Tag: Baloch

  • ایمان مزاری اور بلوچ طلبہ کے خلاف غداری کے مقدمے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا سخت فیصلہ

    ایمان مزاری اور بلوچ طلبہ کے خلاف غداری کے مقدمے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا سخت فیصلہ

    اسلام آباد: ایمان زینب مزاری اور بلوچ طلبہ کے خلاف غداری کے مقدمے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا سخت فیصلہ سامنے آیا ہے، عدالت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ غداری اصل میں کیا ہے۔

    وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری ایڈووکیٹ کے خلاف گزشتہ روز غداری کے مقدمے کا اندراج کیا گیا تھا، جسے انھوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا، آج چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس درخواست پر سماعت کے بعد تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔

    عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پہلا کیس نہیں ہے جو پولیس نے طاقت کا غلط استعمال کیا، پاکستان کے دارالحکومت میں بعض طبقات کو نشانہ بنانے اور اختلاف رائے، تنقید اور سیاسی بحث کو دبانے کے لیے اختیارات کا بار بار غلط استعمال ناقابل برداشت ہے۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ جواب دہندگان نے اختلاف رائے اور حق کی آواز کو دبانے کے لیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا، قائد اعظم یونیورسٹی سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے پریس کلب کے سامنے مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف پُر امن احتجاج کیا تھا، لیکن جواب دہندگان نے پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔

    عدالتی حکم نامے کے مطابق درخواست گزار کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اطلاع ملی تھی کہ پرامن شرکا کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیا گیا ہے، سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس فیصل کامران ایک اور کیس کے سلسلے میں عدالت میں موجود تھے، انھوں نے ایک فوجداری مقدمہ ایف آئی آر نمبر 203/2022 کے تحت درج کیا۔

    عدالت نے قرار دیا کہ صوبہ بلوچستان کے نعرے بلند کرنا خواہ کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو، تخیل کی حد تک کیوں نہ ہو، اسے مجرمانہ سازش یا جرم نہیں سمجھا جا سکتا، ایف آئی آر میں جن جرائم کا ذکر کیا گیا ہے ان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی نظر میں، اختلاف رائے کی حوصلہ شکنی کرنے اور ریاست کے اقدامات یا عدم فعالیت سے پیدا ہونے والی شکایات کا اظہار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    عدالت نے واضح کیا کہ آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں طاقت کا اس طرح کا غلط استعمال ناقابل برداشت ہے، اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانا یا ریاست اس کے اداروں یا عوامی اداروں کے خلاف شکایات اٹھانے کی حوصلہ شکنی کرنا غداری ہے، نوجوان شہریوں خاص طور پر صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد کو ریاست اور عوامی اداروں کی طرف سے اپنے اظہار کے لیے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، ایک سازگار ماحول پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ سیاسی مباحثوں میں بلا روک ٹوک اور بغیر کسی خوف کے حصہ لے سکیں۔

    حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ریاست اور ادارے شہریوں کو نقصان سے بچانے اور ان کی خدمت کرنے اور انھیں آئین کے تحت فراہم کردہ اپنے بنیادی حقوق کے استعمال اور ان سے لطف اندوز ہونے کے قابل بنانے کے لیے موجود ہیں، طاقت کے غلط استعمال کے ذریعے پرامن اجتماع کو دبانا یا اس میں مداخلت کرنا سب سے سنگین خلاف ورزی اور وفاداری کے فرائض کی خلاف ورزی ہے۔

    عدالت نے حکم دیا کہ سیکریٹری وزارت داخلہ، چیف کمشنر، انسپکٹر جنرل پولیس اور سیکریٹری وزارت انسانی حقوق عدالت کے روبرو ذاتی طور پر پیش ہوں، اور پرامن نوجوان شہریوں کے خلاف استعمال کیے جانے والے طاقت کے زیادہ استعمال کا جواز پیش کریں، اور فوجداری مقدمے درج کرنے کی وجہ پیش کریں اور عدالت کو مطمئن کریں، آئین کے تحت ضمانت دیے گئے بنیادی حقوق کے حوالے سے بھی عدالت کو مطمئن کیا جائے۔

    عدالت نے کہا کہ ریاستی اہل کاروں کی جانب سے تشدد اور بغاوت کی کارروائیاں ناقابل معافی اور ناقابل برداشت ہیں، رجسٹرار آفس اس حکم کی کاپیاں جواب دہندگان اور مذکورہ بالا حکام کو تعمیل کے لیے خصوصی میسنجر کے ذریعے بھیجیں، رجسٹرار آفس اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کرے، اور اس کیس پر دوبارہ سماعت 7 مارچ کے لیے رجسٹرار آفس مقرر کرے۔

    یاد رہے کہ بلوچ طلبہ نے یکم مارچ کو نیشنل پریس کلب کے سامنے مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کیا تھا جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا، بعد ازاں رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور زینب ایمان مزاری سمیت احتجاج میں شریک سیکڑوں طلبہ کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔

  • ’ناراض بلوچ رہنماؤں سے بات چیت پر کام شروع کر دیا ہے‘

    ’ناراض بلوچ رہنماؤں سے بات چیت پر کام شروع کر دیا ہے‘

    اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ سیاسی مسائل کی وجہ سے ناراض بلوچ قوم پرستوں سے مذاکرات کے لیے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیر اعظم نے کل ناراض بلوچوں سے بات چیت کا عندیہ دیا تھا، بھارت سے بے تعلق لیکن ناراض بلوچ رہنماؤں سے بات چیت پر کام شروع کر دیا ہے۔

    عسکریت پسندوں سے بات چیت کے گزشتہ روز وزیر اعظم کے بیان کے بعد آج فواد چوہدری نے واضاحت کی ہے کہ ہندوستان سے تعلق اور دہشت گردی میں ملوث لوگوں کے لیے کسوٹی اور ہوگی، ان عناصر سے بات چیت ہوگی جو بھارت سے رابطے میں نہیں ہیں۔

    بلوچستان کے عسکریت پسندوں سے بات کرنے کا سوچ رہا ہوں: وزیر اعظم

    وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا لاہور دھماکے میں ملوث بیش تر افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، پنجاب پولیس نے بھارت کا بہت بڑا نیٹ ورک پکڑا ہے، اس سلسلے میں دہلی سے بینکوں میں ٹرانسفر ہونے والے پیسے کی تفصیلات بھی جلد سامنے آئیں گی، جوہرٹاؤن دھماکے کے ملزمان کی گرفتاری پر اداروں کو سراہا گیا۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ امید ہے ہم 15 جولائی تک الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام تیار کر لیں گے، اسکردو میں ایک ایئر پورٹ بنا رہے ہیں، وزیر اعظم نے تھری جی اور فور جی سہولت پر ترجیحی اقدامات کے لیے کہا ہے، جہاں یہ سہولتیں نہیں وہاں دی جائیں گی، وزیر اعظم نے یہ بھی ہدایت کی کہ سیاحت سے متعلق ایئر پورٹس کو پورا سال فعال رکھا جائے، معذور افراد سے متعلق پروازوں کے انتظام کو بہتر کیا جائے گا۔

  • بلوچستان کے زرخیر، قدیم اور رنگا رنگ کلچر کی چند نمایاں خصوصیات

    بلوچستان کے زرخیر، قدیم اور رنگا رنگ کلچر کی چند نمایاں خصوصیات

    کوئٹہ: رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ایک زرخیز اور ہمہ گیر تہذیب کا حامل ہے، جو اپنے قدیم  ماضی کے تمام حسین رنگوں کو خود میں سموئے ہوئے ہے۔

    اسی مناسبت سے آج بلوچ یوم ثقافت منایا جارہا ہے۔ اس تحریر میں مہرگڑھ جیسے عظیم تاریخی ورثے کی حامل  کئی صدیوں پر محیط بلوچ تہذیب کے ہمہ جہت اور اثر انگیز پہلوئوں پر نظر ڈالی گئی ہے، جو اپنے اندر دل چسپی  کا سامان رکھتی ہیں۔

    بلوچ قوم کے اگر لباس کی بات کی جائے تو مرد حضرات قمیض کے ساتھ گھیر والی شلوار زیب تن کرتے ہیں، ساتھ ہی مختلف رنگوں کی پگڑی سر پر سجاتے ہیں۔ کم عمر بچیوں کے لیے خاص قسم کی کڑھائی کردہ پھولوں والا لباس تیار کیا جاتا ہے۔

    بلوچستان کے ساحل پر تھری ڈی آرٹ کے شاہکار

    بلوچ عوام اپنے باہمی تنازعات کے حل کے لیے سرداروں کی جانب سے لگائی گئی ’کچہری‘ کا رخ کرتے ہیں جہاں بیٹھے قبائلی افراد معاملات کے حل کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ اس کے لیے حال احوال کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ان کے مخصوص کھیل کا نام ’ہشتی‘ ہے جو گروہ کی شکل میں ایک ساتھ بیٹھ کر کھیلا جاتا ہے۔

    کسی بھی خوشی کے موقع پر محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے جسے ’بلوچی دیوان یا گدان‘ کہتے ہیں جہاں بیٹھے افراد موسیقی آلات سے سر بکھیرتے ہیں۔ وہاں کی عورتیں خاص قسم کا ہاتھ سے تیار کردہ بیگ استعمال کرتی ہیں جسے بلوچی زبان میں ’جمدگان‘ کہتے ہیں۔

    پانی کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے وہاں کے قبائلی مشک(مٹکا) استعمال کرتے ہیں، اور اگر کھانوں کی بات کی جائے تو ’سجی اور کاک روٹی‘ کے بغیر کوئی بھی دعوت اور روایتی رقص ’لیوا‘ کے بغیر کوئی تقریب مکمل نہیں ہوتی۔

     

    بلوچستان میں سردی کا 31 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا

    بلوچ ثقافت میں ’ماری کٹ‘ بلوچی سینڈل کا بڑا عمل دخل ہے جو گھیر والی شلوار کے ساتھ خوب ججتی ہے، اس کے علاوہ خواتین کے لباس پر ہاتھ سے یا پھر مشین سے تیار کردہ پھلوں والی کڑھائی موجود ہوتی ہے،جو بلوچ تہذیت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔