Tag: Boris Johnson

  • وزیراعظم عمران خان کی بورس جانسن کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد

    وزیراعظم عمران خان کی بورس جانسن کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد

    اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان نے بورس جانسن کو برطانیہ کے نئے وزیراعظم بننے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا امیدہےبرطانیہ کیساتھ دوطرفہ تعلقات کوبھی جلا ملے گی، میں بورس جانسن کے ساتھ باہم کام کرنے کوتیار ہوں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بورس جانسن کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا امیدہےآپ کی قیادت میں برطانیہ اورعوام ترقی کریں گے اور برطانیہ کیساتھ دوطرفہ تعلقات کوبھی جلا ملے گی، میں بورس جانسن کے ساتھ باہم کام کرنے کوتیار ہوں۔

    خیال رہے برطانیہ کےنئےوزیراعظم بورس جانسن کےوزیراعظم عمران خان سےدیرینہ تعلقات اوراچھی دوستی ہے، بورس جانسن نےعمران خان کےساتھ سیلفی بھی بنائی، جوسوشل میڈیا پروائرل ہوئیں تھیں ۔

    بورس جانسن کےآباؤاجداد ترک تھے جبکہ بورس جانسن نے خود اعتراف کیا تھا کہ ان کے پڑدادا سلطنت عثمانیہ کے آخری دورکی اہم شخصیت تھے،ترکی کی اشرافیہ میں ایک اہم مقام رکھتےتھے۔

    نئے برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پڑ دادا کا برطانیہ آنا اس امرکی گواہی تھی کہ برطانیہ محفوظ ملک ہے، پڑدادا کا نام علی کمال تھا اور وہ مسلمان تھے۔

    یاد رہےبرطانوی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم بن گئے ، بورس جانسن نے ملکہ برطانیہ سے ملاقات کی اورپھروزارت اعظمی کا منصب سنبھالا۔

    برطانوی وزیراعظم کے سرکاری رہائش گاہ اوردفترٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہرمیڈیا سے گفتگو میں بورس جانسن کا کہنا تھا کہ بغیرکسی اگرمگرکے برطانیہ اکتیس اکتوبرکویورپی یونین سے الگ ہوجائے گا۔

    کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ اورنئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن دومرتبہ لندن کے مئیر رہ چکے ہیں جبکہ مسلمانوں اور تارکین وطن کیخلاف سخت ریمارکس پرتنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔

  • بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم منتخب

    بورس جانسن برطانیہ کے نئے وزیراعظم منتخب

    لندن: برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی نے بورس جانسن کو اپنا نیا چیئر مین اور ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کرلیا ہے، بورس جانسن اکثریتی ووٹ سے منتخب ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں ہونے والے وزارت ِ عظمیٰ کے انتخابات میں بورس جانسن 66.4 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کا انتخاب سابق وزیر اعظم تھریسا مے کے استعفے کے بعد عمل میں لایا گیا ہے۔

    سابق برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کے لیے متفقہ بریگزٹ معاہدے کی تشکیل میں ناکامی پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ برطانیہ نے سنہ 2016میں ریفرنڈم کے ذریعے طے کیا تھا کہ انہیں یورپین یونین سے علیحدگی اختیار کرنی چاہیے ، یہ انخلا مارچ 2019 میں طے تھا تاہم فریقین کے درمیان معاہدہ طے نہ پانے کے سبب اسے ملتوی کرنا پڑا۔

    کچھ دن قبل برطانوی وزارت عظمی ٰکے منصب کی دوڑ میں شامل دیگر چار امیدواروں کے ساتھ ٹی وی پر مناظرے کے دوران جانسن کا کہنا تھا کہ ہمیں 31 اکتوبر تک نکلنا ہو گا کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر مجھے اندیشہ ہے کہ ہمیں ایک المیے کی صورت میں سیاست میں (شہریوں کے) اعتماد سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

    بورس جانسن نے 313 میں سے 126 ووٹ حاصل کرکے تیسرے مرحلے کے لیے جگہ بنائی تھی جبکہ دیگر 4 امیدواروں نے 33 یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے ۔

    سیکریٹری خارجہ جیریمی ہنٹ نے 46، سیکریٹری ماحولیات مائیکل گوو نے 41، سیکریٹری انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ روری اسٹیورٹ نے 37 اور ہوم سیکریٹری ساجد جاوید نے 33ووٹ حاصل کیے تھے ۔

    اس سے قبل بورس جانسن نے پہلے مرحلے کے مقابلے میں 12 ووٹ زیادہ حاصل کیے جبکہ پہلے مرحلے کے مقابلے میں سب سے زیادہ 12 ووٹ اسٹورٹ نے حاصل کیے، دوسرے مرحلے میں بریگزٹ کے وزیر ڈومینک راب مقابلے سے باہر ہوگئے ہیں جنہیں صرف 30 ووٹ ملے تھے۔

    برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے امیدوار کے لیے ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں بورس جانسن نے 313 میں سے 114 ووٹ حاصل کیے تھے، پہلے مرحلے میں برطانیہ کے موجودہ وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ 43 ووٹ کے ساتھ دوسرے، وزیر ماحولیات مائیکل گوو 37 ووٹ کے ساتھ تیسرے اور سابق وزیر بریگزٹ ڈومینِک راب 27 ووٹ کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے تھے۔

    سیکریٹری داخلہ ساجد جاوید 23 ووٹ کے ساتھ پانچویں، سیکریٹری ہیلتھ میٹ ہینکوک 20 ووٹ کے ساتھ چھٹے اور انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سیکریٹری روری اسٹیورٹ 19 ووٹ کے ساتھ چھٹے نمبر پر رہے تھے۔

    برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کے لیے آخری دو امیدواروں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ملک بھر میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ 60 ہزار اراکین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

  • بورس جانسن کے ٹرمپ کے سابق مینیجر سے رابطے کا انکشاف

    بورس جانسن کے ٹرمپ کے سابق مینیجر سے رابطے کا انکشاف

    لندن : برطانوی اخبار نے سابق برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن اور ٹرمپ کے سابق معاون اسٹیو بینن کے درمیان مبینہ رابطوں کا انکشاف کرتے ہوئے دونوں کے مابین گفتگو کا ویڈیوثبوت جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی حکمران جماعت کی قیادت سنبھالنے کی دوڑ میں سب پر سبقت لےجانے والے سیاست دان اور برطانیہ کے متوقع وزیر اعظم بورس جانسن کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سابق مینیجر کے ساتھ مبینہ رابطوں کا انکشاف ہوا ہے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ اسٹیو بینن سن 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کے کمپین مینیجر تھے، اس کے علاوہ ایک انتہائی دائیں بازو کی نیوز ویب سائٹ برائٹ بارٹ نیوز کے ایگزیکٹو چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ بینن اور بورس جانسن کے مبینہ رابطوں اور تعلقات کا انکشاف برطانوی اخبار نے کیا ۔

    برطانوی اخبار نے ایک ویڈیو کلپ بھی جاری کیا ہے جس میں بورس جانسن اور بینن کے درمیان گفتگو دیکھی جا سکتی ہے، اس گفتگو میں دونوں حضرات سابق وزیر خارجہ کے منصب وزارت سے مستعفی ہونے سے قبل پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر پر بات کر رہے تھے۔

    خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی حکمران جماعت کی سربراہی کی دوڑ میں بورس جانسن کو موجودہ وزیر خارجہ جریمی ہنٹ کے چیلنج کا سامنا ہے،یہاں یہ امربھی اہم ہے کہ اس برطانوی سیاستدان نے کچھ دن قبل ٹرمپ کی صدارتی مہم کے سابق منیجر اسٹیو بینن کے ساتھ رابطوں کی خبروں کو بے بنیاد اور حقیقت کے برعکس قرار دیا تھا۔

    انہوں نے ان باتوں کو انتہا پسندانہ فریب قرار دیا، اسی ویڈیو کلپ میں امریکی صدر کے سابق معاون جانسن یہ کہتے سنے گئے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کا انخلا برطانیہ کے لیے یوم آزادی کے مساوی ہو گا۔ پارلیمان میں بورس جانسن کی تقریر اسی بات کے گرد گھومتی رہی۔

  • بورس جانسن کے گھر بحث و تکرار پر پولیس پہنچ گئی

    بورس جانسن کے گھر بحث و تکرار پر پولیس پہنچ گئی

    لندن : برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ کے گھر سے بحث و تکرار کی بلند ہوتی تیز آوازوں نے پڑوسیوں کو پولیس سے مدد طلب کرنے پر مجبور کردیا، اہلخانہ کے تسلّی بخش بیان پر پولیس واپس چلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن اور ان کی ساتھی کیری سائمنڈ کے درمیان جمعے کے روز نامعلوم وجوہات پر تیز آواز میں بحث و تکرار ہونے پر پڑوسیوں نےپولیس کو بلایا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پڑوسیوں نے کیری سائمنڈ کو بلند آواز میں بورس جانسن سے یہ کہتے سنا تھا کہ ’چھوڑو مجھے اور میرے گھر سے نکل جاؤ‘۔

    میٹروپولیٹن پولیس نے خبر رساں ادارے ٍکو بتایا کہ ’گھر میں سب خیرت ہے اہلخانہ نے اطمئنان دلایا جس کے بعد پولیس اہلکار واپس چلے گئے۔

    پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’بورس جانسن کے گھر میں کارروائی کی وجہ نہیں تھی‘ جبکہ بورس جانسن کے ترجمان نے واقعے پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

    پڑوسی نے اخبار کو بتایا کہ ’اس کو گھر سے کسی خاتون کے چیخنے کی آواز آئی اور گھر سے کچھ ٹوٹنے کی بھی آواز آئی تھی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ سابق وزیر خارجہ خاتون سے کہہ رہے تھے کہ میں گھر سے نہیں جاؤں گا میرا لیپ ٹاپ جلدی میرے والے کرو۔

    برطانوی میڈیا کے کیری سائمنڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایم پی نے ریڈ وائن صوفے خراب کردیا’تمہیں کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں کیوں تم خود خراب ہو،تمہیں پیسوں کی پرواہ ہے نہ کسی اور چیز کی‘۔

    خیال رہے کہ 55 سالہ بورس جانسن 10 پاؤنڈ مالیت کے اس گھر میں اپنی دوست کیری سائمنڈکے ساتھ مقیم ہیں۔

    بورس جانسن برطانیہ کی حکمراں جماعت ٹوری پارٹی کی سربراہی کے لیے انتخاب کی دوڑمیں سرِ فہرست ہیں ان کامقابلہ جریمی ہنٹ سے ہوگا، جو کامیاب ہو گا وہی برطانیہ کا اگلا وزیر اعظم ہو گا۔

  • برطانوی وزارتِ عظمیٰ کے امیدواربورس جانسن کے اجداد مسلمان تھے، انکشاف

    برطانوی وزارتِ عظمیٰ کے امیدواربورس جانسن کے اجداد مسلمان تھے، انکشاف

    لندن:برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے نقاب پہننے والی خواتین کے حوالے سے اپنے سابقہ اہانت آمیز تبصروں پر معذرت کا اعلان کیا ہے۔ یہ پیش رفت جانسن کے اس دھماکا خیز انکشاف کے بعد سامنے آئی جس میں سابق وزیر خارجہ نے بتایا تھا کہ ان کے دادا کے والد (پر دادا) مسلمان تھے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ انکشاف اس وقت سامنے آیا جب وزارت عظمیٰ کے ایک اور امیدوار پاکستانی نژاد برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید نے مطالبہ کیا کہ کنزرویٹو پارٹی کے اندر اسلام مخالف عناصر کا قلع قمع کیا جائے۔

    ساجد جاوید کو جواب دیتے ہوئے بورس جانسن نے ٹی وی مناظرے میں انکشاف کیا کہ میرے پر دادا 1912 میں یہاں آئے تھے،وہ اس ملک کو امید کا مینار جان کر آئے تھے جو دنیا بھر سے آنے والوں کا خیر مقدم کرنے کے واسطے تیار رہتا ہے۔یاد رہے کہ بورس جانسن کے پر دادا علی کمال کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے دور میں صحافی، سیاست دان اور شاعر کے طور پر کام کیا تھا۔

    اس موقع پر نقاب پہننے والی خواتین کے متعلق اپنے سابقہ تبصروں پر بورس جانسن نے پشیمانی کا اظہار کیا۔ انہوں نے ان تبصروں میں نقاب پوش خواتین کو پوسٹ بکس اور بینک لوٹنے والی قرار دیا تھا۔

    جانسن نے کہا کہ یہ ،یہ جملے 20 سے 30 برس پرانے ہیں جب وہ بطور صحافی کام کرتے تھے۔ لوگوں نے ان کے مضمون سے یہ عبارتیں الگ کر لیں اور ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ یقیناً میں ان الفاظ کے سبب جنم لینے والی اہانت پر معذرت خواہ ہوں۔ رائے شماری کے تیسرے مرحلے میں حامیوں کی تعداد میں اضافے کے بعد بورس جانسن نے برطانیہ کی وزارت عظمی کے لیے اپنی پوزیشن مضبوط بنا لی ہے۔

    جانسن کو 313 میں سے 143 ووٹ ملے جبکہ وزیر خارجہ جیرمی ہنٹ 54 ووٹوں کے ساتھ دوسرے ، وزیر ماحولیات مائیکل جوو 51 ووٹوں کے ساتھ تیسرے اور وزیر داخلہ ساجد جاوید 38 ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔ بین الاقوامی ترقی کے برطانوی وزیر روری اسٹیورٹ صرف 27 ووٹ حاصل کر سکے اور وزارت عظمی ٰکی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔

    برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کے لیے آخری دو امیدواروں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ملک بھر میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ 60 ہزار اراکین ووٹ دیں گے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق آخری مرحلے میں کامیاب ہونے والا امیدوار پارٹی کا نیا سربراہ ہوگا اور ساتھ ہی تھریسا مے کی جگہ ممکنہ طور پر جولائی کے آخر میں ملک کا نیا وزیر اعظم بنے گا۔

  • برطانوی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں‌ بورس جانسن دوسرے مرحلے میں بھی آگے

    برطانوی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں‌ بورس جانسن دوسرے مرحلے میں بھی آگے

    لندن : وزارت عظمیٰ کےلیے دوسرے مرحلے میں وزیر برائے بریگزٹ ڈومینک راب مقابلے سے باہر ہوگئے جو صرف 30 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حامی بورس جانسن نے تھریسامے کے بعد ملک کے اگلے وزیراعظم کے امیدوار کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں 40 فیصد ووٹ حاصل کرکے اپنی برتری قائم رکھی ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ بورس جانسن نے 313 میں سے 126 ووٹ حاصل کرکے تیسرے مرحلے کے لیے جگہ بنائی ہے جبکہ دیگر 4 امیدواروں نے 33 یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

    رپورٹ کے مطابق سیکریٹری خارجہ جیریمی ہنٹ نے 46، سیکریٹری ماحولیات مائیکل گوو نے 41، سیکریٹری انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ روری اسٹیورٹ نے 37 اور ہوم سیکریٹری ساجد جاوید نے 33 ووٹ حاصل کیے۔

    بورس جانسن نے پہلے مرحلے کے مقابلے میں 12 ووٹ زیادہ حاصل کیے جبکہ پہلے مرحلے کے مقابلے میں سب سے زیادہ 12 ووٹ اسٹورٹ نے حاصل کیے، دوسرے مرحلے میں بریگزٹ کے وزیر ڈومینک راب مقابلے سے باہر ہوگئے ہیں جنہیں صرف 30 ووٹ ملے تھے۔

    برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ اور لندن کے سابق میئر بورس جانسن کا کہنا ہے کہ وہ برطانیہ کو 31 اکتوبر تک یورپین یونین سے باہر نکال لیں گے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے امیدوار کے لیے ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں بورس جانسن نے 313 میں سے 114 ووٹ حاصل کیے تھے، پہلے مرحلے میں برطانیہ کے موجودہ وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ 43 ووٹ کے ساتھ دوسرے، وزیر ماحولیات مائیکل گوو 37 ووٹ کے ساتھ تیسرے اور سابق وزیر بریگزٹ ڈومینِک راب 27 ووٹ کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے تھے۔

    سیکریٹری داخلہ ساجد جاوید 23 ووٹ کے ساتھ پانچویں، سیکریٹری ہیلتھ میٹ ہینکوک 20 ووٹ کے ساتھ چھٹے اور انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سیکریٹری روری اسٹیورٹ 19 ووٹ کے ساتھ چھٹے نمبر پر رہے تھے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ تھریسا مے کے استعفے کے بعد ملک کے نئے وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل امیدواروں کی تعداد پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد 10 سے کم ہو کر 7 رہ گئی تھی۔

    برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کے لیے آخری دو امیدواروں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے ملک بھر میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک لاکھ 60 ہزار اراکین ووٹ دیں گے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق آخری مرحلے میں کامیاب ہونے والا امیدوار پارٹی کا نیا سربراہ ہوگا اور ساتھ ہی تھریسا مے کی جگہ ممکنہ طور پر جولائی کے آخر میں ملک کا نیا وزیر اعظم بنے گا۔

  • لندن: چیکرز پلان حکومت کی اجتماعی ناکامی ہے، بورس جانسن

    لندن: چیکرز پلان حکومت کی اجتماعی ناکامی ہے، بورس جانسن

    لندن : سابق برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے وزیر اعظم تھریسامے پر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے کہا ہے کہ سنہ 2016 برطانوی عوام نے اپنی آزادی کے لیے بریگزٹ کو ووٹ دئیے تھے لیکن حکومت ان کی امید کو پورا نہیں کرسکی۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے بریگزٹ کے حوالے سے تھریسامے کے تیار کردہ پلان پر نشتر چلاتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کا چیکرز پلان حکومت کی اجتماعی ناکامی ہے جو تکلیف دہ ہے۔

    سابق وزیر خارجہ نے ٹوری کانفرنس سے پہلے ہی تھریسامے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چیکرز پلان مضحکہ خیز اور جمہوری تباہی پر مبنی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ میں نے رواں سال جولائی میں قیادت کے لیے مدد کی تھی، چیکرز پلان اخلاقی طور پر توہین آمیز ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے ابتداء میں چیکرز پلان کی حمایت کی تھی تاہم مستعفی کے بعد وہ تھریسا مے کی منصوبہ بندی کے خلاف ہوگئے اور اسے تباہ کن قرار دیا۔

    بورس جانسن نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ تھریسامے کے چیکرز پلان کے ذریعے برطانیہ آدھا یورپی یونین اور آدھا یونین سے باہر ہوجائے گا جو صدیوں کی کامیابیوں سے انحراف ہوگا۔

    بورس جانسن نے برطانوی خبر رساں ادارے میں تحریر کیے گئے کالم میں کہا تھا کہ شہریوں نے سنہ 2016 میں اپنی آزادی کے لیے ووٹ دیا تھا لیکن افسوس حکومت نے برطانوی شہریوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

    یاد رہے کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے رواں ماہ کے اوائل میں برطانوی اخبار میں شائع ہونے والے کالم میں تھریسا مے کے نامناسب زبان استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم تھریسا مے نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا کر ریمورٹ برسلز کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔

    سابق برطانوی وزیر نے کالم میں لکھا کہ تھریسا مے نے چیکر معاہدے کے ذریعے برطانیہ میں بلیک میلنگ کی سیاست کے لیے راشتہ کھول دیا ہے۔

  • تھریسا مے نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا دی، بورس جانسن

    تھریسا مے نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا دی، بورس جانسن

    لندن : برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے تھریسا کے خلاف تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تھریسا مے نے برطانیہ کے آئین کو خودکش جیکٹ پہنا دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے اتوار کے روز برطانوی خبر رساں ادارے میں شائع ہونے والے کالم میں تھریسا مے کے نامناسب زبان استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم تھریسا مے نے برطانوی آئین کو خودکش جیکٹ پہنا کر ریمورٹ برسلز کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔

    سابق برطانوی وزیر نے کالم میں لکھا کہ تھریسا مے نے چیکر معاہدے کے ذریعے برطانیہ میں بلیک میلنگ کی سیاست کے لیے راشتہ کھول دیا ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ٹوری پارٹی کے بیشتر ارکان پارلیمنٹ نے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن کی کالم کے میں استعمال کی گئی نازیبا زبان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے ’دی میل آن لائن‘ میں برطانیہ کے موجودہ وزیر خارجہ جیریمی ہنٹ کا کالم بھی شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے برطانوی عوام سے گذارش کی تھی وزیر اعظم کے بریگزٹ معاہدے کی حمایت کریں۔

    خیال رہے کہ بورس جانسن کی جانب سے اپنی اہلیہ سے علیحدگی کی تصدیق کے بعد یہ پہلا کالم ہے، اس تصدیق سے قبل ایک خبر رساں ادارے میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ بورس جانسن کا کسی دوسری خاتون ساتھ تعلق ہے۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سنہ 2004 میں بورس جانسن کو حکمران جماعت کے سربراہ نے ایک خاتون صحافی کے ساتھ تعلقات رکھنے کی بنا پر وزارت کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔

    دی سنڈے ٹائمز کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسز مے کے معاونین نے 4000 الفاظ پر مشتمل ’نازیبا دستاویز‘ لکھی تھی۔

    اخبار کا کہنا ہے کہ اس نے وہ دستاویز دیکھی ہے جسے کنزروٹیو لیڈرشپ کے مقابلے کے وقت تحریر کیا گیا تھا تاہم ڈاؤننگ سٹریٹ کے حکام اور پارٹی کے ہیڈکوارٹر نے اس الزام کی تردید کی تھی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ روز سابق وزیر خارجہ بورس جانسن اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے جس کے بعد سے برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کی حکومت بحران کی زد میں ہے۔

  • بورس جانسن نے اہلیہ مرینہ وئیلر سے علیحدگی کی تصدیق کردی

    بورس جانسن نے اہلیہ مرینہ وئیلر سے علیحدگی کی تصدیق کردی

    لندن : برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ اور ان کی اہلیہ سے متعلق گردش کرنے والی خبروں کی بورس جانسن نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بہت جلد ہم قانونی طور پر علیحدہ ہوجائیں گے‘۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن اور ان کی اہلیہ مرینہ وئیلر نے اپنے علیحدہ ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے مشترکہ بیان میں بتایا ہے کہ ’ہم کچھ مہینوں سے علیحدہ ہیں اور بہت جلد ہمارے درمیان طلاق ہونے والی ہے‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سابق وزیر خارجہ اور ان کی اہلیہ کے درمیان گھریلو تنازعے کی خبر برطانوی اخبار ’دی سن‘ نے شائع کی تھی۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ بورس جانسن اور مرینہ کی 25 برس قبل شادی ہوئی تھی تاہم انہوں نے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کچھ ماہ قبل ہی کیا ہے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا تھا کہ تھریسا مے کی بریگزٹ منصوبہ بندی پر بورس جانسن کے کابینہ سے استعفیٰ دینے کے بعد سے انہیں ٹوری پارٹی کا مستقبل کے سربراہ کی حیثیت سے پیش کیا جارہا تھا۔

    شوہر اور اہلیہ نے مشترکہ بیان میں بتایا ہے کہ طلاق کی درخواست منظوری کے مراحل میں ہے، لیکن ہم ایک دوست کی طرح اپنے بچوں کی معاونت جاری رکھیں گے تاہم اس کے علاوہ ہمارے درمیان کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

    واضح رہے کہ جانسن اور وئیلر کی شادی سنہ 1993 میں ہوئی تھی اور بورس جانسن کے مرینہ وئیلر سے چار بچے ہیں ’لارا، میلو آرتھر، کاسیہ، تھیوڈور‘جو اپنے والدین کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔

    خیال رہے کہ بورس جانسن کچھ دو برس قبل برطانیہ کے وزیر خارجہ منتخب ہوئے تھے، جبکہ اس سے قبل وہ 3 سال یوایس برج کے ایم پی، 8 برس تک لندن کے میئر، 7 سال ہینلی کے ایم پی اور 6 سال تک اسپیکٹر کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔

  • برقعہ انتہا پسندوں کے اسلام کا حصّہ ہے، برطانوی امام

    برقعہ انتہا پسندوں کے اسلام کا حصّہ ہے، برطانوی امام

    لندن : برطانیہ کی معروف جامعہ آکسفورڈ کے امام تاج ہرگئی نے کہا ہے کہ برقعے سے متعلق قرآن مجید میں کوئی قانون موجود نہیں ہے، یہ مذہبی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے اسلام کا حصّہ ہے جو خواتین کو قابو کرنے کا طریقہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی نامور یونیورسٹی آکسفورڈ کی اسلامی جماعت کے امام تاج ہرگئی نے مسلم خواتین کے برقعے سے متعلق متنازعہ بیان پر بورس جانسن کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سابق وزیر خارجہ کا بیان حقیقت پر مبنی تھا‘۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے امام تاج ہرگئی کا کہنا تھا کہ بورس جانسن کو برقعے سے متعلق بیان معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں اور ان کا بیان ناکافی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ تاج ہرگئی کی جانب سے ’دی ٹائمز‘ کو ارسال کیے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ برقعے کے متعلق قرآن میں کوئی قانون نہیں ہے، بلکہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردوں کے اسلام کا ایک حصّہ ہے۔

    تاج ہرگئی کا مزید کہنا تھا کہ برقعے کے معاملے میں پر انتہا پسند مذہبی طبقے نے بیمار سوچ کے مسلمانوں ترغیب دلائی کے خدا چاہتا ہے کہ خواتین اپنے چہرے کو چھپائیں، جبکہ حقیقت میں مذکورہ طبقے نے ’خواتین کو قابو کرنے کے لیے ایسا حربہ اپنایا تھا‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تاج ہرگئی کا کہنا تھا کہ بہت سی جوان خواتین نے مردوں کی جبری سرپرستی کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات کو اپنا حق سمجھ لیا ہے کہ چہرے کو چھپانا ان کا انسانی حق ہے۔


    بورس جانسن کا عوام میں شہرت کے باعث پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے، جیکب موگ


    یاد رہے کہ ایک روز قبل برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کے رہنما جیکب ریس موگ نے سابق وزیر خارجہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بورس جانسن کا پبلک ٹرائل کیا جارہا ہے اور مذکورہ ٹرائل کا مقصد جانسن کو مستقبل کا لیڈر بننے سے روکنا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ برٹش پارلیمنٹ اور کنزرویٹو پارٹی کے رکن نے وزیر اعظم تھریسا مے پر الزام عائد کیا کہ ’تھریسا مے مسلم خواتین پر طنز کی آڑ میں بورس جانسن سے ذاتی دشمنی نکال رہی ہیں‘۔


    بورس جانسن کو مذہب کی تضحیک کرنے کا حق حاصل ہے، مسٹر بین


    واضح رہے کہ  گذشتہ روز معروف مزاحیہ اداکار روون اٹکنسن (مسٹر بین) نے بورس جانسن کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جانسن کا بیان ایک اچھا لطیفہ ہے‘ اور انہیں مذہب کی تضحیک کرنے کا حق حاصل ہے جس پر انہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ بورس جانسن نے اپنے کالم میں کہا تھا کہ مسلمان خواتین برقعہ پہن کر ’لیٹر بُکس‘ اور بینک چوروں کی طرح لگتی ہیں۔ جس کے بعد بورس جانسن کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بورس جونسن اپنے بیان پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انھوں نے معافی مانگنے سے بھی انکار کردیا ہے۔