Tag: Book reading

  • مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    یونیسکو کے ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2003 کے مطابق دنیا بھر میں ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً ایک کتاب سے کم پڑھتا ہے، ہمارے روز مرہ مشاہدے میں بھی یہ بات سامنے آتی ہے، سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق ایک یورپین ایک سال میں اوسطاً 35 کتابیں پڑھتا ہے جب کہ ایک اسرائیلی شہری ایک سال میں اوسطاً 40 کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے، دوسری طرف عرب تھاٹ فاؤنڈیشن کی کلچرل ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2011 اس سے بھی بدترین صورت حال دکھا رہی ہے، اس کے مطابق ایک عمومی یورپین سال میں 200 گھنٹے مطالعہ کرتا ہے، جب کہ ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً 6 منٹ مطالعہ کرتا ہے۔

    ہمارے پڑوسی ممالک بھارت میں 10، بنگلادیش میں 42 اور چین میں 8 گھنٹے فی ہفتہ کتاب پڑھنے پر خرچ کیے جاتے ہیں، جب کہ دنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں لیکن دنیا بھر کی کتب بینی کی فہرست میں سواے مصر اور ترکی کوئی تیسرا مسلم ملک شامل نہیں ہے۔ انگلینڈ میں 80 لاکھ افراد لائبریری سے براہ راست کتابیں لیتے ہیں، برطانوی لائبریریوں میں 9 کروڑ 20 لاکھ کتابیں ہیں۔ کل آبادی کا 60 فی صد (کل آبادی 6 کروڑ 70 لاکھ) لائبریری کی ایکٹیو ممبرشپ رکھتا ہے۔

    نئی کُتب

    عالمی سطح پر ہر سال 8 ہزار سے زائد نئی کتب کا اضافہ ہوتا ہے، علم دوست قومیں علم پر خرچ کرتی ہیں اور دنیا پر راج کرتی ہیں۔ یہ سارا خرچہ ہر فرد لاکھوں گنا زیادہ کر کے اپنے قوم کو واپس کرتا ہے، دنیا کے جن 28 ممالک میں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں، ان میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔

    حیرت انگیز طور پر دنیا کی 56 بہترین کتابیں چھاپنے والی کمپینیوں میں کسی کا بھی دفتر کسی مسلم ملک میں نہیں ہے، اہل یورپ نے مسلمانوں کے علمی مراکز، بغداد بالخصوص ہسپانوی مراکز سے استفادہ کر کے تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا تھا، ان کی محنت آج بھی لندن کی ’’انڈیا آفس لائبریری‘‘ میں موجود ہے، ان کتب کی تعداد 6 لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں قلمی کتابوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

    کتاب اور مطالعہ ہر معاشرے، مذہب اور ہر تمدن کی ضرورت رہی ہے، جن اقوام نے کتاب کو اپنایا وہ کامیاب ہوئیں، چاہے ان کی معاشی یا عسکری طاقت کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔

    کتب بینی میں کمی کے رحجان میں کئی عوامل شامل ہیں:

    آمریت اور بادشاہت

    سابق سربراہ شعبہ ابلاغ عامہ اردو یونیورسٹی ڈاکٹر توصیف کا کہنا ہے کہ عرصہ دراز سے مسلم ممالک میں آمریت اور بادشاہت کا دور دورہ رہا ہے۔ کتب بینی معاشرے میں روشن خیالی اور سوچ کو وسعت دیتی ہے۔ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے استحکام کو دوام بخشنے کے لیے معاشروں کو وسعت خیالی سے دور رکھا، جس کا اثر معاشرے میں سماجی اور ثقافتی طور پر مختلف حلقوں پر پڑا، ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں بھی آزاد خیالی اس وقت زیادہ تیزی سے پیدا ہوئی جب عوام نے آمریت اور بادشاہت سے جان چھڑا لی۔

    انھوں نے کہا تعلیمی نظام، والدین کی تربیت اور ماحول کی تبدیلی نے بھی کتب بینی کی کمی میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا کی دسترس بھی کتب بینی سے دوری کی ایک وجہ ہے، لیکن اس وجہ کو بنیادی تبدیلی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یورپ میں ڈیجیٹل میڈیا سب سے پہلے آیا مگر وہاں پر کتاب پڑھنے کا رواج آج بھی قائم ہے۔

    مسئلہ سماجی، ثقافتی اور معاشی ہے

    ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عامر فیروز کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک میں کتب بینی کے رحجان میں کمی کی وجہ سماجی، ثقافتی اور معاشی ہے۔ وہ اس بات کو اس طرح سے بتاتے ہیں کہ سارا زور درسی کتابیں پڑھنے پر دیا جا تا ہے، جس سے روزگار کی امید ہوتی ہے۔ والدین نہ خود کتابیں پڑھتے ہیں نہ بچوں کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق کتابیں پڑھنے سے انسان کی سوچ کو وسعت ملتی ہے، جس سے وہ سوال کرنے کے قابل ہو جاتا ہے، کیوں کہ زیادہ تر مسلم معاشروں میں آمریت اور بادشاہت ہے، اس لیے وہاں روشن خیالی کے ماحول کو جگہ نہیں ملتی۔

    ڈاکٹر عامر کا کہنا تھا کہ ایک اچھا ریڈر ہی اچھا لیڈر بنتا ہے۔ اس کی مثال انھوں نے دنیا کے ان رہنماؤں کی دی جو بہترین رہنما گزرے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی ابتدائی چار دہایوں کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت معاشرہ قدرے روشن خیال تھا۔ اور اس کی وجہ وہ لوگوں اور نوجوانوں میں کتب بینی کا رحجان اور اس کے ثمرات کو قرار دیتے ہیں۔

  • جامعہ کراچی میں ضرورتِ مند طلبہ کے لیے دیوارِتعلیم

    جامعہ کراچی میں ضرورتِ مند طلبہ کے لیے دیوارِتعلیم

    کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے تعلیم کی جانب مثبت رحجان کا ہونا لازمی ہے اور کتابوں سے دوستی ہی کسی قوم کوترقی یافتہ اقوام کی صف میں مقام دلاتی ہے‘ اسی مقصد کے حصول کے لیے جامعہ کراچی کے طلبہ و طالبات نے دیوارِ تعلیم قائم کی ہے۔

    پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ہمیشہ ہی حکومتی سطح پر غفلت کا شکار رہا ہے اور اسی سبب یہاں کتب بینی کا رواج تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے‘ عالم یہ ہے کہ یونی ورسٹی پہنچنے تک طلبہ وطالبات کی قابلِ ذکر تعداد نے درسی کتب کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھی ہوتی۔

    02

    کتابیں نہ پڑھنے کی ایک وجہ ان کی زیادہ قیمتیں بھی ہیں۔ پاکستان جیسے کمزور معیشت والے ملک میں کتب بینی ہمیشہ سے ایک مہنگا شوق سمجھا گیا ہے۔ تعلیم کے میدان میں کتب بینی کے شوق میں کمی کا ادراک کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے طلبہ وطالبات نے ایک چھوٹا لیکن اہم قدم اٹھایا ہے۔

    04

    جامعہ کراچی کے سوشل سائنسز کے طلبہ وطالبات نے ایک دیوارِ تعلیم قائم کی ہے جہاں موجود بک شیلف میں طلبہ اپنے پاس موجود اضافی کتب رکھ جاتے ہیں جبکہ ضرورت مند طلبہ انہیں وہاں سے بغیر کسی شرمندگی کے حاصل کرلیتے ہیں۔

    سال 2017 کی ممکنہ مقبول کتابیں: پاکستانی مصنف بھی فہرست میں شام

    کتابیں پڑھنے سے عمر بڑھتی ہے

    طالب علموں کے لیے مفت کتابیں ردی کے بھاؤ فروخت

    دیوارِ تعلیم شعبہ تاریخ عمومی کی آئی ایچ قریشی میموریل لائبریری سے ملحقہ گارڈن میں قائم کی گئی ہے جو کہ آرٹس لابی کے بالکل ساتھ واقع ہے اور جامعہ میں سوشل سائنسز کے اکثر طلبہ وطالبات کا یہاں سے گزر ہوتا ہے۔

    01

    بک شیلف کا معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں ںہ صرف تاریخ بلکہ بزنس‘ سائنسز اور لٹریچر سے متعلق کتب بھی موجود تھیں جبکہ انگریزی ناول بھی یہاں موجود تھے۔

    06

    جامعہ کراچی کے ایک طالب علم نے ’دیوارِ تعلیم‘ کے حوالے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ یقیناً ایک مثبت اقدام ہے اورایسے اقدامات ہر تعلیمی ادارے میں ہونےچاہیں کہ جہاں سے طلبہ باآسانی کتب حاصل کرسکیں۔

    03

    شعبہ تاریخ عمومی کے ایک سابق طالب علم نے جامعہ کراچی میں اس دیوار کو دیکھ کر بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’دیوارِ تعلیم‘ کا قیام درحقیقت صحت مند معاشرے کی تعمیر کی جانب ایک انقلابی قدم ہے ‘ معاشرے میں کتب بینی کے رواج کو فروغ دینے کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔