Tag: BJP

  • بی جے پی مقبوضہ کشمیر میں انتخابی شکست سے خوف زدہ، بھارتی تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

    بی جے پی مقبوضہ کشمیر میں انتخابی شکست سے خوف زدہ، بھارتی تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

    مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، نہ ہی یہ امر کہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) خطے میں خصوصاً کشمیر پر اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔

    تاہم بی جے پی مقبوضہ کشمیر میں انتخابی شکست سے خوف زدہ ہے، کیوں کہ مقبوضہ کشمیر کی سیاست میں بی جے پی کبھی قابل ذکر جماعت نہیں رہی، خصوصاً تب جب مودی سرکار نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔

    مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بی جے پی کے جھوٹے مؤقف کی وجہ سے وادی کشمیر میں بی جے پی کی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے، آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مودی سرکار کا مکروہ چہرہ ساری دنیا پر عیاں ہو چکا ہے۔

    بھارتی تجزیہ کار رویش کمار کے مطابق ’’جو بی جے پی آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر چکی ہے وہ کشمیر میں الیکشن پر منہ چھپائے بیٹھی ہے۔‘‘ انھوں نے لکھا کہ 2019 میں بی جے پی جھوٹ کا سہارا لے کر انتخابات جیتی تھی اور آج بھی یہی کر رہی ہے۔

    بھارتی تجزیہ کار کے مطابق بی جے پی بارہ مولہ، سری نگر اور اننت ناگ راجوڑی میں اپنی اتحادی جماعت پیپلز کانفرنس اور جموں و کشمیر اپنی پارٹی کو سپورٹ کر رہی ہے، بی جے پی نے کشمیر میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا کیوں کہ مودی سرکار کشمیر سے بھاگ رہی ہے، رویش کمار نے لکھا کہ جو جماعتیں بی جے پی کے ساتھ اتحادی ہیں وہ بی جے پی کو عوامی طور پر قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

    نیشنل کانفرنس کے چیف ترجمان تنویر صادق نے بھارتی جریدے کو بتایا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے پچھلے 6 سالوں میں لوگ شدید غم و غصے کا شکار ہیں۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے بھی بی جے پی پر کڑی تنقید کی، انھوں نے کہا بی جے پی نے جموں و کشمیر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے اور یہاں کے لوگوں کو بے اختیار کیا ہے، مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں اپنی پراکسیز کے ذریعے کچھ چہرے بچانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔

    بھارتی تجزیہ کار کے مطابق انتخابی شکست کے خوف سے مودی سرکار مظلوم کشمیریوں کا سامنا کرنے بھاگ رہی ہے، بھارتی میڈیا کہ مطابق بی جے پی کے کشمیر میں کوئی امیدوار نہ کھڑا کرنے پر پارٹی کے اندر پھوٹ پڑ چکی ہے، پارٹی لیڈران پارٹی ہائی کمان کے کشمیر میں الیکشن نہ لڑنے والے فیصلے پر حیران اور بدگمان ہیں۔

    واضح رہے کہ بھارت کی جبر اور دھوکا دہی کی پالیسیاں کشمیر میں طویل عرصے سے ناکام ہی رہی ہیں، مودی سرکارکی جبری پالیسیوں نے کشمیریوں میں موجود مزاحمت کے جذبے کو مزید مضبوط کیا ہے اور وہ آخری دم تک اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

  • علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بی جے پی کی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بی جے پی کی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بی جے پی کی شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے، صدیوں پرانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گزشتہ 5 سالوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی فرقہ وارانہ سیاست کا شکار چلی آ رہی ہے، کئی مسلم اکثریتی جامعات مودی کے دور حکومت میں تشدد اور حملوں کی زد میں آئی ہیں، بھارت میں مسلمانوں کی جامعات بھی مودی کے زہریلے پروپیگنڈے کے زیر اثر ہیں۔

    مودی کا گزشتہ 10 سالہ اقتدار فرقہ وارایت اور نفرت کی سیاست پر مشتمل ہے، جس نے جامعات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، گزشتہ ہفتے مودی کی مسلم مخالف فرقہ وارانہ تقریر پر تنقید کے باوجود، مودی نے پیر کو علی گڑھ کے ایم پی ستیش گوتم کے لیے مہم چلاتے ہوئے اپنے مسلم مخالف بیانیے کو دہرایا۔

    پی ایچ ڈی اسکالر کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں علی گڑھ یونیورسٹی میں تنازعات کو سیاسی رنگ دیا گیا ہے جب کہ بی جے پی کا سیاسی بیانیہ روزگار کی بجائے انتہا پسندی پر مرکوز ہے، تعلیم کا جتنا استحصال بی جے پی نے کیا ہے، کسی اور پارٹی نے نہیں کیا۔

    طلبہ کے مطابق محدود آسامیوں کے لیے درخواستیں بڑھ رہی ہیں لیکن نوکریاں نہیں ہیں، پرائمری ٹیچر کی آسامیاں گزشتہ پانچ سالوں میں نہیں آئیں، پڑھے لگے نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا جب کہ جو آسامیاں آتی بھی ہیں ان پر بی جے پی اپنے بندوں کو لگا دیتی، ایک جانب نوجوانوں کو روزگار نہیں دیا جاتا، دوسری جانب بی جے پی کی جانب سے فرقہ وارانہ سوچ کو پذیرائی دی جاتی ہے۔

    اتر پردیش میں سرکاری آسامیوں کے لیے پیپر لیک ہونے کے واقعات کے بعد سیٹیں اپنے من پسند لوگوں کو دے دی جاتی ہیں لیکن حکومت اس کا نوٹس نہیں لے رہی، 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل بی جے پی کی جانب سے طلبہ یونین کے دفتر کی دیواروں پر قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر لٹکانے پر شدید اعتراض کیا گیا، نومبر 2018 میں بی جے پی کے کارندوں نے الزام عائد کیا کہ علی گڑھ یونیورسٹی طالبان نظریہ پر چلائی جاتی ہے۔

    مسلم طالب علم کی نماز جنازہ ادا کرنے پربھی بی جے پی کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا، بی جے پی کے دیگر رہنماوٴں نے بھی طلبہ کی جانب سے فلسطین کی حمایت میں مارچ کے اہتمام پر یونیورسٹی کو دہشت گردوں کا مرکز قرار دیا، 2019 میں شہریت بل کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ پر پولیس کے کریک ڈاوٴن کے بعد لاٹھی چارج اور تشدد کا نشانہ بنایا، شہریت بل کے احتجاج پر طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور یونیورسٹی میں تقریر کرنے پر جیل بھیج دیا گیا۔

    بی جے پی کے کارندوں کی جانب سے مودی حکومت کی دوسری میعاد کے لیے حلف اٹھانے پر یونیورسٹی طلبہ کی جانب سے محض احتجاج پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ کی طرف سے کوئی بھی احتجاج ہو تو اسے سیاسی بنا دیا جاتا ہے اور پھر طلبہ کو دہشت گرد کہا جاتا ہے جب کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے طلبہ احتجاج کرتے ہیں تو ایسی تنقید نہیں ہوتی۔

    طلبہ نے مزید بتایا کہ یہ ہمارے اقلیتی ہونے کا سوال ہے اور پورے ملک میں ایک بیانیہ بنایا جا رہا ہے، آر ایس ایس اور بی جے پی کے کارندوں کے دباوٴ کی وجہ سے 2018 کے بعد سے طلبہ تنظیم کے انتخابات روک دیے گئے ہیں، مودی کے کارندوں کی جانب سے تعلیمی اداروں پر حملوں کے علاوہ مرکزی یونیورسٹیوں کے فنڈز میں کٹوتی میں بھی تیزی آئی ہے جو طلبہ کو کم قیمتوں پر اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی ہیں۔

    مودی حکومت کی جانب سے 2014 کے بعد سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامی یونیورسٹی کا بجٹ 15 فی صد بھی کم کر دیا گیا جب کہ بنارس ہندو یونیورسٹی کا بجٹ 669.51 کروڑ روپے سے بڑھ کر 1,303.01 کروڑ روپے کر دیا گیا، مودی کے دور میں تعلیمی اداروں پر حملہ اٹل بہاری واجپائی اور آر ایس ایس کی سوچ کا تسلسل ہے۔

    بی جے پی کی جانب سے درسی کتابوں کے ذریعے اسکول میں منفی ذہنوں سازی کی گئی، اگر جامعہ یا اے ایم یو کا کوئی طالب علم یونین پبلک سروس کمیشن کے لیے کوالیفائی کرتا ہے تو وہ اسے جہادی کہتے ہیں، حالیہ انتخابی مہم میں مودی سرکار مسلمانوں پر نئے سرے سے حملہ آور ہو کر مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی ہے، بھارت میں مودی سرکار کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو ہدف بنا نا ہندوتوا سوچ کی عکاسی ہے۔

  • بی جے پی نے ووٹوں کی خاطر ’اللہ اکبر‘ کی صدائیں بلند کر دیں

    بی جے پی نے ووٹوں کی خاطر ’اللہ اکبر‘ کی صدائیں بلند کر دیں

    بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے جارحانہ مذہبی قوم پرست، مسلمان مخالف عزائم سے کون واقف نہیں، مگر ووٹوں کی بھوک نے بی جے پی کو اللہ اکبر کی صدائیں لگانے پر مجبور کردیا۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاع کے مطابق مغربی بنگال کے علاقے کوچ بہار سے الیکشن میں حصہ لینے والے بی جے پی کے امیدوار نسیت پرمانک نے تمام تر توجہ اس وقت سمیٹ لی جب انہوں نے انتخابی ریلی کے دوران ووٹ مانگنے کے لیے ’اللہ اکبر‘ کی صدائیں بلند کروادیں۔

    نسیت پرمانک کی حمایت میں مغربی بنگال کے علاقے دنہاٹا میں گزشتہ روز بی جے پی کی اقلیتی مورچہ ریلی کا انعقاد کیا گیا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بی جے پی کوچ بہار کے صدر اور ایم ایل اے سوکمار رائے نے کہا کہ ابھی صرف دو اسمبلی حلقوں سیتائی اور دنہاٹا کے مسلمانوں کے ساتھ ریلی نکالی گئی تھی، مگر جلد ہی ضلع کوچ بہار کے تمام مسلمانوں کے ساتھ ریلیوں کا انعقاد کیا جائے گا۔

    اُنہوں نے کہا کہ اس ضلع سے مسلم پنچایت کے حمایت یافتہ ہماری جماعت میں شامل ہیں، اس لیے اس ضلع سے اس طرح کی ریلی نکالنا کوئی انوکھی بات نہیں۔

    لومبرگ کی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارتیوں میں مسلمانوں کے خلاف رجحان میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

    بھارتی جیل میں مسلم رہنما مختار انصاری کی پراسرار موت

    یاد رہے کہ مسلمانوں کواپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر و جرائم کے بھارتی تاریخ میں سب سے زیادہ واقعات رونما ہوئے ہیں۔

  • وائرل ویڈیو: مودی کی پارٹی میں کیوں شامل ہوئے، ناراض کارکن نے رہنما کے منہ پر سیاہی پھینک دی

    وائرل ویڈیو: مودی کی پارٹی میں کیوں شامل ہوئے، ناراض کارکن نے رہنما کے منہ پر سیاہی پھینک دی

    لکھنؤ: بھارتی ریاست اترپردیش میں سماج وادی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے والے سیاسی رہنما کے منہ پر ناراض کارکن نے سیاہی پھینک دی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی ریاست اترپردیش میں مقامی رہنما دارا سنگھ چوہان ضلع ماؤ کے ایک قصبے میں انتخابی مہم کے لیے پہنچے تھے، جہاں ان پر کسی ناراض کارکن نے سیاہی پھینک دی۔

    دارا سنگھ کو اس رد عمل کا سامنا سماج وادی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت پر کرنا پڑا، واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، جس میں ان کے منہ پر سیاہی پھینکتے دیکھا جا سکتا ہے۔

    بی جے پی نے دارا سنگھ چوہان کو ماؤ ضلع میں 5 ستمبر کے گھوسی ضمنی انتخابات کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا، اتوار کو انتخابی مہم کے دوران یہ نا خوش گوار واقعہ رونما ہوا۔

    دارا سنگھ نے 2022 میں سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا لیکن انھوں نے اسمبلی کی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا اور اب اسی سیٹ سے بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دارا سنگھ کو سماج وادی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی سے الیکشن لڑنے پر عوامی غصے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    سیاہی پھینکنے کے بعد وہ انتخابی مہم ادھوری چھوڑ کر وہاں سے روانہ ہو گئے جب کہ سیاہی پھینکے والا شخص بھی وہاں سے فرار ہو گیا، پولیس نے جس کی تلاش شروع کر دی ہے۔

  • ویڈیو: بی جے پی رہنما کو ڈنڈا ڈولی کر کے اسمبلی سے باہر پھینک دیا گیا

    ویڈیو: بی جے پی رہنما کو ڈنڈا ڈولی کر کے اسمبلی سے باہر پھینک دیا گیا

    بہار: بھارتی ریاست بِہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کو ڈنڈا ڈولی کر کے اسمبلی سے باہر پھنک دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بی جے پی کے ایم ایل اے جیوش کمار کو مسلمانوں پر الزام لگانا مہنگا پڑ گیا، پولیس اہلکار انھیں بازؤں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اسمبلی سے باہر چھوڑ آئے۔

    اپوزیشن رہنما جیوش مشرا نے نالندہ اور روہتاس میں تشدد کے حالیہ واقعات پر بہار اسمبلی میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی، اسمبلی سیشن کے دوران جیوش مشرا نے مسلمانوں پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے ہندوؤں پر تشدد کیا۔

    جیوش مشرا کو جب اسمبلی سے باہر لے جایا جا رہا تھا تو اس دوران وہ کہتے رہے کہ یہ لوگ اپوزیشن کے رہنماؤں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں۔

    بہار قانون ساز اسمبلی کی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر وجے کمار سنہا نے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار پر مدرسے میں شرپسندوں کو پناہ دینے کا بھی الزام لگایا۔

  • بھارت: بی جے پی نے گوشت کی دکانیں بند کرا دیں

    بھارت: بی جے پی نے گوشت کی دکانیں بند کرا دیں

    دہلی: بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک کونسلر نے گوشت کی دکانیں بند کرا دیں، جس کی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت میں دہلی کے علاقے ویسٹ ونود نگر وارڈ کے کونسلر رویندر سنگھ نیگی کو نوراتری کے دوران اپنے وارڈ میں گوشت کی دکانیں بند کراتے ہوئے دیکھا گیا۔

    نوراتری تہوار کے دوران کئی ریاستوں میں گوشت کی دکانیں بھی 9 دن کے لیے بند کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے کافی سیاست ہوتی ہے۔

    اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہو رہی ہے، جس میں کونسلر دکان داروں سے گوشت کی دکانیں بند کرنے کو کہہ رہے ہیں۔

    اس دوران دکان داروں نے کہا کہ ہماری دکان پہلے ہی بند ہے اور دکان کے کام سے شٹر کھول رکھا ہے۔

    یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بی جے پی کے کسی لیڈر نے دہلی میں گوشت کی دکانیں بند کرائی ہوں، گزشتہ سال جنوبی دہلی کے سابق میئر مکیش سوریا نے بھی گوشت کی دکانیں 9 دن تک بند رکھنے کا حکم جاری کیا تھا، جس پر کافی ہنگامہ ہوا۔

    ویڈیو: انتہا پسند ہندوؤں نے مسجد کے اندر امام کو تشدد کا نشانہ بنا دیا

    واضح رہے کہ اس مرتبہ کارپوریشن کی جانب سے گوشت کی دکانوں کو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی گئی ہے۔ بی جے پی رہنما کی اس ویڈیو پر متعدد افراد اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں، تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

  • ویڈیو: خواتین نے بی جے پی رہنما کے کپڑے پھاڑ دیے

    ویڈیو: خواتین نے بی جے پی رہنما کے کپڑے پھاڑ دیے

    غازی آباد: بھارتی ریاست اترپردیش میں خواتین سمیت عوام نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک اقلیتی رہنما رضوان خان میر کی پٹائی کر دی، اور ان کے کپڑے پھاڑ دیے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق مغربی اترپردیش کے علاقے غازی آباد میں بی جے پی اقلیتی مورچہ کے سابق صدر رضوان خان میر کی پٹائی کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بہت سارے افراد نے پولیس کی گاڑی کی موجودگی میں رضوان میر کو پکڑ رکھا ہے اور انھیں مار ر ہے ہیں، لوگوں کی پٹائی سے بی جے پی رہنما لہو لہان دکھائی دیتے ہیں۔

    خواتین نے بھی رضوان میر کو پیٹا، لوگوں نے ان کے کپڑے پھاڑ دیے اور پٹائی کر کے ان کا سر پھاڑ دیا، پٹنے کے بعد رضوان کو پولیس اہل کار بچا کر لے گئے۔

    یہ واقعہ شالیمار گارڈن تھانہ علاقے میں بھارت ماتا چوک کے قریب پیش آیا، معلوم ہوا کہ بی جے پی لیڈر اور دوسری پارٹی کے درمیان ایک دکان پر قبضہ اور کرایہ کو لے کر اتوار کو جھگڑا ہوا تھا۔

    رضوان میر نے کچھ عرصہ قبل بھارت ماتا چوک پر ایک دکان کرائے پر لی تھی، دکان کے مالک عبدالصابر سے کرایہ پر جھگڑا ہوا، اس کے بعد عبدالصابر کے لوگوں نے ان کی پٹائی کر دی، پٹائی کرنے والوں میں زیادہ تر خواتین تھیں۔

    بی جے پی لیڈر کی شکایت پر پولیس نے مقدمہ درج کر کے 4 لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

  • گائے نے بی جے پی رہنما کو لات مار دی، ویڈیو وائرل

    گائے نے بی جے پی رہنما کو لات مار دی، ویڈیو وائرل

    بھارتی ریاست آندھرا پردیشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما کو گائے نے لات مار دی، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔

    سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں بی جے پی کے ایک رکن پارلیمان کو دو بار گائے کی لات پڑتے دیکھا جا سکتا ہے، یہ ویڈیو ریاست آندھرا پردیش کے ضلع گنٹور کی ہے۔

    راجیہ سبھا کے رکن ایل نرسمہا راؤ مرچی مارکیٹ میں ایکسپورٹرز کی نئی بلڈنگ کے افتتاح کے لیے پہنچے، تو انھوں نے ایک گائے کی پوجا کی غرض سے قریب جا کر اس پر ہاتھ پھیرنا اور اس کے سامنے جھکنا چاہا۔

    تاہم، جیسے ہی بی جے پی رکن پارلیمنٹ گائے کے پس آئے، گائے نے ایک لات مار دی انھیں، جو ان کی ران پر لگی۔

    ان کے ساتھ کھڑے افراد نے انھیں فوراً سنبھالنا چاہ لیکن نرسمہا راؤ نے کہا کہ وہ ٹھیک ہیں، کوئی بات نہیں، یہ کہہ کر وہ دوبارہ گائے کے قریب آنے لگے تو ایک بار پھر گائے نے ان کی طرف لات اچھال دی، حالاں کہ اس بار گائے کی دیکھ بھال کرنے والے نے گائے کی گردن کی رسی بھی پکڑ لی تھی۔

    ویڈیو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے گائے کو صرف بی جے پی رکن ہی پسند نہ آئے ہوں۔ گائے پر سیاست کرنے والی پارٹی کے سینئر لیڈر کے ساتھ گائے کے اس سلوک پر سوشل میڈیا میں تبصرے کیے جا رہے ہیں۔

  • نئی دہلی میں جلسہ: سرکار کی ناک کے نیچے لوگوں کو مسلمانوں کے قتل عام پر اکسایا جاتا رہا

    نئی دہلی میں جلسہ: سرکار کی ناک کے نیچے لوگوں کو مسلمانوں کے قتل عام پر اکسایا جاتا رہا

    نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں منعقد ایک جلسے میں مودی سرکار کی ناک کے نیچے کھلے عام لوگوں کو مسلمانوں کے قتل عام پر اکسایا گیا اور ان کا اقتصادی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی گئی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی میں وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندو گروپوں کے زیر اہتمام منعقدہ ایک جلسہ عام میں مسلم مخالف اور نفرت آمیز تقریریں کی گئیں، جلسے میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان پرویش سنگھ ورما نے مسلمانوں کا مکمل سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی اور وہاں موجود لوگوں سے اس کا حلف بھی لیا۔

    اس موقع پر کئی اراکین اسمبلی، وی ایچ پی کے رہنما اور پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔

    اتوار کے روز ہونے والا یہ جلسہ ایک 25 سالہ ہندو نوجوان کے قتل کے خلاف منعقد کیا گیا تھا، موبائل فون چوری کے واقعے میں منیش نامی مذکورہ نوجوان کو مبینہ طور پر 3 مسلمان نوجوانوں نے چاقو مار کر اسے ہلاک کر دیا تھا۔

    تینوں ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے، پولیس کے مطابق قتل کا یہ واقعہ پرانی دشمنی کا معاملہ ہے اور اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    جلسے میں پرویش سنگھ ورما نے ہندوؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، اگر انہیں (مسلمانوں کو) سبق سکھانا ہے اور ایک ہی بار میں مسئلہ کو حل کرنا ہے تو اس کا ایک ہی علاج ہے، ان کا مکمل بائیکاٹ۔

    انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے حلف لیا جس میں کہا گیا کہ ہم ان سے کوئی سامان نہیں خریدیں گے، ہم ان کی دکانوں سے سبزیاں نہیں خریدیں گے۔

    تقریر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ورما پر سخت تنقید کی جارہی ہے حالانکہ ایک حلقہ ان کی حمایت بھی کر رہا ہے۔

    ورما نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا، میں نے کسی مذہبی فرقے کا نام نہیں لیا، میں نے تو صرف یہی کہا کہ جن لوگوں نے قتل کیا ہے ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ایسے خاندانوں کا اگر کوئی ہوٹل ہے، یا ان کی تجارت ہے تو اس کا بائیکاٹ کیا جائے۔

    متعدد سماجی، سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بی جے پی رہنما کے بیان کی سخت مذمت کی ہے، متعدد افراد نے ورما کی تقریر کی ویڈیو وزیر اعظم مودی اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو ٹیگ بھی کی ہے۔

    بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات کے یقیناً بین الاقوامی مضمرات ہو سکتے ہیں، انہوں نے وزیر اعظم مودی سے سوال کیا کہ کیا مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ آپ کی حکومت یا آپ کی پارٹی کی سرکاری پالیسی ہے اور کیا آپ نفرت بھڑکانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے؟

    رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف جنگ شروع کر دی ہے، اگر حکمران جماعت کا رکن پارلیمان قومی دارالحکومت میں اس طرح کی بات کر سکتا ہے تو پھر ملکی آئین کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے۔

    مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل

    مذکورہ جلسے میں موجود کئی ہندو مذہبی رہنماؤں نے مسلمانوں پر حملے کرنے اور ان کے ہاتھ اور سر قلم کر دینے کی بھی اپیل کی۔

    جگت گرو یوگیشور اچاریہ کا کہنا تھا کہ اگر ضرورت پڑے تو ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو، ان کے سر کاٹ دو۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا، آپ کو جیل جانا پڑے گا، لیکن اب ان لوگوں کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے۔ ان لوگوں کو چن چن کر مارو۔

    ایک دیگر ہندو مذہبی رہنما مہنت نول کشور داس نے ہندوؤں سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس لائسنس یا بغیر لائسنس والی بندوقیں ہیں؟ اگر نہیں تو بندوقیں حاصل کرو، لائسنس حاصل کرو۔ اگر لائسنس نہ ملے تب بھی کوئی بات نہیں۔ کیا جو لوگ آپ کو مارنے آتے ہیں ان کے پاس لائسنس ہوتے ہیں؟

    مہنت نول کشور کا کہنا تھا کہ اگر ہم مل کر رہیں گے تو پولیس بھی کچھ نہیں کرے گی، بلکہ دہلی پولیس کمشنر ہمیں چائے پلائیں گے اور ہم جو کرنا چاہتے ہیں کرنے دیں گے۔

    یاد رہے کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سمیت مختلف شہروں میں اس طرح کی نفرت آمیز تقریریں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، جس کے باعث بھارت کی بین الاقوامی طور پر بدنامی ہوئی ہے۔

    رواں برس امریکا نے مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت کو خصوصی تشویش والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

  • گستاخانہ بیان دینے والا بی جے پی رکن اسمبلی پھر گرفتار

    گستاخانہ بیان دینے والا بی جے پی رکن اسمبلی پھر گرفتار

    نئی دہلی: گستاخانہ بیان دینے والا شاتم رسولﷺ بی جے پی رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ کو پھر گرفتار کر لیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی کے رکنِ اسمبلی ٹی راجا سنگھ کو پولیس نے پھر گرفتار کر لیا، راجا سنگھ منگل کو گرفتار ہونے کے کچھ دیر بعد ہی ضمانت پر رہا ہو گیا تھا۔

    توہین رسالت کے مرتکب، گستاخانہ بیان دینے پر ٹی راجا سنگھ کے خلاف تلنگانہ اور حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں مسلمانوں کا احتجاج جاری ہے۔

    مسلمانوں کے احتجاج پر راجا سنگھ کے کچھ روز قبل کو منگل کے روز پولیس نے گرفتار کر لیا تھا لیکن تھوڑی دیر بعد ہی مقامی عدالت نے ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کر دیا تھا۔

    ٹی راجا سنگھ کے خلاف حیدر آباد کے دبیر پورہ پولیس تھانے میں تعزیرات ہند کی دفعہ 295 اے اور 153 اے سمیت کئی دفعات میں کیس درج کیا گیا ہے۔

    بی جے پی رکن ٹی راجا سنگھ کی گستاخانہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، بی جے پی نے بھی راجا سنگھ کی رکنیت معطل کردی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق گستاخانہ بیان کے بعد سے حیدرآباد میں کشیدگی برقرار ہے اور شہر میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے بھی راجا سنگھ کے بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ تین ماہ میں دوسری مرتبہ ایک سینیئر بی جے پی رہنما نے پیغمبر اسلام سے متعلق توہین آمیز بیان دیا ہے، جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

    دفتر خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان رہنماؤں کے خلاف کارروائی کی جائے جو بار بار اسلام پر حملہ کرتے ہیں اور پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز بیان دیتے ہیں۔