Tag: Blinkerwall

  • سمندر میں عجیب دیوار نمودار ہو گئی

    سمندر میں عجیب دیوار نمودار ہو گئی

    محققین نے جرمن ساحل کے قریب بحیرہ بالٹک کی تہہ میں پتھر کے زمانے کی ایک دیوار دریافت کر لی ہے، جس نے انھیں حیرت میں ڈال دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق 2021 میں ایک تحقیقی بحری جہاز پر سوار سائنس دانوں نے جرمنی کے بالٹک ساحل پر پانی کے اندر پتھروں سے بنی ایک دیوار کے حصے کو دیکھا تھا، جس کے بعد اب محققین نے اس سائٹ کا معائنہ کیا اور انکشاف کیا کہ امکان یہ ہے کہ یہ دیوار یورپ کے قدیم ترین انسان نے بنائی ہے، یعنی پتھر کے زمانے کے شکاریوں نے شکار کو پکڑنے میں مدد کے لیے اسے بنایا تھا۔

    محققین کے مطابق دیوار کی یہ باقیات ممکنہ طور پر 10 ہزار برس سے زائد عرصے پرانی ہیں، دیوار تقریباً ایک کلومیٹر طویل ہے، اور جرمن ساحل سے 10 کلومیٹر دور بحیرہ بالٹک میں 21 میٹر گہرائی میں واقع ہے، دیوار ٹینس سے فٹ بال سائز کے 1700 پتھروں سے مل کر بنی ہے اور ایک میٹر اونچی ہے، بعض پتھر چھوٹی کاروں جتنے بڑے ہیں یعنی 3 میٹر تک۔

    پتھر کے زمانے کے انسان کی بنائی ہوئی یہ اب تک کی قدیم ترین ساخت ہے جو دریافت ہوئی ہے، اس دریافت کا اعلان پیر کی شام لائبنٹس انسٹیٹیوٹ برائے بحیرہ بالٹک (IOW) اور شمالی جرمن علاقے کیل کی کرسٹیان البریشٹز یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر کیا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ ساڑھے 8 ہزار برس قبل زیر آب آیا تھا، مگر اس سے پہلے یہ خشک تھا، ممکنہ طور پر یہاں یہ دیوار شکاریوں نے ہرن پکڑنے کے لیے بنائی ہوگی، اس دیوار کی تعمیر کی حتمی تاریخ تو نہیں بتائی گئی ہے، تاہم محققین کے مطابق 9 ہزار 800 برس قبل یہاں جنگل ہوا کرتا تھا، اسی انداز کی تعمیراتی باقیات امریکا میں جھیل مشی گن میں بھی دریافت ہوئیں تھیں، اور سائنس دانوں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ ڈھانچا بھی کاریبو کے شکار کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہوگا۔

    جیکب گیرسن کی دریافت

    اس دریافت کو ’بلنکر وال‘ کا نام دیا گیا ہے، 2021 میں جیکب گیرسن اپنے طلبہ کے ساتھ بحیرہ بالٹک میں تحقیق میں مصروف تھے جب تہہ میں صوتی اسکین کی تصاویر میں عجیب چیزیں دکھائی دیں، لیبنز انسٹی ٹیوٹ فار بالٹک سی ریسرچ کے میرین جیولوجسٹ گیرسن کا کہنا تھا کہ اس وقت انھیں خیال بھی نہیں آیا تھا کہ یہ میرین نہیں بلکہ ارضیاتی دریافت ہے، اس لیے ان کے علم نے کوئی کام نہ کیا، آخر کار انھوں نے اس اسرار کو حل کرنے کے لیے ماہرین آثار قدیمہ اور دیگر محققین کو طلب کر کے اس پر کام کیا۔ پروسیڈنگز آف نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں گزشتہ دنوں شائع ہونے والے ایک مقالے میں جیکب گیرسن نے لکھا ’’یہ انسانی ساختہ دیوار ہے، جو آخری برفانی دور کے اختتام پر انسانوں کو قطبی ہرن کا شکار کرنے میں مدد کے لیے بنایا گیا تھا۔‘‘

    برلن کی فری یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ ہینی پیزونکا نے کہا ’’یہ دیوار ایک قدیم جھیل یا دلدل کے کنارے کے ساتھ بنائی گئی تھی، پھر جب سمندر کی سطح میں اضافہ ہوا تو یہ ڈوب گئی، اور سمندر کے اندر ہونے کی وجہ سے یہ ہزاروں سال تک محفوظ رہی، اس کی دریافت بلاشبہ سنسنی خیز ہے۔‘‘

    جیکب گیرسن اسے دریافت کرنے کے ایک سال بعد اس مقام پر ٹیم کے ساتھ واپس آئے تاکہ مزید تحقیق ہو سکے، پانی کے اندر چلنے والے ڈرون کی مدد سے، اس پر لگے کیمرے سے انھوں نے دیوار کی تصاویر لیں، جس سے پتھروں کی تصدیق ہوئی، اس وقت یہ خیال بھی پیش کیا گیا تھا کہ یہ پتھر گلیشیئرز کی وجہ سے جمع ہو گئے ہوں گے، کیوں کہ دیوار گلیشیئرز کی وجہ سے جمع ہونے والی اشیا کی طرف کھڑی تھی، تاہم ٹیم نے اسے مسترد کر دیا، گیرسن نے کہا کہ گلیشیئرز کے لیے ایک لمبی، سیدھی لکیر میں پتھر رکھنا عام نہیں ہے۔

    یہ دیوار کم از کم 8500 سال پرانی ہے، کیوں کہ ارضیاتی شواہد سے پتا چلتا ہے کہ اُس وقت یہ علاقہ آخری مرتبہ سطح سمندر سے بلند تھا، ٹیم نے دیوار کے آس پاس تلچھٹ میں پائے جانے والے لکڑی کے ٹکڑوں سے ریڈیو کاربن کی تاریخیں نکالیں تو اندازہ لگایا گیا کہ یہ اس سے بھی زیادہ پرانی ہے یعنی 10,000 سال پہلے آخری برفانی دور کے اختتام پر اسے بنایا گیا تھا۔

    جانوروں کے شکار کے لیے دیوار

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے دوسرے حصوں سے ملنے والے آثار قدیمہ کے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ قدیم شکاری جانوروں کی جبلت کا فائدہ اٹھاتے تھے، قطبی ہرن، کیریبو، اور دوسرے کھروں والے جانوروں کے ریوڑ لینڈ اسکیپ میں ایسی جگہوں سے گزرتے ہیں جو سیدھ میں ہوں جیسا کہ ندیاں، یا پہاڑ کی چوٹی پر بنے سیدھے دور تک جانے والے چھجے۔ شکاریوں نے جانوروں کے اس فطری رویے کو استعمال کیا اور پتھروں سے ایک طویل دیوار بنا دیتے تھے تاکہ ریوڑ اسی کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے وہاں تک پہنچے جہاں وہ گھات لگائے بیٹھے ہوں۔

    ماہرین نے یہ بھی کہا کہ شکار کر کے اور جنگل سے خوراک کا حصول کرنے والے قدیم انسانوں (ہنٹر گیدرر) نے یہاں غالباً قبطی ہرن کو نشانہ بنایا تھا، بڑے ہرن ہر سال یہاں جنوب کی طرف ہجرت کرتے ہیں، اور اس دریافت سے پتا چلتا ہے کہ قدیم انسانوں نے اپنے ماحول پر باقاعدہ اثر ڈالا تھا، اور شاید وہ اتنے بھی مساوات پسند (egalitarian) نہیں تھے جتنا کہ لوگوں کا خیال ہے، کیوں کہ یہ دیوار جس نے بنائی ہوگی وہ اس پر ملکیت کا دعویٰ بھی کرتے ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شکاریوں کے لیے یہ کسی مخصوص جگہ پر سرمایہ کاری کرنے کا ایک طریقہ تھا، آپ نے ایک دیوار بنائی، اور پھر موسم آتے ہی یہاں پہنچ گئے تاکہ جانوروں کی فصل حاصل کر سکیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے ایسے سوالات پیدا ہوئے ہیں جو قدیم شکاریوں سے متعلق اس سے قبل نہیں سوچے گئے تھے۔ یعنی اگر آپ چیزیں بنا رہے ہیں اور ہیئت ارضی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، تو آخر اس کا مالک کون ہے؟

    ماہرین نے کہا ہے کہ بالکل اسی زمانے کی بنی ہوئی قدیم دیواریں دنیا کے دیگر خطوں میں بھی پائی گئی ہیں، جیسا کہ اردن اور سعودی کے صحراؤں میں ’ڈیزرٹ کائٹس‘ اور ہورون جھیل کی گہرائی میں۔ لیکن مسئلہ یہ رہا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس طرح کے ڈھانچوں کو شدید نقصان پہنچا ہے، اور جہاں اب لوگ رہتے ہیں وہاں اس طرح کے ڈھانچوں کو پہچاننا ہی مشکل ہو گیا ہے۔ صرف ایسی جگہوں پر یہ محفوظ رہ پاتے ہیں جہاں زیادہ لوگ نہ رہتے ہوں، جیسا کہ آرکٹک یا صحرایا پانی کے اندر۔