Tag: black hole

  • روزانہ سورج سے زیادہ پھیلنے والا نیا بلیک ہول دریافت

    روزانہ سورج سے زیادہ پھیلنے والا نیا بلیک ہول دریافت

    سڈنی : آسٹریلیا کی نیشنل یونیورسٹی کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ خلا میں موجود ایک بلیک ہول تیزی سے پھیل رہا ہے اور دن بہ دن سورج جتنا بڑا ہورہا ہے۔

    آسٹریلوی ماہرین کی تحقیق کے مطابق کائنات میں موجود سب سے بڑے بلیک ہول ابیل-85 کا سائز سورج سے 40 ارب گنا بڑا ہے جب کہ جے2157 نامی یہ بلیک ہول سورج سے 34 ارب گنا بڑا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ بلیک ہول تیزی سے پھیل رہا ہے اور روزانہ ہمارے سورج جتنا بڑھ رہا ہے جب کہ یہ گذشتہ ماہ کے مقابلے میں دگنا بڑا ہوگیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بلیک ہول کی بھوک اسی طرح جاری رہی یعنی وہ اسی طرح تیزی سے پھیلتا رہا تویہ ہماری کہکشاں میں موجود دو تہائی ستاروں کو کھا جائے گا۔

    خیال رہے کہ کائنات کے اسراروں میں سے ایک اسرار بلیک ہول بھی ہے جسے جاننے اور سمجھنے کے لیے سائنسدان تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں : بلیک ہول کا پُراسرار زار ، جسے انسانی آنکھ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا

    بلیک ہول کائنات کا وہ اسرار ہے جسے کئی نام دیے گئے ہیں، کبھی اسے ایک کائنات سے دوسری کائنات میں جانے کا راستہ کہا جاتا ہے تو کبھی موت کا گڑھا۔

  • کیا بلیک ہول کی تصویر ساڑھے 5 کروڑ سال پرانی ہے؟

    کیا بلیک ہول کی تصویر ساڑھے 5 کروڑ سال پرانی ہے؟

    کائنات کے بڑے رازوں میں سے ایک سمجھے جانے والے بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری کردی گئی ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ تصویر 5 کروڑ 50 لاکھ سال پرانی ہے؟

    10 اپریل 2019 کا دن سائنسی تاریخ کا ایک اہم دن تھا کیونکہ ماہرین فلکیات طویل عرصے سے سحر زدہ کیے رکھنے والے بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے میں کامیاب ہوگئے، تاہم یہ تصویر 5 کروڑ 50 سال لاکھ سال پرانی ہے۔ جان کر حیران ہوگئے نا؟

    مزید پڑھیں: بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری کردی گئی

    یہ بلیک ہول جسے اب تک دریافت کیے جانے والے بلیک ہولز میں سب سے زیادہ وزنی قرار دیا جارہا ہے، ہم سے 5 کروڑ 50 لاکھ نوری (روشنی کے) سال کے فاصلے پر واقع ہے۔

    یعنی اس وقت اگر ہم زمین سے آنکھوں کو چکا چوند کردینے والی کوئی ایسی روشنی خارج کرسکیں جو اس بلیک ہول تک پہنچ سکے تو اسے وہاں تک پہنچنے میں 5 کروڑ 50 لاکھ سال کا عرصہ درکار ہے، اور یقیناً یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ روشنی ہماری کائنات کی سب سے تیز رفتار شے ہے۔

    تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بلیک ہول کے آس پاس کا علاقہ جسے ایونٹ ہورائزن کہا جاتا ہے خاصا روشن ہے، وہ اس لیے کیونکہ مادہ، گیس، پلازمہ یا کوئی بھی دوسری شے بلیک ہول کے اندر داخل ہونے سے قبل اس مقام (ایونٹ ہورائزن) پر نہایت تیز ہو کر بھڑک جاتی ہے اور روشن ہوجاتی ہے، یہ روشنی انہی اشیا کی ہے۔

    یہاں سے یہ روشنی اپنا سفر شروع کرتی ہے، یہ روشنی جب اس مقام تک پہنچتی ہے جہاں سے ہم اسے دوربین کی آنکھ میں قید کرسکیں تو اسے اپنے اصل مقام سے سفر شروع کیے 5 کروڑ 50 لاکھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔

    گویا آج دیکھی جانے والی بلیک ہول کی تصویر بلاشک و شبہ 5 کروڑ 50 لاکھ سال پرانی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اب یہ بلیک ہول ایسا نہ ہو جیسا اس تصویر میں دکھائی دے رہا ہے، ہوسکتا ہے اب اس کا حجم بڑا یا چھوٹا ہوگیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بلیک ہول ختم ہوچکا ہو۔

    اسی کلیے کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرض کیا جائے کہ اگر اس بلیک ہول کے مقام پر کھڑے ہو کر، کسی طاقتور دوربین کے ذریعے زمین کی طرف دیکھا جائے تو اس دوربین میں زمین کا 5 کروڑ 50 لاکھ سال پرانا منظر نظر آئے گا۔

    یہ وہ عرصہ ہوگا جب ہماری زمین پر ڈائنو سارز موجود تھے اور انسان کو زمین پر آنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ گویا اس وقت جس روشنی نے زمین سے خارج ہو کر اپنا سفر شروع کیا ہوگا اسے اس بلیک ہول تک پہنچنے میں اتنا وقت لگا ہوگا کہ زمین پر سال 2019 شروع ہوچکا ہوگا۔

  • بلیک ہول کی پہلی تصویرجاری کردی گئی

    بلیک ہول کی پہلی تصویرجاری کردی گئی

    امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ نے انسانی تاریخ میں پہلی بار بلیک ہول کی تصویر جاری کردی ہے، لیکن کیا یہ واقعی بلیک ہول کی تصویر ہے۔

    یہ تصویر ناسا کے زیر اہتمام ادارے ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ کی جانب سے جاری کی گئی ہے، یہ بلیک ہول ایم 87 ورگو اے کے نام سے پہچانی جانے والی کہکشاں کے وسط میں واقع ہے۔

    عالمی ادارے کا دعویٰ ایک طرف لیکن پرائمری کی سائنس جنہیں یاد ہے وہ جانتے ہیں کہ بلیک ہول ایک ایسے فلکی جسم کا نام ہےجس کی بے پناہ کشش ِ ثقل کے سبب کوئی بھی شے اس میں سے نہیں گزر سکتی ، حتیٰ کہ روشنی بھی نہیں اور روشنی کسی بھی شے کی تصویر کھینچنے کے لیے لازمی عنصر ہے۔

    آئن اسٹائن ہمیں بتاچکے ہیں کہ کوئی بھی شے روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کرسکتی اور بلیک ہول کی تصویر لینے کے لیے ضروری ہے کہ روشنی اپنی موجودہ رفتار یعنی 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ سے بھی تیز سفر کرے، جو کہ ممکن نہیں ہے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ بلیک ہو ل کو دیکھ لیا جائے۔

    پھر بین الاقوامی سائنسد اں اسے بلیک ہول کی تصویر کیوں قرار دے رہے ہیں۔ پہلے ذرا ایک بار غور سے تصویر کو دیکھیے۔ یہ تصویر بالکل ایسی ہی ہے جیسا کہ کوئی ڈونٹ، درمیان میں ایک سیاہ دھبا اور اس کے گرد روشنی ۔

    سائنس دانوں نے جو تصویر لی ہے وہ درحقیقت اس کے ارد گرد موجود روشنی کی ہے ، اور اس روشنی کےدرمیان موجود بلیک ہول جو کہ اس کہکشاں میں موجود ہر شے کو نگلنے کے صلاحیت رکھتا ہے ، روشنی کے اس دائرے کے اندر واقع ہے ، یوں سمجھ لیں کہ جہاں پر روشنی کااندرونی ہالہ ختم ہورہا ہے ، وہ سارا علاقہ بلیک ہول ہے۔

    اب ذرا یہ بھی جان لیں کہ آخر یہ روشنی ہے کیا۔ بلیک ہول کی شدید کششِ ثقل کے اثرات اس کے ارد گرد ایک مخصوص علاقے تک محدود ہوتے ہیں جسے ایونٹ ہورائزن یا ’واقعاتی افق‘ کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر کسی بھی بلیک ہول کے گرد یہ واقعاتی افق نہ ہو تو وہ بلیک ہول تنہا پوری کائنات کو ہڑپ کرجائے ۔ واقعاتی افق سے دور جاتے ہوئے، بلیک ہول کی کششِ ثقل بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے؛ اس لیے کسی بلیک ہول سے دور دراز مقامات پر موجود اجسام پر اس کشش کے اثرات بھی اتنے معمولی ہوتے ہیں کہ انہیں بہ مشکل ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔

    فلکیاتی اجسام جو کسی بلیک ہول کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں،جیسے جیسے واقعاتی افق کے قریب پہنچتے ہیں، ان کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور وہ بلیک ہول کے گرد اسپائرل ( لہردار )راستے پر چکر لگاتے ہوئے، واقعاتی افق سے قریب تر ہونے لگتے ہیں۔ ہر چکر میں ان کی رفتار مزید بڑھ جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ عین واقعاتی افق پر پہنچ جاتے ہیں۔

    زبردست رفتار کے سبب یہ اجسام انتہائی زیادہ توانائی پیدا کرتے ہیں اور ان سے روشنی یا ریڈی ایشن خارج ہونے لگتی ہے۔ واقعاتی افق جو کہ بلیک ہول کی سرحد ہے وہاں سے بلیک ہول میں گرتے وقت یہ آخر ی بار انتہائی تیز ترین شعاعیں خارج کرتے ہیں جس سے واقعاتی افق روشن ہوجاتا ہے۔

    سو ہم جو یہ تصویر دیکھ رہی ہیں یہ درحقیقت ایونٹ ہورائزن پر فلکی اجسام سے پیدا ہونے والی روشنی کی ہے اور اس روشنی کے درمیان جو اندھیرا ہے ، وہ بلیک ہول ہے ، سو اس طرح سائنس دانوں کا یہ دعویٰ درست ہے کہ یہ تصویر بلیک ہول کی ہے ، فی الحال موجودہ ٹیکنالوجی سے بلیک ہول کو اتنا ہی دیکھ پانا ممکن ہوسکا ہے۔

    ہوسکتا ہے مستقبل میں کبھی سائنس اس قدر ترقی کرلے کہ بلیک ہول کے اندر بھی جھانک سکے اور ہمیں بتاسکے کہ وہاں یہ زبردست سرگرمی کس سبب ہورہی ہے ، فی الحال آپ اس تصویر سےگزارا کریں۔

  • کالی بلا ہمارے سورج کو آہستہ آہستہ کھائے جارہی ہے، ماہرین فلکیات کا انکشاف

    کالی بلا ہمارے سورج کو آہستہ آہستہ کھائے جارہی ہے، ماہرین فلکیات کا انکشاف

    سڈنی: آسٹریلوی ماہرین فلکیات نے انکشاف کیا ہے کہ ایک منحوس بلیک ہول ہمارے سورج کو ہر دو دن بعد آہستہ آہستہ کھاتا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین فلکیات نے کہا ہے کہ معلوم کائینات میں یہ سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا قدیم ترین بلیک ہول ہے جس کی جسامت بیس ارب سورجوں جتنی ہے، جو ہردودن میں ایک درندے کی طرح ہمارے سورج کو کھا کر تابکاری کا ایک طوفان خارج کررہا ہے۔

    فلکیات اور خلائی طبیعیات سے متعلق آسٹریلوی قومی یونی ورسٹی کے محقق کرسچن وولف نے کہا کہ یہ بلیک ہول تیز رفتاری سے بڑھنے کی وجہ سے  ایک پوری کہکشاں سے بھی ہزاروں گنا زیادہ طاقت کے ساتھ چمک رہا ہے، جس کی وجہ وہ گیسیں ہیں جو یہ روزانہ نگلتا ہے اور اس کے نتیجے میں بے پناہ حرارت اور رگڑ پیدا ہوتی ہے۔

    برطانوی میگزین ’آسٹرونامی ناؤ‘ کے مطابق اگر یہ عفریت ہماری کہکشاں کے ملکی وے کے وسط میں ہو تو یہ ایک پورے چاند سے دس گنا زیادہ چمکتا دکھائی دے گا۔ اس کی چمک اتنی حیرت انگیز ہوگی کہ آسمان کے تمام ستارے فنا ہوجائیں گے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کہکہشاں کا تھری ڈی نقشہ

    اس بلیک ہول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کائینات کی تشکیل کے ابتدائی زمانے میں بنا تھا، جب ماہرین فلکیات نے اسے پایا تو اس وقت یہ بارہ ارب نوری سال کے فاصلے پر تھا اور اس کی جسامت بیس ارب سورجوں جتنی تھی۔ یہ عظیم الجثہ بلیک ہول بالا بنفشی شعاعیں اور ایکس رے توانائی خارج کرتا ہے جسے یہ گیس اور دھول کی صورت میں نگلتا ہے اور پھر اتنی غضب کی حرارت پیدا کرتا ہے جس سے کوئی بھی مہمان کہکشاں تباہ ہوسکتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  مارس مشن 2020: زندگی کی تلاش میں جانے والا روبوٹ ٹیسٹنگ کے لیے تیار

    وولف کا کہنا تھا کہ اگر یہ ملکی وے میں ہوتا تو زمین پر ایکس ریز کی وجہ سے زندگی ممکن ہی نہ ہوتی۔ اس بلیک ہول کی نشان دہی اسکائی میپر ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کی گئی ہے۔ کئی ماہ کی اس تلاش میں یورپی خلائی ایجنسی کے سیٹلائٹ گایا نے بھی مدد کی جو فلکیاتی اجسام کی معمولی سی حرکت کو بھی معلوم کرلیتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔