Tag: BAP

  • بی اے پی سینیٹ کی خالی نشستوں پر اپنے سینیٹرز بلامقابلہ منتخب کرانے کے لیے سرگرم

    بی اے پی سینیٹ کی خالی نشستوں پر اپنے سینیٹرز بلامقابلہ منتخب کرانے کے لیے سرگرم

    کوئٹہ: بی اے پی سینیٹ کی خالی 3 نشستوں میں سے 2 پر اپنے سینیٹرز بلامقابلہ منتخب کرانے کے لیے سرگرم ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی نے سینٹ کی دو نشستوں پر اتحادی جماعتوں سے حمایت حاصل کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

    اس سلسلے میں بی اے پی کی مرکزی قیادت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت سے جلد رابطہ کرے گی، بی اے پی ذرائع کا کہنا ہے کہ رہنماؤں نے گزشتہ روز دونوں جماعتوں کی صوبائی قیادت سے ملاقات کی تھی، جس میں انھیں مرکزی قیادت سے بات کرنے کا کہا تھا۔

    بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت بی اے پی کا مؤقف ہے کہ سینٹ کی 2 نشستیں ہماری خالی ہوئی ہیں، اس لیے بی اے پی کے امیدواروں کی حمایت کر کے انھیں بلامقابلہ منتخب کرایا جائے۔

    واضح رہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر دیے ہیں، پیپلز پارٹی کی جانب سے میر عبدالقدوس بزنجو، جب کہ میر دوستین ڈومکی ن لیگ کے سینٹ پر امیدوار ہیں، بی اے پی کے کہدہ بابر اور مبین خلجی، جمعیت علمائے اسلام کے حاجی عبدالشکور غبیزئی سمیت 12 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

    9 مارچ کو امیدواروں کی نظر ثانی شدہ فہرست جاری ہوگی، جب کہ 14 مارچ کو بلوچستان سے سینٹ کی خالی ہونے والی 3 جنرل نشستوں پر انتخابات ہوں گے، ارکان اسمبلی ووٹ دے کر سینیٹرز کا انتخاب کریں گے، 14 مارچ کو ہونے والے سینٹ کے ضمنی انتخابات میں بلوچستان اسمبلی سے ایک سینیٹر کو کامیاب کرانے کے لیے کم و بیش 22 ووٹ درکار ہیں۔

  • پیپلز پارٹی کے بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں سے رابطے، 2 ایم پی ایز سے معاملات طے

    پیپلز پارٹی کے بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں سے رابطے، 2 ایم پی ایز سے معاملات طے

    اسلام آباد: مولانا فضل الرحمٰن کے بعد آصف علی زرداری نے صوبہ بلوچستان میں انٹری دے دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں سے رابطے شروع کر دیے ہیں، 2 ایم پی ایز سے معاملات بھی طے ہو گئے۔

    پی پی ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بلوچستان کے اہم رہنماؤں سے معاملات طے پانے لگے ہیں، عاصم کرد گیلو کا پیپلز پارٹی میں شمولیت کا امکان ہے، عاصم کرد سابق وزیر خزانہ و بلوچستان عوامی پارٹی کے نائب صدر ہیں۔

    پی پی ذرائع کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی کے 2 ایم پی ایز سے معاملات طے پا گئے ہیں، عارف جان محمد حسنی اور سلیم کھوسہ پیپلز پارٹی سے رابطے میں ہیں، یہ دونوں جام کمال کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں۔

    دوسرہ طرف سردار فتح محمد حسنی بھی پیپلز پارٹی میں واپسی کے لیے تیار ہیں، وہ چاغی سے رکن بلوچستان اسمبلی رہ چکے ہیں، پیپلز پارٹی کے آغاز شکیل درانی سے بھی معاملات طے پا گئے ہیں، آغا شکیل خضدار کے سابق ضلع چیئرمین رہ چکے ہیں، اور سابق وزیر اعلیٰ ثنا اللہ زہری کے قریبی عزیز ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما پی پی قیادت سے جلد ملاقاتیں کریں گے، پی پی مگسی، جمالی، جام، بھوتانی خاندان سے بھی رابطوں پر غور کر رہی ہے۔

  • شہباز حکومت کے لیے مشکل، بی اے پی کا حمایت واپس لینے پر غور

    شہباز حکومت کے لیے مشکل، بی اے پی کا حمایت واپس لینے پر غور

    کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اپنی حمایت واپس لینے پر غور شروع کر دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہر پل ایک ڈرامائی موڑ لے رہی ہے، بی اے پی نے وفاقی حکومت سے حمایت واپس لینے پر غور شروع کر دیا ہے، جس سے شہباز حکومت کے لیے مشکل پیدا ہو گئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ رات گئے جام کمال گروپ کے بی اے پی کے ارکان پارلیمنٹ نے ایک اہم میٹنگ کی، جس میں ارکان نے یہ تجویز دی کہ پی ڈی ایم کی جن جماعتوں نے عمران خان کی تبدیلی کے وقت انھیں بلوچستان میں عدم اعتماد اور تبدیلی کے حوالے سے جو یقین دہانیاں کرائی تھیں، اگر وہ اس پر عمل درآمد نہیں کرتی ہیں تو پھر بی اے پی وفاقی حکومت سے حمایت واپس لینے پر غور کرے۔

    بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی جانب سے صدر بی اے پی جام کمال کو یہ تجویز دی گئی ہے کہ اگر پی ڈی ایم ساتھ نہیں دیتی تو وفاقی حکومت میں شمولیت کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

    اس وقت بی اے پی نے شہباز حکومت کو قومی اسمبلی میں 4 ووٹ دیے ہیں، جب کہ وفاقی حکومت کو ایوان میں صرف 2 ووٹ کی برتری حاصل ہے، ایسے میں اگر بی اے پی اپنی حمایت واپس لیتی ہے تو دو ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی وفاقی حکومت ختم ہو جائے گی۔

    انتہائی قابل اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں اراکین نے جام کمال کو حمایت واپس لینے کی تجویز دی، جس کے بعد جام کمال نے گزشتہ رات ٹویٹ کیا جس میں انھوں نے پی ڈی ایم پر زور دیا کہ وہ کیے گئے وعدوں کو پورا کریں۔

    اگرچہ بی اے پی نے فی الوقت واضح الفاظ میں وفاقی حکومت چھوڑنے کی بات نہیں کی ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ رات اس آپشن پر بہت سنجیدگی کے ساتھ غور ہوا ہے، اور بی اے پی صدر نے قومی اسمبلی میں موجود پارلیمانی جماعت سے مشاورت شروع کر دی ہے۔

    جام کمال نے ٹویٹ کیا کہ آج ہم عدم اعتماد کی قرارداد پیش کر رہے ہیں، ہم پی ڈی ایم پارٹیوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ عمران خان کے دور میں مسلط کی گئی اور اب بھی شہباز شریف کے دور سے لطف اندوز ہونے والی بلوچستان کی بدعنوان اور بے ایمان حکومت کو ہٹانے کے اپنے وعدے کو پورا کریں گی۔

    واضح رہے کہ بلوچستان صوبائی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا اجلاس آج 10 بجے ہوگا، جام کمال، سردار یار محمد رند اور اصغر اچکزئی سمیت 14 اراکین اس تحریک کے محرک ہیں، تحریک پر دستخط کرنے والے پی ٹی آئی رکن مبین خلجی نے رات گئے تحریک سے لا تعلقی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جام کمال اور ان کے گروپ کو تحریک پیش کرنے کے لیے 14 اراکین اسمبلی کی حاضری یقینی بنانا ہوگی۔

  • فریقین کو واپس لانے کا وقت گزر گیا: رہنما بی اے پی خالد مگسی

    فریقین کو واپس لانے کا وقت گزر گیا: رہنما بی اے پی خالد مگسی

    اسلام آباد: بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے رہنما خالد مگسی نے حکومتی رہنماؤں کے دعوؤں کے جواب میں کہا ہے کہ فریقین کو واپس لانے کا وقت گزر گیا ہے، جانے والوں کو پی ٹی آئی کے رویے اور الفاظ نے دور کیا ہے۔

    پی ٹی آئی جلسے کے حوالے سے اے آر وائی نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں گفتگو کرتے ہوئے بی اے پی رہنما خالد مگسی نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر جلسے جلوسوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لڑائی کو باہر لے کر آ گئے ہیں، جس سے عوام کو تکلیف ہو رہی ہے، یہ میدان کی لڑائی نہیں بلکہ یہاں پر نمبر گیم ہے۔

    انھوں نے کہا ساڑھے تین سال ہم نے تقریباً اپوزیشن میں گزارے ہیں، ہمیں پی ٹی آئی کے رویے اور الفاظ نے دور کیا ہے، مزید وقت اپوزیشن میں نہیں گزارنا چاہتے۔

    شاہ زین بگٹی نے وفاقی کابینہ سے علیحدگی کا اعلان کردیا

    خالد مگسی کا کہنا تھا حتمی وقت آ گیا ہے، خان صاحب نے ڈرا دیا ہے کہ پتا نہیں کیا ہو جائے گا، اس وقت بھی اپنے الائنس کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے، ہم نے اپنا نمبر پورا کرنا ہے جس کے لیے ورک آؤٹ کر رہے ہیں، ہم ق لیگ اور ایم کیو ایم سے رابطے میں ہیں۔

    بی اے پی رہنما نے کہا کل 4 بجے سیشن شروع ہوگا اور فیصلہ سامنے آ جائے گا، کل شام سے ایسی خبریں دیں گے کہ آپ کے پاس نیوز ہی نیوز ہوں گی، بولڈ آؤٹ کس کو کریں گے اس لیے تھوڑا مزید انتظار کریں۔

  • تحریک عدم اعتماد پر بلوچستان عوامی پارٹی منقسم

    تحریک عدم اعتماد پر بلوچستان عوامی پارٹی منقسم

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق متضاد آرا کے باعث بلوچستان عوامی پارٹی کو فیصلہ کرنے میں دقت کا سامنا ہے۔

    ذرائع کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی میں تحریک عدم اعتماد سے متعلق متضاد آرا پائی جاتی ہیں، پارٹی اکثریت پی ٹی آئی حکومت کیساتھ رہنےکےحق میں ہے جس کی سب سے بڑی تائید کنندہ وفاقی وزیر زبیدہ جلال ہیں جو حکومت کا ساتھ دینے کی حامی ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ ارکان حکومت سےناراض ہیں اور اسی بنا پر وہ اپوزیشن کاساتھ دینا چاہتےہیں، رہنما باپ پارٹی کا کہنا ہے کہ حتمی فیصلےتک رائےتبدیل ہوسکتی ہے ،آخری وقت میں فیصلہ کرینگے۔

    باپ پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اختلاف کی وجہ سے مزید انتظار اور معاملات کا جائزہ لیا جارہا ہے، اس کے علاوہ 28مارچ کو چیئرمین سینیٹ کےانتخاب پرعدالتی فیصلےکا بھی انتظار ہے، جس کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

    دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف بھی عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کی جارہی ہے اور اس پر ہوم ورک شروع کیا جاچکا ہے، جس کا آغاز بلوچستان سے ہوا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: بلوچستان عوامی پارٹی میں اختلافات، بڑی تبدیلی کا امکان

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی اکثریت اپوزيشن کا ساتھ دینے کو تیار ہے، بی اے پی کے ایم پی ایز کی اکثریت پی ڈی ایم کو ساتھ دینے کا یقین دلا چکی ہے۔

    پی ڈی ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ ق لیگ اور ایم کیوایم کی جانب سے اپوزیشن کا ساتھ دینے کےاعلان کا انتظار ہے، دونوں جماعتوں کے اعلان کے ساتھ ہی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد آجائےگی۔

    پی ڈی ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو بھی تبدیل کرنے پر سنجیدہ غور شروع کردیا گیا ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں جے یو آئی، بی این پی مینگل، اے این پی اور یار محمد بلوچستان میں حکومت بنائیں گے۔

  • عبدالقدوس بزنجو کا وزیر اعلیٰ بلوچستان بننے کا امکان روشن

    عبدالقدوس بزنجو کا وزیر اعلیٰ بلوچستان بننے کا امکان روشن

    کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما عبدالقدوس بزنجو کا وزیر اعلیٰ بلوچستان بننے کا امکان روشن ہو گیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کے منصب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا وقت ختم ہو گیا ہے، عبدالقدوس بزنجو کے مقابلے میں کسی ایم پی اے نے کاغذات جمع نہیں کرائے۔

    بی اے پی کے قدوس بزنجو کا وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنا یقینی ہوگیا، ان کی جانب سے اسمبلی سیکریٹریٹ میں 5 کاغذات جمع کرائے گئے، ایک کاغذات نامزدگی پر بطور تائید اور تجویز کنندہ بشریٰ رند اور لیلیٰ ترین کے دستخط تھے، سیکریٹری اسمبلی کے مطابق صوبے کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کل اجلاس میں ہوگی۔

    آرٹیکل 130-4 کے تحت سی ایم کے انتخاب کے لیے کل ارکان کے اکثریتی ووٹ درکار ہیں، بلوچستان اسمبلی 65 کا ایوان ہے اور قدوس بزنجو کو 33 ووٹ درکار ہیں، جب کہ بی اے پی کو اتحادیوں سمیت ایوان میں 40 کے قریب اکثریت حاصل ہے۔

    قدوس بزنجو نے آج میڈیا سے گفتگو میں کہا میرا کام بولنا نہیں ڈیلیور کرنا ہے، سب کو ساتھ لے کر چلوں گا، جام کمال کا بھی شکریہ، انھوں نے ڈیلیور کیا ہے، کچھ مجبوریاں تھیں اس لیے ان کے خلاف نکلے تھے۔

    بلوچستان کی نئی حکومت سے متعلق پرویز خٹک کا دعویٰ

    کوئٹہ میں بی اے پی ترجمان عبدالرحمان کھیتران نے میڈیا سےگفتگو میں کہا قدوس بزنجو کے سلسلے میں اعتماد کرنے پر پارلیمانی جماعتوں کے مشکور ہیں، کل شام 4 بجے رولز کے مطابق اجلاس ہوگا اور قدوس بزنجو تاریخ میں پہلی بار بلا مقابلہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوں گے۔

    انھوں نے کہا نئی صوبائی حکومت میں 65 ایم پی ایز اپنے اپنے حلقوں میں ایم پی ایز نہیں، بلکہ وزیر اعلیٰ ہوں گے، جب کہ میر عبدالقدوس بزنجو متفقہ وزیر اعلیٰ ہوں گے، آنے والی حکومت میں سب کو عزت دیں گے، گردنوں میں سریا نہیں ہوگا، سب کو فنڈز بھی دیے جائیں گے۔

    انھوں نے کہا جام کمال سے ملاقات کروں گا، رابطےکی کوشش کی ہے، جام کمال، ثنااللہ زہری، اسلم رئیسانی کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔

  • بلوچستان کی نئی حکومت سے متعلق پرویز خٹک کا دعویٰ

    بلوچستان کی نئی حکومت سے متعلق پرویز خٹک کا دعویٰ

    کوئٹہ: وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان کی نئی حکومت پاکستان تحریک انصاف کا خیال رکھے گی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق بلوچستان کی نئی حکومت سازی کے حوالے سے وفاقی وزیر متحرک ہیں، اس حوالے سے انھوں نے صوبے کی اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں بھی کیں۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا کہ باپ کے اندرونی معاملات میں ہم نے مداخلت نہیں کی تھی، بلوچستان میں جو حکومت بننے جا رہی ہے وہ پی ٹی آئی کا خیال رکھے گی۔

    انھوں نے کہا کہ آج بھی ہم نے ان سے مشاورت کی ہے، ہم نہیں چاہتے بلوچستان میں پی ٹی آئی کم زور ہو۔

    انھوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی حکومت بلوچستان کی ترقی چاہتی ہے، انشاءاللہ بلوچستان کے لیے ایک بہترین حکومت تشکیل دی جائے گی، جو سارے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلے گی، جو کمی اور کمزوریاں تھیں وہ حال ہی میں ہونے والے تجربے کے بعد ختم ہو جائیں گی۔

    قبل ازیں، بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے بی اے پی کا وفد پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر یار محمد رند سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ پہنچا تھا، جس میں چیئرمین سینیٹ، عبدالقدوس بزنجو، ظہور بلیدی و دیگر رہنما شامل تھے، وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک بھی بی اے پی کے وفد کے ہمراہ تھے۔

    ظہور بلیدی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے پارلیمانی لیڈر سردار محمد رند، وزیر اعظم اور پرویز خٹک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا سردار یار رند کی بات درست ہے، بہت سے معاملات میں انھیں پوچھا نہیں گیا۔

    واضح رہے کہ گورنر ظہور آغا نے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 29 اکتوبر صبح 10 بجے طلب کر لیا ہے، جس میں نئے قائد ایون کا انتخاب کیا جائے گا۔

  • 24 گھنٹے کے اندر اندر ہمارے لوگ بازیاب کرائے جائیں، ناراض اپوزیشن اراکین نے مطالبہ کر دیا

    24 گھنٹے کے اندر اندر ہمارے لوگ بازیاب کرائے جائیں، ناراض اپوزیشن اراکین نے مطالبہ کر دیا

    کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے ناراض اور اپوزیشن اراکین نے مطالبہ کیا ہے کہ 24 گھنٹے کے اندر اندر ان کے لوگ بازیاب کرائے جائیں۔

    ناراض رکن اسد بلوچ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ جام کمال نے اسٹیپ ڈاؤن نہیں کیا تو پہیہ جام ہڑتال ہو سکتی ہے، ہمارے کسی بندے کو نقصان ہوا تو ذمہ دار جام کمال ہوں گے۔

    اسد بلوچ نے کہا کہ ہمیں پتا ہے کہ ہمارے لوگ کہاں ہیں، آج کل سائنس کا دور ہے، ہمیں معلوم ہے ہمارے لوگوں کو 25 اکتوبر کے بعد چھوڑ دیا جائے گا۔

    ملک سکندر نے پریس کانفرنس میں کہا 34 اراکین اسمبلی جام کمال کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بنے، اس عدم اعتماد کی تحریک کے بعد جام کمال بلوچستان کا وزیر اعلیٰ نہیں رہے۔

    انھوں نے کہا اراکین اسمبلی کو آئینی طور پر اسمبلی تک رسائی نہیں دی جا رہی، بلوچستان کے ایم پی ایز خصوصاً خواتین کی رائے کو دبانے کے لیے اغوا کیا گیا، ہم سب سے پہلے چیف سیکریٹری کے آفس گئے وہ غائب ہوگئے، باقی ایم پی ایز کو دھمکی آمیز فون آ رہے ہیں، ہم گورنر بلوچستان کے پاس گئے اور ان سے کہا آپ آئینی اختیارات استعمال کریں، ہم آئی جی ڈھونڈتے رہے ان کے گھر گئے تو پتا چلا وہ گھر پر نہیں ہیں۔

    سردار عبدالرحمان نے کہا چیف جسٹس نے جام کمال کی تینوں درخواستیں مسترد کر دیں، جام کمال ہارس ٹریڈنگ کر رہے ہیں، مجھے 10 کروڑ اور وزارت کی آفر کی گئی لیکن میں نے نہیں مانا، پھر 20 کروڑ کی پیش کش کی گئی۔

    دوسری طرف لاپتا رکن بلوچستان اسمبلی ماہ جبین شیران نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے بتایا ہے کہ وہ کچھ ذاتی مسائل کی وجہ سے کل اسمبلی نہیں پہنچ سکی تھیں، الحمدللہ میں ٹھیک ہوں اور محفوظ ہوں۔

    ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے ناراض اراکین کی پریس کانفرنس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ارکان کے لاپتا ہونے سے متعلق بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، یہ پی ڈی ایم کے غیر سنجیدہ ساتھی ہیں، ہم اراکین اسمبلی کو لا پتا کرنے سے متعلق الزام کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔

    واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کے مستقبل کا فیصلہ پچیس اکتوبر کو ہوگا، بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری پیر کی صبح گیارہ بجے ہوگی، دو دن قبل تحریک عدم اعتماد کی تینتیس ارکان نے کھڑے ہو کر حمایت کی تھی، وزیر اعلیٰ جام کمال نے استعفے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

  • ظہور بلیدی بی اے پی کے نئے پارلیمانی لیڈر مقرر

    ظہور بلیدی بی اے پی کے نئے پارلیمانی لیڈر مقرر

    کوئٹہ: ظہور بلیدی بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے نئے پارلیمانی لیڈر مقرر ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق بی اے پی کے قائم مقام صدر ظہور بلیدی کو پارٹی کا پارلیمانی لیڈر مقرر کر دیا گیا، نوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا۔

    ظہور بلیدی نے بلوچستان عوامی پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی کا اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ ان پر اعتماد کا اظہار کیا گیا اور کثرت رائے سے بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کا پارلیمانی لیڈر مقرر کر دیا گیا۔

    دوسری طرف ظہور بلیدی نے وزیر اعلیٰ جام کمال پر 4 حمایتی ایم پی ایز کو لاپتا کروانے کا الزام لگایا ہے، انھوں نے لاپتا ارکان کی بہ حفاظت بازیابی کے لیے آئی جی بلوچستان کو ایک درخواست بھی دے دی ہے۔

    تاہم جام کمال نے کسی بھی رکن کو لاپتا کرنے کے الزامات مسترد کر دیے، ٹوئٹ میں کہا کہ یہ پی ڈی ایم کی سازش ہے، اجلاس میں ارکان اپنی مرضی سے نہیں آئے، جھوٹا اور منفی پروپیگنڈا بند کریں۔

    وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے مستقبل کا فیصلہ 25 اکتوبر کو ہوگا

    وزیر اعلیٰ نے بطور ثبوت خاتون رکن اسمبلی بشریٰ رند کا ٹوئٹ ری ٹوئٹ کیا، جس میں بشریٰ رند کا کہنا تھا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں، وہ اسلام آباد علاج کے لیے آئی ہیں۔

    وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کا مستقبل کیا ہوگا؟ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ 25 اکتوبر کو رائے شماری پر ہوگا، اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 33 اراکین کی حمایت درکار ہے۔

  • جام کمال نے اپنی مرضی سے استعفیٰ دیا تھا، کور کمیٹی نے اس کی توثیق کی: ظہور بلیدی

    جام کمال نے اپنی مرضی سے استعفیٰ دیا تھا، کور کمیٹی نے اس کی توثیق کی: ظہور بلیدی

    کوئٹہ: بلوچستان کی سیاسی صورت حال کی گرمی بڑھتی جا رہی ہے، آج اسلام آباد میں موجود کوئٹہ کا وفد واپس روانہ ہو گیا، وفد نے چیئرمین سینیٹ اور ایم این ایز سے اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں، ناراض اراکین مائنس ون فارمولے پر ڈٹے رہے، اور جام کمال پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام بھی لگایا گیا۔

    اسلام آباد سے روانہ ہوتے وقت بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر سابق وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے جام کمال کے پارٹی سے استعفیٰ نہ دینے کے بیان پر کہا ہے کہ جام صاحب نے اپنی مرضی سے استعفیٰ دیا تھا، کور کمیٹی نے اس کی توثیق کی ہے، اور کمیٹی نے 10 دن انتظار کیا مگر انھوں نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔

    12 اکتوبر کو ظہور بلیدی کے قائم مقام صدر کے اعلان کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا تھا کہ وہ پارٹی صدارت سے مستعفی نہیں ہوئے، انھوں نے گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر کے نام خط لکھ کر بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر کی تعیناتی کی تردید کی۔

    انھوں نے کمیشن کو لکھا کہ میں نے استعفیٰ نہیں دیا، پارٹی کے صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہا ہوں، قائم مقام صدر کا انتخاب یا اس کے لیے سفارش جنرل سیکریٹری کا اختیار نہیں۔

    ناراض رکن ظہور بلیدی کو بی اے پی کا قائم مقام صدر بنا دیا گیا

    آج ظہور بلیدی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جام کمال نے الیکشن کمیشن سے دوبارہ رابطہ کیا ہے، آئین کے مطابق 3 سال کی مدت پوری ہو چکی ہے، نومبر میں پارٹی کے نئے صدر کا انتخاب کریں گے، جام کمال پارٹی صدارت چاہتے ہیں تو دوبارہ الیکشن لڑیں۔

    ظہور بلیدی نے کہا جام کمال کو کسی نے پارٹی صدارت سے استعفیٰ دینے کے لیے مجبور نہیں کیا تھا، انھوں نے خود استعفیٰ دیا تھا، وزارت اعلیٰ سے جام کمال کو موقع دیا کہ وہ خود مستعفی ہو جائیں، لیکن وہ تحریک عدم اعتماد کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں تو ان کا حق ہے، 14 ممبران نے تحریک عدم اعتماد پر دستخط کیے ہیں۔

    بلوچستان کے 3 ناراض وزرا کے استعفے منظور

    قبل ازیں، ظہور بلیدی، اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو، ترجمان بی اے پی سردار عبدالرحمان کھیتران اور ایم پی اے اکبر آسکانی اسلام آباد سے کوئٹہ روانہ ہوئے، ذرائع کا کہنا ہے کہ ظہور بلیدی کی زیر صدارت کل ناراض ارکان کا مشاورتی اجلاس ہوگا، جس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر مشاورت ہوگی۔

    بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان عبدالرحمان کھیتران نے کوئٹہ روانگی سے قبل اسلام آباد ایئر پورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا 21 اکتوبر تک بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے گا، اور 25 اکتوبر تک بلوچستان کو ایک خوب صورت اور اچھی حکومت دیں گے۔

    انھوں نے کہا نئے وزیر اعلیٰ کی گردن میں سریا نہیں ہوگا، ہر کسی کی رسائی ہوگی، نیا وزیر اعلیٰ بلوچستان عوامی ہوگا، دفتر کیا گھر کے دروازے بھی کھلے ہوں گے۔

    اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو نے اس موقع پر کہا ہم اسلام آباد گئے ہوئے تھے، چیئرمین سینیٹ، ایم این ایز سے مختلف ایشوز پر بات ہوئی، ہم نے 15 دن کی بجائے جام کمال کو ایک مہینہ دیا تھا، لیکن ایسا لگا جام کمال پارٹی کو یک جا کرنے میں سنجیدہ نہیں تھے، جب عدم اعتماد ہوگا تو پارٹی کو یک جا کریں گے۔

    بزنجو نے کہا جام کمال میڈیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جام کمال کا استعفیٰ دے کر واپس لینا زیب نہیں دیتا تھا، جام کمال کے قریبی افراد ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں، پتا چلے گا کتنے لوگ وہاں سے یہاں آتے ہیں۔

    واضح رہے کہ بی اے پی ترجمان نے گزشتہ روز جام کمال پر ہارس ٹریڈنگ کاالزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے مجھے میرے بیٹے کے ذریعےآفر بھیجی، میرے بیٹے کو من پسند وزارت اور دیگر پیش کش کی گئی،جام کمال میں اتنی جرت نہیں کہ مجھےآفر کرتے، ہم بے کار نہیں کہ جام کمال سے کچھ مانگیں۔