Tag: Benazir Bhutto

  • بے نظیر بھٹو شہید : دختر مشرق، جمہوریت اور بہادری کی علامت

    بے نظیر بھٹو شہید : دختر مشرق، جمہوریت اور بہادری کی علامت

    جمہوریت، مساوات، انصاف اور بہادری کی علامت دختر مشرق شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو ان کی شہادت کے 17 سال بعد بھی پاکستانی قوم خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔

    تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے سماجی انصاف، فلاح و بہبود، انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے لیے اپنی جانیں قربان کیں، خاص طور پر جنوبی ایشیا میں جہاں جمہوریت ہمیشہ مارشل لا کی زد میں رہی اور اس ادارے کو کبھی پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا گیا۔

    کئی رہنماؤں کو جمہوری حقوق کے لیے اپنی زندگیاں تک قربان کرنی پڑیں، بے نظیر بھٹو بھی ان ہی رہنماؤں میں سرفہرست ہیں جنہوں نے ملک میں جمہوریت کے عظیم مقصد سے وابستگی کو کبھی ترک نہیں کیا، حالانکہ ان کی حکومت دو بار سازشوں کے تحت ختم کر دی گئی تھی۔

    بے نظیر بھٹو پاکستان کی ایک عظیم رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر عزت و وقار کے ساتھ پاکستانی قوم کی نمائندگی کرتی تھیں۔

    ابتدائی زندگی اور تعلیم

    بے نظیر بھٹو 70 کلفٹن کراچی میں پیدا ہوئیں اور وہیں پروان چڑھیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کنونٹ آف جیزس اینڈ میری اسکول میں حاصل کی۔ اے لیولز مکمل کرنے کے بعد 1969 میں ہارورڈ یونیورسٹی گئیں اور فلسفہ، سیاست اور معیشت کی تعلیم حاصل کی۔ گریجویشن کے بعد 1973میں اعلی تعلین کے حصول کیلیے آکسفورڈ یونیورسٹی گئیں۔

    سیاسی جدوجہد کی ابتدا

    آکسفورڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ وطن واپس آئیں، جہاں ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے۔ 1977 میں انہوں نے مختصر مدت کے لیے وزارتِ خارجہ میں کام کیا، جو ان کا ایک شوق بھی تھا مگر جلد ہی حالات نے ان کے والد کی حکومت کے خلاف سازشوں کا جاک بُنا گیا۔

    پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا، لیکن اس تحریک کے دوران 4 جولائی 1977 کی رات مارشل لا لگا کر بھٹو حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔

    جمہوری جدوجہد اور قربانیاں

    بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے مقدمے کے دوران بھرپور جدوجہد جاری رکھی مگر 4 اپریل 1979کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے المناک وقت تھا۔ لیکن انہوں نے جمہوریت کی بحالی اور اپنے والد کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے ہمت نہیں ہاری۔

    بعد ازاں 18اگست 1987 کو جنرل ضیاء الحق کی موت کے بعد ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوا اور بے نظیر بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی نے ملک بھر سے پاکستان پیپلز پارٹی کو منظم کیا۔ 10 اپریل 1986 کو ان کی جلا وطنی ختم ہوئی، اور لاہور میں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔

    بعد ازاں 18اگست 1987 کو جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد انتخابات کا اعلان ہوا اور بے نظیر نے پاکستان پیپلز پارٹی کو دوبارہ منظم کیا۔ 10 اپریل 1986 کو ان کی جلا وطنی ختم ہوئی، اور لاہور پہنچنے پر ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔

    پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم

    سال 1988کے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرکے بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988 کو وزیراعظم کا حلف اٹھایا، اور وہ نہ صرف پاکستان بلکہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بن گئیں۔ لیکن ان کی حکومت محض 20 ماہ کے بعد آئین کے آرٹیکل 58 ٹوبی کے تحت ختم کردی گئی۔

    سیاسی مشکلات اور ذاتی المیے

    بے نظیر بھٹو شہید کے سیاسی سفر میں ان کی ذاتی زندگی میں کئی دکھ بھرے واقعات شامل تھے۔ ان کے بھائی میر شاہ نواز بھٹو کو پیرس میں قتل کیا گیا جبکہ دوسرا بھائی میر مرتضیٰ بھٹو 1996 میں ان پہی دور حکومت میں کراچی میں ان کے گھر 70کلفٹن کے قریب ہی قتل ہوا لیکن ان تمام تر مشکلات و مصائب کے باوجود انہوں نے اپنی جمہوری جدوجہد کو جاری رکھا۔

    آخری سفر اور وراثت

    سال 2007میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ’میثاق جمہوریت‘ (چارٹر آف ڈیموکریسی) پر دستخط کیے۔ 18 اکتوبر 2007 کو بے نظیر جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس لوٹیں۔

    ان کی ریلی پر کراچی میں کارساز کے مقام پر حملہ ہوا جس میں 139 لوگ جاں بحق ہوئے مگر اس وقت خوش قسمتی سے وہ بچ گئیں۔ بعد ازاں 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ایک سیاسی جلسے کے بعد ان پر دوسرا قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ شہید ہوگئیں۔

    بے نظیر بھٹو جمہوریت، انسانی حقوق، اور خواتین کے حقوق کی علمبردار تھیں۔ ان کی قربانیوں اور جمہوری خدمات کی یاد آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

  • عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کی 17 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کی 17 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کی آج 17ویں برسی منائی جارہی ہے، ملک کے مختلف حصوں سے جیالے لاڑکانہ پہنچ گئے، مزار پر فاتحہ خوانی کا سلسلہ جاری ہے۔

    دو بار پاکستان کی وزیراعظم بننے والی بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 میں پیدا ہوئیں انہوں نے اپنی زندگی میں سیاسی مخالفین کے سامنے خاتون ہونے کے باوجود سخت ترین حالات میں اپنی لیڈر شپ کا لوہا منوایا اور آمریتوں کا مقابلہ کیا۔

    بے نظیر بھٹو نے سیاسی گھرانے میں پرورش پائی، کونوینٹ آف جیزز اینڈ میری اور کراچی گرامر اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی میراث کو آگے بڑھایا۔

    شہید بے نظیر بھٹو عوامی سیاسی رہنما کے ساتھ ایک ذمہ دار ماں بھی تھیں جس نے اپنے بچوں کو بہترین تعلیم اور تربیت دلانے کے ساتھ عوامی سیاست سے بھی روشناس کرایا جو آج تک بلاول اور آصفہ کی شخصیات میں نکھر کے سامنے نظر آ رہا ہے۔

    بینظیر بھٹو نے اپنے بچوں کو کھیل کود سے لیکر سیاسی سرگرمیوں تک گود میں بٹھائے رکھا، جب ان کے شوہر آصف علی زرداری کراچی سینٹرل جیل میں قید تھے تو بینظیر وہاں بھی اپنے بچوں کے ہمراہ جایا کرتی تھی، اس عظیم ماں کی تربیت نے بلاول اور آصفہ بھٹو زرداری کو عوام کے درمیان رہکر عوامی سیاست کو پروان چڑھانے میں مدد دی۔

    یاد رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خود کش حملہ اور فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا، اس حملے میں ان کے علاوہ مزید 20 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

  • سانحہ کارساز کو گزرے 15 برس بیت گئے

    سانحہ کارساز کو گزرے 15 برس بیت گئے

    کراچی : سانحہ کارساز کو گزرے آج 15 سال مکمل ہوگئے، سانحہ کارساز اس وقت رونما ہوا جب 2007 میں محترمہ بےنظیر بھٹو کے جلوس پر کراچی میں خود کش حملہ کیا گیا۔

    سانحہ کارساز کے شہداء کے اہل خانہ آج بھی اپنے پیاروں کو یاد کرکے غمزدہ ہیں، پیپلزپارٹی آج سانحہ کارساز کے شہداء کی یاد میں مختلف اجتماعات منعقد کرے گی۔

    وزیر محنت و افرادی قوت سندھ سعید غنی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پیپلزپارٹی اس سال کوئی جلسہ نہیں کرے گی، صرف قرآن خوانی کے اجتماعات ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ یادگار شہداء اور شہداء کے گھروں پر پارٹی کے قائدین اور کارکن حاضری دیں گے۔ پیپلز پارٹی کی سیاسی جدوجہد اور تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔

    سعید غنی کا کہنا تھا کہ سانحہ اٹھارہ اکتوبر جیسی دہشت گردی ملکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی، سانحہ کارساز کے شہید کارکنوں کو ہم نے پہلے بھلایا ہے نہ آئندہ بھلاسکیں گے۔

    یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی پاکستان آمد پر نکالی گئی ریلی میں دہشت گردی کی اس خوفناک واردات نے 130 افراد کی جان لی تھی۔

    پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا اعزاز پانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کراچی ائیر پورٹ پہنچیں تو ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔

    خطروں میں گھری اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کااعزاز پانے والی اس بہادر رہنما کو ستائیس دسمبر کو پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس بار دشمن کامیاب رہا، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کردی گئیں۔

    پیپلز پارٹی آج ان شہداء کی یاد کا دن مناتی ہے، ہزاروں کی تعداد میں پیپلز پارٹی کے جیالے کارکنان اور رہنما یادگار شہداء کارساز پر پہنچ کر ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

  • بینظیر شہید کی عظیم قربانی رائیگاں نہیں جانے دیں گے، آصف زرداری

    بینظیر شہید کی عظیم قربانی رائیگاں نہیں جانے دیں گے، آصف زرداری

    لاڑکانہ : پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ہر خواب کی تعبیر کریں گے۔

    بینظیر بھٹو شہید کے یوم شہادت کے موقع پراپنے جاری بیان میں آصف زرداری نے کہا کہ عوام کومعاشی مشکلات سےنجات کیلئےجدوجہدجاری رکھیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ پاک وطن ہمارے لیے اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے ملک کی آزادی، وقار خودداری اور عزت پر ہرگز سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

    آصف زرداری کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک خطر ناک صورت حال سے گزر رہا ہے،معیشت تباہ ہوگئی ہے، خارجہ امور زبوں حالی کے شکار ہیں، قانون کو موم بنا دیا گیا ہے۔

    سابق صدر نے کہا کہ غریب مشکلات کا شکار اور ریاست ثمرات سے محروم کیے جارہے ہیں، 2013کے بعد مسلسل پارلیمنٹ کے اختیار پر حملے ہو رہے ہیں۔

    پی پی رہنما کے کہا کہ پارلیمنٹ کی عزت اور وقار کو بے توقیر کیا جا رہا ہے، پیپلزپارٹی پارلیمنٹ کی بے توقیری کی مزاحمت کر رہی ہے۔

    آصف زرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے تباہ حال ملک کی دوبارہ تعمیر کی، پی پی نے ملک بچایا اب ملک کو مشکلات سے نکالے گی۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ صبر اور برداشت ہماری کمزوری نہیں ہے ہمارا اصول ہے، بینظیر بھٹو شہید کی عظیم قربانی رائیگاں نہیں جانےدیں گے۔

  • بینظیر بھٹو امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتی تھیں، بلاول زرداری

    بینظیر بھٹو امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتی تھیں، بلاول زرداری

    اسلام آباد : چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتی تھیں، موجودہ حکومت کا ضمنی الیکشن میں بھی دھاندلی کا عمل جاری ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے کسانوں کا معاشی قتل ہورہا ہے، سندھ اور بلوچستان میں فصلوں کو ٹڈی دل نقصان پہنچارہی ہے۔

    اس سے مقابلے کیلئے سندھ اور بلوچستان حکومت کو وفاق سے فنڈز درکار ہیں،، اب تک حکومت نے اس مسئلے پر کوئی جواب نہیں دیا، اس سلسلے میں وفاق کو فوری قدم اٹھانا پڑے گا، ہنگامی بنیادوں پر پراقدامات کرنا ہونگے۔

    ہم نے اپنے عوام کے معاشی قتل کو روکنا ہے۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کا ضمنی الیکشن میں بھی دھاندلی کا عمل جاری ہے، پیپلزپارٹی نے جنرل الیکشن میں سینیٹ میں معاملہ اٹھایا تھا، فوج کپولنگ اسٹیشن کاندلگانسے ادارے کنقصان پہنچے گا، شکست ہوتی ہے تو الزام الیکشن کمیشن پر لگنا چاہیے۔

    اس موقع پر صحافی نے سوال کیا کہ ایک وزیر کا کہنا ہے کہ این آراو کیلئے امریکا کےسامنے گھٹنے ٹیکے، جس پر بلاول بھٹو نے کہا کہ بینظیر بھٹو ملک کی مقبول ترین لیڈر تھیں، وہ جمہوریت کی بحالی کے لئے دنیا بھر میں مہم چلاتی رہیں۔

    بینظیربھٹو امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کیا کرتی تھیں، بینظیر بھٹو نےامریکا میں یہ نقطہ اٹھایا تھا کہ منافقت نہیں چلےگی، بینظیر بھٹو نے امریکا کو پریشر پوائنٹ کے طور پرمشرف کے خلاف استعمال کیا۔

    پیپلز پارٹی2002کےانتخابات جیتی تھی مگر اسے حکومت بنانے نہیں دی گئی، بلاول بھٹو نے کہا کہ بینظیر بھٹو جانتی تھیں کہ عوام میرے ساتھ ہیں، انہوں نے مشرف کو وردی اتارنے کے لئے مجبور کرایا، مجبورکرانا تھا کہ وردی اتارو جمہوریت واپس دو۔

    ایک سوال کے جواب میں فوج اہم ادارہ ہے بہت عزت کرتے ہیں، جہاں دہشت گردی سر اٹھاتی ہے پاک فوج ان کا مقابلہ کرتی ہے، الیکشن کمیشن کو جنرل الیکشن میں ہونی والی غلطیاں نہیں دہرائی جانی چاہیے۔

    بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی دباؤ اور پروپیگنڈےسےپہلےبھی نہیں ڈری نہ آج ڈری ہے، جمہوری اور معاشی حقوق پر پیپلزپارٹی کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی، میں نہیں سمجھتا کہ پی اے سی غیرفعال ہے۔

  • بلاول نے ذوالفقار بھٹو اور اپنی والدہ کا پرچم سنبھال رکھا ہے: آصف زرداری

    بلاول نے ذوالفقار بھٹو اور اپنی والدہ کا پرچم سنبھال رکھا ہے: آصف زرداری

    کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو نے ذوالفقار بھٹو اور اپنی والدہ کا پرچم سنبھال رکھا ہے.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے بے نظیر بھٹو کی 66 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے پیغام میں کیا.

    انھوں نے کہا کہ ملک سےغربت، جہالت کے خاتمے کے لئے جدوجہد جاری رہے گی، بے نظیرکے مشن پرچل کرترقی یافتہ معاشرےکے لئے جدوجہد کرتے رہیں گے.

    آصف زرداری نے کہا کہ بے نظیربھٹو کے نظریے پر پارلیمنٹ کے اختیارات کا تحفظ کریں گے. شدت پسند سوچ کی حوصلہ افزائی کرنے والوں سےمزاحمت کرتے ہیں.

    مزید پڑھیں: حساب کتاب اور پکڑ دھکڑ بند ہونی چاہیے، آصف زرداری

    سابق صدر نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے صوبوں کو خود مختاری دی، گلگت بلتستان، کے پی عوام کو شناخت دے کر پارٹی منشور پرعمل کیا.

    آصف زرداری نے کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ جمہوری قوتیں ملک کو مشکلات سے باہر نکالیں، عوام غربت، مہنگائی، بے روزگاری سے تنگ آچکے ہیں.

    انھوں نے مزید کہا کہ عوام اپنے اور آنے والی نسلوں کے مستقبل پر پریشان ہے، کارکنان بلاول بھٹو کی طاقت بن کر ان کے ہاتھ مضبوط کریں، بلاول بھٹو کی صورت میں نوجوان قیادت سامنے آچکی ہے.

  • بلاول بھٹو نےتھر کی بڑی ترقی کا کریڈٹ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو دے دیا

    بلاول بھٹو نےتھر کی بڑی ترقی کا کریڈٹ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو دے دیا

    تھرپارکر: پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نےتھر کی بڑی ترقی کا کریڈٹ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو دے دیا اور وزیر اعلیٰ سندھ کو تھر میں ترقی پر مبارک باد دی جبکہ آصفہ بھٹو کا کہنا ہے آج شہیدبینظیربھٹوکاخواب حقیقت بن گیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی پی بلاول بھٹو نےتھر کی بڑی ترقی کا کریڈٹ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو دیتے ہوئے کہا ان کا دیکھا خواب آج شرمندہ تعبیر ہوا ہے۔

    بلاول بھٹو نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو تھر میں ترقی پرمبارک باد دی۔

    پی پی چیئرمین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا 10 اپریل 1986 میں بے نظیربھٹو پاکستان واپس آئیں، وقت کے آمر کو چیلنج کیا، بے نظیربھٹو کا تاریخی استقبال کیاگیا، کسی بھی سیاسی لیڈر کا یہ سب سے شانداراستقبال تھا، لاہورکی گلیوں اورسڑکوں پر30لاکھ عوام جمع ہوئے، یقیناً بےنظیربھٹوجیساکوئی نہیں۔

    چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تھر میں 330 میگا واٹ بجلی گھر کا افتتاح کیا، جس کے بعد تھرکول فیلڈ بلاک 2 کا دورہ کیا اوراوپن پٹ مائن کا معائنہ کیا، چیئرمین پیپلز پارٹی کوکوئلہ کے معیار کی کان کنی سے متعلق بریفنگ دی گئی۔

    چیئرمین نے اپنےموبائل سےکان کنی کی تصاویر بنائیں جبکہ مزدوروں سے ملاقات اورکامیابی پر مبارکباد دی۔

    ایک اور ٹوئٹ میں انھوں نے کہا میں نے ابھی تھرکول پاورپلانٹ کا افتتاح کیا ہے، یہ پاکستان میں انسان کابنایا سب سے اونچا اسٹرکچرہے۔

    دوسری جانب آصفہ بھٹو نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا آج شہیدبینظیربھٹوکاخواب حقیقت بن گیا، تھرکول پاورپلانٹ نےنیشنل گرڈکو660میگاواٹ بجلی شروع کردی۔

    خیال رہے کہ تھر سے حاصل شدہ کوئلے سے بجلی بنانے کا کام اپریل 2016 میں شروع کیا گیا تھا، گزشتہ ماہ 19 تاریخ سے تھرکول سے بجلی کی پیداوار شروع ہوگئی اور 330 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ کو فراہم کردی گئی۔

    مزید پڑھیں : بلاول بھٹو نے پہلے تھر کول پاور پلانٹ کا افتتاح کردیا

    تھر میں مدفون کوئلے کی مقدار 175 ارب ٹن ہے اور ان ذخائر میں موجود توانائی پاکستان کے گیس کے مجموعی ذخائر سے 68 گنا زیادہ ہے، اس کی مالیت اندازاً پچیس کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔

    اس وقت پاکستان میں بجلی کی طلب 25 ہزار میگا واٹ ہے تاہم ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کی خامیوں کی وجہ سے ایک وقت میں 21 ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی کی ترسیل ممکن نہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق تھر میں موجود کوئلے کی مدد سے اگلے 200 سال تک ماہانہ ایک لاکھ میگا واٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ تاحال سندھ حکومت تھر کول کی رائلٹی تھر پر خرچ کرنے کی پالیسی وضع نہ کرسکی۔

  • سیاست کی جنت عوام کے قدموں کے نیچے ہے

    سیاست کی جنت عوام کے قدموں کے نیچے ہے

    پیپلز پارٹی کے بانی اورسابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو جب قید میں تھے، اسی دوران بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کا دن آیا تو جیل میں قید باپ نے اپنی بیٹی کے نام ایک تاریخ ساز خط لکھا تھا۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے 21 جون 1978 کو اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کو سالگرہ کے موقع پر ’’میری سب سے زیادہ پیاری بیٹی ‘‘کے عنوان سے خط لکھا تھا۔ یہ خط انتہائی جذباب کا حامل تھا جس میں بھٹو نے بحیثیت باپ جو کچھ لکھا تھا اسے پڑھ کر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔

    خط میں سے اقتباسات

    جیل میں قید ذوالفقار علی بھٹو نے بے نظیر بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک قیدی ہوں اور ایک بے کس قیدی اپنی ذہین بیٹی کو مبارک بادی کا خط کیسے لکھے۔ایسے موقع پر کہ جب بیٹی اور اس کی ماں بھی نظر بند ہو، ایک قید خانے سے دوسرے قید خانے تک محبت کا پیغام کیسے پہنچے۔ایک ہتھکڑی سے دوسری ہتھکڑی تک مبارک باد کیسے پہنچے۔

    میری پیاری بیٹی میں ان جیل کی سلاخوں سے تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں جن سے میں اپنا ہاتھ بھی باہر نہیں نکال سکتامیں تمہیں تحفہ تک نہیں دے سکتا لیکن میں تمہیں عوام کا ہاتھ تحفے میں دیتا ہوں۔

    میں تمہارے لیے کیا تقریب منعقد کرسکتا ہوں ۔ میں تمہیں ایک مشہور نام اور ایک مشہور یادداشت کا تحفہ دیتا ہوں۔تم سب سے قدیم تہذیب کی وارث ہو۔ اس قدیم تہذیب کو انتہائی ترقی یافتہ اور سب سے طاقت ور بنانے میں اپنا کردار ادا کرو۔

    بھٹو نے بیٹی کو مخاطب کیا اور کہا کہ تمہارے دادا نے مجھے فخر کی اور دادی نے مجھے غربت کی سیاست سکھائی تھی جو میں اب تک تھامے ہوئے ہوں۔

    میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں اور یہ پیغام آنے والے دن کا ہے اور تاریخ کا پیغام ہے کہ صرف عوام پر یقین رکھو اور ان کی فلاح کے لیے کام کرو ۔ اللہ تعالیٰ کی جنت تمہاری والدہ کے قدموں تلے ہے اورسیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے۔

  • جمہوری طریقے سے الیکشن جیت کر ہم دوبارہ واپس آئیں گے، آصف زرداری

    جمہوری طریقے سے الیکشن جیت کر ہم دوبارہ واپس آئیں گے، آصف زرداری

    نوڈیرو: پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ جمہوری طریقے سے الیکشن جیت کر ہم دوبارہ واپس آئیں گے، باپ بیٹا کھڑے ہیں پوری جماعت بھی ہمارے ساتھ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری گڑھی خدا بخش میں پیپلزپارٹی کی شہید چیئرپرسن محترمہ بے نظیربھٹو کی گیارویں برسی کے جلسے سے خطاب کررہے تھے۔

    جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ پہلے 100 دن میں ہم نے بی بی کارڈ دے دیا تھا، جس کو کام آتا ہو اس کے لیے 100 دن ہی بہت ہیں، پہلے 100 دن میں ہم نے مشرف کو بھی ہٹا دیا تھا اور آئین میں بھی  ترامیم کی تھیں۔

    [bs-quote quote=”انشاء اللہ ہم عدالتوں میں بھی مقابلہ کریں گے” style=”style-6″ align=”left” author_name=”آصف زرداری”][/bs-quote]

    آصف زرداری نے کہا کہ دونوں باپ بیٹا کھڑے ہیں، جیالوں نے بتادیا ہم سب بھٹو ہیں یہ فخر کی بات ہے، جیسا کام یہ کرتے ہیں ہم ان کو جواب دیں گے۔

    سابق صدر نے کہا کہ ہتھکنڈوں کا پہلے بھی مقابلہ کیا ہے اور اب بھی کریں گے، جیالوں میں اتنی ہمت ہے کہ ہم ان کا مقابلہ کریں گے، مخالفین کو پیپلزپارٹی اکیلے ہی منہ دے گی۔

    انہوں نے کہا کہ انشاء اللہ ہم عدالتوں میں بھی مقابلہ کریں گے، مخالفین کو صرف ٹی وی پر بیٹھ کر تنقید کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا ہے۔

  • بے نظیر بھٹو کے بارے میں دلچسپ حقائق

    بے نظیر بھٹو کے بارے میں دلچسپ حقائق

    آج پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی منائی جارہی ہے۔ آج سے 11 برس قبل دسمبر کی ایک سرد شام ان پر قاتلانہ حملہ کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

    بے نظیر بھٹو کا کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون سربراہ بننا، ان کا سیاسی پس منظر، ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور بھائیوں کی امواتیں، اور خود بے نظیر بھٹو کی کرشماتی شخصیت وہ عوامل تھے جنہوں نے انہیں ہمیشہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا کر رکھا۔

    تاہم سیاست میں آنے سے قبل ان کے بچپن اور نوعمری کا حصہ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔

    آج ہم آپ کو بے نظیر بھٹو کے بارے میں ایسے ہی کچھ منفرد حقائق سے آگاہ کر رہے ہیں جن سے آپ آج سے قبل واقف نہیں ہوں گے۔

    آبائی شہر

    بے نظیر بھٹو کا آبائی شہر کراچی تھا۔ وہ اسی شہر میں پیدا ہوئیں، پلی بڑھیں اور یہیں سے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

    پہلی زبان

    گو کہ بے نظیر بھٹو سندھی اور اردو زبان بہت خوبصورتی سے بولتی تھیں، تاہم انہیں سکھائی جانے والی پہلی زبان انگریزی تھی۔

    کراچی گرامر اسکول

    بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم کراچی کے بہترین تعلیمی ادارے کراچی گرامر اسکول سے حاصل کی تھی۔

    ایرانی والدہ

    بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو ایرانی شہری تھیں۔ جب ان کی شادی ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی تو وہ ایران سے کراچی منتقل ہوگئیں اور یہیں رہنے لگیں۔

    ذوالفقار علی بھٹو اپنی وزرات عظمیٰ کے دور میں جب خاتون اول نصرت بھٹو کے ساتھ ایران گئے تو اس وقت شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے ان دونوں کا استقبال کیا تاہم ان کی ملکہ فرح دیبا وہاں موجود نہیں تھیں، کیونکہ شاہی قوانین کے مطابق ملکہ، ایران کے کسی عام شہری کا استقبال یا اس کی میزبانی نہیں کرسکتی تھیں۔

    آکسفورڈ یونین کی پہلی ایشائی خاتون صدر

    دنیا کی عظیم درسگاہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کے دوران وہ آکسفورڈ تقریری یونین کی صدر بھی منتخب ہوئیں۔ وہ اس عہدے پر منتخب ہونے والی پہلی ایشیائی خاتون تھیں۔

    شوہر آصف علی زرداری

    بے نظیر بھٹو اپنے شوہر سابق صدر آصف علی زرداری سے عمر میں 2 سال بڑی تھیں۔ قریبی رفقا کا کہنا ہے کہ یہ برتری دونوں کے رشتے میں بھی تھی اور بے نظیر بھٹو حاکمانہ مزاج رکھتی تھیں۔