے لوگ مٹاپے کی طرف جاتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ناشتے کو انگریزی میں بریک فاسٹ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ رات بھر خالی پیٹ رہنے (فاسٹ) کے بعد کھانے کا ایک وقفہ (بریک) ہے۔ اس سے گلوکوز میسر آتا ہے جس سے جسم میں توانائی بڑھ جاتی ہے اور انسان چاق و چوبند ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اچھی صحت کے لیے ضروری غذائی اجزا میسر آتے ہیں۔

    ڈاکٹر اریج ہارون کا کہنا تھا کہ رات کو سونے سے تین گھنٹے قبل کھانا چھوڑ دینا چاہیے، اس سے معدے کو بھی آرام رہتا ہے اور اورصبح تک وہ کھانا آپ کے جسم میں استعمال ہوجاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اچھی غذائیت بھی بہت اہم ہے یعنی جو کھایا جا رہا ہے وہ غذائیت سے بھرپور ہونا چاہیے اور اس میں تمام ضروری غذائی اجزا ہونے چاہئیں۔

    اگر کسی وجہ سے ناشتہ چھوٹ گیا ہے تو کوشش کریں کہ دوپہر یا شام کے وقت ایسا کھانا کھائیں جس سے ناشتے کی کمی پوری ہو جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ کھائیں بلکہ ان غذائی اجزا کو شامل کریں جو رہ گئے تھے۔

  • سنیما گھر کب سے کھلیں گے؟

    سنیما گھر کب سے کھلیں گے؟

    کورونا وائرس کی عالمی وبا نے پوری معیشت کو بھٹہ بٹھا دیا، تعلیمی اداروں، کاروباری مراکز اور تفریحی مقامات سمیت تقریباً تمام شعبے اس سے شدید متاثر ہوئے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان سب پر عائد پابندیوں کو رفتہ رفتہ ہٹا دیا گیا۔

    اس تمام صورتحال میں صرف سینما گھر ہی وہ واحد تفریح گاہ ہے جس پر متعلقہ حکام کی نظر کرم تاحال نہیں ہوئی ہے، جس کی وجہ سے سینما گھروں سے وابستہ ملازمین کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آچکی ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے بتایا کہ ملک میں سینما گھروں کی تعداد بہت کم ہے اس کے علاوہ جب این سی او سی فیصلہ کرے گا جب انہیں کھول دیا جائے گا۔

    فیصل جاوید نے کہا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ عید الفطر تک ایس او پیز کی شرائط کے تحت سینما گھروں کو کھول دیا جائے اور سنیما مالکان اور فنکاروں کیلئے بھی ایک پیکج دینے کیلئے بھی بات چیت ہورہی ہے۔

    فلم ڈسٹری بیوٹر ندیم مانڈوی والا نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت سے بات چیت جاری ہے اور سینما گھر کھلے تو عید الفطر تک کھل جائیں گے کینکہ سینما گھر مالکان بھی یہی چاہتے ہیں کہ انہیں ماہ رمضان کے بعد ہی کھولا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں ہی سنیما انڈسٹری مسائل کا شکار ہے، بھارت میں بھی تمام سینما گھر کھلنے کے باوجود وہاں شائقین کی تعداد انتہائی کم ہے۔

  • دال دلیہ کھائیں اور بیماریوں سے نجات پائیں

    دال دلیہ کھائیں اور بیماریوں سے نجات پائیں

    ہمارے گھروں میں استعمال ہونے والی دالیں، فائبر، وٹامن اور معدنیات کی وجہ سے صحت کے لئے بہت مفید ہیں, دالوں میں فولیٹ اور میگنیشیم کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔

    ماہرین صحت کے مطابق دالوں کے باقاعدہ استعمال سے میگنیشیم کی کمی دور کی جاسکتی ہے۔ دالوں میں موجود فائبر کی وجہ سے خون میں کولیسٹرول کا لیول بھی کم ہوتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر غذائیات ڈاکٹر عائشہ عباس نے دالوں کی اہمیت اور ان کی افادیت سے ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ مونگ مسور اور چنے کی دالیں انتہائی مفید ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کسی بھی مریض کو کھانے میں دی جاسکتی ہیں حتیٰ کہ یورک ایسڈ کے مریض بھی دال استعمال کرسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر عائشہ عباس کے مطابق چھوٹے بچوں کو گوشت کی جگہ مونگ مسور کی دال پتلی کرکے کھلانی چاہیے تاکہ ان کی جسمانی غذائیت پوری ہوسکے۔

    گوشت کے برعکس دالوں کی خاصیت یہ ہے کہ ان میں چکنائی بہت کم ہوتی ہے، ان ننھے ننھے دانوں میں حیاتین کا خزانہ بھرا ہوتا ہے، دالوں میں گوشت اور خون بنانے والے اجزا کثیر مقدار میں ہوتے ہیں۔

    تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دالوں کے خواص اور غذائی اجزا کے مقابلے میں دیگر اناجوں میں نمکیات اور دوسرے ضروری مادے زیادہ ہوتے ہیں جبکہ مختلف تیزابیت نسبتاً کم ہوتی ہے۔

    دالوں کی کئی اقسام ہیں اور ہر دال کا الگ ذائقہ اور خاصیت ہے۔ مونگ، ماش، چنا، مسور،لوبیا اور سویا بین وغیرہ اپنے اندر ایک منفرد مزہ اور افادیت رکھتی ہیں۔

    غذائیت کے اعتبار سے گوشت کے بعد پروٹین کی فراہمی کا اہم ذریعہ دالیں ہی ہیں۔اسی لئے انہیں غریبوں کا گوشت بھی کہا جاتا ہے۔

  • وقت بدل گیا، اداکارہ آمنہ الیاس کا بھرم بازوں کو معنی خیز پیغام

    وقت بدل گیا، اداکارہ آمنہ الیاس کا بھرم بازوں کو معنی خیز پیغام

    کراچی : کسی بھی ملک کے شہری پر قانون کا احترام کرنا لازم ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں قوانین کو توڑنا ایک فیشن بن گیا ہے جسے ہم باعث فخر سمجھتے ہوئے دوسروں پر بھرم ڈالنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔

    یہی بھرم بازی اخلاقی پستی کو جنم دیتی ہے لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے، بھرم بازی اب فیشن میں نہیں رہی، اس حوالے سے اداکارہ آمنہ الیاس نے سوشل میڈیا پر ایک مزاحیہ وڈیو شیئر کی جس میں انہوں نے بھرم بازی کے کلچر کی نفی کی ہے۔

    اس بھرم کلچر نے اس قدر اخلاقی گراوٹ کو جنم دیا ہے کہ معاشرے میں طاقتور اور کمزور کی جنگ ہر جگہ نظر آتی ہے ہمارے معاشرے میں یہ کلچر اتنی بری طرح سرایت کرچکا ہے کہ کسی قانون اور انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں نظر آتی۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے اداکارہ آمنہ الیاس نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں جس کا جہاں زور چلتا ہے اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کرتا ہے خصوصاً اپنے سے کمزور کے سامنے۔

    انہوں نے کہا کہ اس ویڈیو کے بنانے کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں تھا، بتانا صرف اتنا تھا کہ اس طرح بھرم بازی کرنے والے لوگ دیکھنے والے کو کتنے برے لگ رہے ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ جب ہم کوئی وعدہ توڑتے ہیں تو اس کا اثر چند انسانوں پر پڑتا ہے لیکن جب ہم کوئی قانون توڑتے ہیں تو اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔

    یاد رہے کہ عدل و انصاف پر مبنی معاشرے میں کوئی بھی فرد قانون سے بالاتر نہیں ہوتا اگر معاشرے میں قانون کا احترام نہ کیا جائے تو یقیناً ایسے معاشرے میں انسانوں کی بھی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوگی۔

  • تائی کوانڈو میں 14 گولڈ میڈلز اپنے نام کرنے والی فائٹر کھلاڑی

    تائی کوانڈو میں 14 گولڈ میڈلز اپنے نام کرنے والی فائٹر کھلاڑی

    کراچی: تائی کوانڈو میں 14 گولڈ میڈلز اپنے نام کرنے والی لاہور کی فائٹر کھلاڑی فلاور ظہیر باجوہ کا کہنا ہے کہ اب وہ بین الاقوامی مقابلوں میں اپنا لوہا منوانا چاہتی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے تعلق رکھنے والی فلاور ظہیر باجوہ نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کی۔

    فلاور اب تک تائی کوانڈو میں 14 گولڈ میڈلز جیت چکی ہیں، سلور اور برونز میڈلز کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کے والد نے دیکھا کہ وہ شروع سے ہی اسپورٹس میں اچھی ہیں تو والد نے انہیں بھرپور سپورٹ کیا، انہوں نے بچپن میں جمناسٹکس، باکسنگ اور تائی کوانڈو کیا لیکن جب ان کے والد کو اندازہ ہوا کہ وہ تائی کوانڈو میں سب سے بہترین ہیں تو انہوں نے اسی پر اپنی توجہ مرکوز کرلی۔

    ان کے والد نے انہیں اس کی ٹریننگ دلوائی اور صرف 12 سال کی عمر سے فلاور تائی کوانڈو کی باقاعدہ پلیئر بن گئیں۔

    فلاور نے بتایا کہ جب وہ 15 سال کی تھیں تو ان کے والد انتقال کر گئے لیکن انہوں نے اپنا کھیل جاری رکھا، آج وہ قومی سطح کے مقابلوں میں 14 گولڈ میڈلز جیت چکی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں انہیں اس بات کا غم ہے کہ وہ والد کی وجہ سے آج اس مقام پر ہیں لیکن یہ سب دیکھنے کے لیے والد موجود نہیں۔

    فلاور کو کھیل کی بنیاد پر اسکالر شپس بھی ملتی رہیں، وہ پنجاب یونیورسٹی سے اپنا بیچلرز بھی مکمل کر چکی ہیں۔

    فلاور قومی سطح کے مقابلوں میں اپنا لوہا منوانے کے بعد اب بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں بھی پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتی ہیں۔

  • جعلی اور بوگس کالز کرنے والے ہوشیار !! نیا قانون آگیا

    جعلی اور بوگس کالز کرنے والے ہوشیار !! نیا قانون آگیا

    کراچی / لاہور : شہری اپنی تفریح اور مزاح کیلئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ پولیس کی ہیلپ لائن ون فائیو پر  جھوٹی کالیں کرکے ادارے کے اہلکاروں کا وقت بھی ضائع کرتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوسکے گا، ایسے عناصر کے گرد پولیس نے گھیرا تنگ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پولیس کے جاری کردہ سال 2020 کےاعدادو شمار میں بتایا گیا ہے کہ 8 لاکھ کے قریب شہریوں کی جانب سے ہیلپ لائن15پر جعلی اور بوگس کالیں کی گئیں۔

    پولیس حکام نے عوام سے اپیل کی کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں کیونکہ ان کے مذاق کے نتیجے میں کوئی بڑی واردات کا واقعہ یا ملزمان ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے کرتے ہوئے چیف آپریٹنگ آفیسر پنجاب سیف سٹی اتھارٹی ڈی آئی جی کامران خان نے بتایا کہ15 پر کی جانے والی کالز میں سے 90فیصد جعلی جبکہ صرف دس فیصد اصلی ہوتی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اب مسلسل نمبروں سے آنے والی کالز کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس حوالے سے جعلی کال کرنے والوں کی شناخت کرکے ان کے نمبرز کو بلاک کیا جاسکتا ہے اور اس پرینک کال کے چارچز بھی لیے جانے کا امکان ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس سروس میں حتی الامکان کوشش کی جاتی ہے کہ مصیبت زدہ افراد کی فوری مدد کی جائے مگر اس طرح کی جعلی کالز کی وجہ سے کام کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

    علاوہ ازیں ترجمان کراچی پولیس کے مطابق گزشتہ سال میں کل 35 لاکھ فون کالز موصول ہوئیں جن پر27 لاکھ265 جرائم کے واقعات رپورٹ ہوئے جن کے نتیجے میں 476 ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔

    دوسری جانب شہریوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا  ہےکہ اس طرح کا مذاق کہ کسی طرح بھی مناسب نہیں، عوام پولیس سے مذاق کرکے اس کے وقت کا ضیاع کرے گی اور اگر جواب میں پولیس نے کوئی مذاق کیا تو ان لوگوں کو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔

     

  • ہوشیار !! کان کا میل صاف کرنا خطرناک ہوسکتا ہے

    ہوشیار !! کان کا میل صاف کرنا خطرناک ہوسکتا ہے

    اکثر لوگ اپنے کان کی صفائی کیلئے روئی کی تیلیوں یا کسی بھی چیز کا استعمال کرتے ہیں جو انتہائی رسکی اور خطرناک عمل ہے، ذرا سی بھی بےاحتیاطی ہمیں قوت سماعت سے محروم کرسکتی ہے۔

    اس طریقے سے صفائی ہونا تو دور کی بات الٹا ہم اپنے کانوں کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ کچھ معاملات میں لمبے عرصے تک کان کے درد کی شکایت بھی سامنے آجائے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر امراض ناک کان گلا ڈاکٹر عاطف حفیظ نے بتایا کہ کان کے میل کی شکایت80فیصد افراد مین نہیں ہوتی صرف 20فئیصد ایسے لوگ ہیں جو اس مسئلے کا شکار ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ قدرت نے کان کی صفائی ازخود نظام قائم کر رکھا ہے، کان کی بناوٹ ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس کے اندر پانی نہیں جاسکتا، جس طرح ناک اور منہ کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    اسی طرح کان میں نمی ہونا بھی ضروری ہے جوق اس میں پہلے سے موجود ہے۔ لہٰذا کان صاف کرنے کیلئے روئی کی تیلیوں کو زیادہ اندر لے جانا درست نہیں۔

    کان کی تنگ نالی مختلف چیزوں کو ڈالنے کے لیے نہیں بنی،بلاشبہ صفائی ایک نیکی ہے لیکن صفائی کرنے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے آپ کے کانوں میں موجود تھوڑا سا چرک گوش ( یعنی کان کا میل) کانوں کو نقصان پہنچانے کا باعث نہیں بن سکتا کیوں کہ یہ ایک قدرتی چیز ہے اور یہ چیز کچھ مقاصد کے لیے کارآمد ہوتی ہے۔

  • پرائیویٹ گاڑیوں میں پولیس سائرن اور لائٹیں لگانا فیشن بن گیا

    پرائیویٹ گاڑیوں میں پولیس سائرن اور لائٹیں لگانا فیشن بن گیا

    کراچی : شہربھر میں چلنے والی نجی گاڑیوں میں پولیس لائٹس اور ہوٹرز کا استعمال مکمل طور پر غیر قانونی ہے اس کے باوجود کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں اس کا استعمال بہت عام ہوچکا ہے۔

    اندھیر نگری چوپٹ راج کے مصداق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں یہ بات اب فیشن بن چکی ہے کہ لوگ ذاتی گاڑیوں میں اس طرح کے ہارن اور لائٹیں لگانا باعث فخر سمجھتے ہیں جبکہ یہ قابل سزا جرم ہے۔

    اکثر دیکھا گیا ہے کہ شہر میں بااثر افراد قانون کی دھجیاں اڑا تے ہوئے اپنی پرائیویٹ گاڑیوں پر سرکاری لائٹیں نصب کرتے ہیں، شہر بھر میں سیکڑوں کی تعداد میں کاروں، ویگو، لینڈکروزر پر پولیس کی سائرن والی بتیاں لگائے جانے سے عوام کا جینا محال ہوجاتا ہے جبکہ پولیس بھی ان بااثر افراد کی غیر قانونی سرکاری لائٹوں والی گاڑیوں کیخلاف کارروائی سے گریزاں ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں نشر کی گئی زوہیب یعقوب کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے مختلف بازاروں میں اس طرح کی چیزیں سر عام بک رہی ہیں اور اس پر متعلقہ حکام کی جانب سے کوئی خاص ایکشن بھی نہیں لیا جاتا۔

    رپورٹ میں دکھایا گیا ہے کہ دکاندار حضرات بھی باوجود سب جاننے کے اس قسم کے کار ڈیکوریشن کا سامان سرعام فروخت کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے اگر اس کی  ممانعت ہے تو اس کی درآمد پر بھی پابندی عائد کی جائے۔

    لہٰذا شہریوں کو چاہیے کہ اس قسم کی حرکات سے گریز کریں اور کسی بھی قسم کے غیر قانونی اقدام کے نتیجے میں ہونے والی پولیس کارروائی سے بھی خود کو محفوظ رکھیں۔