Tag: blasphemy

  • توہینِ مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے‘ امامِ کعبہ

    توہینِ مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے‘ امامِ کعبہ

    امام کعبہ شیخ صالح بن محمدکا کہنا ہے کہ جب کبھی توہینِ مذہب کا الزام عائد ہوتا ہے تو الزام عائد کرنے والے دو طرح کے افراد ہوتے ہیں‘ ’’ایک وہ جو کم علمی کے سبب ایسا کرتے ہیں اور دوسرے وہ جوکہ ذاتی فوائد کے لیے اسلام کا غلط استعمال کرتے ہیں‘‘ دوسری قسم کے افراد کے لیے دین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ بات امامِ کعبہ نے پاکستان کے نجی ٹی وی چینل کو دیے انٹرویو میں کہی‘ ان کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب مردان میں یونی ورسٹی کے طالب علم مشعال کی ساتھی طالب علموں کے ہاتھوں توہینِ مذہب کے الزام میں ہلاکت کے بعد ایک نئی بحث جاری ہے۔

    گزشتہ رات دیے گئے انٹرویو میں امامِ کعبہ کا کہنا تھا کہ جو افراد کم علمی کے سبب دوسروں پر اس قسم کے الزامات عائد کرتے ہیں ان کی مناسب تعلیم کا انتظام کیا جانا چاہیے اور انہیں اس مسئلے کی باریکیوں سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ البتہ جن کے دلوں میں نفاق ہے اور جو اسلام کو جان بوجھ کر غلط مقاصد کے تحت استعمال کرتے ہیں وہ دوسری قسم کے لوگ ہیں۔

    امام کعبہ نے مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ہم اپنی نشانیاں ان لوگوں کے آگے ظاہرنہیں کرتے جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ لوگ کبھی سیدھے راستے پر نہیں آئیں گے چاہے انہیں اس کی جانب ہدایت ہی کیوں نہ کی جائے‘‘۔

    شیخ صالح بن محمد کا کہنا تھا کہ یہ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی درست تعلیمات کی جانب رہنمائی کریں۔ ’’ علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو دہشت گردی اور شدت پسندی سے دور رہنے کی ترغیب دیں‘‘۔ انہوں یہ بھی کہا کہ علما کو چاہئے کہ وہ تعلیم دیں جس سے اسلام کا مثبت چہرہ ابھر کر سامنے آئے۔

    پاکستان مقامات مقدسہ کی حفاظت کی صلاحیت رکھتا ہے


    امام کعبہ کا کہنا تھا کہ اسلام پوری انسانیت کےلئے خیر کا دین ہے جسے دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کا کارِ خیرعلمائے کرام کر رہے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو لے کرآگے بڑھ رہے ہیں اورمدارس کے ذریعے قرآن و سنت کی تعلیم کوعام کررہے ہیں۔

    امام کعبہ نے کہا کہ ہم اپنےمقامات مقدسہ کی حفاظت سے آنکھیں نہیں پھیرسکتے اورمقامات مقدسہ کی حفاظت پرپاکستان کےمؤقف کوقدرکی نگاہ سےدیکھتےہیں کیوں کہ پاکستان مقامات مقدسہ کی حفاظت کرنےکی صلاحیت رکھتاہے اور یہ اعزاز اسے تمام مسلم ممالک سے ممتاز کرتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • فیس بک نے گستاخانہ مواد کے حامل 85 پیجز بند کردیے‘ سیکرٹری داخلہ کاعدالت میں بیان

    فیس بک نے گستاخانہ مواد کے حامل 85 پیجز بند کردیے‘ سیکرٹری داخلہ کاعدالت میں بیان

    اسلام آباد :گستاخانہ مواد سے متعلق کیس میں  وفاقی سیکریٹری داخلہ کا کہنا ہے کہ فیس بک کو بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے جبکہ جسٹس شوکت عزیزصدیقی کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے معاملے میں وزارت آئی ٹی گناہ گار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا میں کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی گستاخی کا معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کیس کی سماعت کی، سیکریٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی پولیس عدالت میں پیش ہوئے، وفاقی سیکریٹری داخلہ عارف خان نے کہا کہ پاکستان کی درخواست پر فیس بک انتظامیہ نے 85 فیصد گستاخانہ مواد ہٹا دیا ہے، فیس بک کو بند کرنا توہین رسالت کے مسئلے کا حل نہیں ہے، عدالتی حکم پر عمل درآمد جاری ہے۔

    سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے نے گستاخانہ مواد میں ملوث 3 افراد گرفتارکئے، دو افراد نے جرم قبول کرلیا ہے، 27ممالک کے سفیروں سے گستاخانہ مواد سے متعلق گفتگو ہوئی، معاملے کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بھی تشکیل دی ہے۔


    مزید پڑھیں : گستاخانہ مواد پوسٹ کرنے والے دو افراد گرفتار


    جسٹس شوکت عزیز کا کہنا تھا کہ انوشہ رحمان کو ایکٹ کی ترمیم سے تکلیف ہے، اس معاملے پر وزارت آئی ٹی گناہ گار ہے، اسحاق ڈار،بلیغ الرحمان اور چوہدری نثارکہاں ہیں وہ کیا کر رہے ہیں، کیا امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج کیا گیا؟

    چیئرمین پی ٹی اے نے عدالت میں کہا کہ فیس بک گستاخانہ مواد کو مانتی ہی نہیں تھی مگر اب وہ ہٹا رہے ہیں، فیس بک کا ہماری بات ماننا بڑی کامیابی ہے،چالیس پیجز کیخلاف ایکشن لیا ہے،25 لوگوں کی ٹیم ایسا مواد سرچ کررہی ہے۔

    جسٹس شوکت نے کہا کہ بڑے بڑے دعوےکرنےوالے کہاں ہیں؟ نئی درخواست پر فوری ایف آئی آر درج کی جائے، سیکرٹری داخلہ کی حدتک کام ہورہا ہے، ریاست خاموشی ہے۔

    کیس کی سماعت31 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔


    مزید پڑھیں : گستاخانہ مواد کی تحقیقات کے لیے 7 رکنی جے آئی ٹی تشکیل


    یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تحقیقات کے لیے 7 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جا چکی ہے ، ٹیم کی سربراہی ڈائریکٹر ایف آئی اے مظہر کاکا خیل کریں گے جب کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے ایس پی مصطفی، ڈائریکٹر ٹیکنیکل ٹریننگ یاسین فارو ق اور ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم شہاب عظیم بھی ٹیم کے ارکان میں شامل ہیں۔

    گذشتہ سماعت میں سوشل میڈیا پرگستاخانہ مواد سے متعلق کیس میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ فیس بک انتظامیہ تعاون نہ کرے تو ویب سائٹ بند کردی جائے۔

    سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سیکرٹری داخلہ سے استفسار کیا کہ کیس میں پیش رفت بتائیں ، یہ بہت ہی حساس معاملہ ہے، میں آپ کا احترام کرتا ہوں فیس بک انتظامیہ تعاون نہ کرے تو ویب سائٹ بند کردی جائے، فیس بک پیسہ بھی ہم سے کما رہی ہے اور ہمیں ہی جوتیاں مار رہی ہے ، حساس معاملہ ہوگا تو کیا ہاتھ نہیں ڈالیں گے


    مزید پڑھیں :گستاخانہ مواد سے متعلق کیس، فیس بک انتظامیہ تعاون نہ کرے تو ویب سائٹ بند کردی جائے، عدالت


    سٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ کرکٹ تو ہمارا مذہب نہیں ، ایف آئی اے کارکردگی دیکھانے میں مکمل ناکام ہو چکی، حکومت کو ریفرنڈم کرنا چاہئیے کہ پاکستانی عوام کو سوشل میڈیا چاہئے یا ناموس رسالت پھر جس کو غلط فہمی ہے سب دور ہو جائے گا، اگر سیلفیاں اور ڈشز کی تصاویر فیس بک پر شیئر نہ کی گئیں تو کچھ نہیں ہو گا۔

  • توہینِ مذہب کے قانون میں اصلاحات کے مطالبے پراعتراض نہیں ہونا چاہیے، سپریم کورٹ

    توہینِ مذہب کے قانون میں اصلاحات کے مطالبے پراعتراض نہیں ہونا چاہیے، سپریم کورٹ

    اسلام آباد: سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’توہینِ مذہب کے قانون میں اصلاح کی کسی درخواست کو توہین نہیں کہا جاسکتا ہے اور اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ اس قانون کو ختم کیا جارہاہے تاہم اصلاحات کا مقصد صرف توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال کی روک تھام ہے‘‘۔

    عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ اسلام ازخود کسی پر غلط اور جھوٹا الزام لگانے کو سنگین جرم قراردیتا ہے اور توہینِ مذہب کے قانون میں تحفظات کو یقینی بنانے کا مقصد یہی ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال نہ کیا جاسکے اور اس پر کسی صورت اعتراض درست نہیں ہے۔

    عدالت نے عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں سلمان تاثیر قتل کیس کے مرکزی مجرم ممتاز قادری کی جانب سے دائر کردہ درخواست کو بھی خارج کردی، جس کی سزائے موت ایک عدالتی فیصلے کے تحت روکی گئی تھی۔

    واضح رہے کہ ممتاز قادری نے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو 4 جنوری 2011کو قتل کیا تھا اور گرفتاری پر اعترافِ جرم بھی کیا تھا جس پر انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اسے دو مرتبہ سزائے موت کا سزاوار قرار دیا تھا تاہم مارچ 2015 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممتاز قادری کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر مجرم کی سزائے موت ملتوی کی تھی۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان کے 39 صفحات پر مبنی تفصیلی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ توہینِ مذہب ایک غیر اخلاقی اور ناقابل برداشت جرم ہے تاہم کسی پر اس نوعیت کا الزام عائد کرنا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے۔

  • پولیس نے عیسائی عامل کو توہینِ مذہب کے جرم میں گرفتارکرلیا

    پولیس نے عیسائی عامل کو توہینِ مذہب کے جرم میں گرفتارکرلیا

    لاہور: پولیس نے ایک عیسائی عامل کوعملیات کے دوران ایسی تلوار جس پراسلامی آیات کنندہ تھیں، استعمال کرنے پرتوہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کرلیاہے۔

    مقامی پولیس افسرامیرمختار کا کہنا ہے نوید جون نامی اس عامل کو سرگودھا کے زرعی ٹاوٗن سے مقامی رہائشیوں کی شکایت پرگرفتار کیا گیا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مقامی افراد نے شکایت کی ہے کہ عیسائی عامل اپنے پاس آنے والوں کا علاج جس تلوار کے ذریعے کرروحانی علاج کرتا ہے اس پر قرآنی آیات کنندہ ہیں جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروع ہوتے ہیں۔

    نوید نامی ملزم کے خلاف مقدمہ توہینِ مذہب کے قانون کے تحت کیا گیا جس کے مطابق لوگوں کے مذہبی جذبات مجروع کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے۔

    دوسری جانب نوید جون کا کہنا ہے کہ اس کے پاس موجود تلوار’مقدس‘ ہے اوراسے مریضوں پرپھیرنے سے مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں۔

    پولیس نے نوید جون کے خلاف تحقیقات مکمل کرلیں ہیں اور اسے دس برس تک کی سزا ہوسکتی ہے۔

  • پولیس نے مسیحی جوڑے کو ’توہین‘ کے الزام میں قتل ہونے سے بچالیا

    پولیس نے مسیحی جوڑے کو ’توہین‘ کے الزام میں قتل ہونے سے بچالیا

    مکی: پنجاب پولیس نے بھپرے ہوئے مجمعے سے مسیحی جوڑے کی جان بچالی جس پر توہین کا الزام تھا، بعد ازان اشتعال پھیلانے کےالزام میں ایک مولوی کو بھی گرفتار کیا گیا۔

    ڈسٹرکٹ پولیس چیف سہیل ظفر چھٹہ کے مطابق غیر تعلیم یافتہ مسیحی جوڑے نے کہیں سے ایک پرانا پینافلیکس حاصل کیا جسے وہ سونے کے لئے گھر میں بچھانے کا کام لیتے تھے، پینافلیکس پر کئی کالجز کے نام اور سلوگن درج تھے جن میں سے کچھ عبارات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ قرآنی آیات تھیں۔

    پولیس کے مطابق ایک مقامی نائی اور دو مولویوں نے مسیحی جوڑے کے خلاف عوام کو اکسایا جو کہ جانتے بھی نہیں تھے کہ ان سے کیا غلطی سر زد ہورہی ہے۔

    مولویوں کے اکسانے پر علاقے کی آبادی نے اکھٹے ہو کرمجمعے کو بے رحمی سے مارنا شروع کیا اور نزدیک تھا کہ وہ انہیں ہلاک ہی کردیتے لیکن پولیس نے موقع پر مداخلت کرتے ہوئے مسیحی جوڑے کی جان بچائی اورانہیں لاہور منتقل کرکے مسیحی رہنماؤں کے حوالے کیا۔

    پولیس نے اشتعال پھیلانے والے ایک مولوی کو گرفتارکرلیا ہے جبکہ ایک مولوی اور نائی تاحال مفرور ہیں، کچھ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مذکورہ نائی مسیحی جوڑے کا مکان ہتھیانا چاہتا تھا لہذا اس نے یہ سارا کھیل کھیلا۔

  • گستاخاکانہ خاکوں کی اشاعت، سینٹ روک تھام پرمتفق

    گستاخاکانہ خاکوں کی اشاعت، سینٹ روک تھام پرمتفق

    اسلام آباد: پارلیمنٹ کےایوانِ بالا نے گستاخاکانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف قرارداد منظورکرلی۔

    تفصیلات کے مطابق آج بدھ کے روز چیئرمین سینٹ رضاربانی کی زیر صدارت ہونے والےاجلاس میں امریکہ میں شائع ہونے والےگستاخاکانہ خاکوں کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طورپرمنظورکی ہے۔

    قرارداد میں کہا گیا ہے کہ گستاخاکانہ خاکوں کی اشاعت سے دنیا بھرکے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں جن سے دہشت گرد عناصرکو اپنے مقاصد کا حصول آسان ہوجاتاہے۔

    قرارداد میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں گستاخاکانہ خاکوں کی اشاعت کی روک تھام کے لئے اعلیٰ سطحی اقدامات کئے جائیں گے۔

    واضح رہے کہ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہرڈلاس میں اتوار کے روز آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم کے گستاخاکانہ خاکوں کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا تھاجس پر دو مسلح افراد نے فائرنگ کردی تھی۔

    دونوں حملہ آورپولیس کی جانب سے کی جانے والی جوابی فائرنگ میں ہلاک ہوگئے تھے۔

  • افغانستان میں’جعلی ملاؤں‘کے خلاف عوام میں ناراضگی

    افغانستان میں’جعلی ملاؤں‘کے خلاف عوام میں ناراضگی

    کابل: افغان خاتون کو سرِعام وحشیانہ طریقے سے قتل کرنے کے واقعے نے توہم پرستی کے خلاف عوام کے جذبات ابھر رہے ہیں اور کابل میں جگہ جگہ موجود ملاؤں سے نفرت کا اظہار انہیں روپوش ہونے پرمجبورکررہاہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ ماہ جذبات سے بھرے مجمع نے 27 سالہ فرخندہ کو دن دہاڑے دریائے کابل کے کنارے تشدد کرکے قتل کیا اور اس کی نعش کو آگ لگادی تھی، خاتون پر ایک تعویز بیچنے والے ملا نے تنقید کرنے کے جواب میں ’توہینِ مقدسات‘کا الزام عائد کیا تھا ۔

    فرخندہ کے قتل پرافغانستان اور دنیا کے کئی ممالک میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جس نے دنیا بھر کی توجہ افغانستان میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر مبذول کرادی۔ افغان خاتون کا جنازہ روایات کو توڑتے ہوئے خواتین نے اٹھایااور انہیں ان کی آخری آرام گاہ تک پہنچایا۔

    اس کے ساتھ ہی ’’فرخندہ کو انصاف دو‘‘ اور ’’جہالت مردہ باد ‘‘ کے نعروں کے تحت تحریک شروع ہوئی جس نے روحانی عاملین، تعویز بیچنے والے، جعلی ملا اور قسمت بدلنے کا دعویٰ کرنے والوں کے خلاف عوامی جذبات کو مہمیز کردیا۔

    افغانستان کے نائب وزیر برائے مذہبی امور داعی الحق عابد کا کہنا ہے کہ ’’ہرعمامہ پہننے والا مذہبی عالم نہیں ہوتا‘‘۔

    داعی الحق کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ فرخندہ جو خود اسلامک اسٹڈیزمیں گرایجویٹ تھیں انہوں نے قران کی توہین کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ توہمات کے خلاف ان کی تعلیمات سے تعویز بیچنے والے عالم کے گاہک خراب ہورہے تھے۔