کراچی پولیس نے گزشتہ روز ایک نجی اسپتال کے واش روم میں بچے کو جنم دے کر فرار ہونے والی ملزمہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج مل گئی جسے جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز کراچی کے نجی اسپتال کے واش روم میں خاتون بچے کو جنم دے کر فرار ہوگئی تھی،اسپتال عملے نے بروقت اقدام کرکے بچے کو ریسکیو کیا تاہم نومولود جانبر نہ ہوسکا۔
اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ کھارادر تھانے کی حدود میں واقع ایک نجی اسپتال میں پیش آیا،پولیس نے سرکار کی مدعیت میں فرار ہونے والی لڑکی کیخلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔
پولیس نے مذکورہ اسپتال کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کرلیں جس میں دو خواتین کو واش جاتے اور وہاں سے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جس سے چہرے کی شناخت بھی ممکن ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز لیاری کے علاقے آگرہ تاج کالونی سے نومولود بچے اور بچی کی لاشیں ملی تھیں ریسکیو حکام کے مطابق لاشیں نیوی فلیٹ دیوار کے قریب ملیں جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا۔
کسی بھی خاتون کے لیے بچے کی پیدائش قابل دید خوشی کی بات ہوتی ہے لیکن کچھ مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو زچگی کے بعد پریشانی، مایوسی، غصہ اور انجانے خوف کا شکار ہوجاتی ہیں۔
اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر نیلم ناز نے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی وجوہات اور اس کے علاج سے متعلق اہم باتیں بیان کیں۔
انہوں نے بتایا کہ بچے کی پیدائش کے بعد ستر سے اسی فیصد خواتین کے مزاج میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، انہیں بے بی بلیوز کہتے ہیں مگر ایسا چند دنوں کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے بعد طبعیت خود ہی ایک ہفتے کے اندر نارمل ہو جاتی ہے۔
لیکن اگر یہ علامات ہفتوں یا مہینوں تک چلی جائیں تو یہ ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ کہلاتا ہے اور یہ علامات ایک سال تک ظاہر ہو سکتی ہیں تاہم اس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔
ان علامات میں شدید اضطراب اور اداسی، نیند کی کمی، بلاوجہ غصہ اور چڑ چڑاپن، بھوک نہ لگنا، بچے کے ساتھ جذباتی لگاؤ محسوس نہ ہونا، خود کو یا بچے کو نقصان پہنچانے کے خیالات اور بہت زیادہ رونا وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر نیلم ناز نے بتایا کہ میرے دو بچے ہیں اور میں نے یہ چیز دونوں بار نوٹ کی، اکثر ماؤں کے ساتھ یہ کیفیت چھ ماہ سے دوسال تک رہ سکتی ہے،
انہوں نے کہا کہ حمل کے دوران جسم میں ہارمونز جیسے کہ ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے اور زچگی کے بعد اس میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے موڈ میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو ان علامات کا باعث بنتی ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زچگی کے بعد بہت سی خواتین کا وزن بڑھ جاتا ہے، اس کے علاوہ ماحول میں تبدیلی، ننھے بچے کی ذمہ داری اور جب یہ ساری چیزیں ذہن ایک ساتھ قبول نہیں کرپاتا تو پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے خواتین کو خود ہمت کرنی ہوتی ہے بصورت دیگر اسکے علاج کیلیے ادویات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں 13 فیصد خواتین بچے کی پیدائش کے بعد اس ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح اس سے بڑھ کر 20 فیصد ہو جاتی ہے۔
یونیورسٹی آف ٹورنٹو کینیڈا کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی ماؤں میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی شرح 28 فیصد سے زیادہ ہے۔