Tag: brain

  • فاسٹ فوڈ دماغ کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے؟ سائنس دانوں کی دل دہلا دینے والی تحقیق

    فاسٹ فوڈ دماغ کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے؟ سائنس دانوں کی دل دہلا دینے والی تحقیق

    سڈنی یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق کے نتائج میں یہ انکشاف کیا ہے کہ فاسٹ فوڈ دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    گزشتہ ماہ اپریل میں انٹرنیشنل جرنل آف اوبیسٹی میں شائع شدہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ تو پہلے سے جانتے ہیں کہ سیر شدہ چکنائی (saturated fat) اور ریفائنڈ شوگر کے زیادہ استعمال سے ہمارے جسم پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، تاہم اب انسانوں پر اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق میں سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ یہ ہمارے دماغ کے ایک مخصوص حصے پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں۔

    سائنس دانوں نے ورچوئل رئیلٹی (VR) سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے تحقیق کے دوران پایا کہ چکنائی اور شوگر کی زیادہ مقدار کھانے سے ’’مقامی نیویگیشن‘‘ (کسی جگہ یا ماحول میں اپنی پوزیشن کو سمجھنے، راستوں کو یاد رکھنے کی صلاحیت) اور یادداشت کی خرابی کا خدشہ ہے، سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ اس سے قبل چوہوں پر کیے جانے والی تحقیقات کے نتائج بھی اس سے ملتے جلتے تھے۔

    فاسٹ فوڈ دماغ

    اس ریسرچ اسٹڈی کے دوران 120 نوجوان بالغ افراد نے غذائی چکنائی اور شکر کی جانچ (DFS) کرائی، تاکہ محققین گزشتہ بارہ مہینوں کے دوران اندازہ لگا سکیں کہ انھوں نے اوسطاً کتنی شکر اور غذائی چکنائی کھائی۔ اس کے بعد انھیں سر پر ایک ورچوئل رئیلٹی ہیڈ سیٹ پہنائے گئے، اور انھیں تھری ڈی بھول بھلیاں گیم کھیلنے دیا گیا، کہ اس میں راستہ تلاش کریں، بھول بھلیاں میں خزانے تک پہنچنے کے لیے کچھ اشارے بھی دیے گئے تھے، جنھیں سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا تھا۔

    شرکا نے یہ کھیل 6 بار کھیلا، ان میں سے جنھوں نے 4 منٹ سے کم وقت میں راستہ تلاش کر کے خزانے تک رسائی کی، وہ اگلی کوشش کی طرف بڑھ گئے، اور جو اس ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں ناکام ہوئے تو انھیں ورچوئلی خزانے کے لوکیشن تک پہنچایا گیا جہاں انھوں نے اگلی کوشش کے لیے رہنما اشارے دیکھے۔


    اینٹی بائیوٹکس سے متعلق 5 اہم باتیں اور ہدایات


    ساتویں اور آخری کوشش میں خزانے کو ہٹایا گیا، اور اس بار شرکا کو بھول بھلیاں کے اس حصے تک جانا تھا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ پچھلی بار خزانے کا وہی مقام تھا۔

    اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اگرچہ ورکنگ میموری اور وزن اور جسم کے سائز کو ایڈجسٹ کر لیا گیا تھا، ان شرکا نے جنھوں نے چکنائی اور شکر والی زیادہ غذا کھائی تھی، دیگر کے مقابلے میں بری کارکردگی دکھائی۔

    ان نتائج سے یہ نشان دہی ہوئی کہ زیادہ چکنائی اور شکر والی غذائیں (روایتی مغربی خوراک) ہپپوکیمپس کی ایک قسم کی خرابی (hippocampus impairment) کا سبب بنتی ہیں، جو مقامی نیویگیشن اور یادداشت کے فعل میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ یہ یاد رہے کہ مقامی نیویگیشن کا مطلب ’’ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والے راستے کو سمجھنا اور یاد رکھنا‘‘ ہے۔

    سڈنی یونیورسٹی کے محقق ڈومینک ٹران نے یہ تشویش بات کہی کہ عام عام BMI اسکور والے نسبتاً صحت مند افراد میں بھی ایک ناقص غذا دیگر میٹابولک حالات ظاہر ہونے سے بہت پہلے (دماغی صلاحیت) ادراک کو کمزور کر سکتی ہے۔

    تاہم دوسری طرف اس تحقیق میں یہ خوش خبری بھی دی گئی ہے کہ محققین کا خیال ہے کہ اس صورت حال سے آسانی سے بحالی ممکن ہے، محققین نے کہا کہ غذائی تبدیلیاں ہپپوکیمپس کی صحت کو بہتر بنا سکتی ہیں۔

  • دوران نیند ہماری سانسیں "گھڑی” کا کام کرتی ہیں، لیکن کیسے؟

    دوران نیند ہماری سانسیں "گھڑی” کا کام کرتی ہیں، لیکن کیسے؟

    میونخ : ہمیں اپنی نیند کے دوران کسی بھی قسم کا ہوش نہیں ہوتا لیکن ہمارا نظام تنفس اور دماغ اپنا کام بدستور کرتے رہتے ہیں۔

    سائنس دانوں نے سانس لینے کے عمل اور نیند کے درمیان گہرا تعلق دریافت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عملِ تنفس ہی ہے جو سوتے ہوئے ہمارے دماغ کا ایک اہم گھڑیال ہوتا ہے۔

    ایک جانب تو سونے کا عمل محض بے حرکت ہونا نہیں ہوتا بلکہ اس میں دماغ کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں اور انہیں منظم کرنے میں سانس لینے کا عمل نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    نیند میں دماغ بند نہیں ہوتا بس دن کے اہم معاملات اور یادوں کو "محفوظ” بناتا رہتا ہے، اس کے لیے دماغ کے بعض حصوں اور معلومات کے درمیان رابطہ رہتا ہے لیکن اس عمل کو پوری طرح سمجھا نہیں گیا تھا۔

    اب لڈ وِگ میکسی میلیان یونیورسٹی جرمنی کے پروفیسر اینٹن اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ سانس کا اتار چڑھاؤ ایک طرح کا پیس میکر بنتے ہوئے دماغ کے مختلف حصوں تک پہنچتا ہے اور انہیں باہم ہم آہنگ کرتا ہے۔ عملِ تنفس ایک مستقل اور باقاعدہ نظام کی طرح کام کرتے ہوئے پورے اعصابی نظام کو خودکار بناتا ہے۔

    اس کے لیے سائنسدانوں نے تجربہ گاہ میں چوہوں کے دماغ میں برقیرے لگا کر ہزاروں نیورون کی سرگرمی کو نوٹ کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ انہیں باقاعدہ رکھنے میں سانس کا اتار چڑھاؤ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے یعنی اہم دماغی حصوں مثلاً ہیپوکیمپس، میڈیئل پری فرنٹل اور وژول کارٹیکس سب پر ہی تنفس کا اثر ہوتا ہے۔

    اس طرح معلوم ہوا کہ دماغ کے لمبک سرکٹ پر سانس لینے کا اثر ہوتا ہے چونکہ ییپوکیپمس یادداشت کا گڑھ ہوتا ہے اور سانس کا اس پر اثر ہوتا ہے، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ عملِ تنفس کی ہم آہنگی خود یادداشت اور دماغی روابط میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

  • کووڈ 19 سے دماغ کو سنگین نقصانات کا خدشہ

    کووڈ 19 سے دماغ کو سنگین نقصانات کا خدشہ

    کووڈ 19 پھیپھڑوں کو متاثر کرنے والی بیماری ہے تاہم یہ مرض دل، گردوں اور جگر کو بھی نقصان پہنچاتا ہے، اب حال ہی میں دماغ پر بھی اس کے سنگین اثرات کا انکشاف ہوا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کے نتیجے میں اسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایک فیصد مریضوں کو ممکنہ طور پر جان لیوا دماغی پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    تھامس جیفرسن کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے مریضوں کو جان لیوا دماغی پیچیدگیوں بشمول فالج، جریان خون اور ورم کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ کووڈ سے پھیپھڑوں کو ہونے والے نقصانات پر تو کافی کچھ معلوم ہوچکا ہے مگر ہم اس بیماری سے متاثر ہونے والے دیگر اعضا پر زیادہ بات نہیں کرتے۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی پیچیدگیاں اس تباہ کن وبا کے سنگین کیسز اور اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    اس تحقیق میں لگ بھگ 42 ہزار ایسے مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جو کووڈ 19 کے باعث امریکا یا مغربی یورپ کے مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے، ان افراد کی اوسط عمر 66 سال تھی اور ان میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد دگنی تھی۔

    بیشتر مریض پہلے سے مختلف امراض جیسے امراض قلب، ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر سے متاثر تھے۔

    ان میں سے جن افراد کے ایم آر آئی یا سی ٹی اسکین ہوئے، ان میں سے 442 مریضوں میں کووڈ 19 سے جڑی دماغی پیچیدگیوں کو دریافت کیا گیا۔

    نتائج سے عندیہ ملا کہ 1.2 فیصد مریضوں کو کووڈ کے باعث کسی ایک دماغی پیچیدگی کا سامنا ہوا ان میں فالج (6.2 فیصد)، برین ہیمرج (3.77 فیصد) اور دماغی ورم (0.47 فیصد) سب سے عام پیچیدگیاں تھیں۔

    ماہرین نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ مرکزی اعصابی نظام کی تمام پیچیدگیوں کے مستند تفصیلات سامنے لائی جائیں۔

    مجموعی طور پر امریکا کے مقابلے میں یورپ میں مریضوں میں دماغی پیچیدگیوں کی شرح 3 گنا زیادہ تھی۔ تحقیق میں اس فرق کے عناصر کی وضاحت نہیں کی گئی مگر ماہرین نے بتایا کہ یورپ کے مقابلے میں امریکا میں کووڈ مریضوں میں فالج کی شرح زیادہ تھی۔

  • انسانی دماغ کا ٹکڑا پہلی بار جسم سے باہر زندہ رکھنے کا کامیاب تجربہ

    انسانی دماغ کا ٹکڑا پہلی بار جسم سے باہر زندہ رکھنے کا کامیاب تجربہ

    کوپن ہیگن: ڈنمارک میں سائنس دان انسانی دماغ کے ایک ٹکڑے کو پہلی بار جسم سے باہر زندہ رکھنے میں کامیاب ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق تاریخ میں پہلی بار سائنس دانوں نے انسان کے دماغ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو جسم سے باہر ایک پیٹری ڈش میں 12 گھنٹے زندہ رکھ کر بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔

    انسانی دماغ اتنا حساس ہے کہ اس کا ایک حصہ بھی الگ ہوکر فوری طور پر مر جاتا ہے، اور اس میں کسی قسم کی کوئی حیاتیاتی سرگرمی نہیں رہتی، لیکن ماہرین نے دماغ کے ایک سینٹی میٹر حصے کو بارہ گھنٹوں تک زندہ رکھا۔

    کوپن ہیگن یونیورسٹی کی ڈاکٹر ایما لیوس لوتھ کی سربراہی میں سائنس دانوں کے ایک گروپ نے ایک مریض کے کارٹیکس سے دماغ کے ٹشو کا ایک ٹکڑا نکالا اور اس کے زندہ رہنے کو یقینی بنانے کے لیے تیزی سے ایک نیا عمل شروع کیا۔

    ٹیم نے پہلے اس ٹشو کو ٹھنڈا کیا، اسے آکسیجن سے بھرا رکھا تاکہ خلیات زندہ رہیں، اور پھر اس چھوٹے سے ٹکڑے کو آئنز (برقی چارج والے مالیکیول) اور معدنیات کے ایک مرکب میں رکھ دیا، یہ وہی اجزا ہیں جو دماغی ریڑھ کی ہڈی کے مائع جات میں پائے جاتے ہیں۔

    ڈاکٹر ایما لوئس لوتھ

    ڈاکٹر لوتھ نے اس سلسلے میں جانوروں پر ہونے والے تجربات کے حوالے سے دل چسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی دوسری ریسرچ سے اس سلسلے میں مدد لینا (یعنی چوہوں پر تحقیق بمقابلہ انسانوں پر تحقیق) ایسا تھا جیسے کوئی آئی فون کو ٹھیک کرتے ہوئے نوکیا 3310 کو دیکھے، ان کے بنیادی افعال تو ایک جیسے ہیں لیکن انسانی دماغ میں اس سے کہیں زیادہ پیچیدگی ہے۔

    انھوں نے کہا ہم یہاں تک جانتے ہیں کہ خلیات کی اقسام اور بعض ریسیپٹرز کے اظہار میں بھی فرق ہے، لہٰذا انسانی ٹشو کو براہ راست ٹیسٹ کرنے کے قابل ہونا ایک منفرد موقع تھا۔

    اپنی نوعیت کی اس پہلی تحقیق میں انسانوں اور چوہوں کے نیورانز کے درمیان (ڈوپامائن کے ذریعے بڑھائے گئے) رابطوں پر توجہ مرکوز کی گئی، جس میں دیکھا گیا کہ انعام سے وابستہ نیورو ٹرانسمیٹر انسانی دماغ میں نیورانز کے درمیان رابطوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ڈوپامن ایک قسم کا نیوروٹرانسمیٹر ہے جو اعصابی خلیوں کے درمیان پیغام رسانی کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور ہماری خوشی محسوس کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    لوتھ کا کہنا تھا کہ یہ جاننا علاج کے نئے مواقع کا باعث بن سکتا ہے، مثال کے طور پر فالج کے بعد بحالی کے سلسلے میں یا شدید دماغی نقصان کی دوسری اقسام، جہاں مریض کے دماغ کے نیورونز میں رابطہ ختم ہو جاتا ہے اور نئے کنیکشنز پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم نے یہ دیکھا کہ ڈوپامِن انسانوں اور چوہوں میں مختلف کردار ادا کرتی ہے، اس تجربے سے انسانی بافتوں پر ادویات کی براہ راست جانچ کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔

    واضح رہے کہ اس ٹکڑے میں اعصابی خلیات زندہ تھے اور ان سے برقی سگنل بھی پھوٹ رہے تھے، اس اہم صورت حال میں ماہرین کئی طرح کے تجربات کو بالکل نئے انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔ محققین کا یہ گروپ فی الحال ایک ایسے طریقے پر کام کر رہا ہے جس سے دماغ کے چھوٹے ٹکڑوں کو 10 دن تک زندہ رکھا جا سکے۔

    خیال رہے کہ اس تجربے کے لیے انسانی دماغ کے ٹکڑے کو استعمال کیا گیا، جس پر سوالات اٹھ سکتے ہیں، ڈاکٹر لوتھ نے بتایا کہ پہلی بات تو یہ کہ اس سے درد محسوس نہیں ہوتا، اور ہر قسم کے جذبات یا خیالات دماغ کے کئی حصوں سے گزرتے ہیں، ہم نے جس ٹکڑے پر کام کیا، وہ انسانی انگوٹھے کے سب سے بیرونی حصے کے سائز جتنا تھا، اور یہ دماغ کے دوسرے حصوں سے منسلک نہیں ہے، میں لوگوں کی اس حیرانی کو سمجھ سکتی ہوں کہ پیٹری ڈش میں جو نیوران موجود ہے، کیا اس میں یادداشت ہے، لیکن میں یہ بتاؤں کہ یہ ممکن نہیں ہے۔

  • دماغ کو بوڑھا ہونے سے کیسے بچایا جائے؟

    دماغ کو بوڑھا ہونے سے کیسے بچایا جائے؟

    یونان میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ دماغی تنزلی سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو پھلوں، سبزیوں، بیجوں اور دیگر غذاؤں کا استعمال معمول بنالیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ورم کش خصوصیات رکھنے والی غذاؤں کا استعمال عمر بڑھنے کے ساتھ ڈیمینشیا کا شکار ہونے کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    کاپوڈسٹریشن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ورم بڑھانے کا باعث بننے والی غذاؤں کا استعمال یادداشت سے محرومی، زبان کے مسائل، مسائل حل کرنے کی صلاحیت اور سوچ سے جڑی دیگر صلاحیتوں کا امکان 3 گنا بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ورم کش غذا کا استعمال ڈیمینشیا میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ غذا ممکنہ طور پر دماغی صحت پر متعدد میکنزمز کے ذریعے اثرات مرتب کرتی ہے اور ہمارے نتائج کے مطابق ورم ان میں سے ایک ہے۔

    اس تحقیق میں ایک ہزار سے زیادہ معمر افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان سے سوالنامے بھروا کر غذائی عادات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق کے آغاز میں کسی میں بھی ڈیمینشیا کی تاریخ نہیں تھی اور 3 برسوں کے دوران 6 فیصد میں دماغی تنزلی کی تشخیص ہوئی۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مغربی طرز کی غذا کے استعمال سے ڈیمینشیا کا خطرہ 21 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں پھلوں، سبزیوں، بیجوں، دالوں، کافی یا چائے کا زیادہ استعمال دماغی تنزلی سے متاثر ہونے کا خطرہ کم کرتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیورولوجی میں شائع ہوئے۔

  • باقاعدگی سے مچھلی کھانے کا حیران کن فائدہ

    باقاعدگی سے مچھلی کھانے کا حیران کن فائدہ

    پیرس: حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مچھلی کھانے اور دماغی شریانوں کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق موجود ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق فرانس میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ مچھلی کھانے کی عادت دماغ کی جان لیوا بیماریوں کا خطرہ نمایاں حد تک کم کردیتی ہے۔

    طبی جریدے جرنل نیورولوجی میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ مچھلی کھانے اور دماغی شریانوں کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق موجود ہے، دماغی شریانوں کو نقصان پہنچنے سے ڈیمینشیا اور فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    بورڈیوکس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 3 شہروں پر ہونے والی ایک تحقیق کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جس میں دماغی شریانوں کے امراض اور ڈیمینشیا کے تعلق کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    ماہرین نے 65 سال سے زائد عمر کے 16 سو 23 افراد کے ایم آر آئی اسکینز کا تجزیہ کیا جن میں فالج، دل کی شریانوں سے جڑے امراض یا ڈیمینشیا کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ ان افراد سے غذائی عادات کے حوالے سے سوالنامے بھی بھروائے گئے تھے۔

    ان افراد کو 4 گروپس میں تقسیم کیا گیا، ایک گروپ ہفتے میں ایک بھی مچھلی نہ کھانے والوں پر مشتمل تھا، دوسرا ہفتے میں ایک بار، تیسرا ہفتے میں 2 سے 3 بار جبکہ چوتھا 4 یا اس سے زیادہ بار مچھلی سے لطف اندوز ہونے والوں پر مشتمل تھا۔

    ماہرین نے پھر ہر گروپ میں شامل افراد میں خون کی شریانوں کے امراض کی علامات کا موازنہ کیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ زیادہ مچھلی کھانے والے افراد میں شریانوں کو نقصان پہنچنے کی نشانیاں دیگر کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ 65 سے 69 سال کی عمر میں مچھلی کے استعمال اور خون کی شریانوں کے امراض کا تعلق زیادہ ٹھوس ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم میں سے بیشتر افراد میں ڈیمینشیا کا خطرہ مختلف جینیاتی اور ماحولیاتی عناصر کے باعث بڑھتا ہے، طرز زندگی کے عناصر اور دماغی صحت کے درمیان تعلق کو سمجھنا اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تحقیق سے عندیہ ملا ہے کہ جو غذا دل کے لیے مفید ہوتی ہے وہ دماغ کے لیے بھی صحت بخش ہوتی ہے، جبکہ بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کنٹرول کرنا، تمباکو نوشی نہ کرنا، الکحل سے گریز اور متحرک طرز زندگی سب عمر بڑھنے کے ساتھ دماغی صحت کو بہتر بناتے ہیں۔

    اس سے قبل امریکا کی ساﺅتھ ڈکوٹا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ آئلی مچھلی کھانا مختلف امراض کا خطرہ کم کردیتا ہے۔

    ڈھائی ہزار سے زائد معمر افراد پر ہونے والی تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ جو لوگ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز زیادہ مقدار میں استعمال کرتے ہیں ان میں جلد موت کا خطرہ 34 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    ایسے افراد میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا خطرہ 39 فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ کولیسٹرول لیول میں اضافہ خون کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے والا اہم ترین عنصر ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ہائی کولیسٹرول لیول ہارٹ اٹیک یا فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھا کر جلد موت کا باعث بنتا ہے، تاہم اومیگا تھری فیٹی ایسڈز اس حوالے سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ آئلی مچھلی کھانا ہارٹ اٹیک، فالج، امراض قلب اور مختلف امراض سے موت کا خطرہ کم کرتی ہے۔

  • کرونا وائرس دماغ پر کیسے حملہ کرتا ہے؟

    کرونا وائرس دماغ پر کیسے حملہ کرتا ہے؟

    کرونا وائرس کو نظام تنفس پر حملہ کرنے والا وائرس سمجھا گیا تھا تاہم ایک سال میں کی جانے والی ریسرچز سے علم ہوا کہ یہ وائرس دماغ سمیت جسم کے کسی بھی عضو کا اپنا نشانہ بنا سکتا ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 دماغ کے 2 اقسام کے خلیات نیورونز اور آسٹرو سائٹس کو متاثر کر سکتی ہے۔

    لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے اس ممکنہ وجہ کی نشاندہی ہوتی ہے جو کووڈ کو شکست دینے کے باوجود لوگوں میں طویل المعیاد دماغی و اعصابی علامات کا باعث بنتی ہے۔

    ویسے تو کووڈ کو نظام تنفس کا مرض سمجھا جاتا ہے مگر یہ جسم کے متعدد اعضا بشمول دماغ کو متاثر کر سکتا ہے اور لوگوں کو یادداشت کی کمزوری، تھکاوٹ اور دماغی دھند جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کی جانب سے یہ سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کرونا وائرس سے دماغی مسائل کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔

    کرونا وائرس انسانی خلیات سے منسلک ہونے کے لیے ایس ٹو ریسیپٹرز کو ہدف بناتا ہے، یہ ریسیپٹرز ایسے پروٹیشنز ہوتے ہیں جو متعدد اقسام کی خلیات کی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔

    اس طرح کے خلیات پھیپھڑوں، دل، گردوں اور جگر میں ہوتے ہیں، مگر اب تک یہ واضح نہیں تھا کہ ریڑھ کی ہڈی اور دماغی خلیات میں بھی کرونا وائرس کو حملہ کرنے کے لیے ریسیپٹرز کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں۔

    اس کو جاننے کے لیے ماہرین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کن دماغی خلیات میں ایس 2 ریسیپٹرز ہوتے ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو کیا وہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

    اس مقصد کے لیے ماہرین نے لیبارٹری میں تیار کیے گئے انسانی دماغی خلیات کو لیا اور ان میں ایس 2 ریسیپٹرز کی موجودگی کو دیکھا، انہوں نے نیورونز اور آسٹراسائٹس جیسے معاون خلیات کا بھی تجزیہ کیا۔

    یہ خلیات مرکزی اعصابی نظام کے متعدد اہم افعال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ خون اور دماغ کے درمیان موجود رکاوٹ کو برقرار رکھتے ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں ایس 2 ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں جس کے بعد دیکھا گیا کہ یہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں یا نہیں۔

    اس مققصد کے لیے لیبارٹری تجربات کے دوران تدوین شدہ وائرس کے اسپائیک پروٹین کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا کہ وہ خلیات کو آسانی سے متاثر کرسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ دونوں اقسام کے خلیات کرونا وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں تاہم آسٹراسائٹس میں یہ امکان نیورونز کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

    محققین اس حوالے سے کچھ واضح طور پر کہنے سے قاصر ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے مگر ان خلیات کی بہت زیادہ مقدار وائرس کو حملہ کرنے اور اپنی نققول بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایک بار آسٹروسائٹس وائرس سے متاثر ہوجائے تو وہ ان خلیات کو نیورونز تک رسائی کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔

    اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں متعدد اعصابی و دماغی علامات بشمول سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، فالج اور دیگر کا سامنا ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے پہلو محدود تھے یعنی یہ لیبارٹری میں ہوئی اور کسی زندہ انسان کے پیچیدہ ماحول میں وائرس کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔

  • ورزش دماغی صحت کے لیے بھی فائدہ مند

    ورزش دماغی صحت کے لیے بھی فائدہ مند

    ورزش کرنا اور جسمانی طور پر متحرک رہنا جسمانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے اور کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے، تاہم ورزش کے دماغی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اس بارے میں ماہرین اب تک تذبذب کا شکار تھے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق نے ماہرین کی الجھن دور کردی جس میں پتہ چلا کہ ورزش دماغی صحت پر بھی یکساں مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔

    برطانوی دارالحکومت لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے لیے ماہرین نے مختلف عمر کے افراد کا جائزہ لیا۔ ماہرین نے ان افراد کی دماغی صحت، ورزش کی عادت اور غذائی معمول کا جائزہ لیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ وہ افراد جو ہفتے میں چند دن ورزش یا کسی بھی جسمانی سرگرمی میں مشغول رہے ان کی دماغی کیفیت ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت بہتر تھی۔

    تحقیق کے نتائج سے علم ہوا ورزش، جسمانی طور پر فعال رہنا یا کسی کھیل میں حصہ لینا ڈپریشن اور تناؤ میں 43 فیصد کمی کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ورزش دماغ کو طویل عرصے تک جوان رکھتی ہے جس سے بڑھاپے میں الزائمر اور یادداشت کے مسائل سے تحفظ ملتا ہے۔

  • انسانی دماغ میں مقناطیسی لہروں کی سمت معلوم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، رپورٹ

    انسانی دماغ میں مقناطیسی لہروں کی سمت معلوم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، رپورٹ

    نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسانی دماغ اپنی چھٹی حِس کے ذریعے زمین نکلنے والی مقناطیسی لہروں کا اندازہ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی و جاپانی سائنس دانوں کی جانب سے حالیہ تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانی دماغ اور اس کے علاوہ پرندے، مچھلیاں اور کچھ دیگر جانور مقناطیسی قوتوں کا اندازہ لگاکر انہیں راستوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    سانئسی جریدے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سانئس دان طویل عرصے سے حیرت میں مبتلا تھے کہ انسان کس طرح مقناطیسی لہروں یا قوتوں کا اندازہ لگاتا ہے۔

    سانئس دانوں کو ایک لیب میں کیے گئے تجربے کے دوران معلوم ہوا کہ انسان زمینی طاقت سے مختلف سمتوں میں پھیلنے والی مقناطیسی لہروں یا قوتوں کو پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    چینی ماہر حیاتیاتی طبعیات کین ژی کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین نہیں آرہا‘ یہ نیا ثبوت ہے کہ ہم ایک قدم مقناطیسی لہروں کی پہنچان کرنے میں ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں اور شاید انسان کے مقناطیسی احساس کےلیے بڑا قدم ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’میں امید کرسکتا ہوں کہ مستقبل قریب میں مزید تحقیقات دیکھینے کو ملیں گی‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اس تجربے میں 26 افراد نے حصّہ لیا تھا اور ہر شخص نے اپنے آنکھیں اندھیرے میں بند کرکے خاموش کمرے میں داخل ہوگئے جو برقی کوائل سے جڑا ہوا تھا اور برقی کوائل مقناطیسی قوتوں کو پیدا کررہی تھی۔

    سائنس دانوں نے شریک افراد کے سروں پر ایک ای ای جی کیپ رکھا جو دماغ کی برقی سرگرمیوں کو ریکارڈ کررہا تھا جب ارگرد مقناطیسی لہریں گھوم رہی تھیں۔

  • وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    وہ خوش قسمت شخص جو ابنارمل ہوتے ہوئے دنیا کا عظیم سائنسداں بن گیا

    بیسویں صدی کے سب سے بڑے طبیعات داں آئن اسٹائن کا نظریہ اضافت وہ ستون ہے جس پر جدید فزکس کی پوری عمارت کھڑی ہے، کہا جاتا ہے کہ آئن اسٹائن کا دماغ دیگر انسانوں کی نسبت بڑا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار دنیا کے ذہین ترین انسانوں میں کیا جاتا ہے۔

    تاہم وہ کیا چیز تھی جس نے آئن اسٹائن کو دنیا کا عظیم سائنسداں بنایا؟ اسی بات کو جاننے کے لیے جب آئن اسٹائن کی موت کے بعد ان کے دماغ پر تحقیق کی گئی تو اس میں دنگ کردینے والے حقائق سامنے آئے۔

    آئن اسٹائن سنہ 1955 کی ایک صبح 76 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کی موت کے بعد ایک ڈاکٹر تھامس ہاروے کو ان کا چیک اپ کرنے کے لیے بلایا گیا جنہوں نے آئن اسٹائن کی موت کی تصدیق کی۔

    گو کہ آئن اسٹائن نے اپنی زندگی میں کہہ دیا تھا کہ ان کی موت کے بعد انہیں دفن کیا جائے اور ان کا جسم سائنسدانوں کو مختلف تجربات کے لیے نہ دیا جائے تاہم ماہرین کم از کم ان کے دماغ کی جانچ کرنا چاہتے تھے اسی لیے ان کی موت کے ساڑھے 7 گھنٹے بعد ان کے دماغ کو جسم سے علیحدہ کرلیا گیا۔

    ایسے میں آئن اسٹائن کے ڈاکٹر تھامس نے موقع دیکھ کر ان کا دماغ چرا لیا اور وہاں سے فرار ہوگیا۔

    تھامس نے اس عظیم دماغ کو 240 ٹکڑوں میں کاٹ کر مختلف جارز میں ڈال دیا اور اسے 40 برس تک اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپائے رکھا۔

    بالآخر 40 برس بعد تھامس اس دماغ کو منظر عام پر لے آیا اور تحقیق کے لیے اسے سائنسدانوں کے حوالے کردیا۔

    سائنسدانوں نے اس دماغ کی جانچ پڑتال کی تو نہایت حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ ماہرین نے دیکھا کہ آئن اسٹائن کے دماغ کی ایک جھلی پیرائٹل اوپرکیولم غائب تھی۔

    دماغ کو ایک حد میں رکھنے والی اس جھلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے آئن اسٹائن کے دماغ کا یہ حصہ عام دماغ سے 20 فیصد بڑا ہوگیا تھا۔

    دماغ کی اس غیر معمولی نشونما کی وجہ سے آئن اسٹائن میں ریاضی کو سمجھنے اور مختلف تصورات قائم کرنے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا تھا۔

    تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ آئن اسٹائن کے دماغ میں عام دماغ کی نسبت 17 فیصد زیادہ نیورونز موجود تھے۔ ان اضافی نیورونز نے آئن اسٹائن کی دماغی کارکردگی میں اضافہ کردیا تھا جبکہ وہ اپنے تصورات کو تعمیری صورت میں ڈھالنے پر بھی قادر ہوگئے تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تمام کیفیات ایک غیر معمولی دماغ کی نشانی ہیں جنہیں ’ابنارمل‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ آئن اسٹائن خوش قسمت تھے کہ ان کی ’ابنارملٹی‘ نے انہیں دنیا کا عظیم سائنسداں بنا دیا۔

    آئن اسٹائن کہا کرتے تھے، ’دنیا کا ہر شخص ذہین ہوتا ہے، لیکن اگر آپ کسی مچھلی کی صلاحیتوں کا اندازہ اس کے درخت پر چڑھنے سے لگانا چاہیں تو وہ ساری عمر اپنے آپ کو نالائق گردانتی رہے گی‘۔

    آپ اس عظیم سائنسداں کی بات سے کتنے متفق ہیں؟