Tag: Bikers

  • ریاض میں خواتین کے لیے موٹر سائیکل چلانے کی تربیت

    ریاض میں خواتین کے لیے موٹر سائیکل چلانے کی تربیت

    ریاض: سعودی دارالحکومت ریاض میں قائم موٹر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں خواتین کو بھی موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دینے کا آغاز کردیا گیا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق ریاض میں قائم بائیکرز اسکل انسٹی ٹیوٹ سعودی عرب کا پہلا ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ہے۔ یہاں موجود یوکرین کی تجربہ کار انسٹرکٹر ایلینا بکریویا بھی فی الوقت سعودی عرب میں خواتین بائیکرز کے لیے واحد ٹرینر ہیں۔

    انسٹی ٹیوٹ میں ابتدائی طور پر جو خصوصی کورسز سکھائے جا رہے ہیں ان میں بیسک موٹر سائیکل رائیڈنگ، اسمارٹ رائیڈنگ اور ٹاپ گن موٹو جمخانہ جیسے پروگرام شامل ہیں۔

    انسٹی ٹیوٹ میں اس وقت موٹر سائیکل چلانے کی تربیت لینے کے لیے مختلف ممالک کی 43 خواتین بائیکرز میں 20 سعودی خواتین کے علاوہ مصر، لبنان اور برطانوی خواتین بھی شامل ہیں۔

    انسٹرکٹر ایلینا کے مطابق یہاں پر خواتین کے لیے ڈرائیونگ پر پابندی ختم ہونے کے بعد ان تربیتی پروگراموں کا آغاز کیا گیا ہے۔ یہ کورسز بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں اور حفاظت کی بنیادی باتیں سکھانے کے اسباق پر مشتمل ہیں۔

    یہاں موٹر سائیکلوں کے بارے میں ابتدائی معلومات سے لے کر متوقع پیچیدگیوں کے بارے میں بائیک سواروں کو تعلیم دی جا رہی ہے فیلڈ ٹریننگ میں گیئر شفٹوں سے لے کر ایمرجنسی اسٹاپس، یو ٹرنز اور کارنرننگ تک ہر چیز سکھائی جاتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ درحقیقت نئی اور مفید چیزوں کو اپنانے اور قبول کرنے میں سعودی معاشرے نے اپنی صلاحیت کو ثابت کردیا ہے اور یہ نہایت قابل تعریف ہے۔

  • ماں بیٹے پرمشتمل پاکستان کی منفرد بائیک رائیڈرٹیم

    ماں بیٹے پرمشتمل پاکستان کی منفرد بائیک رائیڈرٹیم

    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ہے، لاہور سے تعلق رکھنے والے ماں بیٹا موٹرسائیکل پرگھوم کر پاکستان کی خوبصورتی دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور سے تعلق رکھنے والے قدیر گیلانی ایک پیشہ وربائیک رائیڈر ہیں اور جو بات انہیں دنیا بھر کے تمام رائیڈر ز سے منفر د بناتی ہے ، وہ یہ کہ اس سفر میں ان کی والدہ بھی شریک ہوتی ہیں۔

    قدیر گیلانی کی والدہ کی عمر بہتر سال ہے لیکن اس عمر میں بھی وہ دور دراز علاقوں کا سفر بخوشی کرتی ہیں اور اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔

    قدیر گیلانی اس لئے خوش قسمت نہیں کہ وہ پاکستان کے خوبصورت مقامات کی سیر کرتے ہیں، اس لئے بھی نہیں کہ وہ یہ سفر بائیک پر کرتے ہیں بلکہ اگر خوش قسمت ہیں تو اس لئے کہ اس سارے سفر میں ان کی بہادر اور با ہمت ’ماں ساتھ ہوتی ہیں۔

    یکم مئی سے ترااپنی ماں کے ساتھ 4،872 کلومیٹر کے طویل سفر پر روانہ ہورہے ہیں ۔ اس سفر میں قدیر گلگت، کشمیر، سکردو اور چلاس کے علاوہ وزیرستان بھی شامل ہےیہ ایک منفرد اور حیرت انگیز بائیکرز ٹیم ہےجس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ، بلکہ وہ جن علاقوں میں جائیں وہاں کے مقامی لوگ انہیں اسی طرح خوش آمدید کہا جائے جیسا کہ حال ہی میں ایوا زوبیک یا ڈریو بینسکی کو کہا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ یہ ماں بیٹے پوری دنیا میں پاکستان کے سیاحتی علاقوں کی ایک ایسی تصویر پیش کررہے ہیں جس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔

  • صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز

    صنفی تفریق کو للکارتی مصر کی خواتین بائیکرز

    قاہرہ: دنیا بھر میں جہاں خواتین ہر شعبہ میں آگے بڑھ رہی ہیں اور مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں وہاں خواتین کی حدود کے حوالے سے بحثوں میں بھی شدت آرہی ہے۔

    کچھ مخصوص ذہنیت کے حامل گروہ خواتین کی ترقی سے خوفزدہ ہو کر اس یقین کے پیروکار ہیں کہ خواتین کو صرف گھر میں رہنا چاہیئے۔ یا اگر وہ باہر نکلتی ہیں تو صرف کچھ مخصوص کام ہی ایسے ہیں جو خواتین کو انجام دینے چاہئیں۔

    مزید پڑھیں: بائیک پر ایسا سفر جس نے زندگی بدل دی

    کچھ مغربی ممالک میں اس بات پر بھی بحث جاری ہے کہ کام کرنے والی خواتین کی تنخواہیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی مردوں کی ہیں۔ یہ امر بھی زیر بحث ہے کہ مختلف اداروں میں فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کو شامل کیوں نہیں کیا جاتا۔

    ہالی وڈ اداکارہ ایما واٹسن اسی سلسے میں ایک مہم ’ہی فار شی کا آغاز کر چکی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ خواتین کی خود مختاری میں مرد سب سے بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک باپ اپنی بیٹی، ایک شوہر اپنی بیوی اور ایک باس ہی اپنی خاتوں ورکر کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔

    مصر میں خواتین کا ایسا ہی ایک گروہ بائیک چلا کر مردوں کی خود ساختہ عظمت اور بڑائی کو للکار رہا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں یہ خواتین بائیک چلانے کے دوران پیش آنے والے تجربات کے بارے میں بتا رہی ہیں۔

    یہ گروپ ہر ہفتہ ایک دن ملک کے مختلف شہروں میں بائیک چلاتا ہے۔ ان کا مقصد صنفی تفریق کو ختم کرنا ہے۔

    گروپ میں شامل ایک خاتون کا کہنا ہے، ’مجھے بائیک چلانے میں کوئی عجیب بات نہں لگتی۔ نہ جانے لوگ لڑکیوں کے لیے اسے عجیب کیوں سمجھتے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ بائیک وزنی ہوتی ہے اور ایک طاقتور مرد ہی اسے چلا سکتا ہے‘۔

    یہ تمام خواتین ہفتہ میں ایک دن کسی ایک جگہ پر جمع ہوتی ہیں اس کے بعد ایک ساتھ اپنا موٹر سائیکل کا سفر شروع کرتی ہیں۔

    وہ چاہتی ہیں کہ خواتین اپنے روزمرہ کاموں کے لیے بھی بائیک کا استعمال کریں تاکہ خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ میں پیش آنے والی مشکلات سے بچا جا سکے۔