Tag: bhutto

  • سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا 91 واں یوم پیدائش

    سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا 91 واں یوم پیدائش

    کراچی: پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی اورپاکستان کے نویں وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا 91 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، کون جانتا تھا کہ وہ بین الاقوامی قد آورسیاسی شخصیت کے روپ میں اُبھرکرسامنے آئیں گے، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے تھے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو نے ابتدائی تعلیم کے بعد 1950 میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی اور 1952 میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصولِ قانون میں ماسٹرز کیا،تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کیا اورایس ایم لاء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو نے سیاست کا آغاز 1958میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمرفیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِحکومت میں وزیرتجارت، وزیراقلیتی امور، وزیرصنعت وقدرتی وسائل اوروزیرخارجہ کے قلمدان پرفائض رہے، ستمبر1965ء میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپورانداز سے پیش کیا۔

    جنوری 1966ءمیں جب صدر ایوب خان نے اعلانِ تاشقند پردستخط کیے تو ذوالفقارعلی بھٹو انتہائی دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔ اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی تھی۔

    قائد عوام نے دسمبر 1967 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، جو بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ عوامی جلسوں میں عوام کے لہجے میں خطاب اُنہی کا خاصا تھا۔

    اُنیس سو ستر کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی، اقتدار کے حصول کی اس لڑائی میں نتیجہ ملک کے دوٹکڑوں کی صورت میں سامنے آیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1971ءمیں پاکستان کے صدر اورپھر 1973ءمیں پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔

    ملک کے دولخت ہونے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دوراقتدار میں بے پناہ کارنامے انجام دیے، اُنہوں نے1973 میں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، یہی نہیں اُن کے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو آج بھی اُن کی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔

    پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد 1977 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی 1977کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

    ملک میں ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی۔

    ذوالفقارعلی بھٹو نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس میں تین ججوں نے انہیں بری کرنے کا اور تین ججوں نے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔

    پاکستانی سیاست کے اُفق کے اس چمکتے ستارے کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں 4اپریل اُنیس سو اُناسی کو پھانسی دیدی گئی لیکن پاکستان کی سیاست آج بھی اُن کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔

  • پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے سندھ حکومت کو حکومتی محاذ پر سرگرم ہونے کا ٹاسک دے دیا

    پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے سندھ حکومت کو حکومتی محاذ پر سرگرم ہونے کا ٹاسک دے دیا

    کراچی: پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے سندھ حکومت کو حکومتی محاذ پر سرگرم ہونے کا ٹاسک دے دیا، پی پی کے صوبائی وزرا اور اہم رہنماؤں کو متحرک رہنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے صوبائی وزرا، اہم رہنماؤں کو متحرک ہونے اور رابطہ مہم تیز کرنے کا ہدف دیا ہے، پارٹی قیادت کے خلاف کیسز اور نئے الزامات سے متعلق بھی حکمت عملی مرتب کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ متوقع صورت حال کے پیش نظر جیالوں نے سیاسی باگ ڈور سنبھالنے کی حکمت عملی طے کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں، جبکہ صنم بھٹو بھٹوخاندان اور بےنظیربھٹو کے بچوں کی دیکھ بھال کریں گی۔

    پورا پاکستان پیپلزپارٹی کا قلعہ بنے گا: آصف علی زرداری

    بلاول بھٹو پارلیمانی، سیاسی اور پارٹی محاذ سنبھالیں گے، سندھ کابینہ ارکان وفاق کے ساتھ زیرالتوا امور کو عوام کے سامنے لائیں گے۔

    ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ گذشتہ روز بلاول بھٹو سے دن بھر پارٹی کے اہم رہنماؤں کی ملاقات ومشاورت کی، بلاول بھٹو سے سندھ حکومت کے اہم وزرا نے بھی طویل ملاقاتیں کیں۔

    خیال رہے کہ 30 نومبر کو پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ دشمن طاقتیں ملک توڑنا چاہتی ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کا قلعہ بنے گا۔

  • صرف پیپلز پارٹی کراچی کی تقدیر بدل سکتی ہے: بلاول بھٹو

    صرف پیپلز پارٹی کراچی کی تقدیر بدل سکتی ہے: بلاول بھٹو

    کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ صرف پیپلز پارٹی کراچی کی تقدیر بدل سکتی ہے، اپنی سیاست کا آغاز اسی شہر سے کر رہا ہوں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی کے مختلف علاقوں میں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کیا، بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو کراچی میں روکنے کی کوشش کی گئی، کراچی کے وارث بننے والے نہ خود کام کرتے ہیں نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں جو کام ہوئے کسی نے نہیں کیے، ہم نے اسٹیل ملز کو بچانا ہے، اسٹیل ملز کی زمین سندھ حکومت کی ملکیت ہے، ہم کسی کو اسٹیل ملز نہیں بیچنے دیں گے۔


    ن لیگ اور پی ٹی آئی نے دہشت گردوں سے مل کر ہم پر حملے کیے، بلاول بھٹو


    سربراہ پی پی کا کہنا تھا کہ ہم اصولوں کی اور دیگر جماعتیں نفرت کی سیاست کررہی ہیں، جو کام رہتا ہے وہ میں پورا کروں گا، پی پی کا مقابلہ دہشت گردی، غربت اور بے روزگاری سے ہے، ہماری جدوجہد محترمہ کا نامکمل مشن پورا کرنے کے لیے ہے۔

    بلاول بھٹو کا مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کے پی میں 5 سال میں کوئی بھی اسپتال یا یونیورسٹی نہیں بنائی گئی، نیا پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے اپنے صوبے میں کچھ نہیں کیا۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم پورے سندھ میں آر او پلانٹس لگائیں گے، کراچی کے شہریوں کے لیے صاف پانی لائیں گے، سمندر کے پانی کو میٹھا کرنا پڑا تو کریں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سی پیک صرف لاہور میں نظر آتا ہے بلوچستان میں نہیں: بلاول بھٹو زرداری

    سی پیک صرف لاہور میں نظر آتا ہے بلوچستان میں نہیں: بلاول بھٹو زرداری

    کوئٹہ: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سی پیک صرف لاہور میں نظر آتا ہے بلوچستان میں نہیں، شریف خاندان صرف تخت رائیونڈ بچانے میں لگے رہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں ہولوگرام کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کیا، بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ماضی میں بلوچستان کی صورت حال بدترین تھی، سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں سے امن آیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شریف خاندان نے بلوچستان کے لیے کچھ نہیں کیا، سارے منصوبے پنجاب میں لگائے گئے، بلوچستان میں کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا، نواز شریف اپنی حکومت بچانے میں لگے رہے۔

    سربراہ پی پی کا کہنا تھا کہ شہید بھٹو اور بی بی نے روزگار کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے لیکن ن لیگی حکومت نے 5 سال میں بلوچستان کے مسائل حل نہیں کیے۔


    رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود انتخابی مہم جاری رکھوں گا، بلاول بھٹو زرداری


    خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنی انتخابی مہم تیز کردی ہے اور وہ سندھ سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں کا دورہ بھی کر رہے ہیں۔

    قبل ازیں ملتان میں مختلف مقامات پر انتخابی ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ میرے استقبال کیلئے آنے والے کارکنان کو روکا جارہا ہے، پشاور میں بھی جلسے کی اجازت دی پھر منع کردیا گیا۔

    انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اوچ شریف کے بعد ملتان میں بھی رکاوٹ ڈالی گئی، پارٹی سربراہ کی حیثیت سےانتخابی مہم چلانا میرا آئینی حق ہے، جتنی مرضی رکاوٹیں ڈالیں کراچی سے شروع ہونے والاسفرخیبر تک جاری رہے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف پیپلز پارٹی کا یوم سیاہ

    بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف پیپلز پارٹی کا یوم سیاہ

    پاکستان کی پہلی منتخب حکومت کا تختہ الٹے آج 39 برس بیت گئے۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بر طرف کر کے ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کیا تھا۔

    ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خلاف پیپلز پارٹی آج یوم سیاہ منائے گی۔

    جنرل ضیاء الحق
    اخباری شہ سرخی
    جنرل ضیاء الحق کے حکم نامے کا عکس

    سنہ 1977 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی کو ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو جیل میں قید کردیا اور بعد ازاں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

    سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو

    آئین کی معطلی اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے ملک کی سیاسی بنیادیں ہل گئیں اور 11 سال تک عوام پہ طویل آمرانہ قیادت مسلط کردی گئی جس کے دور حکومت میں جمہوریت پسندوں پر جیلوں میں کوڑے برسائے گے۔

    جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے ملک میں 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا جو 8 سال کے طویل انتظار کے بعد وفا ہوا۔

    سنہ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے گئے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بھی جنرل ضیاء نے گھر بھیج دیا۔

    جنرل ضیاء کا آمرانہ دور حکومت 17 اگست 1988 کو بہاولپور کے نزدیک ایک فضائی حادثے کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچا۔

    حادثے کا منظر

    جنرل ضیاء الحق کے دور کے اہم واقعات

    برطرف وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو 7 اپریل 1979 میں عوامی اور عالمی مخالفت کے باوجود پھانسی کی سزا دے دی گئی۔

    دسمبر 1979 میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا جس کے خلاف جنرل ضیاء الحق نے افغان جہاد کی شروعات کی اور ملک بھر سے مدرسوں کے ذریعے جہادی بھرتی کرنا شروع کیے۔

    سنن 1981 میں جنرل ضیاء الحق نے پارلیمنٹ پر پابندی عائد کرتے ہوئے مجلس شوریٰ تشکیل دی اور اسے ملک کے تمام امور کا نگہبان قرار دیا۔

    سنہ 1984 میں جنرل ضیاء نے ریفرنڈم کے ذریعے صدر مملکت کا عہدہ حاصل کیا۔

    سنہ 1985 میں 8 سال پرانا وعدہ وفا کرتے ہوئے غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے۔

    محمد خان جونیجو

    سنہ 1988 میں 29 مئی کو محمد خان جونیجو کی حکومت کو بھی برطرف کردیا گیا۔


     ٹوئٹر پر ’یوم سیاہ‘ مقبول

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی یوم سیاہ کا ٹرینڈ مقبول رہا اور مختلف شخصیات نے اس دن کو مختلف انداز سے یاد کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بتایا جائے مہاجربرابرکے شہری ہیں یا نہیں، الطاف حسین

    بتایا جائے مہاجربرابرکے شہری ہیں یا نہیں، الطاف حسین

    کراچی : الطاف حسین نے کہا کہ صاف صاف بتایا جائے کہ پاکستان میں مہاجربرابر کے شہری ہیں یا نہیں، انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں جاری دھرنے ختم ہوجائیں تو پھر ایک دھرنا ہم بھی دیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ ہم سندھ کی تقسیم نہیں چاہتے سندھ دھرتی ہماری بھی ماں ہے لیکن جب دنیا بھرمیں انتظامی بنیادوں پر تقسیم ہوسکتی ہے تو سندھ کو کیوں نہیں کیا جاسکتا؟۔ نارتھ، ساؤتھ، ایسٹ، ویسٹ اورسینٹرل سندھ صوبے بنائے جاسکتےہیں۔ انہوں سندھ کے سیاست دانوں اور دانشوروں سے اپیل کی کہ اس معاملے کو مذاکرات کے ذریعے جلد ازجلد حل کیا جائے لڑائی جھگڑے سے دنیا میں کسی کوکچھ حاصل نہیں ہوا۔

    انہوں پاک فوج کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’میں اسلام کی سب سے بڑی فوج کے سربراہ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا کلمہ پڑھنے والے مسلمان نہیں ہیں اور ہجرت کرنا کیا سنتِ رسول نہیں ہے‘‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ پولیس ، پیرا ملٹری فورسز اور فوج نے ماضی میں جب بھی ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیاتومہاجروں کے خلاف جو بھی بدزبانی کرنی تھی کی گئی لیکن کیا وجہ ہے کہ آج بھی جب کوئی چھاپہ ماراجاتا ہے تو اسی طرح بدزبانی کی جاتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے خوابوں میں نہ سوچا تھا کہ جو وطن انہوں نے قائدِاعظم کی قیادت میں بے شمارقربانیاں دے کرحاصل کیا تھا اس میں ان کی اولادوں کے ساتھ ایسا سلوک ہوگا۔

    الطاف حسین نے کہا کہ پاکستان میں مہاجروں کو دیوار سے لگانے کے لئے سب سے پہلے لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا اوراس کے بعد سازشوں پرسازشیں تیارکی گئیں، چاہے وہ فوجی آمروں کا دور ہو یا جمہوری حکمرانوں کا،مہاجروں کو مسلسل عہدوں سے ہٹایا گیا۔

    انہوں نے ملک کے تمام دانشوروں کو دعوت دی کہ ایک بارکراچی ایک سندھ سیکریٹیرٹ اوروزیراعلیٰ ہاؤس کا دورہ کریں تو شائد ہی کوئی اردو بولنے والا شخص کام کرتا نظرآئے۔

    انہوں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ میں دس سال کے لئے کوٹہ سسٹم نافذ کیا تھا کہ دیہی علاقوں کے لوگ جو پسماندہ ہیں ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکیں لیکن آج 37 سال بعد بھی کوٹہ سسٹم نافذ ہے۔

    ایم کیو ایم کے قائد کا کہنا تھا کہ علیحدگی پسند بنگالیوں کے خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکراردو بولنے والوں نے جنگ لڑی ، ترانوے ہزار فوجی تو واپس آگئے لیکن آج بھی ریڈ کراس کے چھیاسٹھ کیمپوں میں اردو بولنے والے انتہائی غربت کے عالم میں مقیم ہیں۔

    انہوں نے سوال کیا کہ ہم پر جناح پورجیسا نازیبا الزام لگایا گیا اور بدترین ریاستی آپریشن مسلط کیا گیا، 1992 کے آپریشن کا جواز بتایا جائے۔

    ہمارے کارکنان کو گرفتارکیا جاتا ہے اوررینجرزکے ہیڈ کوارٹرزمیں تشدد کرکے لاشیں پھینک دی جاتی ہیں اورپھرہماری ہی تذلیل کی جاتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دو جماعتیں گزشتہ پچاس دنوں سے دھرنا دے کر بیٹھی ہیں اورسرکاری ٹی وی اسٹیشن پر حملہ بھی کرچکی ہیں، اگر ہم اسلام آباد میں دھرنا دیتے تو ہم پرربرکے بجائے اسٹیل کی گولیاں برسائی جاتیں۔ اگر یہی سلسلے جاری رہے تو ڈر ہے کہ لڑائی نہ چھڑجائے۔