Tag: Bakhabar Sawera

  • خواتین میں انیمیا کا خطرہ! بیماری پر کیسے قابو پایا جائے؟ جانیے

    خواتین میں انیمیا کا خطرہ! بیماری پر کیسے قابو پایا جائے؟ جانیے

    انیمیا بنیادی طور پر خون کی کمی کو کہا جاتا ہے جو عمومی طور پر حاملہ خواتین کو ہوجاتی ہے، اس کے علاوہ ایسی خواتین کے بچوں کو بھی انیمیا کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس مسئلے سے کیسے چھٹکارا پایا جائے؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ڈاکٹر اریج ہارون نے خواتین کو مفید مشورے دیئے۔

    انہوں نے بتایا کہ انیمیا کے شکار افراد کے خون میں ہیموگلوبن کی سطح کم ہوجاتی ہے اور اس کی علامات میں کمزوری، سانس لینے میں دشواری، سر چکرانا، دل کی تیز یا بے ترتیب دھڑکن قابل ذکر ہیں۔

    ڈاکٹر اریج ہارون کا کہنا تھا کہ خون میں آئرن، فولک ایسڈ اور وٹامن اے کی کمی کے باعث انیمیا وبائی اور جینیاتی عارضے کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ حمل کے دوران خون کی کمی کے پیچھے دوسری بڑی وجہ غذائیت کی کمی ہوتی ہے۔ جب آپ کافی مقدار میں آئرن سے بھرپور غذائیں نہیں کھاتے ہیں تو آپ کا جسم بالآخر آپ کو جاری رکھنے کے لیے خون کے سرخ خلیات کی کمی کا شکار ہو سکتا ہے۔

    جینیاتی عارضے سے بچاؤ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی تھیلیسیمیا ٹیسٹ کرانا بہرت ضروری ہے بصورت دیگر ہوسکتا ہے کہ ان کی ہونے والی اولاد کسی پیچیدہ بیماری میں مبتلا نہ ہو۔

  • بونیر : سوال کرنے پر اُکسانے والی فانوس لائبریری

    بونیر : سوال کرنے پر اُکسانے والی فانوس لائبریری

    بونیر : خیبر پختونخوا کے علاقے بونیر کے نوجوان نے علم کے فروغ کے بیڑہ اٹھا لیا، شبنم بونیری کا کہنا ہے کہ ان کی "فانوس لائبریری” میں سوالات کی پرورش ہوتی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شبنم بونیری نے اپنے علم دوست اقدام کے اغراض و مقاصد سے ناظرین کو آگاہ کیا اور اس مثبت فوائد بتائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بونیر میں واقع یہ لائبریری ایسی جگہ ہے جہاں نوجوان اکٹھے ہوکر ایسے موضوعات پر بحث کرتے ہیں جن پر عام حالات میں بات کرنا معمول نہیں۔

    شبنم بونیری نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں نہ صرف نوجوان کتاب تک مفت رسائی حاصل کرتے ہیں بلکہ وہ سیاست سے لے کر تاریخ و فلسفے تک ہر موضوع پر بلا کسی روک ٹوک کے آزادانہ بحث کرسکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر بنیادی طور پر سوالوں کی پرورش ہوتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ سوال سب سے مقدس ہے اور ہم لوگوں میں سوال کرنے کی جرات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    شبنم کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں میں تنقیدی شعور اور دوسروں کی رائے کا احترام اجاگر کرنے کے لئے کتاب اور مکالمہ کو جہالت اور عدم برداشت کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بونیر کی بارہ لاکھ آبادی کے لیے یہ واحد لائبریری ہے جہاں پر تین ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ مختلف موضوعات پر ہم تفصیلی بحث کرتے ہیں اور اس کے بعد وکلا اور دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے بھی گفت و شنید کی جاتی ہے اور مسئلے کے نتائج پر ہم پہنچ جاتے ہیں۔

  • بچوں میں ہکلاہٹ کا مرض، والدین کیلئے انتہائی اہم معلومات

    بچوں میں ہکلاہٹ کا مرض، والدین کیلئے انتہائی اہم معلومات

    ہکلانے پر قابو پانا ممکن ہے! بچوں میں ہکلاپن 2 سے 4 سال کی عمر کے درمیان پایا جاتا ہے، ہکلاہٹ کے شکار بچوں پر تنقید نہ کریں بلکہ ان کا علاج کروائیں۔

    دنیا بھر میں اس وقت 7 کروڑ افراد ایسے ہیں جو ہکلاہٹ کا شکار ہیں یا جن کی زبان میں لکنت ہے لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ ہکلاہٹ کی پریشانی انسانوں کو کیوں ہوتی ہے اور اس پریشانی کو کیسے درست کیا جاسکتا ہے؟

    اسی سلسلے میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں اسپیچ پیتھالوجسٹ ڈاکٹر سید سیف اللہ کاظمی نے اس مرض کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا اور اس کے علاج سے متعلق اہم باتیں بیان کیں۔

    ڈاکٹر سید سیف اللہ کاظمی نے بتایا کہ زبان میں پیدا ہونے والی اس لرزش یا لڑکھڑاہٹ کو ہکلاہٹ (اسٹٹرینگ) کہتے ہیں۔ اس مرض میں گفتگو کے دوران حرف کی ادائیگی میں پریشانی ہوتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات ہمارے اطراف میں ایسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جن کے بولتے وقت ان کی زبان میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہوجاتی ہے، جسے ہکلاہٹ یا لکنت کہا جاتا ہے، اگر اس مرض کو بچپن میں درست نہیں کیا گیا تو زندگی کے اہم مراحل میں یہ پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔

    ڈاکٹر سید سیف اللہ کاظمی کا کہنا تھا کہ ہکلاہٹ کی بےشمار وجوہات ہیں جن میں سب سے نمایاں وجہ خاندانی سمجھی جاتی ہے، بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ یہ مرض والدین میں پائے جاتے ہیں اور بعد میں یہ پریشانی والدین کے جین کے ذریعہ بچوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔

     اسپیچ پیتھالوجسٹ کے مطابق تناؤنفسیاتی مسائل کے باعث بھی لوگوں کو گفتگو کرنے میں ہکلاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بعض اوقات حادثات دماغی چوٹوں کا سبب بن سکتے ہیں جس کے نتیجے میں دماغ کا وہ مخصوص حصہ جو ہمیں بولنے اور بات چیت کرنے کے قابل بناتا ہے کو نقصان پہنچتا ہے تو اس شخص میں بھی ہکلاہٹ کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کبھی کبھی احساس کمتری کی وجہ سے بھی بچوں کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے یا بچوں کے ہم جماعت اس کا مذاق اڑاتے ہیں یا پھر والدین یا اساتذہ کی ڈانٹ، طنز اور طعنوں کا نشانہ بناتے ہیں یا ضرورت سے زیادہ ٹوکتے ہیں تو اس سے بچوں کی خوداعتمادی ختم ہو جاتی ہے۔

    ڈاکٹر سید سیف اللہ نے بتایا کہ مرض کے علاج کرنے کا واحد اور بہترین طریقہ اسپیچ تھراپی ہے، والدین کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس عمر میں بچوں پر درست بولنے کے لیے زبردستی دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ یہ ہکلاہت خود بخود ہی وقت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ مسئلہ 4 سال کی عمر کے بعد بھی برقرار رہتا ہے تو والدین کو کسی ماہر اور اسپیچ لینگویج پیتھالوجسٹ (ایس ایل پی) سے رابطہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

  • مینار پاکستان واقعہ : یہ سوچ آخر کیوں پروان چڑھ رہی ہے؟

    مینار پاکستان واقعہ : یہ سوچ آخر کیوں پروان چڑھ رہی ہے؟

    لاہور : مینار پاکستان میں ٹک ٹاکر خاتون کے ساتھ پیش آنے والے شرمناک واقعہ کے خلاف سوشل میڈیا سمیت میڈیا پر بھی بحث کا سلسلہ جاری ہے۔

    پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کرکے تفتیش اور ملزمان کی گرفتاری کیلئے کارروائیوں کا آغآز کردیا ہے لیکن دوسری جانب ایک اور بحث نے جنم لے لیا۔

    ملک بھر کے عوام اس شرمسار واقعہ کے حوالے سے برہمی کا اظہار کررہے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے خاتون کی تضحیک کرنے والے بدکرداروں کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے سائیکالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ علی نے کہا کہ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا رویہ کس طرف جا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ مینار پاکستان جیسے عظیم مقام پر ایسا دلخراش واقعہ پیش آیا جس نے ہمارے ملک کو دنیا مین بدنام کردیا۔

    ڈاکٹرعظمیٰ علی نے کہا کہ ہمیں اس معاشرے کی بہتری کیلیے نئی نسل کی تربیت کرنا ہوگی، اس لیے والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی ذہنی اور نفسیاتی طور پر رہنمائی کریں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ بے حس ہوچکے ہیں ان کو کسی عزت و ناموس اور تکلیف کا کوئی احساس نہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں موجود کچھ لوگ لڑکی کو بچانے کے بجائے ویڈیوز بنانے میں مصروف تھے۔

    یاد رہے کہ 14 اگست کے روز مینار پاکستان پر موجود خاتون عائشہ اکرم کو وہاں موجود 400 افراد کی جانب سے تشدد، جنسی حملے اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آنے پر پولیس نے 3 روز بعد مقدمہ درج کیا تھا۔

    گزشتہ رات گئے لاہور پولیس نے راوی روڈ، بادامی باغ، لاری اڈا اور شفیق آباد کے علاقوں میں چھاپہ مار کارروائیاں بھی کی ہیں اور 15 افراد کو حراست میں لے کر تھانہ لاری اڈا منتقل کردیا۔

    پولیس کا کہنا ہے زیر حراست افراد کے موبائل نمبرز کی 14 اگست کی لوکیشن ٹریس کی جائے گی اور زیر حراست افراد کو ویڈیوز میں نظر آنے والے ملزمان سے میچ کیا جائے گا۔

  • "اولین ترجیح بوگیوں میں پھنسے افراد کو ریسکیو کرنا ہے”

    "اولین ترجیح بوگیوں میں پھنسے افراد کو ریسکیو کرنا ہے”

    کراچی: چیئرمین این ڈی ایم اے نے گھوٹکی ٹرین حادثے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری ترجیح بوگیوں میں پھنسے افراد کو جلد از جلد نکالنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گھوٹکی ٹرین حادثے سے متعلق چیئرمین این ڈی ایم اےلیفٹیننٹ جنرل  اختر نواز ستی نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ پروگرام "باخبر سویرا” میں خصوصی گفتگو کی اور بتایا کہ ٹرین حادثہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے، حادثے کی اطلاع ملنے پر پاک فوج کی دو خصوصی طبی ٹیمیں راولپنڈی سے روانہ ہوچکی ہیں
    جبکہ جائے حادثے پر پاک فوج، رینجرز،1122ریسکیو سروسز بھی اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

    چیئرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ حادثے کے بعد مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو نکالا، ہماری ترجیح ریسکیو آپریشن ہے کیونکہ اطلاعات ہیں کہ ابھی بھی کچھ بوگیوں میں مسافر پھنسے ہونے کی اطلاعات ہیں، بوگیوں میں پھنسے افراد کو نکالنا بھی ترجیح ہے، ساتھ ساتھ زخمی و جاں بحق افراد کا ڈیٹا بھی مرتب کیاجارہاہے۔

     لیفٹیننٹ جنرل اخترستی نے بتایا کہ حادثے کی معلومات کیلئے گھوٹکی میں ہیلپ ڈیسک قائم کردیاگیا ہے، ٹریک کب تک کلیئر ہوگا اس بارے میں ریلوے حکام بہتر بتاسکتے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ جلد ٹریک کو بحال کیاجائے۔

    دوسری جانب محکمہ ریلوے سکھر ڈویژن نےانفارمیشن ڈیسک کا فون نمبر جاری کردیا ہے، ڈی سی او ریلوے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مسافروں کے رشتہ دار0719310087 نمبر پررابطہ کریں۔