Tag: benefits

  • شوگر کے مریضوں کے لیے نہایت مفید پودا

    شوگر کے مریضوں کے لیے نہایت مفید پودا

    شوگر کا شکار افراد تمام اقسام کا میٹھا کھانا چھوڑ دیتے ہیں علاوہ ازیں ایسے افراد جو اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں وہ بھی میٹھا کھانا کم کردیتے ہیں۔

    تاہم اس وقت ایک ایسی چیز موجود ہے جو چینی کی متبادل ہے۔

    اسٹیویا نام کا ایک پودا انسانی صحت کے لیے نہایت مفید ہے جس کا پاؤڈر چینی کی جگہ استعمال ہوسکتا ہے۔

    جامعہ کراچی کے فوڈ سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر غفران سعید کا کہنا ہے کہ یہ پاؤڈر عام چینی سے 3 گنا میٹھی ہوتا ہے لہٰذا کمرشلی طور پر اسے مختلف اشیا کے ساتھ ملا کر فروخت کیا جاتا ہے۔

    چونکہ یہ ایک قدرتی چیز ہے لہٰذا یہ جسم کے لیے فائدہ مند بھی ہے اور چینی کی طرح نقصان بھی نہیں پہنچاتی۔

    اسٹیویا کے پتے خون میں شوگر کی مقدار کم کرتے ہیں جبکہ بلڈ پریشر کو بھی کنٹرول میں رکھتے ہیں۔

    ڈاکٹر غفران کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں اس کی فروخت عروج پر ہے، اس پودے کی کاشت معتدل موسم میں ہوتی ہے اور یہ ہمارے ملک میں ابھی بھی کئی مقامات پر اگایا جارہا ہے، اگر منظم طریقے سے اس کی کاشت میں اضافہ کیا جائے اور اس کی پراسیسنگ کی انڈسٹری لگائی جائے تو یہ ملکی معیشت کے لیے نہایت فائدہ مند ہوسکتی ہے۔

  • اونٹنی کے دودھ کا حیران کن فائدہ سامنے آگیا

    اونٹنی کے دودھ کا حیران کن فائدہ سامنے آگیا

    اونٹنی کے دودھ کو نہایت فائدہ مند سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ اس میں کم چکنائی (فیٹ) اور بنیادی غذائی اجزا کی کثرت ہے۔ ایسے افراد میں جن کا جسم لیکٹوز قبول نہیں کرتا ان کے لیے اونٹنی کا دودھ عام دودھ کی نسبت زیادہ آسانی سے قابل ہضم ہے۔

    یو اے ای یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف بائیولوجی محمد ایوب اور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف فوڈ سائنس ساجد مقصود نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں میں اونٹنی کے دودھ کے انسانی صحت اور غذائیت پر فائدہ مند اثرات پر یقین رکھا جاتا ہے۔

    متعدد تحقیقی رپورٹس میں اس دودھ کو سپر فوڈ قرار دیا گیا ہے جو جراثیم کش، اینٹی آکسائیڈنٹ اور اینٹی ہائپر ٹینسو (فشار خون کی روک تھام کرنے والا) ہوتا ہے۔

    مگر محققین کی توجہ جس چیز نے اپنی توجہ مرکوز کروائی، وہ جانوروں اور انسانوں پر کلینکل تحقیقی رپورٹس میں اونٹنی کے دودھ سے ذیابیطس سے جڑے عناصر جیسے بلڈ شوگر کنٹرول سے لے کر انسولین کی مزاحمت کے حوالے سے فوائد کا ثابت ہونا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ اونٹوں کو 3 سے 4 ہزار سال پہلے انسانوں نے پالتو بنایا تھا، یہ جانور متعدد منفرد خصوصیات کا مالک ہے، جیسے اپنے کوہان میں 36 کلو تک چکنائی کو محفوظ کرنے کی صلاحیت، 100 میل تک چلنے اور 49 ڈگری درجہ حرارت میں بغیر پانی کے لگ بھگ ایک ہفتے تک زندہ رہنے کی صلاحیت وغیرہ۔

    اونٹ ان جانوروں میں شامل ہے جو غذا کو ہضم کرنے سے قبل خمیر بناتے ہیں اور بہت کم سے بھی بہت زیادہ حاصل کرتے ہیں۔

    یہ متعدد اقسام کے پودوں کو کھاتے ہیں اور ان کو گائے کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے ہضم کرتے ہیں۔

    اونٹنی کے دودھ پر تحقیق کا سلسلہ 3 سے 4 دہائی قبل شروع ہوا تھا اور بظاہر گائے اور اس دودھ میں چکنائی، پروٹین، لیکٹوز اور کیلشیئم کی سطح قابل موازنہ ہے مگر زیادہ گہرائی میں جانے سے اس دودھ کے منفرد فوائد سامنے آئے جیسے وٹامن سی کی بہت زیادہ مقدار، اہم غذائی منرلز اور زیادہ آسانی سے ہضم ہونے کی صلاحیت وغیرہ اسے گائے کے دودھ سے زیادہ بہتر بناتے ہیں۔

    کچھ ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ جن بچوں کو گائے کے دودھ سے الرجی ہوتی ہے وہ اونٹنی کا دودھ بغیر کسی مسئلے کے استعمال کرسکتے ہیں۔

    تحقیقی رپورٹس کے مطابق اجزا کے لحاظ سے اونٹنی کا دودھ ماں کے دودھ سے کافی ملتا جلتا ہے، دونوں میں پروٹین ہوتی ہیں اور وہ اجزا نہیں ہوتے جو دودھ سے الرجی کا باعث بنتے ہیں۔

    یو اے ای میں امپرئیل کالج لندن ڈائیبیٹس سینٹر کے ماہرین نادر لیسان اور ایڈم بکلے نے بتایا کہ غذائی معیار سے قطع نظر اونٹنی کا دودھ ذیابیطس سے بچاؤ کی خصوصیات سے بھی لیس ہوتا ہے۔

    ان دونوں نے انسولین کے ردعمل پر اونٹنی کے دودھ کے اثرات کا ایک کلینکل ٹرائل بھی کیا۔

    یو اے ای یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف بائیولوجی محمد ایوب اور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف فوڈ سائنس ساجد مقصود کی ایک حالیہ لیبارٹری تحقیق میں ذیابیطس کے حوالے سے اونٹنی کے دودھ کے اثرات پر مزید روشنی ڈالی گئی۔

    تحقیقی رپورٹس کے نتائج

    ایسے ممالک جہاں یہ دودھ آسانی سے دستیاب ہے وہاں اس کے فوائد پہلے ہی نظر آرہے ہیں۔

    مثال کے طور پر شمالی بھارت میں اونٹ پالنے والی برادری پر ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ باقاعدگی سے اونٹنی کا دودھ پیتے ہیں ان میں ذیابیطس کی شرح صفر فیصد ہوتی ہے۔

    عالمی سطح پر اونٹنی کے دودھ کی پروڈکشن میں 1961 سے اب تک 4.6 گنا اضافہ ہوچکا ہے جس سے روایتی خطوں سے ہٹ کر بھی اس کے استعمال کی مقبولیت کا عندیہ ملتا ہے۔

    یورپی یونین میں بھی کیمل ملک پراجیکٹ کی کوششوں کو سپوٹ کیا جارہا ہے جبکہ بحیرہ روم کے خطے میں بھی اس کے حوالے سے دلچسپی بڑھی ہے۔

    چین سے لے کر آسٹریلیا میں اونٹنی کے دودھ سے بنی مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے جبکہ امریکا میں مختلف کمپنیوں کی جانب سے اس کی پروڈکشن بڑھانے پر کام ہورہا ہے۔

    مگر اب بھی یہ گائے کے دودھ سے بہت مہنگا ہے اور متعدد افراد اسے روزانہ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

    ابھی کمرشل پراڈکٹ کی شکل میں اونٹنی کے دودھ کے فوائد کے تسلسل کے حوالے سے بھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔ اس دودھ کا معیار کا انحصار مختلف عناصر جیسے لوکیشن اسٹیج، خطہ، اونٹوں کی غذائی عادات وغیرہ پر ہوتا ہے تو ابھی یہ جاننا باقی ہے کہ ان سے دودھ پر کس حد تک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    یو اے ای یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر محمد ایوب اور ساجد مقصود نے اپنی حالیہ تحقیق میں کہا کہ اونٹنی کا دودھ ذیابیطس کے نئے علاج کے لیے اہم ترین ثابت ہوسکتا ہے۔

    مگر ذیابیطس کے جو مریض اس دودھ کو آزمانا چاہتے ہیں انہیں کچھ باتیں ذہن میں رکھنی چاہیئے۔

    سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ اس دودھ کو ابالے بغیر پینے سے گریز کرنا چاہیئے ورنہ ای کولی اور دیگر جراثیم جسم میں جاکر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    اسی طرح اگرچہ متعدد تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ اونٹنی کا دودھ بلڈ شوگر کنٹرول کو بہتر اور ذیابیطس ٹائپ ون کے مریضوں میں انسولین کی ضرورت کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    مگر ماہرین نے مریضوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسے انسولین کا متبادل مت سمجھیں۔

  • کووڈ ویکسین کے حوالے سے مزید حوصلہ افزا تحقیقات

    کووڈ ویکسین کے حوالے سے مزید حوصلہ افزا تحقیقات

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے خلاف ویکسی نیشن کا عمل تیز رفتاری سے جاری ہے، حال ہی میں مختلف ویکسینز کے حوالے سے نئی حوصلہ افزا تحقیقات سامنے آئی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ کرونا ویکسی نیشن کروانے کے بعد بیمار ہونے کا امکان تو کسی حد تک ہوتا ہے مگر کووڈ کی سنگین شدت اور موت کے خطرے سے ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔

    یہ بات امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کی جانب سے جاری 3 تحقیقی رپورٹس کے نتائج میں سامنے آئی۔

    ان تحقیقی رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ کرونا کی زیادہ متعدد قسم ڈیلٹا کے پھیلاؤ کے باوجود ویکسینز کی افادیت برقرار رہتی ہے۔

    پہلی تحقیق میں اپریل سے جولائی 2021 کے دوران 6 لاکھ سے زیادہ کووڈ کیسز اور ویکسی نیشن اسٹیٹس کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسی نیشن نہ کرانے والوں میں کووڈ سے متاثر ہونے کا امکان ویکسی نیشن کروانے والوں کے مقابلے میں 4.5 گنا زیادہ ہوتا ہے، اسپتال میں داخلے کا خطرہ 10 جبکہ موت کا خطرہ 11 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا کہ ڈیلٹا قسم کے پھیلاؤ سے ویکسینز کی افادیت میں کچھ کمی آئی ہے بالخصوص 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے، مگر بیماری کی سنگین شدت اور موت سے تحفظ کے لیے ٹھوس تحفظ برقرار رہتا ہے۔

    تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ ڈیلٹا کے پھیلاؤ کے بعد ویکسینز کی بیماری سے بچاؤ کی افادیت 90 فیصد سے گھٹ کر 80 سے نیچے چلی گئی۔

    سی ڈی سی کے مطابق 20 جون سے 17 جولائی کے درمیان کووڈ سے بیمار ہو کر اسپتال میں داخل ہونے والوں میں صرف 14 فیصد وہ تھے جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی اور اموات میں یہ شرح 16 فیصد تھی۔

    رپورٹ کے مطابق یہ اس لیے حیران کن نہیں کیونکہ ویکسی نیشن کی شرح میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے اور اسی وجہ سے ویکسی نیشن کے بعد اسپتال میں داخل یا موت کا شکار ہونے والے افراد کی شرح میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔

    سی ڈی سی نے بتایا کہ ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ سنگین بیماری اور موت کے خلاف ویکسینز کی افادیت میں معمولی کمی آئی اور ٹھوس تحفظ برقرار رہا۔

    دوسری تحقیق میں ثابت ہوا کہ موڈرنا ویکسین اسپتال میں داخلے کا خطرہ کم کرنے کے حوالے سے فائزر/بائیو این ٹیک اور جانسن اینڈ جانسن ویکسینز کے مقابلے میں کچھ زیادہ مؤثر ہے۔

    یہ تینوں ویکسینز کی افادیت کے حوالے سے امریکا میں ہونے والی سب سے بڑی تحقیق تھی جس میں اسپتالوں اور طبی اداروں میں موجود جون سے اگست کے شروع تک آنے والے 32 ہزار مریضوں کے ڈیٹا کو دیکھا گیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ تینوں ویکسینز اسپتال میں داخلے سے تحفظ دینے کے حوالے سے مجموعی طور پر 86 فیصد تک مؤثر ہیں۔

    تیسری تحقیق میں 5 اسپتالوں میں زیر علاج کووڈ کے مریضوں میں 2 ایم آر این اے ویکسینز (موڈرنا اور فائزر بائیو این ٹیک) کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    یکم فروری سے 6 اگست کے ڈیٹا میں دریافت ہوا کہ ایم آر این اے ویکسینز اسپتال میں داخلے سے تحفظ کے لیے 87 فیصد تک مؤثر ہیں اور ڈیلٹا کے پھیلاؤ کے باوجود ٹھوس تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

  • کیا میٹھا کھانا چھوڑ دینا نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے؟

    کیا میٹھا کھانا چھوڑ دینا نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے؟

    میٹھا چھوڑ دینے کے مختلف فوائد تو کافی ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ میٹھا چھوڑنے کے بعد کے ابتدائی کچھ دن آپ کو منفی اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے، ماہرین اس کے مختلف اسباب بیان کرتے ہیں۔

    مختلف تحقیقات کے مطابق خوارک میں چینی کی مقدار کم کرنے کے صحت پر واضح طور پر مثبت اثرات پیدا ہوتے ہیں اور کیلوریز کم لینے سے بھی صحت بہتر ہوتی ہے جبکہ اس سے وزن بھی کم ہوتا ہے لیکن لوگ جب چینی کم کھانا شروع کرتے ہیں تو کبھی کبھار اس کے صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔ مثلاً سر میں درد رہنا، تھکن کا احساس اور مزاج میں تلخی پیدا ہونا، لیکن یہ عارضی ہوتا ہے۔

    ان علامات کی وجوہات کے بارے میں کم علمی پائی جاتی ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ ان علامات کا تعلق چینی زیادہ کھانے سے دماغ کے ردعمل سے ہو، جسے بائیولوجی آف ریوارڈ یا صلے کی بائیولوجی کہا جاتا ہے۔

    نشاستہ دار غذا کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، جن میں چینی شامل ہے جو کھانے کی بہت سی چیزوں میں قدرتی طور پر شامل ہوتی ہیں، جیسا کہ پھلوں میں فرکٹوز اور دودھ میں لیکٹوز کی صورت میں۔ کھانے کی چینی جس کو سائنسی اصطلاح میں سوکروز کہا جاتا ہے وہ گنے، چقندر، میپل سیرپ اور شہد کے بڑے اجزا، گلوکوز اور فرکوٹوز میں شامل ہے۔

    ایسی غذا کے استعمال سے جس میں چینی کی مقدار زیادہ ہو اس کے گہرے بائیولو جیکل اثرات ذہن پر مرتب ہوتے ہیں، یہ اثرات شدید ہوتے ہیں اور یہ بحث ابھی جاری ہے کہ کیا یہ چینی کے عادی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

    سوکروز منہ میں چینی کا ذائقہ محسوس کرنے والے اجزا کو متحرک کر دیتا ہے جن کا بالآخر اثر دماغ میں ڈوپامین نامی کیمیا کا اخراج ہوتا ہے۔ ڈوپامین ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے جس کے ذریعے دماغ میں پیغام رسانی ہوتی ہے، جب عمل شروع ہوتا ہے تو دماغ ڈوپامین خارج کرنا شروع کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے ریوارڈ یا انعامی کیمیکل کہا جاتا ہے۔

    ڈوپامین کا یہ انعامی عمل دماغ کے ان حصوں میں ہوتا ہے جو مزے اور انعام سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ انعامی عمل ہمارے رویے پر اثر انداز ہوتا ہے اور ہم وہ کچھ دوبارہ کرنا چاہتے ہیں جس سے ہمارے دماغ میں ڈوپامین خارج ہوتا ہے۔

    انسانوں اور جانوروں پر تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح چینی سے یہ انعامی عمل متحرک ہو جاتا ہے۔ تیز میٹھا اس عمل کو متحرک کرنے میں کوکین کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ چوہوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ چینی چاہے وہ خوراک کی صورت میں لی جائے یا اسے انجیکشن کے ذریعے خون میں شامل کیا جائے اس سے یہ انعامی عمل متحرک ہو جاتا ہے۔

    اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تعلق منہ میں ذائقہ محسوس کرنے کے اجزا سے نہیں ہوتا۔ چوہوں پر ہونے والی تحقیق سے ایسے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں کہ سوکروز کے استعمال سے دماغ میں ڈوپامین متحرک کرنے والے نظام میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور اس سے انسان اور جانوروں کے مزاج اور رویے بھی بدل جاتے ہیں۔

    چینی ترک کرنے کے ان ابتدائی دنوں میں جسمانی اور ذہنی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں جن میں ڈپریشن، پریشانی، بے چینی، ذہنی دباؤ، تھکن، غنودگی اور سر درد شامل ہے۔ چینی چھوڑنے سے جسمانی اور ذہنی طور پر ناخوشگوار علامتیں محسوس ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کئی لوگوں کے لیے ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔

    ان علامات کی بنیاد پر وسیع تر تحقیق نہیں ہو سکی ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ اس کا تعلق ذہن کے انعامی جوڑوں سے ہے۔ چینی کی لت لگ جانے کا خیال ابھی متنازعہ ہے لیکن چوہوں پر تحقیق سے ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ بہت سے دوسرے ایسے اجزا جن کی آپ کو عادت یا لت پڑ جاتی ہے اور ان میں چینی بھی شامل ہے اور اس کو چھوڑنا مختلف اثرات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے مثالاً چینی کھانے کی شدید خواہش، طلب اور طبعیت میں بے چینی کا پیدا ہونا۔

    جانوروں پر مزید تحقیق سے ظاہر ہوا کہ چینی کی عادت کے اثرات منشیات کے اثرات سے ملتے ہیں جن میں دوبارہ ان کا استعمال شروع کر دینا اور اس کی طلب کا محسوس کیا جانا شامل ہے۔ اس ضمن میں جتنی بھی تحقیق کی گئی ہے وہ جانوروں تک ہی محدود ہے اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ انسانوں میں ہی ایسا ہی ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق جو لوگ اپنی خوراک میں چینی کی مقدار کم کرتے ہیں ان کے ذہن کے کیمیائی توازن پر یقینی طور پر اثر پڑتا ہے اور یہ ہی ان علامات کے پیچھے کار فرما ہوتا ہے۔ ڈوپامین انسانی دماغ میں، قے، غنودگی، بے چینی اور ہارمون کو کنٹرول کرنے میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔

    گو کہ چینی کے انسانی دماغ پر ہونے والے اثرات پر تحقیق محدود ہے لیکن ایک تحقیق سے ایسے شواہد ملے ہیں کہ موٹاپے اور کم عمری میں فربہ مائل افراد کی خوراک میں چینی کم کرنے سے اس کی طلب شدید ہو جاتی ہے اور دوسری علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں۔

  • ویکسی نیشن کیوں ضروری ہے اور اس کے کیا فوائد ہیں؟

    ویکسی نیشن کیوں ضروری ہے اور اس کے کیا فوائد ہیں؟

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا بہت زیادہ متعدی ہے یعنی کسی کو بھی آسانی سے بیمار کرسکتی ہے مگر وہ ویکسنز سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت نہیں کرسکتی۔

    واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ویکسی نیشن مکمل کرانے والے افراد اگر ڈیلٹا سے متاثر ہو بھی جائیں تو بھی وہ زیادہ بیمار نہیں ہوتے۔

    اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے فائزر/ بائیو این ٹیک کوویڈ ویکسین سے جسم میں بننے والی اینٹی باڈیز کے ردعمل کی جانچ پڑتال کی اور دریافت کیا کہ ڈیلٹا قسم ایک کے علاوہ دیگر اینٹی باڈیز پر حملہ آور نہیں ہوپاتی۔

    اس کے مقابلے میں کورونا کی قسم بیٹا وائرس ناکارہ بنانے والی متعدد اینٹی باڈیز سے بچنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اس سے قبل اسی ٹیم نے ایک اور تحقیق میں ثابت کیا تھا کہ قدرتی بیماری اور ویکسنیشن سے جسم میں اینٹی باڈیز بننے کا دیرپا عمل تشکیل پاتا ہے۔

    محققین کے مطابق اینٹی باڈی ردعمل تحفظ کا صرف ایک پہلو ہے اور اس کی وسعت بھی بیماری سے بچاؤ کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ محققین نے بتایا کہ ڈیلٹا کا دیگر اقسام کو پیچھے چھوڑ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دیگر اقسام کے مقابلے میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کے خلاف زیادہ مزاحمت بھی کرسکتی ہے۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے فائزر ویکسین استعمال کرنے والے 3 افراد کے جسم سے اینٹی باڈیز بنانے والے خلیات کو حاصل کیا۔ انہوں نے لیبارٹری میں خلیات کی نشوونما کی اور ان میں سے 13 اینٹی باڈیز کو حاصل کیا جو کورونا کی اوریجنل قسم کو ہدف بناتی ہیں۔

    بعد ازاں ان اینٹی باڈیز کی آزمائش کورونا کی 4 اقسام ایلفا، بیٹا، گیما اور ڈیلٹا پر کی گئی۔ 13 میں سے 12 اینٹی باڈیز نے ایلفا اور ڈیلٹا کو شناخت کرلیا، 8 نے چاروں اقسام کو شناخت کیا اور صرف ایک چاروں میں سے کسی ایک کو بھی شناخت کرنے میں ناکام رہی۔

    ان 13 میں سے 5 اینٹی باڈیز وائرس کی اوریجنل قسم کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ جب ان وائرس ناکارہ بنانے والی 5 اینٹی باڈیز کی آزمائش نئی اقسام پر کی گئی پانچوں نے ڈیلٹا کو ناکارہ بنادیا، 3 نے ایلفا اور گیما جبکہ صرف ایک چاروں اقسام کو ناکارہ بنانے میں کامیاب ہوسکی۔

    جس ایک اینٹی باڈی نے چاروں اقسام کو ناکارہ بنایا اسے 2C08 کہا جاتا ہے اور جانوروں میں تجربات میں بھی اس نے تمام اقسام سے تحفظ فراہم کیا تھا۔ تحیق میں بتایا گیا کہ ایک مثالی اینٹی باڈی ردعمل متعدد اقسام کی اینٹی باڈیز پر مشتمل ہوتا ہے جو وائرس کی متعدد مختلف اقسام کو شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔

    محققین نے بتایا کہ ویکسنیشن کی صورت میں ڈیلٹا نسبتاً کمزور قسم ثابت ہوتی ہے، اگر بیٹا جیسی زیادہ مزاحمت مگر ڈیلٹا کی طرح آسانی سے پھیلنے قسم سامنے آجائے تو ہم زیادہ مشکل میں ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ایک قسم جو زیادہ بہتر طریقے سے اپنی نقول بناتی ہو وہ ممکنہ طور پر زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈیلٹا قسم بہت تیزی سے پھیل رہی ہے مگر ایسے شواہد موجود نہیں کہ ویکسین کے خلاف دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کچھ افراد میں 2C08 جیسی طاقتور اینٹی باڈیز ہوسکتی ہیں جو ان کو کورونا وائرس اور اس کی متعدد اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل امیونٹی میں شائع ہوئے۔

  • دالوں کے وہ فوائد جن سے آپ ناواقف تھے

    دالوں کے وہ فوائد جن سے آپ ناواقف تھے

    متوازن غذائیں کھانا صحت کے لیے نہایت ضروری ہے اور دالیں بھی ان ہی میں سے ایک ہیں، دالوں کا باقاعدہ استعمال جسم کے لیے بے شمار فائدوں کا سبب ہے۔

    آج ہم آپ کو ایسی وجوہات بتائیں گے جو دالوں کو آپ کی روزمرہ خوراک کا لازمی حصہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔

    شکر اور دیگر سادہ نشاستے کے مقابلے میں دالوں کے ہضم ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ اس لیے اس سے نشاستہ (کاربوہائیڈریٹس) آہستہ آہستہ نکلتا ہے اور یوں ان کا انڈیکس کم ہو جاتا ہے۔ دالیں خون میں شوگر کی سطح کو یکدم نہیں بڑھاتیں، جس کی وجہ سے آپ بہت دیر تک خود کو توانا محسوس کرتے ہیں اور آپ کا پیٹ بھی بھرا رہتا ہے۔

    دالوں میں موجود زیادہ پروٹینز دالوں کو گوشت خوروں کے لیے بھی بہت اہم بناتی ہے۔ اچھی صحت کے لیے اتنی مقدار اور اتنی اقسام کے پروٹینز رکھنے والی خوراک بہت ضروری ہوتی ہے۔

    دالوں میں بہت سے وٹامنز اور منرلز بھی ہوتے ہیں جیسا کہ فولک ایسڈ، وٹامن بی 1، وٹامن بی 2، کیلشیئم، فاسفورس، پوٹاشیئم، میگنیشیئم اور آئرن، جو مدافعت اور میٹابولزم میں اضافہ کرتے ہیں۔

    دالوں میں چکنائی کم ہوتی ہے، جو اس کو دل کی صحت کے لیے مفید خوراک بناتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ فائبر ہونے کی وجہ سے بھی دالیں غذا کے نظام کے لیے ضروری ریشے کا بہت اہم ذریعہ ہوتی ہیں۔ یہ آپ کے ہاضمے کے نظام کو صحت مند اور متحرک رکھنے اور قبض جیسے مسائل سے نمٹنے میں مدد دیتی ہیں۔

    خیال رہے کہ دالیں کمزور پیٹ رکھنے والوں کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ کئی پھلیوں اور دالوں میں لیکٹن ہوتا ہے، جو پیٹ میں بھاری پن پیدا کرسکتا ہے۔

    دالوں کو پانی میں بھگونا اور ابالنا لیکٹن کو گھٹانے میں مدد دے سکتا ہے، دالوں کو کم از کم 10 منٹ ابالیں تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ محفوظ ہیں۔ دالوں اور پھلیوں کو گرم پانی میں بھگونا اور پھر وہ پانی پھینک دینا، یا ابالنا یا اچھی طرح پکانا اس کو ہضم کرنا آسان بنائے گا۔

  • چائے پینا فائدہ مند، لیکن کون سی؟

    چائے پینا فائدہ مند، لیکن کون سی؟

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ چائے پینے سے دل کے امراض، دل کے دورے اور فالج کا خطرہ 10 سے 20 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

    یورپین جرنل آف پریوینٹو کارڈیولوجی کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جو لوگ ہر ہفتے کم از کم تین کپ چائے پیتے ہیں، انہیں نہ پینے والوں کے مقابلے میں دل کے مسائل کا کم خطرہ درپیش رہتا ہے۔

    چائے کے شوقین لوگوں میں دل کے مسائل کی وجہ سے اموات بھی 22 فیصد کم ہیں اور وہ انہی وجوہات کی بنا پر قبل از وقت اموات سے 15 فیصد کم شکار ہوتے ہیں۔

    چائے کی چاروں اقسام سیاہ، سبز، سفید اور اولونگ سب میں صحت کے مفید نتائج ظاہر ہوتے ہیں، سبز اور سیاہ چائے تو گویا طاقت کا خزانہ ہیں جن کے روزانہ دو یا اس سے زیادہ کپ پینے کی تجویز دی جاتی ہے۔

    صبح سیاہ چائے اور دوپہر میں سبز چائے کا استعمال زیادہ موزوں ہے کیونکہ سبز چائے میں کیفین کم ہوتی ہے اور دن ڈھلنے کے ساتھ کیفین والی چائے کا استعمال اچھا نہیں ہوتا کیونکہ اس سے نیند متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

    لیکن خیال رہے کہ یہ سارے فوائد سادہ چائے کے ہیں، دودھ پتی اور دودھ اور شکر سے بھری چائے کے نہیں۔

  • کیا آپ کو کورونا ویکسین کے اس اہم فائدے کا علم ہے؟

    کیا آپ کو کورونا ویکسین کے اس اہم فائدے کا علم ہے؟

    کوویڈ 19 کی روک تھام کے لیے دنیا بھر میں مختلف ویکسینز کا استعمال کیا جارہا ہے تاہم ابھی ایسی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی جو 100 فیصد تک بیماری سے تحفظ فراہم کرسکے۔

    ویسے تو کووڈ 19 ویکسین کا استعمال کرنے زیادہ تر افراد کو بیماری سے تحفظ مل جاتا ہے مگر کچھ لوگ اس وبائی مرض کا شکار ہوسکتے ہیں تاہم ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویکسنیشن کے عمل سے گزرنے والے افراد کو اگر کوویڈ کا سامنا ہوتا ہے تو ان میں وائرل لوڈ کم ہوتا ہے۔

    اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایسے افراد ویکسین استعمال نہ کرنے والے کے مقابلے میں وائرس کو آگے زیادہ نہیں پھیلاتے۔

    طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ویکسنیشن کے بعد اگر کسی کو کووڈ کا سامنا ہوتا بھی ہے تو بھی بیماری کی شدت معمولی اور دورانیہ مختصر ہوتا ہے۔

    تحقیقی ٹیم میں شامل سینٹرز فار ڈیزیز اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے وبائی امراض کے ماہر مارک تھامپسن نے بتایا کہ ویکسینیشن کے باوجود کوئی کورونا وائرس سے متاثر ہوتا ہے تو زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ اس کو ایسی بیماری کا سامنا نہیں ہوگا جو بخار کا باعث بنتی ہے۔

    اس تحقیق میں 4 ہزار کے قریب ہیلتھ ورکرز کو شامل کیا گیا تھا اور دسمبر 2020 سے اپریل 2021 کے وسط تک ان کے ہر ہفتے کووڈ ٹیسٹ ہوئے۔

    اس عرصے میں 204 میں کوڈ کی تشخیص ہوئی جن میں سے 5 ایسے تھے جن کی ویکسنیشن مکمل ہوچکی تھی جبکہ 11 ایسے تھے جن کو فائزر یا موڈرنا کی ویکسین کی ایک خوراک استعمال کرائی گئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مکمل یا جزوی ویکسینیشن والے افراد میں وائرل لوڈ اس وقت تک ویکسین استعمال نہ کرنے والے مریضوں کے مقابلے میں 40 فیصد کم تھا۔

    اسی طرح ایک ہفتے کے بعد وائرس کی موجودگی کا خطرہ دوسرے گروپ سے 66 فیصد تک کم تھا جبکہ بخار جیسی علامات کا خطرہ 58 فیصد تک کم تھا۔

    ویکسین والے گروپ میں سے کسی کو بھی کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا اور بیماری کی شدت معمولی یا معتدل تھی۔

    ان کی بیماری کا دورانیہ بھی کم تھا یعنی بستر پر بیماری کے باعث دوسرے گروپ کے مقابلے میں 2 دن کم گزارنے پڑے اور علامات کا دورانیہ بھی 6 دن کم تھا۔

    تحقیق کے نتائج سے محققین نے تخمینہ لگایا کہ ویکسین کی دونوں خوراکیں بیماری کی روک تھام سے بچانے میں 91 فیصد تک جبکہ جزوی ویکسینیشن 81 فیصد تک مؤثر ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ویکسینز نہ صرف نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کے خلاف بہت زیادہ مؤثر ہیں بلکہ وہ بریک تھرو انفیکشن (ویکسنیشن والے افراد میں بیماری کی تصدیق پر طبی زبان میں یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے) میں بیماری کی شدت کو کم کرنے میں مددگار ہوسکتی ہے۔

  • روزانہ غسل کا وہ فائدہ جس سے آپ ناواقف تھے

    روزانہ غسل کا وہ فائدہ جس سے آپ ناواقف تھے

    روزانہ غسل کرنا نہ صرف انسان کی طبیعت میں تازگی پیدا کرتا ہے بلکہ سستی کو بھی دور بھگاتا ہے لیکن حال ہی میں ماہرین نے اس حوالے سے ایک اور خوش کن تحقیق کی ہے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ غسل کے لیے گرم پانی کا استعمال انسانی جسم کے لیے ورزش کا متبادل ہو سکتا ہے۔

    برطانیہ کی کووینٹری یونیورسٹی میں کی گئی ایک سائنسی تحقیق سے پتہ چلا کہ باقاعدگی سے گرم شاور لینے سے خون کے بہاؤ، جسمانی درجہ حرارت اور دل کے کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

    گرم پانی سے غسل کے فوائد ورزش کے فوائد سے ملتے جلتے ہیں جیسے کہ گرم پانی سے مستقل طور پر نہانا دل کی صحت، خون کی رگوں اور خلیوں کی پیداوار اور ان کی بہتری کے لیے مفید ہوتا ہے۔

    اس کے دیگر فوائد میں بلڈ پریشر کنٹرول کرنا، سوزش کم کرنا اور ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریضوں میں بلڈ شوگر کنٹرول کرنا شامل ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ باقاعدگی سے ورزش بہت کم لوگ کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس یا تو وقت کم ہوتا ہے یا کوئی ایسا محرک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ورزش جاری رکھی جائے۔

    بوڑھوں یا دائمی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے بھی روز ورزش ایک مشکل کام ہے۔

    اگرچہ صحت میں بہتری لانے کے لیے ورزش بہترین طریقہ ہے لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گرم پانی سے نہانا ان لوگوں کے لیے متبادل ہو سکتا ہے جو کسی وجہ سے ورزش نہیں کر سکتے ہیں۔

    قابل ذکر بات یہ ہے کہ کووینٹری یونیورسٹی کے محققین کی ٹیم نے ایسے رضا کاروں کے کیس اسٹڈی کے نتائج کا تجزیہ کیا جو گرم ٹب اور سائیکلنگ میں برابر کا وقت گزارتے تھے۔

    اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اگرچہ ورزش چربی سے چھٹکارا پانے، پٹھوں کو مضبوط کرنے میں زیادہ فائدہ مند ہے، لیکن گرم پانی سے غسل سے بھی جسمانی درجہ حرارت دل کی دھڑکن اورخون کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • آلو بخارے کے سینکڑوں فوائد

    آلو بخارے کے سینکڑوں فوائد

    رواں سیزن کا پھل آلو بخارا اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے، اور بے شمار جسمانی فائدے پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں حکیم شاہ نذیر نے شرکت کی اور انہوں نے آلو بخارے کے فوائد بتائے۔

    حکیم نذیر کا کہنا تھا کہ آلو بخارا سرد مزاج کا حامل پھل ہے، اور ٹھنڈے پہاڑی علاقوں میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کا استعمال ہارٹ اٹیک، فالج اور غشی کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ وٹامن اے سے بھرپور ہوتا ہے لہٰذا بالوں کی نشونما اور جلد کی خوبصورتی کے لیے بہترین ہے جبکہ یہ اینٹی ڈپریسنٹ بھی ہے اور جسم میں خون کی کمی بھی دور کرتا ہے۔

    حکیم نذیر کے مطابق آلو بخارا معدے اور نظام ہاضمہ کو درست رکھتا ہے جبکہ یہ یرقان، ہیپاٹائٹس اور پیٹ کے کیڑوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ خشک آلو بخارے کے 4 دانے ایک گلاس پانی میں بھگو دیں اور اس میں ایک چمچ سونف شامل دیں۔ حاملہ خواتین حمل کے دوران متلی اور کمزوری کی صورت میں اسے چھان کر نہار منہ کر پی لیں۔

    علاوہ ازیں اس کے پتے ناریل کے تیل میں ایک گھنٹہ دھوپ میں رکھیں، اس کے بعد اس تیل کو بالوں میں لگائیں بالوں کے متعدد مسائل جیسے خشکی، بال جھڑکنا، بے رونقی وغیرہ کا خاتمہ ہوگا اور بال لمبے اور گھنے ہوں گے۔