معروف ہالی ووڈ اداکارہ ایمبر ہیئرڈ اپنے سابق شوہر جونی ڈیپ کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ ہارنے کے بعد شدید مالی مشکلات کا شکار ہوگئی ہیں اور اب وہ ایک کتاب لکھنے کا سوچ رہی ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق سابق شوہر سے ہتک عزت کا مقدمہ ہارنے اور عدالت کی جانب سے انہیں 15 ملین ہرجانہ ادا کرنے کے حکم کے بعد سے ایمبر ہیئرڈ شدید سماجی و مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
ایمبر کا خیال ہے کہ ان کی طرف کی کہانی ابھی باقی ہے جو وہ کتاب لکھ کر دنیا کو بتانا چاہتی ہیں، ان کے خیال میں اب ان کے پاس کھونے کو مزید کچھ نہیں رہا، اور ہالی ووڈ میں بھی ان کا کیریئر تقریباً ختم ہوچکا ہے، تو وہ اپنی بائیو گرافی لکھنا چاہتی ہیں جس میں جونی ڈیپ سے تعلق کے بارے میں بھی تفصیلات ہوں گی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ کتاب لکھ کر ایمبر اپنی بدنامی میں مزید اضافہ کرسکتی ہیں۔
دوسری جانب جونی ڈیپ اور ان کے وکلا ایمبر کی ہر حرکت اور ہر بیان پر نظر رکھے ہوئے اور چوکنا ہیں، ان کا ارادہ ہے کہ اگر کتاب لکھتے ہوئے ایمبر نے حدیں پار کیں، جس کا قوی امکان موجود ہے، تو ایمبر کو ایک اور مقدمے کا سامنا کرنا ہوگا۔
فی الحال ایمبر، ڈیپ کو ہرجانے کی رقم ادا کرنے سے قاصر ہیں جبکہ اپنا کیس ہرانے والے وکلا کی بھاری فیس اور دیگر قانونی اخراجات بھی ان کے ذمے تاحال واجب الادا ہیں۔
کتاب لکھنے کا ایک مقصد معاشی نقصانات کا ازالہ بھی ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی ساکھ پر مزید برا اثر پڑے گا۔
لاہور: بہتر برس بعد پاکستان کے شہر لاہور میں سکھ مذہب سے متعلق تاریخی اہمیت کی حامل کتابوں کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا جہاں سکھوں کی 3 سو سال پرانی مقدس کتاب نے لوگوں کو حیران کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کے پانچ سو پچاسویں جنم دن کی تقریبات کے سلسلے میں لاہور میں اِن نادر ونایاب کتابوں کی نمائش ہوئی، یہ نمائش پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار منعقد کی گئی۔
اپنی نوعیت کی اس منفرد کتابی نمائش کا اہتمام پنجاب پبلک لائبریری نے کیا، جب کہ اس نمائش کا افتتاح کینیڈا سے آئی ہوئی ممتاز سکھ لکھاری گرمیت کور نے کیا۔
پنجاب پبلک لائبریری کے سربراہ کے مطابق اس کتب خانے میں سکھ مذہب سے متعلق سیکڑوں کتابیں موجود ہیں لیکن نمائش کا حصہ صرف ان کتابوں کو بنایا گیا ہے جو تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کا ہاتھ سے تحریر کردہ تین سو سال پرانا نسخہ بھی اس نمائش کا حصہ ہے۔
جن تاریخی کتابوں کو اس نمائش کا حصہ بنایا گیا ہے ان میں سری گورو گوبند سنگھ مہاراج نظم کی سوانح عمری، تذکرہ بابا گورو نانک، پوتہی جپ، سکھوں کی تاریخ، سکھ مذہب اور اسلام سمیت دیگر کئی نایاب کتب شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پنجاب میں سکھوں کے مذہبی پیشوا بابا گرونانک کا جبہ دریافت ہوا ہے، یہ جبہ شاہی قلعے میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کمرے سے ملا، ڈائریکٹر فقیر خانہ میوزیم کا کہنا تھا کہ سکھوں کے دیگر گروؤں کے زیر استعمال اشیا بھی دریافت ہوئی ہیں، یہ جبہ مزید تحقیقات کے لیے قومی اداروں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
ڈائریکٹر فقیر سیف الدین نے کہا کہ گرونانک کا جبہ رنجیت سنگھ کو کرتارپور کے بزرگ نے پیش کیا تھا، رنجیت سنگھ کے لاہور قلعہ میں زیر استعمال کمرے سے نوادرات بھی دریافت ہوئے، گرونانک کا جبہ جلد سکھ برادری کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔
ہم نے اپنے بچپن میں شہزادوں اور بہادر افراد کی کہانیاں سنی ہیں جو پر خطر سفر پر جاتے ہیں، جانوروں اور بلاؤں سے لڑتے ہیں اور کامیاب اور کامران واپس لوٹتے ہیں۔
لیکن ایسی تمام کہانیاں مردوں کے گرد گھومتی ہیں، ایسی کہانیوں میں لڑکیوں یا بچیوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ ایک امریکی مصنفہ ڈی کے ایکرمین نے بچوں کے لیے ایسی کتاب لکھی ہے جو بہادر شہزادوں کے بجائے بہادر شہزادیوں کے گرد گھومتی ہے۔
پرنسز پائریٹس یعنی قذاق شہزادیاں نامی یہ رنگ برنگی کتاب 3 شہزادیوں کے گرد گھومتی ہے جو ایک ایڈونچر پر جاتی ہیں۔
اس کتاب کی مصنفہ ایکرمین کہتی ہیں کہ اب تک بچیوں کے بارے میں یہ پیش کیا جاتا رہا کہ ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے، یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کیا کرتی ہیں۔ کئی بچیاں ایسے کھیل کھیلتی ہیں جن کے بارے میں مخصوص ہے کہ وہ صرف لڑکے ہی کھیل سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب میں پیش کیا ہے کہ لڑکیاں بھی بہادر ہوسکتی ہیں اور مشکل ترین کام سرانجام دے سکتی ہیں۔
اس کتاب کی شہزادیاں ہر فن مولا ہیں، وہ جنگل بھی پار کرتی ہیں، خطرناک جانوروں کا بھی مقابلہ کرتی ہیں تو دوسری طرف انہیں رقص کرنا اور خوبصورت لباس پہننا بھی پسند ہے یعنی ان کی کوئی حد نہیں۔
ایکرمین کہتی ہیں کہ یہ کتاب چھوٹے بچوں کے پڑھنے کے لیے بھی ضروری ہے جو مخصوص کہانیاں پڑھ کر سمجھنے لگتے ہیں کہ لڑکیاں بہادر نہیں ہوسکتیں، ’صنفی تعصب اسی بچپن سے جنم لیتا ہے جو تاعمر ساتھ رہتا ہے‘۔
مصنفہ نے اس کتاب کو بہت سی ماؤں کو پڑھوایا، جسے پڑھ کر کئی ماؤں نے کہا کہ وہ بھی بچپن میں ان شہزادیوں جیسے ہی کھیل کھیلا کرتی تھیں لیکن انہیں لگتا تھا کہ وہ کچھ عجیب کر رہی ہیں۔
ایکرمین نے اس کتاب کی اشاعت کے لیے یہ پروجیکٹ کک اسٹارٹر پر پوسٹ کیا، ان کا خیال تھا کہ انہیں بمشکل ایک ہزار ڈالرز موصول ہوں گے، لیکن جب انہیں ایک ہی دن میں 3 ہزار ڈالرز مل گئے تو وہ حیران رہ گئیں۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد اب وہ اسی نوعیت کی دیگر کتابوں پر بھی کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جو ننھے ذہنوں کو ایک مخصوص سمت میں موڑنے کے بجائے وسعت خیال دیں۔
’’دن اس کے ہاتھوں سے پھسل جاتے ہیں اور وہ ڈھونڈتا رہتا ہے، مگر ڈھونڈ محض خود کو مصروف رکھنے کا عمل ہے۔ ورنہ زندگی تو ایسے بھی گزر جاتی ہے اور ویسے بھی۔ کھوج بے معنی ہے، ایک بے کار مشقت، جس کا حاصل فقط تھکن ہے۔‘‘
اسی تھکے ہوئے، بکھرے ہوئے ہجوم میں ایک کہانی کار ہے، جس کا نام ارشد رضوی ہے اور وہ ایک انوکھا کہانی کار ہے۔
اس کی کہانیاں پڑھیں تو لگتا ہے کہ ارشد رضوی وقت سے کٹ کر گرا ہوا لمحہ ہے جو کہیں خلائوں میں بھٹک گیا ہے۔ وہ سانس لیتے سایوں کا ہم سفر ہے۔ وہ بلیوں، سانپوں، بچھوئوں، مینڈکوں اور اندھیروں کے سانسوں میں جلتی کہانی ہے، وہ کونوں کھدروں میں بھٹکتی بے چین آنکھ ہے، جس کے گھر پر چوہوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ اس کا دماغ اوہام سے بھری پٹاری ہے، جس میں تشکیک کلبلاتی ہے اور تجسس کو ہوا دیتی ہے۔
وہ انجان جزیروں پر بھٹکتا جہاز راں ہے، جسے سمندر نے پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ ہزار سال پرانا جوگی ہے جو بھیس بدل کر سانپ بن جانا چاہتا ہے۔ وہ بے حس معاشرے کا حساس دماغ ہے اور اسی لیے بے چین اور مضطرب رہتا ہے اور کھولتا رہتا ہے۔ وہ غضب کا کہانی کار ہے، اس کے جھولے میں کہانیوں کی بہت سی پٹاریاں ہیں جن میں رنگ برنگی، چمکیلی، اندھیری، سانپوں سی پُرپیچ کہانیاں ہیں۔ جیسے باغ کے کسی نیم تاریک گوشے میں کوئی چمکیلا سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہو۔
ڈاکٹر ارشد رضوی
ارشد رضوی واحد کہانی کار ہے۔ جس کی کہانی میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اس کے دروازے تک لے گئی، اس کی کہانیاں عجیب کہانیاں ہیں۔ ایک عجیب سی فینٹسی میں وقوع پزیر ہوتی ہیں، جیسے کوئی نشے کی کیفیت ہو یا کوئی گہری نیند کا خواب یا آسمان پر بادلوں کو جوڑ کر منظر نامہ تشکیل دیا جارہا ہو۔ اس کی کہانیاں آدمی کے اندر کی کہانیاں ہیں۔ جو ہمارے باہر بکھری پڑی ہیں۔ اس کی ساری کہانیاں تلخ ہیں۔ ان میں ننگا سچ اُبلتا ہے اور خون کھولاتا ہے۔ وہ ایک سفاک کہانی کار ہے۔ اپنی کہانیوں کے بارے میں کہتا ہے:
’’یہ نہیں ہے کہ کہانیاں لکھی نہیں گئیں یا یہ خود فریبی کہ میرے بعد لکھی نہیں جائیں گی یا یہ کم عقلی کہ میری کہانیاں تخلیق نہ ہوتیں، تو کائنات کا یہ پرانا، مگر ہر لمحہ تبدیل ہونے والا چکر رک جاتا، کیا ہوتا اگر میری کہانیاں تخلیق کے جرم سے نہ گزرتیں؟ شاید میرا کتھارسس نہ ہوتا، ذات اندر ہی اندر مچلتی رہتی۔ خون اندر ہی اندر بہتا رہتا۔ زخم اندر ہی اندر جگہ بناتا رہتا۔‘‘
اس بے یقینی اور عدم اطمینانی سے نکلنے کے لئے ارشد رضوی نے کہانی کا سہارا لیا، مگر کیا کہانی لکھنے کے عمل نے اس کے سلگتے ہوئے دماغ میں کچھ اطمینان بھرا یا اسے اور زیادہ بے چین کردیا؟
اس بات کا جواب تو ارشد رضوی ہی دے سکیں گے، مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کہانیاں لکھنے کے عمل نے ارشد رضوی کو اور زیادہ بے چین اور مضطرب کردیا ہے۔
کہانی ارشد رضوی کا زخم بھی ہے اور مرہم بھی۔ کہانی دکھ بانٹنے والا دوست بھی ہے اور گھات میں بیٹھا دشمن بھی۔ کہانی اذیت پسند محبوبہ بھی ہے اور اکتائی ہوئی بیوی بھی۔
[bs-quote quote=”کہانی ارشد رضوی کا زخم بھی ہے اور مرہم بھی۔ کہانی دکھ بانٹنے والا دوست بھی ہے اور گھات میں بیٹھا دشمن بھی” style=”style-8″ align=”left” author_name=”سید کامی شاہ”][/bs-quote]
ارشد رضوی کو کہانی کے سارے رویوں سے محبت ہے۔ اس کی کہانیاں پڑھنے سے احساس ہوتا ہے کہ کہانی بھی ارشد رضوی سے محبت کرتی ہے، جب ہی تو وہ اپنا آپ اسے سونپ دیتی ہے اور پھر دور کھڑی ہو کر اس کا تخلیقی انہماک دیکھتی ہے۔
کہتے ہیں تخلیق انکشافِ ذات ہوتی ہے۔ ارشد رضوی کی کہانیوں کے کچھ ٹکڑے دیکھیے:
’’انہیں پاگل خانے بھیج دیجیے۔‘‘
ڈاکٹر کہہ رہا تھا۔ ’’میں نے لکھ دیا ہے، مریض ٹھیک ہونے کی حالت سے نکل چکا ہے۔،،
’’پاگل خانے؟‘‘ وہ بڑبڑایا
’’تو یہ سب کیا ہے، یہ بڑا سا پاگل خانہ۔ آسمان اور زمین کی بے معنی حدوں میں اسیر پاگل خانہ، جو مردہ خانے میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔،،
کہتے ہیں، کسی بھی عہد کا قلم کار، شاعر ادیب جو کچھ بھی اپنے بارے میں لکھتا ہے در حقیقت وہ معاشرے کے بارے میں ہوتا ہے۔ ارشد رضوی نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی وہ ایسا ہی ہے۔ بے ترتیب، بیمار، بیکار اور فرسٹرڈ۔ ایک بڑا سا پاگل خانہ جو ایک اور بڑے پاگل خانے کی سرحدوں میں واقع ہے۔ ارشد رضوی کی کہانیاں اگر بے ترتیب ہیں، تو ا س کا مطلب ہے سارا معاشرہ ہی بے ترتیب ہے۔ اگر اس کی کہانیاں بیمار ہیں اور پریشان کرتی ہیں، تو اسکا مطلب ہے کہ سارا معاشرہ ہی بیمار ہے اور پریشان کرتا ہے۔
ارشد رضوی کا مشاہدہ جتنا مضبوط ہے، اس کی تخلیقی قوت بھی اتنی ہی طاقتور ہے، وہ ایسے غضب کے فقرے لکھتا ہے کہ دماغ سلگ اٹھتا ہے۔
مضمون نگار
اپنی کتاب کے دیباچے میں اس نے کہا:
’’یہ کہانیاں ہیں، جن کے سانس لیتے کردار ہیں، کرداروں کی پُرپیچ، پُراسرار، دیکھی ان دیکھی عادتیں ہیں، عادتوں میں عیاری ہے، تجسس ہے، نفرت ہے اور محبت بھی ہے، اندر کہیں مساموں سے پھوٹتی ہوئی، اس لئے کہ یہ پکے رنگ ہیں، جس بے ترتیب معاشرے میں مَیں نے آنکھ کھولی اس نے مجھے ایسے ہی کردار دیے ہیں۔ معاشرے کی بےترتیبی کرداروں میں نظر آسکتی ہے۔ اندر اور باہر دونوں طرف کی نفسیاتی دیواروں میں دیمک کی چھوڑی ہوئی لکیروں کی صورت۔‘‘
ایسے بیسیوں جملے آپ کو اس کتاب میں ملیں گے، جو آپ کے حلق کڑواہٹ سے بھر دیں گے اور آپ کو سوچنے پر مجبور کردیں گے، مگر ایک بات ہے کہ ارشد رضوی کی کہانیاں پڑھتے ہوئے ایک تاثر غیر تکمیلیت کا ابھرتا ہے۔ کہیں کچھ چیزیں اور کردار ہیں، کچھ مناظر ہیں جو واضح نہیں ہیں۔ کہیں کچھ باتیں ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو آدھے ادھورے ہیں۔ اور ان کے رویے، ان کی باتیں، ان کے خواب، ان کے جذبے سبھی کچھ ادھورا ہے۔ کچھ واقعات کا ڈھیر ہے۔ جو ابہام کی دھند میں لپٹا ہے اور چیزوں نے اپنی ترتیب بدل لی ہے۔
ایک عجیب سا موسم، ایک سا موسم آکر ٹھہر گیا ہے۔ عجیب شک زدہ، بے یقین، اور اداس سا موسم، اسی ٹھہرے ہوئے موسم میں خلق ہونے والی یہ بے ترتیب کہانیاں پڑھنا کسی کراس ورڈ پزل کو حل کرنے کے برابر ہے۔ جلدی جلدی تیز تیز جملے آتے جاتے ہیں اور اپنی ترتیب بناتے جاتے ہیں۔ بہت دیر تک تو احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان سلگتے ہوئے، کڑوے اور بے ترتیب جملوں کے انبار تلے کوئی کہانی بھی پنپ رہی ہے۔ پھر کہیں سے اچانک ایک کہانی نمودار ہوتی ہے، میری کہانی، آپ کی کہانی، اس معاشرے کی کہانی،اس کائنات کی پرانی کہانی، مگر یہ طے نہیں ہے کہ کوئی بھی کہانی کسی قاری پر پوری کھلتی ہے یا نہیں۔
[bs-quote quote=”ارشد رضوی کا مشاہدہ جتنا مضبوط ہے، اس کی تخلیقی قوت بھی اتنی ہی طاقتور ہے، وہ ایسے غضب کے فقرے لکھتا ہے کہ دماغ سلگ اٹھتا ہے۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”سید کامی شاہ”][/bs-quote]
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی کوئی کہانی مکمل بھی ہوتی ہے؟
میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ کوئی کہانی مکمل نہیں ہوتی بلکہ چلتی رہتی ہے، نئے مناظر، نئے کردار و واقعات کے ساتھ!
کہیں کوئی منظر نامہ مکمل ہوجاتا ہے اور کرداروں کے پاس مزید کچھ کہنے کو باقی نہیں بچتا، مگر کہانی نہیں رکتی۔ کہانی چلتی رہتی ہے۔
ایسی ہی بے ترتیب کہانیوں کا خالق ارشد رضوی فقط حیرت سے مسئال کو دیکھتا نہیں ہے، بلکہ وہ ان مسائل کے اندر اتر جاتا ہے اور جب باہر آتا ہے تو اس کے ہاتھ میں ایک کہانی دبی ہوتی ہے اور آنکھوں میں تخلیق کا شعلہ لپک رہا ہوتا ہے۔
ارشد رضوی آدمی کو بھی جانتا ہے اور ادب کو بھی۔ انسانی نفسیات پر اس کی گرفت بہت کامیاب ہے۔ آدمی کے اندر کے معاملات کو اس نے اتنی عمدگی سے برتا ہے کہ باہر کا آدمی صرف باہر سے اندازہ نہیں لگا سکتا۔ ارشد رضوی اپنے اندر اور باہر پھیلی دونوں دنیائوں کا عکاس ہے۔ ان بے ترتیب کہانیوں کو پڑھتے ہوئے آپ کو ایک عجیب و غریب سحر زدہ سی بستی نظر آئے گی جو اپنے ہی مکانوں کی چھتوں پر گر پڑی ہے، جس کے سارے ہی قواعد و ضوابط مختلف ہیں۔
ارشد رضوی کو ان کہانیوں کو یکجا کرنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے، اس کے اندر ایک نامختتم اندھیرا کسی وہم کی صورت پھیلا ہے اور وہ کسی الوہی روشنی کا متلاشی ہے، اسے آسمان سے پرندوں کے روٹھ جانے کا دکھ ہے۔۔ وہ زندہ گھروں پر منڈلاتی موت کی بو سونگھتا ہے اور پوچھتا ہے۔۔
زندگی کب تک مرنے اور جینے کے خانوں میں بٹی رہے گی؟
اس کے اندر کی سلیٹ پر سوال لکھے جاتے ہیں، مگر جواب کہیں نہیں ہے۔ وہ انسانیت کے بدن کو دکھوں اور پپڑی جمے زخموں سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے مگر دکھ اس کے اندر ہی اندر جگہ بناتے رہتے ہیں اور وہ سوالوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
ہم سب تیسری دنیا کے بے چہرہ، بے شناخت اور بے ترتیب لوگ ہیں۔
بے ترتیبی بے یقینی کو جنم دیتی ہے یوں بے ترتیبی بڑھتی رہی اور کہانیاں لکھی جاتی رہیں، اسی زمین و کائنات کی اور ہم سب کی کہانیاں جن کے نام اور کردار بدل جاتے ہیں مگر کہانی کبھی نہیں بدلتی اور نہ رکتی ہے۔ کہانی کا سفر جاری رہتا ہے۔ کہانی ہمیشہ نئے کرداروں او رنئے منظرناموں کے ساتھ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے، معاشرے میں ٹوٹ پھوٹ اور شناخت کے بحران کا عمل اسی طرح جاری ہے اور کہانی کی بُنت کا سفر بھی۔
فی الحال ایک کہانی اس جملے پر ختم ہوتی ہے۔
’’میرے تلوؤں پر سرخ گلاب کھلا ہے اور انگلیوں میں تخلیق کا شعلہ ابھی بھی لپک رہا ہے۔،،
مجھے یقین ہے کہ اتنے بھرپور لہجے میں بات کرنے والے ڈاکٹر ارشد رضوی کو جدید کہانی کے سفر میں ایک اہم کہانی کار کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ہم نے بہت سوں کو پڑھا، اور بھول گئے، آگے بڑھ گئے، مگر منٹو کا معاملہ ایسا نہیں۔
ہم نے اُسے پڑھا، آگے بڑھے،اور تب ہم نے جانا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور جب تک ہمارے پیروں میں دم ہے، جب تک ہم چلتے جائیں گے، منٹو ہمارے ساتھ ساتھ چلے گا۔
اسی قوت کے سہارے منٹو آج 2019 میں ہمارے ساتھ ہے، گو وہ بہت سے، جو اس کے ساتھ چلے تھے، جو بڑے پرقوت تھے، جن کے ہاں بڑا تنوع تھا، پیچھے رہ گئے، مگرمنٹو ہمارے ساتھ ساتھ آگے بڑھا، اور وہ ہماری نئی نسل کے ساتھ بھی آگے بڑھے گا، مجھے یقین ہے۔
سید فرید حسین
اب وہ ٹرینڈ بن گیا ہے صاحب، پاکستانی اور بھارتی سنیما اس کی زیست کو زینت بنا چکے ہیں، اس کے کام کا انگریزی میں ترجمہ ہورہا ہے، یعنی وہ نسل، جو اردو سے نابلد ہے، وہ بھی کسی نہ کسی طرح منٹو سے جڑی ہوئی ہے۔
یہ کتاب منٹو خزانہ، جس کا نام سینئر صحافی غلام محی الدین نے تجویز کیا، اور جس کے افسانوں کا انتخاب معروف ناشر اور سماجی کارکن، سید فرید حسین کے پرخلوص مطالعے اورلگن کی دین ہے، منٹو کے عشق کو مہمیز کرے گی۔ الاﺅ کچھ اور روشن ہوگا، کچھ اور روشنی بڑھے گا منٹوکو مزید پڑھا جائے گا۔ مزید چاہا جائے گا۔ یہ بیت چکا شخص مزید زیر بحث آئے گا۔
یہ کیسا کمال ہے کہ جو کچھ وہ سات عشرے پہلے لکھ گیا، وہ آج بھی متعلقہ ہے، آج بھی قابل مطالعہ ہے، آج بھی سانس لیتا ہے۔
رمضان اور محرم میں، پورے ماہ تک جاری رہنے والے انوکھے کتب میلوں کے روح رواں سید فرید حسین کے ادارہ فرید پبلشرز کی شایع کردہ یہ کتاب 398 صفحات پر مشتمل ہے۔ قیمت 600 روپے ہے، یہ ڈسٹ کور کے ساتھ، اچھے ڈھب پر شایع کی گئی ہے۔
آج کتاب کا عالمی دن منایا جارہا ہے، آج کے دن آپ اس مقبول مصنف سے ضرور ملنا چاہیں گے جس کی ایک کتاب نے کروڑوں زندگیوں پر اپنے اثرات مرتب کیے۔
یہ مصنف لوگوں کی زندگیوں میں امید کی نئی کرن جگانے والا پائلو کوئیلو ہے جس کی کتاب ’الکیمسٹ‘ نے پڑھے جانے کے ریکارڈز توڑ دیے۔ کوئیلو کی ابتدائی زندگی بے حد نشیب و فراز سے گزری۔
کوئیلو کو اس کے والدین لکھنے سے منع کرتے تھے۔ وہ ان کی بات بظاہر تو مان لیتا، لیکن وہ چھپ چھپ کر لکھتا رہا۔ 17 سال کی عمر میں کوئیلو کو اس کے والدین نے پاگل خانے میں داخل کروا دیا۔
اس نے یہاں سے 3 دفعہ فرار ہونے کی کوشش کی اور اپنی آخری کوشش میں کامیاب رہا۔ اپنی عمر کی دوسری اور تیسری دہائی اس نے ہپیز کی طرح گزاری۔ وہ بغیر کسی مقصد کے کئی شہروں کا سفر کرتا رہا۔
بالآخر اس نے زندگی کے معنوں کی طرف توجہ کی اور اسے کھوجنے کے لیے اسپین کا سفر کیا۔ یہاں اس نے ایک مقدس مذہبی مقام پر چند دن گزارے۔ کوئیلو نے بدھا کی طرح مراقبے بھی کیے جو روحانی طور پر اس کے لیے ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔
30 سال کی عمر کے بعد اسے خیال آیا کہ اپنے خوابوں کی تکمیل کی جائے، اس نے پھر سے قلم سنبھالا اور 40 سال کی عمر میں اپنی پہلی کتاب لکھی۔
اس کے بعد کوئیلو نے اپنی شہرہ آفاق کتاب الکیمسٹ لکھی، یہ کتاب اس نے صرف 2 ہفتوں میں لکھی تاہم اس کتاب کو ذرا بھی پذیرائی نہ ملی۔ کوئیلو اس ناکامی سے اداس تو ہوا تاہم اس نے ہمت نہ ہاری۔
وہ اپنی کتاب لے کر گھر گھر جاتا اور لوگوں سے اسے پڑھنے کی درخواست کرتا۔ جیسے جیسے لوگوں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا، کتاب میں چھپے سحر انگیز پیغام نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔
لوگوں کو محسوس ہوا کہ یہ ان کی اپنی زندگی کی روداد ہے، وہ خود بھی ساری عمر کسی ایسے خزانے کی تلاش میں رہتے ہیں جو پلک جھپکتے ان کی زندگی بدل دے۔
اس وقت کوئیلو کی قسمت کا ستارہ چمکا اور کتاب آہستہ آہستہ مقبول ہونے لگی۔ کتاب کی فروخت میں اضافے کے ساتھ اس کا دوسرا ایڈیشن چھاپنے کی ضرورت پیش آئی لیکن ابھی کوئیلو کی جیب اس کی اجازت نہ دیتی تھی۔
بالآخر اس نے ایسا پبلشر ڈھونڈ لیا جس نے اس کتاب کو دوبارہ چھاپنے کی ہامی بھری۔ لیکن اس پبلشر کا ماننا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کتاب کے لیے ہامی بھر بیٹھا تھا، اس کے اندر سے کسی آواز نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔
آج اس کتاب کی دنیا بھر میں ساڑھے 6 کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اس کتاب کا 80 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور یہ ادب کی دنیا کا ایک ریکارڈ تھا جس کے بعد اس کتاب کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بھی شامل کرلیا گیا۔
دنیا بھر میں 15 کروڑ افراد کا ماننا ہے کہ اس کتاب نے ان کی زندگی پر نہایت مثبت اثرات مرتب کیے اور اس وقت انہیں امید کی کرن دکھائی جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوچکے تھے۔
کوئیلو سمجھتا ہے کہ جب آپ کسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پوری کائنات اسے حاصل کرنے میں آپ کی مدد کرتی ہے۔
کامیاب ہونے کے بعد کوئیلو نے اپنے والدین سے بھی تعلقات بحال کرلیے جو ایک وقت میں اسے غیر ضروری جان کر پاگل خانے میں چھوڑ گئے تھے۔
کوئیلو کہتا ہے، ’زندگی میں خطرات (رسک) مول لینے پڑتے ہیں، ہم زندگی کے معجزات کو صرف اسی وقت مکمل طور پر سمجھ سکتے ہیں جب ہم غیر متوقع چیزوں کو رونما ہونے دیتے ہیں‘۔
"اِک چپ، سو دکھ” کے افسانوں کو پڑھ کر پہلی خوشی تو یہ ہوئی کہ افسانے سردرد کا باعث نہیں بنے، اردو کے کچھ جدید افسانہ نگاروں کا یہ چلن عام ہے کہ وہ حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ قاری کو افسانہ سمجھ نہ آئے، دماغ کا دہی بن جائے، قاری سر پر ڈوپٹہ باندھ، صبح شام سر درد کی گولیاں نگلتا رہے، لیکن "عظیم ترین علامتی افسانے” کی کہانی پن (اگر موجود ہو) تک اُس کی رسائی نہ ہونے پائے اور بالآخر تھک ہار، وہ افسانے کے خالق کو کافکا اور بورخیس کا استاد ماننے پر مجبور ہوجائے۔
صاحب کتاب آدم شیر
اردو علامتی کہانیوں کے بادشاہ نیر مسعود نے کہا تھا: "علامت افسانے میں اتنی ہی قوت پیدا کرسکتی ہے، جتنی شاعری میں، بہ شرطے کہ علامتی مفہوم سے قطع نظر کرکے بھی افسانہ اپنی جگہ قائم رہے۔ ہیمنگوے کے طویل افسانے "بوڑھا اور سمندر ” میں اگر سمندر سے محض سمندر، مچھلیوں سے محض مچھلیاں اور ماہی گیر سے محض ماہی گیر مراد لیا جائے، تو بھی یہ ایک مضبوط اور قائم بالذات افسانہ ہوگا۔”
آگے وہ لکھتے ہیں: "لیکن اگر علامتیں اسی طرح برتی جانے لگیں کہ انہیں سمجھے اور علامت مانے بغیر افسانہ نہ بن سکے، تو علامتی افسانہ کسی ناکام تجریدی افسانے کی طرح اذیت دے گا۔”
نیر مسعود کا خدشہ ایک بھیانک خواب بن کر اردو قارئین کے سر پر نازل ہوا اور اردو قاری کو ایسے ایسے "علامتی افسانوں” سے جھوجھنا پڑا، جس میں سے اگر علامت کو نکالا جائے، تو افسانے میں صرف رموز واوقاف کے نشانات اور افسانہ نگار کی کمپوزنگ غلطیاں ہی رہ جاتی ہیں۔
آدم شیر میں اگرچہ علامتی افسانوں کی ہڑک نہیں، لیکن "کھلے پنجرے کا قیدی” ایک معیاری علامتی افسانہ شمار کیا جاسکتا ہے۔ محدب عدسہ لے کر علامت تلاش نہ کرنے کے باوجود بھی افسانہ پڑھنے والے کو مایوسی کی کھائی میں نہیں دھکیلتا۔
آدم شیر اپنے افسانوں میں کائنات کے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کا داعی نہیں ہے، اُسے اپنے پاؤں زمین پر ٹکائے رکھنا پسند ہے
آدم شیر اپنے افسانوں میں کائنات کے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کا داعی نہیں ہے، اُسے اپنے پاؤں زمین پر ٹکائے رکھنا پسند ہے، بلکہ وہ اپنے ہم عمروں کے رنگین مسائل سے زیادہ ان نوخیز کلیوں کے لئے زیادہ مضطرب ہے، جو معاشرے کی سفاکی کا اپنے ناتواں وجود کے ساتھ بے جگری سے مقابلہ کرتے ہیں۔ منٹو کی طرح اُس کے کردار بھی جیتے جاگتے اور چلتے پھرتے معاشرے سے برآمد ہوتے ہیں اور اسے ان کی تلاش میں ٹمبکٹو اور موغادیشو کی آب وہوا بیان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
"دبدھا”، "ایک چپ سو دکھ” اور”دس ضرب برابر دو صفر” میں بچوں کے لئے درمندی اور ہمدردی کا احساس ہمیں عروج پر نظر آتا ہے، آدم شیر کا رویہ بچوں کے بابت بلاامتیاز احساس ذمے داری کا نظر آتا ہے۔ بچے گھر کے ہوں یا سڑک پر، نرم بستر پر ہوں یا کچرے کے ڈھیر میں، مصنف کا انسانی ہمدری پر مبنی رویہ ہرجگہ نظر آتا ہے۔ ہمدردی اور درد مندی کی ایک لہر اپنی پوری قوت کے ساتھ کہانی کے بین السطور چلتی رہتی ہے۔ معذور بچوں کی بے کسی اور تیسری جنس کی معاشی بدحالی بھی مصنف کی دردمندی کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی اور”غیر دلچسپ کہانی”اور "انسان نما” میں جابجا بکھری نظر آتی ہے۔
تبصرہ نگار: شیخ نوید
افسانوی مجموعے میں جس افسانے نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ "ہیولا” ہے، اگرچہ موضوع نیا نہیں، والدین کے سامنے بچے کی موت پر کئی ادیبوں نے خامہ فرسائی کی ہے، منٹو کا لکھا افسانہ آج بھی دوبارہ پڑھنے کی ہمت نہیں جُٹا پاتا جبکہ امریکی ادیب ریمنڈ کاروَر نے "زندگی” کے نام سے اِس موضوع کو ایک نئی جہت عطا کی تھی۔
منٹو کا افسانہ پڑھنے کے بعد قاری ایک بند گلی میں داخل ہوجاتا ہے، موت اپنی پوری سفاکی اور دہشت کے ساتھ اُس کے وجود کو ہلا کررکھ دیتی ہے۔ ریمنڈ کاروَر کی کہانی موت کی شکست کا اعلان کرتی ہے اور ہمارے سامنے یہ وجودی سچائی منکشف کرتی ہے کی زندگی کا پہیہ موت کے کاروبار کے باوجود پوری آب وتاب سے چلتا رہتا ہے۔
آدم شیر اِس موضوع میں نئی بات نکالنے میں کامیاب رہا، ماں باپ مرتے بچے کے لئے موت کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں، وہ اپنی دانست میں موت کو شکست بھی دے دیتے ہیں، لیکن وینٹی لیٹر کے ہاتھوں ہار جاتے ہیں اور اُسی کو اپنے جگر کے ٹکڑے کی موت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ افسانے کی حیران کن اور فرحت انگیز شے اُس کی نثر ہے، رواں دواں اور سلاست سے بھرپری نثر ابتداء سے ہی قاری کو اپنی گرفت میں جکڑ کر آخر تک لے جاتی ہے۔
مجھے امید ہے آدم شیر مزید شان دار اور یادگار افسانے لکھے گا، لیکن میری نظر میں یہ افسانہ آدم شیر کے تعارف کا ذریعہ رہے گا اور میں اُسے "ہیولا کا افسانہ نگار” ہی یاد رکھوں گا۔
دنیا بھر کی مختلف کمپنیاں گاہکوں کو لبھانے کے لیے نت نئی تکنیکیں استعمال کرتی ہیں اور ان کا ہدف مختلف عمر کے افراد ہوتے ہیں۔
ایسی ہی ایک کوشش معروف فوڈ چین بھی اپنے ننھے گاہکوں کے لیے کرتی ہے جس میں انہیں کھانے کے ساتھ کھلونے بھی دیے جاتے ہیں، اس ڈیل کو ہیپی میل کہا جاتا ہے۔
تاہم نیوزی لینڈ میں ایک انوکھا تجربہ کیا گیا، جسے بعد ازاں بے حد پذیرائی ملی۔
نیوزی لینڈ میں ہیپی میل میں بچوں کو کھلونوں کی جگہ کتابیں دی گئیں جسے دیکھ کر ننھے بچے اور ان کے والدین ایک لمحے کے لیے حیران رہ گئے۔
کمپنی کے نمائندے کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فونز کی آمد کے ساتھ ننھے بچوں میں مطالعے کا رجحان کم ہوگیا ہے، ان کی یہ کاوش مطالعے کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔
ہیپی میل میں بچوں کے مصنف رولڈ ڈہل کی کتابیں رکھی گئی ہیں جنہوں نے ’چارلی اینڈ دا چاکلیٹ فیکٹری‘ جیسے مشہور ناول سمیت بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔
ان رنگ برنگی کتابوں کے ساتھ مختلف اسٹیکرز بھی دستیاب ہیں جبکہ ان میں بچوں کو مختلف بیرونی سرگرمیاں کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ کتابیں ماحول دوست بھی ہیں، ان کی جگہ پلاسٹک کے کھلونے نہایت مختصر وقت کے لیے بچوں کے کھیلنے کے کام آتے ہیں جس کے بعد انہیں پھینک دیا جاتا ہے۔ یوں یہ کھلونے کچرے اور آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں۔
فوڈ چین کے اس اقدام کو نہایت پذیرائی حاصل ہورہی ہے تاہم ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اس پر تنقید کر رہے ہیں۔
بعض افراد کا کہنا ہے کہ بچوں کے لیے مفت کتابیں ہماری قریبی لائبریری میں دستیاب ہیں تو پھر پیسے خرچ کر کے اور بچوں کے موٹاپے کی قیمت پر ان کتابوں کو خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔
آپ کو یہ کوشش کیسی لگی؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔
کوپن ہیگن : ڈنمارک کے سابق گینگ لیڈر ندیم یاسر کو جرائم پیشہ زندگی پر تحریر کی گئی کتاب کی تقریب رونمائی کے اختتام پر ٹارگٹ حملے قتل ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق یورپی ملک ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں اپنی آب بیتی پر کتاب تحریر کرنے والے جرائم پیشہ گروہ کے سابق سربراہ ندیم یاسر کتاب کی تقریب رونمائی کے اختتام پر نشانہ وار حملے میں ہلاک ہوگئے جبکہ حملہ آور موقع واردات سے باآسانی فرار ہوگیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ طبی امداد دینے والے عملے نے 31 سالہ ندیم یاسر کو شدید زخمی حالت اسپتال منتقل کیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے، مقتول نے روٹس کے نام سے اپنی یاداشتوں پر کتاب تحریر کی تھی جو منگل کے روز شائع ہوئی۔
مقامی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ندیم یاسر گذشتہ برس بھی ٹارگٹ حملے میں متاثر ہوئے تھے۔
کوپن ہیگن پولیس کا کہنا ہے کہ افسوس ناک واقعہ دو روز قبل پیش آیا جب یاسر اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے 7 بج کر 30 منٹ پر ہال سے باہر نکل رہے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور گہرے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھا جس نے 31 سالہ مصنف پر پستول سے دو گولیاں چلائیں، پولیس واقعے کی تحقیقات کررہی ہے۔
واضح رہے کہ ندیم یاسر ترکی میں پیدا ہوئے اور 4 برس کی عمر میں کوپن ہیگن منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ جرائم پیشہ عناصر سے منسلک ہوگئے جبکہ کچھ عرصے بعد گروہ کے سربراہ بن گئے جس کے منشیات فروش گروہ سے تعلق تھا۔
ڈنمارک نیوز ایجنسی کا کہنا تھا کہ ندیم یاسر نے والد بننے کے بعد سنہ 2012 میں جرائم کی دنیا کو خیر آباد کہا تھا اور جرائم کی طرف مائل ہونے سے روکنے کے لیے مقامی ریڈیو سے نواجونوں کی ذہین سازی شروع کردی تھی۔
مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 31 سالہ مصنف ندیم یاسر کی موت پر ریڈیو نے ٹویٹر پر ’الوداع ندیم یاسر، ہر چیز کے لیے شکریہ‘ کے الفاظ تحریر کیے اور آفس عمارت کی تصویر شیئر کی، جس میں یاسر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ملکی پرچم سرنگوں رکھا گیا تھا۔
ورجینا: امریکی لائبریری کی انتظامیہ نے ٹرمپ مخالف کتاب کو اپنے شیلف میں رکھنے سے انکار کر دیا.
تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست مغربی ورجینیا میں ایک لائبریری نے ٹرمپ مخالف صحافی باب ووڈ ورڈز کی کتاب Fear: Trump in the White House کی مفت کاپی کو وصول کرنے سے انکار کر دیا.
لائبریری کی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ انھیں ووڈ ورڈز کی کتاب لینے میں کوئی دلچسپی نہیں، ان کے بیش تر صارفین ٹرمپ کے حامی ہیں، گذشتہ انخابات میں یہاں سے ٹرمپ نے واضح کامیابی حاصل کی تھی.
یاد رہے کہ امریکی صحافی نے اپنی کتاب میں امریکی صدر کو کڑی کا تنقید کا نشانہ بنایا تھا. کتاب میں کئی اہم انکشافات کیے گئے ، جن کے مطابق خود وائٹ ہاؤس انتظامیہ ان پر بھروسا نہیں کرتی.
اس کتاب پر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے شدید تنقید کی گئی. ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹس میں کتاب کے مندرجات کو آڑے ہاتھ لیا اور اس میںبیان کر دہ باتوںکو کو من گھڑت اور حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔
لائبریری انتظامیہ کے رویے پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی جارہے اور اسے آزادی اظہار کے منافی قرار دیا جارہا ہے.
واضح رہے کہ باب ووڈ ورڈز کی کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی. اب تک اس کی سات لاکھ سے زاید کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں.