Tag: Books

  • تخلیقی سواری لائبریریاں کیسے کام کرتی ہیں؟

    تخلیقی سواری لائبریریاں کیسے کام کرتی ہیں؟

    ویسے تو ملک بھر میں مختلف لائیبریریاں کام کررہی ہیں لیکن لاہور میں ایک ایسی موبائل لائیبریری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں شہریوں کو کتابیں گھر جاکر فراہم کی جاتی ہیں۔

    تخلیقی سواری لائیریری نہ صرف پنجاب بلکہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں گھروں کے دروازے پر علم فراہم کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ لاہور سمیت ملک بھر میں 18 تخلیقی سواری لائبریریاں قائم کی گئی ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں سی ای او تخلیقی سواری لائبریری آمنہ کاظمی نے اپنے مشن کے حوالے سے ناظرین کو آگاہ کیا اور اس کے حوصلہ افزا نتائج پر روشنی ڈالی۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمارا مقصد ان بچوں تک کتابوں کی رسائی دلانا ہے جن علاقوں میں لوگ بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، انہوں نے بتایا کہ تمام صوبوں میں ہماری اونٹ لائبریری، بس لائبریری، رکشہ لائبریری، بک بائیکس سمیت 18 مختلف قسم کی لائیبریریاں ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ دور دراز علاقوں میں مختلف لوگوں سے رابطے کرکے پسماندہ علاقوں میں اونٹوں اور دیگر ذرائع سے وہاں کے بچوں تک کتابیں پہنچائی جاتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ کتابیں پڑھ کر ان بچوں کی خوشی قابل دید ہوتی ہے۔

  • دلہن نے منفرد حق مہر مانگ کر لوگوں کے دل جیت لیے، ویڈیو وائرل

    دلہن نے منفرد حق مہر مانگ کر لوگوں کے دل جیت لیے، ویڈیو وائرل

    مردان : خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں گذشتہ روز ہونے والی شادی میں دلہن نے انوکھا حق مہر طلب کرکے باراتیوں کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا۔

    مردان میں پشتو ادب کی پی ایچ ڈی اسکالر دلہن کو پشتو کا پی ایچ ڈی ایک لاکھ کی کتابوں کے عوض بیاہ کر لے آیا، اس منفرد حق مہر کو دولہا دلہن کے عزیز و اقارب اور سوشل میڈیا صارفین نے بھی خوب سراہا۔

    اے آر وائی نیوز پشاور کی نمائندہ مدیحہ سنبل سے گفتگو کرتے ہوئے دلہن نائلہ شمال صافی نے کہا کہ جب اُن کے سامنے نکاح نامہ رکھا گیا اور کہا گیا کہ حق مہر میں کیا اور کتنا چاہیے تو اُنہوں نے حق مہر میں ایک لاکھ پاکستانی روپے کی کتابیں طلب کیں۔

    دلہن نائلہ نے بتایا کہ پھر مجھے دس پندرہ منٹ وقت دیا گیا کہ مزید سوچ لو اور پھر بتانا کہ کیا چاہیے؟ میں نے پھر سوچا لیکن اس سے اچھا اور کوئی حق مہر ذہن میں نہیں آیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ایسا حق مہر مانگنے کی پہلی اور اصل وجہ یہ ہے کہ ہمیں کتابوں کی قدر کرنی چاہیے اور دوسری وجہ یہ کہ غلط رسومات کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔

    نائلہ شمال صافی چارسدہ کے علاقے تنگی جبکہ ان کے شوہر ڈاکٹر سجاد ژوندون مردان کے علاقے بھائی خان کے رہائشی ہیں۔سجاد ژوندون نے پشتو میں پی ایچ ڈی مکمل کی ہے جبکہ نائلہ شمال صافی اس وقت پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔

    اس حوالے سے ڈاکٹر سجاد ژوندون کا کہنا تھا کہ جب اُنہوں نے اپنی منگیتر کے حق مہر کے بارے میں سنا تو اُنہیں خوشی ہوئی کہ اس  عمل سے حق مہر میں مانگی جانے والی زیادہ رقوم کے رواج کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔

    واضح رہے کہ اس نئے جوڑے کے نکاح نامے میں مہر کی رقم کے سامنے خانے میں لکھا گیا ہے کہ” ایک لاکھ روپے پاکستانی رائج الوقت مالیت کی کتب” ایسا کوئی ذکر شاید ہی کسی اور کے نکاح نامے میں ہو۔

  • کملا ہیریس کی تصانیف کی مقبولیت بڑھنے لگی

    کملا ہیریس کی تصانیف کی مقبولیت بڑھنے لگی

    نیو یارک : امریکہ کی نو منتخب پہلی خاتون نائب صدر کملا ہیرس صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ ایک ادبی شخصیت بھی ہیں، ان کی تصانیف کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔

    اس حوالے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق ادب اطفال پر مبنی کملا کی کتاب ‘ سپر ہیروز ار ایویری ویر’ اور کملا کی یادداشتوں پر مبنی سوانح حیات ‘دی ٹروٹز وی ہولڈ، این امریکن جرنی کی مقبولیت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔

    امریکی صدارتی انتخابات 2020 میں کملا ہیرس کا نائب صدر منتخب ہونے کے بعد عالمی سطح پر آن لائن خریداری کے مختلف پلیٹ فارمز پر ان کتابوں کی فروخت میں پہلے کے مقابلے میں کئی گناہ اضافہ ہوا ہے۔

    لوگوں کے اندر کملا کی زندگی اور ان کے افکار و خیالات کے بارے میں جاننے کے سلسلے میں دلچسپی بڑھ گئی ہے، ادب اطفال پر مبنی کملا کی کتاب ‘سپر ہیروز ار ایویری ویر’ اور کملا کی یادداشتوں پر مبنی سوانح حیات ‘دی ٹروٹز وی ہولڈ: این امریکن جرنی’ کو امریکی معاشرہ میں خوب پذیرائی مل رہی ہے۔

    دوسری جانب کملا کی بھانجی مینا ہیریس کی بچوں کے لیے لکھی گئی کتاب ‘کمالہ اینڈ مایاز بک آئیڈیا’ بھی کافی مقبول ہورہی ہیں۔ ان کتابوں کے علاوہ معروف مصنف نکی گریمس اور لورا فریمن کی تصاویر، گرافکس اور مواد پر منبی مشترکہ کتاب ‘کملا ہیریس: روٹیٹ ان جسٹس’ کو بھی ہاتھوں ہاتھ خریدا جارہا ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کملا ہیرس نے امریکی نائب صدر بننے والی پہلی سیاہ فام عورت کی حیثیت سے تاریخ رقم کی ہے اس سے قبل وہ کیلیفورنیا کی سینیٹر بھی رہی ہیں۔

    کملا نائب صدر کے عہدے پر منتخب ہونے والے جنوبی ایشیائی نسل کی پہلی خاتون ہیں وہ نائب صدر بننے کے بعد حکومت میں خدمات انجام دینے والی اب تک کی سب سے اعلیٰ درجہ کی خاتون بن جائیں گی۔

  • سعودی شہری نے خریداری اور گاڑی چلانے کےلیے پورا شاپنگ مال رینٹ پر لےلیا

    سعودی شہری نے خریداری اور گاڑی چلانے کےلیے پورا شاپنگ مال رینٹ پر لےلیا

    ریاض : سعودی شہری خریداری کےلیے گاڑی سمیت شاپنگ مال میں داخل ہوگیا، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر میں ایسے افراد موجود ہیں جن کے پاس دولت تو بے تحاشا ہے لیکن خرچ کرنے کےلیے جگہ نہیں جس کےلیے وہ عجیب و غریب کام انجام دیتے رہتے ہیں ایسا ہی کچھ سعودی عرب میں ہوا جب ایک شخص نے گاڑی چلانے کےلیے پورا شاپنگ مال کرائے پر لےلیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی شہری کی شاپنگ میں گاڑی چلانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوگئی جس میں عرب شہری کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے القصر مال کی ایک منزل پر گاڑی چلاتے دیکھا جاسکتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ وائرل ہونے والی ویڈیو شاپنگ مال کے سیکیورٹی گارڈ نے بنائی تھی ، جب عرب شہری مال کے اند گاڑی چلاتے ہوئے ایک دکان کے سامنے رکا اور وہیں پارک کرکے شاپنگ کرنے دکان میں داخل ہوگیا۔

    سیکیورٹی گارڈ کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ مذکورہ شخص نے مبینہ طور پر پورا شاپنگ مال رینٹ پر حاصل کیا ہے تاکہ اندر گاڑی چلا سکے۔

  • سال 2018 کی اہم کتابیں اور چند سوالات

    سال 2018 کی اہم کتابیں اور چند سوالات

    تحریر و تجزیہ: سیمیں کرن

    ایک ایسے وقت میں، جب یہ شوروغوغا ہے کہ ادب پھل پھول نہیں رہا، کتاب کلچر کو انٹر نیٹ نگل لیا ہے، دنیا ایک بالکل نئی کروٹ لے چکی، وہاں موجودہ اردو ادب کو پرکھنے اور اُس پر بات کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

    کیا اُردو ادب تخلیق نہیں ہو رہا؟ ایسا ادب جو بین الاقوامی معیارات کا مقابلہ کر سکے، کیا کتاب کلچر ہمارے بیچ سے غائب ہو چکا ہے؟ کیا کتاب کی جگہ واقعی نیٹ اور سوشل میڈیا لے چکا ہے؟

    اِن سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ناگزیر اِس لیے بھی ہو جاتا ہے کہ نئی صدی کی دوسری دہائی اختتام پذیر ہے اور گذشتہ بیس تیس برس ایک مکمل بدلے اورنئے سماج کے دعوے دار ہیں، جہاں سیاست ہماری جذباتی دنیا میں بری طرح داخل ہو چکی ہے، عام شخص کا سیاسی شعور مزید بالغ ہو چکا ہے۔

    [bs-quote quote=”قرة العین حیدر کہتی ہیں: ”پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔“ اور اگر یہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    اُردو زبان کا شمار برصغیر کی اہم زبانوں میں ہوتا ہے، ایک ایسی زبان جسے پڑھنے اور بولنے والے دُنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں، جو پاکستان کی قومی زبان ہے، یہ ہندوستان میں ایک بڑی آبادی میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، ہندوستان اُردو ادب میں مسلسل حصہ بھی ڈالا جا رہا ہے، لیکن اِس کے باوجود اُردو ادب زوال پذیر ہے کا سلوگن کیوں گردش عام ہے؟

    اِن حالات میں اس سوال کے معنی خیزی نہ صرف ادب کے لکھاری کے لیے بڑھ جاتی ہے بلکہ قاری بھی اس سوال کوپوچھنے میں حق بجانب ہے، اس خطے کا سماج ایک گھٹن، انتشار اور شدت پسندانہ رویوں کا ثمرکاٹ رہا ہے، پاکستان میں غیر مستحکم جمہوری اقدار اور ہندوستان میں شدت پسند ہندو سیاست، جو اُردو کو ایک اقلیت کی زبان بنانے کے درپے ہے، یہ وہ مسائل، چیلنجز اور سوال ہیں جو اُردو ادیب کو درپیش ہیں اور جن کو جواب ڈھونڈنے میں شاید اس کا حل بھی پنہاں ہے۔

    یہ سوال اہم ہے کہ کیا آج کا ادیب موجودہ سوالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار ہے؟ اگر ہمارے پاس اِس سوال کا کوئی واضح جواب ہے ،تو یقیناً ہم باقی سوالوں اور  مسائل کی جانب مثبت پیش رفت کے قابل ہوں گے۔

    یہ سوال اپنی جگہ ہیں، مگر کتابوں کی اشاعت، اُس کاتذکرہ ناگزیر ہی نہیں، بلکہ خوش آئند بھی ہے اور اِس دعوے کی نفی بھی کہ ادب زوال پذیر ہے اور ناپید ہو رہا ہے۔

    فکشن کے میدان میں قابل ذکر کتب

    سال 2018 میں سامنے آنے والی کتب و جرائد کا جائزہ لیا جائے، تو ہمارے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے، صورت حال یقینا خوش آئند اور اُمید افزا ہے۔ قرة العین حیدر کہتی ہیں: ”پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔“ اور اگر یہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں۔ اِس سال ایسا بہت کام ہوا جو نہ صرف قابلِ ذکر ہے، بلکہ اُردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھا جائے گا۔

    سب سے پہلا تذکرہ مستنصر حسین تارڑ کے ناول ”منطق الطیر ، جدید “کا ہے۔ تارڑ صاحب کے ناول کے کچھ اِختصاصات ہیں، جن میں پرندے سرفہرست ہیں۔ فریدالدین عطا رکے یہ پرندے مستنصر حسین تارڑ کی باطنی دنیا میں ہی نہیں پھڑپھڑاتے، بلکہ یہ پرندے ان کی ادبی کائنات میں بھی پرواز کرتے ملتے ہیں۔ یہ پرندے ” خس و خاشاک زمانے میں “ بھی منسوب ٹھہرتے ہیں۔ یہ تارڑ کے ساتھ ساتھ محوِپرواز رہتے ہیں۔ ایسا ناول لکھنے کی ہمت مستنصر حسین تارڑ جیسا کہنا مشق ادیب ہی کر سکتا تھا۔ جس کے ساتھ مطالعہ کی کثرت ہم رکاب ہے وہ چاہے سفر کی صورت ہو یا کتاب کی۔ تارڑ ہر صورت مطالعہ کے خوگر ہیں اور یہی اُس کی تحریر کو ایک لازوال چاشنی عطا کرتی ہے۔ اُنھوں نے ان گذشتہ دو دہائیوں میں اُردو ادب کو بلا مبالغہ ایسے بڑے ناولز سے نوازا، جس کو اہم عالمی ادب کے سامنے فخر سے رکھ سکتے ہیں۔

    خالد فتح محمد بھی اُن ناموں میں شامل ہیں جنھوں نے اُردو ادب میں معتبر اضافہ کیا ہے۔ اُن کا اسلوب سادہ و دل نشین ہے، بغیر کسی اُلجھا وے کے وہ اپنی بات و سوچ قاری تک پہنچا دیتے ہیں۔ ”شہر مدفون“ اور ” خلیج “کے بعد اُن کا تازہ ناول ”سانپ سے زیادہ سراب “ سامنے آیا ہے۔

    محمد الیاس بھی اُن معتبر ناموں میں شامل ہیں، جنھوں نے گذشتہ دو دہائیوں میں اُردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ متعدد افسانوی مجموعے اور ناول اُن کے کریڈٹ پر ہیں۔ کہر، برف، بارش، پروا اور دھوپ جیسے بڑے ناول وہ اردو اَدب کو دے چکے ہیں اور امسال اُن کا ناول ” عقوبت“ اُمید ہے کہ اشاعت ہو کر سامنے آ جائے گا۔

    اختر رضا سلیمی بھی ایک اہم ناول نگار کی صورت اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ برس اُن کے پہلے ناول ”جاگے ہیں خواب میں“ کا تیسراایڈیشن شائع ہوا، جب کہ دوسرا ناول ”جندر“ بھی سامنے آیا، اس سال اِن کے دو ناولوں کا خوب تذکرہ رہا۔ ہزارہ کے پس منظر میں لکھے گئے یہ دونوں ناولز یقیناً ایک گراں قدر اضافہ ہیں۔

    سید کاشف رضا کا ناول ”چاردرویش اور کچھوا“ اِس برس کا ایک اہم اور عمدہ ناول ہے۔ ناول، آغاز میں دیے ژاں بودریلارد کے اِس بیان کی بہترین مثال ہے کہ آج کا فن حقیقت میں مکمل طور پر گھس گھسا چکا ہے اور دوسرے باب کے آغاز میں ژاں بودریلارد کا کہنا ہے کہ اول تو یوں کہ فن بنیادی حقیقت کا عکس ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے یہ گمان ہوتا ہے کہ اِس کا بیانیہ حقیقت میں گھس گھسا چکا ہے یا کسی حقیقت کا عکس ہے۔ پاکستان کا سیاست کا ایک باب بے نظیر کی شہادت اور طالبان کی کاشت کاری ایسے موضوعات کی عکس بنیادی مصنف کچھ ایسے کی ہے کہ گویا کوئی قلم سامنے چل رہی ہے، جس میں مصنف خود کسی کچھوے کے خول میں جا چھپا ہے۔

    [bs-quote quote=”تمام تر مسائل کے باوجود ادب تخلیق ہو رہا ہے اور کتابیں سامنے آ رہی ہیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    آمنہ مفتی کا ناول ”پانی مر رہا ہے“ بھی قابلِ تذکرہ ہے، وہ ایک عمدہ لکھاری اور ڈرامہ رائٹر ہے، فارس مغل بھی ایک تیز رفتار لکھاری ہیں اور یکے بعد دیگرے اُن کے دو ناول سامنے آئے ہیں۔ ”ہم جان“ اُن کا پہلا ناول تھا اور اِس برس اُن کا ناول ”سوسال وفا“ سامنے آیا ہے، جس میں ایک حساس اور سنجیدہ موضوع کو ایک محبت کی کہانی کی صورت میں پیش کیا ہے۔

    مشرف عالم ذوقی افسانے اور ناول کی دنیا کاوہ اہم نام ہے، جو اب اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، گذشتہ دودہائیوں میں وہ سلگتے مسائل اور عالمی و سماجی بدلاؤ کو اپنے ناولز کا موضوع بناتے رہے ہیں، اِس برس اُن کی ایک ہی تسلسل میں پانچ طویل کہانیاں، ہندوستان کے سیاسی پس منظر اور گھٹن کی بہترین عکاس رہیں۔

    ڈاکٹر ناصر عباس منیر جو ایک معتبر ادبی نقاد ہیں کا افسانوی مجموعہ ”راکھ سے لکھی گی کتاب “ قابلِ ذکر اضافہ ہے، سید ماجدشاہ کے افسانوی مجموعے ”ق“ کے بعد”ر“ ان کا دوسرا مجموعہ ہے۔ جو اُن کے مختصر افسانوں و افسانچوں پہ مشتمل ہے۔

    امین ھایانی کایہ دوسرا افسانوی مجموعہ ”بے چین شہر کی ُپرسکون لڑکی“ سامنے آیا ہے۔ محترم حمید شاہد کے رائے فلیپ پر شامل ہے۔ امین ھایانی کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک دردمند اور حساس لکھاری ہیں۔

    سبین علی نوجون لکھاریوں میں ایک عمدہ اضافہ اور اہم نام ہیں مختلف اور اہم موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں۔ صاحبِ مطالعہ اور عمدہ تنقیدی فکر رکھتی ہیں۔

    جواد حسنین بشر جواد جو ابن مسافر کے قلمی نام سے لکھتے ہیں، ان  کے یکے بعد دیگرے دو افسانوی مجموعے آئے ہیں۔ پہلا مجموعہ ”سفرناتمام “تھا اور اِس برس دوسرا مجموعہ ”ہاتھ ملاتا دریا اور مقدس بیٹی“ منظرعام پر آیا ۔ جواد ایک جرات آمیز افسانہ نگار ہیں اور نئے موضوعات پہ لکھنے کے خوگر روایتی موضوعات کے علاوہ جدید موضوعات و مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ 

    ایک نظر شعری مجموعوں‌ پر

    شعری دنیا پہ نظر ڈالیں تو کئی مجموعے منظرعام پر آئے، امجد اسلام امجد جیسے سینئر شاعر کی کتاب امجد فہمی حال ہی میں شایع ہوئی۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا نیا شعری مجموعہ انتشار آیا، نصیر احمد ناصر کے کلیات کے علاوہ ملبے میں ملی چیزیں کا نیا ایڈیشن سامنے آیا۔ نئی نسل و نئے شعرا بڑی تعداد میں سامنے آ رہے ہیں، ڈاکٹر جواز جعفر کی نظموں کا مجموعہ ”متبادل دنیا کاخواب“ قابلِ ذکر ہے۔

    شہزاد نیر جو ایک اہم اور کہنہ مشق شاعر ہیں، اُن کا شعری مجموعہ خواہشار بھی قابلِ ذکر ہے۔ ارشد معراج کی نظموں کا مجموعہ ”دوستوں کے درمیاں“ قابلِ ذکر ہے۔ حفیظ تبسم کا نظموں کا مجموعہ ”دشمنوں کے لےے نظمیں“اِک نئے ذائقے کا آہنگ ہے۔

    ظہور چوہان جن کے تین مجموعے اِس سے پہلے آ چکے، اُن کا شعری مجموعہ ”رودنی دونوں طرف“ اِس برس منظرعام پر آیا۔ شوزیب کاشر،اک جواں سالہ خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر ہیں اور شعری دنیا میں عمدہ اضافہ ہیں۔ اُن کا شعری مجموعہ ”خمیازہ“ اِس برس شایع ہوا۔

    ثمینہ تبسم ایک منجھی ہوئی شاعرہ ہیں، چار کتب پہلے منظر عام پر آ چکیں، اِس برس اُن کی کتاب ”سربلندی تیری عنایت ہے اشاعت پذیر ہوئی ہے، ناز بٹ کی نظموں و غزلوں کا پہلا مجموعہ ”وارفتگی“ منظرعام پر آیا ہے.

    شعر و ادب کی تخلیقی کتب کے علاوہ کچھ اور اہم قابلِ ذکر کتابیں ہیں، جن کا ذکر ہونا چاہیے۔

    جبار مرزا ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں ہیں،اُن کی کتاب ”نشانِ اِمتیاز“ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر سے متعلق چار عشروں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے، جمیل احمد عدیل کے فن پر شایع ہونے والی کتاب ”صاحبِ اسلوب“ کے نام سے اُن کے ادبی محاسن کا احاطہ کیا گیا ہے، یاسرجواد جو کہ ایک معروف مترجم و محقق ہیں، اِس برس اُن کی سرائیکی ویب کی تاریخ، نوبیل اِنعام یافتہ ادیبوں کے خطبات، پنجاب میں دیسی تعلیم (سرلائنز)، ضرب الامثال اور محاورے (فرہنگِ آصفیہ سے ماخوذ) منظرعام پر آئیں۔

    ”فکشن، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت“ فرخ ندیم کی کاوش ہے جو نئے تنقیدی فریم میں ادب کو دیکھنے کی کاوش ہے۔

    حرف آخر

    جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے، جہاں اِسے کتاب کلچر کو نگلنے کا ملزم ٹھہرایا جا رہا ہے، وہیں اسی سوشل میڈیا کے مختلف فورمز اردو ادب کے فروغ کے لئے اپنا سود مند حصہ ڈال رہے ہیں، یہ اردو ادب کی نئی بستیاں ہیں، جہاں نیا لکھاری بھی پیدا ہوا رہا ہے اور قارئین بھی ۔ ہاں، لکھاری کنفیوز ہے کہ نہیں جانتا کہ اسے کیا لکھنا ہے، کہاں لکھنا ہے اور کہاں چھپنا ہے مگر اس کے سامنے امکانات کی وسیع تردنیا ہے۔

    اِس منظر نامے پہ نگاہ دوڑائیں تو ایک اور دروزہ کھلتا ہے۔ اِک اور منظرنگاہوں کے سامنے ہے وہ یہ کہ تمام تر مسائل اور  کے باوجود ادب تخلیق ہو رہا ہے اور کتابیں سامنے آ رہی ہیں، ہاں اِک گھٹن زدہ اور انتشار کے شکار معاشرے کے ادیب کو دھند کے اِس بار نئے افق تلاش کرنے ہیں۔

    کیا وہ ایسا کر پائے گا یہ سوال باقی رہے گا؟

  • حسرت موہانی لائبریری عوام کے لیے کھول دی گئی

    حسرت موہانی لائبریری عوام کے لیے کھول دی گئی

    کراچی: مطالعے کے شوقین افراد کے لیے خوشخبری ہے کہ شہر قائد میں واقع حسرت موہانی لائبریری کو عوام کے لیے کھول دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد بلاک اے میں واقع حسرت موہانی میموریل ہال میں موجود لائبریری کو عوام کے لیے کھول دیا گیا۔

    لائبریری میں مختلف مضامین اور موضوعات کی 10 ہزار سے زائد کتابیں (میڈیکل، اکاؤنٹنگ، کمپیوٹر، ادب) وغیرہ موجود ہیں ، یہاں 50 افراد بیک وقت مطالعہ کرسکتے ہیں جبکہ ہال میں 400 افراد کی گنجائش ہے۔

    حسرت موہانی لائبریری کے دروازے ویسے بھی مطالعے کے شوقین افراد کے لیے کھلے ہوئے تھے تاہم انتظامیہ نے مرمت کے بعد اسے  عوام کے لیے کھولا۔

    انتظامیہ نے لائبریری آنے والے افراد کے لیے گاڑی کھڑی کرنے کے لیے پارکنگ کی خصوصی جگہ بھی بنائی، پیر تا ہفتہ لائبریری شام 5 بجے سے رات 5 بجے تک کھلی رہے گی۔ میموریل ہال کے گراؤنڈ فلور پر لائبریری جبکہ بالائی منزل پر لیکچر ہال موجود ہے۔

    واضح رہے کہ حسرت موہانی ہال کا سنگ بنیاد 1985 میں  میئر کراچی عبدالستار افغانی نے رکھا تھا، اس کی تعمیر میں حسرت موہانی کے خاندان کے کئی لوگ نے حصہ لیا اور اس کا افتتاح 1991 میں کیا گیا۔

  • سعودی حکام کی جانب سے یمنی بچوں کے لیے نصابی کتب کا تحفہ

    سعودی حکام کی جانب سے یمنی بچوں کے لیے نصابی کتب کا تحفہ

    سعودی عرب کے فرمانروا سلمان بن عبد العزیز کی جانب سے یمنی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے لیے نصابی کتب اور دیگر تعلیمی اشیاء کا تحفہ پیش کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے جنگ کے ایندھن میں جلنے والے عرب ملک یمن کے بچوں کو مفت درسی کتب اور اسٹیشنرری فراہم کرنے میں یمن کے شعبہ تعلیم کی معاونت کی ہے۔

    سعودی عرب کی جانب سے پہلے مرحلے میں یمن کے شہر المہرہ کے اسکول میں زیر تعلیم چھٹی جماعت تک کے بچوں میں کتابیں تقسیم کی گئیں ہیں۔ جبکہ دوسرے دور میں یمن کے دیگر شہروں میں بھی کتب اور دیگر تعلیمی اشیاء کی فراہمی کی جائے گی۔

    سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبد العزیز کے حکم پر سعودی حکام کی جانب سے یمنی بچوں میں نصابی کتب کی فراہمی المہرہ کی شہری حکومت کے سیکریٹری مختار محمد سعید عبد الکریم اور ڈائریکٹر جنرل سمیر مبخوت ہراش کے ذریعے کی۔

    یاد رہے کہ ایرانی حمایت یافتہ حوثی جنگجوؤں کی جانب سے یمن جنگ میں استعمال کیے جانے والے بچوں کو سعودی عرب بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے نام سے منسوب ریلیف سینٹر میں بحالی پروگرام کا پانچواں دور شروع ہوچکا ہے، جس میں 80 یمنی بچوں کی بحالی کام کیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ سلمان بن عبد العزیز ریلیف سینیٹر میں جاری بحالی پروگرام کے چوتھے مرحلے میں 161 بچوں کو بحالی کے مختلف مراحل سے گزارا گیا تھا۔

    واضع رہے کہ شاہ سلمان بن عبد العزیز بحالی مرکز یمن حوثیوں کی جانب سے یمن جنگ میں استعمال کیے گئے 2ہزار بچوں کی بحالی کے لیے کام کررہا ہے۔

    عرب میڈیا کا کہنا تھا کہ یمن جنگ میں متاثر ہونے والے بچے کو بحالی مرکز میں ایک ماہ کورس کروایا جاتا ہے جس میں ان کی تفسیات اور تعلیم سمیت دیگر امور پر خاص دھیان رکھا جاتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • پرانی کتابیں تاریخی مقامات میں تبدیل

    پرانی کتابیں تاریخی مقامات میں تبدیل

    جیسے جیسے دنیا آگے بڑھ رہی ہے کتاب پڑھنے کا رواج ختم ہورہا ہے اور اس کی جگہ اسمارٹ فونز اور ای بکس نے لے لی ہے۔

    ایسی کتابیں جو بہت زیادہ پرانی ہوجائیں، خستہ حال اور پڑھنے کے قابل نہ ہوں انہیں عموماً ردی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی کتابوں کو دوبارہ قابل توجہ بنانے کے لیے ایک فرانسیسی نژاد آرٹسٹ نے نہایت انوکھا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔

    گائے لارامی نامی یہ آرٹسٹ پرانی کتابوں کو جمع کر کے انہیں مشہور مقامات کی شکل میں تراش دیتا ہے۔

    وہ بہت سی کتابوں کو جمع کر کے انہیں کاٹ کر کسی مشہور تاریخی مقام (نقل) کی شکل دے دیتا ہے۔ ان کتابوں پر وہ قدیم قلعے، پہاڑ، دیواریں اور میدان تراشتا ہے۔

    لارامی نے اردن کے تاریخی مقام پیٹرا، دیوار چین اور بدھ مت کی قدیم عبادت گاہوں سمیت بے شمار تاریخی مقامات کو تخلیق کیا ہے۔

    وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ ان کتابوں کو خوبصورت شکل میں ڈھال لیتے ہیں تو لوگ اسے بہت شوق سے خریدتے ہیں۔ ’لیکن پرانی کتابوں کو کوئی نہیں خریدنا چاہتا‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • گرفتار دہشت گرد کی نشاندہی پر کارروائی، ممنوعہ دستاویزات برآمد

    گرفتار دہشت گرد کی نشاندہی پر کارروائی، ممنوعہ دستاویزات برآمد

    فیصل آباد: قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار ملزم کی نشاندہی کے بعد تولیہ کے گودام میں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے ممنوعہ دستاویزات اور دیگر اشیاء برآمد کر لیں۔

    ذرائع کے مطابق فیصل آباد سے کومبنگ آپریشن کے دوران گرفتار ہونے والے ملزم نے دوران تفتیش ممنوعہ دستاویزات اور لڑیچر چھپانے کا ناکشاف کیا جس کے بعد فوج ، حساس اداروں اور ایلیٹ فورس کے جوانوں نے تولیہ کے گودام میں کارروائی کی۔ دورانِ کارروائی تولیہ کے ڈبوں میں چھپائے گئے پمفلٹ، اشتعال انگیز مواد اور کتابیں برآمد کی گئیں۔

    پڑھیں:  کورکمانڈرز اپنے صوبوں میں بھرپور کومبنگ آپریشن کریں، راحیل شریف

    ذرائع نے مزید بتایا کہ ’’برآمد ہونے والا سامان کالعدم مذہبی جماعت کا ہے جس میں اشتعال انگیز مواد بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں ملزم نے دوران تفتیش جن افراد کے نام لیے اُن کی گرفتاری کے لیے عید کے بعد باقاعدہ ٹیمیں تشکیل دے دی جائیں گی۔

    مزید پڑھیں:  راولپنڈی سمیت ملک بھر میں کومبنگ آپریشن، سینکڑوں گرفتار

    یاد رہے سانحہ کوئٹہ کے بعد آرمی چیف آف اسٹاف جنرل راحیل شریف کی خاص ہدایت کے بعد ملک بھر میں کومبنگ آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا جس میں اب تک کئی دہشت گردوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے۔ کومبنگ آپریشن کے دوران ملک کے مختلف علاقوں سے خطرناک دہشت گروں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔