Tag: birds

  • پرندوں کی چہچہاہٹ سننے کا حیران کن فائدہ

    پرندوں کی چہچہاہٹ سننے کا حیران کن فائدہ

    فطرت کے قریب رہنا انسان کی ذہنی صحت پر نہایت مثبت اثرات مرتب کرتا ہے، اور حال ہی میں ایک اور تحقیق نے اس کی تصدیق کردی جس میں دیکھا گیا کہ پرندوں کی چہچہاہٹ سننے سے لوگوں کے ڈپریشن میں کمی واقع ہوئی۔

    جرمنی میں ہونے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ پرندوں کی چہچہاہٹ انسانی کانوں کے لیے ایک ٹانک کی طرح کام کرتی ہے جسے سن کر انسان کی طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ ان کی آوازوں کی ریکارڈنگ بھی ایسا ہی اثر کرتی ہے۔

    نیچر پورٹ فولیو نامی جریدے کی سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اس تحقیق کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ انسانی صحت پر ہلکی یا تیز آوازوں سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کے لیے انہوں نے ٹریفک کے شور و غل سے لے کر پرندوں کی سریلی چہچہاہٹ تک مختلف آوازوں پر تجربہ کیا۔

    مذکورہ تحقیق کو 295 شرکا پر 6 منٹ تک آوازیں سنا کر آن لائن تجربہ کیا گیا، ان آوازوں میں ہلکی اور تیز ٹریفک کے شور کی آوازیں اور ہلکی اور تیز پرندوں کی چہچہاہٹ کی آوازیں شامل تھیں۔

    ان آوازوں کو سننے کے بعد شرکا سے اداسی، اضطراب پاگل پن اور وسوسوں کے حوالے سے سوال نامے پر کروائے گئے۔

    جوابات سے دیکھا گیا کہ پرندوں کی چہچہاہٹ اور قدرتی ماحول انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے اور ذہنی صحت کے لیے ایک ٹانک کی طرح کام کرتا ہے جسے سن کر انسان کی طبیعت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے حتیٰ کہ ان کی آوازوں کی ریکارڈنگ میں بھی ایسے ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تیزی سے بدلتی دنیا کے باعث قدرتی ماحول ناپید ہوتا جارہا ہے جس کے منفی اثرات انسانی صحت پر ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کی صورت میں مرتب ہورہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا تیزی سے گلوبل ویلج بن رہی ہے، ہم جس ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں وہ بھی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔

    ماہرین کے اندازے کے مطابق سنہ 2050 تک دنیا کی تقریباً 70 فیصد آبادی شہروں میں رہائش پذیر ہوگی جبکہ اب بھی دنیا کے بعض خطوں جیسے یورپ میں قبل از وقت ہی تعداد مذکورہ حد سے تجاوز کر چکی ہوگی۔

  • سریلے پرندوں کے میوزک البم نے نامور گلوکاروں کو پیچھے چھوڑ دیا

    سریلے پرندوں کے میوزک البم نے نامور گلوکاروں کو پیچھے چھوڑ دیا

    آسٹریلیا میں نایاب سریلے پرندوں  کے البم نے میوزک چینل چارٹ میں تیسری پوزیشن پر پہنچ کر کئی معروف گلوکاروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

    چڑیوں کا چہچہانا، کوئل کی کوک، مرغ کی بانک سب نے سنی ہوگی، مگر آسٹریلیا میں پائے جاتے ہیں ایسے نایاب سریلے پرندے جن کے گیتوں نے پہلی بار میوزک چینل چارٹ میں تیسری پوزیشن پر براجمان ہوکر ٹیلر سوئفٹ سمیت کئی معروف گلوکاروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

    ہے ناں ناقابل یقین خبر، مگر ہے حقیقت۔

    گزشتہ سال کے اختتام پر گیتوں کے البم کی دوڑ میں معدومی کے خطرے سے دوچار پرندوں کی سریلی آوازوں پر مبنی ایک پورے البم نے آسٹریلیا کے ٹاپ ففٹی آڈیو البم کی فہرست میں تیسری نشست حاصل کرلی۔

    اس البم میں مجموعی طور پر تریپن پرندوں کی آوازیں شامل ہیں جب کہ اس حوالے سے دیگر معلومات بھی شامل ہے۔

    اس دلچسپ البم کو بنانے والے چارلس ڈارون یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم اور موسیقار اینتھونی ایلبریخت ہیں، اس البم سے حاصل ہونے والی آمدنی برڈ لائف آسٹریلیا نامی تنظیم کو دی جائے گی جو ان پرندوں کی بقا کے لیے سرگرم ہے اور لوگوں میں ان نایاب پرندوں سے متعلق آگہی اور شعور بیدار کررہی ہے۔

    موسیقی کے ماہرین نے پرندوں کی چہچہاہٹ پر مبنی اس سریلی البم کو پرندوں کا آرکسٹرا قرار دیا ہے۔

  • ایبٹ آباد: طوفانی بارشوں میں نایاب نسل کے 200 پرندے ہلاک

    ایبٹ آباد: طوفانی بارشوں میں نایاب نسل کے 200 پرندے ہلاک

    ایبٹ آباد: صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ایبٹ آباد میں طوفانی بارشوں سے محکمہ جنگلی حیات کا دفتر زیر آب آگیا جہاں موجود نایاب نسل کے 200 پرندے ہلاک ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ایبٹ آباد میں طوفانی بارش سے شدید نقصان ہوا ہے، بارش میں محکمہ جنگلی حیات کے 200 پرندے بھی ہلاک ہوگئے۔

    محکمہ جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے پرندے نایاب نسل کے تھے، نالوں کی صفائی نہ ہونے سے بارش کا پانی دفتر میں داخل ہوا اور دفتر زیر آب آیا جس کی وجہ سے پرندے ہلاک ہوئے۔

    ایبٹ آباد میں بارش سے کئی مکانات بھی زیر آب آگئے جن میں پھنسے 62 افراد کو ریسکیو کرلیا گیا، مختلف حادثات میں 3 افراد زخمی بھی ہوئے۔

    صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق صوبے بھر میں بارشوں سے مختلف حادثات میں 3 بچوں سمیت 4 افراد جاں بحق ہوئے۔

    پی ڈی ایم اے ترجمان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پختونخواہ ریسکیو آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں اور متعلقہ اداروں سے رابطے میں ہیں۔

  • بیچ سمندر میں کشتی پر سوار افراد کا سامنا کس سے ہوا؟

    بیچ سمندر میں کشتی پر سوار افراد کا سامنا کس سے ہوا؟

    پرندوں اور جانوروں کے ساتھ مڈبھیڑ کرتے ہوئے اکثر اوقات عجیب و غریب واقعات رونما ہوجاتے ہیں، ایسا ہی کچھ واقعہ کشتی پر سوار پرندوں کو مچھلیاں کھلاتے شخص کے ساتھ بھی پیش آیا۔

    ٹام بوڈل نامی ایک شخص نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جسے اب تک 90 لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں۔

    ویڈیو میں کشتی پر چند افراد موجود ہیں جن میں سے ایک شخص ایک کنٹینر سے مچھلیاں نکال کر پرندوں کو کھلا رہا ہے۔ کشتی کے پیچھے کئی پرندے اڑتے ہوئے آرہے ہیں۔

    تمام افراد ان پرندوں کو مچھلیاں کھلاتے ہوئے نہایت خوش ہورہے ہیں کہ اچانک سمندر سے ایک دریائی بچھڑا نمودار ہوتا ہے۔

    مذکورہ شخص دریائی بچھڑے کو مچھلی کھلانے لگتا ہے، 2، 3 مچھلیاں کھا کر بھی دریائی بچھڑا سیر نہیں ہوتا اور اس کے بعد کشتی پر چڑھ کر خود ہی کنٹینر سے مچھلیاں نکال کر کھانے لگتا ہے۔

    تمام مچھلیاں کھانے کے بعد وہ اطمینان سے پانی میں چھلانگ لگا کر غائب ہوجاتا ہے۔ کشتی پر موجود افراد اس دوران ہنستے سنائی دیتے ہیں۔

    دریائی بچھڑے کے جانے کے بعد مچھلی کھلانے والے شخص نے کنٹینر میں دیکھا تو وہ خالی پڑا تھا، پرندوں کے لیے تمام مچھلیاں دریائی بچھڑا کھا کر جا چکا تھا۔

  • 11 دن تک مسلسل پرواز کرنے والے پرندے نے ماہرین کو حیران کردیا

    11 دن تک مسلسل پرواز کرنے والے پرندے نے ماہرین کو حیران کردیا

    الاسکا: سائنسدانوں نے پہلی بار کسی پرندے کی طویل ترین پرواز ریکارڈ کی ہے، یہ 12 ہزار کلو میٹر کی مسافت طے کرنے والی اس پرواز کا دورانیہ 11 دن کا تھا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ماہرین نے کسی جگہ رکے یا اترے بغیر کسی پرندے کی طویل ترین اڑان کی تصدیق کی ہے۔ اس پرندے کو بارٹیلڈ گاڈ وٹ کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ پرندہ الاسکا سے پرواز کر کے 12 ہزار کلو میٹر دور نیوزی لینڈ پہنچا ہے۔ اس دوران یہ پرندہ نہ کہیں رکا اور نہ اترا، اس نے اپنا سفر 11 دن میں مکمل کیا۔

    دار چینی کے رنگ کے بڑے اور شور مچانے والا اس پرندے کی نقل مکانی کی صلاحیت بہت غیرمعمولی ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہر سال ایسے لاتعداد پرندے الاسکا سے نیوزی لینڈ تک جاتے ہیں لیکن اس ایک خاص پرندے نے تمام ریکارڈ توڑ کر سائنسدانوں کو بھی حیران کردیا ہے۔

  • سعودی عرب میں پرندوں کی مارکیٹس کیوں بند کردی گئیں؟

    سعودی عرب میں پرندوں کی مارکیٹس کیوں بند کردی گئیں؟

    ریاض: مکہ مکرمہ میں پرندوں کی خرید و فروخت کے بازار بند کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی، انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انفلوائنزا کا شکار پرندوں سے نجات حاصل کی جائے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق میئر مکہ انجنیئر محمد عبداللہ القویحص نے بلدیہ کے زیر انتظام پرندوں کی مارکیٹوں اور یومیہ بنیاد پر لگنے والے پرندوں کے بازار کو عارضی طور پر بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

    میئر مکہ کی جانب سے ریجنل بلدیاتی اداروں کو احکامات جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ احتیاط کے پیش نظر مکہ میں پرندوں کی راویتی مارکیٹوں کو عارضی طور پر بند کر دیا جائے۔

    میئر کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ احتیاط کے طور پر پرندوں کے جمع ہونے والے مقامات پر بھی جراثیم کش ادویات کا اسپرے کیا جائے۔

    ہدایت میں کہا گیا کہ ایسے پرندے جن کے بارے میں شبہ ہو کہ وہ انفلوائنزا کا شکار ہیں ان سے نجات حاصل کی جائے، بلدیہ کی ٹیمیں جامع حکمت عملی کے تحت کام کریں جبکہ تمام اقسام کے پرندوں کی خرید و فروخت کو عارضی طور پر روک دیا جائے۔

    میئر نے وزارت پانی و ماحولیات اور زراعت کے تعاون سے جامع حکمت عملی مرتب کر کے اس پر فوری عمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

    ادھر فیملی میڈیسن کے ماہر ڈاکٹر احمد عبدالملک نے پالتو جانوروں کے حوالے سے کہا ہے کہ گھریلو جانوروں سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، گھروں میں رہنے والے جانوروں سے کرونا وائرس پھیلنے کا اندیشہ نہیں تاہم اس ضمن میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔

    ان کے مطابق گھریلو جانوروں کو عام جانوروں کے ساتھ باہر نہ رکھا جائے تاکہ وہ کسی قسم کے جراثیم سے متاثر نہ ہوں، پالتو جانوروں سے کھیلنے اور ان کے کام کرنے کے بعد ہاتھوں کو 20 سیکنڈ تک جراثیم کش محلول سے دھویا جائے۔

    خیال رہے کہ سعودی عرب میں اب تک کرونا وائرس کے 21 مریض سامنے آچکے ہیں۔

  • اربوں پرندوں کی ہلاکت کی وجہ شکاری بلیاں نہیں، تو پھر کون ہے؟

    اربوں پرندوں کی ہلاکت کی وجہ شکاری بلیاں نہیں، تو پھر کون ہے؟

    دنیا بھر میں پرندوں کی ہلاکت میں تشویش ناک اضافہ ہوگیا ہے، ایک تحقیق کے مطابق صرف امریکا اور کینیڈا میں گزشتہ 50 برس میں لگ بھگ 3 ارب کے قریب پرندے ہلاک ہوچکے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کی ہلاکت کی وجہ شکاری بلیاں یا دیگر جانور نہیں، بلکہ انسانوں کی بنائی ہوئی شیشے کی کھڑکیاں ہیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں بلند و بالا شیشے کی عمارات شاید کسی شہر کی ترقی اور جدت کا ثبوت تو ہوسکتی ہیں، تاہم یہ عمارات معصوم پرندوں کے لیے کسی مقتل سے کم نہیں ہوتیں۔

    پرندے کبھی ان شیشوں کے پار دیکھ کر اسے کھلا ہوا سمجھ کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کبھی وہ اپنا ہی عکس دیکھ کر تذبذب میں مبتلا ہوجاتے ہیں، نتیجتاً وہ پوری رفتار کے ساتھ آ کر ان شیشوں سے ٹکراتے ہیں اور ہلاک و زخمی ہوجاتے ہیں۔

    ان شیشوں سے ٹکرا کر ہلاک ہونے والے پرندوں کی تعداد سالانہ لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے۔ یہ ہلاکتیں زیادہ تر مہاجر پرندوں کی ہوتی ہے جو اچانک ایک نئے ماحول میں آکر ویسے ہی اجنبیت کا شکار ہوتے ہیں۔

    وہ سستانے کے لیے کسی درخت کو دیکھ کر اس کی جانب لپکتے ہیں لیکن دراصل وہ شیشے پر درخت کا عکس ہوتا ہے اور وہ اس شیشے سے دھڑام سے ٹکرا جاتے ہیں۔

    کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ طریقے اپنائے جارہے ہیں۔

    سب سے پہلا کام وہاں یہ کیا گیا کہ عمارتوں کی تعمیر میں شیشے کا استعمال کم سے کم کردیا گیا ہے۔ روشنی کے گزر کے لیے عمارتوں کو شیشے سے سجانے کے بجائے کھلا رکھا جارہا ہے۔

    وہاں پر شیشوں پر نشانات بنائے جارہے ہیں جس سے پرندوں کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے سامنے کھلی جگہ نہیں بلکہ ایک دیوار ہے۔

    شیشے کی کھڑکیوں کو ڈھانپنے کے لیے شٹرز اور شیڈز کا استعمال فروغ دیا جارہا ہے تاکہ شیشوں کا عکس پرندوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔

    شیشے کے سامنے اندھیرا کردینا بھی معاون ثابت ہوسکتا ہے تاکہ پرندے روشنی کی جانب نہ لپکیں۔

    ماہرین کے مطابق ان طریقوں کو اپنا کر ایک عمارت جو سالانہ 100 پرندوں کی ہلاکت کا سبب بنتی تھی، اب یہ شرح بے حد کم ہو کر سالانہ ایک یا دو پرندوں کی ہلاکت تک محدود ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: شیشے کی کھڑکیوں سے پرندوں کو کیسے بچایا گیا؟

  • برطانوی شہریوں کی عام سی عادت معصوم پرندوں کی بقا کا سبب بن گئی

    برطانوی شہریوں کی عام سی عادت معصوم پرندوں کی بقا کا سبب بن گئی

    دنیا بھر میں دن بدن تیزی سے ہوتی اربنائزیشن، شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ اور انسانی سرگرمیوں نے پرندوں کی آبادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے تاہم برطانوی شہریوں کی ایک عام عادت پرندوں کی بقا کے لیے مددگار ثابت ہورہی ہے۔

    برطانیہ میں ہر دوسرا شہری اپنے گھر کے کھلے حصے میں پرندوں کے لیے دانہ پانی ضرور رکھتا ہے اور ان کی اس عادت سے گزشتہ 5 دہائیوں سے نہایت مثبت اثرات دیکھنے میں آرہے ہیں۔

    ماہرین ماحولیات کے مطابق اس رجحان کی وجہ سے برطانیہ میں پرندوں کی تعداد اور ان کی اقسام میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھروں میں خوراک ملنے کی وجہ سے پرندے اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں شہروں میں دیکھے جارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گھروں میں پرندوں کے لیے دانہ پانی رکھنے کا رجحان پرندوں پر بھی مثبت تبدیلیاں مرتب کر رہا ہے۔

    پرندے کی ایک قسم گریٹ ٹٹ کی چونچ کی لمبائی میں اعشاریہ 3 ملی میٹر اضافہ بھی دیکھا گیا جس کی وجہ مختلف جالوں اور فیڈرز میں پھنسے کھانے کو نکال کر کھانا تھا۔

    گریٹ ٹٹ

    اسی طرح ایک اور پرندہ بلیک کیپ جو ہر سال موسم سرما میں خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسپین یا افریقہ کی طرف ہجرت کرجاتا تھا، اب یہ موسم برطانیہ میں ہی گزارتا دکھائی دیتا ہے۔

    بلیک کیپ

    تحقیق کے مطابق گھروں میں دانہ پانی رکھنے سے برطانیہ میں موجود پرندوں کی نصف آبادی یعنی تقریباً 19 کروڑ 60 لاکھ پرندوں کی غذائی ضروریات پوری ہورہی ہیں۔

    اس رجحان کی وجہ سے پرندوں کی آبادی میں کئی گنا اضافہ دیکھا جارہا ہے جس میں برطانیہ میں پایا جانے والا ایک عام پرندہ گولڈ فنچ بھی شامل ہے۔ سنہ 1972 میں گھریلو فیڈرز پر آنے والے پرندوں میں گولڈ فنچ کی تعداد صرف 8 فیصد ہوتی تھی اور اب یہ تعداد 87 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

    تحقیق کے مطابق برطانوی شہری مجموعی طور پر پرندوں کا خیال رکھنے پر ہر سال 33 کروڑ 40 لاکھ پاؤنڈز خرچ کرتے ہیں اور یہ رقم یورپی شہریوں کی اسی مقصد کے لیے خرچ کی جانے والی رقم سے دگنی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شہروں کے پھیلاؤ اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پرندوں کی 10 لاکھ اقسام معدومی کے قریب ہیں۔ سنہ 1994 سے 2012 تک کئی ممالک میں بھوری چڑیاؤں (ہاؤس اسپیرو) کی تعداد میں 50 فیصد سے زائد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بے ہنگم شور شرابہ اور ہجوم کے علاوہ ہمارے شہروں کی روشنیاں بھی معصوم پرندوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔

  • یو اے ای: مشرقی ملائیشیا سے درآمد ہونے والے پرندوں اور انڈوں پر پابندی عائد

    یو اے ای: مشرقی ملائیشیا سے درآمد ہونے والے پرندوں اور انڈوں پر پابندی عائد

    دبئی: متحدہ عرب امارات میں رہنے والے شہریوں کی صحت کو یقینی بنانے کے لیے مشرقی ملائیشیا سے پرندوں اور انڈوں کی درآمد پر عارضی طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ فیصلہ متحدہ عرب امارات کی وزارت برائے ماحولیات کی جانب سے ایچ ایس این 1 نامی خطرناک وائرس اور بخار کو ملک میں داخل ہونے اور شہریوں میں پھیلنے سے روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔

    وزارت ماحولیات کا کہنا تھا کہ ’’اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنے شہریوں کی صحت اور انہیں صحت بخش غذا اور ماحول کی فراہمی کے سلسلے میں مستعد ہیں اور بائیو سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر اقدامات کریں گے اور وائرس کو ملک میں داخل ہونے سے پہلے ہی روک لیں گے‘‘۔

    مشرقی ملائیشیا سے درآمد ہونے والے پرندوں اور انڈوں کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے ایچ ایس این 1 نامی وائرس کی روک تھام کے لیے پابندی کی فہرست میں شامل گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 6 اگست کو خبردار کیا تھا کہ مشرقی ملائیشیا سے درآمد ہونے والی پولٹری اشیاء (پرندوں اور انڈوں) میں برڈ فلو کا وبائی مرض بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ ملائیشیا کے دیگر حصّوں سے درآمد ہونے والا پولٹری مصنوعات کا گوشت تھرمل ٹریٹمنٹ کے ذریعے صفائی کے بعد متحدہ عرب امارات میں درآمد کیا جاتا ہے۔


    یو اے ای نے بھارت سے فروٹ اور سبزیوں کی درآمد پر پابندی لگادی


    خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات کی وزارت ماحولیات رواں برس مئی میں شہریوں کی صحت کو یقینی بنانے کے لیے بھارتی شہر کیرالہ سے تازہ پھلوں اور سبزیوں کی امپورٹ پر بھی پابندی عائد کرچکی ہے، جبکہ جنوبی افریقہ سے زندہ جانوروں کی درآمد بھی بند کردی گئی تھی۔

  • کیا ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟

    کیا ڈائنو سار اب بھی زمین پر موجود ہیں؟

    ہم جانتے ہیں کہ کروڑوں سال قبل ہماری زمین پر قوی الجثہ ڈائنو سارز رہا کرتے تھے، پھر ایک شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکراؤ کے نتیجے میں زمین پر ہولناک تباہی رونما ہوئی جس میں ڈائنو سار کی نسل بھی ختم ہوگئی۔

    لیکن کچھ ڈائنو سارز آج بھی ہماری زمین پر موجود ہیں، گو کہ ان کی شکل تبدیل ہوچکی ہے اور وہ خاصی حد تک ہمارے لیے بے ضرر بن چکے ہیں۔

    ان ڈائنو سارز کی بدلی ہوئی شکل کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے آسمانوں پر پرواز کرنے والے پرندے ہیں۔

    خیال رہے کہ ہماری زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    مزید پڑھیں: کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    آخری معدومی اب سے 6 کروڑ 60 لاکھ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنو سارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    یہ معدومی اس وقت رونما ہوئی جب 10 سے 15 کلومیٹر قطر کا ایک شہاب ثاقب زمین سے آٹکریا اور پوری زمین درہم برہم ہوگئی۔


    ڈائنو سار سکڑ کر پرندے بن گئے

    شہاب ثاقب کے زمین سے اس تصادم کے بعد ڈائنو سار کی ایک نسل ایسی بھی تھی جو اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئی۔

    جریدہ ’کرنٹ بائیولوجی‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق وہ ڈائنو سار جو اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے، وہ کروڑوں سال کے ارتقا کے بعد پرندے بن گئے۔

    سائنس دانوں کے مطابق ڈائنو سار کی یہ نسل تھیرو پوڈ تھی جو زندہ رہی اور اس عرصے کے دوران مسلسل سکڑتی رہی۔ اس نسل کے ڈائنو ساروں میں ٹی ریکس اور ویلوسی ریپٹر جیسے معروف ڈائنوسار شامل ہیں۔

    ان ڈائنو سارز کے ڈھانچے 4 گنا زیادہ تیزی سے تبدیل ہوئے جس سے انہیں اپنی نسل کی بقا میں مدد ملی۔

    ڈائنو ساروں اور قدیم پرندوں کی 120 نسلوں کے جسموں کی 1500 سے زیادہ خصوصیات کے مطالعے کے بعد سائنس دانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ زندہ رہ جانے والے ڈائنو ساروں کا جسم سکڑتا گیا، ان کے جسم پر بال اور پر اگ آئے اور سینے پر وہ مخصوص ہڈی بھی ابھر آئی جو صرف پرندوں کے سینوں پر پائی جاتی ہے۔

    جسم پر اگنے والے بالوں اور پروں نے پہلے جسم کو گرم رکھنے اور بعد ازاں اڑنے میں مدد فراہم کی۔ یہ پورا ارتقائی عمل کئی کروڑ سال میں مکمل ہوا۔

    مزید پڑھیں: ڈائنو سار کے خاندان کی آخری زندہ مخلوق

    ماہرین اس عمل کو ان ڈائنو سارز کی ارتقائی لچک کا نام دیتے ہیں اور اسی لچک نے ان ڈائنو سارز کو ختم ہونے سے بچایا۔

    اس کے برعکس وہ ڈائنو سار جو اس لچک سے محروم تھے ان کا خاتمہ ہوگیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ہماری زمین پر موجود تمام پرندوں کے آباؤ اجداد ڈائنو سارز ہی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔