Tag: ban on Ansarul Islam wing

  • دیکھنا ہے کہ انصار الاسلام بنا کر کوئی خلاف ورزی تونہیں کی ؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ

    دیکھنا ہے کہ انصار الاسلام بنا کر کوئی خلاف ورزی تونہیں کی ؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ

    اسلام آباد : جے یوآئی کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام پر پابندی کیس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہادیکھنا ہے کہ انصار الاسلام بنا کر کوئی خلاف ورزی تونہیں کی، اگر انصارالاسلام یونیفارم اورنام بدل لے تو کیا پابندی کا اطلاق ہوگا؟

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں انصارالاسلام پرپابندی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا انصارالاسلام یونیفارم اور نام بدل لے تو کیا پابندی کا اطلاق ہوگا؟ سیاسی جماعت پرپابندی لگانی ہےتوالیکشن کمیشن میں شکایت دیں، نوٹیفکیشن سےپہلےانصارالاسلام کو سننا  چاہیے تھا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے مزید کہا  کہ دیکھنا ہے کہ انصار الاسلام بناکر کوئی خلاف ورزی تونہیں کی، ڈپٹی کمشنر نے جلسے کی اجازت دے دی ہے ، ڈپٹی  کمشنر کو آگاہ کردیں انصار الاسلام رضاکار ہے۔

    وکیل جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ ڈی سی کوآگاہ کردیا ہم ڈنڈے لیکر نہیں آئیں گے، اندرونی سیکورٹی کے لیے انصارالاسلام کو بنایا گیا، جس پر ڈپٹی کمشنر تمام معاملے  کو ریگولیٹ کررہے ہیں۔

    وکیل نے استدعا کی کہ آپ ڈی سی کوہدایت کردیں کیونکہ دوسری جانب وزارت داخلہ ہے جبکہ ہمارے کارکنان کی پکڑ دھکڑ بھی شروع کر دی گئی ہے، چیف جسٹس  نے جواب دیا رہبر کمیٹی اس معاملے کو حل کرلے گی، آپ انصارالاسلام کی وردی کا رنگ تبدیل کردیں۔

    مزید پڑھیں : انصارالاسلام پر پابندی ، وزارت داخلہ کے افسر کل طلب

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

    گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے انصارالاسلام پرپابندی سے متعلق درخواست پر وزارت داخلہ کے افسر کو کل طلب کرلیا تھا اور حکم دیا تھا کہ وزارت داخلہ مطمئن کرے کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی۔

    یاد رہے حکومت نے جےیوآئی ف کی ذیلی تنظیم پرپابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ انصار الاسلام پر تشدد کارروائیوں میں ملوث ہوسکتی ہے، وفاق کو یقین ہے انصار الاسلام عسکری تنظیم بن چکی ہے۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق انصار الاسلام ملیشیا کے طور پر اسلام آباد میں کارروائیاں کرسکتی ہے، مذکورہ تنظیم کے خلاف کارروائی آرٹیکل 256 کے تحت کی گئی ہے، انصار الاسلام کے کارندے، لاٹھیوں اور تیز دھار آلات سے مسلح ہوتے ہیں، تنظیم کے کارندے قیام امن کے لیے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ چند روز قبل حکومت نے جےیوآئی کی فورس انصار الاسلام کےخلاف کارروائی کافیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انصارالاسلام کی فورس کااسلحے سےلیس ہونا بھی خارج از امکان نہیں اور ان کی سرگرمیاں اسلام آباد اور صوبوں کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔

  • انصارالاسلام پر پابندی ، وزارت داخلہ کے افسر  کل طلب

    انصارالاسلام پر پابندی ، وزارت داخلہ کے افسر کل طلب

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے انصارالاسلام پرپابندی سے متعلق درخواست پر وزارت داخلہ کے افسر کو کل طلب کرلیا اور حکم دیا وزارت داخلہ مطمئن کرے کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں انصارالاسلام پرپابندی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ، وکیل جے یو آئی کامران مرتضی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انصار الاسلام پرائیویٹ ملیشیا نہیں بلکہ جمیعت علماء اسلام کا حصہ ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پرائیویٹ ملیشیا نہیں لیکن ڈنڈے تو ہیں، جس پر کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ ڈنڈے تو جھنڈوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر سیاسی جماعت کی ممبر ہے تو پھر تو یہ نوٹیفکیشن ہی غیر موثر ہے، وکیل کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ ہمیں وزارت داخلہ نے سنے بغیر پابندی لگا دی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت نے آپ کو سنا بھی نہیں؟ رائے کے مطابق تویہ نوٹیفکیشن ہی غیرمؤثرہے، جب تنظیم کاباقاعدہ وجودنہیں تو پابندی کیسےلگ سکتی ہے، خاکی کےبجائےسفیدوردی پہن لیں توپھرکیاہوگا۔

    وکیل کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ یہ تنظیم قائداعظم کے دور سے کام کررہی ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کم از کم آپ کوحکومت پوچھ تولیتی کہ یہ تنظیم کیاہے، 24 اکتوبر کوانصارالاسلام پرپابندی کانوٹیفکیشن جاری ہوا، عجیب بات ہےایک چیزموجود نہیں اورپابندی لگ گئی۔

    عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڈھے دس بجے تک ملتوی کرتے ہوئے وزارت داخلہ کے افسر کو کل طلب کرلیا اور حکم دیا کہ وزارت داخلہ عدالت کو مطمئن کرے کہ کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی۔