Tag: blood test

  • ایسا بلڈ ٹیسٹ جو 8 سال بعد ہونے والی بیماری کا بتا دے گا

    ایسا بلڈ ٹیسٹ جو 8 سال بعد ہونے والی بیماری کا بتا دے گا

    لندن : برطانیہ کے محققین نے تحقیق کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا، ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایسا بلڈ ٹیسٹ تیار کیا ہے جو 8 سال بعد ہونے والے مرض کی تشخیص کرسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی ڈیوک یونیورسٹی کے محققین نے گھٹنے میں اوسٹیو ارتھرائٹس کی تشخیص سے متعلق ایک مطالعہ کیا، انہوں نے خون میں ایسے کیمیکل پائے ہیں جو اس حالت کی نشوونما کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

    ماہرین صحت کا دعویٰ ہے کہ جدید اور منفرد بلڈ ٹیسٹ سے جوڑوں اور خصوصی طور پر گھٹنوں کے دائمی مرض یعنی آسٹیوآرتھرائٹس کی 8 سال قبل ہی تشخیص ہوجائے گی۔

    osteoarthritis

    اوسٹیو ارتھرائٹس ایک عام حالت ہے اور خاص طور پر اس مرض کی تشخیص ایکسرے کرانے پر اس وقت ہوتی ہے جب کسی کو جوڑوں میں درد محسوس ہوتا ہو۔ محققین نے بتایا کہ بائیو مارکر ٹیسٹ آٹھ سال پہلے تک اوسٹیو ارتھرائٹس کی پیش گوئی کر سکتا ہے۔

    آسٹیوآرتھرائٹس جوڑوں اور خصوصی طور پر گھٹنوں کے شدید اور دائمی درد کو کہا جاتا ہے جو کہ عام طور پر بڑھتی ہوئی عمر میں ہوتا ہے، تاہم بعض وجوہات کی بنا پر یہ نوجوانوں پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔

    طبی جریدے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین صحت نے درجنوں رضا کاروں پر تحقیق کی جس کا دورانیہ 10 سال تھا، ان رضاکاروں کی عمریں 45 سے 65 سال کے درمیان تھیں جن میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی، اس دوران رضاکاروں کے ایکسرے اور باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) ٹیسٹ بھی کیے گئے۔

    Blood test

    تحقیق کے ابتدائی ایام کے پہلے دو سال بعد اور بعد ازاں 6 سال بعد دوبارہ ٹیسٹ لیے گئے جس کے بعد ایک بار پھر ان افراد کی بیماری کا جائزہ لیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق بلڈ سیرم کے ذریعے آسٹیوآرتھرائٹس کے ممکنہ شکار ہونے والے افراد میں (cartilage) کے ساتھ ساتھ (synovium) اور (peptides) کیمیکلز کی زیادہ مقدار پائی گئی۔

    ماہرین نے تینوں کیمیکل کے بلڈ ٹیسٹ کا موازنہ 8 سال بعد ایکسریز اور بی ایم آئی ٹیسٹس سے کیا اور دیکھا کہ جن میں بلڈ ٹیسٹ میں مسئلہ تھا، ان رضاکاروں میں آسٹیوآرتھرائٹس کی تشخیص ہوئی۔

     

  • کیمو تھراپی کے بجائے کینسر کا نیا طریقہ علاج

    کیمو تھراپی کے بجائے کینسر کا نیا طریقہ علاج

    برطانیہ میں پھیپھڑوں کے کینسر کے علاج کیلئے نئے طریقہِ علاج پر عمل کیا جارہا ہے جس سے مریض کو اسپتال نہیں جانا پڑتا اور کیموتھراپی کے برعکس اس طریقہِ علاج سے مریض میں کمزوری بھی نہیں ہوتی۔

    اس حوالے سے پھیپھڑوں کے کینسر کے ممکنہ ہزاروں مریضوں کو خون کے ٹیسٹ کرانے کی پیشکش کی جارہی ہے جس سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ آیا وہ ٹارگٹڈ علاج تک جلد رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ مذکورہ ٹیسٹ علاج میں سہولت اور مدد کے لیے آسانی فراہم کرتا ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کچھ ٹیومرز کا علاج معیاری کیمو تھراپی کے بجائے گولیوں سے کیا جاسکتا ہے جن کے سائیڈ ایفیکٹس بھی کم ہوتے ہیں۔

    پھیپھڑوں کے کینسر کی مریض 33 سالہ کیٹ رابنسن اسپتال میں علاج کروانے کے بجائے گھر پر ہی گولیاں لینے میں کامیاب رہیں اور اس طرح انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ بھی زیادہ وقت گزارا۔

    کیٹ کا کہنا ہے کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ ان کے پاس زندہ رہنے کے لیے کم از کم ایک سال ہے لیکن شاید کچھ اور وقت بھی مل جائے۔

    وہ ان دو ہزار مریضوں میں شامل ہیں جنہوں نے کینسر کی علامات ظاہر ہونے پر پہلے ہی ٹیسٹ کروا لیا تھا۔

    اگلے سال انگلینڈ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے 80 سماجی اداروں میں پھیپھڑوں کے کینسر کے مشتبہ مزید 10ہزار مریضوں کو اس ٹیسٹ کی پیشکش کی جائے گی۔

    کیٹ کے کینسر کی علامات سر درد کے ساتھ سامنے آنا شروع ہوئیں جو دور نہیں ہورہا تھا تو ان پھر 2 ہفتوں کے بعد ان کی بہن نے انہیں ڈاکٹر کو دکھانے پر آمادہ کیا۔

    کیٹ نے کہا کہ میں نے سوچا کہ یہ درد شقیقہ ہے لیکن میرے ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کو فوراً اسپتال جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا فوری طور پر ایم آر آئی اور سی ٹی کیا گیا اور اسپتال میں قدم رکھنے کے 2 گھنٹے کے اندر میں ایک آنکولوجی (کینسر کے ماہر) ڈاکٹر کے سامنے بیٹھی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ ان کے دماغ میں 7 ٹیومر پائے گئے جو سر میں درد کا باعث بن رہے تھے لیکن مزید تحقیقات سے پتا چلا کہ ان کا بنیادی کینسر کے پھیپھڑوں میں تھا جہاں 3 ٹیومرز تھے، کینسر کیٹ کے لمف نوڈس اور ان کی کھوپڑی میں بھی پھیل گیا تھا۔

    انہیں خون کے ٹیسٹ کی پیشکش کی گئی جسے ’مائع بایوپسی‘بھی کہا جاتا ہے جو ڈی این اے کے ان ٹکڑوں کو تلاش کرتا ہے جو ٹوٹ کر ٹٰیومر کی شکل میں خون میں ہوتے ہیں۔

    یہ تغیر اکثر ایسے کم عمر مریضوں میں دیکھا جاتا ہے جو پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں اور کیٹ کی طرح سگریٹ نوشی نہیں کرتے، اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کے لیے بہترین علاج بریگیٹینیب نامی ٹارگٹڈ دوائی تھی۔

    کیٹ نے کہا کہ وہ مجھے ریڈیو تھراپی اور پھر کیموتھراپی کے لیے تیار کیا جا رہا تھا لیکن اس کے بجائے میں روزانہ اس گولی کے استعمال کے حق میں تھی‘۔ وہ کہتی ہیں کہ متلی کے علاوہ اس کے بہت کم ضمنی اثرات ہوئے ہیں۔

    انگلینڈ بھر سے مریضوں کے خون کے ٹیسٹوں کا تجزیہ سوٹن، سرے کے رائل مارسڈن اسپتال کی لیبارٹری میں کیا جائے گا جس کا نتیجہ 14 دنوں میں آئے گا۔

    مارسڈن کے کنسلٹنٹ کلینیکل آنکولوجسٹ پروفیسر سنجے پوپٹ کہتے ہیں کہ خون کے ٹیسٹ کا استعمال ایک شاندار خیال ہے اور اس کا مطلب ہے کہ مریضوں کو اپنے کینسر کے صحیح علاج تک تیزی سے رسائی حاصل ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ بریگیٹینیب غیر چھوٹے خلیوں کے پھیپھڑوں کے کینسر کے8 ٹارگٹڈ علاجوں میں سے ایک ہے جو پھیپھڑوں کے کینسر کے کم از کم 80 فیصد کیسز کا باعث بنتا ہے۔ یہ تمام ادویات گولیاں ہیں جو مریض گھر بیٹھے لے سکتے ہیں۔

    پروفیسر سنجے نے کہا کہ یہ گولیاں انتہائی مؤثر ہیں اور ان کے ضمنی اثرات کا پروفائل بہت اچھا ہے جبکہ اس کے برعکس کیموتھراپی مشکل ہےجو لوگوں کو تھکا دیتی ہے اور متلی اور بالوں کے گرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

    تاہم ان کا کہنا تھا کہ خون کے ٹیسٹ یا ’مائع بایوپسی‘ کے استعمال سے بچوں میں چھاتی کے کینسر اور دیگر کینسر کا امکان ہوتا ہے۔

    ’یہ این ایچ ایس کی ایک اہم پیشرفت ہے‘

    نیشنل کلینیکل ڈائریکٹر برائے کینسر این ایچ ایس پیٹر جانسن کا کہنا ہےاین ایچ ایس نے دکھا دیا ہے کہ یہ کینسر کی تشخیص اور علاج میں جدت طرازی میں آگے ہے اور یہ پائلٹ مریضوں کو جدید ترین علاج اور علاج فراہم کرنے کے لیے ہمارے عزم کی ایک اور مثال ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس سے پھیپھڑوں کے کینسر کا سامنا کرنے والے لوگوں کو اپنے پیاروں کے ساتھ زیادہ گزارنے کا موقع بھی ملے گا۔

  • الزائمر کی تشخیص 15 سال قبل کیسے ہوسکتی ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    الزائمر کی تشخیص 15 سال قبل کیسے ہوسکتی ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    اسٹاک ہوم : سوئیڈن میں سائنسدانوں نے ایک ایسے سادہ سے خون ٹیسٹ کو دریافت کیا ہے جو الزائمر کی تشخیص اس کی علامات ظاہر ہونے سے 15 برس قبل کرسکے گا۔

    اس ٹیسٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ خون میں موجود تاؤ پروٹین کا پتہ لگایا جا سکتا ہے جو الزائمر کی علامات ظاہر ہونے سے 10 سے 15 سال قبل دماغ پر بننا شروع کردیتا ہے۔

    اس تحقیق سے متعلق ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ٹیسٹ بیماری کی جلد تشخیص میں انقلابی تبدیلی کا باعث بنے گا۔ یونیورسٹی کالج لندن کی رہنمائی میں کی گئی تحقیق میں یہ ٹیسٹ تکلیف دہ لمبر پنکچرز کی نسبت زیادہ درست اور دیگر ٹیسٹ کی نسبت زیادہ بہتر پایا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سوئیڈن کی یونیورسٹی آف گوتھنبرگ میں کی گئی تحقیق کے نتائج جرنل نیورولوجی میں شائع کیے گئے، جس میں ڈاکٹر ایشٹن نکولس نے 786 افراد پر تجربہ کیا تھا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ٹیسٹ 50 برس سے زیادہ کی عمر والے افراد کے لیے ملکی سطح پر اسکریننگ پروگرام کی راہ ہموار کرسکتا ہے اور موجودہ علاج بیماری کی جلدی تشخیص کے بعد بہتر کام کرسکتے ہیں۔

    وضع ہونے والا ٹیسٹ خون میں موجود پی-ٹاؤ 217 نامی پروٹین کی مقدار کی پیمائش کرتے ہوئے کام کرتا ہے جو الزائمر بیماری کے دوران دماغ میں ہونے والی تبدیلیاں واضح ہوتی ہیں۔

    یونیورسٹی کالج لندن کے جینیٹکس انسٹیٹیوٹ کے اعزازی پروفیسر ڈیوڈ کرٹس کا کہنا تھا کہ 50 برس سے زیادہ عمر کا کوئی بھی فرد ہر چند سالوں میں باقاعدگی کے ساتھ معائنے کی سہولت دے سکے گا بالکل ویسے ہی جس طرح کولیسٹرول کے لیے معائنہ کیا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ موجودہ علاجوں کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ بیماری کی جلدی تشخیص کے بعد بہتر طریقے سے کام کرسکیں۔

    واضح رہے کہ الزائمر ایک ایسی بیماری ہے جو یادداشت کو متاثر کرتی ہے اس کے اثرات آہستہ آہستہ ظاہر ہوتے ہیں۔

    مریض معمولات اور روزمرہ کے واقعات کو بھول جاتا ہے، عموماً 65 سال سے زائد عمر کے افراد اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں یہ بیماری ڈیمینشیا نہیں بلکہ اس کی ہی ایک قسم ہے۔

    الزائمر ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں جینیاتی، ماحولیاتی اور طرز زندگی شامل ہیں، اس کا کوئی مکمل علاج تو نہیں لیکن کچھ اقدامات سے مرض کو روکا ضرور جا سکتا ہے۔

     

  • ڈپریشن کی تشخیص اب بلڈ ٹیسٹ سے ہوسکے گی

    ڈپریشن کی تشخیص اب بلڈ ٹیسٹ سے ہوسکے گی

    ذہنی امراض کی ایک عام قسم بائی پولر ڈس آرڈر کی تشخیص اب بلڈ ٹیسٹ سے ہوسکے گی، ماہرین نے اس سلسلے میں اہم تحقیق کی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق فرانس، سوئٹزر لینڈ اور امریکی ماہرین کی ٹیم نے برسوں کی محنت کے بعد ایک بلڈ ٹیسٹ وضع کیا ہے جو پائی پولر ڈس آرڈر کی کیفیت شناخت کرسکتا ہے، اس سے دنیا بھر کے کروڑوں مریضوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

    پیرس کی یونیورسٹی آف مونٹ پیلیئر، سوئٹزر لینڈ میں واقع لیس ٹوائسس سائیکائٹری مرکز، اور امریکا میں یونیورسٹی آف پٹسبرگ سمیت فرانس کی ایک بائیو ٹیکنالوجی کمپنی نے انکشاف کیا ہے کہ انسانی خون میں 6 بائیو مارکر یا اجزا ایسے ہیں جو بائی پولر ڈس آرڈر کو ظاہر کر سکتے ہیں۔

    انہوں نے اسی بنا پر ایک آسان بلڈ ٹیسٹ وضع کیا ہے، توقع ہے کہ اس طرح نہ صرف کروڑوں افراد مستفید ہوں گے بلکہ ان میں بائی پولر اور یونی پولر ڈس آرڈر اور ڈپریشن کی شناخت بھی آسان ہوجائے گی۔

    بائی پولر ڈس آرڈر میں موڈ اور مزاج تیزی سے تبدیل ہوتا رہتا ہے، کبھی بے پناہ خوشی، کبھی غیر معمولی اداسی اور کبھی ڈپریشن یا گہری سنجیدگی کا راج ہوتا ہے۔

    یہ رویہ اس شخص کے اطراف رہنے والے لوگوں اور اہلخانہ کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ ان کی شخصیت اور مزاج کی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔

    ماہرین کے مطابق بائی پولر ڈس آرڈر کو کونسلنگ کے ذریعے شناخت کرنے میں ناکامی کا سامنا ہوسکتا ہے، بعض مریضوں میں تو اس کی شناخت 5 یا 7 برس تک نہیں ہو پاتی اور یوں معاملہ تیزی سے بگڑتا جاتا ہے۔

    توقع ہے کہ خون میں 6 بائیو مارکرز سے اس کیفیت کی شناخت اور علاج میں مدد ملے گی۔

  • ماہرین نے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے نیا سستا طریقہ دریافت کر لیا

    ماہرین نے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے نیا سستا طریقہ دریافت کر لیا

    آکسفورڈ: طبی ماہرین نے کینسر کی جلد تشخیص کے لیے نیا سستا طریقہ دریافت کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کینسر کے محققین نے ایک نیا خون کا ٹیسٹ تیار کیا ہے جو مریضوں کے لیے تشخیص اور علاج کو بہتر بنا سکتا ہے۔

    یہ پہلا ٹیسٹ ہے جس سے نہ صرف کینسر کی موجودگی کا بلکہ جسم کے اندر بیماری کے پھیلاؤ کا بھی پتا لگایا جا سکتا ہے، یعنی یہ کہ بیماری کس اسٹیج پر پہنچ چکی ہے۔

    فی الوقت، جن مریضوں میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے ان کو امیجنگ اور ٹیسٹنگ سے گزرنا پڑتا ہے، اس کے بعد ڈاکٹر یہ بتا سکتے ہیں کہ آیا یہ جسم کے کسی دوسرے حصے میں پھیل چکا ہے یا نہیں، وہ کینسر جو پھیل چکا ہے اسے میٹاسٹیٹک کینسر کہا جاتا ہے، یہ جاننے کے بعد علاج شروع ہوتا ہے، ایک ہی جگہ میں ٹیومر والے مریضوں کو لوکل ٹریٹمنٹ دی جاتی ہے، جیسا کہ سرجری، جب کہ کینسر پھیلنے کی صورت میں انھیں کیموتھراپی یا ہارمون تھراپی جیسے پورے جسم کے علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اب خون کے اس نئے ٹیسٹ نے، 300 مریضوں میں سے 94 فی صد میں میٹاسٹیٹک کینسر کی کامیابی سے شناخت کی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے تیار کردہ اس ٹیسٹ میں NMR میٹابولومکس نامی ایک نئی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے، جو خون میں بائیو مارکر کی موجودگی کی نشان دہی کرتی ہے، جسے میٹابولائٹس کہتے ہیں۔ یہ چھوٹے کیمیکلز ہیں جو ہمارا جسم قدرتی طور پر پیدا کرتا ہے۔

    اس ریسرچ پر کام کرنے والے آنکولوجسٹ ڈاکٹر جیمز لارکن نے وضاحت کی کہ میٹابولائٹس خون میں موجود کوئی بھی چھوٹے مالیکیولز، جیسا کہ گلوکوز، لیکٹک ایسڈ، یا امینو ایسڈز ہیں۔ آپ کے خون میں موجود میٹابولائٹس کے پیٹرن مختلف ہوتے ہیں، اور ان کا انحصار اس امر پر ہوتا ہے کہ آپ کے جسم میں کیا ہو رہا ہے، یعنی کوئی ایسی چیز جو کینسر جیسی بیماریوں سے متاثر ہو رہی ہو۔

    یہ ٹیسٹ یہ بتا سکتا ہے کہ آیا کسی شخص کا کینسر پھیل گیا ہے، اس صورت میں مریض کا ایک مخصوص میٹابولومک پروفائل ہوگا، جو کہ اس شخص کے کینسر سے مختلف ہوگا جو نہیں پھیلا، یا جسے کینسر ہی نہ ہو۔

    یہ ٹیسٹ خون میں میٹابولائٹس کی پیمائش کے لیے مقناطیسی فیلڈز اور ریڈیو لہروں کا استعمال کرتا ہے اور انسانی جسم میں کینسر کی موجودگی اور اس کے پھیلاؤ کا تعین ہوتا ہے۔

    محققین نے وضاحت کی کہ یہ ٹیسٹ کینسر کی متعدد اقسام کا پتا لگا سکتا ہے اور غیر مخصوص علامات والے مریضوں میں بھی کینسر کی موجودگی کی نشان دہی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چوں کہ یہ ٹیسٹ جلد ہو جاتا ہے اور سستا ہے، لہٰذا اس سے کینسر کی جلد تشخیص میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔

  • خون کا ٹیسٹ کرونا وائرس کی شدت کے بارے میں بتا سکتا ہے

    خون کا ٹیسٹ کرونا وائرس کی شدت کے بارے میں بتا سکتا ہے

    کرونا وائرس کا شکار ہوجانے والے افراد میں قبل از وقت اس کی شدت کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پیماری کیا رخ اختیار کرے گی۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق خون کے ٹیسٹوں کے ذریعے کرونا وائرس کی شدت کے بارے میں جاننا ممکن ہوسکتا ہے۔

    ییل یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ خون کے ٹیسٹوں سے ایسے بائیو میکرز کی شناخت کی جاسکتی ہے جو خون کے خلیات کے متحرک ہونے اور موٹاپے سے منسلک ہوتے ہیں، جن سے کووڈ 19 کے مریضوں میں بیماری کی شدت کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔

    طبی جریدے بلڈ ایڈوانسز میں شائع تحقیق میں شامل محقق ڈاکٹر ہیونگ چون نے بتایا کہ ان افراد میں یہ حیاتیاتی سگنلز کی سطح زیادہ ہوتی ہے، ان کا آئی سی یو میں داخلے، وینٹی لیٹر کی ضرورت یا موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس سے قبل بھی تحقیقی رپورٹس میں کووڈ 19 کی ممکنہ سنگین بیماری کی شناخت کے لیے ڈی ڈیمیر اور مدافعتی پروٹینز کی نشاندہی کی گئی تھی، تاہم اب تک ایسا کوئی ٹیسٹ تشکیل نہیں دیا جا سکا تھا جو کووڈ کے مریضوں میں بیماری کی شدت کی پیشگوئی کر سکے۔

    اس تحقیق کے لیے محقین نے کووڈ کے 100 مریضوں کے خون میں متعدد پروٹینز کی اسکریننگ کرکے دیکھا کہ ان میں بیماری کی شدت کیا ہوسکتی ہے۔

    تمام مریضوں کے خون کے نمونے اسپتال میں داخلے کے پہلے روز لیے گئے، جبکہ ییل نیو ہیون ہاسپٹل سسٹم میں زیر علاج 3 ہزار سے زائد مریضوں کے کلینیکل ڈیٹا کا تجزیہ بھی کیا گیا۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ 5 پروٹینز ریزیزٹن، لپوکالن 2، ایچ جی ایف، آئی ایل 8 اور جی سی ایس ایف خون کے سفید خلیات کی ایک قسم نیوتھرو فلز سے منسلک ہوتے ہیں، جن کی سطح کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار ہونے والے افراد میں بڑھ جاتی ہے۔

    ان میں سے بیشتر پروٹینز کو ماضی میں موٹاپے سے بھی جوڑا جاتا رہا ہے مگر کووڈ یا کسی وائرل بیماری سے تعلق پہلی بار سامنے آیا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ بائیو میکرز ایسے مریضوں میں بڑھ جاتے ہیں جن میں علامات بھی ظاہر نہ ہوں مگر بعد میں بیماری کی شدت سنگین ہوگئی، اسی طرح ان بائیو میکرز کی شرح ان افراد میں کم ہوتی ہے جن میں بیماری کی شدت معتدل رہتی ہے اور ان میں سے کسی کی موت بھی واقع نہیں ہوئی۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار ہے جب دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے خون میں موجود پروٹینز کی سطح سے بیماری کی شدت کی پیشگوئی کافی پہلے کی جاسکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس طرح کی پیشگوئی جلد کرنا مریض کے علاج میں زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

  • موت کی پیشگوئی کرنے والا بلڈ ٹیسٹ

    موت کی پیشگوئی کرنے والا بلڈ ٹیسٹ

    برلن : جرمن سائنسدانوں نے بلڈ ٹیسٹ سے موت کی پیشگوئی کا دعویٰ کردیا ، فی الحال یہ بلڈ ٹیسٹ عام استعمال کے لیے متعارف نہیں کرایا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن سائنسدانوں نے ایک ایسا بلڈ ٹیسٹ تیار کیا ہے جو اگلے 10 برسوں میں کسی فرد کی موت کے امکانات کی پیشگوئی کرسکے گا۔

    سائنسدانوں نے 44 ہزار افراد کا تجزیہ کرنے کے بعد خون کے 14 ایسے بائیومیکر دریافت کیے ہیں جو موت کے خطرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔یہ بائیومیکر قوت مدافعت سے لے کر گلوکوز کنٹرول، چربی کی گردش اور ورم وغیرہ پر مشتمل ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ان بائیو میکر پر کیے جانے والے تجربات کے دوران 2 سے 16 برسوں کے دوران کسی کی موت کے بارے میں 83 فیصد درستگی پر مبنی پیشگوئیاں کی گئیں۔

    یہ بلڈ ٹیسٹ فی الحال عام استعمال کے لیے متعارف نہیں کرایا گیا مگر سائنسدانوں کو توقع ہے کہ تحقیق کے نتائج سے مستقبل میں کسی مریض کے علاج کے لیے اسے استعمال کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    ماہرین نے اسے پیشرفت قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی اسے حقیقی زندگی میں استعمال کے لیے پیش کیا جائے۔

    میکس پلانک انسٹیٹوٹ آف بائیولوجی آف ایجنگ کی اس تحقیق میں 18 سے 109 سال کی عمر کے ہزاروں افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا اور اس کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔

    اس سے قبل گزشتہ سال امریکا کی یالے یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک تحقیق میں دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے بلڈ ٹیسٹ کا ایسا طریقہ کار تیار کیا ہے، جس کے ذریعے پیشگوئی کی جاسکتی ہے کہ کسی فرد کی کتنی زندگی باقی ہے۔

    تحقیق میں محققین کا اصرار تھا کہ کسی فرد کی عمر کے حوالے سے پیشگوئی کرنے والا یہ بلڈ ٹیسٹ سے انتہائی مستند، عملی اور آسان ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں اسے عملی طور پر آزمایا جاسکے گا تاہم جینیاتی ٹیسٹ کی بجائے یہ نتائج پتھر پر لکیر کی طرح نہیں ہوں گے، اب وہ ان عناصر کا تعین کرنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے خلیات کی عمر بڑھتی ہے، تاکہ لمبی عمر کے لیے لوگوں کی مدد کی جاسکے، نوجوان یا درمیانی عمر کے افراد، سب کو لگتا ہے کہ وہ صحت مند ہیں مگر ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اس ٹیسٹ سے لوگوں کو حقیقی خطرے سے آگاہ کرنے میں مدد مل سکے گی اور ایسے عناصر کو مانیٹر کیا جاسکے گا جو مستقبل میں خطرہ بن سکتے ہیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ ٹیسٹ کسی فرد کی عمر کی بہتر پیشگوئی میں مددگار ہے کیونکہ یہ انسانی جسم کے اندر عمر بڑھنے کے اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔

  • شرجیل میمن کا ٹیسٹ دوبارہ ہوگا، خون کے نمونے دو لیبارٹریز بھجوادیے گئے

    شرجیل میمن کا ٹیسٹ دوبارہ ہوگا، خون کے نمونے دو لیبارٹریز بھجوادیے گئے

    کراچی : پیپلز پارٹی رہنما شرجیل میمن کے خون کے نمونے دوبارہ حاصل کرلیے گئے، مشکوک رپورٹ کے باعث اب دو لیبارٹریز میں ڈی این اے ٹیسٹ ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق شرجیل میمن کے خون کے نمونے ایک بار پھر حاصل کرلیے گئے جنہیں ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد رزلٹ کو پرانے نمونوں سے کراس میچ کرایا جائے گا تاکہ پتہ چل سکے کہ سابقہ خون کا نمونہ شرجیل میمن کا تھا یا نہیں۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ خون کے نمونوں کو کراس چیک کیلئے آغاخان اسپتال بھجوا دیا گیا ہے، شرجیل میمن کے ڈی این اے کے نمونے بھی حاصل کرلیے گئے۔

    یہ ڈی این اے کے نمونے دو لیبارٹریز میں بھیجے گئے ہیں، ڈی این اے کا ایک نمونہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی بھیجا گیا ہے جبکہ دوسرے نمونے کو مقامی سطح پر ٹیسٹ کیلئے بھیجا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ شرجیل میمن کے خون کی مثبت آنے والی رپورٹ پر پولیس کی تفتیشی ٹیم نے شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا۔ ایس ایس پی ساؤتھ عمر شاہد نے تفصیلی رپورٹ میں کہا ہے کہ منشیات آرڈیننس رجسٹر ہونے پر شبہات ہوئے۔

    مزید پڑھیں: شرجیل میمن کے کمرے سے ملنے والی بوتلوں کی ایگزامن رپورٹ مسترد

    اس سے قبل شرجیل میمن کے کمرے سے برآمد ہونے والی شراب کی بوتلوں سے متعلق جھوٹی رپورٹ کا بھانڈا سرعام ٹیم نے پھوڑ دیا تھا، سندھ لیبارٹری میں شہد یا زیتون کے تیل کا کوئی ٹیسٹ ہوا ہی نہیں تھا۔ شرجیل میمن کے کمرے سے برآمد ہونے والی شراب کی بوتلوں کی ٹیسٹ رپورٹ جھوٹی ثابت ہوگئی۔

  • جلد کے کینسرکی تشخیص اب سادہ بلڈ ٹیسٹ سے ممکن

    جلد کے کینسرکی تشخیص اب سادہ بلڈ ٹیسٹ سے ممکن

    میلبرن: آسٹریلوی محققین کی ایک ٹیم نے ’ میلانوما‘ نامی کینسر کی ابتدائی مرحلے میں ہی تشخیص کے لیے خون کا انتہائی سادہ ٹیسٹ ایجاد کرلیا ہے۔

    پگمنٹ خلیات پر مشتمل ’میلانوسائیٹس‘ عمومی طور پر جلد کے زیریں حصے میں موجود ہوتے ہیں اسی نسبت سے ان میں پیدا ہونے والے کینسر کو میلا نوما کہا جاتا ہے۔ میلانوسائیٹس قلیل مقدار میں منہ، آنتوں اور آنکھوں میں بھی پائے جاتے ہیں تاہم زیادہ تر میلانوما جلد کا کینسر ہی ہوتا ہے۔

    کینسر کی دیگر اقسام کی طرح اس کینسر کو بھی ابتدائی مرحلے میں تشخیص کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جس کی وجہ سے عمومی طور پر یہ آخری مرحلے میں ہی تشخیص ہو پاتا ہے جس کی وجہ سے مریض کی صحتیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں اس لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ ایسا سادہ ٹیسٹ دریافت کیا جائے جس سے فوری تشخیص ممکن ہو سکے۔

    ایڈیتھ کووآن یونیورسٹی کے ماہرین نے اس مشکل کو حل کرلیا ہے اور ایسا سادہ خون کا ٹیسٹ ایجاد کیا ہے جو میلانوما کینسر کو پورے جسم میں پھیلنے سے قبل ہی تشخیص کیا جا سکے گا اس طرح ابتدائی مرحلے میں تشخیص سے میلانوما کینسر کے مریضوں میں صحت یابی کی شرح 90 سے 99 فیصد ہے۔

    اس سے قبل ماہرین جلد کے کینسر کے علاج کے لیے ایک جدید طریقہ بھی وضع کرچکے ہیں اور اس طریقہ علاج کو وائروتھراپی کہتے ہیں، جس میں ایک بیماری سے دوسرے بڑے مرض کا علاج کیا جاتا ہے، جلد کے سرطان میں مبتلا مریضوں کو خارش کے وائرس کے ذریعےعلاج کیا گیا تو یہ تجربات بے حد کامیاب رہے۔

    ماہرین کے مطابق کامیاب تجربات کے بعد آئندہ سال یہ دواعام دستیاب ہوگی، جسےٹی ویک کا نام دیا گیا ہے، اس سے جلد کے کینسر کو بدن کے اندر پھیلنے سے قبل ہی ختم کرنا ممکن ہوگا۔

    طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ ہمارے لائف اسٹائل میں اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ اور دیگر گیجٹس کے استعمال کے سبب جلد کے کینسر کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ، اور فی الحال اس کی روک تھام کے کوئی واضح طریقے موجود نہیں ہیں صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ہی جلد کے کینسر سے بچا جاسکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں