Tag: Brexit

  • بریگزٹ سے متاثرہ ممالک کیلئے یورپی یونین کا ایک اور اہم فیصلہ

    بریگزٹ سے متاثرہ ممالک کیلئے یورپی یونین کا ایک اور اہم فیصلہ

    برسلز : یورپی یونین نے بریگزٹ سے رکن ممالک کی معیشت کے ممکنہ منفی اثرات کے پیش نظر5 ارب یورو کے حامل فنڈ کو استعمال کرنے کی پیش کش کی ہے۔

    اس سلسلے میں برطانیہ کی یونین سے علیحدگی سے اقتصادی و سماجی منفی پیش رفت کے خلاف جدوجہد کے زیر مقصد ایک فنڈ قائم کیا جائے گا۔

    یورپی یونین کمیشن نے بریگزٹ ہم آہنگی فنڈ کے قیام سے متعلق تجویز کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق برطانیہ کی یونین سے علیحدگی سے اقتصادی و سماجی منفی پیش رفت کے خلاف جدوجہد کے مقاصد کیلئے ایک فنڈ قائم کیا جائے گا۔

    مجموعی طور پر5 ارب یورو کے وسائل منتقل کیے جانے والا فنڈ بریگزٹ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے رکن ممالک اور متعلقہ شعبہ جات کی مالی اعانت کرے گا۔

    اس فنڈ کی پیشکش پر عمل درآمد کے لیے یورپی یونین کے رکن ممالک اور یورپی پارلیمان کی منظوری لازمی شرط ہے۔

    یاد رہے کہ برطانیہ، وہیلز، شمالی آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ پر مشتمل گریٹ برٹین میں جون 2016 کو منعقدہ ریفرنڈم کےذریعے52 فیصد ووٹوں کے ساتھ بریگزٹ کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

    طرفین نے یکم جنوری سے کسٹم ٹیکس اور بلا کوٹے کے تجارتی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے معاہدے پر مطابقت بھی قائم کرلی ہے۔

  • نئی تاریخ رقم، برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو گیا، ملک بھر میں‌ جشن

    نئی تاریخ رقم، برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو گیا، ملک بھر میں‌ جشن

    لندن: برطانیہ باضابطہ طور پر یورپی یونین سےعلیحدہ ہو گیا، تاہم علیحدگی کا یہ عمل 11 ماہ کے عبوری دور کے بعد اپنی تکمیل تک پہنچے گا۔

    تفصیلات کے مطابق بریگزٹ کے لیے کی جانے والی کوششیں رنگ لے آئیں، برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو گیا، ملک بھر میں برطانوی جشن منانے لگے ہیں، بریگزٹ کے حامی اور مخالف پارلیمنٹ اسکوائر پر جمع ہو گئے ہیں، خواتین اور بچے بھی پارلیمنٹ اسکوائر پر جھنڈے اٹھائے نکل آئے ہیں۔

    برطانیہ یورپ سے نئے سرے سے تعلقات کے لیے مذاکرات کرے گا، 11 ماہ کی عبوری مدت میں موجودہ قوانین پر معاملات جاری رکھے جائیں گے، بریگزٹ کے نفاذ کے بعد اب 31 دسمبرتک کا دور عبوری گا۔ اس دوران برطانیہ میں یورپی قوانین لاگو رہیں گے اور یورپی یونین سے تعلقات کے بارے میں تفصیلات طے کی جائیں گی۔

    یورپی یونین سے نکلنے والا برطانیہ پہلا ملک

    خیال رہے کہ برطانیہ یورپی یونین کا 47 برس تک ممبر رہا، اور بریگزٹ کی جدوجہد میں تین سال لگے، برطانیہ کو یورپ سے نکالنے کی ڈیل کے حق میں 621 اور مخالفت میں 49 ووٹ آئے تھے، یورپی پارلیمنٹ نے بریگزیٹ ڈیل کی بھاری اکثریت سے منظوری دی تھی جب کہ برطانوی پارلیمنٹ اور دارالامرا بھی یورپی یونین سے علیحدگی کی قرارداد منظور کر چکے تھے اور ملکہ برطانیہ بھی یورپی یونین سے علیحدگی کی منظوری دے چکی تھیں۔

    بریگزٹ کے بعد ایک طرف اس کے حامی جشن منا رہے ہیں تو دوسری طرف بریگزٹ کے مخالفین احتجاج کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم برطانیہ بورس جانسن نے یورپ سے برطانوی علیحدگی کے بعد کہا کہ اب برطانیہ میں نئے دور کا سورج طلوع ہوگا، اکثر لوگوں کے لیے یہ امید کا شان دار لمحہ ہے، ایسا لمحہ جو پھر کبھی نہیں آئے گا۔ وہ بھی بہت سارے ہیں جو اس لمحے پریشانی اور نقصان محسوس کر رہے ہیں۔

  • یورپی یونین سے نکلنے والا برطانیہ پہلا ملک

    یورپی یونین سے نکلنے والا برطانیہ پہلا ملک

    برطانیہ آج یورپی یونین سے الگ ہو جائے گا، جس کے بعد وہ قانونی طور پر یورپی یونین کا حصہ نہیں رہے گا، برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کے بعد اس کے 73 اراکین پر مشتمل یورپی پارلیمنٹ کا کردار بھی ختم ہو جائے گا۔

    بریگزٹ عمل میں آتے ہی یورپی پارلیمنٹ کے اراکین بھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے، تاہم برطانیہ کے یورپ سے مکمل انخلا کا عمل اس سال کے آخر تک جاری رہے گا اور دونوں فریقین موجودہ شرائط اور قوانین کی بنا اپنے تمام معاملات جاری رکھیں گے۔ اس دوران برطانیہ یورپ کے ساتھ کاروباری، داخلی اور سفارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ دیگر اہم امور پر نتیجہ خیز مذاکرات بھی جاری رکھے گا۔

    برطانیہ 1973 میں یورپی یونین کا حصہ بنا تھا اور ایک اہم رکن کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا رہا، اور اس یونین کا پہلا ملک ہے جو اس سے باہر نکل رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ 2016 میں ہونے والے عوامی ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت کی جانب سے یورپ سے نکلنے کے حق میں رائے دہی تھی، ان نتائج کے بعد برطانوی اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی تھی اور اُس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا تھا جس کے بعد وزارتِ عظمی کا تاج ٹریسامے کے سر پر سجا تھا جنھوں نے بریگزیٹ کے لیے 29 مارچ 2019 کی تاریخ طے کی اور قانون سازی کے لیے بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے عام انتخابات کا اعلان کیا۔

    تاریخی دن ، برطانیہ آج یورپی یونین سے الگ ہوجائے گا

    8 جون 2017 کو برطانیہ میں ہونے والے انتخابات میں ان کی پارٹی جیت تو گئی مگر سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکی اور ایک کم زور حکومت قیام عمل میں آئی۔ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ٹریسامے تین بار پارلیمنٹ میں ڈیل لے کر آئیں مگر تینوں بار انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور مقررہ تاریخ پر بریگزیٹ کا عمل پورا نہ ہو سکا۔ یوں برطانوی حکومت کو یورپی یونین سے مزید مہلت مانگنی پڑی جس کے بعد 2 بار بریگزٹ کی تاریخ میں تبدیلی ہوئی مگر نتیجہ جوں کا توں ہی رہا اور ٹریسامے کو مجبوراً گھر جانا پڑا۔

    پھر 24 جولائی 2019 کو وزراتِ عظمیٰ موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن کے حصے میں آئی جنھوں نے ڈیل فیل ہونے کے بعد زبردستی پارلیمنٹ کو معطل کر کے بریگزیٹ کا عمل پورا کرنے کی کوشش کی جسے عدالتِ عظمیٰ نے روک دیا، جس کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن نے یورپی یونین کو خط لکھ کر بریگزیٹ کے لیے آج کی تاریخ تک کی مہلت مانگی۔

    12 دسمبر 2019 کے لیے عام انتخابات کا اعلان کیا گیا تھا جن میں ان کی جماعت نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور 31 جنوری کو بریگزیٹ کا عمل مکمل کرنے کا وعدہ کیا گیا جسے آج انھوں نے پورا کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ حکومت برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ملک کی سمت کا تعین کیسے کرتی ہے۔

  • بریگزٹ، بلجئیم سے 42 ہزار افراد کے بےروزگار ہونے کا خدشہ

    بریگزٹ، بلجئیم سے 42 ہزار افراد کے بےروزگار ہونے کا خدشہ

    لندن/ برسلز : برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے نتیجے میں بلجئیم کے 42 ہزار افراد اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بلجئیم کی معروف لیون یونیورسٹی اور فلامش گورنمنٹ کی جانب سے کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی (بریگزٹ) کے نتیجے میں بلجئیم کے 42 ہزار افراد اپنے روزگار سے محروم ہوجائیں گے۔

    تحقیق کے مطابق بلجئیم کا فلامش بولنے والا علاقہ جو کہ فلاندرز کہلاتا ہے وہاں سے 28 ہزار، فرانسیسی زبان بولنے والوں کے علاقے سے 10 ہزار اور دارالحکومت برسلز سے 4 ہزار نوکریاں ختم ہوجائیں گی۔

    بلجئیم کا دوسرا بڑا اور ساحلی شہر اینٹورپن اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوگا، جہاں سے 7 ہزار 900 افراد بے روزگار ہوں گے۔

    حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بریگزٹ کے نتیجے میں جو شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، ان میں خوراک اور ٹیکسٹائل شامل ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق بریگزیٹ کے بعد اگر یورپ اور برطانیہ کے درمیان تجارت کا کوئی قابل عمل فارمولا نکل آتا ہے تو اس کے ذریعے ان 42 ہزار میں سے 6 ہزار ملازمتوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

  • بریگزٹ ڈیل: 10 ملین کے یادگاری سکے ضائع کردیے گئے

    بریگزٹ ڈیل: 10 ملین کے یادگاری سکے ضائع کردیے گئے

    لندن: برطانیہ کا یورپ سے 31اکتوبر کو انخلا کی تاریخ تبدیل ہونے پر 10 ملین یادگاری سکے ضائع کردیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ان یادگاری سکوں کو بریگزیٹ کی تاریخ تبدیل ہونے پر ضائع کیا گیا، یہ سکے برطانیہ کی یورپین یونین سے دوستی کے فروغ کے لیے جاری کیے گئے تھے۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق سکوں پر اکتیس اکتوبر کی تاریخ درج تھی جس کی وجہ سے سکوں کو ضائع کیا گیا، نئے سکے انخلاء کے بعد جاری کیے جائیں گے۔

    یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے یورپی یونین سے انخلا کے لیے 31 جنوری تک توسیع کرنے کی برطانوی درخواست کی منظوری دے دی ہے، جس کے بعد بینک آف انگلینڈ نے سکے ضائع کیے۔

    ڈونلڈ ٹسک کا دو روز قبل کہنا تھا کہ اگر آئندہ سال 31 جنوری سے قبل برطانوی پارلیمنٹ یورپی یونین سے بریگزٹ ڈیل کی منظوری دے دیتی ہے تو برطانیہ ڈیڈ لائن سے قبل بھی یورپی یونین سے نکل سکتا ہے۔

    برطانوی وزیراعظم کو ایک اور شکست

    خیال رہے کہ برطانیہ کو 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے نکل جانا تھا تاہم ڈیڈ لائن سے تین روز قبل برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی درخواست پر تین ماہ کی توسیع کی منظوری دی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ 2016 کے ریفرنڈم نے عوام نے یورپی یونین سے انخلا کے حق میں ووٹ دیا تھا تاہم تین سال گزرنے کے باوجود بریگزٹ ڈیل التوا کا شکار ہے، بریگزٹ ڈیل میں ناکامی پر سابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے بھی مستعفی ہوگئی تھیں۔

  • برطانوی وزیراعظم کو ایک اور شکست

    برطانوی وزیراعظم کو ایک اور شکست

    لندن: برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو پارلیمنٹ میں ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم 12 دسمبر کو انتخابات کرانا چاہتے تھے لیکن ان کا یہ مطالبہ اور خواہش بےسود ثابت ہوئی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق 12 دسمبر کو انتخابات کے مطالبے کو برطانوی پارلیمنٹ نے مسترد کردیا، حکومت کو جلد انتخابات کے لیے دو تہائی اکثریت مطلوب تھی۔

    دوسری جانب یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے یورپی یونین سے انخلا کے لیے 31 جنوری تک توسیع کرنے کی برطانوی درخواست کی منظوری دے دی ہے۔

    ڈونلڈ ٹسک کا گذشتہ روز ایک بیان میں کہنا تھا کہ اگر آئندہ سال 31 جنوری سے قبل برطانوی پارلیمنٹ یورپی یونین سے بریگزٹ ڈیل کی منظوری دے دیتی ہے تو برطانیہ ڈیڈ لائن سے قبل بھی یورپی یونین سے نکل سکتا ہے۔

    خیال رہے کہ برطانیہ کو 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے نکل جانا تھا تاہم ڈیڈ لائن سے تین روز قبل برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی درخواست پر تین ماہ کی توسیع کی منظوری دی گئی ہے۔

    یورپی یونین نے برطانیہ کو انخلا کے لیے 31 جنوری تک توسیع دے دی

    واضح رہے کہ 2016 کے ریفرنڈم نے عوام نے یورپی یونین سے انخلا کے حق میں ووٹ دیا تھا تاہم تین سال گزرنے کے باوجود بریگزٹ ڈیل التوا کا شکار ہے، بریگزٹ ڈیل میں ناکامی پر سابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے بھی مستعفی ہوگئی تھیں۔

  • یورپی یونین نے برطانیہ کو انخلا کے لیے 31 جنوری تک توسیع دے دی

    یورپی یونین نے برطانیہ کو انخلا کے لیے 31 جنوری تک توسیع دے دی

    برسلز: یورپی یونین نے برطانیہ کو انخلا کے لیے 31 جنوری 2020 تک توسیع دے دی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے یورپی یونین سے انخلا کے لیے 31 جنوری تک توسیع کرنے کی برطانوی درخواست کی منظوری دے دی ہے۔

    ڈونلڈ ٹسک کا کہنا ہے کہ اگر آئندہ سال 31 جنوری سے قبل برطانوی پارلیمنٹ یورپی یونین سے بریگزٹ ڈیل کی منظوری دے دیتی ہے تو برطانیہ ڈیڈ لائن سے قبل بھی یورپی یونین سے نکل سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ برطانیہ کو 31 جنوری تک مہلت دینے کا فیصلہ یورپی یونین کے ڈپلومیٹس کے برسلز میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: بریگزٹ ڈیل : یورپی یونین سے انخلا برطانوی حکومت کیلئے درد سر بن گیا

    واضح رہے کہ برطانیہ کو 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے نکل جانا تھا تاہم ڈیڈ لائن سے تین روز قبل برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی درخواست پر تین ماہ کی توسیع کی منظوری دی گئی ہے۔

    برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بریگزٹ ڈیل پر اپوزیشن کے علاوہ اپنے پارٹی ارکان کو بھی راضی نہیں کرسکے تھے جس کے بعد انہوں نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا تھا جسے اپوزیشن نے مسترد کردیا تھا تاہم ان کی بریگزٹ ڈیل کی تاریخ میں توسیع کی درخواست قبول کرلی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ 2016 کے ریفرنڈم نے عوام نے یورپی یونین سے انخلا کے حق میں ووٹ دیا تھا تاہم تین سال گزرنے کے باوجود بریگزٹ ڈیل التوا کا شکار ہے، بریگزٹ ڈیل میں ناکامی پر سابق برطانوی وزیراعظم تھریسامے بھی مستعفی ہوگئی تھیں۔

  • بریگزٹ کی نئی تاریخ کیا ہوگی؟

    بریگزٹ کی نئی تاریخ کیا ہوگی؟

    برسلز: برطانیہ کے لیے بریگزٹ ڈیل انتہائی مہنگی پڑگئی، یورپی یونین بریگزٹ کی تاریخ بڑھانے پر غور کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ وہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کی تاریخ میں توسیع تجویز کرنے جا رہے ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا اصرار رہا ہے کہ ان کا ملک ہر صورت میں اکتیس اکتوبر کویورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا۔

    لیکن گزشتہ روز برطانوی اراکین پارلیمان نے بریگزٹ پر قانون سازی سے متعلق حکومتی کوشش مسترد کردی تھی، جس کے بعد وزیراعظم بورس جانسن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا۔

    اسی تناظر میں یورپی کونسل کے صدر نے اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں کہا کہ وہ 27 رکنی یورپی یونین سے درخواست کریں گے کہ وہ بریگزٹ کی طے شدہ تاریخ میں توسیع کر دے۔

    بریگزٹ ڈیل : یورپی یونین سے انخلا برطانوی حکومت کیلئے درد سر بن گیا

    یہ متوقع توسیع آئندہ برس جنوری کے آخر تک ہوگی۔ برطانوی میڈیا کے مطابق ایسی صورت میں برطانوی حکومت ملک میں نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔

    خیال رہے کہ گذشتہ روز برطانوی پارلیمنٹ کا ایک اور گرما گرم اجلاس ہوا جس میں برطانوی پارلیمنٹ میں وزیراعظم بورس جانسن کی یورپی یونین سے انخلا کیلئے ڈیل پر ووٹنگ ہوئی، جس کو پارلیمنٹ نے منظور کرلیا۔

    یاد رہے کہ حال ہی میں برطانوی ممبران پارلیمنٹ نے بریگزٹ ڈیل کے فیصلے میں تاخیر کے حق میں ووٹ دیا تھا جبکہ وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ بریگزٹ میں تاخیر پر یورپی یونین سے مزید کوئی بات نہیں ہوگی۔

  • برطانیہ میں بریگزٹ کے خلاف غصے کا انوکھا اظہار

    برطانیہ میں بریگزٹ کے خلاف غصے کا انوکھا اظہار

    لندن: بریگزٹ ڈیل نے جہاں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے وہیں عوام میں بھی شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ میں ایک عوامی حلقہ بریگزٹ کے حق جبکہ دوسرا خلاف ہے، یہ برطانوی کسان بھی مخالفین میں شامل ہے جس نے بریگزٹ کے خلاف احتجاج کے لیے انوکھا انداز اپنایا۔

    برطانیہ میں بریگزٹ کے خلاف غصے کا انوکھا اظہار کرتے ہوئے ولسٹر شائر کائونٹی کے کسان نے ٹریکٹر سے کھیت کی کھدائی کرتے ہوئے برطانیہ کے حق میں عبارات لکھ کر سب کو حیران کردیا۔

    کسان نے کھدائی کرتے ہوئے پچیس ہزار اسکوائر میٹر پر پھلے کھیت پر ’’برٹن نائو وانٹس ٹو ریمین‘‘ یعنی برطانیہ یورپی یونیئن کے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہے لکھ کر سب کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردیا۔

    اس تحریر کی حمایت میں ہزاروں لوگوں نے لندن کی سڑکوں پر بھی احتجاج کیا۔

    ادھر بریگزٹ برطانیہ کے لیے گلے کی ہڈی بن گیا ہے، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بریگزٹ میں تاخیر کے لیے یورپی یونین کو تحریری طور پر درخواست بھیج دی ہے۔

    بریگزٹ برطانیہ کے لیے گلے کی ہڈی بن گیا

    خیال رہے کہ اس سے پہلے پارلیمان میں یورپی یونین سے انخلا میں توسیع کے حق میں قرارداد کی منظوری دی تھی تاہم وزیراعظم کی اس درخواست پر ان کے دستخط نہیں ہیں۔

    واضح رہے کہ گذشتہ دنوں برطانوی ممبران پارلیمنٹ نے بریگزٹ ڈیل کے فیصلے میں تاخیر کے حق میں ووٹ دیا تھا، جبکہ وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ بریگزٹ میں تاخیر پر یورپی یونین سے مزید کوئی بات نہیں ہوگی۔

  • برطانوی وزیراعظم کے یورپی یونین کو لکھے گئے تین متضاد خطوط

    برطانوی وزیراعظم کے یورپی یونین کو لکھے گئے تین متضاد خطوط

    لندن: برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے بریگزٹ ڈیل پر یورپی یونین کو لکھے گئے 3 متضاد خطوط سامنے آگئے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بریگزٹ ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیے یورپی یونین کو ایک ساتھ ہی تین متضاد خطوط ارسال کیے ہیں جن میں سے ایک ڈیل کی حمایت، دوسرا مخالفت اور تیسرا غیر دستخط شدہ ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن تاحال بریگزٹ ڈیل سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما نہیں ہوسکے ہیں، اپوزیشن ارکان کی مخالفت اپنی جگہ خود وزیراعظم کی کابینہ کے ارکان بھی بورس جانسن کے ہاتھ مضبوط کرتے نظر نہیں آرہے۔

    بورس جانسن برطابوی پارلیمنٹ سے بریگزٹ ڈیل منظور کرانے میں ناکام ہیں تاہم انہوں نے یورپی یونین کو ایک ساتھ 3 خطوط ارسال کیے ہیں جن میں سے ایک غیر دستخط شدہ اور بریگزٹ ڈیڈ لائن میں توسیع سے متعلق ہے۔

    دوسرا قانوناً توسیع کی درخواست کرنے اور تیسرا اس کی مخالفت میں ہے، اس طرح گیند اب یورپی یونین کی کورٹ میں ہے۔

    بریگزٹ ڈیل : برطانوی ممبران پارلیمنٹ نے فیصلے میں تاخیر کے حق میں ووٹ دے دیا

    خیال رہے کہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت برطانیہ نے 31 اکتوبر کو یونین سے علیحدہ ہونا ہے اور بورس جانسن برطانوی پارلیمنٹ کے برخلاف اس تاریخ میں توسیع کے خواہ نہیں ہیں۔

    وزیراعظم جانسن کے بقول بریگزٹ کی مدت میں توسیع برطانیہ اور اس کے یورپی پارٹنر ممالک کے مفاد میں نہیں ہو گی۔

    ادھر یورپی یونین کی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے وزیراعظم بورس جانسن کا خط موصول ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کے رہنماﺅں سے خط کے مندرجات پر مشاورت کی جائے گی اور متفقہ طور پر کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جائے گی جس میں انخلا کی طے شدہ تاریخ 31 اکتوبر میں توسیع بھی شامل ہے۔