Tag: barsi

  • معروف گلوکار احمد رشدی کی 34ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    معروف گلوکار احمد رشدی کی 34ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    کراچی : ماضی کے منفرد ومقبول ترین گلوکار احمد رشدی کی چونتیسویں برسی آج منائی جارہی ہے۔احمد رشدی کو دنیا سے بچھڑے چونتیس برس بیت گئے لیکن ان کی جادوئی آواز آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

    منفرد آواز کے مالک احمد رشدی نے تین دہائیوں تک فلمی نگری پرراج کیا۔ انہیں پاکستان کاپہلا پاپ سنگر بھی کہا جاتا ہے۔ فلمی سچویشن اور شاعری کے ملاپ کو اپنی آواز سے پراثر بنانے میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔

     معروف گلوکار احمد رشدی عمدہ اور دلکش نغمات کی بدولت تین دہائیوں تک فلمی صنعت پر چھائے رہے ، شوخ وچنچل اور مزاحیہ گانوں میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ میں انہیں پہلی بارانگریز ی گیت گانے کابھی اعزاز حاصل ہے۔

    احمد رشدی نے اپنے فنی کیریئر کا اغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا، معروف گانے ،بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی رے گھوڑا گاڑی، نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

    احمد رشدی کا تعلق ایک قدامت پسند سید گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سید منظور احمد حیدرآباد دکن میں عربی اور فارسی کے استاد تھے۔ ان کا احمدرشدی کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ رشدی بچپن سے ہی موسیقی کے شوقین تھے۔

    انہوں نے پہلا گیت ہندوستان کی فلم "عبرت”(1951) کے لئے گایا. پھر پاکستان آ کر 1954 میں "بندر روڈ سے کیماڑی” گا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے. اس کے بعد رشدی نے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا. بڑے بڑے گلوکار ان کے آگے بجھ کر رہ گئے.

    احمد رشدی نے موسیقی کی تربیت باقاعدہ کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ ان کی یہ صلاحیت خداداد تھی۔ موسیقی اور گائیکی ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی تھی. رشدی ہندوستان کے مشہور فلمی گلوکار کشور کمار کے بھی آئیڈل تھے اور کشورکمار نے انگلستان میں رشدی مرحوم کے گانوں پر پرفارم کیا۔ انہوں نے غزل کی گائیکی میں بھی اپنی ایک منفرد طرزایجاد کی۔ یہ البیلا گلوکار ہر کردار میں اپنی آواز کا جادو بھر دیتا تھا۔

    چاکلیٹی ہیرو اداکار وحید مراد کے ساتھ رشدی کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ اس جوڑی کے سارے نغمے ہٹ ہوئے. ان کے انتقال کو برسوں گزرنے کے بعد اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ احمد رُشدی جیسا گلوکار پاکستان کی فلمی صنعت کو نہیں مل سکتا۔

    احمد رُشدی کو بے شمار ایوارڈز ملے. پاکستان کے صد‏‏ر پرویز مشرف کی حکومت نے ا ن کے انتقال کے  بیس سال بعد رُشدی کو "ستاره ا متيا ز” کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ ان کا نام پاکستان میں سب سے زیادہ گیت گانے والے گلوکار کے طور پر آیا۔ 5000 سے زیادہ نغمے گائے اور وہ بے شمار گیت آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں.

    انہوں نے ﮐﮁﮭ فلموں میں بھی کام کیا. رُشدی نے بہت خوبصورت تلفظ کے ساﮅﮭ نہ صرف اردو بلکہ بنگالی، اوڑیا‘ کننڈا، پنجابی، تامل، تلگو او ر مراٹھی میں بھی اپنی آواز پیش کی۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر پیسے لئے موسیقاروں کے لئے گیت گائے۔ وہ بہت سیدھے انسان تھے. احمد رُشدی نے کئی نسلوں کو اپنی آواز سے متاثر کیا ہے۔.

    احمد رشدی کو مالا کے ساتھ فلموں میں 100 سے زائد دوگانے، گانے کا اعزاز بھی حاصل ہے جو پاکستانی فلمی تاریخ میں کسی اور جوڑی کے حصے میں نہیں آسکا۔

     احمد رشدی کے دس مقبول ترین گیت، قارئین کی نذر

    روک اینڈ رول کے بادشاہ اور آواز کے جادوگر احمد رُشدی 11 اپریل 1983 کو کراچی میں 48 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے. آپ کو کراچی میں ہی دفن کیا گیا۔

    گلوکاراحمد رشدی کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جو کہ مرنے کے بعد بھی دنیا میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔

  • انشاء جی کو ہم سے بچھڑے 39 برس بیت گئے

    انشاء جی کو ہم سے بچھڑے 39 برس بیت گئے

    برصغیر کے نامور شاعر اور سفر نامہ نگار ابن انشاء کو دنیا سے کوچ کیے ہوئے انتالیس سال بیت گئے۔ ان کی شاعری اورمزاحیہ تحریریں آج بھی مقبول عام ہیں۔ ابنِ انشاء شاعر بھی تھے اور ادیب بھی، انہوں نےغزلیں نظمیں اور گیت لکھے۔ شاعری میں ان کا ایک مخصوص انداز تھا۔

    ابن انشاء کا اصلی نام شیر محمد خان اور تخلص انشاء تھا۔ آپ 15 جون 1927 کو جالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاوٴں کے اسکول میں حاصل کی۔ گاوٴں سے کچھ فاصلے پر واقع اپرہ قصبہ کے اسکول سے مڈل اور 1941ء میں گورنمنٹ ہائی سکول لدھیانہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اول پوزیشن حاصل کی۔

    انیس سو چھیالیس میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ 1962ء میں نشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ٹوکیو بک ڈوپلمنٹ پروگرام کے وائس چیرمین اور ایشین کو پبلی کیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن تھے۔

    insha-post-01

    روزنامہ جنگ کراچی اور روزنامہ امروز لاہورکے ہفت روزہ ایڈیشنوں اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں ہلکے فکاہیہ کالم لکھتے تھے۔ کچھ عرصہ کراچی میں گزارنے کے بعد آپ لاہور تشریف لے آئے، آپ کی بھرپور ادبی زندگی کا آغاز لاہور ہی سے ہوا۔

    بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی، کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنیوالے ادیب و شاعر ابن انشاء نا صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنیوالی تمام خوبیاں واصناف موجود تھیں۔

    کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا
    کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا ترا

    ابنِ اِنشاء ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔ انہوں نے غزل و نظم، سفر نامہ، طنز و مزاح اور ترجمے کے میدان میں طبع آزمائی کی اور اپنی شاعری و نثر کے وہ اَنمٹ نقوش چھوڑے کہ جن کی بنا پر اردو ادب میں ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کیلئے زندہ جاوید ہوگیا۔

    insha-jee

    ابن انشاء سرطان جیسے موذی مرض کا شکار ہو کر علاج کی غرض سے لندن گئے اور گیارہ جنوری 1978 کو وہیں وفات پائی، وفات کے بعد انہیں کراچی میں دفن کیا گیا۔ ابن انشاء اس وقت ہمارے ساتھ موجود نہیں مگر ان کی یادیں چاہنے والوں کو دلوں میں آج بھی زندہ ہیں ۔

    ان کی تصانیف میں

    شعری کلام: چاند نگر ۔ پہلا مجموعہ ۔ اس بستی کے اک کوچے میں، دوسرا مجموعہ، چینی نظمیں

    نثری تصانیف میں : اردو کی آخری کتاب ، خمار گندم ، چلتے ہو تو چین کو چلئے، آوارہ گرد کی ڈائری ، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں

    (ابن انشاء کی وہ شاہکارغزل جس کے لکھنے کے ایک ماہ بعد وہ دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔)
    جسے استاد امانت علی خان نے گا کر امر کردیا

    انشإ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
    وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا

  • شاعرفیض احمد فیض کو ہم سے بچھڑے 32 برس گزرگئے

    شاعرفیض احمد فیض کو ہم سے بچھڑے 32 برس گزرگئے

    خوبصورت لب ولہجے کے معروف ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کی آج بتیس ویں برسی منائی جارہی ہے، فیض احمد فیض تیرہ فروری انیس سو گیارہ کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، وہ علامہ اقبال، مرزا غالب کے بعد اردو ادب کے عظیم شاعر تھے۔

    جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم
    جوچلے تو جاں سے گزر گئے

    13 فروری 1911ء اردو کے خوب صورت لب و لہجے والے شاعر فیض احمد فیض کی تاریخ پیدائش ہے۔ فیض احمد فیض سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بلاشبہ اس عہد کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ ایسے شاعر اور ایسے انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے۔

    انہوں نے ساری زندگی ظلم، بے انصافی اور جبر و استبداد کے خلاف جدوجہد کی اور ہمیشہ شاعر کا منصب بھی نبھایا۔ وہ اردو شاعری کی ترقی پسند تحریک کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ ان کی فکر انقلابی تھی، مگر ان کا لہجہ غنائی تھا۔

    انہوں نے اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت سے انقلابی فکر اورعاشقانہ لہجے کو ایسا آمیز کیا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی اور ایک نئی طرز فغاں کی بنیاد پڑی جو انہی سے منسوب ہوگئی۔

    فیض نے اردو کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا اور انہی کی بدولت اردو شاعری سربلند ہوئی۔ فیض نے ثابت کیا کہ سچی شاعری کسی ایک خطے یا زمانے کے لئے نہیں بلکہ ہر خطے اور ہر زمانے کے لئے ہوتی ہے۔

    نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سروادی سینا، شام شہریاراں اور مرے دل مرے مسافر ان کے کلام کے مجموعے ہیں اور سارے سخن ہمارے اور نسخہ ہائے وفا ان کی کلیات۔ اس کے علاوہ نثر میں بھی انہوں نے میزان، صلیبیں مرے دریچے میں، متاع لوح و قلم، ہماری قومی ثقافت اور مہ و سال آشنائی جیسی کتابیں یادگار چھوڑیں۔

     : تعلیم
    آپ نے ابتدائی مذ ہبی تعلیم مولوی محمد ابراہیم میر سیالکوٹی سے حاصل کی ۔ بعد ازاں 1921 میں آپ نے اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا ۔ آپ نے میٹرک کا امتحان اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ اور پھر ایف اے کا امتحان مرے کالج سیالکوٹ سے پاس کیا ۔

    faiz-post-01

    آپ کے اساتذہ میں میر مولوی شمس الحق ( جو علامہ اقبال کے بھی استاد تھے) بھی شامل تھے ۔ آپ نے اسکول میں فارسی اور عربی زبان سیکھی۔ بی اے آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور پھر وہیں سے 1932 میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ بعد میں اورینٹل کالج لاہور سے عربی میں بھی ایم اے کیا۔

     : شادی 
    فیض احمد فیض نے 1930ء میں ایلس نامی خاتون سے شادی کی۔

    : ملازمت 
    1951 میں آپ نے ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرر کی حیثیت سے ملازمت کی۔ اور پھر ھیلے کالج لاہور میں ۔ 1942 میں آپ فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ھوگئے اور محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا ۔ 1943 میں آپ میجر اور پھر 1944 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا گئے۔

    1947 میں آپ فوج سے مستعفی ہو کر واپس لاہورآگئے اور 1959 میں پاکستان ارٹس کونسل میں سیکرٹری کی تعینات ہوئے اور 1962 تک وہیں پر کام کیا۔ 1964 میں لندن سے واپسی پرآپ عبداللہ ہارون کالج کراچی میں پرنسپل کےعہدے  پر فائز ہوئے۔

    faiz-post-02

     :راولپنڈی سازش کیس 

    وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
    وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

    9 مارچ 1951 میں آپ كو راولپنڈی سازش كیس میں معا ونت كے الزام میں حكومت وقت نے گرفتار كر لیا۔ آپ نے چار سال سرگودھا، ساھیوال، حیدر آباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ آپ كو 2 اپریل 1955 كو رہا كر دیا گیا ۔ زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لكھی گئیں۔

    فیض احمد فیض کی شاعری مجموعے میں نقش فریادی، دست سبا، نسخہ ہائے وفا، زنداں نامہ، دست تہہ سنگ، میرے دل میرے مسافر اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ فیض احمد کے مجموعات انگریزی، فارسی، روسی، جرمن اور دیگر زبانوں میں تراجم شائع ہوچکے ہیں۔

    فیض احمد فیض20 نومبر 1984ء کووفات پاگئے اور لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
    اردو ادب کے بہت سے ناقدین کے نزدیک فیض احمد فیض (1911 تا 1984) غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے عظیم شاعر ہیں۔

  • اےآروائی گروپ کےبانی حاجی عبدالرزاق یعقوب کی دوسری برسی

    اےآروائی گروپ کےبانی حاجی عبدالرزاق یعقوب کی دوسری برسی

    کراچی : اے آر وائی نیٹ ورک اور اے آر وائی گولڈ کے بانی چیئرمین حاجی عبد الرزاق یعقوب مرحوم کی دوسری برسی کے موقع پر مرحوم کے ایصالِ ثواب کیلئے مختلف شہروں میں آج مورخہ اکیس فروری بروز ہفتہ دعائیہ تقاریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ جبکہ کراچی میں بھی ان کی رہائش گاہ پر برسی کے سلسلے میں قرآن خوانی اور محفل نعت کا انعقاد کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق مرحوم حاجی عبد الرزاق یعقوب کی دینی خدمات اور اولیاء کرام سے محبت اور اے آر وائی کیو ٹی وی کے ذریعے پوری دنیا میں صوفیائے کرام کی تعلیمات کے فروغ کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

    حاجی عبدالرزاق یعقوب مرحوم کے ایصالِ ثواب، ان کے درجات کی بلندی اور مغفرت کیلئے درگاہ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ، درگاہ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء، درگاہ حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ،درگاہ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ، درگاہ حضرت سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ تونسہ شریف، درگاہ غلام محی الدین نیریاں شریف، درگاہ پیر سید مہر علی شاہ گیلانی، درگاہ سخی عبد الوہاب شاہ جیلانی، دربار عالیہ میاں سید خالد ظفر قدوائی رحمت ٹاؤن پیرمحل میں دعائیہ تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔

    کراچی میں بھی کئی مقامات پر دعائیہ محافل منعقد کی گئیں۔ اس موقع پرزندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کے علاوہ خواتین اور بچوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی،اس موقع پر ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی اور ختم شریف کا اہتمام کیا گیا۔۔

    حاجی عبد الرزاق یعقوب میمن۔1944۔۔2014 1972ءمیں اے آر وائی گروپ کی بنیاد رکھی ہزاروں افراد کوروز گار کے مواقع فراہم کیے۔

    مرحوم عظیم وژن رکھنے والے رہنما تھے ان کی صلاحییتوں کو عالمی سطح پرتسلیم کیا گیا، انہوں نے شب و روز محنت سے ملک کا نام روشن کیا۔

    2001 میں دبئی میں ورلڈ میمن آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی تجارتی پالیسی پر حکومت وقت کو اہم مشور ے دیئے پاکستان میں پہلے مذہبی چینل کیوٹی وی کی بنیاد رکھی سماجی شعبے میں شاندارخدمات انجام دیں ۔

    خواجہ غریب نواز ویلیفئرٹرسٹ انٹرنیشنل اور احساس انٹرنیشنل ٹرسٹ بنائے سچے عاشق رسول ،اولیا اللہ کے معتقد تھے متعدد ملکی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔

    حاجی عبد الرزاق سات مئی انیس سو چوالس کو بھارتی ریاست گجرات میں پیدا ہوئے حاجی عبدالرزاق ایک شفیق باپ ، ایک پیارے دوست، عظیم بھائی اور رہبر تھے۔

    کرکٹ کےلئے گراں قدر خدمات انجام دینے پر قومی ٹیم کے کھلاڑی بھی حاجی صاحب کی رحلت پر غمزدہ ہوئے ان کی رحلت سے کرکٹ کا بڑا نقصان ہوا۔

    کیو ٹی وی کی صورت میں انہوں نے اسلام کی جو خدمت کی مسلم امہ اسے ہمیشہ یاد رکھے گی۔

  • حاجی عبد الرزاق کی برسی پر سیاسی رہنماوں نےخراج عقیدت پیش کیا

    حاجی عبد الرزاق کی برسی پر سیاسی رہنماوں نےخراج عقیدت پیش کیا

    کراچی : ایم کیوایم قائد الطاف حسین ،ڈاکٹرطاہرالقادری سمیت دیگررہنماوں نے ا ےآروائی نیٹ کے بانی حاجی عبدالرزاق مرحوم کوزبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

    درد دل رکھنے والے حاجی عبدالرزاق نے اپنے سماجی کاموں سے دنیا میں ایک مثال قائم کی، حا جی عبدالزاق یعقوب 1944میں انڈیا کے شہر سورت میں پیدا ہو ئے ۔

    قیام پا کستان کے بعد عبدالرزاق یعقوب اپنے والدین کے ہمراہ پا کستان آئے 1969میں حا جی صا حب دبئی تشریف لے گئے۔

    حا جی یعقوب نے انتہا ئی قلیل سرما ئے سے اپنے کا کاروبا رکا آغا زکیا 1972میں حا جی صا حب نےاے آر وائی کی بنیا د رکھی حا جی عبدالرزاق یعقوب ورلڈ میمن آرگنا ئزیشن کے سربراہ تھے۔

    اے آروائی نیوز کے بانی حاجی عبدالرزاق مرحوم کی پہلی برسی پر سیاسی ومذہبی جماعتوں نے ملت اسلامیہ اور دکھی انسانیت کے لیے ان کی خدمات کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔

     ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے کہاکہ حاجی عبدالرزاق مرحوم نے علم اور معلومات کے خزانے کو جس طرح دوسروں تک پہنچانے کیلئے اے آر وائی ڈیجیٹل کو استعمال کیا وہ ان کی انتھک محنت ولگن، کاوشوں اور دواندیشی کا کھلا ثبوت ہے ۔

    پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری نے کہا ہے کہ حاجی عبد الرزاق نےعمر بھر اسلام ،پاکستان اور عوام کی خدمت کی ، مرحوم سچے عاشق رسول ﷺ اور محب وطن پاکستانی تھے ۔

    پیپلزپارٹی کے رہنما رحمان ملک نے کہا ہے کہ ان جیسا فرشتہ صفت انسان انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

     رہنماؤں کا کہنا تھا حاجی عبدلرزاق نے ملک اور قوم کیلئے ناقابل فرامو ش خدمات انجام دیں، انہوں نے انسانیت کی خدمت کیلئے اپنی تمام عمر وقف کی۔

    حا جی یعقوب انتہا ئی ملنسار شخصیت کے ما لک تھے حا جی یعقوب اپنے ادارے سے منسلک افراد کو اپنے گھر کا فرد سمجھتے تھے، حاجی عبدالرزاق اولیا ءوصوفیا ئے کرام سے انتہا ئی عقیدت رکھتے تھے۔

    اے آروائی گروپ کے مرحوم چئیرمین و بانی حاجی عبدالرزاق یعقوب کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا مگر اسلام اور ملک کے لیے انکی بے لوث خدمات پر انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو

    ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

  • حاجی عبدالرزاق یعقوب کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا

    حاجی عبدالرزاق یعقوب کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا

       ۔                  بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی …….اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

    کراچی : فنون لطیفہ کے قدردان اےآروائی گروپ کے بانی حاجی عبدالرزاق یعقوب کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا۔

    درد دل رکھنے والے حاجی عبدالرزاق نے اپنے سماجی کاموں سے دنیا میں ایک مثال قائم کی، حا جی عبدالزاق یعقوب 1944میں انڈیا کے شہر سورت میں پیدا ہو ئے ۔

    قیام پا کستان کے بعد عبدالرزاق یعقوب اپنے والدین کے ہمراہ پا کستان آئے 1969میں حا جی صا حب دبئی تشریف لے گئے۔

    حا جی یعقوب نے انتہا ئی قلیل سرما ئے سے اپنے کا کاروبا رکا آغا زکیا 1972میں حا جی صا حب نےاے آر وائی کی بنیا د رکھی حا جی عبدالرزاق یعقوب ورلڈ میمن آرگنا ئزیشن کے سربراہ تھے۔

    حا جی یعقوب فلا حی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، حا جی یعقوب کے سو گواران میں 5 بیٹیاں اور ہزاروں افراد شامل ہیں۔

    حا جی یعقوب انتہا ئی ملنسار شخصیت کے ما لک تھے حا جی یعقوب اپنے ادارے سے منسلک افراد کو اپنے گھر کا فرد سمجھتے تھے، حا جی عبدالرزاق اولیا ءوصوفیا ئے کرام سے انتہا ئی عقیدت رکھتے تھے۔

  • گلو کارہ ملکہ پکھراج کو بچھڑے گیا رہ برس بیت گئے

    گلو کارہ ملکہ پکھراج کو بچھڑے گیا رہ برس بیت گئے

    لاہور : غزل، راگ اور گیت گا ئیگی کا ذکر ہو اور ملکہ پکھراج کا نا م نہ گو نجے بھلا کیسے ممکن ہے، ملکہ پکھراج کا شمار ان کلا کا روں میں ہوتا ہے جن کی آواز کا جادو آج بھی شائقین مو سیقی کو اپنے سحر میں جکڑے ہو ئے ہے۔

    انہوں نے حفیظ جا لندھری کی غزل ابھی تو میں جوان ہوں کو امر کر د یا ملکہ پکھراج راگ پہاڑی اور ڈوگری زبانوں کی لوک موسیقی کی ماہر تھیں ،چالیس کی دہائی میں ان کا شمار برصغیر کے صف اول کے گانے والوں میں ہوتا تھا ،وہ ٹھمری کے انگ میں غزل گاتیں تو سامعین سر دھنتے۔

    ملکہ پکھراج جموں و کشمیر ریاست کے راجہ ہری سنگھ کے دربار سے وابستہ رہیں۔ شیخ عبداللہ کی کتاب آتش چنار میں اس کا ذکر ہے کہ وہ مہاراجہ سے کتنا قریب تھیں۔

    انہیں راجہ ہری سنگھ کا دربار ہنگامی طور پر اس لیے چھوڑنا پڑا کہ ان پر راجہ کو زہر دے کر مارنے کا الزام لگا دیا گیا تھا۔ وہ جموں سے پہلے دہلی گئیں اور پھر پاکستان بننے کے بعد وہ لاہور آگئیں جہاں انہیں پکھراج جموں والی کے نام سے جانا جاتا تھا۔

    لاہور میں ان کی شادی شبیر حسین شاہ سے ہوئی جنہوں نے پاکستان ٹی وی کا مشہور اردو ڈرامہ سیریل جھوک سیال بنایا تھا۔

    ملکہ پکھراج نے حفیظ جالندھری کی بہت سی غزلیں اور نظمیں گائیں جن میں سے کچھ بہت مشہور ہوئیں، خاص طور پر: ’ابھی تو میں جوان ہوں‘۔ ریڈیو پاکستان کے موسیقی کے پروڈیوسر کالے خان نے زیادہ تر ان کے لیے دھنیں بنائیں۔

    چھوٹی بیٹی مشہور گلوکارہ طاہرہ سید ہیں جو اپنی والدہ کی طرح ڈوگری اور پہاڑی انداز کی گائیکی میں مہارت رکھتی ہیں۔

    ملکہ پکھراج کا تعلق جموں سے تھا اوروہ انیس سو چودہ میں پیدا ہوئیں،گیا رہ فروری دو ہزار چار کو یہ عظیم مغنیہ جہان فانی سے کو چ کر گئیں۔

  • گلو کارہ ملکہ پکھراج کو بچھڑے گیارہ برس بیت گئے

    گلو کارہ ملکہ پکھراج کو بچھڑے گیارہ برس بیت گئے

    کراچی: نامور گلو کارہ ملکہ پکھراج کو بچھڑے گیا رہ برس بیت گئے۔

    غزل، راگ اور گیت گا ئیگی کا ذکر ہو اور ملکہ پکھراج کا نا م نہ گو نجے بھلا کیسے ممکن ہے، ملکہ پکھراج کا شمار ان کلا کاروں میں ہوتا ہے جن کی آواز کا جادو آج بھی شائقین مو سیقی کو اپنے سحر میں جکڑے ہو ئے ہے۔

    ملکہ پکھراج نے حفیظ جالندھری کی بہت سی غزلیں اور نظمیں گائیں جن میں سے کچھ بہت مشہور ہوئیں، خاص طور پر: ’ابھی تو میں جوان ہوں‘۔ ملکہ پکھراج راگ پہاڑی اور ڈوگری زبانوں کی لوک موسیقی کی ماہر تھیں۔

    چالیس کی دہائی میں ان کا شمار برصغیر کے صف اول کے گانے والوں میں ہوتا تھا ،وہ ٹھمری کے رنگ میں غزل گاتیں تو سامعین سر دھنتے۔

    ملکہ پکھراج 1912میں جموں کشمیر کے گا ؤں میر پور میں پیدا ہو ئیں ملکہ پکھراج 9برس تک مہا راجہ ہری سنگھ کے دربار سے وابستہ رہیں ملکہ پکھراج نے راگ پہا ڑی کو نئی جہت دی ملکہ پکھراج4فروری2004کو انتقال کرگئیں۔

  • پی پی نے ہمیشہ دہشت گردوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا، شیری رحمان

    پی پی نے ہمیشہ دہشت گردوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا، شیری رحمان

    سکھر: آصفہ بھٹو زرداری تولاڑکانہ میں موجود تھیں مگر پھر بھی سیکیورٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو اسٹیج پر نہیں لایا گیا،پارٹی کی قیادت آصف علی زرداری جلسے میں موجود تھے اور انھوں نے اپنی تقریر میں بلا کس کو کہا وہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار پیپلزپارٹی کی مرکزی رہنماءشیری رحمان نے  آئی بی اے سکھر میں میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کیا،انہوں نے کہا کہ  فوجی عدالتوں کو پاکستان پیپلز پارٹی نے تسلیم کیا ہے لیکن اسے غلط استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

    اے پی سی کا اجلاس گیارہ گھنٹے تک جاری رہا جس میں فوجی عدالتوں سمیت بیس نکاتی ایجنڈا شامل تھا  شیری رحمن کا کہنا تھا کہ پی پی نے دہشت گردوں کا ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور سیکیورٹی کی وجوہات  کی بناءپر بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو زرداری برسی  کی تقریب میں شریک نہ ہوئے۔

    انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سانحہ پشاور اور کارساز کے واقعات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کوئی بھی رسک نہیں لینا چاہتی، پیپلز پارٹی کے لیڈر آصف زرداری برسی جلسے میں اسٹیج پر موجود تھے ۔

    اسی لئے بختاور بھٹو لاڑکانہ میں ہوتے ہوئے بھی اسٹیج پر نہیں آئیں، انکا کہنا تھا کہ برسی میں سندھ کی قیادت موجود تھی اور چاروں صوبوں میں سیکیورٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے الگ الگ برسی کے پروگرام منعقد کئے گئے۔

    ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نے بلا کس کو کہا وہ آپ بخوبی اور اچھی طرح جانتے ہیں۔

  • فوجی عدالتوں کا غلط استعمال نہیں ہونے دیں گے،آصف زرداری

    فوجی عدالتوں کا غلط استعمال نہیں ہونے دیں گے،آصف زرداری

    لاڑکانہ : پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کو اس لئے قبول کیا کہ وہ سیاسی جماعتوں اور صحافیوں کی خلاف استعمال نہیں ہونگی، ان کا کہنا تھا کہ مخدوم امین فہیم نے نہ پہلے کبھی غداری کی تھی نہ اب کریںگے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں بے نظیر بھٹوشہید کی ساتویں برسی کے موقع پر ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    آصف علی زرداری نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ مخالفین  نے بلاول زرداری ،میرے اور پیپلز پارٹی  کے حوالے سےافواہیں پھیلا رکھی ہیں۔

    ملٹری کورٹس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کا غلط استعمال نہیں ہونے دینگے، اگر فوجی عدالتوں سے متعلق یقین دہانی کرائی گئی تو اس پر دستخط کردیں گے،کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے دنوں میں میں  اور میاں صاحب دونوں جیل میں ہوں۔

    آصف زرداری نے کہا کہ پشاورمیں ہمارے بچوں کو شہید کیا گیا اور شارع فیصل پر سانحہ کارساز میں بھی ہمارے بچے شہید ہوئے، انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کا نام  لئے بغیر کہا کہ اگر سانحہ کارساز کے بعد بلّا آپریشن کر دیتا توسانحہ پشاور نہ ہوتا،اور ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

    انہوں نے کہا کہ اگر فوج کو بِلّے سے سیاست ہی کرانی ہے تو صاف بتادے، ایک طرف تو بِلا ضمانت پر ہے تو دوسری جانب فوج اس کے ساتھ کھڑی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بی بی بینظیر شہید نے کہا تھا کہ میرے بعد آصف زرداری ہی پارٹی سنبھالیں گے، انہوں نے کہا کہ میری سیاسی تربیت محترمہ شہید بے نظیر بھٹو نے کی ہے۔