Tag: Birth Anniversary

  • قائداعظم محمد علی جناح کا یومِ پیدائش آج جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے

    قائداعظم محمد علی جناح کا یومِ پیدائش آج جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے

    بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش آج روایتی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔

    قائداعظم کے یوم پیدائش پر دن کا آغاز وفاق اور صوبائی دارالحکومت میں توپوں کی سلامی سے ہوا، بابائے قوم کے یوم ولادت کے موقع پر آج ملک بھر میں عام تعطیل ہے، سرکاری اور غیرسرکاری ادارے خصوصی تقریبات کا انعقاد کریں گے،

    بابائے قوم کے 148ویں یوم پیدائش پر ملک بھر میں نماز فجرکے بعد ملکی سلامتی، استحکام کیلئے خصوصی دعائیں کی گئیں، کراچی میں مزار قائد پر گارڈز تبدیلی کی پر وقار تقریب کے علاوہ دن بھر مزار قائد پر حاضری دینے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

    دوسری جانب پاک فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، سروسز چیفس نے بابائے قوم کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

    آئی ایس پی آر کے مطابق افواج قائداعظم کے وژن اور بے مثال قیادت کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں، بانی پاکستان کی انتھک جدوجہد نے ہمارے عوام کو متحد کیا۔

    آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے خودمختار اور آزاد پاکستان کی بنیاد رکھی ، قائداعظم کے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کے اصولوں کیلئے غیر متزلزل وابستگی کا اعادہ کرتے ہیں ۔

  • شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کا 147واں یومِ ولادت آج منایا جا رہا ہے

    شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کا 147واں یومِ ولادت آج منایا جا رہا ہے

    شاعرِ مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا یوم پیدائش آج ملک بھر میں عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے، مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پروقار تقریب منعقد کی گئی۔

    شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کی پیدائش کے موقع پر مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پر وقار تقریب منعقد ہوئی، پاکستان نیوی کے کمانڈر سینٹرل پنجاب ریئر ایڈمرل اظہر محمود مہمان خصوصی تھے۔

    ریئر ایڈمرل اظہر محمود پاکستان رینجرز اور پاک بحریہ کے دستوں کا معائنہ کیا، پاک بحریہ کے چاق و چوبند دستے نے اعزازی گارڈز کے فرائض سنبھال لیے، مزار اقبال پر امیر البحر ایڈمرل نوید اشرف کی جانب سے پھول چڑھائے گئے۔

    مفکرپاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 کوسیالکوٹ میں پید اہوئے تھے، ہر سال 9 نومبر کو پورے پاکستان میں شاعر مشرق کے یوم پیدائش کو ’یوم اقبال‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

    دوسری جانب قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی اور وزیر اعظم شہباز شریف نے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے 147 ویں یوم پیدائش پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

    قائم مقام صدر یوسف گیلانی نے کہا کہ ہم علامہ اقبال کی خدمات اور ورثے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، اُن کے فلسفے اور افکار نے ایک آزاد ملک کے قیام کی راہ ہموار کی، آیئے اپنے عزم کی تجدید کریں اور پاکستان کے اتحاد، امن اور خوشحالی کیلئے کام کریں۔

     وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ایک صاحب بصیرت شاعر، فلسفی اور ایک بلند پایہ شخصیت تھے، اُن کے افکار اور تحریروں نے نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا پر گہرا اثر ڈالا اور مسلمانوں میں آزادی کا جذبہ بیدار کیا۔

    وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ اقبال کے فلسفے نے برصغیر کے مسلمانوں کو متحد کرکے ایک علیحدہ وطن کا خواب دیا، آیئے عہد کریں کہ ہم علامہ اقبال کی تعلیمات کو مجسم کرکے نئی امید و عزم سے آگے بڑھیں گے۔

     

  • وہ وژنری مصور جس کی ایجادات نے ہماری زندگیاں بدل دی

    وہ وژنری مصور جس کی ایجادات نے ہماری زندگیاں بدل دی

    لیونارڈو ڈاونچی کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں مونا لیزا کی شہرہ آفاق پینٹنگ ابھرتی ہے، سیاہ لباس میں ملبوس خاتون کا فن پارہ جس کی مسکراہٹ کی ایک دنیا دیوانی ہے، لیکن کیا اس کا خالق واقعی صرف ایک مصور تھا؟

    مونا لیزا کا خالق ڈاونچی ایک ایسی بلند قامت شخصیت تھا جسے صرف اس ایک فن پارے میں قید کرنا ناانصافی ہوگی، آج اس مصور کا 569 واں یوم پیدائش ہے جسے تاریخ کا ایک غیر معمولی شخص کہا جاتا ہے اور اس کا شمار دنیا کے ذہین اور وژنری ترین انسانوں میں کیا جاتا ہے۔

    15 اپریل 1452 میں اٹلی میں پیدا ہونے اور 2 مئی 1519 کو فرانس میں انتقال کر جانے والے اس عظیم شخص نے اپنی پوری زندگی میں درحقیقت صرف 20 کے قریب ہی فن پارے بنائے جن میں سے مونا لیزا کو آفاقی شہرت حاصل ہوئی۔

    لیکن دنیا میں اگر کسی کو ہر فن مولا کہا جاسکتا ہے تو وہ ڈاونچی کی شخصیت ہے، وہ صرف ایک مصور ہی نہیں بلکہ مجسمہ ساز، انجینیئر، سائنس دان، ریاضی دان، ماہر فلکیات، ماہر طب اور موجد بھی تھا۔

    آج ہماری زندگی میں موجود بہت سی اشیا ڈاونچی کی ایجاد کردہ ہیں جس نے 5 صدیاں قبل ان کا ابتدائی خاکہ پیش کیا۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ ڈاونچی کا وژن آج کس طرح ہماری زندگیوں کا اہم حصہ ہے۔

    روبوٹ

    دنیا کا سب سے پہلا روبوٹ ڈاونچی نے بنایا تھا، یہ روبوٹ لکڑی، چمڑے اور پیتل کا بنا تھا جو خود سے بیٹھنے، ہاتھ ہلانے، منہ کھولنے اور بند کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

    چار صدیوں بعد امریکی خلائی ادارے ناسا نے اپنا خلائی روبوٹ اسی طرز پر بنایا تھا۔

    ہوائی جہاز

    ڈاونچی کو اڑنے کا بے حد شوق تھا اور اس نے پہلی بار ہیلی کاپٹر بنانے کی کوشش بھی کی تھی، وہ اسے مکمل تو نہ بنا سکا تاہم اپنے نوٹس میں یہ ضرور بتا گیا کہ اس طرح کی اڑنے والی چیز کس طریقے سے کام کرے گی۔

    یہی نہیں اس نے پیرا شوٹ کا خیال بھی پیش کیا تھا جس کا مقصد اس وقت پائلٹ کی جان بچانا تھا۔

    گاڑی

    26 سال کی عمر میں ڈاونچی نے گاڑی کی ابتدائی شکل پیش کی، یہ ایک ریڑھا تھا جو خود کار طریقے سے چل سکتا تھا۔

    فریج

    اس نے اپنے گھر ہونے والی دعوتوں کے کھانے کو محفوظ کرنے کے لیے ایک ایسی مشین بھی بنا دی تھی جو کھانے کو ٹھنڈا رکھتی تھی، اس مشین میں ایک نلکی کے ذریعے سرد ہوا کو داخل کیا جاتا تھا۔

    اس ابتدائی ایجاد کی بدولت آج بڑے بڑے فریج ہمارے گھروں میں موجود ہیں۔

    دل کی شریانوں کے مرض کی تشخیص

    ڈاونچی نے ایک بار ایک بوڑھے شخص کے انتقال کر جانے کے بعد اس کے دل کا آپریشن کیا، تب اس نے پہلی بار دل کی شریانوں کے مرض کے بارے میں لکھا، اس کی یہ پہلی تشخیص آج لاکھوں افراد کی جانیں بچانے کا سبب ہے۔

    جب ڈاونچی نے بتایا کہ آسمان نیلا کیوں ہے

    سنہ 1509 میں ڈاونچی نے ایک مقالہ لکھا جس میں اس نے وضاحت کی کہ آسمان کا رنگ نیلا کیوں ہے۔ یہ مقالہ اس وقت بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی زیر ملکیت ہے جسے حفاظت سے رکھا گیا ہے۔

    ڈاونچی نے لکھا تھا کہ ہماری فضا کے سفید رنگ اور خلا کے سیاہ رنگ سے جب سورج کی روشنی گزرتی ہے، تو وہ اس کو منعکس کر کے آسمان کو نیلا رنگ دے دیتی ہے۔

    سنہ 1871 میں ایک انگریز سائنس دان لارڈ ریلی نے اس نظریے کی مزید وضاحت کی، انہوں نے لکھا کہ سورج کی روشنی جب ہوا کے مالیکیولز سے ٹکراتی ہے تو مالیکیولز پھیل جاتے ہیں۔

    یعنی کہ سورج کے ٹکرانے سے پیدا ہونے والی روشنی مالیکیولز کے پھیلنے کی وجہ سے چہار سو پھیل جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ دن کے وقت ہر شے بشمول آسمان نہایت روشن دکھائی دیتا ہے۔

    ریلی نے بتایا کہ اس عمل میں نیلا رنگ زیادہ پھیلتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ آسمان کو اپنے رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔

    ریلی کے مطابق اس عمل کے دوران سرخ رنگ بھی منعکس ہوتا ہے جس سے آسمان بھی سرخ رنگ کا ہوجاتا ہے، تاہم نیلا رنگ اس پر حاوی ہوتا ہے اس لیے ہم آسمان کو نیلا دیکھتے ہیں۔

    لیونارڈو ڈاونچی کے ہاتھ کے لکھے نوٹس اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ذہین شخص نے کس قدر ایجادات کے بارے میں سوچا تھا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ممکنہ طور پر اس کے نوٹس میں کسی ایسی شے کا خیال بھی ہوسکتا ہے جو اب تک ایجاد نہ کی جاسکی ہو۔

  • پاکستانیوں کے پسندیدہ، لبنانی شاعر خلیل جبران کے وہ اقوال جو آپ نے کبھی نہیں پڑھے

    پاکستانیوں کے پسندیدہ، لبنانی شاعر خلیل جبران کے وہ اقوال جو آپ نے کبھی نہیں پڑھے

    معروف مفکر، شاعر، اور مصور خلیل جبران کا آج 137 واں یوم پیدائش ہے، خلیل جبران کو پڑھنے والوں کی بڑی تعداد پاکستان میں بھی موجود ہے۔

    لبنان کے شہر بشری میں پیدا ہونے والے خلیل جبران نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں امریکا کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ ان کی نصف ابتدائی تعلیم لبنان، جبکہ نصف امریکا میں مکمل ہوئی۔

    خلیل جبران مفکر شاعر ہونے کے ساتھ ایک مصور بھی تھے۔ انہوں نے اپنی مصوری میں قدرت اور انسان کے فطری رنگوں کو پیش کیا۔

    جبران کی شہرہ آفاق کتاب ’دا پرافٹ (پیغمبر)‘ ہے جس میں انہوں نے شاعرانہ مضامین تحریر کیے۔ یہ کتاب بے حد متنازعہ بھی رہی، بعد ازاں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی۔

    خلیل جبران شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔ وہ ایک مفکر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

    آئیں ان کے کچھ اقوال سے آپ بھی فیض حاصل کریں۔

    ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ غاروں میں رہنے والے اب بھی موجود ہیں۔ ہاں، یہ غار ہمارے دلوں میں بنے ہوئے ہیں۔

    وہ شخص جو موت کی تمنا لے کر بھی اپنے عزیز و اقارب کے لیے جیے جا رہا ہے، زندگی اس کے لیے اذیت سے بھری ہوئی ہے۔

    اگر تمہارا دل آتش فشاں ہے، تو تم اس میں سے پھول کھلنے کی توقع کیسے کرسکتے ہو؟

    میں نے باتونی سے خاموشی سیکھی، شدت پسند سے برداشت کرنا سیکھا، نامہربان سے مہربانی سیکھی، اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ میں ان استادوں کا شکر گزار نہیں ہوں۔

    خود محبت بھی اپنی گہرائی کا احساس نہیں کر پاتی جب تک وہ جدائی کا دکھ نہیں سہتی۔

    بے شک وہ ہاتھ جو کانٹوں کے تاج بناتے ہیں، ان ہاتھوں سے بہتر ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔

    تم جہاں سے چاہو زمین کھود لو، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔

    حیرت ہے کہ مجھ میں موجود اچھائی نقصان کے سوا مجھے کچھ نہیں دیتی، جبکہ مجھ میں موجود برائی نے مجھے کبھی نقصان نہیں دیا۔ تاہم اچھائی سے میری وارفتگی جاری ہے۔

    ہم میں سے زیادہ تر لوگ خاموش بغاوت اور چرب زبان اطاعت کے درمیان مشکوک طور پر معلق ہیں۔

    خدا سے قربت چاہتے ہو تو اس کے بندوں کے قریب ہو جاؤ۔

    بناؤ سنگھار کرنے والا اپنی بدنمائی و بدصورتی کی تائید کرتا ہے۔

    کچھ لوگ اپنے کانوں سے سنتے ہیں، کچھ اپنے پیٹ سے، کچھ اپنی جیب سے اور کچھ ایسے بھی ہیں جو سنتے ہی نہیں۔

    بدنیت اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔

    شاعر تو وہ ہے جس کی غزل پڑھنے کے بعد آپ یہ محسوس کریں کہ اس کے بہترین اشعار تو ابھی کہے نہیں گئے۔

  • بانو قدسیہ کا 91 واں یوم پیدائش

    بانو قدسیہ کا 91 واں یوم پیدائش

    آج اردو کی مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بانو قدسیہ کا 91 واں یوم پیدائش ہے۔ اردو ادب کی شاہکار تصنیف ’راجہ گدھ‘ اور دیگر بے شمار لازوال تصانیف کی خالق بانو قدسیہ 3 سال قبل خالق حقیقی سے جا ملی تھیں۔

    بانو قدسیہ 28 نومبر سنہ 1928 کو فیروز پور(بھارت) میں پیدا ہوئی تھیں۔ انہیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جبکہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا۔

    سنہ 1950 میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اورمشہور افسانہ نگاراورڈرامہ نویس اشفاق احمد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ معروف مصنف ممتاز مفتی اپنی تصنیف ’الکھ نگری‘ میں ان کی شادی کا قصہ نہایت دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں، جس کے مطابق اشفاق احمد کا پٹھان خاندان ایک غیر پٹھان لڑکی سے ان کی شادی پر آمادہ نہیں تھا، اور ان دونوں کا نکاح بانو قدسیہ کے گھر پر نہایت رازداری سے ہوا تھا۔

    شادی کے بعد بانو قدسیہ نے اپنے شوہر کے ہمراہ ادبی پرچہ داستان گو جاری کیا۔

    بانو قدسیہ کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود ، توجہ کی طالب، آتش زیرپا اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ناول بھی تحریر کیے۔ ان کا شہرہ آفاق ناول راجہ گدھ اپنے اسلوب کی وجہ سے اردو کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔

    ان کی دیگر تصانیف میں ایک دن، شہرلا زوال، پروا، موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اور ان کی خود نوشت راہ رواں کے نام سر فہرست ہیں۔

    بانو قدسیہ نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی کئی یادگار ڈرامہ سیریلز اور ڈرامہ سیریز تحریر کیے جن کے متعدد مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کو ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔

    ایک مختلف بانو

    ممتاز مفتی اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں، ’پہلی مرتبہ میں نے بانو کو اس وقت سنا جب قدسی کے بڑے بیٹے نوکی نے کہا، امی ایڈیٹر صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ قدسی ڈرائنگ روم میں چلی گئیں‘۔

    ’پھر ڈرائنگ روم میں کوئی باتیں کر رہی تھی۔ افسانوں کی باتیں، کرداروں کی باتیں، مرکزی خیال، انداز بیان کی خصوصیات کی باتیں، ان باتوں میں فلسفہ، نفسیات اور جمالیات تھی‘۔

    ’میں حیرت سے سن رہا تھا۔ اللہ اندر تو قدسی گئی تھی لیکن یہ باتیں کون کر رہی ہے۔ قدسی نے تو کبھی ایسی باتیں نہیں کیں وہ تو خالی جی ہاں، جی ہاں ہے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، کون ہے کرتی تھی۔ تب مجھے پتہ چلا بانو کون ہے‘۔

    اپنے ناول راجہ گدھ میں بانو قدسیہ نے ایک کردار پروفیسر سہیل کی زبانی حرام اور حلال کے نظریے کو نہایت انوکھے انداز میں بیان کیا ہے۔ ’جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی جینز کو متاثر کرتا ہے۔ رزق حرام سے ایک خاص قسم کی میوٹیشن ہوتی ہے جو خطرناک ادویات، شراب اور ریڈی ایشن سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ رزق حرام سے جو جینز تغیر پذیر ہوتے ہیں وہ لولے، لنگڑے اور اندھے ہی نہیں ہوتے بلکہ نا امید بھی ہوتے ہیں نسل انسانی سے۔ یہ جب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی ذہنی پراگندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ یقین کر لو رزق حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے اور جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں‘۔

    بانو قدسیہ سنہ 2017 میں 4 فروری کو علالت کے بعد لاہور کے نجی اسپتال میں انتقال کر گئیں جس کے بعد اردو ادب کا ایک تابندہ باب بند ہوگیا۔ انہیں ان کے محبوب شوہر اشفاق احمد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • مشہور پنجابی شاعرہ امرتا پریتم کا 100 واں یومِ پیدائش

    مشہور پنجابی شاعرہ امرتا پریتم کا 100 واں یومِ پیدائش

    آج پنجابی زبان کی مشہور و معروف ادیبہ اور شاعرہ امرتا پریتم کا سو واں یوم پیدائش ہے ، پنجابی ادب امرتا پریتم کے ذکر کے بغیر ادھورا تصور کیا جاتا ہے اور ان کے کام پر کئی دہائیوں تک تحقیق ہوتی رہے گی، ان کے یوم ِ پیدائش پر گوگل نے اپنا ڈوڈل بھی ان کے نام کیا ہے۔

    امرتا پریتم سن 13 اگست1919 میں برٹش ہندوستان کے شہر گجرانوالہ میں پیدا ہوئیں جو کہ اب پاکستان کا حصہ ہے۔ سن 1947 میں ہونے والے بٹوارے کے بعد بھارت جاکر دہلی کو اپنا مسکن بنایا۔ انہیں پنجابی زبان کی نمائندہ شاعر اور ادیب کے طور شناخت کیا جاتا ہے اور ان کے کام کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

    امرتا پریتم کے نام گوگل ڈوڈل

    بھارت میں وہ ساہتیہ اکیڈمی پرسکار پانے والی پہلی خاتون تھیں۔ بھارت کا صدارتی ایوارڈ پدم شری حاصل کرنے والی بھی وہ پہلی پنجابی خاتون تھیں۔ اُن کی تحریروں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی اور ڈینش زبانوں میں بھی ہوا ہے اور اگرچہ وہ سوشلسٹ بلاک سے نظریاتی ہم آہنگی نہیں رکھتی تھیں لیکن مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں اُن کے کلام کا ترجمہ کیا گیا۔

    امریکہ میں مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہنامے ’محفل‘ نے امرتا پریتم ‘ پر اپنا ایک خصوصی نمبر بھی شائع کیا تھا۔ دہلی، جبل پور اور وِشو بھارتی یونیورسٹی کی طرف سے انھیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی تین اعزازی ڈِگریاں دی گئیں اور 1982 میں انھیں پنجابی ادب کی عمر بھرکی خدمات کے صلے میں اعلیٰ ترین گیان پیتھ ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    رسیدی ٹکٹ – امرتا پریتم کے نقوشِ قدم پرسفر

    چھ دہائیوں سے بھی زیادہ طویل کیرئر میں امرتا نے 28 ناول تحریر کیے‘ 18 نثری مجموعے شائع ہوئے’ پانچ مختصرکہانیوں کے مجموعے اور 16 متفرق نثری مجموعے قرطاس کی نذرکیے۔

    پنجابی کی معروف شاعر اور ادیب امرتا پریتم 31 اکتوبر 2006میں 86 سال کی عمر میں دہلی میں انتقال کرگئیں تھیں لیکن ان کا چھوڑا ہوا ادبی ورثہ‘ جب تک زبان وادب زندہ ہے انہیں زندہ رکھے گا۔

  • 1965، پاک بھارت جنگ کے ہیرو میجرعزیز بھٹی کا 96 واں جنم دن

    1965، پاک بھارت جنگ کے ہیرو میجرعزیز بھٹی کا 96 واں جنم دن

    سنہ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں دفاعِ وطن کی خاطر اگلے مورچوں پر اپنی قربان کرنے والے میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کی آج96 ویں سالگرہ ہے ۔

    شہید راجہ عزیز بھٹی 6 اگست1923 کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے، وہ اکیس جنوری 1948 میں پاک فوج میں شامل ہوئے تو انہیں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن دیا گیا، انہوں نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیرِاعزازی و نارمن گولڈ میڈل حاصل کیا اور ترقی کرتے ہوئے انیس سو چھپن میں میجر بن گئے۔

    سن 1965 میں بھارت نے پاکستان کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی تو قوم کا یہ مجاہد سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوا، سترہ پنجاب رجمنٹ کے 28 افسروں سمیت عزیز بھٹی شہید نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔

    6 ستمبر 1965ء کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔

    ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔

    9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورت حال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ لڑ بھڑ کر راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا تو انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔

    انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ دشمن اپنے چھوٹے ہتھیاروں‘ ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھا مگر راجا عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دباؤ کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔

    میجر عزیز بھٹی کا لوح ِ مزار

    میجرراجہ عزیز بھٹی بارہ ستمبر کو صبح کے ساڑھے نو بجے دشمن کی نقل وحرکت کا دوربین سے مشاہدہ کررہے تھے کہ ٹینک کا ایک فولاد ی گولہ ان کے سینے کو چیرتا ہوا پار ہوگیا ، انہوں نے برکی کے محاذ پر جام شہادت نوش کیا۔

    میجرراجہ عزیز بھٹی کی جرات و بہادری پر انہیں نشان حیدر سے نوازا گیا، راجا عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔

    راجہ عزیز بھٹی شہید اس عظیم خاندان کے چشم و چراغ تھے کہ جس سے دو اور مشعلیں روشن ہوئیں، ایک نشان حیدر اور نشان جرات پانے والے واحد فوجی محترم میجر شبیرشریف جب کہ دوسرے جنرل راحیل شریف جو سابق آرمی چیف رہ چکے ہیں اور اب 41 ملکوں کے اسلامی اتحاد کی قیادت کررہے ہیں۔

  • مادرملت فاطمہ جناح کی 126 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    مادرملت فاطمہ جناح کی 126 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی 126 ویں سالگرہ  آج ملک بھر میں انتہائی عقیدت واحترام اور قومی جذبے کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

    برصغیر کی تاریخ  میں جناح پونجا وہ خوش نصیب باپ ہیں کہ جہاں  اُن کے بیٹے محمد علی جناح برصغیر کے عظیم مسیحا کے طور پر سامنے آئے وہیں اُن کی بیٹی فاطمہ جناح عملی طور اپنے بھائی کے مشن پر اُن کے ساتھ شامل رہیں۔

    فاطمہ جناح 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں وہ قائد اعظم محمد علی جناح سے 17 سال چھوٹی تھیں لیکن قائد کی دیکھ بھال اور اُن کے سیاسی مشن کو پورا کرنے کے لیے قدم قدم پر قائد کے ساتھ ہمراہ رہیں۔

    یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح، قائداعظم محمد علی جناح کی بہن ہی نہیں بلکہ ان کی فکری وراثت کی بھی امین تھیں، محترمہ کی زندگی کا بیش ترحصہ اپنے عظیم بھائی کی رفاقت میں بسر ہوا،وہ تحریک پاکستان میں مشغول اپنے بھائی کی دیکھ بھال کے لیے ہر وقت اُن کے ساتھ رہتیں۔

    وہ صرف اپنے بڑے بھائی کی ضروریات کا خیال ہی نہیں رکھتی تھیں بلکہ اُن کے سیاسی مشن کی تکمیل میں معاون ومددگار بھی ثابت ہوئیں،محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے مسلم لیگ کے خواتین ونگ کو منظم کیا اور مسلم لیگ کا پیغام خواتین کے ذریعے گھر گھر پہنچایا۔

    قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی کے آخری انیس برس تو ایسے تھے جب محترمہ فاطمہ جناح ، لمحہ بہ لمحہ اپنے بھائی کے ساتھ رہتی تھیں،یہ وہ وقت تھا جب تحریک پاکستان اپنے منطقی انجام کی جانب رواں دواں تھی۔

    قائد اعظم کے ساتھ طویل رفاقت کے باعث محترمہ کے مزاج اور برتاؤ میں قائد اعظم سے کافی مماثلت پائی جاتی تھی، وہی جذبہ خدمت عوام، وہی جرات و بے باکی اور وہی یقین محکم جو بھائی کی خصوصیات تھیں، قدرت نے بہن کو بھی ودیعت کردی تھیں۔

    مادر ملت نے برصغیر کا شہر بہ شہر دورہ کرکے مسلمان عورتوں میں ایک نئی زندگی پیدا کردی اور یہ محترمہ کی مساعی کا ہی نتیجہ تھا کہ حصول پاکستان کی جدوجہد میں مسلمان عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ قابل تعریف خدمات انجام دیں۔

    محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے دوش بدوش 1936ء میں ہی خدمت قوم و وطن کا بیڑا اٹھا لیا تھا تاہم قائد اعظم کی اہلیہ سے علیحدگی کے بعد سے محترمہ فاطمہ ہر آن قائد کے ہمراہ رہتیں اور ان کی صحت کا خیال رکھتیں، اندرون ملک دوروں کے دوران بھی وہ قائد کے ہمراہ ہوتیں۔

    تقسیم ہند کے بعد ایک نئی مملکت کا قیام جس میں وسائل نہایت قلیل جبکہ مسائل پہاڑ کی مانند تھے اور پھر قائد اعظم کی تیزی سے بگڑتی صحت نے قوم وملت کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا اس دوران محترمہ فاطمہ جناح ہی تھیں جنہوں نے نہ صرف قائد کی تیمارداری اور دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی بلکہ قوم و ملت کے حوصلوں کو بھی بلند رکھا۔

    قیام پاکستان کے محض ایک سال بعد ہی قائد اعظم کی وفات نے قوم کے حوصلے پست کر دیے تھے اور دشمنوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ علیحدہ اسلامی ریاست کا خواب ایک سال بعد بھی چکنا چور ہوتا نظر آرہا ہے ایسے موقع پر ایک بار پھر محترمہ نے قوم کے جذبوں کو اپنی تقاریر سے جِلا بخشی۔ قوم کو دوبارہ سے قائد کے پیغام پر یکجا کیا اور اُن میں نئی روح پھونکی۔

    اس حوالے سے محترمہ فاطمہ جناح نے مسلسل جدوجہد کی اور وہ مختلف مواقع پر قوم سے مخاطب بھی ہوتی رہیں۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف قومی دنوں اور تہواروں کے مواقع پر ریڈیو پاکستان سے بھی عوام سے خطاب کیا۔ اس سلسلے کا آغاز قائداعظم کی زندگی میں ہی ہوچکا تھا۔

    ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ اور محترمہ کی تقاریر کے ایک نایاب مجموعے گلبانگ حیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی پہلی تقریر 5 نومبر 1947ء کو نشر ہوئی تھی۔ قائداعظم کی زندگی ہی میں محترمہ فاطمہ جناح کی دوسری تقریر 28 مارچ 1948ء کو ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے نشر ہوئی تاہم محترمہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کی رحلت کے بعد ریڈیو پاکستان سے جو پہلی تقریر نشر کی اس کی تاریخ نشریہ27 ستمبر 1948ءتھی۔

    ریڈیو پاکستان سے محترمہ فاطمہ جناح کی تقاریر کا یہ سلسلہ جاری رہا اور یوم آزادی، یوم وفات قائداعظم اور عیدالفطر کے مواقع پر محترمہ فاطمہ جناح اپنی نشری تقریروں کے ذریعے قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی رہیں، ان تمام تقاریر اور بیانات کے مسودے محترمہ کی تقاریر کے پہلے مجموعے گلبانگ حیات میں محفوظ ہیں۔

    صرف اتنا ہی نہیں جب خاتون پاکستان کو لگا کہ پاکستان میں جمہوری عمل کو خطرہ لا حق ہے تو وہ دوبارہ میدان عمل میں نکلیں اور انہوں نے ملک بھر میں جلسے کرکے ڈکٹیٹرز کو للکارا، پوری قوم ایک بار پھر محترمہ کی آواز پر لبیک کرتے ہوئے جوق در جوق اُن کے قافلے میں شامل ہونے لگے۔

    سازشی عناصر نے محترمہ کو الیکشن میں تو کامیاب نہ ہونے دیا لیکن عوام کے دل سے محترمہ کو محبت کو نکال سکے، یہی وجہ ہے کہ 9 جولائی 1967ء کو جیسے ہی محترمہ کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی تیزی سے پھیلی عوام دھاڑے مارتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے، ہر آنکھ اشک بار تھی اور ہر دل غمزدہ۔

    عوام کی والہانہ عقیدت کے مدنظر حکومت نے محترمہ کی وصیت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور محترمہ کی تدفین اُن کے بھائی قائد اعظم کے پہلو میں کی، عوامی سطح پر خاتون پاکستان کہلانے والی محترمہ فاطمہ جناح کو سرکاری سطح پر مادر ملت کے لقب سے نوازا گیا۔

    یوں قائد اعظم محمد علی جناح کی نظریاتی ساتھی و رفیقہ زندگی میں بھی قائد کی ہمراہ رہیں اور مرنے کے بعد بھی اپنے بھائی کے پہلو میں دفن ہوئیں جہاں ان کی قبر مبارک سیاسی جدو جہد کرنے والے کارکنوں اور تحریک پاکستان کے مقاصد کی روشنی میں ملک کو تعمیر کرنے والوں کے لیے مرجع خلائق ہے۔

  • شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی 92 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی 92 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن مرحوم کی 92ویں سالگرہ آج 18جولائی کو منائی جا رہی ہے، دنیائے غزل کے شہنشاہ مہدی حسن اٹھارہ جولائی سن انیس سو ستائیس میں پیدا ہوئے، انہوں نے نے انتھک محنت اور لگن سے فن غزل میں دنیا بھر میں اعلیٰٰ مقام بنایا۔

    مہدی حسن بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لونا میں پیدا ہوئے تھے ۔ اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔

    انہوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور اپنے چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کی، جو کلاسیکل موسیقار تھے۔ 1947ء میں مہدی حسن اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔

    سال انیس سو پچاس کی دہائی اُن کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب اُن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔ اس وقت سے لے کراپنی وفات تک انہوں نے پچیس ہزار سے زیادہ فلمی ،غیر فلمی گیت اور غزلیں پاکستان میں فنِ گائیکی کی نذر کی ہیں۔60 اور70کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن چکے تھے۔
    اس کے علاوہ کئی ملی نغمے بھی گائے جو لوگوں مداحوں میں بے حد مقبول ہوئے، سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔

    سنجیدہ حلقوں میں اُن کی حیثیت ایک غزل گائیک کے طور پر مستحکم رہی۔ اسی حیثیت میں انھوں نے برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔ ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اُستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔

    بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ استاد مہدی حسن تیرہ جون سال 2012کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے تھے ۔

  • شہنشاہِ جذبات محمد علی کا88 واں یوم پیدائش

    شہنشاہِ جذبات محمد علی کا88 واں یوم پیدائش

    لاہور: شہنشاہ جذبات کے لقب سے مشہور پاکستان کے لیجنڈ اداکارمحمد علی کی 88 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے، انہوں نے 275 فلموں میں کام کیا اور آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

    برسوں فلمی دنیا پرراج کرنے والے پاکستان کے معروف اداکارمحمد علی 19 اپریل 1931 کو ہندوستان کے شہررام پورمیں پیدا ہوئے اورتقسیم برصغیرکے بعد پاکستان آکرانہوں نے 1956 میں ریڈیوپاکستان حیدرآباد سے اپنے فنی کیریئرکا آغازکیا۔ بعد ازاں وہ ریڈیو پاکستان کراچی منتقل ہوگئے۔

    محمد علی کی بھرپورآوازنے انہیں ایک بہترین براڈ کاسٹرکی حیثیت سے منوایا اور انہیں فلمی دنیا تک پہنچانے میں بھی ان کی آواز نے اہم کردار ادا کیا۔محمد علی نے 1962 میں فِلم ‘چراغ جلتا رہا’ سے بطورولن فلمی کریئرکا آغاز کیا اور ابتدائی چند فلموں میں منفی کردار نبھائے، بطور ہیرو ان کی پہلی ’مسٹرایکس‘ تھی لیکن فلم ’شرارت‘ ’مسٹر ایکس‘ سے پہلے ریلیز ہوگئی۔

    محمد علی کی شہرت کا آغاز 1964 میں ریلیزہونے والی فلم ’خاموش رہو‘ سے ہوا، اسی فلم پر انہوں نے بطور معاون اداکار نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اداکار محمد علی نے اپنے پورے کیریئر میں 10 نگار ایوارڈز حاصل کیے۔فلم ’صاعقہ‘، ’آس‘،’ آئینہ اور صورت‘، ’انسان اور آدمی‘ اداکار محمد علی کی ایسی فلمیں ہیں جن میں ان کی اداکاری عروج پر رہی۔

    اداکار محمد علی ایشیاء کے 25 بہترین اداکاروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ انھوں نے 275 کے قریب فلموں میں کام کیا جن میں اردو، پنجابی، پشتو، بنگالی اور ہندی فلمیں شامل ہیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے مایہ ناز اداکار محمد علی کا انتقال 19 مارچ 2006 کو ہوا تاہم وہ آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں بستے ہیں۔

    اداکار محمد علی کو فلم انڈسٹری کے لیے بہترین خدمات انجام دینے پر پرائیڈ آف پرفارمنس اور تمغہ امتیاز سے بھی نوازا جاچکا ہے۔