بریسٹ کینسر یعنی چھاتی کا سرطان عمومی طور پر بڑی عمر کی خواتین میں تشخیص ہوتا ہے لیکن اب یہ جان لیوا بیماری نوجوان خواتین کو بھی متاثر کر رہی ہے۔
عام طور پر 40سال سے کم عمر کی خواتین میں بریسٹ کینسر بڑی عمر کی خواتین کی نسبت زیادہ شدت سے اثر انداز ہوتا ہے جس کی وجہ سے نوجوان خواتین میں اکثر بڑے سائز کے ٹیومر ظاہر ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ نوجوان خواتین عام طور پر میمو گرام نہیں کرواتیں، جس کے نتیجے میں بیماری کی تشخیص ہونے میں زیادہ تاخیر ہوجاتی ہے۔
بریسٹ کینسر میں مبتلا نوجوان خواتین اکثر ذہنی اور جسمانی تناؤ محسوس کرتی ہیں کیونکہ وہ کام، رشتوں اور ماں بننے کی خواہش رکھتے ہوئے علاج میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
زیر نظر مضمون میں ماہر صحت کی جانب سے بریسٹ کینسر کے علاج کیلیے ایک نسخہ تجویز کیا گیا ہے جس کو بنانے کا آسان طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ نسخہ ایلو پیتھک طریقہ علاج کے دوران بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اگر آپ کسی معالج کی تجویز کردہ ادویات استعمال کررہی ہیں تو یہ نسخہ بھی علاج میں مددگار ثابت ہوگا۔
نسخہ بنانے کی ترکیب اور استعمال
اس کے اجزاء میں صرف دو چیزیں شامل ہیں پہلی میتھی دانے ایک چمچ اور دوسری جڑی بوٹی ’دھناسا‘ جسے انگریزی میں فگونیا کہتے ہیں ایک چمچ۔ ان دونوں کو مکس کرکے پاؤڈر بنائیں اور رات کو سونے سے قبل دودھ کے ساتھ ایک چمچ ملاکر پئیں۔ اس سے بریسٹ کینسر کی شکار خواتین کے مسائل میں کمی آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔
کراچی: ایچ بی ایل پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل 10) میں آج بریسٹ کینسر سے آگاہی کا دن منایا جائے گا۔
راولپنڈی میں ہونے والے کراچی کنگز سے میچ کے لئے میزبان اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم نے اسی مناسبت سے ٹیم کی جرسیاں تیار کرائی ہیں، پنک ربن مہم کا مقصد اس بیماری کیخلاف لوگوں کا شعور اجاگر کرنا ہے۔
میزبان ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ نے خصوصی جرسیاں تیار کرائی ہیں جبکہ کراچی کنگز کی ٹیم اور میچ آفیشلز گلابی رنگ کے کیپس پہنیں گے، دوران میچ پلیئرز، میچ آفیشلز، سپورٹ اسٹاف اور کمنٹیٹرز بھی بریسٹ کینسر کی بیماری سے متعلق اظہار کریں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پی ایس ایل 10 میں پاک فضائیہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا، پاک بھارت کشیدگی میں جانوں کانذرانہ دینے والے شہدا کو سلام عقیدت پیش کیا گیا تھا۔
پاکستان ایئرفورس کی جانب سے بھارت کے خلاف جنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا گیا تھا، پاک فضائیہ کے پائلٹس نے بھارت کے 6 لڑاکا طیارے گرائے تھے جن میں 3 جدید رافیل طیارے بھی شامل تھے، بالآخربھارت کو اپنے زخم چاٹتے ہوئے سیزفائر کی درخواست کرنا پڑی تھی۔
پی ایس ایل 10 میں گزشتہ روز راولپنڈی اسٹیڈیم پاکستان ایئرفورس کو خراج تحسین پیش کیا گیا، اسٹیڈیم پاک فضائیہ اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا، ایئرچیف مارشل ظہیر احمد بابر بھی پاک فضائیہ کو خراج تحسین پیش کرنے کی تقریب میں راولپنڈی اسٹیڈیم میں موجود رہے۔
اس کے علاوہ وفاقی وزیرداخلہ و چیئرمین پی سی بی محسن نقوی بھی اسٹیڈیم میں موجود تھے، گلوکار شجاع حیدر نے اسٹیڈیم میں شاندار پرفارمنس کے ذریعے شائقین کا لہو گرمایا۔
بریسٹ کینسر اس وقت دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والا ایسا جان لیوا مرض ہے جس کا علاج تو ممکن ہے مگر وہ کافی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب سرطان کی تشخیص ابتدائی مراحل میں ہوجائے۔
پہلے یہ مرض عام طور پر عمر رسیدہ خواتین میں پایا جاتا تھا، لیکن اب کم عمر خواتین بھی اس بیماری میں مبتلا ہو رہی ہیں۔ بریسٹ کینسر کی مریض خواتین نہ صرف پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں پائی جاتی ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی خواتین بھی اس مرض کا شکار ہورہی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اس وقت ہر 6 میں سے ایک موت کا سبب کسی قسم کا کینسر ہوتا ہے اور کینسر دنیا بھر میں اموات کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ کینسر کے شکار ہونے یا بچنے میں آپ کی غذا کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔
متعدد غذائیں ایسے مفید مرکبات سے بھرپور ہوتی ہیں جو کینسر کے پھیلنے کی رفتار کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
حیدرآباد: ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھتا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، ہر سال خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
امریکی ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر نیکول سیفیئر کا کہنا ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔
فیملی ہسٹری بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، روزانہ کی خوراک میں زیادہ ٹاکسن اور کاسمیٹک مصنوعات کا استعمال بھی اس بیماری کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔
ایسی صورت میں ایک صحت مند غذا اور طرز زندگی اپنانا چاہیے تاکہ کینسر سے بچا جا سکے۔ اس سلسلے میں ذیل میں دیے گئے 5 غذاؤں کا استعمال بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
پالک
پالک میں کیروٹینوائڈز کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے، جو بریسٹ کینسر کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کر سکتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ اپنی غذا میں پالک کو باقاعدگی سے شامل کرتے ہیں، ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ 28 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔
لہسن
لہسن بھی بریسٹ کینسر کے خطرے سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ لہسن میں ایسے خواص ہوتے ہیں جو کینسر کے خلیوں کو ختم کرتے ہیں، ساتھ ہی یہ سوزش کو بھی کم کرتا ہے۔ اس لیے خواتین کو روزانہ لہسن کا استعمال کرنا چاہیے۔
بلو بیریز
ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ ایک مٹھی بلو بیریز کھانے سے بھی بریسٹ کینسر کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ ان میں موجود flavonoids اور anthocyanins کینسر کی روک تھام کرتے ہیں۔
مچھلی
اس کے علاوہ جو خواتین باقاعدگی سے مچھلی کھاتی ہیں، ان میں بھی بریسٹ کینسر کا خطرہ 14 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
ہلدی
اسی طرح، ہلدی بھی کینسر کی روک تھام میں بہت مؤثر ہے۔ ہلدی میں اینٹی انفلماٹری خصوصیات اور اینٹی آکسیڈینٹس کی کثرت ہوتی ہے، جو کینسر سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔
پاکستان میں چھاتی کے کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز نے طبی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، اگر اس پر فوری قابو پالیا جائے تو علاج ممکن ہے بصورت دیگر اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آنکو لوجسٹ ڈاکٹر سعدیہ رضوی نے خواتین میں پھیلنے والی خطرناک بیماری بریسٹ کینسر کی وجوہات بیان کیں اور اس کی روک تھام کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ کہ اٹھارہ، انیس اور بیس سال کی نوجوان لڑکیوں کو بھی یہ مرض لا حق ہورہا ہے اور اس کی ایک وجہ اسٹروئیڈ کا استعمال ہے جو بھینسوں، گائیں اور مرغیوں کا دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہارمونل عدم توازن بڑھتا ہے جو بالا آخر بریسٹ کینسر کا سبب بنتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین اپنے مسائل اور پریشانیوں کو چھپاتی ہیں، خاص طور پر چھاتی میں ہونے والی گلٹی کا ذکر کسی سے نہیں کیا جاتا جوق بعد میں نقصان کا باعث بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چھاتی کے سرطان کا باعث بننے والے کچھ عوامل ایسے ہوتے ہیں جن پر ہمیں کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا جیسے بڑھتی ہوئی عمر، جینیاتی تغیرات، خاندانی تاریخ وغیرہ۔
اس کے علاوہ کچھ عوامل ایسے ہیں جنہیں تبدیل کرکے چھاتی کے سرطان سے بچا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایسی طرزِ زندگی جس میں زیادہ حرکت نہ ہو، ہارمون تھراپی کروانا۔ اس کے علاوہ چند عادات جیسے تمباکو نوشی چھوڑنا وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر سعدیہ رضوی نے بتایا کہ بڑی عمر کی خواتین ہوں یا لڑکیاں آئینے سے سامنے کھڑے ہوکر اپنا معائنہ خود کریں اس کے بعد ضروت محسوس کریں تو الٹرا ساؤنڈ یا کینسر کا ٹیسٹ کروائیں۔
بڑھتی عمر کے ساتھ بالوں کا سفید ہونا قدرتی عمل ہے تاہم بہت کم لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بالوں کو اصلی رنگت میں ہی رہنے دیتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ انہیں رنگنا پسند کرتے ہیں۔
بالوں کے معاملے میں خاص طور پر خواتین کچھ زیادہ ہی حساس ہوتی ہیں اور آئے دن بالوں کو نیا لُک دینے کیلئے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔
بالوں کی سفیدی چھپانے کے لیے 75سے 80 فیصد لوگ مخصوص رنگوں کا استعمال کرتے ہیں لیکن بالوں کو رنگنے کیلئے استعمال کیے جانے والے کیمیکل کتنے خطرناک ہیں یا ان سے کتنا بڑا نقصان ہوسکتا ہے یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہوتی ہے۔
مختلف رنگوں کے بالوں کی خواہش ہونا کوئی نئی بات نہیں، زمانہ قدیم میں مہندی بالوں کو رنگنے کیلئے استعمال کی جاتی تھیلیکن اب دور جدید میں آئے دن نت نئے کیمیکل زدہ کلرز متعارف ہورہے ہیں۔
حال ہی لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ خواتین جو سال میں 6 بار سے زائد اپنے بالوں کو مختلف رنگوں سے رنگتی ہیں ان کو چھاتی یعنی بریسٹ کینسر کے امکان کا شدید خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
تحقیق میں شامل بریسٹ کینسر کے ایک ماہر سرجن کے مطابق وہ خواتین جو اپنے بالوں کو بہت زیادہ رنگواتی ہیں ان میں بریسٹ کینسر لاحق ہونے کا امکان 14 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ خواتین بالوں کو رنگنے کے لیے مصنوعی رنگ یا کیمیکلز کے بجائے قدرتی اجزاء کا استعمال کریں جیسے مہندی یا چقندر وغیرہ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت تو ہے تاہم یہ بات مصدقہ ہے کہ بالوں کو رنگنے والے کیمیائی اجزا بریسٹ کینسر پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
ان کے مطابق خواتین سال میں صرف 2 سے 6 بار بالوں کو رنگوائیں، اس سے زیادہ ہرگز نہیں۔ قدرتی اجزا سے بالوں کو رنگنا بالوں کی صحت کے لیے بھی مفید ہے اور یہ مضر اثرات بھی نہیں پہنچاتا۔
محققین کے مطابق ان ہیئر ڈائی میں موجود کیمیکلز انسانی جسم میں ہارمونز کے افعال اور سطح میں خلل ڈالتے ہوئے کینسر کے امکانات کو بڑھاتے ہیں۔
کراچی: ماہرین صحت نے انکشاف کیا ہے کہ ایشیائی آبادیوں میں بریسٹ کینسر کی شرح سب سے زیادہ کراچی میں ہے۔
تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں بریسٹ کینسر آگاہی سیمینار سے خطاب میں ماہرین کا کہنا تھا کہ دنیا میں ہر ایک منٹ بعد ایک عورت بریسٹ کینسر کے باعث جان کی بازی ہار جاتی ہے۔
انھوں نے کہا پاکستان میں ہر آٹھویں عورت اس مہلک مرض میں مبتلا ہے، کسی بھی ایشین آبادی میں بریسٹ کینسر کی شرح کراچی میں سب سے زیادہ ہے، صرف آگاہی پیدا کر کے ہی اس شرح کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین نے کہا بریسٹ کینسر دنیا میں کینسر سے اموات کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے، جب کہ ہمارے خطے میں بریسٹ کینسر موت کی تیسری بڑی وجہ ہے، ابتدا میں اگر بریسٹ کینسر کی تشخیص ہو جائے تو اس کا علاج ممکن ہے۔
انھوں نے کہا اکتوبر درحقیقت بریسٹ کینسر کے خلاف ایک جنگ کا مہینہ ہے لیکن اس جنگ کا ہتھیار آگہی ہے، بریسٹ کینسر جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، 2040 تک یہ شرح دگنی تگنی بڑھ جائے گی۔
اس سیمینار کی مہمان خصوصی ڈاؤ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ تھیں، ان کے علاوہ ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسر صبا سہیل، سابقہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سول اسپتال کراچی ڈاکٹر نور محمد سومرو، ڈاکٹر فرحت جلیل، ڈاکٹر عمیمہ سلیم، ڈاکٹر صائمہ و دیگر نے خطاب کیا۔
کرن اسپتال کے ڈاکٹر اصغر علی اصغر نے کہا بھارت میں ایک لاکھ میں سے 25 لوگوں میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے، ہمارے یہاں ایک لاکھ میں سے 34 لوگوں کو بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے، امریکا میں یہ شرح 20 افراد فی لاکھ ہے۔
انھوں نے کہا کہ بعض اقدامات ہیں جن سے بریسٹ کینسر کی شرح کم کی جا سکتی ہے، خواتین 12 مہینے تک بچوں کو دودھ پلا کر چار فی صد تک بریسٹ کینسر کے خطرات کو کم کر سکتی ہیں، ایکسرسائز جس میں چھ ہزار قدم چہل قدمی، پراسیس کیے ہوئے گوشت سے اجتناب، سبزیوں اور پھلوں کا استعمال، کیلشیئم اور وٹامن ڈی کا باقاعدگی سے استعمال بریسٹ کینسر سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں ہر سال اکتوبر کے مہینے کو چھاتی کے سرطان یا بریسٹ کینسر سے آگاہی کے ماہ کے طور پر منایا جاتا ہے جسے بریسٹ کینسر کی علامت گلابی ربن کی نسبت سے پنک ٹوبر کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں بریسٹ کینسر کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، ملک میں ہر سال بریسٹ کینسر کے 90 ہزار سے 1 لاکھ تک کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن میں 45 فیصد ناقابل علاج ہوتے ہیں۔
ہر سال ملک میں 40 ہزار خواتین بریسٹ کینسر کے باعث موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔
ملک میں بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگہی کے فروغ پر کام کرنے والے ادارے پنک ربن کے سربراہ عمر آفتاب کا کہنا ہے کہ بریسٹ کینسر کو ایک ممنوعہ موضوع سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس مرض میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ خواتین اس مرض کو چھپاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا مرض بڑھ کر ناقابل علاج ہوجاتا ہے۔
فاطمہ میموریل ہاسپٹل سے منسلک اونکولوجسٹ ڈاکٹر عندلیب خانم کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والی زیادہ تر مریض خواتین کا مرض آخری اسٹیج پر ہوتا ہے، وہ ایک عرصے سے بریسٹ میں ہونے والی تکلیف کو شرم کے مارے چھپا رہی ہوتی ہیں اور اپنے والدین، شوہر یا بچوں کو نہیں بتاتیں۔
ڈاکٹر عندلیب کے مطابق اس حوالے سے یہ توہمات بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر ڈاکٹر کے پاس گئے تو ٹیسٹ کے لیے سوئی لگائی جائے گی یا کٹ لگایا جائے گا، اس سے یہ مرض پھیل جائے گا، وہ ایکسرے یا الٹرا ساؤنڈ کروانے سے بھی ہچکچاتی ہیں۔
بعض خواتین اگر جلدی ڈاکٹر کے پاس آجائیں اور ڈاکٹر انہیں سرجری کا کہہ دے تب بھی خواتین اور ان کے گھر والے سرجری کرنے سے کتراتے ہیں، یوں ایک ایسا مرض جس پر جلد تشخیص سے آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے، بڑھ کر جان لیوا ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ پسماندہ علاقوں میں خواتین ڈاکٹرز کی عدم دستیابی بھی خواتین کو اس کا علاج کرنے سے روک دیتی ہے کیونکہ وہ خود یا ان کے اہل خانہ مرد ڈاکٹرز کے پاس نہیں جانا چاہتے۔
وجوہات اور علامات
ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں بریسٹ کینسر کے پھیلاؤ کی وجہ جاننے کے لیے جامع تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اس کے اسباب معلوم کیے جاسکیں۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ شادی نہ ہونا یا دیر سے ہونا، اولاد کا نہ ہونا اور ماؤں کا بچوں کو فیڈ نہ کروانا بریسٹ کینسر کے خطرات کو جنم دیتا ہے۔ یہ وجوہات مغربی ممالک سے حاصل کردہ ڈیٹا سے طے کی گئی تھیں، تاہم اب دیکھا جارہا ہے کہ پاکستان میں شادی شدہ اور بچوں والی خواتین بھی بریسٹ کینسر کا شکار ہورہی ہیں، تقریباً یہ تمام خواتین ہی بچوں کو اپنا دودھ پلا چکی ہوتی ہیں لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ بریسٹ فیڈنگ بھی کینسر سے بچانے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتی۔
ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں 40 سال سے اوپر کی خواتین بریسٹ کینسر رسک کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں 35 سے 45 سال کے درمیان کی خواتین بریسٹ کینسر کا زیادہ شکار ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر کی وجوہات میں ایسٹروجن اور پروجیسٹرون ہارمونز کی زیادتی بھی شامل ہے، یہ دونوں ہارمونز خواتین کی تولیدی صحت سے متعلق ہیں، مینسٹروئل سائیکل کی باقاعدگی کے لیے لی جانے والی اور مانع حمل ادویات سے ان ہارمونز کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور یہ بریسٹ کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں موٹاپا، بہت زیادہ چکنائی والے کھانے اور جنک فوڈ کا بہت زیادہ استعمال بھی خطرناک ہیں، ہم اگر یہ سب نہ بھی کھائیں اور صحت مند غذائیں کھائیں، تب بھی فصلوں پر کیمیکل فرٹیلائزر، کیڑے مار ادویات کا استعمال، دودھ میں استعمال کیے جانے والے کیمیکل اور پھلوں پر کیے جانے والے اسپرے مختلف اقسام کے کینسرز کا سبب بن سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ فیملی ہسٹری بھی اس کا ایک سبب ہے، اگر خاندان میں کسی کو بریسٹ کینسر ہوا ہو تو اس خاندان کی تمام خواتین کو بہت محتاط رہنے اور باقاعدگی سے بریسٹ کینسر اسکریننگ کروانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامت چھاتی میں کسی بھی قسم کی گلٹی محسوس ہونا ہے، یہ عموماً شروع میں بہت بے ضرر ہوتی ہے اور کوئی تکلیف نہیں دیتی لہٰذا خاصے عرصے تک اس کا علم نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ چھاتی کی ساخت میں کوئی بھی تبدیلی محسوس ہونا، جلد کا سخت ہوجانا، جھریاں یا گڑھے بننا بھی اس کی علامات ہیں اور ایسی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔
سیلف ایگزام کیسے کریں؟
ڈاکٹر عندلیب کا کہنا تھا کہ خواتین مہینے میں ایک بار خود اپنے آپ کو چیک کریں۔
اس کے لیے ماہواری سائیکل ختم ہونے کے 3 سے 4 دن بعد کا وقت بہترین ہے، ہاتھ سے چھو کر چھاتی اور بغل کو چیک کریں، کہیں بھی کوئی ابھار، تکلیف یا گلٹی محسوس ہو تو اسے توجہ کی ضرورت ہے۔
آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھیں، دونوں چھاتیوں کی شکل، رنگ یا جلد میں فرق یا تبدیلی۔ کسی ایک یا دونوں چھاتیوں میں کھنچاؤ، جلد پہ جھریاں، یا گڑھے۔ نپل کا اندر کی طرف جانا، نپل پہ خارش، سرخی یا کھنچاؤ۔ نپل سے مواد بہنا بھی اس کی علامت ہوسکتی ہے۔
یہ وہ علامات ہیں جو گھر میں چیک کرنے کے دوران نظر میں آسکتی ہیں جس کے بعد بریسٹ ڈاکٹر کے پاس جایا جائے اور اس کا تجویز کردہ الٹرا ساؤنڈ یا میمو گرام کروایا جائے تاکہ حتمی صورتحال معلوم ہوسکے۔
بریسٹ میں ہونے والی تمام گلٹیوں کا کینسر زدہ ہونا ضروری نہیں، یہ عام دواؤں یا معمولی سرجری سے بھی ٹھیک ہوسکتی ہیں لیکن اس حوالے سے حتمی فیصلہ اس مرض کا ڈاکٹر ہی کرے گا جو تمام ضروری ٹیسٹس کے بعد واضح نتیجے پر پہنچے گا۔
کیا بریسٹ کینسر سے بچاؤ ممکن ہے؟
ڈاکٹر عندلیب کے مطابق فعال طرز زندگی اور صحت مند غذا کا استعمال کینسر سمیت کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے، خواتین سادہ اور صحت مند کھانے اور ورزش یا کم از کم روزانہ چہل قدمی کو اپنا معمول بنائیں۔
تازہ سبزیوں، پھلوں اور پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔
باقاعدگی سے سیلف ایگزام کرتے رہیں اور کسی بھی تکلیف کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کریں۔
دنیا بھر کی خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کی روک تھام کے لیے تیار کی گئی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا اعلان کیا ہے۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے کلیو لینڈ کلینک نے 26 اکتوبر 2021 کو ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر کی روک تھام کرنے والی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا اعلان کیا ہے۔
بریسٹ کینسر کی اس قسم کے خلاف ہارمون یا ٹارگٹڈ ادویات کام نہیں کرتیں، اب تک بریسٹ کینسر کی اس خطرناک قسم کی روک تھام کے لیے ویکسینز کی تیاری لیبارٹری اور جانوروں تک محدود تھی، مگر اب انسانوں پر ٹرائل اہم ترین پیشرفت ہے۔
اس ٹرائل میں ایسی خواتین کو شامل کیا جائے گا جو ابتدائی مرحلے میں ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر سے نجات پاچکی ہیں مگر اس کے دوبارہ لوٹنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔
ماہرین کو توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں زیادہ خطرے سے دو چار صحت مند افراد کو شامل کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ طویل المعیاد بنیادوں پر ہمیں توقع ہے کہ یہ ایک مؤثر ویکسین ثابت ہوگی جس کے استعمال سے صحت مند خواتین بریسٹ کینسر کی اس جان لیوا قسم کا شکار ہونے سے بچ سکیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بریسٹ کینسر کی وہ قسم ہے جس کے خلاف علاج سب سے کم مؤثر ہیں۔
ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر کا سامنا کینسر کی اس قسم کا سامنا کرنے والی 12 سے 15 فیصد خواتین کو ہوتا ہے اور تشخیص کے بعد ایک چوتھائی کے قریب مریض 5 سال کے اندر ہلاک ہوجاتے ہیں۔
ٹرائل میں شامل رضا کاروں کو یہ ویکسین 3 خوراکوں میں استعمال کروائی جائے گی جس میں ایک ایسی دوا شامل ہے جو اس قسم کا خطرہ بڑھانے والے ایک مخصوص پروٹین کے خلاف مدافعتی نظام کو متحرک کرے گی۔
ہر خوراک میں 2 ہفتے کا وقفہ ہوگا اور آغاز میں چند خواتین کو کم مقدار کی خوراک دی جائے گی جس کے بعد ان کی مانیٹرنگ کی جائے گی اور پھر مقدار اور خواتین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔
ٹرائل میں 18 سے 24 ایسی خواتین کو شامل کیا جائے گا جو گزشتہ 3 برسوں کے دوران ابتدائی مرحلے میں کینسر کو شکت دے چکی ہوں گی۔
ماہرین کے مطابق ایک بار ہم تعین کرلیں کہ کتنی مقدار میں ویکسین دی جانی چاہیئے، اس کے بعد ہم مدافعتی نظام پر اس کے اثرات کی جانچ پڑتال کریں گے، جس سے یہ تعین کرنے میں مدد ملے گی ویکسین کتنی کارآمد ہے۔
اس حوالے سے تحقیق ستمبر 2022 تک مکمل ہونے کا امکان ہے اور اس کے لیے فنڈز امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے فراہم کیے جائیں گے۔
ماہرین نے بتایا کہ ویکسین کی یہ حکمت عملی ممکنہ طور پر دیگر اقسام کی رسولیوں پر بھی کام کرسکتی ہے، اگر ٹرائل کامیاب ہوا تو اس سے بالغ افراد میں کینسر کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکے گی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں اکتوبر کا مہینہ خواتین میں چھاتی کے سرطان کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے تاکہ اس مرض سے متعلق آگاہی فراہم کر کے خواتین کو اس بیماری سے بچایا جاسکے۔
ماہرین صحت کے مطابق پاکستان میں عموماً خواتین اس مرض کی علامات کے باوجود ڈاکٹروں سے رجوع نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے یہ سرطان خطرناک صورت حال اختیار کر لیتا ہے۔
چھاتی کا سرطان عموماً خواتین میں پایا جاتا ہے، ماہرین صحت کے مطابق ہر سال پاکستان میں ہزاروں خواتین اس مرض کی تشخیص سے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔
ماہرین صحت کہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی شکایت کی صورت میں خواتین کو اپنے معالج سے فوری رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق ہر 10 میں 9 خواتین کو اس مرض کی شکایات کا سامنا ہوتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین فوری طور اپنے معالج کے مشورے پر عمل کریں تاکہ ابتدائی مرحلے ہی میں کسی خطرناک صورت حال کو کنٹرول کیا جا سکے۔
ماہرین صحت کے مطابق ابتدائی شکایت کی صورت میں چھاتی کا کینسر قابل علاج ہے، اور بر وقت تشخیص و علاج مریض کو خطرناک صورت حال سے بہ آسانی نکالنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اکتوبر کا مہینہ چھاتی کے سرطان کے خلاف آگاہی کے طور منایا جاتا ہے، تاکہ خواتین کو اس مرض سے بچایا جا سکے۔
ورجینیا: امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے نتائج سے بریسٹ کینسر سمیت دیگر کئی اقسام کے کینسر کے علاج سے متعلق ایک نئی امید پیدا ہو گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ورجینیا کامن ویلتھ یونی ورسٹی کے میسی کینسر سینٹر میں کی جانے والی اس تحقیق میں چھاتی کے کینسر کا سبب بننے والے ہارمون کو دریافت کر لیا گیا ہے۔
اس ریسرچ کی رپورٹ جرنل برائے نیچر پارٹنر جرنلز میں شائع ہوئی ہے، بریسٹ کینسر کا سبب بننے والا ہارمون میسی کینسر سینٹر کے محقق چارلس کلیوینجر اور ان کی لیب نے دریافت کیا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ بریسٹ کینسر کا سبب بننے والے ہارمون کی دریافت سے کئی دیگر اقسام کے کینسر کا علاج بھی ممکن نظر آنے لگا ہے۔
ورجینیا کامن ویلتھ یونی ورسٹی میں ہونے والی اس حالیہ تحقیق میں اس بات کے مضبوط شواہد ملے ہیں کہ چھاتی میں کینسر کی افزائش کا سبب بننے والا ایک ہارمون پروکلیٹین دراصل بریسٹ گروتھ کا سبب بنتا ہے، اور یہ حمل کے دوران ماں کے دودھ میں اضافے کی وجہ بھی ہوتا ہے۔
محققین نے اس ہارمون کو بریسٹ کینسر کا اہم سبب قرار دیا ہے، انھوں نے خوش خبری سنائی کہ یہ ہارمون ٹارگیٹڈ دوا کی تیاری میں کافی مفید ثابت ہوگا، اور اس سے کئی قسم کے کینسر کا علاج کیا جا سکے گا۔
محققین کے مطابق بریسٹ کینسر کا براہ راست سبب بننے والے اس ہارمون کے خلیات کی سطح پر پروٹین موجود ہوتا ہے، جسے رسیپٹرز کہتے ہیں۔ یہ ریسپٹرز بائیولوجیکل پیغامات وصول کرنے اور بھیجنے کے ساتھ خلیے کے افعال کو بھی ریگولیٹ کرتے ہیں۔