Tag: BBC report

  • ٹرمپ کابینہ میں شامل شخصیات کی پاکستان سے متعلق کیا رائے ہے؟

    ٹرمپ کابینہ میں شامل شخصیات کی پاکستان سے متعلق کیا رائے ہے؟

    امریکا کے حالیہ صدارتی انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالنے سے قبل مختلف عہدوں پر اپنی اہم اور پسندیدہ شخصیات کو تعینات کرنا شروع کردیا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کابینہ میں ایسی کئی شخصیات شامل ہیں جو ماضی میں جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان، بھارت اور مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنے بیانات کے باعث میڈیا کی خبروں کا حصہ رہے ہیں۔

    سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو

    ان شخصیات میں سرفہرست مارکو روبیو ہیں جنہیں سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے، مارکو روبیو چین کے حوالے سے انتہائی سخت مؤقف رکھتے ہیں، وہ چین کو امریکا کا سب سے بڑا ترقی یافتہ مخالف سمجھتے ہیں۔

    سینیٹر مارکو روبیو ماضی میں ٹرمپ کے مخالف رہے ہیں لیکن انہیں خارجہ پالیسی امور کا ایک ماہر سمجھا جاتا ہے۔

    رواں برس جولائی میں سینیٹر مارکو روبیو اس وقت بھی خبروں میں آئے تھے جب انہوں نے امریکی سینیٹ میں انڈیا کی حمایت اور پاکستان کی مخالفت میں ایک بِل متعارف کروایا تھا، اس بِل میں کہا گیا تھا کہ انڈیا کیخلاف بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکا جائے۔

    قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز

    فلوریڈا کے رُکنِ کانگریس مائیک والٹز کو قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے، وہ ایشیا پیسیفک میں چینی سرگرمیوں پر تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکا کو خطے میں ممکنہ تنازع کیلئے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

    مائیک والٹز پاکستان کے بھی شدید مخالف اور نقاد رہے ہیں، گزشتہ سال ایک بھارتی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے پاکستان کو اپنے نشانے پر رکھا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت اور اس کے اداروں کو اس سے آگے بڑھنا ہوگا اور ہم دباؤ ڈالتے رہیں گے۔

    ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس تُلسی گبارڈ

    نومنتخب امریکی صدر نے سابق رُکن کانگریس تِلسی گبارڈ کو نیشنل انٹیلیجنس کا ڈائریکٹر نامزد کیا ہے۔

    بی بی سی کے مطابق ماضی میں تُلسی گبارڈ بھی پاکستان مخالف بیانات دیتی ہوئی نظر آئیں انہوں نے سال2017 میں پاکستان پر اُسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام بھی عائد کیا تھا، اس کے علاوہ انہوں نے کانگریس میں پاکستان کیلئےے امریکی امداد بھی روکنے کی کوشش کی تھی۔

    ڈائریکٹر سی آئی اے ون ریٹکلف

    جون ریٹکلف کو بطور سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کا سربراہ نامزد کیا گیا ہے، یہ پہلے دورِ صدارت میں نیشنل انٹیلیجنس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پاکستان چین اور ایران کے حوالے سے انتہائی سخت مؤقف رکھتے ہیں۔

    سفیر برائے اقوام متحدہ الیز اسٹفنیک

    نومنتخب امریکی صدر  نے ڈونلڈ ٹرمپ نے الیز اسٹفنیک کو اقوام متحدہ میں اپنا سفیر نامزد کیا ہے، ان کے اسلام مخالف پاکستان مخالف اور چین سے متعلق اختلافی بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں، انہوں نے چین پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ وہ الیکشن میں مداخلت کررہا ہے۔

    وزیر برائے حکومتی کارکردگی ایلون مسک

    امریکہ کے نومنتخب صدر  نے اپنی کابینہ میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس اور ٹیسلا کے بانی ایلو مسک کو اپنی کابینہ میں اہم ذمہ داری سونپی ہے، ایلون مسک کے بارے میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ سرکاری بیورو کریسی کو ٹھیک کرنے اور فضول اخراجات میں کمی جیسے اہم اقدامات کیلئے راہ ہموار کریں گے جو امریکا بچاؤ تحریک کیلئے ضروری ہے۔

    ایلون مسک کی اہم ایرانی عہدیدار سے ملاقات

    غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایکس کے مالک ایلون مسک نے گزشتہ روز اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب امیر سعید ایروانی سے ملاقات کی ہے، اس موقع پر دونوں شخصیات نے ایران کی کشیدگی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ ایرانی مندوب نے ایلون مسک سے ایران پر لگی پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ تاہم نومنتخب صدر کے عملے نے اس ملاقات کے حوالے سے کسی قسم کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس ملاقات کے بعد ایران کی جانب سے باقاعدہ ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں ایران کا کوئی کردار نہیں، یاد رہے کہ ٹرمپ پر حملے کے بعد بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے حملے کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا گیا تھا۔

  • بھارتی ادویات دنیا بھر میں موت کا ذریعہ بن گئیں، بی بی سی

    بھارتی ادویات دنیا بھر میں موت کا ذریعہ بن گئیں، بی بی سی

    جموں : ادویات سازی کے حوالے سے بھارت کا شمار دنیا کے اہم ممالک میں کیا جاتا ہے، تقریباً تین ہزار دوا ساز کمپنیاں ملک بھر میں ادویات کی 10 ہزار فیکٹریاں چلاتی ہیں جہاں سے امریکا سمیت دیگر ممالک کو ادویات کی ترسیل کی جاتی ہے۔

    دوسری جانب مغربی افریقی ملک گیمبیا میں گزشتہ سال کھانسی کا شربت پینے سے کم از کم 70 بچوں کی ہلاکت کے بعد بھارت کی ادویہ ساز اداروں کو شدید جھٹکا لگا۔

    برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے بھارت میں تیار کردہ دوائیوں سے ہونے والی اموات کے بارے میں اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گیمبیا اور ازبکستان میں ہونے والی تازہ اموات نے بین الاقوامی شہ سرخیوں میں جگہ پائی ہے جس سے بھارت کی دوا سازی کی صنعت میں ادویات کے معیار پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

    بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ماہر صحت دنیش ٹھاکر اور ایڈووکیٹ پرشانت ریڈی اپنی کتاب” دی ٹروتھ پِل” میں لکھتے ہیں کہ بھارت میں ڈائیتھیلین گلائکول زہر کا پہلا کیس 1972میں ریکارڈ کیا گیا تھا جب جنوبی ریاست تامل ناڈو میں 15بچے ہلاک ہوئے تھے۔

    اس کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے رام نگر اور متعدد بھارتی ریاستوں میںبڑے پیمانے پر زہریلی ادویات کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

    کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مذکورہ مصنفین کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ڈائیتھیلین گلائکول زہر کی تشخیص کرنا مشکل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کمپنیاں عام طور پرمارکیٹ میں بھیجنے سے پہلے یا تو خام مال یا حتمی فارمولیشن کی جانچ نہیں کرتیں۔

    کھانسی کا شربت

    بھارتی ریگولیٹرز نے کہا ہے کہ گیمبیا میں بچوں کی اموات سے منسلک کھانسی کے چار شربتوں کی تحقیقات جاری ہے جن کی عالمی ادارہ صحت نے نشاندہی کی تھی۔ اس فرم کا مینوفیکچرنگ لائسنس منسوخ کر دیا گیا ہے جس کی مصنوعات مبینہ طور پر ازبکستان میں ہلاکتوں کا باعث بنیں۔

    ادارے نے کھانسی کے شربت بنانے والوں کے لیے بھی اپنی مصنوعات کو برآمد کرنے سے پہلے نمونوں کی جانچ کرنا لازمی قرار دے دیا ہے۔ زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک پون کمار ہے جس کی عمر 15 ماہ تھی جب اس نے کھانسی کا یہی شربت پیا تھا۔

    والدین کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کی موت کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔مرفہ بیوی کہتی ہیں جن کا تین سالہ بیٹا عرفان شربت پینے کے 10دن بعد ہلاک ہوگیا”ہم انصاف چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قاتلوں کو سزا دی جائے”۔

    جموں میں ایک سماجی کارکن سکیش کھجوریا نے کہاکہ مینوفیکچرر اور ڈرگ کنٹرول افسران اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے۔

    جموں و کشمیر کی ڈرگ کنٹرولر لوتیکا کھجوریا نے بی بی سی کو بتایا کہ کھانسی کے شربت کے جو نمونے رام نگر میں اکٹھے کیے گئے اور چندی گڑھ کی ایک لیب میں جانچ کے لیے بھیجے گئے ان میں “34فیصد سے زیادہ ڈائی تھیلین گلائکول تھا۔

    مس کھجوریا کے مطابق نمونوں کے نتائج کی تصدیق کولکتہ کی ایک اور لیب نے بھی کی ہے،ماہر امراض اطفال بھونیت بھارتی کی سربراہی میں ماہرین کی ایک ٹیم جس نے اموات کی تحقیقات کی تھی اسی نتیجے پر پہنچی۔

  • ارشد شریف قتل کیس : بی بی سی کی رپورٹ میں کئی انکشافات

    ارشد شریف قتل کیس : بی بی سی کی رپورٹ میں کئی انکشافات

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں اہم انکشافات کیے ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ شہید ارشد شریف پر فائرنگ کس کس نے  کی؟ فائرنگ کا اصل وقت کیا تھا؟

    کیا قتل کی منصوبہ بندی کینیا سے باہر کی گئی؟ فائرنگ کے بعد ارشد شریف کی موت جائے وقوعہ پر فوری واقع ہوئی یا وہ جب تک زندہ تھے۔ بی بی سی کے رپورٹر نے اپنی اہم رپورٹ میں قتل سے منصوب کرداروں کے بیانات میں متعدد تضادات سامنے رکھ دیئے۔

    بی بی سے سے گفتگو کرتے ہوئے شہید ارشد شریف کی والدہ اور اہلیہ نے ایک بار پھر انصاف کے لیے دہائیاں دیں، ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہمیں بولنے نہیں دیا گیا اب کم از کم انصاف تو کردیں۔

    اہلیہ سمعیہ ارشد نے کہا کہ ارشد شریف کو کافی عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں تاہم ہم بہت محتاط بھی تھے لیکن اندازہ نہیں تھا کہ کوئی اس حد تک بھی جاسکتا ہے۔

    بی بی سی کی ٹیم کینیا پہنچی، جائے وقوعہ کا دورہ کیا پولیس اسٹیشن سے تفصیلات لیں اور مقتول کی گاڑی کاجائزہ اور اہم شخصیات سے بات چیت کی۔

    یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کینیا پولیس کے اہلکاروں نے ارشد شریف کیس سے متعلق معلومات دینے کے لیے مبینہ طور پر بی بی سی کی ٹیم سے رشوت طلب کی۔

    ارشد شریف پر فائرنگ میں ملوث جی ایس یو کے عملے کو احکامات کس نے دئیے اور منصوبہ بندی کہاں ہوئی جی ایس یو کے سابق اہلکار جارج مساملی کے بیان نے معاملے کو نیا رخ دے دیا۔

    بی بی سی کی رپورٹ میں فائرنگ کی ٹائمنگ سے متعلق بیانات میں تضادات کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے، واقعے سے متعلق مختلف افراد فائرنگ کا وقت مختلف بتارہے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ارشد شریف کو مردہ حالت میں سب سے پہلے دیکھنے والے افراد کے بیانات میں بھی واضح تضاد موجود ہے، گاڑی میں موجود ارشد شریف کی کیا حالت تھی، ڈرائیور خرم جب گاڑی لے کر ریزورٹ پہنچا تو گارڈ جوزف نے کیا دیکھا، گارڈ نے بی بی سی رپورٹر کو ساری تفصیلات بیان کردیں۔

    بی بی سی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے آئی پیڈ اور آئی فون سے متعلق سوالات اور کسی بیرونی ایجنسی یا فرد کے ملوث ہونے کے شواہد کا بھی آئیپوا چیف کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اہلکاروں کے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم اور اپنی تحقیقاتی ٹیم کو اسلحے کے استعمال کے بارے میں دئیے گئے بیانات میں بھی کئی جھول ہیں۔

    کبھی اہلکاروں نے کہا کہ انہوں نے فائرنگ کی کبھی کہا نہیں کی، گاڑی پر مجموعی طور پر گولیوں کے نو نشانات موجود ہیں جبکہ پولیس کو اس مقام سے تیرہ خول ملے ہیں۔

    اس حوالے سے کینیا کے وزیر داخلہ کیتھورے کنڈیکی نے بی بی سی کو انٹرویو میں اس بات کی تردید کی کہ ان کی حکومت یا ادارے نے پاکستان سے تعاون نہیں کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ کیس کی تحقیقات کو طول دینا کسی صورت کینیا کے مفاد میں نہیں ہے، پاکستانی شہریوں اور ارشد شریف کے خاندان کو یقین دلاتا ہوں کہ جلد ازجلد قتل کی تحقیقات مکمل کرلیں گے۔

  • سابق انگلش کپتان کی مسلمان کھلاڑی سے معافی

    سابق انگلش کپتان کی مسلمان کھلاڑی سے معافی

    سابق انگلش کپتان مائیکل وان نے یارکشائر کے سابق کھلاڑی عظیم رفیق کیس سے متعلق اہم بیان جاری کرکے اپنی شرمندگی کا اظہار کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ وہ عظیم رفیق کو پہنچنے والی تکلیف پر معافی مانگتے ہیں۔

    سابق کرکٹر عظیم رفیق نے برطانیہ کے کرکٹ کلب یارکشائر میں سال 2008 سے 2014 اور پھر 2016 سے 2018 کے دوران کرکٹ کھیلنے کے عرصے میں نسلی امتیاز کا سامنا کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن بورڈ نے اندرونی تفتیش کے بعد ان کے الزامات کو رد کر دیا تھا۔

    ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران کرکٹ کی معروف ویب سائٹ کرک انفو نے جب اس رپورٹ کا ذکر اپنی ایک خبر میں کیا تو اس کے بعد سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر یہ بات زیر بحث آئی اور کرکٹرز سے لے کر برطانوی سیاست دانوں تک نے اس پر اپنی رائے دینا شروع کردی۔

    اس کے بعد یارکشائر کرکٹ کلب کے چیئرمین راجر ہٹن نے کلب کی جانب سے سابق کھلاڑی عظیم رفیق کے ساتھ نسلی امتیاز پر مبنی رویے کے الزامات کے خلاف خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔

    ساتھ ہی عظیم رفیق کو کھیلوں کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے مزید شواہد دینے کے لیے پیش ہونے کا بھی کہا گیا۔ اس دوران رپورٹ میں عظیم رفیق نے جن لوگوں پر الزامات لگائے تھے ان میں مائیکل وان کا نام بھی سامنے آیا۔ رفیق کے مطابق وان نے ایشین نژاد کھلاڑیوں پر نسل پرستانہ جملہ کسا تھا۔

    حال ہی میں بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں وان اس بات پر قائم ہیں کہ انھوں نے یارکشائر کی طرف سے کھیلتے ہوئے اس طرح کی کوئی گفتگو نہیں کی تھی لیکن انھوں نے ماضی میں کی گئی ٹویٹس کے بارے میں افسوس کا اظہار کیا۔

    ’مجھے اس سے بہت زیادہ تکلیف ہوئی۔ ایک کھلاڑی کو ان ساری چیزوں سے گزرنا پڑا اور اتنا کچھ سہنا پڑا، وہ بھی اس کلب میں جس سے مجھے پیار ہے۔ مجھے ایک طریقے سے اس کی کچھ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کیونکہ میں 18 سال تک یارکشائر کرکٹ کلب کے ساتھ وابستہ رہا۔ اگر میں اس تکلیف کا کسی بھی طریقے سے ذمہ دار ہوں تو میں معافی مانگتا ہوں۔‘

    جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے کسی بھی قسم کی نسل پرستانہ گفتگو کی تھی تو ان کا جواب تھا ’نہیں۔ میں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔‘

    مائیکل وان انگلش ٹیسٹ ٹیم کے 2003 سے لے کر 2008 تک کپتان رہے۔ انھوں نے 1993 اور 2008 کے دوران کھیلے گئے اپنے پورے ڈومیسٹک کرکٹ کیریئر میں یارکشائر کی نمائندگی کی۔

    ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بی بی سی ٹیسٹ میچ سپیشل ٹیم کے ساتھ کام کرتے رہے لیکن اب وہ بی بی سی کی ایشز سیریز کی کوریج کا حصہ نہیں ہوں گے۔

    بی بی سی بریکفاسٹ شو کے ڈین واکر کے ساتھ بات کرتے ہوئے وان نے کہا: ’نسل پرستی کرکٹ میں ایک مسئلہ ہے جسے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے کبھی بھی ڈریسنگ روم میں نسل پرستانہ گفتگو نہیں سنی لیکن ایسی چیزیں ضرور سنی ہیں جو کہ آج کے دور میں قابلِ قبول نہیں ہوں گی۔‘

    ’مجھے رفیق کے ساتھ مل کر یارکشائر کلب کو اس سارے معاملے سے نکلنے میں اور آگے بڑھنے میں مدد کرنے پر خوشی ہو گی۔ انھیں امید ہے کہ اگلے برس وہ بی بی سی کے لیے دوبارہ کمنٹری کریں گے۔‘

    نسل پرستی کے واقعے کا مبینہ الزام
    عظیم رفیق نے الزام لگایا تھا کہ مائیکل وان نے انہیں اور تین دوسرے ایشین نژاد کھلاڑیوں سے کہا تھا کہ تم لوگ بہت زیادہ تعداد میں ہو گئے ہو۔ ہمیں اس کا کچھ کرنا پڑے گا۔

    ان کے الزامات کی تصدیق سابق پاکستانی بالر رانا نوید الحسن اور انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے لیگ اسپنر عادل رشید نے کی جن کے مطابق انھوں نے وان کو یہ جملہ کہتے ہوئے سنا تھا۔

    چوتھے کھلاڑی اور بولر اجمل شہزاد نے برطانوی جریدے ڈیلی میل سے انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ انھیں یہ واقعہ یاد نہیں اور تمام سینیئر کھلاڑیوں نے ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا تھا۔

    وان، جنھوں نے اس واقعے کی تحقیقات میں حصہ نہیں لیا تھا، کہتے ہیں کہ انھیں یہ واقعہ یاد نہیں اور نہ ہی انھیں ان الفاظ کا علم ہے، جس کا ان پر استعمال کرنے کا الزام ہے۔

    ’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے اس بات پر بہت فخر تھا کہ ہمارے پاس چار ایسے ایشین نژاد کھلاڑی ہیں جو کہ یارکشائر کرکٹ کلب کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ میں اس وقت ایک سینیئر پروفیشنل کھلاڑی تھا جو فخر اور خوشی سے ریٹائر ہو رہا تھا کہ یارکشائر میرے وقت میں کتنا آگے آ گیا ہے۔‘

    کھیلوں کی پارلیمانی امور کی کمیٹی کے سامنے پیش ہوتے ہوئے رفیق نے کہا تھا کہ مائیکل وان کو شاید یہ واقعہ یاد نہ ہو کیونکہ ان کے لیے یہ بڑی بات نہیں تھی۔

    وان کہتے ہیں ’مجھے اس سے اس لیے تکلیف ہوئی کیونکہ میں جس ٹیم کے ساتھ بھی رہا ہوں، چاہے پھر وہ چھ برس تک انگلینڈ کی کپتانی ہی کیوں نہ ہو، لوگوں نے ہمیشہ میری سب کو ساتھ لے کر چلنے کی خاصیت کی تعریف کی۔ مجھے ہمیشہ ایسا لگا کہ ڈریسنگ روم کے اندر میں وہ شخص تھا جو سب کو شمولیت کا احساس دلاتا رہتا۔‘

    جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا عظیم رفیق، رشید اور نوید جھوٹ بول رہے ہیں، تو ان کا جواب تھا کہ ’اس صورتحال کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بہت ساری معلومات ہے۔ اس نے یہ کہا، اس نے وہ کہا، کس نے کیا کہا۔ میرے خیال میں ہمیں ماضی کے ان الزامات کی بحث سے نکلنے کی اور توجہ طلب چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘

    مائیکل وان پرانی ٹویٹس پر شرمندہ
    مائیکل وان کی جانب سے ماضی میں کی گئی کچھ ٹویٹس آج کل سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہیں۔ سنہ 2010 میں انھوں نے کہا تھا کہ لندن میں اب بہت زیادہ انگریز نہیں رہتے اور انھیں اب نئی زبان سیکھنی پڑے گی جبکہ سنہ 2017 میں انھوں نے مانچسٹر ارینا میں شدت پسند حملے کے بعد اس سوال کے جواب میں ہاں کہا تھا جس میں یہ پوچھا گیا کہ کیا انگلش کرکٹر معین علی کو تمام مسلمانوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ آیا وہ شدت پسند ہیں یا نہیں۔

    وان کہتے ہیں کہ انھیں ان ٹویٹس پر شرمندگی ہے اور وہ اب ایک مختلف انسان ہیں۔ ’ان ٹویٹس کی وجہ سے میں نے جن لوگوں کو تکلیف پنچائی، ان سے میں تہہ دل سے معافی مانگتا ہوں۔ اب وقت بدل گیا ہے اور مجھے ان ٹویٹس پر افسوس ہے۔ ہم سب زندگی میں غلطیاں کرتے ہیں اور میں نے بھی ٹوئٹر پر کچھ غلطیاں کی ہیں۔ میں اس کے لیے معافی مانگتا ہوں۔‘

  • ماہرین کا کورونا وائرس کے خلاف عام درد کش دوا کا استعمال

    ماہرین کا کورونا وائرس کے خلاف عام درد کش دوا کا استعمال

    لندن : کورونا وائرس کے زیر علاج مریضوں کیلئے آئیبوپروفین کا استعمال فائدہ مند ہوسکتا ہے، سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ دوا سانس لینے میں مشکلات کا علاج ہو سکتی ہے جس سے مریض وینٹی لیٹر نہیں جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی سائنسدان یہ تجربہ کر رہے ہیں کہ اسپتالوں میں زیر علاج کورونا وائرس کے مریضوں کو آئیبوپروفین سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔

    لندن کے گائز اینڈ سینٹ ٹامس اسپتال اور کنگز کالج کی ٹیم یہ تحقیق کر رہی ہے اور ان کا خیال ہے کہ یہ دوا سانس لینے میں مشکلات کا علاج ہو سکتی ہے۔ آئی بو پروفین عام طور پر انفلیمیشن (سوزش) اور درد کو ختم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق سائنسدانوں کو امید ہے کہ اس سستے علاج کی وجہ سے مریضوں کے وینٹیلیٹر تک پہنچنے کی نوبت نہیں آئے گی۔

    اس آزمائش کے دوران، جسے ‘لبریٹ’ کا نام دیا گیا ہے، اسپتال میں موجود نصف مریضوں کو عام علاج کے ساتھ آئیبوپروفین بھی دی جائے گی۔

    مریضوں پر کیے جانے والے اس تجربے میں ایک مخصوص طریقے سے تیار کی گئی آئیبوپروفین دی جائے گی جو اس آئی بو پروفین سے مختلف ہو گی جو عام طور پر استعمال کی جاتی ہے، کچھ لوگ اس طرح کی دوا آرتھرائٹس جیسی بیماریوں کے علاج کے لیے پہلے ہی استعمال کر رہے ہیں۔

    جانوروں پر کی جانے والی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ دوا سانس لینے میں دشواری کا علاج ہو سکتی ہے۔ کورونا وائرس سے زیادہ متاثر ہونے والے مریضوں کو دوسری پیچیدگیوں کے علاوہ سانس لینے میں شدید دشواری کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

  • ‘ہم پرتشدد نہ کریں، بس گولی مار دیں’ ،نہتے کشمیری کی  بھارتی فوج  سے فریاد

    ‘ہم پرتشدد نہ کریں، بس گولی مار دیں’ ،نہتے کشمیری کی بھارتی فوج سے فریاد

    لندن : برطانوی نشریاتی ادارے نے مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی مظالم کے لرزہ خیزانکشافات کئے، کشمیریوں نے رپورٹرکو بھارتی فورسز کے بے رحمانہ تشدد کی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ ہم بھارتی فوج سے فریاد کرتے تھے کہ ہم پر تشدد نہ کریں، بس گولی مار دیں ، کیونکہ تشدد ناقابلِ برداشت تھا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے متعلق تفصیلی رپورٹ جاری کر دی، جس میں کہاگیابی بی سی کے رپورٹر نے مقبوضہ کشمیر کے جنوبی اضلاع کے علاقوں کا دورہ کیا ، جہاں عوام نے انہیں بھارتی افواج کی جانب سے ڈھائے گئے مظالم کی داستانیں سنائیں۔

    رپورٹ کے مطابق کشمیریوں نے رات گئے بھارتی چھاپوں، مار پیٹ اور تشدد کی ملتی جلتی کہانیاں سنائیں اور بھارتی سیکیورٹی فورسز پر مارپیٹ اور تشدد کے الزامات لگائے۔

    بی بی سی کے مطابق مقبوضہ وادی کے محصور شہریوں نے بتایا کہ آرٹیکل 370 ختم کرنے کے متنازع فیصلے کے چند گھنٹوں بعد ہی فوج گھر گھر گئی، بھارتی فوج نے راتوں میں چھاپے مار کر گھروں سے لوگوں کو اٹھایا اور سب کو ایک جگہ پر جمع کیا۔

    شہریوں نے بتایا کہ بھارتی فوج نے ہمیں مارا پیٹا، ہم پوچھتے رہے ہم نے کیا کیا ہے لیکن وہ کچھ بھی سننا نہیں چاہتے تھے، انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا اور  بس ہمیں مارتے رہے۔

    بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق شہریوں نے بتایا کہ بھارتی فوج نے ہمیں لاتیں ماریں، ڈنڈوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیئے، تاروں سے پیٹا، جب بےہوش ہو گئے تو انہوں نے ہمیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیئے، ہمیں ڈنڈوں سے مارا اور ہم چیخے تو وہ ہمارے منہ مٹی سے بھر دیتے۔

    ایک کشمیری شہری نےبرطانوی نشریاتی ادارے کے رپورٹر کو بتایا کہ میں خدا سے موت کی دعا کر رہا تھا کیونکہ یہ تشدد ناقابلِ برداشت تھا، بھارتی فورسز سے کہا کہ ہم پر تشدد نہ کریں، بس گولی مار دیں۔

    رپورٹ کے مطابق شہری نے بتایا کہ سیکیورٹی اہلکار پوچھتے رہے کہ پتھراؤ کرنے والوں کے نام بتاؤں اور وارننگ دی کہ کوئی بھی بھارت مخالف مظاہروں میں شرکت نہ کرے۔

    بی بی سی کے مطابق کشمیری شہریوں نے کہا کہ مظالم جاری رہے تو گھر چھوڑ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا، وہ ہمیں ایسے مارتے ہیں جیسے جانوروں کو مارا جاتا ہے، بھارتی فوجی ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے باوجود مقبوضہ وادی کے ڈاکٹرز صحافیوں سے کسی بھی مریض کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے۔

    خیال رہے کہ بھارتی فورسز نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر کے وادی میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا تھا۔بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کر رکھا ہے جس کے باعث عوام کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں۔

  • بی بی سی کی انسانی حقوق کیخلاف ورزیوں پر خبر جھوٹ کا پلندہ ہے،  میجر جنرل آصف غفور

    بی بی سی کی انسانی حقوق کیخلاف ورزیوں پر خبر جھوٹ کا پلندہ ہے، میجر جنرل آصف غفور

    راولپنڈی : ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بی بی سی کی انسانی حقوق کیخلاف ورزیوں پر خبر جھوٹ کا پلندہ ہے، آئی ایس پی آر کے تعاون کے باوجود اس نے حکومتی مؤقف پیش نہیں کیا، خبر صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

    میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ بی بی سی کی رپورٹ میں پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بےبنیاد ہیں، صحافتی اقدار کے منافی خبر پر بی بی سی حکام سےرابطہ کیا۔

    خبر پرمؤقف کیلئے آئی ایس پی آر کو سوالنامہ بھیجا گیا تھا، آئی ایس پی آرنے مکمل حقائق جاننے کیلئےملاقات کی پیشکش بھی کی لیکن بی بی سی نے پیشکش کا جواب دینے کےبجائے اندازے سےخبر چھاپ دی۔

    انہوں نے کہا کہ آئی ایس پی آر کے تعاون کے باوجود خبر میں حکومتی مؤقف پیش نہیں کیا گیا، خبر میں بیان کی گئیں باتیں حقائق کے۔برعکس ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ بی بی سی نے شمالی وزیرستان واقعے پر بھی سرکاری موقف نظرانداز کیا۔

    22جنوری2014کے مبینہ فضائی حملے کا دعویٰ محض دعویٰ ہی ہے، بی بی سی کی خبر میں مصدقہ ذرائع اور ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

    وزیرستان میں دہشت گرد شہریوں کے سروں سے فٹبال کھیلتے رہے، قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں نے عام شہریوں کو یرغمال بنائے رکھا، نہتے عوام، اسکولوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔

  • برمی فوجیوں کی روہنگیا خواتین سے زیادتی کا انکشاف

    برمی فوجیوں کی روہنگیا خواتین سے زیادتی کا انکشاف

    ینگون: روہنگیا مسلمانوں پر میانمار فوج کے مظالم جاری ہیں، برمی فوجیوں کی جانب سے خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ئے جانے کا انکشاف ہوا ہے، مسلمان مردوں، بچیوں اور خواتین کو بے دردی سے قتل کرکے اُن کی نسل کشی کی جارہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق میانمار فوج نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی انتہا کردی، بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں مسلم خواتین کے ساتھ فوجیوں کی جنسی زیادتی کا انکشاف کیا ہے۔

    متعدد خواتین کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، مہاجرین

    بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ میانمار سے بنگلہ دیش نقل مکانی کرنے والی چند روہنگیا خواتین کا کہنا ہے کہ وہ جنسی حملوں کا نشانہ بنی ہیں، نقل مکانی کرنے والے کچھ روہنگیا خاندانوں کا یہ الزام بھی ہے کچھ خواتین کو زیادتی کے بعد قتل بھی کیا گیا۔

    شرم کی وجہ سے بہت سی خواتین علاج نہیں کراتیں، ڈاکٹر

    بنگلہ دیش میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے بہت ساری روہنگیا خواتین شرم کی وجہ سے اپنے علاج کروانے میں کتراتی ہیں۔

    بہت ساری لڑکیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا، متاثرہ خاتون

    زیادتی کی شکار ایک متاثرہ خاتون نے بتایا کہ میانمار کی فوج نے ان کے گھروں کا محاصرہ کیا اور جو بھاگنے میں کامیاب ہوگئے بچ گئے جو نہیں بھاگ سکے یا تو وہ مر چکے ہیں یا انہوں نے ان کی طرح جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے،بہت ساری لڑکیوں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کردیا جاتا یے۔

    زیادتی کی شکار خواتین نے علاج کا کہا تو فوج نے انکار کردیا، متاثرہ خاتون

    ہاجرہ بیگم کا کہنا تھا کہ انھوں نے خود سے زیادتی کے بعد فوج سے طبی امداد کا مطالبہ کیا تو انھوں نے انکار کر دیا، میری جیسی بہت سی خواتین نے فوج سے علاج کے لیے کہا، ہم نے خاص طور پر وہ دوا مانگی جس سے ہم حاملہ نہ ہو سکیں لیکن ہمیں وہ دوا نہیں دی گئی۔

    مردوں کو قتل اور خواتین سے برا سلوک کیا گیا، مہاجرین

    مہاجرین کا الزام ہے کہ مردوں کو قتل کیا گیا اور خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، روہنگیا مسلمان بنیادی سہولیات سمیت خوراک اور دواؤں کے حوالے سے سخت بحران میں مبتلا ہیں۔

    نومولو کے ساتھ سرحد پار کی، 15 سالہ بیٹی بچھڑ گئی، ریحانہ خاتون

    بی بی سی کے مطابق ریحانہ بیگم نامی خاتون نے اپنے نومولود بچے کے ساتھ سرحد پار کی تھی لیکن وہ اپنی 15 سالہ بیٹی کو ڈھونڈنے کے ناکام رہیں۔

    ریحانہ نے بتایا کہ مجھے ڈر ہے کہ اسے فوج نے پکڑ لیا ہوگا میں نے اب تک اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں سنی۔

    ایک عورت پر تشدد ہوتے دیکھا، اس کی گود میں بچہ تھا، بعد میں اس کی لاش ملی، الیاس

    اسی طرح محمد الیاس نے دو ہفتے قبل میانمار چھوڑا تھا، وہ روہنگیا خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک خاتون پر تشدد ہوتے دیکھا اس کی گود میں ایک بچہ تھا بعد میں میں نے ایک اس کا آدھا جلا ہوا جسم پانچ اور لاشوں کے ساتھ دیکھا۔

    واضح رہے کہ میانمار فوج کی جانب سے جاری ظلم و جبر سے لاکھوں مسلمان متاثر ہوئے ہیں، چار لاکھ سے زائد اپنے گھروں کو چھوڑ کر بنگلہ دیش کی سرحد پر کیمپوں میں پڑے امداد کے منتظر ہیں۔

    برما بدھ مت مذہب کے ماننے والوں کا اکثریتی ملک ہے، یہاں کے مسلمان طویل عرصے سے ظلم و تشدد کا شکار ہے جس کے باعث اب تک ہزاروں روہنگیا مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔

    برما میں مسلمانوں کے قتل عام اور انہیں بے گھر کیے جانے کی پوری دنیا اور ملک بھر میں مذمت کی گئی، شہروں میں جگہ جگہ ریلیاں نکالی گئیں، برما کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور مسلم حکمرانوں او آئی سی سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے چار لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان مہاجرین کی امداد، شیلٹر، دوا، کھانے اور پینے کی مد میں دنیا بھر سے 7 کروڑ ڈالر سے زائد  رقم کی اپیل کی گئی ہے۔

  • اقتصادی راہداری سے کشمیرکے مؤقف میں تبدیلی نہیں آئے گی، چین

    اقتصادی راہداری سے کشمیرکے مؤقف میں تبدیلی نہیں آئے گی، چین

    بیجنگ : چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے تنازعہ کو پاکستان اور بھارت مذاکرات کے ذریعے حل کریں، سی پیک سے کشمیر پر چین کا مؤقف متاثر نہیں ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے چین کا مؤقف اصولوں پر مبنی اور واضح ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے بیجنگ میں ایک پریس بریفنگ میں کیا، انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اس تاریخی مسئلے کو دونوں فریقوں کی جانب سے مناسب طور پر مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق سی پیک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی تعمیر سے کشمیر کے مسئلے پر چین کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

    چین اور پاکستان کے درمیان دفاع، صنعت اور تجارت کے شعبوں میں معمول کا تعاون برقرار ہے، یاد رہے کہ گذشتہ سال دسمبر کے مہینے میں چین نے اقتصادی راہداری منصوبے میں پاکستان کی جانب سے بھارت کو شمولیت کی پیشکش پر بھارتی رد عمل سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

  • سپاہ صحابہ اور بی ایل اے برطانیہ کی دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں برقرار

    سپاہ صحابہ اور بی ایل اے برطانیہ کی دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں برقرار

    لندن : حکومت برطانیہ نے اپنی جارہ کردہ سالانہ رپورٹ میں بلوچستان لبریشن آرمی اور سپاہ صحابہ پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں اس سال بھی شامل کیا ہے، سال 2016 کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سرگرم مذہبی جماعت ‘اہل سنت والجماعت’ دراصل کالعدم دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ کا ہی دوسرا نام ہے۔

    حکومتِ برطانیہ کی جانب سے جاری کی گئی اس فہرست کے مطابق سپاہ صحابہ اوراس کا ذیلی گروہ لشکرِجھنگوی ہے۔ یاد رہے کہ سپاہ صحابہ سال 2001 اور بلوچستان ریپبلیکن آرمی سال 2006 سے برطانوی حکومت کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہیں۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق حکومتِ برطانیہ کی جانب سے جاری کی گئی فہرست میں مبینہ دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ حقانی نیٹ ورک کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق حقانی نیٹ ورک افغانستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں میں غیر ملکیوں کو بھی نشانہ بناتا رہا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو اقوامِ متحدہ اور امریکہ نے سال 2012 جبکہ کینیڈا نے سال 2013 میں دہشت گرد گرہوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

    دہشت گرد تنظیموں کی اس فہرست میں سکھ علیحدگی پسند تنظیم ‘ببر خالصہ’ اور بھارت میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم گروہ ‘انڈین مجاہدین’ یا آئی ایم بھی شامل ہیں۔

    بی بی سی کے مطابق سال 2016 میں جن تنظیموں یا گروہوں کو برطانوی حکومت کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا ان میں ‘گلوبل اسلامک میڈیا فرنٹ’ ‘جماعۃ انشورت دولۃ’ ‘مجاہدین انڈونیشیا تیمور’ یا ایم آئی ٹی اور برطانوی نسل پرست گروہ ‘نیشنل ایکشن‘ شامل ہیں۔