Tag: Blood clots

  • جسم میں خون کے لوتھڑے بننے کی کیا علامات ہیں؟ جانیے!

    جسم میں خون کے لوتھڑے بننے کی کیا علامات ہیں؟ جانیے!

    رگوں میں خون جمنے کی 6 خاموش علامات ہیں جنہیں جان کر آپ بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں کئی بار رگوں میں خون کا جمنا اچھا ہوتا ہے خاص طور پر جب آپ زخمی ہو اور خون کا بہاﺅ روکنا چاہتے ہوں۔

    دوسری جانب اکثر اوقات رگوں میں خون کا جمنا یا بلڈ کلاٹ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے خاص طور پر اگر وہ مسلز کے قریب شریانوں میں ہو۔

    خون کا جمنا ہارٹ اٹیک اور فالج سمیت متعدد دیگر امراض کا باعث بنتا ہے جبکہ پھیپھڑوں اور دیگر جسمانی اعضا کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    اکثر اوقات خون کا جمنا جان لیوا ثابت ہوتا ہے — شٹر اسٹاک فوٹو

    بلڈ کلاٹ کی علامات

    بنیادی طور پر بلڈ کلاٹ کی علامات مختلف ہوسکتی ہیں جس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ جسم کے کس حصے میں ایسا ہوتا ہے، مثال کے طور پر ہاتھ یا ٹانگ میں بلڈ کلاٹ پر سوجن، شدید تکلیف، متاثرہ حصہ زیادہ گرم ہوجانا۔

    اسی طرح دماغ میں بلڈ کلاٹ کا نتیجہ فالج کی شکل میں نکلتا ہے جس کی علامات میں بینائی میں تبدیلیاں، seizures۔ بولنے میں مشکلات، کمزوی، چہرے، ایک ہاتھ یا ٹانگ یا جسم کے ایک حصے کا سن ہوجانا یا کسی قسم کا احساس نہ ہونا۔

  • کرونا وائرس مریضوں کے خون میں لوتھڑے کیوں بنتے ہیں؟

    کرونا وائرس مریضوں کے خون میں لوتھڑے کیوں بنتے ہیں؟

    کرونا وائرس کے مریضوں کو اکثر خون میں لوتھڑے بننے کی شکایت ہونے لگتی ہے تاہم ماہرین نے اب اس کی وجہ دریافت کرلی ہے۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد میں ورم اور بلڈ کلاٹس کی ممکنہ وجہ وہ اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جو جسم اس بیماری سے لڑنے کے لیے تیار کرتا ہے، مگر وہ پھیپھڑوں میں غیر ضروری پلیٹ لیٹس سرگرمیوں کو متحرک کردیتی ہیں۔

    طبی جریدے جرنل بلڈ میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کس طرح کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے بننے والی اینٹی باڈیز جان لیوا بلڈ کلاٹس کا باعث بن جاتی ہیں۔

    پلیٹ لیٹس خون کے وہ ننھے خلیات ہیں جو جریان خون کو روکنے یا اس کی روک تھام کے لیے کلاٹس بنانے کا کام کرتے ہیں، مگر جب ان خلیات کے افعال متاثر ہوتے ہیں، تو سنگین طبی اثرات جیسے فالج اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    تحقیق کے لیے کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد کے جسم میں کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین سے لڑنے کے لیے بننے والی اینٹی باڈیز کے نمونے حاصل کیے گئے اور لیبارٹری میں ان کے کلون تیار کیے گئے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ ان اینٹی باڈیز کی سطح پر موجود مواد صحت مند افراد کی اینٹی باڈیز سے مختلف ہیں۔

    جب صحت مند افراد سے حاصل کی گئی اینٹی باڈیز کی لیبارٹری میں کووڈ کے مریضوں کے خلیات جیسی نقول تیار کی گئیں تو ماہرین نے پلیٹ لیٹس سرگرمیوں میں اضافے کا مشاہدہ کیا۔

    تحقیقی ٹیم نے یہ بھی دریافت کیا کہ مختلف ادویات کے متحرک اجزا کی مدد سے ایسا ممکن ہے کہ پلیٹ لیٹس کو ردعمل سے روک کر یا اس کی سطح میں کمی لائی جاسکے۔

    نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وقت مدافعتی نظام کے مسائل کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات سے خلیات کو بہت زیادہ متحرک پلیٹلیٹس ردعمل کو کم یا روکا جاسکے۔

    امپرئیل کالج لندن اور امپرئیل کالج ہیلتھ کیئر این ایچ ایس ٹرسٹ نے اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں پر ان ادویات کے کلینیکل ٹرائلز شروع کردیے ہیں تاکہ دیکھا جاسکے کہ ان سے کووڈ کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس کو کس حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

    اس نئی تحقیق سے برطانیہ میں جاری ٹرائلز کو سائنسی بنیادوں پر سپورٹ ملتی ہے، ابھی ٹرائل کے نتائج تو سامنے نہیں آئے مگر دونوں ٹیموں کی جانب سے اکٹھے مل کر کام کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ اب تک یہ صرف ہمارا خیال تھا کہ پلیٹ لیٹس ممکنہ طور پر کووڈ کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس کا باعث بنتے ہیں مگر اب اس حوالے سے شواہد سامنے آئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم لیبارٹری میں پلیٹ لیٹس پر اپنی تحقیق کے نتائج پر بہت پرجوش ہیں، کیونکہ اس سے اہم میکنزمز کی وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کیسے اور کیوں کووڈ کے بہت زیادہ بیمار افراد کو خطرناک بلڈ کلاٹس کا سامنا ہوتا ہے اور سب سے اہم کہ کس طرح اس کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

    ماہرین نے مزید کہا کہ کرونا کی وبا کے آغاز میں ہی یہ واضح ہوگیا تھا کہ اس بیماری سے مدافعتی ردعمل بہت زیادہ متحرک ہوجاتا ہے جس سے مختلف پیچیدگیوں بشمول بلڈ کلاٹس کا سامنا ہوتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خیال ہے کہ اس وقت آسانی سے دستیاب ادویات سے کووڈ کی اس پیچیدگی کی روک تھام میں مدد مل سکتی ہے، ہم ابھی تک اپنے ٹرائل کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں، اس لیے ابھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان ادویات سے مریضوں کو کس حد تک مدد مل سکتی ہے، مگر ہمیں توقع ہے کہ ایسا ممکن ہوگا۔

    خیال رہے کہ بلڈ کلاٹس کا مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب خون گاڑھا ہوجاتا ہے اور شریانوں میں اس کا بہاؤ سست ہوجاتا ہے، ایسا عام طور پر ہاتھوں اور پیروں میں ہوتا ہے مگر پھیپھڑوں، دل یا دماغ کی شریانوں میں بھی ایسا ہوسکتا ہے۔

    سنگین کیسز میں یہ مسئلہ جان لیوا ہوتا ہے کیونکہ اس سے فالج، ہارٹ اٹیک، پھیپھڑوں کی رگوں میں خون رک جانا اور دیگر کا خطرہ بڑھتا ہے۔

  • کورونا وائرس جسم میں کس طرح تباہی مچاتا ہے؟ نیا انکشاف

    کورونا وائرس جسم میں کس طرح تباہی مچاتا ہے؟ نیا انکشاف

    کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 کے بارے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں اور معلوم ہورہا ہے کہ یہ جسم میں کس طرح تباہی مچاتا ہے۔

    پہلے یہ بات سامنے آئی کہ اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔

    اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

    اسی طرح ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ اس سے مردوں کی تولیدی صحت پر تباہ کن اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔

    اس سے ہٹ کر کوویڈ کے مریضوں میں خون میں آکسیجن کی کمی بھی کسی معمے سے کم نہیں۔ اب انکشاف ہوا ہے کہ کوویڈ کے نتیجے میں مریضوں میں الزائمر جیسے دماغی تنزلی کے عارضے کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

    یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ کلیولینڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ کوویڈ 19 اور الزائمر کے دوران آنے والی دماغی تبدیلیوں کے درمیان تعلق موجود ہے۔

    کوویڈ 19 کے مریضوں اور طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے افراد میں دماغی و ذہنی پیچیدگیاں عام ہوتی ہیں، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ کورونا وائرس دماغی افعال پر ممکنہ طور پر دیرپا اثرات مرتب کرتا ہے۔

    تاہم اب تک یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ وائرس کس طرح ذہنی مسائل کا باعث بنتا ہے۔ محققین نے بتایا کہ کچھ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا کہ کورونا وائرس دماغی خلیات کو براہ راست متاثر کرتا ہے جبکہ دیگر میں ایسے شواہد دریافت نہیں ہوئے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ شناخت کرنا کہ کووڈ کس طرح دماغی مسائل کا باعث بننے والا مرض ہے، مؤثر علاج کی دریافت کے لیے ضروری ہے۔ اس تحقیق کے لیے ماہرین نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے الزائمر اور کووڈ 19 کے مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔

    انہوں نے کورونا وائرس کے میزبان جینز/پروٹینز کے درمیان قربت کی جانچ پڑتال کی اور دیکھا کہ سنگین ذہنی امراض کے شکار افراد میں یہ قربت کتنی ہے۔ محققین نے کورونا وائرس کے دماغی ٹشوز اورر خلیات کو متاثر کرنے والے جینیاتی عناصر کا بھی تجزیہ کیا۔

    اگرچہ محققین کو بہت کم شواہد مل سکے کہ یہ وائرس براہ راست دماغ کو ہدف بناتا ہے، مگر انہوں نے وائرس اور جینز/ پروٹینز کے نیٹ ورک کے درمیان تعلق دریافت کیا جو متعدد دماغی امراض سے منسلک سمجھے جاتے ہیں، جن میں سب سے نمایاں الزائمر ہے۔

    نتائج سے عندیہ ملتا ہکہ کووڈ 19 سے مریضوں میں الزائمر جیسے دماغی تنزلی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس کی مزید جانچ پڑتال کے لیے انہوں نے کووڈ 19 ، ورم اور دماغی انجری کے درمیان تعلق کو بھی دیکھا، یہ دونوں الزائمر کے اہم عناصر ہیں۔

    محققین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس سے دماغی ورم کے نتیجے میں الزائمر کے عناصر میں تبدیلیاں آتی ہیں اور دماغ۔خون کی رکاوٹ میں مخصوص وائرل انٹری فیکٹر کا اثر خلیات پر نمایاں ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر متعدد جینز پر اثرات مرتب کرتا ہے جس کا نتیجہ الزائمر جیسے عارضے کی شکل میں نکل سکتا ہے۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ جو افراد پہلے ہی الزائمر کے خطرے سے دوچار ہوتے ہیں، ان میں کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے الزائمرز ریسرچ اینڈ تھراپی میں شائع ہوئے۔

     

  • ویکسی نیشن کے بعد خون میں پھٹکیوں کی شکایت پر یورپین میڈیسنز ایجنسی کی وضاحت

    ویکسی نیشن کے بعد خون میں پھٹکیوں کی شکایت پر یورپین میڈیسنز ایجنسی کی وضاحت

    یورپین میڈیسنز ایجنسی نے کہا ہے کہ کورونا ویکسین لگوانے کے بعد جسم کے مختلف حصوں میں خون کی پھٹکیاں بننے کا عمل سب کے ساتھ نہیں صرف مخصوص مریض اس سے متاثر ہوئے۔

    یورپین میڈیسنز ایجنسی "ای ایم اے” نے اپنے جائزوں کے نتائج کی رپورٹ منگل کے روز جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خون میں پھٹکیاں بننے کے غیر معمولی عمل کا تعلق خون میں پلیٹ لیٹس کی سطح کم ہونے سے تھا اور یہ کیس آسٹرازینیکا ویکسین کے ضمنی اثرات کے انتہائی مماثل تھے۔

    یورپی یونین کا ادویات کا معائنہ کار ادارہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ خون میں پھٹکیاں بننے کے عمل کو جانسن اینڈ جانسن کی تیار کردہ کورونا ویکسین کی معلومات میں صرف کبھی کبھار ہونے والے ضمنی اثرات میں سے ہونے کے طور پر درج کیا جانا چاہیے۔

    امریکہ میں 70 لاکھ سے زائد افراد کو یہ ویکسین لگائی جاچکی ہے جبکہ ان میں سے صرف 8 افراد میں دماغ یا جسم کے دیگر حصوں میں خون کی پھٹکیاں بننے کی شکایت پیدا ہوئی۔ ان میں سے ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا۔

    ای ایم اے کے مطابق 60 برس سے کم عمر کے 8 افراد میں ویکسین لگانے کے بعد 3 ہفتوں کے اندر یہ ضمنی اثرات ظاہر ہوئے۔ ان کی اکثریت خواتین کی تھی۔

    ادارے کے مطابق ایسا ہونے کی ایک وجہ جسم کا مدافعتی ردعمل ہو سکتا ہے۔ تاہم ادارے کے مطابق مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مذکورہ ویکسین سے کوویڈ 19 سے بچاؤ کے فوائد اس کے ضمنی اثرات سے کہیں زیادہ ہیں۔

    ادارے نے عوام سے کہا ہے کہ ویکسین لگانے کے 3 ہفتوں کے اندر سانس لینے میں مشکل، سینے میں درد یا ٹانگوں پر ورم آجانے جیسی علامات کی صورت میں فوراً طبی امداد حاصل کریں۔

    ای ایم اے کے اعلان کے بعد جانسن اینڈ جانسن نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں طبی عملے کو، خون میں پلیٹلیٹس کی کم سطح والے افراد میں ویکسین کے کبھی کبھار ہونے والے ضمنی اثرات کے طور پر خون میں پھٹکیاں بننے کی علامات سے خبردار کیا گیا ہے۔

  • ایک اور کرونا ویکسین خون میں لوتھڑے بنانے کا سبب بننے لگی

    ایک اور کرونا ویکسین خون میں لوتھڑے بنانے کا سبب بننے لگی

    امریکی ملٹی نیشنل کمپنی جانسن اینڈ جانسن کی کرونا ویکسین کے استعمال سے بھی خون میں لوتھڑے بننے کی شکایات سامنے آنا شروع ہوگئیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق یورپین میڈیسن ایجنسی (ای ایم اے) نے جانسن اینڈ جانسن کی کووڈ 19 ویکسین اور بلڈ کلاٹس کیسز کے درمیان ممکنہ تعلق کو دریافت کیا ہے۔

    ای ایم اے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ویکسین کے استعمال اور بلڈ کلاٹس کے غیر معمولی کیسز جن میں بلڈ پلیٹ لیٹس کی مقدار کم ہوجاتی ہے، کے درمیان تعلق موجود ہے۔

    یورپی ادارے نے بتایا کہ مجموعی طور پر ویکسین کے فوائد خطرے سے زیادہ ہیں مگر اس تعلق کو ویکسین کے کبھی کبھار سامنے آنے والے مضر اثرات کی فہرست کا حصہ بنانا چاہیئے۔

    ای ایم اے نے مشورہ دیا کہ اس حوالے سے ایک انتباہ ویکسین شاٹ کی تفصیلات کے ساتھ منسلک ہونا چاہیئے۔

    جانسن اینڈ جانسن نے اس حوالے سے کہا ہے کہ وہ کبھی کبھار سامنے آنے والے اس مضر اثر کی تفصیلات اپنے پمفلٹس میں شامل کرے گی اور یورپ کے لیے ویکسین کی فراہمی کا سلسلہ بحال کیا جائے گا۔

    جانسن اینڈ جانسن کے چیف سائنٹیفک افسر پال اسٹوفلز نے بتایا کہ لوگوں کا تحفظ ہماری مصنوعات کی سرفہرست ترجیح ہوتی ہے، ہم اس حوالے سے پی آر اے سی کے ریویو کو سراہتے ہیں اور اس اثر کی علامات کے بارے میں لوگوں کا شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔

    خیال رہے کہ امریکا نے اپریل کے شروع میں جانسن اینڈ جانسن کی سنگل ڈوز کووڈ ویکسین کا استعمال روک دیا تھا جس کی وجہ چند افراد میں بلڈ کلاٹس کے کیسز سامنے آنا تھا۔

    اس ویکسین کو استعمال کرنے والے 8 افراد میں بلڈ کلاٹس کے کیسز سامنے آئے جن کی عمریں 60 سال سے کم تھی اور بیشتر خواتین تھیں۔ ان سب میں بلڈ کلاٹس ویکسی نیشن کے 3 ہفتے کے اندر رپورٹ ہوئے۔

    امریکا میں ابب تک 79 لاکھ افراد کو یہ ویکسین استعمال کروائی جاچکی ہے۔

  • ایسٹرا زینیکا ویکسین بلڈ کلاٹس کی وجہ کیوں بن رہی ہے؟

    ایسٹرا زینیکا ویکسین بلڈ کلاٹس کی وجہ کیوں بن رہی ہے؟

    برطانیہ کی آکسفورڈ اور ایسٹرا زینیکا کرونا ویکسین کے استعمال کے بعد خون جمنے اور لوتھڑے بننے کی شکایات سامنے آئی ہیں تاہم اب ماہرین نے اس کی وجہ دریافت کرلی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یورپین اور برطانوی میڈیسن ریگولیٹرز نے ایسٹرازینیکا کرونا وائرس ویکسین اور بلڈ کلاٹ کی ایک نایاب قسم کے درمیان ممکنہ تعلق کو دریافت کرلیا ہے۔

    برطانوی حکومت کے ایڈوائزری گروپ نے کہا ہے کہ ایسٹرازینیکا ویکسین جہاں ممکن ہو 30 سال سے کم عمر افراد کو استعمال نہ کروائی جائے۔ گروپ کے مطابق یہ مشورہ تحفظ کے خدشات کی بجائے احتیاط کے طور پر دیا گیا ہے۔

    ویکسینز ایڈوائزری جوائنٹ کمیٹی کے سربراہ وئی شین لیم نے کہا کہ 30 سال سے کم عمر افراد جو پہلے سے کسی بیماری سے متاثر نہ ہوں انہیں کوئی اور ویکسین دی جانی چاہیئے۔

    برطانیہ کے ہیلتھ ریگولیٹر کی سربراہ جون رائنے نے کہا کہ لوگوں کی اکثریت کے لیے ویکسین کے فوائد خطرات کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

    یورپ میں لاکھوں افراد کو اس ویکسین کا استعمال کروایا گیا اور چند درجن افراد میں بلڈ کلاٹ (خون گاڑھا ہو کر جمنے سے لوتھڑے بننا) کی رپورٹس کے بعد متعدد ممالک میں اس ویکسین کا استعمال معطل کردیا گیا۔

    دوسری جانب یورپین میڈیسن ایجنسی نے 7 اپریل کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ طبی ماہرین اور ویکسین استعمال کرنے والے افراد کو بلڈ کلاٹس کی ایک نایاب قسم کے امکان کی یاد دہانی کروانا ضروری ہے۔

    بیان میں کہا گیا کہ اب تک زیادہ تر کیسز 60 سال سے کم عمر خواتین میں ویکسی نیشن کے 2 ہفتے کے اندر رپورٹ ہوئے، تاہم اس وقت دستیاب شواہد سے خطرے کا باعث بننے والے عناصر کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کووڈ 19 کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے افراد کو بھی بلڈ کلاٹس کا سامنا ہوتا ہے۔

    ای ایم اے کی سیفٹی کمیٹی کی عہدیدار سابین اسٹروس نے بتایا کہ یورپی ممالک میں 3 کروڑ 40 لاکھ خوراکیں دی جا چکی ہیں اور اپریل کے اوائل میں دماغ میں بلڈ کلاٹ کے 169 کیسز رپورٹ ہوئے۔

    انہوں نے بتایا کہ ہم جانتے تھے کہ ہم بہت بڑے پیمانے پر ویکسینز کو متعارف کروا رہے ہیں، تو اس طرح کے واقعات نظر آسکتے ہیں اور ان میں سے کچھ اتفاقیہ ہوں گے۔

    یاد رہے کہ ایسٹرا زینیکا ویکسین کم لاگت ویکسین ہے جس کو محفوظ کرنے کے لیے زیادہ ٹھنڈک کی بھی ضرورت نہیں۔ برطانیہ اور یورپ میں ویکسین کو بہت زیادہ افراد کو استعمال کروایا گیا ہے اور اب اسے ترقی پذیر ممالک کے ویکسی نیشن پروگرام کا حصہ بنایا جارہا ہے۔

  • برطانیہ : کورونا ویکسین کا ری ایکشن، سات افراد ہلاک

    برطانیہ : کورونا ویکسین کا ری ایکشن، سات افراد ہلاک

    لندن : برطانیہ کے طبی نگران ادارے نے کہا ہے کہ ایسٹرا زینیکا کی کورونا ویکسین لینے کے بعد خون جمنے (بلڈ کلاٹنگ) کی شکایت کرنے والے افراد میں سے سات کی موت واقع ہوگئی ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق برطانوی نگران ادارے نے سنیچر کو سات افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔

    برطانوی میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسٹرا زینیکا کی ویکسین لینے کے بعد 30 افراد میں خون جمنے کی شکایت سامنے آئی تھی۔ جس میں سے سات ہلاک ہو گئے ہیں۔

    دوسری طرف برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق ہیماٹالوجی پینل کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین کے فوائد اس کے نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں۔

    ایم ایچ آر اے کی چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر جون رینے کا کہنا ہے کہ ایجنسی رپورٹس کا تفصیل سے جائزہ لے رہی ہے، لیکن ویکسین لگانے کا عمل جاری رہے گا۔

    انہوں نے کہا کہ ایسٹرازینیکا کی وجہ سے وبا پر قابو پانے میں مدد مل رہی ہے اور لوگوں کو جب ویکسین لگوانے کا کہا جائے تو انہیں لگوانی چاہیے۔

    ہم ماہرین صحت سے کہہ رہے ہیں کہ کورونا وائرس ییلو کارڈ ویب سائٹ ہر ایسے کیس کی رپورٹ کریں جس کا تعلق ویکسین سے بنتا ہے۔

    یونیورسٹی آف ایسٹ اینجلیا میں میڈیسن کے پروفیسر پاؤل ہنٹر نے کہا ہے کہ جن لوگوں کو اییسٹرازینیکا ویکسین نہیں لگی ان کے کورونا وائرس کی وجہ سے مرنے کے مواقع بہت زیادہ ہیں، لہذا یہ بات مجھے ویکسین کی دوسری خوراک لگوانے سے نہیں روک سکتی۔

    یاد رہے کہ چند ممالک میں ایسٹرا زینیکا کی ویکسین کے استعمال کے بعد بلڈ کلاٹنگ کے واقعات سامنے آئے تھے جس کے بعد ویکسین لگانے کا عمل معطل کر دیا گیا تھا۔

    ویکسین سے متعلق شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت کے چیف سائنسدان سومیا سوامیناتھن نے تمام ممالک کو ایسٹرا زینیکا ویکسین کا استعمال جاری رکھنے کا کہا تھا۔