برلن: ملیریا کی دوسری ویکسین کی آزمائش امریکا میں شروع ہو گئی ہے، یہ ویکسین جرمن دوا ساز کمپنی ’بائیو این ٹیک‘ نے تیار کی ہے۔
تفصیلات کے مطابق روئٹرز نے خبر دی ہے کہ ملیریا سے بچاؤ کی دنیا کی پہلی ویکسین کے استعمال کی منظوری کے ایک سال بعد اب ایک اور ویکسین پر آزمائش کا مرحلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
ایم آر این اے ٹیکنالوجی کے ساتھ تیار کردہ اس جدید ملیریا ویکسین کی امریکا میں آزمائش شروع کر دی گئی ہے، پہلے مرحلے میں صرف 60 افراد پر اسے آزمایا جا رہا ہے، جس میں ہر رکن کو 3 ڈوز دیے جائیں گے۔
بائیو این ٹیک نے ویکسین کو ’بی این ٹی 16 بی 1‘ کا نام دیا ہے، بائیو این ٹیک کمپنی نے ایم آر این اے ٹیکنالوجی کو پہلی بار 2021 میں بنائی گئی کرونا سے تحفظ کی ویکسین میں استعمال کیا تھا۔
ماہرین کو امید ہے کہ ملیریا کی دوسری ویکسین کا پہلا آزمائشی مرحلہ کامیاب جائے گا اور مذکورہ ویکسین فنڈز بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ ملیریا کی پہلی ویکسین برطانوی دوا ساز کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن (جی ایس کے) نے بنائی تھی، جسے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اکتوبر 2021 میں استعمال کرنے کی منظوری دی تھی، اس ویکسین کی آزمائش 2019 میں افریقی ممالک میں کی گئی تھی۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی نے بھی ملیریا سے تحفظ کی ایک ویکسین تیار کی ہے، جس پر آزمائش جاری ہے۔
واشنگٹن: جرمن دوا ساز کمپنی بائیو این ٹیک کی تیار کی جانے والی کینسر ویکسین کو مارکیٹ میں آنے میں تین سے چار سال لگیں گے۔
تفصیلات کے مطابق بائیو این ٹیک کے بانیوں میں سے ایک پروفیسر ڈاکٹر اوعور شاہین نے کہا ہے کہ ہم اپنی تیار کردہ کینسر ویکسین سے پُر امید ہیں، ویکسین کو مارکیٹ میں آنے میں تین سے چار سال لگیں گے۔
اوعور شاہین کے مطابق کینسر کی مختلف اقسام پر اس ویکسین کے کلینیکل تجربات جاری ہیں، ابتدائی نتائج میں دیکھا گیا ہے کہ بعض مریضوں میں ویکسین کی وجہ سے ٹیومر میں سکڑاؤ آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ویکسین کے درست ملاپ سے ٹھوس ٹیومر کا بھی علاج کیا جا سکے گا، ہمارا ہدف صرف ٹیومر کو چھوٹا کرنا ہی نہیں بلکہ اس میں مستقل سکڑاؤ کا رجحان پیدا کرنا ہے۔
علاج کے قابل بھروسا ہونے کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے شاہین نے کہا کہ ویکسین کے مراحل نہایت جوش دلانے والے ہیں۔
واضح رہے کہ جرمن بائیو ٹیک کمپنی جس نے امریکی کمپنی فائزر کے ساتھ کرونا وائرس کی ویکسین کے لیے شراکت داری کی تھی اور اس طرح عالمی توجہ حاصل کی تھی، نے اب اپنی توجہ اپنے پہلے کے mRNA اہداف میں سے ایک کی طرف موڑ دی ہے، یعنی کینسر۔
فرینکفرٹ: کرونا وائرس ویکسین کے سلسلے میں گزشتہ روز دنیا نے جو خوش خبری سنی تھی، اس ویکسین کے پیچھے ایک ترک نژاد جوڑے کی کہانی ہے جس نے اپنی پوری زندگی کینسر کے خلاف امیون سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے وقف کر رکھی ہے۔
گزشتہ روز فارما کمپنی فائزر نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کرونا ویکسین کے فیز تھری کا کامیاب تجربہ کیا ہے جس کے 90 فی صد مؤثر نتائج سامنے آئے ہیں۔
جرمنی کی بائیو این ٹیک اور امریکی شراکت دار فائزر کی کو وِڈ 19 ویکسین کے ان مثبت اعداد و شمار کے پیچھے ایک ترک نژاد میاں بیوی کی کہانیہے، یہ جوڑا ہے ڈاکٹر اوگر شاہین اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر اوزلم تورجی۔
روئیٹرز کے مطابق اس ترک نژاد جوڑے کا تعلق ایک کم آمدن والے طبقے سے تھا، بائیو این ٹیک کے 55 برس کے سربراہ ڈاکٹر اوگر شاہین جرمنی کے شہر کولون میں فورڈ کمپنی میں ایک ترک تارکِ وطن کے طور پر مزدور تھے، جب کہ ڈاکٹر تورجی ایک ترک نژاد ڈاکٹر کی بیٹی ہے جو خود ترکی سے ایک تارک وطن کی حیثیت سے جرمنی آئے تھے۔
ترک نژاد ڈاکٹر جوڑی: ڈاکٹر اوگر شاہین اور ان کی اہلیہ اوزلم تورجی
اب ڈاکٹر شاہین اور ان کی 53 برس کی بیوی ڈاکٹر اوزلم تورجی کا شمار جرمنی کے 100 ارب پتیوں میں ہوتا ہے، اس وقت ڈاکٹر شاہین اور ڈاکٹر تورجی کی کمپنی کی قیمت 21 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے، گزشتہ جمعے تک اس کی قیمت 4.6 ارب ڈالر تھی۔
ڈاکٹر اوگر شاہین شام کے شہر حلب کی سرحد کے قریب ترکی کے شہر اسکندرون میں پیدا ہوئے، وہ والد کے ساتھ جرمنی منتقل ہوئے تھے، بہت سادہ مزاج ہیں، بڑے سے بڑے اجلاس میں بھی دفتر جینز میں اپنی بائیسیکل پر ہیلمٹ پہن کر آتے ہیں۔
ڈاکٹر شاہین کو بچپن سے طبی تعلیم کا شوق تھا، انھوں نے تعلیم کے بعد کولون اور ہومبُرگ کے مختلف تدریسی استالوں میں کام کیا، ہومبرگ ہی میں ان کی ملاقات ڈاکٹر تورجی سے ہوئی، دونوں کی میڈیکل ریسرچ اور علمِ سرطان (اونکولوجی) میں گہری دل چسپی تھی۔ ایک جریدے کے مطابق دونوں کو کام سے اتنا لگاؤ تھا کہ شادی کے روز بھی اپنی لیبارٹری میں کام کر رہے تھے، اور وہیں سے گھر پہنچ کر تیار ہوئے۔
دونوں نے تحقیق کے دوران جسم میں کینسر کے خلاف لڑائی میں مددگار امیون سسٹم کا سراغ لگایا، 2001 میں انھوں نے گینیمڈ فارماسیوٹیکلز کا آغاز کیا، اور کینسر سے لڑنے والے اینٹی باڈیز تیار کیے۔ اس کام کی وجہ سے انھیں دو سرمایہ کار کمپنیوں کی طرف سے سرمایہ ملا۔ یہ کمپنی انھوں نے 2016 میں جاپانی کمپنی اسٹیلاز کو تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالرز میں بیچ دی۔
تاہم، گینیمڈ کے پیچھے کام کرنے والی ٹیم پہلے ہی بائیو این ٹیک (BioNTech) پر کام شروع کر چکی تھی (یہ کمپنی 2008 میں بن گئی تھی) اور کینسر کی امیونوتھراپی طریقوں کی ایک وسیع رینج کے حصول کے لیے کوشاں تھی، جس میں میسنجر آر این اے (mRNA) بھی شامل تھا، جو کہ ایک ہمہ گیر پیغام رساں مادہ ہے، جو خلیات میں جینیاتی ہدایات بھیجتا ہے۔
بائیو این ٹیک کی اس کہانی میں نیا موڑ اس وقت آیا جب ڈاکٹر شاہین کی نظر سے ایک تحقیقی مقالہ گزرا جو چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس پر مبنی تھا، انھیں فوراً یہ خیال آیا کہ دافع کینسر mRNA دوا اور mRNA پر مبنی وائرل ویکسینز کے درمیان فرق بہت ہی کم ہے۔ اس پر انھوں نے کمپنی میں 500 عملے کے ارکان کو متعدد ممکنہ مرکبات کی تیاری پر لگا دیا۔
بعد ازاں، مارچ میں امریکی کمپنی فائزر اور چینی کمپنی فوسن نے بھی ان کے ساتھ پارٹنر شپ کر لی۔اور آج اس پارٹنر شپ کا ثمر دنیا کے سامنے ایک مؤثر کرونا وائرس ویکسین کی صورت میں آ گیا ہے۔