Tag: Bees

  • کیا شہد کی مکھیاں دنیا سے ختم ہونے والی ہیں؟ سائنس دانوں نے 3 بڑے خطرات بتا دیے

    کیا شہد کی مکھیاں دنیا سے ختم ہونے والی ہیں؟ سائنس دانوں نے 3 بڑے خطرات بتا دیے

    سائنس دانوں نے شہد کی مکھیوں کی افزائش نسل کے لیے 3 بڑے خطرات سے خبردار کر دیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ شہد کی مکھیوں کو جنگوں، اسٹریٹ لائٹس اور مائکروپلاسٹکس سے نئے خطرات کا سامنا ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق جنگ زدہ علاقے، مائیکرو پلاسٹک اور اسٹریٹ لائٹس عالمی سطح پر شہد کی مکھیوں کی آبادی کے لیے ابھرتے ہوئے خطرات میں سے ایک ہیں۔

    اس سلسلے میں شہد کی مکھیوں کے ماہرین نے ایسے 12 خطرات کی فہرست مرتب کی ہے، جن سے اگلے عشرے کے دوران شہد کی مکھیوں کو سامنا ہوگا، یہ فہرست یونیورسٹی آف ریڈنگ کی شائع کردہ رپورٹ ’’شہد کی مکھیوں کے تحفظ کے مواقع اور ابھرتے خطرات‘‘ میں پیش کی گئی ہے۔

    سائنس دانوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی جنگیں اور تنازعات شہد کی مکھیوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اس میں یوکرین کی جنگ بھی شامل ہے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک میں کم اقسام کی فصلیں ہی اگائی جا سکیں، جس سے شہد کی مکھیوں کو پورے سیزن میں متنوع خوراک نہیں مل سکی۔


    شہد کی مکھیاں اپنے بچوں کو کیا سکھاتی ہیں؟ حیران کن انکشاف


    محققین نے پایا کہ مائیکرو پلاسٹک کے ذرات پورے یورپ میں شہد کی مکھیوں کے چھتے کو آلودہ کر رہے ہیں، شہد کی مکھیوں کی 315 کالونیوں کے ٹیسٹ سے زیادہ تر چھتوں میں پی ای ٹی پلاسٹک جیسے مصنوعی مواد کا انکشاف ہوا ہے۔ اسٹریٹ لائٹس کی مصنوعی روشنی بھی شہد کی مکھیوں کے رات کے وقت پھولوں کے دوروں میں 62 فی صد کمی کا باعث ہے، اور فضائی آلودگی ان کی بقا، تولید اور نشوونما کو متاثر کرتی پائی گئی ہے۔

    سائنس دانوں نے ایک اور خطرے کا بھی ذکر کیا ہے کہ زراعت میں استعمال ہونے والی اینٹی بائیوٹکس نے شہد کی مکھیوں اور شہد کے چھتوں میں اپنا راستہ بنا لیا ہے۔ یہ اینٹی بائیوٹکس مکھیوں کے رویے پر بھی اثر انداز ہوتی پائی گئی ہیں، یعنی رسد مہیا کرنے اور پھولوں پر جانے کے ان کے رویے متاثر ہو گئے ہیں۔

    رپورٹ کے سرکردہ مصنف ریڈنگ یونیورسٹی کے پروفیسر سائمن پوٹس نے کہا: ’’نئے خطرات کی نشان دہی کرنا اور شہد کی مکھیوں کو جلد بچانے کے طریقے تلاش کرنا اس تباہی کو روکنے کے لیے بہت ضروری ہے، یہ صرف تحفظ کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ شہد کی مکھیاں ہمارے کھانے کے نظام، آب و ہوا کی لچک اور معاشی تحفظ کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، ان مکھیوں کی حفاظت کا مطلب اپنی جانوں کی حفاظت کرنا ہے۔‘‘

  • ویڈیو: حملہ آور سے بچنے کے لیے چمگادڑوں کی انوکھی تکنیک

    ویڈیو: حملہ آور سے بچنے کے لیے چمگادڑوں کی انوکھی تکنیک

    جانور اپنے دشمن سے بچنے کے لیے مختلف حربے آزماتے ہیں، اور شکار پر وار کرنے کے لیے حملے کی مختلف تکنیکیں بھی اپناتے ہیں، اب ایسا ہی ایک طریقہ چمگادڑ کا بھی سامنے آیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ چمگادڑیں حملہ آور الوؤں سے بچنے کے لیے اپنی آواز بدل کر ڈنک دار مکھیوں یا تتیوں کی بھنبھناہٹ جیسی نقل اتارتی ہیں۔

    اگرچہ آواز یا شکل بدل کر دشمن کو ڈرانا یا اس سے بچنے کا ہنر اب تک کیڑے مکوڑوں میں ہی سامنے آیا ہے لیکن پہلی مرتبہ یہ خاصیت کسی ممالیے میں دریافت ہوئی ہے۔

    اٹلی میں واقع نیپلس فیڈریکو دوم یونیورسٹی کے سائنسداں ڈینیلو ریوسو نے کئی برس قبل چمگادڑ کی انوکھی بھنبھناہٹ سنی تھی جب وہ پی ایچ ڈی کر رہے تھے، جب جب وہ باہر نکلتیں مکھیوں جیسی آواز نکالتیں۔ اب انہوں نے اس مظہر کا بغور جائزہ لیا ہے۔

    انہوں نے چوہے جیسے کان والی ایک مشہور چمگادڑ (مایوٹس مایوٹس) کی ریکارڈنگ سنیں جو (شہد کی) مکھیوں اور تتلیوں جیسی تھیں۔ جب جب چمگادڑ کی آواز کسی الو سے ٹکرا کر واپس آئی تو وہ آواز مکھیوں کے مزید قریب ہوتی چلی گئی۔

    اگلے مرحلے میں انہوں نے دو اقسام کے الوؤں کو مختلف آوازیں سنائیں جن کی تعداد 16 کے قریب تھی۔ ان میں سے نصف جانور براہ راست ماحول میں تھے اور بقیہ 8 تجربہ گاہ میں رکھے گئے تھے۔

    اسپیکر قریب لا کر ہر الو کو چار مختلف آوازیں سنائی گئیں، اول، چمگادڑ کی اصل آواز، دوسری آواز جس میں وہ مکھیوں کی نقل کر رہی تھی، سوم یورپی تتیئے (ہارنیٹ) کی صدا اور چوتھی شہد کی مکھی کی آواز سنائی گئی۔

    تینوں اقسام کی بھنبھناہٹ سن کر سارے الو ایک دم پیچھے ہٹ گئے اور جیسے ہی انہوں نے چمگادڑ کی اصل آواز سنی وہ اسپیکر کے قریب آگئے۔

    ان میں سے کچھ الوؤں کا ردعمل مختلف بھی تھا اور وہ بھنبھناہٹ سن کر بہت زیادہ ڈرے تھے، شاید ماضی میں انہیں کسی مکھی یا ڈنک دار کیڑے نے کاٹا ہوگا یا ان کی یادداشت میں ایسا کوئی واقعہ تازہ ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق سے ایک سوال پیدا ہوا کہ جب ایک قسم کی چمگادڑ نے خود کو بچانے کے لیے یہ حربہ سیکھا ہے تو بقیہ اقسام کے چمگادڑوں نے اسے اختیار کیوں نہیں کیا؟ اب ماہرین یہ جواب تلاش کر رہے ہیں۔

  • اب شہد کی مکھیاں کووڈ 19 کی تشخیص کریں گی

    اب شہد کی مکھیاں کووڈ 19 کی تشخیص کریں گی

    کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے بعد اس کی تشخیص میں کم از کم 24 گھنٹے کا وقت لگتا ہے لیکن ماہرین نے اس کے لیے نہایت آسان طریقہ دریافت کرلیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق نیدر لینڈز کے سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں کے ذریعے کووڈ 19 کی تشخیص میں کامیابی حاصل کی ہے۔

    اس مقصد کے لیے سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں کو تربیت فراہم کی جن کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے اور نمونوں میں انہوں نے سیکنڈوں میں بیماری کی تشخیص کی۔

    مکھیوں کی تربیت کے لیے نیدر لینڈز کی ویگینگن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے انہیں کووڈ 19 سے متاثر نمونے دکھانے کے بعد میٹھا پانی بطور انعام دیا جبکہ عام نمونوں پر کوئی انعام نہیں دیا گیا۔

    ان مکھیوں کو اس وقت انعام دیا جاتا جب وہ کوئی متاثرہ نمونہ پیش کرتیں۔

    سائنسدانوں نے بتایا کہ ہم نے عام شہد کی مکھیاں حاصل کی تھیں اور مثبت نمونوں کے ساتھ انہیں میٹھا پانی دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ تجربے کی بنیاد تھی کہ مکھیاں وائرس کی تشخیص پر انعام حاصل کرسکیں گی۔

    عوماً کووڈ 19 کے نتیجے کے حصول میں کئی گھنٹے یا دن لگتے ہیں مگر شہد کی مکھیوں کا ردعمل برق رفتار ہوتا ہے۔ یہ طریقہ کار سستا بھی ہے اور سائنسدانون کے مطابق ان ممالک کے لیے کارآمد ہے جن کو ٹیسٹوں کی کمی کا سامنا ہے۔

    اس طرح کا طریقہ کار 1990 کی دہائی میں دھماکہ خیز اور زہریلے مواد کو ڈھونڈنے کے لیے بھی کامیابی سے اپنایا گیا۔

    یاد رہے کہ شہد کی مکھیوں کو ذہین خیال کیا جاتا ہے اور اس سے قبل بھی شہد کی مکھیاں مختلف تجربات میں ذہانت کے مظاہرے پیش کرچکی ہیں۔

  • تائیوان: ڈاکٹر نے لڑکی کی آنکھ سے شہد کی زندہ مکھیاں نکال لیں

    تائیوان: ڈاکٹر نے لڑکی کی آنکھ سے شہد کی زندہ مکھیاں نکال لیں

    تائی پے: تائیوان میں اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ پیش آیا،  جس نے طبی ماہرین کو حیران کر دیا.

    تفصیلات کے مطابق ڈاکٹروں نے آپریشن کرکے ایک لڑکی کی آنکھوں سے چار شہد کی مکھیاں‌ نکال لی، آپریشن کرنے والے سرجنز کا کہنا ہے کہ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔ اس خبر کو بین الاقوامی توجہ ملی، جسے انٹرنیشنل میڈیا نے بھی کور کیا.

    ایک برطانوی اخبار کے مطابق تائیوان کے جنوبی علاقے میں رہائش پذیر ہی نامی 20 سالہ لڑکی ’ہی کو ‘ آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا تھی، مگر ابتدائی معاینوں میں بیماری کی تشخیص نہ ہو سکی۔

    لڑکی کو فویان یونیورسٹی اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد بتایا کہ اس کی آنکھوں میں شہد کی مکھیاں ہیں جو آنسوؤں‌ پر گزارہ کر رہی ہیں.

    اسپتال کے سرجن ہونگ چی تنگ نے کامیاب آپریشن کرتے ہوئے ہی کی آنکھوں سے چار چھوٹی شہد کی مکھیاں نکالیں۔

    آنکھ میں موجود مکھیاں

    لڑکی نے بتایا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ پہاڑی علاقے گئی تھی، جہاں جھاڑیاں اکھاڑتے ہوئے کوئی چیز اڑ کر اس کی آنکھوں میں گھس گئی۔ اس وقت مجھے لگا کہ شاید یہ گرد ہے۔

    سرجن نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ لڑکی کی آنکھ میں شہد کی چھوٹی مکھیاں تھیں، جب یہ مکھیاں حرکت کرتیں تو لڑکی کوتکلیف کا احساس ہوتا۔

    ڈاکٹر نے بتایا کہ اس قسم کا واقعہ دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا ہے اس سے قبل طب کی تاریخ میں ایسا واقعہ کہیں سننے میں نہیں آیا۔