لاہور: سینئر صحافی صابر شاکر نے انکشاف کیا ہے کہ بے نظیر بھٹو کو قتل سے ایک روز قبل اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی ندیم تاج نے جلسے میں جانے سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے لیکن محترمہ راضی نہ ہوئیں۔
یہ انکشاف انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام دی رپورٹر میں کیا، پروگرام میں صحافی سمیع ابراہیم اور عارف حمید بھٹی بھی موجود تھے۔
صابر شاکر نے کہا کہ محترمہ کو کہا گیا تھا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے، لوگ پیچھے لگے ہوئے ہیں، کراچی میں کارساز پر ان پر حملہ بھی ہوچکا تھا لیکن اس کے باوجود کس نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ آپ لیاقت باغ جلسے کے بعد گاڑی سے نکلیں اس بات کی تحقیقات ہونی چاہیے کیوں کہ جب تک تحقیقات نہیں ہوجاتیں اس وقت کچھ حتمی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
بیان کی ویڈیو دیکھیں:
صابر شاکر نے کہا کہ سعود عزیز اور ایس پی کو سزائیں سنائی گئیں جب کہ 5 افراد کو بری کردیا گیا، اس کیس کے فیصلے میں ابھی تک کئی سوالات باقی ہیں کہ ان 5 افراد کو کس بنیاد پر بری کیا گیا لیکن پرویز مشرف نے جو آج بات کہی ہے اس کی بڑے پیمانے پر تحقیقات ضروری ہے۔
اس وقت کے ڈی جی ٓآئی ایس آئی ندیم تاج کی فائل فوٹو
خیال رہے کہ آج پرویز مشرف نے بیان دیا ہے کہ بے نظیر اور مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے پیچھے آصف زرداری کا ہاتھ ہے اور میرا یہ بیان بے نظیر کے بچوں کے لیے ہے۔
ان کے اس بیان کے بعد سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے، میڈیا پر ٹاک شوز میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے پرویز مشرف کے خلاف سخت رد عمل دیا جارہا ہے۔
راولپنڈی: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ 9 سال 8 ماہ بعد سناتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے دیا ہے اور ان کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت نے کیس کے دیگر 5 ملزمان رفاقت حسنین، حسنین گل، اعتزاز شاہ، شیر زمان اور رشید ترابی کو بری کرنے کا حکم دیا جبکہ 2 پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کو 2 مختلف مقدمات میں 17، 17 سال قید کی سزا کا حکم سنایا گیا۔
بے نظیر بھٹو کے قتل کے وقت سعود عزیزسابق سی پی او اور خرم شہزاد ایس پی راول ٹاؤن تھے۔ عدالت نے دونوں مجرمان کو 5، 5 لاکھ روپے جرمانے ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
ضمانت پر رہا دونوں سابق پولیس افسران کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔
کیس کے مرکزی ملزم سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر 1 راولپنڈی کے جج محمد اصغر خان نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق بے نظیر قتل کیس میں 141 گواہان میں سے 68 گواہان کے بیانات لیے گئے، مقدمے کی 317 سے زائد سماعتیں ہوئیں، قتل کیس میں 8 چالان پیش کیے گئے اور 7 جج تبدیل ہوئے۔
تمام سماعتوں کے دوران پرویز مشرف صرف 3 بار پیش ہوئے۔
بے نظیر قتل کیس کے 7 ملزمان مارے بھی جا چکے گئے اور رفاقت حسنین، حسنین گل، اعتزاز شاہ، شیر زمان اور رشید ترابی جیل میں تھے جبکہ سابق صدر پرویز مشرف، پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد ضمانت پر رہا تھے۔
واضح رہے کہ 27 دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد جب اسلام آباد جانے کے لیے لیاقت باغ کے مرکزی دروازے پر پارٹی کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اپنی گاڑی کی چھت سے باہر نکلیں تو اس دوران ایک نامعلوم شخص نے ان پر فائرنگ کر دی۔
فائرنگ کے بعد ایک خودکش دھماکہ بھی ہوا جس میں 24 افراد جاں بحق ہوئے۔
مقدمے میں بے نظیر بھٹو کو مناسب سیکیورٹی فراہم نہ کرنے کے باعث اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو بھی شامل تفتیش کیا گیا تھا تاہم وہ عدالت سے غیر حاضر رہے جس پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انہیں مفرور قرار دیا تھا۔
یہ بات بھی حیران کن ہے کہ محترمہ کی شہادت کے بعد سنہ 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور بی بی کے شوہر آصف علی زرداری صدر کے منصب پر فائز ہوئے لیکن اس دور میں بھی اس مقدمہ میں کوئی پیشرفت نہ ہو سکی تھی۔
پیپلز پارٹی ہی کے دور حکومت میں اقوام متحدہ کی خصوصی ٹیم نے بھی پاکستان آکر کیس کی تفتیش کی لیکن کوئی خاص نتائج حاصل نہ ہوسکے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
راولپنڈی : بےنظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ جمعرات کو سنائےجانے کا امکان ہے، کیس میں 6 ملزمان کے وکلاء نے حتمی دلائل مکمل کرلئے۔
تفصیلات کے مطابق بے نظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوئی، اس موقع پر دلائل دیتے ہوئے ملزمان کے وکیل نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کو امریکن پالیسی کے خلاف ہونے پر قتل کیا گیا۔
شہید محترمہ کو دو اعلیٰ افسران نے دھمکیوں سے آگاہ بھی کردیا تھا، وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سابق صدر پرویزمشرف کو اس وقت ملزم بنایا گیاجب وہ ملک میں ہی نہیں تھے۔
بعد ازاں بے نظیربھٹو قتل کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ ملزم اعتزاز شاہ کے وکلاء کل حتمی دلائل دیں گے، ذرائع کے مطابق بے نظیربھٹو قتل کیس کا فیصلہ جمعرات کو سنائےجانے کا امکان ہے۔
آج پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ محترمہ بینظیر بھٹو کی چونسٹھویں سالگرہ ہے، آپ کو27 دسمبر2007 کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا تھا۔
مکمل ویڈیو ڈاکیومنٹری دیکھنے کے لیےاسٹوری کے آخر میں اسکرول کریں
بینظیربھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی بیٹی اورانکی سیاسی جانشین تھیں۔
– تعلیم –
آپ 21 جون 1953 کو کراچی میں پیداہوئیں۔ ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول کراچی، راولپنڈی کانونٹ اور کانونٹ آف جیسز اینڈ میری (مری) میں حاصل کی۔
سن 1973 میں انہوں نے برطانیہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے گرایجویشن کیا اوراس کے بعد آکسفورڈ یونیویرسٹی سے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔
– سیاست –
محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی تاریخ کی پہلی اورواحد خاتون وزیراعظم ہیں اورآپ دو مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پرفائزرہی ہیں۔
سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے بعد آپ نے ضیا الحق کی آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کی اور ملک میں جمہوریت کو بحال کرنے کے لئے بے پناہ کاوشیں کی تھیں۔
آپ پہلی بار دو دوسمبر 1988 کو وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئیں تاہم محض بیس ماہ کی قلیل مدت کے بعد چھ اگست 1990 کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات کے تحت آپ کی حکومت ختم کردی تھی۔
دوسری مرتبہ 19 اکتوبر 1993 میں آپ وزیراعظم منتخب ہوئیں لیکن اس باربھی آپ کی حکومت کرپشن کے الزامات کے سبب 5 نومبر 1996 کو صدرفاروق لغاری نے آپ کی حکومت کو ختم کرکے اسمبلیاں تحلیل کردیں تھیں۔
آپ کے دورِ حکومت میں آپ کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو انکی رہائش گاہ کے سامنے قتل کردیا گیا تھا اوران کے قاتل آج بھی دنیا کے سامنے نہیں لائے جاسکے۔
سابق صدرجنرل (ر) پرویزمشرف کی حکومت کے دوران انہوں نے دبئی میں جلا وطنی اختیارکئے رکھی۔
– میثاقِ جمہوریت –
14مئی 2006 کو لندن میں بینظیربھٹو اور نواز شریف میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے جس کے تحت پاکستان میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت ختم کرنے کے لئے جدود جہد شروع کی گئی۔
18اکتوبر2007 کو بینظیربھٹو ساڑھے آٹھ سال کی جلا وطنی ختم کرکے وطن واپس آئیں اور کراچی ایئرپورٹ پر ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا، ان کے استقبالی قافلے پردوخوفناک خودکش حملے ہوئے جن میں 150 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تاہم بینظیربھٹواس حملے میں محفوظ رہیں۔
– قتل –
27دسمبر2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی کے آخری عوامی جلسے سے خطاب کیا اس موقع پر عوام کی کثیرتعداد موجود تھی۔
خطاب کے بعد جلسہ گاہ سے باہر نکلتے ہوئے اپنے کارکنان سے اظہارِ یکجہتی کے لئے وہ گاڑی کی سن روف سے باہرنکلیں اور اس موقع پرایک نامعلوم شخص نے انہیں گولی کا نشانہ بنایا اوراس کے ساتھ ہی ان کی گاڑی سے محض چند قدم کے فاصلے پر ایک خود کش حملہ ہوا۔
بینظیربھٹوکو راولپنڈی جنرل اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔
بینظیربھٹوکولاڑکانہ کے سے ملحقہ علاقے نوڈیرومیں ان کے والد ذوالفقارعلی بھٹو کے مزار میں دفن کیا گیا۔
ہرسال ان کی سالگرہ اور برسی کے موقع پرملک کے کونے کونے سے کارکنان جمع ہوتے ہیں اورمحترمہ بینظیر بھٹو کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت ایک وصیت کے تحت ان کے جواں سال بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے سپرد کردی گئی اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کو پیپلزپارٹی کا شریک چیئرمین مقرر کردیا گیا جو کہ جنرل پرویز مشرف کے استعفے کے بعد صدرپاکستان کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔
اسلام آباد : محترمہ بے نظیر بھٹو کی سابق پولیٹیکل سیکرٹری اور ایم این اے ناہید خان نے کہا ہے کہ آصف زرداری نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیادوں کو مسمار کردیا ہے، نہ میں نے پہلے زرداری کو لیڈر مانا اور نہ آج مانتی ہوں۔ اگر اینٹ سے اینٹ بجانی تھی تو ملک میں رہ کر مقابلہ کرتے۔
یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پرگرام پاورپلے میں میزبان ارشد شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ پروگرام میں لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی، صفدر عباسی بھی موجود تھے۔
دوران گفتگو جب ناہید خان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ نہیں سمجھتی کہ زرداری کتنے زیرک سیاست دان ہیں جو دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ میں زرداری کو لیڈر ہی نہیں مانتی نہ میں نے پہلے زرداری کو لیڈر مانا اور نہ ہی آج مانتی ہوں۔
بدقسمتی سے آصف زرداری محترمہ کی ناگہانی شہادت کے بعد پارٹی پر قابض ہوئے۔ جس نے وفاق کی علامت ایک لبرل ترقی پسند جماعت کو سندھ کی چند اضلاع تک محدود کرکے رکھ دیا ۔ جو شخص پارٹی کی بنیادوں کو ہی تباہ کردیں آپ نے اسے زیرک سیاست دان کہہ دیا مجھے آپ کی وہ لفظ سن کر آفسوس ہوا بہر حال یہ آپ کی رائے ہیں اور میں آپ کے رائے کی قدر کرتی ہوں۔
ناہید خان نے مزید کہا کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جس کے اندر احساس ذمہ داری ہو جس کے اندر ہمت، جرات اور بہادری ہو ۔ زرداری کی طرح نہیں جو اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی بات کردے اور اپنی ہی پارٹی کی اینٹ سے اینٹ بجا کر باہر جا کربیٹھ جائے،اگر اینٹ سے ہی اینٹ بجانی تھی تو ملک میں رہ کر مقابلہ کرتےجس طرح شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ضیاءالحق کی آمریت کا مقابلہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ زرداری صاحب تو اس وقت بھی مارشل لاء کا دفاع کررہے تھے۔ وہ تو جنرل راحیل شریف جیسے پروفیشنل سپاہی کا مقابلہ نہ کرسکے۔ پہلے بھی لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں اب پھر شروع کردیا گیا ہے۔
بے نظیر بھٹو شہید کے 16اکتوبر 2007ء کو لکھے گئے ایک وصیت نامہ کی بابت جب ناہید خان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں تو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے انتہائی قابل بھروسہ ساتھیوں میں سے ہوں، زرداری کا مجھ سے گلہ بھی یہی تھا، نہایت ایمانداری سے کہہ رہی ہوں کہ بے نظیر بھٹو شہید نے مجھ سے کبھی وصیت کا ذکر نہیں کیا وہ ہمیشہ زندگی سے قریب باتیں کرتی تھیں کہ ہم حکومت میں آکر یہ یہ کام کریں گے۔
اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں زرداری کے ناہید خان پر لگائے گئے الزامات کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں زرداری کو چیلنج کرتی ہوں کہ اگر بی بی کے قتل کا مجھ پر شک ہے اور ان میں ذرا سی بھی جرات غیرت اور ہمت ہے تو مجھ پر کیس کریں وہ دبئی میں جاکر ڈرامے بناتے رہے۔ میں اس ملک ہی میں ہوں میں یہاں سے بھاگی نہیں اُن کی طرح بزدل نہیں ہوں ۔
زرداری نے بزورطاقت پارٹی کو ٹیک اوور کرنے کی کوشش کی تھی
ناہید خان نے مزید کہا کہ سال 2004ء میں بھی زرداری نے بزور طاقت پارٹی کو ٹیک اوور کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اس وقت بھی پارٹی کودو دھڑوں میں تقسیم کیا تھا، ایک اے گروپ جس کی قیادت زرداری اور بی گروپ کی قیادت بے نظیر بھٹو صاحبہ کررہی تھیں۔ انہوں نے اپنا گورنر اور وزیراعلیٰ بنایا تھا ان کا علیحدہ سیٹ اپ تھا لیکن بی بی شہید لیڈر تھیں، اس لئے زرداری ا س کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا اور اس میں تھوڑا بہت ہمارا بھی کردار تھا۔
ناہید خان نے کہا کہ زرداری ذاتی حملوں سے باز رہے اگر ہم بولے تو زرداری بولنے کے قابل ہی نہیں رہے گا۔ ہمیں زرداری کے لئے کسی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں، زرداری صاحب ہیرو بننے کی کوشش کرتے ہیں میں چیلنج کرتی ہوں کہ میں ایک سیکنڈ میں اسے زیرو کردونگی اگر پھر بھی ذاتیات پر اترے تو مجھے بھی اپنا منہ کھولنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
ناہید خان نے بلاول بھٹو کی سیاسی مستقبل سے متعلق پوچھے جانے والے سوال پر کہا کہ بلاول ہمارا بچہ ہے لیکن میرا ان کو مشورہ ہے کہ اگر ان کو سیاست کرناہے تو اپنا سیاسی ناطہ اپنے والد سے جداکرے۔ پانچ سال تک زرداری نے حکومت کی۔ کیوں بی بی کے قاتلوں کو نہیں پکڑا ؟ آج وہ دشمن کی زبان بول رہاہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ میں پورے سو فیصد یقین کے ساتھ یہ کہتی ہوں کہ محترمہ کی شہادت گولی لگنے سے ہی ہوئی تھی، محترمہ کے قتل کے حوالے سے دائر کئے گئے کیس کے حوالے سے ناہید خان نے کہا کہ میں خود اس کیس کو اب بھی فالو کررہی ہوں، بی بی کے کیس کو خواہ مخواہ پیچیدہ بنایا گیا، 13 ماہ بعد اسکارٹ لینڈ یارڈ کی تفتیشی ٹیم کو بلایا گیا ۔زرداری نے مجھے اسکارٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کے سامنے پیش ہونے سے روک دیا ۔اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی رپورٹ کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔
میں پوچھتی ہوں کہ کس نے اس رپورٹ میں تبدیلی کی کوشش کی تھی؟ بی بی کی تصویر لگا کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے، زرداری صاحب نے زندگی میں سچ کبھی بولا ہی نہیں۔ صفدر عباسی نے کہا کہ بی بی گولی چلنے سے گر گئی پھر دھماکہ ہوگیا ۔
آصف علی زرداری پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، جوکرلیا۔ ڈاکٹر صفدرعباسی
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو پر فلم بنانے کی بابت آصف زردای کے الزام کے جواب میں صفدرعباسی کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے فلمیں بنتی ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح پرفلم بنی، گاندھی پر فلم بنی عظیم لیڈروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ان پر فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ فلم بنانا کوئی غلط کام تو نہیں، آصف علی زرداری پارٹی پر قبضہ کرنا چاہتے تھے جو کرلیا جو فلم انہوں نے بنائی تھی وہ چل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی محترمہ کو شہید ہوئے صرف تین دن ہی گزرے تھے کہ 30دسمبر کو وصیت کے نام پر انہوں نے پارٹی پر قبضہ جمالیا، میں نے زرداری پر کبھی ذاتی حملے نہیں کئے لیکن اگر وہ ذاتیات پراترآئے تو مجھے بھی جواب دینے کا حق ہے۔
بات یہ ہے کہ بی بی کی شہادت کو آٹھ دس روز گزر چکے تھے میں اور ناہید خان نے زرداری سے فلم کی بابت کہا تو ان کا جواب تھا کہ رابرٹ ریڈ فورڈ محترمہ پر فلم بنا رہا ہے ۔میں پوچھتا ہوں کدھر ہے وہ رابرٹ ریڈ فورڈ ؟ کیوں ابھی تک فلم نہیں بنائی گئی ؟
اسی ملاقات میں ناہید خان نے زرداری سے کہا کہ تھا کہ آپ کی پارٹی کے اندر کیپی سٹی کم اور لیمیٹیشن زیادہ ہے آپ کو پارٹی میں قبولیت حاصل نہیں۔ آج ہمارا زرداری کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں، موروثی سیاست کے حوالے سے عدالت میں دائر کیس کے حوالے سے ڈاکٹر صفدر عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی عوام کی پارٹی ہے کسی کے باپ کی ذاتی جاگیر نہیں جس پر قبضہ جما لیا جائے۔
موروثی سیاست کے متعلق ایک کیس کے حوالے سے صفدر عباسی کا کہنا تھا کہ اصل میں وہ پٹیشن ناہید خان نے دائر کی ہے ۔ زرداری پاکستان پیپلز پارلیمنٹرین کا چئیرمین ہے پاکستان پیپلز پارٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ 2013ء میں زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کو رد کیا۔
دوہزار تیرہ ء میں لاہور ہائی کورٹ میں لکھ کر دیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اب پولیٹیکل ایسوسی ایشن بن چکی ہے اس کا کوئی سیاسی کردار نہیں، اصل پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین ہے اس وقت ہمارا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اور امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس کیس پر پیش رفت ہوگی۔
حسین حقانی اور ڈان لیکس کے معاملے کو دبایا جا رہا ہے، لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفیٰ
پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفیٰ نے کہا کہ حال ہی میں حسین حقانی کے آرٹیکل اور ڈان لیکس پرجس قسم کا جواب آیا ہے اس سے تاثر یہ ابھر ا ہے کہ ان کیسز کو دبانے کی کوشش ہورہی ہے، قومی سلامتی سے متعلق ایسے مسائل سے فوج خود کو الگ نہیں رکھ سکتی۔
کور کمانڈر اجلاس میں واضح کردیا گیا ہے کہ جو لوگ بھی اس میں ملوث ہے چاہے وہ کتنے ہی بڑ ے کیوں نہ ہو ان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہئے اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
ایک سوال پر کہ ڈان لیکس پر کب ایکشن ہونے کی امید ہے کیونکہ پچھلے کئی مہینوں سے کور کمانڈر اجلاسوں میں ڈان لیکس مسلسل زیر بحث ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی نے کہا کہ میری اطلاع کے مطابق جب چیف آف آرمی اسٹاف سے اس بابت پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا اگر اتنی دیر انتظار کیا گیا تو کچھ انتظار اور سہی۔ رپورٹ آنی ہے رپورٹ آجائے گی۔
غلام مصطفی نے کہا کہ عسکری قیادت نے حکومت سے یہ بھی کہا ہے کہ رپورٹ جس انداز میں بھی ہے ان کو سامنے لایا جائے ۔ تاکہ عوام اور افواج پاکستان کو پتہ چل سکے۔ کورکمانڈر اجلاس میں حکومت کو واضح کردیاگیاہے کہ جو لوگ بھی اس میں ملوث ہے انہیں سزا دی جائے۔
آج پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹوزرداری اپنی 28 ویں سالگرہ منارہے ہیں‘ انہوں نے 2014 میں پیپلز پارٹی کی باگ ڈورباقاعدہ طریقے سےاپنے ہاتھ میں لی۔
بلاول بھٹو 21 ستمبر 1988 کو کراچی میں پیدا ہوئے اور خاندانی حالات کے سبب 1999 میں اپنی والدہ کے ہمراہ ملک سے باہر چلے گئے ‘ انہوں نے اپنی تعلیم کا بیشتر حصہ ملک سے باہر مکمل کیا ہے تاہم اب وہ پاکستان کی سیاست میں پوری طرح متحرک ہیں۔
ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین سیاست دان تصور کیے جاتے ہیں جنہیں ملٹری ڈکٹیٹر جنر ل ضیا الحق کے دورِ حکومت میں سزائے موت دی گئی تھی۔ بلاول کی والدہ دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم رہی ہیں اور انہیں کسی بھی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
بلاول بھٹو زرداری کی سالگرہ پر ہم بتارہے ہیں ان کی زندگی کے کچھ ایسے گوشوں کے بارے میں جن سے آپ یقیناً آج تک ناواقف رہے ہوں گے۔
بلاول بھٹو کی ذاتی زندگی کے اہم گوشے
بلاول کی پیدائش
سن 1988 کے الیکشن 16 نومبر کو منعقد ہونا تھے اور بلاول بھٹو کی پیدائش بھی انہی دنوں متوقع تھی لہذا بینظیر بھٹو نے ڈا کٹروں سے مشاورت کرکے 21ستمبر کو یعنی الیکشن سے دو ماہ قبل کراچی کے لیڈی ڈیفرن نامی اسپتال میں قبل از وقت آپریشن کرایا جس کے نتیجے میں بلاول بھٹو زرداری پیدا ہوئے۔ اس قبل ازوقت آپریشن کے نتیجے میں بینظیر عام انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لے سکیں اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم قرار پائیں۔
لیڈی ڈیفرن اسپتال
بلاول – نام کی وجہ تسمیہ
بلاول بھٹو کا نام سندھ کے عظیم صوفی بزرگ شاعر اور فلسفی مخدوم بلاول بن جام حسن سمو کے نام پر رکھا گیا ہے جنہیں دسویں صدی ہجری میں اس وقت کے سندھ کے ارغون حکمران نے کوہلو میں پسوا کر قتل کرادیا تھا۔ کچھ ذرائع کا کہناہے کہ بلاول کا نام زرداری قبیلے کے کسی بزرگ کے نام پر رکھا گیا ہے تاہم زیادہ ترقریبی ذرائع مخدوم بلاول سے نسبت پر متفق ہیں۔ بلاول کے معنی ہیں ’’ ایسا کہ جس کا کوئی ثانی نہ ہو‘‘۔
مخدوم بلاول شہید کا مزار – دادو
عینک والا جن
بلاول بھٹو زرداری کا بچپن پاکستان میں گزرا اور ان کے بچپن میں پاکستان ٹیلی ویژن سے بچوں کا مقبول ترین ڈرامہ ’ عینک والا جن نشر کیا جاتا تھا جو کہ بلاول کو بہت پسند تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلاول کی پسندیدگی کے سبب سرکاری ٹیلی ویژن نے عینک والا جن کی طے شدہ اقساط میں اضافہ کیا تھا کیوں کہ اس وقت ان کی والدہ بینظیر وزیراعظم تھیں۔
عینک والا جن کا مرکزی کردار – نستور جن
بلاول ‘ تاریخ کے طالب علم نکلے
اپنے نانا اور والدہ کی طرح بلاول بھٹو زرداری نے بھی آکسفورڈ یونیورسٹی کے کرائسٹ چرچ کالج سے تعلیم حاصل کی ہے۔ انہوں نے پہلے تاریخ برطانیہ میں داخلہ لیا تھا تاہم بعد ازاں اپنا تبادلہ تاریخِ عمومی میں کروالیا۔
آکسفورڈ یونی ورسٹی
خبردار! حملہ کرنے سے پہلے سوچ لینا
نا زو نعم میں پلنے والے بلاول بھٹو کو دیکھ کر ایسا تاثر ذہن میں آتا ہے کہ کسی جسمانی لڑائی کی صورت میں باآسانی انہیں زیر کیا جاسکتا ہے تاہم ایسا سوچنے والے کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کیونکہ بلاول بھٹو کراٹے ’تائی کوانڈو‘ میں بلیک بیلٹ کے حامل ہیں اور یقیناً پلک چھپکنے میں کسی کی کوئی بھی ہڈی توڑنے کی مہارت رکھتے ہیں۔
بلاول بھٹوزرداری کی کم سنی کی ایک تصویر
بلاول بھٹو کادکھ
بلاول بھٹو دیگر کھیلوں میں بھی دلچسپی ہے اور وہ کرکٹ‘ شوٹنگ اور گھڑ سواری کو بے پناہ پسند کرتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ افسوس رہا کہ وہ اپنے خاندانی پس منظر کے سبب آزادانہ گھوم پھر نہیں سکتے جس کے سبب وہ باقاعدہ کرکٹ نہیں کھیل سکے۔
بلاول پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ٹی شرٹ پہنے ہوئے
بچپن میں کیا بننا چاہتے تھے
بلاول کی والدہ بینظیر بھٹو نے ایک انٹرویو کے دوران پوچھے گئے سوال کے جواب میں انکشاف کیا تھا کہ انتہائی مضبوط خاندانی سیاسی پس منظر کے باوجود بلاول سیاست داں نہیں بننا چاہتے۔ انکا کہنا تھا کہ ’’جب وقت آئے گا تو یہ خود طے کرلیں گے کہ انہیں کیا کرنا ہے ‘‘۔ واضح رہے کہ اس انٹرویو کے وقت بلاول انتہائی کم عمر تھے اورپھر حالات ایسے بدلے کہ اب ان کا شمار پاکستان کے اہم سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔
کراچی : سانحہ کارسازکو کو آٹھ سال مکمل ہوگئے۔سانحہ کارسازاس وقت رونما ہوا جب محترمہ بے نظیر بھٹو کے جلوس پر خود کش حملہ کیا گیا۔
پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا اعزازپانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کرکے اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کراچی ائیر پورٹ پہنچیں تو ان کا فقید المثال استقبال ہو ا۔
عوام کا ایک جم غفیرمحترمہ کے استقبال کےلئے موجود تھا، بے نظیر بھٹو کو پلان کے تحت کراچی ائیرپورٹ سے بلاول ہاؤس جانا تھا لیکن جیالوں کے ٹھاٹھے مارتے ہوا سمندرنے مختصر سے فاصلے کو انتہائی طویل بنا دیا۔
کارکن اپنے محبوب قائد کو اپنے درمیان دیکھ کر انتہائی خوش اور پرجوش تھے ۔ اوررات 12 بجے کے بعد بے نظیر بھٹو کا قافلہ جب شاہراہ فیصل پر واقع کارساز کے مقام پر پہنچا تو یکے بعد دیگر ہونے والے دو بم دھماکوں نے اپنے قائد کی آمد کا جشن مناتے کارکنوں کو خون میں نہلادیا۔
دھماکوں میں ایک سو ستر سے زائد افراد شہید اورساڑھے پانچ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے اس حملے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی تو جان بچ گئی مگر انہیں اپنے سیکڑوں کارکنوں کی شہادت کا غم اٹھانا پڑا۔
سانحہ کی تحقیقات کےلئے اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے حکم پر ڈاکٹرغوث محمد کی سربراہی میں ایک رکنی ٹریبونل تشکیل دیا جس نے فوری طور پر کارروائی کرتےہوئے سانحہ میں زخمی ہونے والےافراد کے بیانات قلمبند کرنا شروع کئے۔
خطروں میں گھری اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کااعزاز پانے والی اس بہادر رہنما کو ستائیس دسمبر کو پھر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس بار دشمن کامیاب رہا، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کردی گئیں۔
کراچی: سابق صدرجنرل ریٹائرٖڈ پرویز مشرف کا کہنا ہے بلاول تلاش کریں تو والدہ اورماموں کے قاتل آس پاس مل جائیں گے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ بے نظیر کو بیت اللہ محسود نے قتل کرایا، تلاش کریں تو بلاول کو اپنی والدہ اورماموں کے قاتل آس پاس مل جائیں گے، ممکن ہے کہ آسف زرداری اور بیت اللہ کا آپس میں رابطہ ہو۔
سابق صدرکا کہنا تھا سب کو معلوم ہے بی بی کی شہادت سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچا، پیپلزپارٹی والے بھی بے نظیرکی مبینہ وصیت کو درست نہیں مانتے۔
پرویزمشرفکا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع اس وقت ملک کی ضرورت ہے لہذا جنرل راحیل شریف کو ملازمت میں توسیع ملنی چاہیئے۔
سابق صدرنے کہا چوہدری نثارجھوٹ بول رہے ہیں، کبھی الطاف حسین کومارنے کی بات نہیں کی،ایم کیوایم کو بھارتی فنڈنگ کی کبھی اطلاع نہیں ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں گڈ گورننس نہیں ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ با اختیار نیب ہم نے قائم کی کہ با اثر افراد کا احتساب کیا جاسکے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کرپشن اور دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی لازمی ہونی چاہئے۔
کراچی : سابق صدر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ مارک سیگل کے بیان کو دیکھنا ہوگا کہ ٹارگٹ میں ہوں یا کوئی شکرہے بینظیرکے بھائی کے قتل کا الزام مجھ پرنہیں آیا۔
اے آروائی نیوز کے پروگرام ’’سوال یہ ہے‘‘ میں ریٹائرڈ آرمی چیف اورپاکستان کے سابق صدرجنرل پرویزمشرف نے کہا کہ مارک سیگل کو بیان ریکارڈ کرانے کے لئے وکیل کی کیا ضرورت تھی دیکھنا ہوگا کہ یہ کوئی سازش تونہیں ہے۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ بینظیرسےکوئی رابطہ نہیں تھا صرف دومرتبہ ملاقات ہوئی تھی اورایک باربات کی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2009 سے پہلے میرے پاس موبائل فون نہیں تھا لہذاموبائل فون کال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تحقیقات ہونی چاہئیے کہ کس نے بینظیر کو فون کیا تھا۔
سابق صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ بینظیرکومکمل سیکیورٹی دی گئی تھی انہیں کس نے گاڑی سے باہر نکلنے کا کہا اس بات کی بھی تحقیق ہونا چاہئیے اور ان کے چیف سیکیورٹی آفیسرخالد شہنشاہ کی بھی تحقیقات ضروری ہیں۔
پرویز مشرف نے یہ بھی کہا کہ شکر ہے کہ بینظیر بھٹو کے بھائی کے قتل کا الزام مجھ پرنہیں آیا۔
فوج کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام فوج کو پسند کرتی ہے فوج جب بھی اقتدار میں آتی ہے تو ملک ترقی کرتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئی ایس آئی طاقتور ایجنسی ہےاورہمیں اس پرفخرکرناچاہئے۔
اسلام آباد : بےنظیر بھٹو قتل کیس میں پیپلزپارٹی کےناراض مرکزی رہنماؤں ناہید خان اور ان کے شوہر صفدر عباسی نے فریق بننے کا فیصلہ کرلیا۔ ترجمان ناہید خان کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کل ناہید خان درخواست دائر کریں گی۔
درخواست میں بے نظیر بھٹو کے ڈرائیور جاوید الرحمان سمیت دیگر گواہوں کے بیانات کی مصدقہ کاپی حاصل کرنے کی استدعا کی جائےگی۔
ذرائع کے مطابق ناہید خان نے کہا ہے کہ آصف زرداری کے ڈرائیور نے مجھ پر الزام لگایا ہے ،کل عدالت سے مقدمے کا ریکارڈ حاصل کروں گی ۔ انہوں نے کہا کہ عدالت سے استدعا کرینگے کہ ہمیں سناجائے ۔
یاد رہے کہ ناہید خان اورصفدر عباسی نےبےنظیر بھٹو قتل کیس میں گزشتہ سات سال سے اپنا بیان دینےاور مقدمے میں فریق بننے کا اعلان کررکھا ہے۔