Tag: Bermuda triangle

  • برمودا ٹرائی اینگل کا سفر، کمپنی نے مسافروں کو بڑی پیش کش کر دی

    برمودا ٹرائی اینگل کا سفر، کمپنی نے مسافروں کو بڑی پیش کش کر دی

    برمودا ٹرائی اینگل کے سفر کے لیے کروز کمپنی نے مسافروں کو بڑی پیش کش کر دی ہے، کمپنی کا کہنا ہے کہ اگر بحری جہاز برمودا کے تکون میں غائب ہو جاتا ہے تو تمام مسافروں کو ان کے ٹکٹس کی رقم پوری واپس کر دی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق برمودا ٹرائی اینگل کروز کمپنی نے جہاز سمندر میں غائب ہونے کی صورت میں تمام مسافروں کو مکمل رقم کی واپسی کی پیشکش کر دی ہے، جن مسافروں نے برمودا ٹرائی اینگل کے سفر کے لیے کروز بک کرایا ہے، ان سے کہا جا رہا ہے کہ اگر جہاز سمندر میں غائب ہو جاتا ہے تو انھیں ٹکٹ کی رقم واپس مل جائے گی۔

    واضح رہے کہ یہ کسی اور جگہ کی بات نہیں ہو رہی بلکہ برمودا ٹرائی اینگل ہی کی بات ہو رہی ہے، یہ تکونی علاقہ امریکا کے جنوب مشرقی ساحل پر بحر اوقیانوس میں برمودا، فلوریڈا اور پورٹو ریکو کے درمیان واقع ہے، یہ شیطان کی مثلث کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس علاقے میں بہت سے بحری جہاز اور ہوائی جہاز پراسرار طور پر غائب ہونے کی اطلاع ہے۔

    کئی دہائیوں سے، برمودا تکون کے اسرار نے بحری جہازوں، ہوائی جہازوں اور لوگوں کی غیر واضح گمشدگی کے ساتھ انسانی تخیل کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اس پس منظر میں کروز کی طرف سے یہ پیش کش بالکل عجیب لگتی ہے، لیکن ٹکٹ خریدنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔

    دی مرر کی رپورٹ کے مطابق نیو یارک سے برمودا جانے والی نارویجن پرائما لائنر کے ساتھ چھٹیاں منانے والے مسافر دو دن کے سفر پر کیبن کے لیے ایک ہزار 450 پاؤنڈز (سوا لاکھ روپے سے زائد) خرچ کر رہے ہیں، اور منتظمین نے ان سے کہا ہے کہ اگر یہ دیوہیکل جہاز ٹرائی اینگل میں غائب ہو جاتا ہے، جہاں سیکڑوں کشتیاں اور ہوائی جہاز غائب ہو چکے ہیں، تو انھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، انھیں ٹکٹ کی رقم پوری واپس کر دی جائے گی۔

  • کیا خلا میں بھی برمودا ٹرائی اینگل موجود ہے؟

    کیا خلا میں بھی برمودا ٹرائی اینگل موجود ہے؟

    آپ نے اب تک بحر اوقیانوس کی برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں سنا ہوگا جہاں متعدد طیارے اور بحری جہاز پراسرار حالات میں غائب ہوچکے ہیں، کیا آپ جانتے ہیں خلا میں بھی ایسا ہی ایک مقام ہے۔

    زمین کی مقناطیسی فیلڈ میں ایک جگہ ہے جسے ساؤتھ اٹلانٹک اینوملی (ایس اے اے) کہا جاتا ہے، کچھ خلا نوردوں نے وہاں ہونے والی عجیب و غریب چیزوں کی اطلاع دی ہے۔

    جب بین الاقوامی خلائی اسٹیشن اس علاقے سے گزرا تو کچھ خلا نوردوں نے تیز روشنی کا تجربہ کیا۔

    خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چمک اس علاقے میں ریڈی ایشن بیلٹ کی وجہ سے ہے جو خلا نوردوں کے ریٹینا میں رد عمل کا باعث بن سکتی ہیں۔

    ہبل خلائی دوربین تابکاری کی وجہ سے اس علاقے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے سے قاصر ہے، ایس اے اے کے ارد گرد کے اسرار نے خلائی برمودا ٹرائی اینگل کا نام حاصل کرلیا ہے۔

  • برمودا ٹرائی اینگل سے بچ نکلنے والے پائلٹ نے کیا دیکھا؟

    برمودا ٹرائی اینگل سے بچ نکلنے والے پائلٹ نے کیا دیکھا؟

    جنگ عظیم دوئم کے زمانے سے برمودا ٹرائی اینگل ساری دنیا کی توجہ کا خصوصی مرکز رہا ہے اور اس کے بارے میں غیر ماورائی معاملات مشہور ہیں۔

    برمودا ٹرائی اینگل بحر اوقیانوس (اٹلانٹک) کے ایک مثلث کی طرح کے علاقے کو کہا جاتا ہے۔ اس علاقے کا ایک کونا برمودا میں، دوسرا پورٹوریکو میں اور تیسرا کونا میامی، فلوریڈا کے قریب ایک مقام میں واقع ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل انہی تین کونوں کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا ہے۔

    اس مقام سے وابستہ چند داستانیں ایسی ہیں جن کے باعث اس کو شیطانی مثلث بھی کہا گیا ہے، ان داستانوں میں انسانوں کا غائب ہوجانا اور بحری اور فضائی جہازوں کا کھو جانا جیسے غیر معمولی واقعات شامل ہیں۔

    اب تک اس مقام پر 2 ہزار بحری جہاز اور 200 طیارے لاپتہ ہوچکے ہیں۔

    اس علاقے میں پیش آنے والا ایک اور واقعہ ایسا ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں، یہ واقعہ ایسا ہے جسے سن کر ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ جاتی ہے۔

    4 دسمبر 1970 کی ایک روشن صبح بروس گارنن نامی ایک پائلٹ نے بہاماس کے جزیرے اینڈروس سے اڑان بھری، اس کے چھوٹے جہاز میں صرف 2 مسافر سوار تھے اور ان کی منزل فلوریڈا کا شہر میامی تھا۔

    یہ ایک معمول کی پرواز تھی جس پر بروس اس سے پہلے درجنوں بار جاچکا تھا۔

    جب طیارہ 1 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچا تو طیارے کے سامنے ایک چھوٹا سا سیاہ بادل آگیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ہی اپنا حجم بڑھانے لگا، بروس کو مجبوراً اس بادل کے اندر سے گزرنا پڑا۔

    آگے جا کر جب طیارہ 11 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر پہنچا تو پائلٹ کے سامنے ایک اور پراسرار سیاہ بادل آگیا۔ یہ بادل بہت بڑا تھا اور طیارے کو اس کے اندر سے گزارنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

    بروس نے طیارے کو بادل کے اندر داخل کردیا، اندر سیاہ گھپ اندھیرا تھا لیکن یہ طوفانی بادل نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد اچانک بادل کے اندر سفید روشنی کے جھماکے سے ہونے لگے۔ پائلٹ نے لمحے میں جان لیا کہ یہ روشنی آسمانی بجلی نہیں تھی، کچھ اور تھی۔

    بادل کے اندر طیارے کا سفر نصف گھنٹہ جاری رہا، اچانک بروس کو محسوس ہوا کہ یہ وہی بادل تھا جو 10 ہزار فٹ کی بلندی پر اس سے ٹکرایا تھا اور یہ احساس ہوتے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

    بادل اب ایک سرنگ کی سی شکل اختیار کرچکا تھا اور یوں لگتا تھا کہ اب یہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اچانک پائلٹ کو سامنے روشنی کی ہلکی سی کرن دکھائی دی جس کا مطلب تھا کہ بادل کی سرنگ ختم ہورہی ہے۔

    پائلٹ کے جسم میں نئی جان دوڑ گئی، لیکن جیسے جیسے روشنی قریب آنے لگی اچانک طیارے کے آلات ایک کے بعد ایک خرابی کا سگنل دینے لگے۔

    تمام انڈیکیٹرز جلنے بجھنے لگے اور کچھ دیر بعد پائلٹ طیارے پر سے اپنا کنٹرول کھو بیٹھا، لیکن طیارہ تب بھی اڑتا رہا۔

    بروس کا کہنا تھا کہ اس وقت ایسا لگ رہا تھا جیسے طیارے کو کوئی اور قوت چلا رہی ہو، یا آسمان میں کوئی کرنٹ ہو جس کے باعث طیارہ خود بخود اڑ رہا ہو۔

    کچھ دیر بعد طیارہ بالآخر بادل کی سرنگ سے نکل آیا، اور اس کے ساتھ ہی طیارے کے آلات ایسے کام کرنے لگے جیسے ان میں کبھی کوئی خرابی ہوئی ہی نہیں تھی۔

    بادل سے نکلنے کے بعد بھی طیارہ کچھ منٹ مزید گہری سفید دھند میں سفر کرتا رہا۔ اس دوران اس نے گراؤنڈ کنٹرول سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اسے اس کی موجودہ لوکیشن بتائیں۔

    گراؤنڈ کنٹرول کی جانب سے جواب ملا کہ طیارہ ریڈار پر دکھائی نہیں دے رہا جس سے بروس پریشان ہوگیا۔ پھر اچانک دبیز دھند ختم ہوگئی اور بروس نے دیکھا کہ وہ عین میامی یعنی اپنی منزل کے اوپر تھا۔

    یہ ایک اور حیران کن بات تھی، یہ فاصلہ 217 میل تھا جسے ایک گھنٹہ 15 منٹ میں طے کیا جانا تھا، لیکن طیارے کو اپنا سفر شروع کیے صرف 47 منٹ ہی گزرے تھے۔

    بہرحال طیارہ بحفاظت میامی ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔

    لینڈ کرتے ہی بروس نے طیارے کا فیول چیک کیا تو وہ اتنا خرچ نہیں ہوا تھا جتنا طے شدہ فاصلے کے مطابق اسے خرچ ہونا چاہیئے تھا۔

    بروس نے سفر سے متعلق تمام دستیاب معلومات چیک کیں تو اس پر انکشاف ہوا کہ اس کا طیارہ سفر کے نصف وقت میں اپنی منزل پر پہنچا۔

    اس نے فوری طور پر ایوی ایشن ماہرین نے رابطہ کیا اور انہیں خود پر گزرنے والی صورتحال بتائی، لیکن کوئی بھی اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔

    بالآخر بروس نے خود ہی اس بارے میں معلومات جمع کیں اور ان سے ایک نتیجہ نکالا کہ بادل کے اندر روشنی کے سفید جھماکے دراصل الیکٹر ک فوگ تھی۔

    کچھ افراد نے ایک ممکنہ خیال پیش کیا کہ بروس ڈارک انرجی کی وجہ سے وقت کو جلدی طے کرنے میں کامیاب ہوا، یہ وہی توانائی ہے جس کی وجہ سے ہماری کائنات پھیلتی ہے۔

    یہ توانائی بلیک ہول کی طرح وقت اور مقام میں خلل (ٹائم ٹریول قسم کے حالات) پیدا کرسکتی ہے، اسی کی وجہ سے بادل کی ایک سرنگ پیدا ہوئی، بروس اتفاق سے اس سرنگ میں جا نکلا اور خوش قسمتی سے زندہ سلامت نکلنے میں کامیاب رہا۔

    کچھ ماہرین کے مطابق اس نوعیت کے بادل اس علاقے میں عام ہیں اور اکثر پائلٹس کو ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    تاہم اس کی وضاحت کوئی نہ دے سکا کہ بروس نے اپنے سفر کا نصف وقت کیسے پار کرلیا، بروس گارنن کی یہ فلائٹ آج بھی ایک راز ہے جو حل طلب ہے۔

  • پراسرار برمودا ٹرائی اینگل میں حیرت انگیز جزیرہ ابھر آیا

    پراسرار برمودا ٹرائی اینگل میں حیرت انگیز جزیرہ ابھر آیا

    جنوبی کیرولینا: برسوں سے پراسراریت کی دھند میں لپٹے اور بحری اور ہوائی جہازوں کو نگل لینے والے برمودا ٹرائی اینگل میں غیر معمولی طور پر جزیرہ ابھر آیا۔ حکام نے لوگوں کے وہاں جانے پر پابندی عائد کردی۔

    برمودا تکون جسے شیطانی تکون بھی کہا جاتا ہے بحر اوقیانوس میں واقع سمندر کا ایک مخصوص حصہ ہے۔ اس علاقے کا ایک کونا برمودا، دوسرا پورٹوریکو اور تیسرا میلبورن سے متصل ہے اور ان تینوں کونوں کے درمیانی حصے کو برمودا تکون یا مثلث کہا جاتا ہے۔

    برمودا تکون گزشتہ طویل عرصے سے دنیا کے لیے اسرار کے دبیز پردوں میں لپٹی ہے۔

    یہاں بے شمار بحری جہازوں کی گمشدگی کے واقعات پیش آچکے ہیں جنہیں ڈھونڈنے کے لیے جانے والے بحری و ہوائی جہاز بھی ایسے کھوئے کہ تمام تر ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود آج تک ان کا سراغ نہ مل سکا۔

    مزید پڑھیں: برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت کیا ہے؟

    یہ جہاز اور ان پر موجود افراد کہاں گئے، کیا اس تکون سے گزر کر وہ کسی دوسری دنیا میں پہنچ گئے، یا کسی شیطانی قوت نے انہیں دنیا کی نظروں سے پوشیدہ کردیا، یہ وہ افسانے ہیں جنہوں نے اس تکون کو خوف اور اسرار سے منسوب کردیا ہے۔

    تاہم اب اس تکون کے اسرار میں مزید اضافہ ہوگیا جب اچانک یہاں سے ایک جزیرہ ابھر آیا ہے۔

    جنوبی کیرولینا کے ساحل کے ساتھ ابھرنے والے اس جزیرے کو مقامی افراد نے شیلی یا سیپیائی جزیرے کا نام دیا ہے کیونکہ یہاں لاتعداد سیپیاں بکھری ہوئی ہیں۔

    ان کے مطابق یہ جزیرہ گزشتہ 2 سے 3 ماہ میں ابھرنا شروع ہوا ہے۔

    ابتدا میں لوگوں کی بڑی تعداد نے یہاں جانا شروع کردیا تاہم جلد ہی حکومت نے یہاں لوگوں کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا۔

    اس کی وجہ یہاں پائی جانے والی شارکس ہیں جو لوگوں کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہیں۔

    جزیرے کے مقام والا بحر اوقیانوس کا یہ حصہ خطرناک شارک مچھلیوں سے بھرا پڑا ہے اور حکومت کے مطابق اگر یہاں لوگوں کی آمد و رفت پر پابندی نہ عائد کی جاتی تو کوئی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا تھا۔

    علاوہ ازیں نئے ابھرنے والے جزیرے کی زمین اور ساحل کی زمین کے درمیان زیر زمین کرنٹ بھی موجود ہیں جو خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

    فی الحال اس جزیرے کا مستقبل واضح نہیں کہ آیا یہ جزیرہ بڑھ کر مستقل جگہ حاصل کرلے گا، یا کچھ عرصے بعد غائب ہوجائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت سامنے آگئی

    برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت سامنے آگئی

    جنگ عظیم دوئم کے زمانے سے برمودا ٹرائی اینگل ساری دنیا کی توجہ کا خصوصی مرکز رہا ہے اور اس کے بارے میں مافوق البشر یا غیر ماورائی معاملات مشہور ہیں لیکن اب وہ تمام مفروضات اپنی موت آپ مرنے والے ہیں۔

    بحر اوقیانوس (اٹلانٹک ) کے ایک مثلث کی طرح کے علاقے کو برمودا ٹرائی اینگل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کا ایک کونا برمودا میں، دوسرا پورٹوریکو میں اور تیسرا کونا میلبورن، فلوریڈا کے قریب ایک مقام میں واقع ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل انہی تین کونوں کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا ہے۔

    اس مقام سے وابستہ چند داستانیں ایسی ہیں کہ جن کے باعث اس کو شیطانی مثلث بھی کہا گیا ہے۔ ان داستانوں میں انسانوں کا غائب ہوجانا اور بحری اور فضائی جہازوں کا کھو جانا جیسے غیر معمولی اور مافوق الفطرت واقعات شامل ہیں۔

    ان ماوراء طبیعی داستانوں (یا واقعات) کی اصلیت جاننے کے لیے جو تفاسیر کی گئی ہیں ان میں بھی اکثر غیر معمولی اور مسلمہ سائنسی اصولوں سے ہٹ کر ایسی ہیں کہ جن کے لیے کم از کم موجودہ سائنس میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔

    ان تفاسیر میں طبیعیات کے قوانین کا معلق و غیر موثر ہوجانا اور ان واقعات میں بیرون ارضی حیات (extraterrestrial life) کا ملوث ہونا جیسے خیالات اور تفکرات بھی پائے جاتے ہیں۔ ان گمشدگی کے واقعات میں سے خاصے یا تقریباً تمام ہی ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ ایک معمہ کی خصوصیت وابستہ ہو چکی ہے اور ان کو انسانی عمل دخل سے بالا پیش آنے والے حوادث کی حیثیت دی جاتی ہے۔

    بہت سی دستاویزات ایسی ہیں کہ جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ برمودا ٹرائی اینگل کو تاریخی اعتبار سے ملاحوں کے لیے ایک اسطورہ یا افسانوی مقام کی سی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بعد میں آہستہ آہستہ مختلف مصنفین اور ناول نگاروں نے بھی اس مقام کے بیان کو الفاظ کے بامہارت انتخاب اور انداز و بیان کی آرائش و زیبائش سے مزید پراسرار بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندر میں بلاؤں کی کہانیاں سچ نکلیں

    عوامی حلقوں میں مشہور قصے اپنی جگہ لیکن برمودا کے بارے میں بعض مفکرین کا خیال یہ ہے کہ اصل میں یہاں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برطانوی فوجی اڈے اور کچھ امریکی فوجی اڈے تھے۔ لوگوں کو ان سے دور رکھنے کے لیے برمودا کی مثلث کے افسانے مشہور کیے گئے جن کو قصص یا فکشن (بطور خاص سائنسی قصص) لکھنے والوں نے اپنے ناولوں میں استعمال کیا۔ اب چونکہ اڈوں والا مسئلہ اتنا اہم نہیں رہا اس لیے عرصے سے سمندر کے اس حصے میں ہونے والے پراسرار واقعات بھی نہیں ہوئے۔ مواصلات کے اس جدید دور میں اب بھی کوئی ایسا علاقہ نہیں ملا جہاں قطب نما کی سوئی کام نہ کرتی ہو یا اس طرح کے واقعات ہوتے ہوں جو برمودا کی مثلث کے سلسلے میں بیان کیے جاتے ہیں۔

    برمودہ ٹرائی اینگل کا معمہ سائنسی بنیادوں پہ حل ہو چکا ہے بلکہ کئی معمے ایسے تھے ہی نہیں لیکن مشہور ہو گئے تھے۔ وہ ہوائی جہاز جو کہ پانی میں گر کر تباہ ہوئے تھے۔ ان کو، انہی پانیوں کی گہرائیوں سے جا کر نکال لیا گیا ہے کہ جو خود اس بات کو رد کرتا ہے کہ برمودہ تکون کے پانیوں میں نہیں جایا جا سکتا۔

    برمودہ مثلث کے بارے میں تب پتہ چلا کہ جب جنگ عظیم کے دوران ٹریننگ پر گئے ہوائی جہازوں کا ایک پورا فلیٹ غائب ہو گیا۔ اس فلیٹ کے لیڈر کے جہاز کی جایئروسکوپ خراب ہو گئی تھی اور وہ ہوائی اور بحری جہاز کی دنیا کا ایک سب سے خوفناک مسئلے کا شکار ہوا کہ جسے پائلٹ ڈس اورینٹیشن
    pilot Disorientation کہتے ہیں۔ اس دوران پائلٹ کا اپنے کنٹرول ٹاور سے مکمل رابطہ رہا اور اس فلیٹ کو نیویگیٹ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اور کنٹرول ٹاور میں بھی موجود افراد کو یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ اگر یہ مسئلہ درپیش رہا تو فیول ختم ہونے کے بعد سب جہاز گر جائیں گے۔ پهر ہوا بھی یہی ۔ کنٹرول ٹاور اور جہازوں کے مابین ہونے والی آخری وقت تک کی گفتگو بھی موجود ھے۔ لہذا ایسا نہیں ہوا تھا کہ یک دم چلتے جہاز کو کوئی حادثہ پیش آگیا۔

    دراصل وہ خطہ ایسا تھا کہ جب نیوی گیشن کا مسئلہ آیا توجہاز میں بیٹھے ہوئے لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ غلطی سے بحر الکاہل میں چلے گئے ہیں، جبکہ وہ بحر اوقیانوس میں ہی تین جزیروں کے بیچ میں گھومتے رہے۔اور ا سی طرح کے مسائل کی وجہ کچھ واقعات پیش آئےتو اس تکون کے بارے میں وہ سب مشہور ہوا جس پر یقین کیا جاتا ہے۔

    جہاں تک بحری جہازوں کے ڈوبنے کا تعلق ہے تو وہ معمہ اس طرح کھلا کہ جب ایک آئل رِگ سمندر کی گہرائی میں موجود میتھین گیس کی لیکیج کی وجہ سے ڈوب گئی۔ اور اس وقت یہ اندازہ ھوا کہ کہ سمندر میں اگر گیس کا اخراج ہو جائے، تو وہ گیس اپنے اخراج کی جگہ سے لے کر سمندر سے باہر نکلنے تک پانی کو کافی حد تک اپنی جگہ سے ہٹا دیتی ہے ۔ اسی سبب اس جگہ پرموجود پانی اور گیس کا ایک ایسا میکسچر بنتا ہے کہ وہاں بایوسنی خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے کہ جس میں بحری جہاز تو کیا ایک آئل رگ بھی ڈوب جائے۔ اور یہی اس خطے میں ہوا تھا۔

    جنگ عظیم کے زمانے میں جنگوں کے دوراں ہونے والے ایسے واقعات کہ جن کی گہرائی تک عوام کی رسائی نہ تھی، تو ان کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ مثلا نیواڈا کے علاقے میں فضائی اور ہوائی تجربات کی وجہ سے لوگوں نے یو۔ایف۔او کی تھیوری تشکیل دی اور یہ کہا کہ کوئی غیر زمینی مخلوق زمین پر آتی ہے۔ مگر جب کئی عرصے بعد امریکہ کی ایئر فورس نے خود اس حقیقت سے پردہ اٹھایا۔ اسی طرح جنگ عظیم کے دوران کئی واقعات منظر عام پہ نہیں آسکے اور مختلف ازہان نے اپنی اپنی تھیوریاں بنائیں۔

    مافوق الفطرت صورتحال پہ یقین کرنے والوں نے اپنی تهیوری بنائی، اور سائنسی اذہان نے کچھ مستند سامنے آنے تک اپنے وثوق کو موخر کیا۔
    مگر یہ معمہ اب حل شدہ ہے، کیونکہ انہی سمندروں پہ جہاز چلتے ہیں، انہی فضاؤں میں جہاز اڑتے ہیں، اور انہی پانیوں کی گہرائیوں میں لوگ جاتے ہیں اوروہی جہاز ڈھونڈھ کر لاتے ہیں، کہ جنہیں کسی مافوق الفطرت واقعہے کے کھاتے میں ڈال کر ڈوبنے کا بتایا جاتا ہے کہ وہ ایسے جگہ ڈوبے کہ جہاں کوئی نہیں جا سکتا۔

    مزید پڑھیں: فراعنہ مصر کے مقبروں کے راز جاننے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

    برمودا ٹرائی اینگل کی شہرت کا باعث وہ کہانیاں ہیں جو اس کے ساتھ وابستہ کی جاتی رہی ہیں۔ ان کہانیوں کے مطابق کئی بحری جہاز اور کئی ہوائی جہاز اس علاقے سے گزرتے ہوئے لاپتہ ہوگئے اور ان کا کوئی نشان بھی نہیں ملا۔ انہی حادثات کے باعث اس علاقے کو شیطان کی مثلث (Devil’s Triangle) بھی کہتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ تندوتیز طوفانوں کا علاقہ ہے۔ لیکن ماس میڈیا میں اسے ایک ماورائی یا پیرانارمل جگہ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے جہاں طبیعات کے تسلیم شدہ قوانین یا تو غلط ثابت ہوجاتے ہیں، بدل جاتے ہیں یا ان کے ساتھ بیک وقت دونوں صورتیں پیش آجاتی ہیں۔

    اسی لئے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس علاقے میں کئی ہوائی جہاز اور کئی بحری جہاز انتہائی غیرعمومی حالات میں غائب ہوگئے۔ امریکی کوسٹ گارڈ اور دوسرے لوگ اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ حادثات کے بارے میں جمع کئے جانے والے اعدادوشمار سے کہیں بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس علاقے میں پیش آنے والے حادثات دنیا کی دیگر مصروف ترین گزرگاہوں سے زیادہ رہے ہوں اور باریک بینی سے جائزہ لینے پر اس علاقے کے بارے میں پھیلائی جانے والی کسی بھی کہانی میں کوئی غیرمعمولی عوامل دکھائی نہیں دئیے۔

    اس علاقے میں جہازوں کے غائب ہونے کی بات پہلے پہل 1950ء میں کی گئی۔ یہ کہانی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ذریعے سامنے آئی اور اس کے لکھنے والے کا نام ای وی ڈبلیو جونز تھا۔ جونز نے جہاں اپنے آرٹیکل میں ان حادثات کو ہوائی جہازوں، بحری جہازوں اور چھوٹی کشتیوں کی ’’پراسرار گمشدگی‘‘ سے تعبیر کیا وہیں اس علاقے کو ’’ڈیولز ٹرائی اینگل‘‘ کا نام بھی دیا۔ دوسری بار اس کا ذکر 1952 میں ’’فیٹ میگزین‘‘ کے ایک آرٹیکل میں ہوا جسے جارج ایکس سینڈ نے تحریر کیا اور اس میں کئی پراسرار بحری گمشدگیوں کا ذکر کیا گیا۔ ’’برمودا ٹرائی اینگل‘‘ کی اصطلاح 1964ء میں ونسینٹ گیڈیز کے Argosy فیچر کے ذریعے مقبول ہوئی۔ جو مقبولیت اس علاقے کو آج حاصل ہے وہ چارلس برلٹیز کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ’’برمودا ٹرائی اینگل‘‘ کے نام سے چارلس برلیٹز کی کتاب 1974ء میں شائع ہوئی اور بعد میں اس پر فلم بھی بنائی گئی۔

    کتاب میں ان ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کے بارے میں طویل اور پراسرار کہانیاں لکھی گئی ہیں جو اس سمندری علاقے میں لاپتہ ہوگئے تھے۔ اس میں خصوصی طور پر امریکی بحریہ کے پانچ تارپیڈو بمبار طیاروں کا ذکر کیا گیا ہے جو دسمبر 1945ء میں اس علاقے میں لاپتہ ہوئے۔ اسے فلائٹ 19 کا حادثہ کہاجاتا ہے۔ یہ کتاب ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوئی اور اس میں گمشدگیوں کی کئی وجوہات کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً حادثوں کی ایک وجہ اس علاقے میں بھاری آمدورفت بھی ہو سکتی ہے، سمندری طوفان بھی ان حادثوں کا باعث ہو سکتے ہیں۔

    ان دو سمجھ میں آنے والی وجوہات کے علاوہ کئی ایسے اسباب کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو ماورائے عقل ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ ان گمشدگیوں کا باعث ٹمپرل ہولز (temporal holes) بھی ہو سکتے ہیں۔ سمندر میں غرق ہوجانے والی افسانوی سلطنت ’’اٹلانٹس‘‘ جس کا ذکر سب سے پہلے افلاطون نے کیا تھا، بھی ان حادثوں کا سبب ہو سکتی ہے اور کسی دوسرے سیارے کی ٹرانسپورٹیشن ٹیکنالوجی بھی ان حادثوں کی وجہ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی سپر نیچرل وجوہات کے ذکر اس کتاب کے اندر ملتا ہے۔ فلائٹ 19 کے حادثے کے وقت ہی ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کے ریفرنس لائبریرین لارنس کوشے نے برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں طلباء کی بے پناہ دلچسپی اور سوالات سے تحریک پاکر اصلی رپورٹوں کی چھان بین کا تھکا دینے والا کام شروع کردیا اور ان رپورٹوں سے حاصل ہونے والے نتائج 1975ء میں The Bermuda Triangle Mystery: Solved کے نام سے ایک کتاب میں شائع ہوئے۔ کوشے نے بڑی جابک دستی سے برلیٹز کی کہانیوں اور عینی شاہدین کے بیانات میں پائے جانے والے نقائص کو سامنے لاکر ان کا پردہ فاش کردیا۔ آج تک کی جانے والی کھوج بین سے کسی غیرعمومی مظہر کے ان حادثات میں ملوث ہونے کی کوئی سائنسی شہادت نہیں مل سکی۔

    نوٹ: یہ تحریر سائنس کی دنیا نامی فیس بک پیچ پراختر علی شاہ نے شیئر کی تھی ۔ معلوماتِ عامہ کے فروغ کے لیے اسے یہاں شائع کیا گیا ہے۔