Tag: Book

  • ٹرمپ صدر بننے سے خوف زدہ تھے: امریکی صدر سے متعلق سنسنی خیز انکشافات

    ٹرمپ صدر بننے سے خوف زدہ تھے: امریکی صدر سے متعلق سنسنی خیز انکشافات

    لندن: دنیا کے طاقتور ترین شخص تصور کیے جانے والے ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق اہم انکشافات سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق وہ وائٹ ہائوس جانے سے خوف زدہ تھے، انھیں‌ اپنی کامیابی کا قطعی یقین نہیں‌ تھا اور ان کی بیٹی مستقبل میں صدر بننے کے لیے پر تول رہی ہیں۔

    برطانوی خبر رساں‌ ادارے کے مطابق یہ انکشافات صحافی مائیکل وولف کی کتاب ’فائر اینڈ فیوری: ان سائیڈ دی ٹرمپ وائٹ ہاؤس‘ میں‌ کیے گئے ہیں، جس کی اشاعت جلد متوقع ہے، جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کتاب کی اشاعت رکوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    نیویارک میگ نامی جریدے میں اس کتاب کا ایک حصہ شایع ہوا ہے، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے ابتدائی دنوں‌ پر روشنی ڈالتا ہے۔

    آرٹیکل کے مطابق ٹرمپ اپنی تقریبِ حلف برداری میں‌ شدید غصے میں تھے، کیوں‌ کہ معروف فلمی ہستیوں‌ نے تقریب میں‌ آنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے مسلسل لڑ رہے تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: نہ شکرے ٹرمپ سے ذلت اٹھانے کے بعد حکومت کو احساس ہوا،عمران خان

    مصنف کے مطابق ٹرمپ کو وائٹ ہائوس سے خوف آتا ہے، جس کی وجہ سے انھوں نے اپنا علیحدہ بیڈ روم تیار کروایا، وہ اس کے دروازے پر تالا لگوانے چاہتے تھے، مگر سیکریٹ سروس راہ میں رکاوٹ بن گئی، جس کا کہنا تھا کہ انھیں صدر کی حفاظت کے لیے کمرے تک رسائی درکار ہے۔

    کتاب میں‌ انکشاف کیا گیا ہے کہ الیکشن کی رات ٹرمپ کو اپنی جیت کا قطعی یقین نہیں‌ تھا، جب یہ خبریں‌ آنے لگیں کہ ٹرمپ جیت سکتے ہیں، تو ڈونلڈ جونیئر نے اپنے ایک دوست کو بتایا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کے والد نے کوئی جن دیکھ لیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: شمالی کوریا سے بڑا،طاقتور نیو کلیئر بٹن میرے پاس ہے،ٹرمپ

    کتاب کے مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ کی بیٹی ایونکا ان کے بالوں‌ کا اکثر اپنے دوستوں‌ کے سامنے مذاق اڑاتی ہیں، ساتھ ہی وہ مستقبل میں صدارتی دوڑ میں حصہ لینے کا ارادہ بھی باندھ چکی ہیں۔

    یہ کتاب ٹرمپ کے سابق ساتھی سٹیو بینن سے حاصل کردہ معلومات کا احاطہ کرتی ہے، جس کے مطابق جون 2016 میں ٹرمپ کے بیٹے کی روسی حکام سے خفیہ ملاقات ہوئی تھی، جس میں انھیں ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کے خلاف معلومات فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں

  • کتاب، جس نے دنیا کو دیوانہ بنا دیا

    کتاب، جس نے دنیا کو دیوانہ بنا دیا

    کراچی: ہر سال دنیائے ادب میں لاکھوں کتابیں شایع ہوتی ہیں۔ البتہ وہ کتابیں، جو قارئین کے دلوں میں گھر کر جائیں، بیسٹ سیلر کا رتبہ حاصل کرلیں، ان کا تعداد محض سیکڑوں میں ہوتی ہے۔

    اور ایسی کتب تو گنتی کی ہوتی ہیں، جن کی مقتولیت سرحدیں عبور کر جائے،جن کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوں، انھیں متعدد زبانوں میں ڈھالا جائے اور پھر مقبولیت کا یہ سلسلہ پھیلتا ہی  چلا جائے۔

    سن 1988 میں پرتگالی زبان میں ایک ایسی ہی کتاب لکھی گئی۔ یہ ایک برازیلی ناول نگار کی کاوش تھی۔ اس مختصر سے ناول میں ایک نواجون گڈریے کی کہانی بیان کی گئی تھی، جو خزانے کی خبر پا کر اپنا ریوڑ فروخت کرتا ہے، اور تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔

    مراکش میں دنیا کے قدیم ترین کتب خانے کی بحالی

    گو کتاب ابتدا میں زیادہ مقبول نہیں ہوئی، مگر اس کے فرانسیسی ترجمے نے فرانس میں دھوم مچا دی۔ انگریزی کے قالب میں ڈھلنے کے بعد تو اس نے ریکارڈ کامیابی حاصل کی، اس کی شہرت نے امریکا اور یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اگلے مرحلے میں ایشیا میں اس کا چرچا ہوا، یوں دھیرے دھیرے یہ ناول پوری دنیا میں پھیل گیا۔

    Paulo Coelho

    یہاں ممتاز برازیلی مصنف پاﺅلو کوئیلو کے ناول ’’الکیمسٹ‘‘ کا تذکرہ ہورہا ہے، جس کی اب تک 65 ملین، یعنی لگ بھگ ساڑھے چھ کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں، گذشتہ پانچ عشروں میں کسی کتابیں کی اس قدر کاپیاں نہیں بکیں۔

    نیویارک ٹائمز بیسٹ سیلر لسٹ کتابوں کی مقبولیت کے تعین میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر کوئی کتاب چند ہفتے بھی اس لسٹ میں ٹاپ پر رہے، تو مصنف کی قسمت جاگ اٹھتی ہے، مگر الکیمسٹ کا معاملہ یہ تھا کہ یہ کتاب 315 ہفتے اس لسٹ میں سرفہرست رہی ۔ اسی سے اس ناول سے جڑی دیوانگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    اصل حیرت ترجمے کے میدان میں سامنے آئی۔ عام مشاہدہ ہے کہ کتابوں تو کئی مقبول ہوتی ہیں اور بکتی بھی خوب ہیں، مگر ہر کسی کا متعدد زبانوں میں ترجمہ نہیں ہوتا، مگر ’’الکیمسٹ‘‘ وہ خوش نصیب کتاب تھی، جس کا دس بیس نہیں، بلکہ 80 مختلف زبانوں میں، جی ہاں 80 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔

    الکیمسٹ کا معاملہ یہ تھا کہ یہ کتاب 315 ہفتہ نیویارک ٹائمز بیسٹ سیلر لسٹ میں سرفہرست رہی

    یہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے، آج تک کسی زندہ ادیب کا اس قدر زبانوں میں ترجمہ نہیں ہوا اور یوںمصنف کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہوا۔

    حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک جانب جہاں معروف کتب کوفلموںکا روپ دینا عام ہے، جین آسٹن کے” تکبر و تعصب“ سے جے کے رولنگ کی ”ہیری پورٹر“تک ہالی وڈ کئی مشہور پراجیکٹس کو بڑے پردے پر پیش کرچکا ہے، الکیمسٹ کو اب تک فلم کی صورت نہیں دی گئی۔شائقین کو اس واقعے کو بڑی شدت سے انتظار ہے۔

  • چین میں 12 لاکھ کتابوں پر مشتمل خوبصورت لائبریری

    چین میں 12 لاکھ کتابوں پر مشتمل خوبصورت لائبریری

    بیجنگ: چین میں کتابوں کی عظمت کے شایانِ شان خوبصورت ترین لائبریری کا افتتاح کردیا گیا جسے دیکھ کر حصول علم کے متوالے حیران رہ گئے۔

    چین کے شہر تیانجن میں نہایت شاندار کتب خانہ تیار کیا گیا ہے جو خوبصورتی، ڈیزائن اور سہولت کا انوکھا شاہکار ہے۔

    پانچ منزلہ لائبریری میں 12 لاکھ کتابیں موجود ہیں جو دنیا بھر کے زبانوں اور ادب کی ہیں۔ کتب خانے کے مرکزی بیضوی انداز کے ہال کو درمیان سے دیکھنے پر آنکھ کا گمان ہوتا ہے۔

    یہاں لوگ کتابیں نہ بھی پڑھیں تب بھی گھوم پھر کر لائبریری ضرور دیکھتے ہیں۔

    جدید طرز کی اس لائبریری میں دفاتر اور میٹنگ رومز کے علاوہ کمپیوٹر، آڈیو اور ویڈیو کمرے بھی موجود ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آگ سے جلا کر پڑھی جانے والی انوکھی کتاب

    آگ سے جلا کر پڑھی جانے والی انوکھی کتاب

    کسی کتاب کو جلانا ایک نہایت ہی ناپسندیدہ اور بدترین فعل ہے جس پر کتاب دوست افراد سخت اشتعال میں بھی آسکتے ہیں، لیکن اس وقت کیا کیا جائے جب کسی کتاب کو پڑھا جانا ہی اس وقت ممکن ہو جب اسے آگ سے جلایا جائے؟

    ہالینڈ کے ایک ادارہ برائے فائن آرٹ اینڈ ڈیزائن کے چند طلبا نے ایسی کتاب تخلیق کی ہے جس پر لکھے الفاظ اس وقت نظر آئیں گے جب اسے 451 فارن ہائٹ ڈگری پر جلایا جائے گا۔

    اس سے قبل یہ کتاب آپ کو بالکل سیاہ نظر آئے گی۔

    اسے بنانے والے طلبا کا کہنا ہے کہ کتاب کے اوراق پر ایک تہہ چڑھائی گئی ہے جو جلانے کے ساتھ غائب ہوجائے گی اور اس کے نیچے سادے کاغذ پر لکھے گئے لفظ نمودار ہوجائیں گے۔

    کتاب دوست افراد کے لیے یقیناً اس کتاب کو پڑھنا ایک دلچسپ تجربہ ہوسکتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی کتاب منظرعام پر آگئی

    امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی کتاب منظرعام پر آگئی

    نیویارک : دو شہریوں کے قتل کے بعد رہائی پا کر امریکا واپس جانے والے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی کتاب منظرِ عام پر آگئی، کتاب میں ریمنڈ ڈیوس نے گرفتاری سے رہائی تک کے واقعات بیان کئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق دو پاکستانی نوجوانوں کے قتل اور ڈرامائی رہائی پر شہرت پانے والے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے اپنی آپ بیتی بیان کردی، ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب دی کنٹریکٹر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصل قیمت کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے۔

    کتاب میں ریمنڈ ڈیوس نے 2011 میں پاکستان کے شہر لاہور میں پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات درج کی ہیں جس کے بعد انہیں جیل جانا پڑا تھا اور دونوں ملکوں کے سفارتکار انہیں وہاں سے نکالنے کے لیے سرگرم ہوگئے تھے۔

    ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ ان کی رہائی میں پاکستان اور امریکا کی سرکردہ شخصیات نے اہم کردار ادا کیا۔

    ریمنڈ ڈیوس کا کہنا تھا کہ ایک عام دن کی معمول کی ڈرائیو فرنٹ پیج کی خبر بن گئی۔

    واضح رہے کہ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے 2011 میں لاہور میں دو نوجوانوں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا، ریمنڈ ڈیوس کو واقعہ کے بعد گرفتار کرلیا گیا تھا، ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات تناؤ کا شکار ہوگئے تھے۔

    اڑتالیس روز جیل میں رہنے کے بعد لاہور کی سیشن کورٹ نے ریمنڈ ڈیوس کورہا کردیا تھا۔

    ریمنڈ ڈیوس نے جاں بحق افراد کے اہلخانہ کو بیس کروڑ خوں بہا اور غیر قانونی ہتھیار رکھنے پر بیس ہزارجرمانہ ادا کیا تھا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • گورنر شپ کے 14 برس، عشرت العباد کا کتاب لکھنے کا اعلان

    گورنر شپ کے 14 برس، عشرت العباد کا کتاب لکھنے کا اعلان

    کراچی: ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا ہے کہ 14 سالہ گورنر کے دوران سخت تجربات کا سامنا کرنا پڑا اور اس حالات میں بہت اتار چڑھاؤ آئے، انہوں نے ان پر کتاب لکھنے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق گورنر ہاؤس میں صحافیوں سے الوداعی ملاقات کے بعد نمائندہ اے آر وائی ارباب چانڈیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عشرت العباد نے اپنے 14 سالہ تجربات پر کتاب لکھنے کا عندیہ دیا۔

    عشرت العباد نے کہا کہ گورنر شپ کے دوران بہت سارے نشیب وفراز آئے، ان تمام حالات پر ایک کتاب ’’وہ جو کچھ میں کہہ نہ سکا‘‘ کے نام سے لکھنے کا اعلان کیا۔ عشرت العباد نے نئے آنے والے گورنر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔


    ’’پڑھیں:  جسٹس(ر) سعید الزماں‌ صدیقی گورنر سندھ تعینات‘‘


    انہوں نے کہا کہ کافی عرصے سے اپنے اہل خانہ کو وقت نہیں دے سکا تھا تاہم اب زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزاروں گا, سیاسی زندگی کے دوبارہ آغاز کے حوالے سے گورنر سندھ نے کہا کہ فی الحال ارادہ نہیں ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ سامنے آجائے گا۔


    ’’مزید پڑھیں:  طویل ترین گورنر شپ کا خاتمہ‘‘


    مراد علی شاہ کی گورنر سے الوداعی ملاقات

    دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گورنر سندھ سے الوداعی ملاقات کی اور اُن کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔ اس موقع پر گورنر سندھ نے صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے پیپلز پارٹی کے کردار کو سراہا اور خواہش ظاہر کی کہ سندھ مزید ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرنے کا سفر اسی طرح تیزی سے جاری رکھے گا۔

    وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ کم وقت میں بھی عشرت العباد کے تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، مختصر وقت میں بھی گورنر نے ہم سب کی بھرپور رہنمائی کی اور صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔

  • صدائے علم‘ حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا

    صدائے علم‘ حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا

     سمیع اللہ خان کی مرتب کردہ کتاب’’صدائے علم‘‘میرے سامنے ہے اورمطالعہ کے بعد سوچ و قلم اِس کشمکش میں ہیں کہ اپنے تاثرات کو کیا عنوان دوں؟ انمول لکھوں یا کہ لاجواب؟گوہرِ ادب لکھوں یا کہ نگینہ صحافت؟شاہکار لکھوں یا کہ نادر؟آفتاب لکھوں یا کہ مہتاب؟صبح کی روشن کرن لکھوں یا کہ اندھیرے میں جلتا دیا؟تپتے صحرا میں کوئی شجرہ سایہ دار لکھوں یاکہ جلتے سروں پر پڑنے والا بارش کا پہلا قطرہ ؟ مہکتا گلستان لکھوں یا چمکتی کہکشاں؟تعبیر لکھوں یا کہ تدبیر؟ جذبہ لکھوں یا کہ نئی لگن، کوئی بھی ایسا لفظ اِس کاوش کے شایانِ شان میرے پاس نہیں جو اِس کتاب کے اعلیٰ و بے مثا ل ہونے کی تعریف کر سکے ۔

    سمیع کی اس خوبصورت و کامیاب کاوش پرجتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے کم ہے جنہوں نے مضامین کے انتخاب میں زبان و بیان کے تمام تر معیارات کو پیش نظر رکھا ہے۔اِس کتاب کی اشاعت کو عملی شکل دینے میں سمیع اللہ خان کو عبدالمجید جائی اور نسیم الحق زاہدی کی معاونت حاصل رہی ہے اور اِسے اُردو سخن ڈاٹ کام پاکستان نے جون ۲۰۱۶ میں شائع کیا جبکہ دیدہ زیب سرورق کے لئے ناصر ملک نے اپنے پیشہ وارانہ جوہر خوب دیکھائے ہیں ۔

    سمیع نے انتساب میں اِس کاوش کو پرنسپل محترمہ عفت معین صاحبہ کے نام کیا ہے۔میانوالی سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان عصرِحاضر کے نامور لکھاریوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں،انہیں کالم نگاری، فیجر نگاری، افسانہ نگاری اور طنزومزاح کے حوالے سے خاص مقام حاصل ہے،انگلش میں ماسٹر کر رہے ہیں۔انہوں نے قلمی سفر کا آغاز اگست ۲۰۱۰ میں روزنامہ جناح کے ادارتی صفحہ سے کیا، بعنوان’’اُفقِ گفتگو‘‘اِنکے کالم کئی اخبارات، جریدوں،آن لائن میگزینز میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔پاکستان ادب پبلشرز کے لئے ڈائریکٹر کی خدمات بھی باخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔روزنامہ اوصاف، روزنامہ منصف انڈیا، ہلال میگزین اور ماہنا مہ ادب دوست کیلئے انکی قلمی خدمات کو میدانِ ادب و صحافت میں خوب سراہا جاتا ہے۔پی ایف یو سی کے لئے سیکرٹری پروگرام کی ذمہ داریاں بھی باحسن انداز سنبھالے ہوئے ہیں۔انکے نادر کالموں کا مجموعہ ’’اُفقِ گفتگو‘‘زیر طبع ہے۔

    ’’صدائے علم ‘‘درحقیقت ایک خزانہ علم ہے، جس میں واحدانیت، رسالتﷺ، آل محمدﷺ،آخرت، حقوق العباد، مذہب کیساتھ ساتھ ادب ،انسانیت،تعلیم، پاکستان و پاکستانیت،حکمرانوں کے ظالمانہ رویوں، وطن کے خلاف ہونے والی اندرونی و بیرونی سازشوں،عالم اسلام، اقوام عالم،خواتین سمیت کسی بھی اہم موضوع کو نظرانداز نہیں کیا گیا۔۔اِن کی اِس کاوش پر ادب و صحافت کی نامور شخصیات نے اپنے خوبصورت آرا کا بھی اظہار کیا ہے۔

    اجمل نیازی لکھتے ہیں کہ ’’یہ کتاب میرے اِس جملے کی تائید کرتی ہے کہ کالم نگاری سالم نگاری ہے،یہ ایک اچھی کاوش ہے، اپنی کتاب کا نام صدائے علم رکھ رک اپنی علمی وابستگیوں کو ثابت کیا ہے‘‘۔۔یوسف عالمگیر ین اپنا اظہار خیال کچھ یوں کرتے ہیں کہ ’’سمیع اللہ خان کا وطن عزیز سے بھرپور محبت کرنے والے ہنرمند نوجوانوں میں ہوتا ہے،انکا موقف ہے کہ تعلیم میں ترقی کے بغیر ملک کسی شعبہ میں بھی ترقی نہیں کر سکتا یہ وجہ ہے کہ زیرنظر کتاب میں نوجوانوں لکھاریوں کی مختلف موضوعات پر تحریریں ہیں جبکہ شعبہ تعلیم کو بھی خصوصی جگہ دی گئی ہے۔انہوں نے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر کے لکھاریوں سے الفت کی دلیل بھی پیش کی ہے۔‘‘ڈاکٹر ارشد اقبال(مراد آباد،انڈیا)کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے اپنی رائے میں کہتے ہیں کہ’’ سمیع اللہ خان کی ترتیب شدہ کتاب اس حوالے سے اہم ہے کہ اس میں نو آموز ابھرتے ہوئے کالم نگاروں کو موقع فراہم کیا گیا ہے۔اردو صحافت کے حوالے سے میں سمیع اللہ خان کی اس بے لوث کاوش کو سراہتا ہوں اور اس کارواں میں شامل تمام شرکاء کے لئے دعاگوہ ہوں جو اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی توانائی صرف کر رہے ہیں‘‘۔

    سمیع اپنے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں کہ ’’صدائے علم میں اکثریت نو آموز لکھاریوں کی ہے مگر اسی طبقے کے کچھ سینئر حضرات کی تحریریں بھی شامل ہیں تا کہ طفلِ مکتب اپنی تحریروں کا تقابل کر کے فائدہ اُٹھا سکیں،وطنِ عزیز جس نازک دور سے گزر رہا ہے ایسے لمحات میں جس زمین کو نوجوان لکھاری میسر ہوں اور ان میں سے اکثر کا موضوع تعلیم ہو تو اُسے کسی صورت ناامید نہیں ہونا چاہیے،قوی امید ہے کہ اس کتاب کے منظر عام پر آنے سے اس میں شامل نئے لکھاریوں کے حوصلے بلند ہوں گے ،ان کی تخلیقات کو جلا ملے اور نئے لکھاریوں کی تحریروں پر مشتمل انتخاب چھاپنے کی روایت مستحکم ہوگی۔نئے تخلیق کاروں کو مستقل مزاجی ملے گی اور ایسی کلیاں جو کھلنے کو تیار ہیں انہیں جوبن نصیب ہو گا، جوان نسل اور معصوم تخریب کے بجائے تخلیق کا راستہ اختیار کریں گے‘‘۔۔سمیع اللہ اپنے محسنوں اور دوستوں کو بھی نہیں بھولے اور ناصر ملک، مبشرالماس، حافظ شفیق الرحمن، اشرف سہیل،امجد رانا، بشیرہمدانی، عبدالماجد ملک، فرخ شہبازو ڑائچ،ساجد خان، احمد علی کیف، فرحان نذیر، عبدالستار اعوان، نسیم الحق زاہدی، عبدالمجید جائی، اختر سردار چوہدری ،ذیشان انصاری اور سید بدر سعید سے بھی خوبصور ت اندازو بیان میں اظہار تشکر کیا ہے۔

    معروف کالم نگاروں اعجاز حفیظ خان نے اپنے مضمون بعنوان’’سمیع اللہ خان کی کاوش،،صدائے علم ‘‘اور سلمان عابد نے بھی اپنی تحریر بعنوان’’نوجوان لکھاریوں کا مقدمہ‘‘میں سمیع کی اِس ادبی کاوش پر بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کتاب صحرا میں پھول کھلانے کے مترادف ہے۔اور یہ کتاب ایک بہتر قیادت فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بنے گی‘‘۔

    ۱۹۶ صفحات پر مشتمل ’’صدائے علم‘‘ میں موجود ۴۵ مضامین ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔جیسا کے پہلے ذکر کیا ہے کہ اکثر لکھاریوں نے تعلیم کو اپنا موضوع بنایا ہے۔’’کتاب اپنی طرف پھر بلا رہی ہے(عبدالستار اعوان)، بلوچستان میں تعلیم کو فروغ اور تقاضے (زرداد کاکڑ)، ایجوکیشن ریفارمز(شہزاد سلیم عباسی)،نظام تعلیم کی خرابیاں اور تدراک کیسے ممکن ہے(محمد شاہد یوسف خان)،کوالٹی ایجوکیشن کا حصول(ایم اکرم ریاض)،بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی زبوں حالی(دوست محمد جمالی)،ہم صورت گر کچھ خوابوں کے(سید ناصر احمد شاہ)،آخر تعلیم کی ذمہ دار کیوں(شہزاد سلیم عباسی)،فاصلاتی نظامِ تعلیم وقت کی ضرورت مگر؟(سمیع اللہ خان)، تعلیم اور آج کا معاشرہ(ملک این اے کاوش)،طبقات میں بٹا نظام تعلیم(ثقلین رضا)‘‘اِن مضامین میں لکھاریوں نے بڑی نفاست سے پاکستان میں تعلیم کی اہمیت، نظامِ تعلیم میں جدت پسندی کے رحجانات کو فروغ دینے، مساوی نظامِ تعلیم، پسماندہ علاقوں میں تعلیم پر خصوصی توجہ کے حوالے سے اپنی قلمی ذمہ داریوں کو نبھا یا ہے ۔’’حضرت مست توکلی، بلوچی صوفی اور رومانی شاعر(،مہ جبین ملک)،منفرد وممتاز گیت نگار و شاعر۔تنویرشاہد محمد زئی(عبداللہ نظامی)،ارشدملک کی زندگی کا بھرپور عکاس شعری مجموعہ(ریاض ندیم نیازی)‘‘ جیسے مضامین بھی اِس کتاب میں خوب ادبی رنگ بھرتے دیکھائی دے رہے ۔اسلامی مضامین’’ مخلوق اللہ کا کنبہ(اختر سردار چوہدری)، خلوص(شہزاد اسلم راجہ)، انسانیت کی فلاح کے لئے(اختر سردار چوہدری)،افسوس کے ہم مر جائیں گے(اخترسردار چوہدری)،اسلام میں جھوٹ کی ممانعت(خواجہ وجاہت صدیقی)‘‘انسانیت،زندگی ،موت اور بعداز موت زندگی،اصلاح معاشرے،اخلاص و اخلاق کا بہت خوبصورتی سے درس دے رہے ہیں۔’’باپ زندگی کا انمول تحفہ(میاں نصیر احمد)، کر بھلا ہو بھلا(علی حسنین تابش) ‘‘میں اِس بے رواروی کی دنیامیں حقوق و فرائض پر اسلامی نقطہ نظر کے مطابق ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔معاشرے میں مساوات کی اہمیت کو ’’طبقاتی تقسیم مگر کیوں(محمد ذوالفقار جٹ)‘‘میں اجاگر کیا گیاہے۔نام نہاد صحافیوں کی یلغار کو ’’فیس بک کے صحافی (تجمل محمود جنجوعہ)‘‘ میں بے نقاب کیا گیا ہے۔رسالتﷺ واحدانیت ، آل محمد ﷺ کے حوالے سے ’’قائد انسانیت حضرت محمدﷺ(نسیم الحق زاہدی)، دنیا کو آج تیری ضرورت ہے یا حسینؓ(سید اسد عباس)’’ روح پرور مضامین کی برکت سے ہی کتاب کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ کیونکر نہ ہو۔’’حج،قربانی اور عید(سہیل احمد مراد پوری) ‘‘حج کی فرضیت، قربانی کے مسائل اور عید کی خوشیوں کوایک دوسرے سے شرعی احکامات کے مطابق منسلک کر کے بڑی روانی سے قلم بند کیا گیا ہے۔’’اے حلب! ہم مجرم ہیں (حیات عبداللہ)،سعودیہ عرب میں بیس اسلامی ملکوں کی فوجی مشقیں(محمد شاہد محمود)‘‘میں عالم اسلام پر کفار کی نظرِبد ،اُن کے ناپاک ارادوں سمیت مسلم ممالک کی یک جہتی بارے بڑی دلیر ی سے قلمی جہاد کیا گیا ہے۔دشمنانِ پاکستان کے عزائم ،سازشوں سے اندرونی اور سرحدوں پر خلفشار کو’’بھارتی جنگی جنون اور انسانیت کی تذلیل(محمد عتیق الرحمن)، آزادی کے ۶۸ سال(محمد ذوالفقار)‘‘میں بڑی بے باکی سے بیان کر کے محبت وطنی کا حق خوب ادا کیا ہے۔’’اس بار کون عید منائے گا (مجید احمد جائی)، انقلاب کا سبز باغ اور حبُ عاجلہ(عاکف غنی)، برائے فروخت(افتخار خان)، چوکیدار صحافی(تجمل محمود جنجوعہ)،امن کے دشمنوں کا یونیورسٹی حملہ(محمد شاہد محمود)،تبلیغی جماعت اور دہشت گردی(عبدالقادرسہیل)،اہداف کچھ پورے،کچھ ادھورے۔منزل کب ملے گی(رشید فراز)،میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں(سید ناصر احمد شاہ)،رمضان المبارک اور ہمارے منافقانہ رویے(ڈاکٹر عبدالباسط)‘‘اِن فکرانگیز تخلیقات میں پاکستان کے اندرونی حالات،انتشار و غیر یقینی صورتحال، دہشت گردیاں، تخریب کاریاں اور ہماری حکمت عملی،حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور اُن سے حاصل نتائج اورہمارے منفی رویوں کو بیان کیا گیاہے ۔’’مارٹن لوتھر کنگ کی بات بیول قصبہ والے سمجھ گے (ضیغم سہیل وارثی)،بچوں کے حقوق کا عالمی دن(ابوبکر بلوچ)ناکامیوں سے کامرانی تک(قاری احمد ہاشمی)عورت آج بھی ونی کی جاتی ہے(مقدس فاروق اعوان)‘‘تحریریں بھی پڑھنے کے قابل ہیں ۔میر ی نظر میں کوئی ایسی تحریر نہیں گزری جس میں کچھ نئا نہ ہویا کچھ پُرانا نئے انداز اور نئی سوچ و فکر کے ساتھ نہ ہو۔تحریروں میں جہاں تنقیدہے وہاں برائے اصلاح کا عنصر بہت نمایاں ہے۔میں اِس صدائے علم کو خزانہِ علم ہی لکھوں گا۔

    تحریر: حسیب اعجازعاشر