Tag: black hole

  • اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟ ناسا نے ناقابل یقین ویڈیو بنا لی

    اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟ ناسا نے ناقابل یقین ویڈیو بنا لی

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایک ایسی ناقابل یقین ویڈیو بنائی ہے، جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص بلیک ہول میں گرے گا تو کیا ہوگا؟

    انسان جب اپنی زندگی اور کائنات کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے تو ایک خیال اسے ضرور پریشان کرتا ہے کہ اگر بدقسمتی وہ کسی بلیک ہول میں گرنے والا ہو تو اس وقت کیا ہوگا۔ ناسا نے آخرکار اپنے سپر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے ایک شان دار نقل (سیمولیشن) تیار کر کے اس سوال کا جواب دے دیا ہے۔

    ایونٹ ہورائزن کیا ہے؟

    بلیک ہول کی سطح کو ایونٹ ہورائزن (event horizon) کہا جاتا ہے، اس میں وہ تمام مادے شامل ہوتے ہیں جن سے بلیک ہول بنتا ہے اور اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اس میں سے روشنی بھی گزر نہیں پاتی۔ اس ایونٹ ہورائزن میں اگر کوئی ٹھوس چیز گرے گی تو کیا ہوگا، یہ دکھانے کے لیے ناسا نے ایک نئے اور عمیق تمثال (visualization) پر مبنی ایک ویڈیو بنائی ہے، ناظرین جس میں دیکھ سکتے ہیں کہ گرتے وقت ناقابل واپسی نقطے (پوائنٹ آف نو ریٹرن) پر کیا دکھائی دیتا ہے۔

    امریکی ریاست میری لینڈ میں ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے سائنس دانوں نے یہ سیمولیشن اپنے ایک انتہائی طاقت ور سپر کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی ہے۔

    اس پروجیکٹ نے تقریباً 10 ٹیرا بائٹس ڈیٹا تیار کیا اور اسے کمپیوٹر کے 1 لاکھ 29 ہزار پروسیسرز کے صرف 0.3 فی صد حصے پر چلنے میں تقریباً 5 دن لگے، ایک عام لیپ ٹاپ پر اسے چلنے میں دس سال سے زیادہ وقت لگے گا۔

    یہ تمثیل (visualization) کیا ہے؟

    ناسا نے جو یہ تمثیل تخلیق کی ہے، اس میں ایک عظم الجثّہ (supermassive) بلیک ہول کی جانب ایک پرواز دکھائی گئی ہے، اس سفر کے دوران راستے میں ایسی دل چسپ شبیہیں پیدا ہوتی ہیں جو (آئن اسٹائن کے) عمومی نظریہ اضافیت (general relativity) کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔

    اس میں آپ کو ایک کیمرہ نظر آئے گا جو چلتے چلتے ایک مختصر چکر لگاتا ہے، اور پھر ہماری کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول (سورج سے تقریباً 43 لاکھ گنا بڑا) جتنے بڑے عفریت نما بلیک ہول کے ایونٹ ہورائزن (ناقابل واپسی نقطہ) کو پار کر لیتا ہے۔

    اس نقل (simulation) میں جو صورت حال دکھائی گئی ہے، اس کا تصور کرنا بھی انسان کے لیے مشکل ہے، لیکن دستیاب علم اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ناسا نے اسے کافی حد تک ممکن بنایا، چناں چہ ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے ماہر فلکیات جیریمی شنٹمین کے مطابق انھیں اس سیمولیشن کے ذریعے اس حوالے سے مدد ملی ہے کہ نظریۂ اضافیت کی ریاضی کو حقیقی کائنات کے حقیقی نتائج سے کیسے جوڑا جائے۔

    انھوں نے بتایا ’’میں نے دو مختلف خاکوں کی نقلیں تیار کیں، ایک خاکے میں کیمرا (کسی بہادر خلاباز کی طرح) ایونٹ ہورائزن یعنی بلیک ہول کی سطح سے بال بال بچ کر کششِ ثقل کے دھکے سے واپس آ جاتا ہے، اور دوسرے میں یہ کیمرا اپنے مقدر پر مہر لگاتے ہوئے باؤنڈری کو عبور کر لیتا ہے۔‘‘

    ناسا کے مطابق سیمولیشن میں دکھائے گئے بلیک ہول کی سطح یعنی ایونٹ ہورائزن کی پیمائش تقریبا ڈھائی کروڑ کلومیٹر (1.6 کروڑ میل) ہے، اس کے گرد گیس کی ایک گرم اور چمک دار ڈسک (اضافی تہہ) بنی ہوئی ہے، ان چمک دار ساختوں کو فوٹون رِنگ کہا جاتا ہے، یہ اُس روشنی سے بنتے ہیں جو بلیک ہول کے گرد ایک بار زیادہ بار چکر لگاتی ہے۔

    جیسے جیسے کیمرہ بلیک ہول کے قریب پہنچتا ہے، ویسے ویسے کیمرے کی رفتار روشنی کی رفتار جتنی ہوتی جاتی ہے، سیمولیشن میں دکھائی جانے والی اس مووی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب کیمرہ بلیک ہول سے 640 ملین کلو میٹر دور ہے، قریب آتے آتے بلیک ہول کے گرد موجود چمک دار ڈسک، نارنجی اور پیلے رنگ کے فوٹون رِنگز، اور رات کے آسمان کی شکل تیزی سے بگڑتی ہے، اور حتیٰ کہ ان کی روشنی جب تیزی سے ٹیڑھے میڑے ہوتے زمان و مکان (space-time) میں داخل ہوتی ہے تو گوناں گوں عکس تشکیل پاتے ہیں۔

    زمان و مکان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

    یہ سیمولیشن تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمرے کو بلیک ہول کی سطح میں گرنے کے لیے 3 گھنٹے لگے، راستے بھر اس نے 30 منٹ کے تقریباً دو مکمل محوری چکر لگائے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دور سے اگر کوئی اسے دیکھے تو وہ یہی سمجھے گا کہ کیمرہ کبھی وہاں پہنچ ہی نہیں سکا۔ کیوں کہ بلیک ہول کی سطح سے قریب ہوتے ہوتے زمان و مکان زیادہ فولڈ (یا ٹیڑھا میڑا) ہو جاتا ہے، اس لیے کیمرے کا عکس سست ہو جائے گا اور پھر بالکل ہی منجمد ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین فلکیات بلیک ہولز کو ’منجمد ستارے‘ کہا کرتے ہیں۔

    بلیک ہول کی سطح پر خود زمان و مکان بھی روشنی کی رفتار (یعنی کائناتی رفتار کی حد) سے اندر کی طرف بہنے لگتا ہے، جیسے ہی وہ اس کے اندر داخل ہوتے ہیں، کیمرا اور زمان و مکان دونوں بلیک ہول کے مرکز کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں۔ یہ مرکز ’ون ڈائمنشنل پوائنٹ‘ (یک جہتی نقطہ) ہے جسے سنگولیریٹی (singularity) کہا جاتا ہے، اور اس میں فزکس کے قوانین (ہمارے علم کے مطابق) کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    اسپگیٹیفیکیشن کیا ہے؟

    ڈاکٹر شنٹمین کے مطابق ایک بار جب کیمرہ بلیک ہول کی سطح کو عبور کر لیتا ہے تو اسے تباہ ہونے میں محض 12.8 سیکنڈ کا وقت لگتا ہے، اور یہ عمل spaghettification کہلاتا ہے۔ ایک ایسا عمل جس میں جسم سوئیوں کی طرح لمبا ہوتے ہوتے پتلا ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر یہ مرکز سے 79 ہزار 500 میل دور ہوتا ہے، اور اس سفر کا یہ آخری لمحہ محض پلک جھپکتے پورا ہو جاتا ہے۔

    سوئیوں جیسا یہ عمل اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ کسی بھی جسم کا وہ سرا جو بلیک کے قریب ہوتا ہے، اس کا کشش ثقل اُس دوسرے سرے سے جو بلیک ہول دور ہوتا ہے، میں بہت فرق ہوتا ہے، چناں چہ دونوں طرف کا کشش ثقل اس جسم کو اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور یوں وہ سوئیوں کی طرح لمبا ہوتا چلا جاتا ہے۔


  • سورج سے کئی گنا زیادہ روشن ’بلیک ہول‘ دریافت

    سورج سے کئی گنا زیادہ روشن ’بلیک ہول‘ دریافت

    ماہرین فلکیات کائنات میں ایک ملین کے قریب تیزی سے بڑھتے ہوئے سپر میسیو بلیک ہولز کو تلاش کرچکے ہیں جو کہکشاؤں کے مراکز میں پائے جاتے ہیں۔

    سائنسی جریدے نیچر آسٹرونومی میں شائع ہونے والے ایک نئے مضمون میں اب تک دریافت ہونے والی گیس اور دھول کی سب سے بڑی اور روشن ترین ڈسک سے گھرے ہوئے بلیک ہول کے وجود کو بیان کیا گیا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق امریکی سائنسدانوں نے سورج سے 500 ٹریلین گنا زیادہ روشن ’کواسر‘ دریافت کرلیا ہے، خیال کیا جارہا ہے کہ یہ کائنات میں سب سے زیادہ روشن اور سب سے زیادہ طاقتور جگہ ہوسکتی ہے۔

    غیر معمولی طاقت کے حامل اس بلیک ہول کو ’جے0529-4351‘ کا نام دیا گیا ہے، یہ بلیک ہول بنیادی طور پر ’کواسر‘ یعنی کہکشاں کا مرکزی حصہ ہے، فلکیات کی اصطلاح میں اسے اے جی این یعنی ’ایکٹیو گیلیکٹک نیوکلیس‘ کہا جاتا ہے۔

    یہ غیر معمولی طور پر بڑی مقدار میں توانائی خارج کرتا ہے، ان میں وسیع پیمانے پربلیک ہولز ہوتے ہیں، جو سورج سے لاکھوں یا اربوں گنا زیادہ بڑے ہوتے ہیں اور مادے کی بڑی مقدار کو نگل رہے ہیں۔

    دی گارڈین کے مطابق آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ابتدائی طور پر آسٹریلیا کی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے قریب واقع قصبے میں کواسر کی اطلاع دی تھی، جس کی تصدیق بعد میں یورپی سدرن آبزرویٹری نے کی تھی۔

    نیچر آسٹرونومی نامی جریدے کے مصنف کرسچن وولف نے یورپی سدرن آبزرویٹری کو بتایا کہ ہم نے اب تک کا سب سے روشن بلیک ہول دریافت کیا ہے جو سورج کی کمیت سے 17 سے 19 ارب گنا کے درمیان ہے جو روزانہ ایک دن میں سورج کے برابر مادہ نگل رہا ہے کیونکہ یہ گیس کی بڑی مقدار کو کھینچتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان بلیک ہولز سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ اس روشنی کو ہم تک پہنچنے میں 12 بلین سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کا پھیلاؤ بہت پہلے رک چکا ہوگا۔

  • بلیک ہول سے نکلنے والی شے نے سائنس دانوں کو حیران کر دیا

    بلیک ہول سے نکلنے والی شے نے سائنس دانوں کو حیران کر دیا

    سائنس دانوں نے کہا ہے کہ بلیک ہول ایک ایسا مادہ خار ج کررہا ہے جسے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

    بلیک ہول کی عجیب واقعات کا سلسلہ 2018 میں اس وقت شروع ہوا جب سائنس دانوں نے دیکھا کہ زمین سے تقریباً ساڑھے 66 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر موجود ایک چھوٹے ستارے کو بلیک ہول نے ریزہ ریزہ کر دیا۔

    سائنس دانوں کے لیے یہ معمول کی بات ہے کہ بلیک ہولز اپنے اردگرد فلکی اجسام کو تباہ کر دیتے ہیں، لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں کہ تین سال کے بعد بلیک ہول نے ایک مادہ خارج کرنا شروع کر دیا۔

    بلیک ہول پر ایک نئی تحقیق کرنے والی مصنفہ ایویٹ سینڈیز نے کہا کہ ’بلیک ہولز سے نکلنے والے اس مادہ نے ہمیں مکمل طور پر حیران کر دیا ہے، اس سے قبل کسی نے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی تھی۔‘

    سائنس دانوں نے اس پر اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلیک ہول سے باہر آنے والا یہ مادہ تاخیر کا شکار تھا، ہمیں ابھی نہیں معلوم کہ اس مادے کو باہر آنے میں تاخیر کیوں ہوئی لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ اس پر مزید تحقیق سے ہمیں اسے بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملےگی۔

    محققین نے 2021 میں پہلی بار نیو میکسیکو میں قائم وی ایل اے کا استعمال کرتے ہوئے بلیک ہول کے اس مادے کا مشاہدہ کیا تھا۔ بلیک ہول کی اس غیر معمولی ریڈنگ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ دوبارہ حرکت میں آگیا ہے۔

    اس مادے کے خارج ہونے کے بعد بین الاقوامی ماہرین فلکیات کی ایک ٹیم یہ جاننے کے لیے میکسیکو پہنچی کہ حقیقت میں بلیک ہول میں کیا ہو رہا ہے، اور اس غیر متوقع حرکت کے پیچھے اصل ماجرا کیا ہے۔

    ماہرین فلکیات کی ٹیم نے اس سے متعلق تحقیق کی تو انہیں معلوم ہوا کہ یہ ریڈیو سگنیچر ڈرامائی حد تک عجیب تھے۔ بلیک ہول تین سال تک خاموش رہا جس کے بعد اب اس سے ریڈیو انرجی خارج ہونا شروع ہو گئی اور انرجی بھی ایسی جو انتہائی طاقت ور تھی۔

    سائنس دانوں کے مطابق بلیک ہول سے نکلنے والا مادہ بہت زیادہ تیزی سے نکل رہا ہے۔ اس کی رفتار روشنی کی رفتار کے نصف فیصد کے برابر ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں اس طرح کے زیادہ تر واقعات میں یہ رفتار روشنی کی رفتار کا 10 فیصد ہوتی ہے۔

    سائنس دان اب اس بلیک ہول اور اس کے رویے کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں اور ساتھ ہی یہ جاننے کی بھی کوشش کررہے ہیں کہ ۔کیا  بلیک ہول اس طرح کا مادہ ماضی میں بھی خارج کرتا رہا ہے جسے وہ کبھی دیکھ نہیں پائے ہیں

  • کیا بلیک ہول کے اس پار دوسری دنیا ہے؟

    کیا بلیک ہول کے اس پار دوسری دنیا ہے؟

    ہماری کائنات میں واقع بلیک ہول اپنے اندر بے پناہ اسرار رکھتے ہیں کیونکہ ان کے اندر کیا ہے، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا، یہ بھی ممکن ہے ان کے دوسری طرف ایک اور کائنات ہو۔

    بلیک ہولز بیرونی خلا میں دریافت ہونے والی سب سے دلچسپ چیزوں میں سے ایک ہیں، یہ روشنی سمیت ہر چیز کو اپنے اندر کھینچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نظروں سے پوشیدہ ہیں۔

    ناسا کے مطابق بلیک ہول کی مضبوط کشش ثقل مادے کو ایک انتہائی چھوٹی سی جگہ میں دبانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور یہ کمپریشن ستارے کی زندگی کے اختتام پر وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ اگرچہ بلیک ہولز بذات خود آنکھوں سے نہیں دیکھے جا سکتے، لیکن خصوصی دوربینیں ایسے مواد اور ستاروں کے رویے کا مشاہدہ کر سکتی ہیں جو بلیک ہولز کے بہت قریب ہیں۔

    کچھ بلیک ہولز ایک ایٹم جتنے چھوٹے ہو سکتے ہیں لیکن ان کی کمیت ایک پہاڑ جتنی ہوسکتی ہے، جبکہ دوسرے ہمارے نظام شمسی کے سائز کے ہو سکتے ہیں لیکن ان کی کمیت 1 ملین سورج سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

    سیگیٹیریئس اے ہماری کہکشاں میں موجود ملکی وے کے مرکز میں واقع بلیک ہول ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں تقریباً 4 ملین سورجوں کی کمیت ہے۔

    ناسا کے سائنس دانوں کو نہیں لگتا کہ زمین کو کسی بھی وقت جلد ہی بلیک ہول میں کھینچ لیا جائے گا۔

    لیکن فرضی طور پر، اگر زمین کو بلیک ہول میں کھینچ لیا جائے تو کیا ہوگا؟ کیا ہم کشش ثقل کے ذریعے ختم ہو جائیں گے، یا یہ ہمیں کسی متوازی کائنات میں لے جائے گا؟

    بلیک ہول میں کیا ہوتا ہے اس کے بارے میں اصل میں زیادہ کچھ معلوم نہیں ہے سوائے اس کے کہ تمام مادہ ایک لامحدود چھوٹے نقطے پر سکڑ جاتا ہے اور جگہ اور وقت کے تمام تصورات ٹوٹ جاتے ہیں۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ بلیک ہول دراصل سوراخ نہیں ہوتے، وہ درحقیقت اشیا ہیں، لیکن چونکہ کوئی روشنی ان سے بچ نہیں سکتی، وہ ہمیں ایک سوراخ کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔

    تاہم، چونکہ روشنی اس پر پڑ نہیں سکتی اس لیے بلیک ہولز میں درحقیقت بہت کچھ ہو سکتا ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔

    سنہ 2018 میں اپنی موت سے پہلے، نظریاتی طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ نے اس خیال سے اختلاف کیا کہ ہر وہ چیز جو بلیک ہول میں چلی جاتی ہے وہ ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جاتی ہے۔

    سنہ 2015 کی اپنی ایک تقریر میں ہاکنگ نے کہا کہ بلیک ہولز وہ ابدی جیلیں نہیں ہیں جن کے بارے میں کبھی سوچا جاتا تھا، اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ بلیک ہول میں پھنسے ہوئے ہیں، تو ہمت نہ ہاریں۔ باہر نکلنے کا راستہ ہے۔

    وہ یہ تجویز کرتے رہے کہ بلیک ہولز درحقیقت کسی اور دنیا کے لیے گیٹ وے ہو سکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ بلیک ہول کو کافی بڑا ہونا چاہیئے اور اگر یہ گھوم رہا ہے تو اس کا راستہ کسی اور کائنات تک جا سکتا ہے۔ لیکن آپ ہماری کائنات میں واپس نہیں آسکتے۔

  • ویڈیو: بلیک ہول کی دل دہلا دینے والی آواز

    ویڈیو: بلیک ہول کی دل دہلا دینے والی آواز

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے بلیک ہول کی آڈیو جاری کر دی، یہ بلیک ہول زمین سے 20 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع کہکہشاں میں ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی خلائی ادارے ناسا کے سائنس دانوں نے زمین سے 20 کروڑ نوری سال سے زائد کے فاصلے پر موجود پرسیس کہکشاں کے جتھے کے مرکز پر موجود بلیک ہول کی آڈیو جاری کر دی۔

    آواز کی یہ لہریں ناسا کی اسپیس ٹیلی اسکوپ چندرا ایکس رے آبزرویٹری نے فلکیاتی ڈیٹا کی شکل میں ریکارڈ کیں اور پھر اس کو آواز میں ڈھال دیا تاکہ انسان اس آواز کو سن سکیں۔

    عام سطح پر یہ بات مشہور ہے کہ خلا میں کوئی آواز نہیں ہوتی کیوں کہ آواز کی لہروں کے سفر کرنے لیے کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔

    جاری ہونے والی نئی آڈیو مشہور موسیقات ہینس زِمر کے اسکور سے ملتی جلتی ہے۔

    خلائی ایجنسی کے ماہرینِ فلکیات کو اس بات کا احساس ہوا کہ پرسیس، 1 کروڑ 10 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاؤں کا جتھہ، کے اطراف میں موجود گرم گیسز بھی آواز میں ڈھالی جاسکتی ہیں۔

    سینکڑوں بلکہ ہزاروں کہکشاؤں کے گرد موجود یہ گیس آواز کی لہروں کو سفر کرنے کے لیے ذریعہ فراہم کرتا ہے۔

    یہ سونی فکیشن آواز کی لہروں کی انسان کے سننے کی حد پر اس کی حقیقی پچ سے 57 یا 58 آکڑیو اوپر رکھ کر ری سنتھیسائز کی گئی۔

    ہالی وڈ کمپوزر ہینس زِمر، جنہوں نے آسکر ایوارڈ یافتہ سائنس فکشن فلم انٹراسٹیلر کے لیے ساؤنڈ ٹریکس لکھے، نے ناسا کی جانب سے جاری کی جانے والی اس آواز کے غیر معمولی حد تک مشابہت رکھنے والا میوزک بنایا ہے۔

  • زمین سے قریب بلیک ہول سسٹم، بلیک ہول ہے بھی یا نہیں؟

    زمین سے قریب بلیک ہول سسٹم، بلیک ہول ہے بھی یا نہیں؟

    سنہ 2020 میں دریافت ہونے والے بلیک ہول کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ کوئی بلیک ہول نہیں ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق زمین کے سب سے قریب ترین بلیک ہول سسٹم میں، جس کا فاصلہ زمین سے 1 ہزار نوری سال ہے، میں دراصل کوئی بلیک ہول نہیں ہے۔

    سنہ 2020 میں جب یہ دریافت ہوا تھا تو HR 6819 سسٹم کی غیر معمولی دریافت کے متعلق دو خیالات پیش کیے گئے تھے، ایک کے مطابق یہ سسٹم بلیک ہول کے ساتھ تھا اور دوسرے کے مطابق یہ سسٹم بلیک ہول کے بغیر تھا۔

    1 ہزار نوری سال کے فاصلے پر موجود بلیک ہول کے خیال کو پیش کیا گیا تو اس نے شہ سرخیوں میں خوب جگہ بنائی، جبکہ دوسرے خیال کو اتنی پذیرائی نہیں ملی۔

    تاہم، بیلجیئم کے محقیقن نے ایک نئی تحقیق میں سسٹم کی نئی پیمائشیں لیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ کس خیال کے سچ ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

    انہوں نے یورپی سدرن آبزرویٹری ویری لارج ٹیلی اسکوپ اور وی ایل ٹی انٹرفیرومیٹر کا رخ اس اسٹار سسٹم کی جانب کیا۔ کیوں کہ اس آلے میں ایسی صلاحیت تھی کہ ایسا ڈیٹا فراہم کر سکے جو دونوں خیالات کے مابین فرق بتا دے۔

    تمام شواہد نے ایک ویمپائر اسٹار سسٹم کی جانب اشارہ کیا، جس میں 2 ستارے ایک بہت قریبی مدار میں دیکھے گئے ہیں اور ایک ستارہ دوسرے سے مٹیریل کھینچ رہا ہے۔

    سسٹم میں کسی فاصلے پر گردش ستارے کے شواہد نہیں تھے جو بلیک ہول تھیوری کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

  • زمین سے 4 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع بلیک ہول دریافت

    زمین سے 4 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع بلیک ہول دریافت

    خلائی ماہرین نے حال ہی میں ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت کیا ہے جو زمین سے 4 کروڑ 70 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق زمین سے 4 کروڑ 70 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر ایک کہکشاں کے مرکز میں ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت کیا گیا ہے جو خلائی غبار کے بادل کے اندر چھپا ہوا تھا۔

    غبار کے بادل کی تفصیلی تصاویر چلی میں نصب یورپین سدرن مشاہدہ گاہ کی ٹیلی اسکوپ سے لی گئیں۔

    ماہرین نے مشاہدہ گاہ کا رخ کہکشاں میسر 77 کی جانب کیا جو زمین سے 4 کروڑ 70 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے، اس کہکشاں کے مرکز میں ماہرین کو ایک خلائی غبار کا موٹا چھلا ملا جس نے ایک بہت بڑے بلیک ہول کو چھپایا ہوا تھا۔

    غبار کے بادل میں اس جگہ پر موجود یہ بلیک ہول دہائیوں سے ایک راز ہے، لیکن ماہرین کی ٹیم نے ٹیلی اسکوپ سے ملنے والی تفصیلی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے اس بادل میں مختلف مقامات پر درجہ حرارت کی پیمائش کی اور نقشہ بنایا۔

    ایکٹو گلیکٹک نیولائی کے نام سے جانے جانا والا بلیک ہول تیز روشنی کا سبب بنتا ہے جو کہکشاں میں موجود ستاروں کی روشنی کو ماند کردیتا ہے۔ یہ کائنات کی سب سے روشن اور سب سے زیادہ پر اسرار اشیا ہیں جو کہکشاؤں کے بیچوں بیچ موجود ہیں۔

  • سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ وزنی بلیک ہول دریافت

    سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ وزنی بلیک ہول دریافت

    ملکی وے یعنی ہماری کہکشاں کے برابر موجود کہکشاں میں ایک نایاب بلیک ہول دریافت ہوا ہے جس کا وزن ہمارے سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے۔

    ماہرین فلکیات نے ملکی وے کہکشاں کی پڑوس میں موجود بڑی کہکشاں میں ایک نایاب بلیک ہول دریافت کیا ہے، اس بلیک ہول کا وزن متوسط درجے کا ہے اور یہ تیسری قسم کا نایاب بلیک ہول ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔

    یہ بلیک ہول اینڈرومیڈا کہکشاں میں B023-G078 نامی ستاروں کے جھرمٹ میں پایا گیا۔

    میسیئر 31 یا ایم 31 کے نام سے بھی جانی جانے والی اینڈرومیڈا کہکشاں ہماری ملکی وے کہکشاں کے سب سے قریب اسپائرل کہکشاں ہے۔

    نئے دریافت ہونے والے بلیک ہول کا وزن ہمارے سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے، یہ کہکشاؤں کے درمیان میں پائے جانے والے بلیک ہولز (سپر میسِو بلیک ہولز) سے چھوٹا لیکن ستاروں کے پھٹنے پر بننے والے بلیک ہولز (اسٹیلر بلیک ہولز) سے بڑا ہے۔

    اس حوالے سے ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ انٹرمیڈیٹ یعنی متوسط بلیک ہولز وہ سبب ہوتے ہیں جن سے سپر میسو بلیک ہولز بڑھتے ہیں۔

    آسٹروفزیکل جرنل میں شائع ہونے والی یہ نئی تحقیق ہوائی میں قائم جمنائی نارتھ ٹیلی اسکوپ میں نیئر انفرا ریڈ انٹیگرل فیلڈ اسپیکٹروگراف کے فراہم کردہ ڈیٹا پر مبنی تھی۔

    ماہرینِ فلکیات نے بلیک ہول کے وزن کی پیمائش اس کے گرد گھومنے والی گیس اور گرد کی حرکت سے کی۔

  • بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟

    بلیک ہول کے پراسرار راز کو کیسے سمجھا جاسکا؟

    بلیک ہول کائنات میں بکھرے ہوئے وہ عجیب و غریب ستارے ہیں جن سے کوئی بھی چیز باہر نہیں نکل سکتی، یہاں تک کے روشنی بھی نہیں، اس لیے ان کو براہ راست دیکھ پانا ناممکن ہے، اس دقت کے باوجود ماہرین کو یقین ہے کہ کائنات میں بہت سارے بلیک ہول موجود ہیں، اسی وجہ سے سن 2020 کے فزکس نوبل انعام سے ان کی دریافت اور ان سے متعلق اہم تحقیقات پر تین سائنس دانوں: راجر پنروز (انگلستان)، رائنہارڈ گنزل (جرمنی) اور اندرے گیز (امریکا) کو نوازا گیا۔

    بلیک ہول کا خیال 18 ویں صدی میں سائنسی حلقوں میں آیا۔ نیوٹن کے دیے ہوئے مقولوں کو استمال کرکے ایک انگریز پادری سائنسدان جان مائیکل اور عظیم فرانسیسی ریاضی داں سائمن لاپلاس نے بلیک ہول کے وژن اور اس کے سائز کا فارمولا حاصل کرلیا۔

    غور کریں کہ اگر کسی راکٹ کی رفتار 40 ہزار کلو میٹر فی گھنٹے سے کم ہو تو وہ زمینی کشش سے باہر نہیں نکل پائے گا۔ وہ زمین کی طرف واپس آجائے گا۔ یہ رفتار اسکیپ رفتار کہلاتی ہے اور یہ زمین کے وزن اور اس کے سائز پر منحصر کرتی ہے۔ اگر پوری زمیں سکڑتے ہوئے ایک شیشے کی چھوٹی گولی کے برابر ہو جائے تو اسکیپ رفتار بڑھتے بڑھتے یعنی روشنی کی رفتار (ایک لاکھ اسی ہزار میل فی سیکنڈ) کے برابر ہو جائے گی اور تب زمین سے روشنی بھی باہر نہیں نکل پائے گی۔ یعنی ہماری زمین ایک بلیک ہول میں تبدیل ہو جانے گی۔ اس خصوصیت کی وجہ سے کائنات میں بکھرے ہوئے بلیک ہولز کو ڈھونڈ پانا ایک مشکل کام ہے۔

    سنہ 1915 میں آئن سٹائن نے زمینی کشش کو سمجھنے کے لیے انوکھا طریقہ کار پیش کیا جس کے مطابق مادہ اپنے چاروں طرف کائنات میں گھماؤ پیدا کر دیتا ہے اور جتنا زیادہ مادہ ہوگا اتنا ہی زیادہ گھماؤ ہوگا۔ دوسری اور تمام چیزیں جو اس بڑے مادے کے نزدیک آئیں گیں وہ اسی گھماؤ دار راستے پر چلیں گیں۔

    جرمن سائنسدان کارل شوارزچائلڈ نے آئن سٹائن کے مقالوں کو استعمال کر کے یہ ثابت کیا کہ بلیک ہول کے وزن اور اس کے سائز میں تقریباً وہی رشتہ ہے جو بہت پہلے مائیکل اور لاپلاس حاصل کر چکے ہیں۔ بلیک ہول کے چاروں طرف وہ حد جہاں جا کر کوئی بھی چیز واپس نہیں آسکتی، وہ شوارزچائلڈ حد کہلاتی ہے۔

    چندرشیکھر کی اہم تحقیقات اور پھر امریکی ایٹم بم سے منسلک مشہور سائنسداں اوپن ہائمر نے یہ محسوس کیا کہ اگر مردہ ستاروں میں بہت زیادہ مادہ ہو تو وہ کشش کی وجہ سے حد درجہ سکڑنے پر بلیک ہول بن سکتے ہیں۔ اس سمجھ کے ساتھ یہ مشکل مسئلہ تھا کے ستارے کے حد درجہ سکڑ نے کی وجہ سے اس کے پاس کائنات میں گھماؤ لامحدود ہو جائے گا اور پھر فزکس کے تمام اصول وہاں پر ناقص ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے بلیک ہول میں سائنسدانوں کی دلچسپی صرف ریاضیات کی حد تک رہ گئی ہے۔ خود آئن سٹائن کو بلیک ہول کی حقیقت پر یقین نہیں تھا۔

    سنہ 1960 کے آس پاس فلکیاتی سائنسدانوں نے ایک بہت ہی حیرت انگیز ستارہ دریافت کیا۔ اس کو کواسار کہتے ہیں۔ اس دریافت نے تمام فلکیاتی سائنسدانوں میں بلیک ہول سے دلچسپی کو پھر سے زندہ کر دیا۔ کواسار وہ ستارے ہیں جن سے بے انتہا روشنی نکلتی ہے جو ہماری کہکشاں یا انڈرومیدہ کہکشاں کے کروڑوں ستاروں کی روشنی سے زیادہ ہے۔ کسی ستاروں کے جھرمٹ یا کسی ستارے کے پھٹنے سے اتنی روشنی نہیں نکل سکتی۔ صرف ایک ہی بات ممکن ہے کے کسی بڑے بلیک ہول کی وجہ سے آس پاس کا مادہ کائنات میں گھماؤ کی وجہ سے تیز رفتاری کے ساتھ بلیک ہول میں گر رہا ہو اور وہ تیز رفتاری کی وجہ سے بے حد گرم ہوکر بے پناہ روشنی پیدا کر رہا ہے۔ اس سمجھ کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاید بلیک ہول کواسار ایک حقیقت ہیں۔

    کوا سار کی دریافت سے متاثر ہوکر راجر پنروز نے ریاضیات کے استمال سے بلیک ہول کی دریافت کو حقیقت کے نزدیک کر دیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ جب کوئی بڑا مردہ ستارہ بغیر کسی روک ٹوک کے سکڑنا شروع ہوگا تو بالآخر اس کے پاس کائنات میں گھماؤ لامحدود ہو جائۓ گا۔ اس ستارے کے باہر گولائی کی ایک حد ہوگی جہاں پہنچنے کے بعد کوئی بھی چیز واپس نہیں آسکتی۔ یہ وہی حد ہے جس کا ذکر اوپن ہائمر اور شوارز چائلڈ پہلے کر چکے ہیں۔

    یہ ایسی حد ہے جس کے بعد صرف مستقبل ہے اور پھر بلیک ہول کے سینٹر پر وقت ہمیشہ کے لیے رک جائے گا۔ وقت کے خاتمے جیسی انوکھی بات کو سمجھنے کے لیے شاید فزکس کے نئے مقولوں کی ضرورت ہوگی لیکن بلیک ہول کے چاروں طرف کی حد اس کے اندر کی لامحدودیت کو چھپائے ہوئے ہے۔ اس سمجھ نے سائنسدانوں میں بلیک ہول کی لامحدودیت کی وجہ سے تکلف کو ختم کر دیا۔ ان دلائل کے بعد بلیک ہول کو دیکھنے کا مطلب یہ ہوا کے اب ہم صرف بلیک ہول کے آس پاس ان ستاروں کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو تیزی کے ساتھ بلیک ہول میں ہضم ہوتے جا رہیں ہیں۔ اس سمجھ نے بلیک ہول کی دریافت کی دوڑ کو تیز کر دیا۔

    سنہ 1990 کے آس پاس گینزل اور ان کے فلکیاتی ساتھیوں نے انفراریڈ روشنی کا استمال کرکے بلیک ہول کی تلاش میں ساری توجہ اپنی کہکشاں کے سینٹر پر مرکوز کر دی جہاں پر ایک بڑے بلیک ہول کے ہونے کے بہت امکانات تھے۔ انفراریڈ روشنی کا استمال اس لئے کیا گیا کے آس پاس کی کائناتی دھول کی وجہ سے ٹیلی اسکوپ کے مشاہدات میں رکاوٹ نہ آسکے۔ دوسری دقت یہ تھی کہ ہماری زمین کے چاروں طرف پھیلی ہوا کے وجہ سے ستارے جگ مگ کرتے ہیں اس لئے ان کی تصویر دھندلی ہو جاتی ہے اور پھر ان ستاروں کی صحیح رفتار معلوم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس پریشانی سے بچنے کے لئے گیز نے کیک کے بہت طاقتور ٹیلی اسکوپ کو استمال کیا تاکہ بہت کم وقت میں اچھی تصویر لی جا سکے۔

    چند ہی سالوں میں باریکی سے مشاہدات کے بعد دونوں تجرباتی تحقیقاتی گروپ ہماری کہکشاں کے بیچ میں بلیک ہول کے چاروں طرف تیزی سے چلتے ہوئے تاروں کے گھماؤ دار راستوں کو باریکی سے ناپنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان مشادات نے یہ ثابت کر دیا کے ہماری کہکشاں کے سینٹر پرایک بڑا بلیک ہول ہے جس کا وزن ہمارے سورج سے تقریباً 40 لاکھ گنا بڑا ہے۔ اس حیرت انگیز دریافت کی اہمیت کی وجہ سے ان سائنسدانوں کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔ نوبل کمیٹی کے اس فیصلے کے بعد اخبارات اور ٹیلی ویژن پر اس بات کا بہت ذکر ہوا کے ان تینوں انعام یافتہ سائنسدانوں میں گیز، نوبل انعام کی 120 سال کی تاریخ میں صرف چوتھی خاتون ہیں۔

    فزکس ایسا مضمون ہے، جس کا وہ دعویٰ بھی کرتا ہے، جو بنا کسی تفریق کے اچھے دماغوں کو نوازتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کہ سائنسدان عورت ہے یا مرد۔ لیکن فزکس کے نوبل انعام یافتہ لوگوں کی فہرست اس بات کی گواہی دیتی ہے کے شاید سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ حالانکہ پہلی خاتون سائنسدان مادام کیوری کو شروع ہی میں 103 میں نوبل انعام ملا، لیکن اس کے 60 سال کے بعد دوسری خاتون سائنسدان ماریا جیوپورٹ میر کو 1963 میں اور تیسری خاتون ڈونا اسٹرکٹ کو 2018 میں نوبلے انعام ملا۔ ایسی بہت ساری خاتون سائنسدان رہی ہیں جن کی مایہ ناز تحقیقات نوبل انعام کی مستحق ہونے کے باوجود اس انعام سے محروم رہیں۔ ان میں خاص نام ہیں: لیز مایٹنر، چین شنگ وو، ویرا ربن اور ہندوستان کی بیبھا چودھری جن کے نام سے ایک ستارہ بھی منسوب ہے۔

    گیز نے اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کی بڑے ہوتے ہوئے ہر منزل پر یہ سننا پڑا کہ تم یہ نہیں کر سکتیں کیونکہ تم لڑکی ہو، تمہارا داخلہ کیل ٹیک جیسی مشہور جگہ نہیں ہو سکتا۔ کم و بیش اسی طرح کی باتیں ہر پڑھنے لکھنے والی لڑکی کو سننا پڑتی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے گیز نے اپنی پی ایچ ڈی ڈگری کے کام کو ان تمام لڑکیوں کے نام منسوب کیا ہے جو تمام رکاوٹوں کے باوجود تحقیقات کے کام میں اچھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

    فزکس کی تحقیقات کرنے والوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کے ریسرچ کرنے کی سہولتیں ٹیکس دینے والوں کی عنایت ہے۔ ساری کامیابیاں اسی عنایت کی دین ہے اور اس لیے ہر ناانصافی کو ختم کرنا ایک ضروری ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری کوئی دباؤ نہیں بلکہ ایک اعزاز ہے تاکہ ریسرچ کے لیے بہتر ماحول بنے۔ یہ بہت خوشی کی بات ہے کے پچھلے دو سالوں میں دو خواتین کو نوبل انعام ملا۔ کیا یہ اس بات کی نشان دہی ہے کے آنے والے وقت میں لڑکیوں کے لیے کامیابی کی بلندیوں پر پہنچنا آسان ہوجائے گا؟ کیا فزکس میں لڑکیوں کے لیے رکاوٹیں کم ہو جائیں گی؟

  • بلیک ہول نے ستارے کو اچانک اپنے اندر کھینچ لیا

    بلیک ہول نے ستارے کو اچانک اپنے اندر کھینچ لیا

    خلا میں بڑے بلیک ہول نے ایک ستارہ تیزی کے ساتھ اپنے اندر کھینچ لیا، یہ منظر سائنسدانوں نے ٹیلی اسکوپس کی مدد سے دیکھا جسے انہوں نے اسپیگٹی فائیڈ کا نام دیا ہے۔

    زمین سے 21 کروڑ 50 لاکھ نوری سال کی دور پر ہونے والے اس واقعے کو دنیا بھر کے اداروں اور ماہرین نے ایک بہت بڑے بلیک ہول میں پھنس کر پھٹنے والے ستارے کی روشنی کو ریکارڈ کیا۔

    اسپیگٹی فیکشن کی اصطلاح کو اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب اجسام بلیک ہول میں داخل ہوتے ہیں تو بلیک ہول کے کنارے اور درمیان میں وہ جسم کسی نوڈل کی طرح کھچ جاتا ہے۔

    بلیک ہولز میں کشش ثقل کی طاقت بہت مضبوط ہوتی ہے، اس میں میں تھوڑی جگہ پر انتہائی زیادہ مادے کی وجہ سے اس کی کشش اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ روشنی، جو اب تک کی تحقیقات کے اعتبار سے اس کائنات کی سب سے تیز ترین چیز ہے، بھی اس سے فرار نہیں ہوسکتی۔

    بلیک ہول کے قریب کوئی بھی شے اس کی کشش سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتی اور ٹکڑے ٹکڑے ہوسکتی ہے۔ یورپین سدرن آبزرویٹری (ای ایس او) کے ٹیلی اسکوپس کا استعمال کرکے دنیا بھر کے اداروں اور ماہرین نے ایک بہت بڑے بلیک ہول میں پھنس کر پھٹنے والے ستارے کی روشنی کو ریکارڈ کیا۔

    اس تحقیق کے نتائج جریدے منتھلی نوٹسز آف دی رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی میں شائع ہوئے، سائنسدانوں کی ٹیم نے روشنی کی طاقتور چمک کا مشاہدہ گزشتہ سال اس وقت کیا تھا جب ایک بڑا بلیک ہوا ایک ستارے کو نگل رہا تھا۔

    تحقیقی ٹیم کے قائد اور برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر میٹ نکول نے بتایا کہ کسی بلیک ہول کی جانب سے اپنے قریب ستارے کو نگل لینا سننے میں سائنس فکشن خیال لگتا ہے مگر ایسا حقیقت میں ہوا۔

    یہ بلیک ہول حجم میں 10 لاکھ گنا زیادہ بڑا تھا اور اس ستارے کے نصف حصے کو اپنے اندر کھینچ لیا جبکہ باقی حصے کو باہر کی جانب طاقتور مادے کے ساتھ 2 کروڑ 20 لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار کے ساتھ پھینک دیا۔

    سائنسدانوں نے ستارے کی گرد اور ملبے کا مشاہدہ کیا جو بلیک ہول میں گم ہوتے ہوئے اس کے پھٹنے سے پہلے اٹھا۔ اس ایونٹ کو اے ٹی 2019 کیو آئی زی کا نام دیا گیا جو اب تک زمین کے سب سے قریب دریافت ہونے والا ایونٹ ہے، جس سے اس کی بے مثال تفصیلات ملیں۔